شاخوں سے ٹوٹ جائیں وہ پتے نہیں ہیں ہم
آندھی سے کوئی کہہ دے کہ اوقات میں رہے
رہے سے ر
رفتہ رفتہ تھم گیا مانوس آوازوں کا شور
دل میں یادیں, ڈائری میں فون نمبر رہ گئے
شاخوں سے ٹوٹ جائیں وہ پتے نہیں ہیں ہم
آندھی سے کوئی کہہ دے کہ اوقات میں رہے
نہ ہم سفر نہ کسی ہم نشیں سے نکلے گا
ہمارے پاؤں کا کانٹا ہمیں سے نکلے گا
اس کی یاد آئی ہے سانسو ذرا آہستہ چلو
دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے
Mein Noor Banke Zamane Mein Phail Jaunga
Tum Aftab Mein keray Nikalte Rehna.
فیصلہ جو کچھ بھی ہو منظور ہونا چاہیۓ
جنگ ہو یا عشق ہو بھرپور ہونا چاہیۓ۔
چرچے عبادتوں کے، گناہوں کے مشغلے
انسان کا مزاج بدلتا ہے دن ڈھلے
چاہئیے سے چ
چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے
بڑا میٹھا نشہ ہے اس کی باتوں میں
وقت گزرتا گیا اور ہم عادی ہوتے گئے
چہرہ دیکھیں تیرے ہونٹ اور پلکیں دیکھیں
دل پہ آنکھیں رکھیں تیری سانسیں دیکھیں
پہلے مفت میں پیاس بٹے گی
بعد میں اک اک بوند بکے گی
کتنے حسیں ہو ماشاء اللہ
تم پہ محبت خوب جچے گی
یہ ایسا رستہ ہے جس پہ ہر کوئی بارہا لڑکھڑا رہا ہے
میں پہلی ٹھوکر کے باد ہی گر سنبھل گیا تو برا لگے گا
گلے ملا تھا کبھی دکھ بھرے دسمبر سے
مرے وجود کے اندر بھی دھند چھائی تھی
جب اس کی تصویر بنایا کرتا تھا
کمرا رنگوں سے بھر جایا کرتا تھا
کسی سپاہ نے خیمے لگا دیے ہیں وہاں
جہاں پہ میں نے نشانی تری دبائی تھی
بھرے ہوئے جام پر صراحی کا سر جھکا تو برا لگے گا
جسے تیری آرزو نہیں تو اسے ملا تو برا لگے گا
گر لفظوں کی ترتیب سے بنتی شاعرییہ ایسا رستہ ہے جس پہ ہر کوئی بارہا لڑکھڑا رہا ہے
میں پہلی ٹھوکر کے باد ہی گر سنبھل گیا تو برا لگے گا
میں خوش ہوں اس کے نکالنے پر اور اتنا آگے نکل چکا ہوں
کے اب اچانک سے اس نے واپس بلا لیا تو برا لگے گا
لب و لہجہ فقط رسیلے ہیں
اندر سے لوگ بہت زہریلے ہیں
گو کہ مدت سے دور ہجراں ھےبڑا میٹھا نشہ ہے اس کی باتوں میں
وقت گزرتا گیا اور ہم عادی ہوتے گئے
کسی درخت کی حدت میں دن گزارنا ہے
کسی چراغ کی چھاؤں میں رات کرنی ہے