احمد ندیم قاسمی کا تعارف

  • Work-from-home

selfish_man

Senior Member
Oct 14, 2013
779
213
43
29
karachi
21.jpg
احمد ندیم قاسمی (20 نومبر 1916ء تا 10 جولائی 2006ء) پاکستان کے ایک معروف ادیب، شاعر، افسانہ نگار، صحافی، مدیر اور کالم نگار تھے۔ افسانہ اور شاعری میں شہرت پائی۔ ترقی پسند تحریک سے وابستہ نمایاں مصنفین شمار ہوتا تھا اور اسی وجہ سے دو مرتبہ گرفتار کیے گئے۔ قاسمی صاحب نے طویل عمر پائی اور لگ بھگ نوّے سال کی عمر میں انھوں نے پچاس سے کچھ اوپر کتابیں تصنیف کیں
پیدائشی نام
احمد شاہ
قلمی نام
عنقا
تخلص
ندیم
ولادت
نومبر 1916ء خوشاب 20
ابتدا
لاہور، پاکستان
وفات
10 جولائی 2006ء لاہور
اصناف ادب
شاعری، افسانہ
ذیلی اصناف
غزل، نظم
ادبی تحریک
ترقی پسند
تصنیف اول
پہلی نظم 1931 میں مولانا محمد علی جوہر کی وفات پر
ابتدائی حالات
احمد ندیم قاسمی مغربی پنجاب کی وادی سون سکیسر کے گاؤں انگہ ضلع خوشاب میں پیدا ہوئے۔ اصل نام احمد شاہ تھا اور اعوان برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ ندیم ان کا تخلص تھا۔
تعلیم
آپ کے والد پیر غلام نبی مرحوم اپنی عبادت، زہد تقویٰ کی وجہ سے اہل اللہ میں شمار ہوتے تھے ندیم کی ابتدائی تعلیم گاؤں میں ہوئی۔ 1920 میں انگہ کی مسجد میں قرآن مجید کا درس لیا ۔ 1923ء میں والد کے انتقال کے بعد اپنے چچا حیدر شاہ کے پاس کیمبل پور چلے گئے۔ وہاں مذہبی، عملی، اور شاعرانہ ماحول میسر آیا۔1921-25 میں گورنمنٹ مڈل اینڈ نارمل اسکول کیمبل پور (اٹک) میں تعلیم پائی۔ 1930-31 میں گورنمنٹ ہائی اسکول شیخو پورہ سے میٹرک کیا اور 1931 صادق ایجرٹن کالج بہاولپور میں داخل ہوگئے جہاں سے 1935ء میں بی۔ اے۔ کیا۔
حالات زندگی
قاسمی صاحب کی ابتدائی زندگی کافی مشکلات بھری تھی۔ جب وہ اپنے آبائی گاؤں کو خیرباد کہہ کر لاہور پہنچے تو ان کی گزر بسر کا کوئی سہارا نہ تھا۔ کئی بار فاقہ کشی کی بھی نوبت آ گئی لیکن ان کی غیرت نے کسی کو اپنے احوال سے باخبر کرنے سے انھیں باز رکھا۔ انھی دنوں ان کی ملاقات اختر شیرانی سے ہوئی۔وہ انھیں بے حد عزیز رکھنے لگے اور ان کی کافی حوصلہ افزائی بھی کی۔ قاسمی صاحب اختر شیرانی کی شاعری کے گرویدہ تو پہلے ہی سے تھے ان کے مشفقانہ رویے نے قاسمی صاحب کو ان سے شخصی طور پر بھی بہت قریب کر دیا۔ اختر شیرانی رند بلانوش تھے لیکن ان کے ساتھ خاصا وقت گزارنے کے باوجود قاسمی صاحب نے کبھی شراب کو ہاتھ نہیں لگایا اور نہ ان کی طبیعت میں لاابالی پن آیا۔ اس سے ان کے مزاج کی استقامت اور اپنے آپ پر قابو رکھنے کی ان کی غیر معمولی صلاحیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اختر شیرانی کی شاعری اور شخصیت سے قاسمی صاحب کا لگاؤ آخر تک رہا .
انھی دنوں احمد ندیم قاسمی کی ملاقات امتیاز علی تاج سے ہوئی جنھوں نے انھیں اپنے ماہانہ رسالے ’’پھول‘‘ کی ادارت کی پیش کش کی جو انھوں نے قبول کر لی۔ ’’پھول‘‘ بچوں کا رسالہ تھا۔ اس کی ایک سالہ ادارت کے زمانے میں قاسمی صاحب نے بچوں کے لیے بہت سی نظمیں لکھیں جو بچوں میں بہت پسند کی گئیں ۔
ملازمت
1936 میں ریفارمزکمشنر لاہور کے دفتر میں بیس روپے ماہوار پر محرر کی حیثیت سے ملازم ہوئے اور 1937تک یہیں کام کرتے رہے۔ 1939-41 کے دوران ایکسائز سب انسپکٹر کے طور پر ملازمت کی ۔
1939ء میں محکمہ آبکاری میں ملازم ہوگئے۔ 1942 میں مستعفی ہو کر لاہور چلے آئے۔ تہذیب نسواں اور پھول کی ادارت سنبھالی 1943ء میں (ادب لطیف) کے ایڈیٹر مقرر ہوئے 1945-48 میں ریڈیوپشاور سے بحیثیت اسکرپٹ رائٹر وابستہ رہے تقسیم کے بعد ڈیڑھ سال ریڈیو پشاور میں ملازم رہے۔
شہرت
قاسمی صاحب کی شاعری کی ابتدا 1931 میں ہوئی تھی جب مولانا محمد علی جوہر کے انتقال پر ان کی پہلی نظم روزنامہ ’’سیاست‘‘ لاہور کے سرورق پر شائع ہوئی اور یہ ان کے لیے بہت بڑا اعزاز تھا۔ یہی نہیں بعد میں بھی 1934 اور 1937 کے دوران ان کی متعدد نظمیں روزنامہ ’’انقلاب‘‘ لاہور اور ’’زمیندار‘‘ لاہور کے سرورق پر شائع ہوتی رہیں اور اس سے انھیں عالمِ نوجوانی میں ہی غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی ۔
صحافتی سرگرمیاں
1941-45 میں ہفت روزہ’پھول‘
’تہذیبِ نسواں‘ 1943-45
ماہنامہ ادبِ لطیف
1947-48 میں ماہنامہ سویرا (چار شماروں
1950 میں ماہنامہ ’’سحر‘‘ لاہور (ایک شمارہ
1953-59 میں روزنامہ ’’امروز‘‘ لاہور کی ادارت
1964 سے ماہنامہ ’’فنون‘‘کی ادارت
1952 میں روزنامہ ’امروز‘ لاہور میں کالم ’’حرف و حکایت‘‘ لکھتے رہے
روزنامہ ’امروز‘ لاہوراخبارکے ایڈیٹربن جانے پر کالم ’’پنج دریا‘‘ بھی لکھتے رہے۔
1959 میں امروز سے الگ ہونےپر روزنامہ ’’ہلالِ پاکستان‘‘ میں ’’موج در موج‘‘ اور ’پنج دریا‘ کے نام سے فکاہیہ کالم نویسی۔
1964-70 میں روزنامہ ’’امروز‘‘ لاہور میں کالم ’’حرف و حکایت‘‘ کی شروعات کی مگر پنج دریا کے بجائے نام ’’عنقا‘‘ رکھ لیا۔
1970 کے دوران روزنامہ ’’جنگ‘‘ کراچی میں کالم ’’لاہور۔ ۔ ۔ لاہور ہے۔‘‘
پھر جنگ کو چھوڑ کر روزنامہ ’’حریت‘‘ کراچی میں فکاہیہ کالم ’’موج در موج‘‘ اور ہفتہ وار کالم ’’لاہوریات‘‘ پیش کرتےرہے۔
اپریل 1972 میں دوبارہ امروز میں وہی کالم لکھنے لگے۔
1964 سے امروز لاہور میں ادبی، علمی اور تہذیبی موضوعات پر ہر ہفتے مضامین لکھتے رہے۔
ہاجرہ مسرور سے مل کر (نقوش) کی ادارت سنبھالی اور امروز سے بھی وابستہ رہے۔ حرف و حکایت والا کالم عنقا کے قلمی نام سے لکھتے رہے ہیں۔
فنون) ادبی پرچہ ان کے زیر نگرانی نکل رہا تھا ۔
بے شمار کتب لیکن اور ادب کی ہر صنف میں طبع آزمائی کی۔ افسانے اور غزل کے حوالے بہت شہرت حاصل کی۔
ادبی کارہائے نمایاں
پہلا شعر: 1926-27 میں پہلا شعرکہا۔ پہلی مطبوعہ تخلیقات:پہلی نظم 1931 میں مولانا محمد علی جوہر کی وفات پرکہی جو روز نامہ ’سیاست‘ لاہور میں چھپی۔ پہلا شعری مجموعہ 1942 میں اردو اکیڈمی لاہور سے اور پہلا افسانوی مجموعہ 1939 میں شائع ہوا۔
انجمن ترقی پسند
1936 میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے قیام کے بعد قاسمی صاحب نے اس انجمن سے وابستگی اختیار کر لی تھی۔ وہ انجمن کے سکریٹری بھی رہے لیکن آگے چل کر جب انجمن نظریاتی تشدد پسندی کا شکار ہوئی تو قاسمی صاحب نے اس کی سرگرمیوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔
اعزازات و انعامات
آدم جی ادبی ایوارڈبرائے دشتِ وفا (شاعری۔1963
آدم جی ادبی ایوارڈ برائے محیط (شاعری۔ 1976
آدم جی ادبی ایوارڈ برائے دوام (شاعری۔ 1979
پرائیڈ آف پرفارمنس حکومتِ پاکستان کا اعلیٰ سول اعزاز (1968
ستارۂ امتیاز حکومتِ پاکستان کا اعلیٰ ترین سول اعزاز (1980
عالمی فروغِ اردو ادب، دوحہ قطر۔
وفات
احمد ندیم قاسمی 10 جولائی 2006ء کو مختصر علالت کے بعد حرکت قلب بند ہونے سے قریبا 90 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ہفتہ 8 جولائی 2006ء کو انہیں سانس کی تکلیف کے بعد لاہور کے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں داخل کروایا گیا جہاں انہیں عارضی تنفس فراہم کیا گیا اور پیر 10 جولائی 2006ء کی صبح کو انتقال ہو گیا۔
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
 
Top