افریقہ کا نرالا سفید شیر
رضوان عطا
اگر کسی کتاب یا ویب سائٹ پر سفید رنگ کے شیر کی تصویر نظر آئے تو خیال آتا ہے کہ کسی سافٹ ویئر کی مدد سے شیر کا رنگ تبدیل کر دیا گیا ہے۔ دراصل یہ شیر ج افریقہ کے جنوب میں پائے جاتے ہیں۔مغربی دنیا میں یہ شیر 1970ء کی دہائی میںکرس میک برائٹ کی کتاب ’’ٹمباواٹی کے سفید شیر‘‘ کی اشاعت کے بعد مشہور ہوئے۔ افریقہ کے جنوبی علاقوں کے بعض قبائل انہیں مقدس خیال کرتے ہیں اور آسمان سے اتری مخلوق سمجھتے ہیں۔البتہ ان کا شکار اس قدر ہوا کہ یہ ناپید ہونے کے قریب پہنچ گئے جس کے بعد ہنگامی بنیادوں پر ان کی نسل بچانے کی کوششیں شروع کر دی گئیں اور ان کے لیے جنگل میں محفوظ علاقے تشکیل دیے گئے۔ ان کی رنگت مختلف ہوتی ہے لیکن جسمانی بناوٹ دوسری اقسام کے شیروں جیسی ہی ہوتی ہے۔ ان شیروں کی عمر تقریباً 18برس ہوتی ہے۔ یہ چھوٹے پرندے، رینگنے والے جانور اور چوپائے کھاتے ہیں۔ انسانی شکار کی وجہ سے جنگلوں میں یہ چند ہی باقی رہ گئے ہیں تاہم محفوظ علاقوں اور چڑیا گھروں میں ان کی تعداد سیکڑوں میں ہے۔ ان کے سفید رنگ کا سبب ان کے مخصوص جینز ہیں۔ ان کی آنکھیں نیلی یا سنہری ہوتی ہیں، ناک اور آنکھوں پر کالی دھاریاں بھی ہوتی ہیں۔ کان کے پیچھے کالے دھبے ہوتے ہیں۔ یہ بڑی گھاس کے میدانوں، کم گھنے جنگلات اور صحرائی علاقوں میں رہتے ہیں ۔ گوشت خور سفید شیر جن جانوروں کو اپنی غذا بناتے ہیں ان میں غزال، زیبرا، بھینس، جنگلی ہارس، کچھوا اور افریقی ہرن شامل ہیں۔ ان کے دانت تیز اور جبڑے مضبوط ہوتے ہیں۔ انہی کی مدد سے یہ حملہ کر کے اپنے شکار کو مار ڈالتے ہیں۔ ان کا حملہ آور ہونے کا طریقہ بھی دوسرے شیروں جیسا ہے۔ یہ خاموشی سے اپنے شکار کا انتظار کرتے ہیں اور قریب آنے پر حملہ کر دیتے ہیں۔ یہ عموماً گلہ کاٹ یا دبا کر اپنے شکار کو مارتے ہیںاور مارنے والی جگہ پر ہی اس کا گوشت کھاتے ہیں۔ سفید شیر کے بچے تین سے چار برس میں بالغ ہو جاتے ہیں۔ پیدائش کے وقت بچوں میں دیکھنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ یہ اپنی زندگی کے دو برس ماں کے سہارے گزارتے ہیں۔ مادہ ایک وقت میں دو سے چار بچوں کو جنم دیتی ہے۔ سفید رنگ کے باعث یہ خیال کیا جاتا ہے کہ انہیں شکار کرنے یا دشمن سے چھپنے میں مشکل ہوتی ہوگی۔ تاہم ایک تحقیق اس کی نفی کرتی ہے۔ یہ شیر اپنے ماحول میں رچے بسے ہیں۔ کینیا اور بوٹسوانا جیسے ممالک میں سفید شیر قیادت، فخر اور وقار کی علامت ہیں اور انہیں قومی اثاثہ سمجھا جاتا ہے۔
رضوان عطا
اگر کسی کتاب یا ویب سائٹ پر سفید رنگ کے شیر کی تصویر نظر آئے تو خیال آتا ہے کہ کسی سافٹ ویئر کی مدد سے شیر کا رنگ تبدیل کر دیا گیا ہے۔ دراصل یہ شیر ج افریقہ کے جنوب میں پائے جاتے ہیں۔مغربی دنیا میں یہ شیر 1970ء کی دہائی میںکرس میک برائٹ کی کتاب ’’ٹمباواٹی کے سفید شیر‘‘ کی اشاعت کے بعد مشہور ہوئے۔ افریقہ کے جنوبی علاقوں کے بعض قبائل انہیں مقدس خیال کرتے ہیں اور آسمان سے اتری مخلوق سمجھتے ہیں۔البتہ ان کا شکار اس قدر ہوا کہ یہ ناپید ہونے کے قریب پہنچ گئے جس کے بعد ہنگامی بنیادوں پر ان کی نسل بچانے کی کوششیں شروع کر دی گئیں اور ان کے لیے جنگل میں محفوظ علاقے تشکیل دیے گئے۔ ان کی رنگت مختلف ہوتی ہے لیکن جسمانی بناوٹ دوسری اقسام کے شیروں جیسی ہی ہوتی ہے۔ ان شیروں کی عمر تقریباً 18برس ہوتی ہے۔ یہ چھوٹے پرندے، رینگنے والے جانور اور چوپائے کھاتے ہیں۔ انسانی شکار کی وجہ سے جنگلوں میں یہ چند ہی باقی رہ گئے ہیں تاہم محفوظ علاقوں اور چڑیا گھروں میں ان کی تعداد سیکڑوں میں ہے۔ ان کے سفید رنگ کا سبب ان کے مخصوص جینز ہیں۔ ان کی آنکھیں نیلی یا سنہری ہوتی ہیں، ناک اور آنکھوں پر کالی دھاریاں بھی ہوتی ہیں۔ کان کے پیچھے کالے دھبے ہوتے ہیں۔ یہ بڑی گھاس کے میدانوں، کم گھنے جنگلات اور صحرائی علاقوں میں رہتے ہیں ۔ گوشت خور سفید شیر جن جانوروں کو اپنی غذا بناتے ہیں ان میں غزال، زیبرا، بھینس، جنگلی ہارس، کچھوا اور افریقی ہرن شامل ہیں۔ ان کے دانت تیز اور جبڑے مضبوط ہوتے ہیں۔ انہی کی مدد سے یہ حملہ کر کے اپنے شکار کو مار ڈالتے ہیں۔ ان کا حملہ آور ہونے کا طریقہ بھی دوسرے شیروں جیسا ہے۔ یہ خاموشی سے اپنے شکار کا انتظار کرتے ہیں اور قریب آنے پر حملہ کر دیتے ہیں۔ یہ عموماً گلہ کاٹ یا دبا کر اپنے شکار کو مارتے ہیںاور مارنے والی جگہ پر ہی اس کا گوشت کھاتے ہیں۔ سفید شیر کے بچے تین سے چار برس میں بالغ ہو جاتے ہیں۔ پیدائش کے وقت بچوں میں دیکھنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ یہ اپنی زندگی کے دو برس ماں کے سہارے گزارتے ہیں۔ مادہ ایک وقت میں دو سے چار بچوں کو جنم دیتی ہے۔ سفید رنگ کے باعث یہ خیال کیا جاتا ہے کہ انہیں شکار کرنے یا دشمن سے چھپنے میں مشکل ہوتی ہوگی۔ تاہم ایک تحقیق اس کی نفی کرتی ہے۔ یہ شیر اپنے ماحول میں رچے بسے ہیں۔ کینیا اور بوٹسوانا جیسے ممالک میں سفید شیر قیادت، فخر اور وقار کی علامت ہیں اور انہیں قومی اثاثہ سمجھا جاتا ہے۔