Khushi Tere Ander Hai Dost

  • Work-from-home

ROHAAN

TM Star
Aug 14, 2016
1,795
929
613
7.jpg

میں گرِل پر ہاتھ ٹکاکر کھڑا تھا ۔استنبول شہر پر رات کی تاریکی نے اپنے پر پھیلادیئے تھے۔میرے سامنے گہرا تاریک پانی تھا۔بوٹ کشتی( Ferry) پانی کے سینے کو چیرتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھی ۔اِردگرد کی عمارتیں برقی قمقموں سے جگمگارہی تھیں جس نے ماحول کو سحر زدہ کردیا تھا۔یہ باسفورس کا آبنائے تھا جو ترکی کو ایک طرف ایشیاء تو دوسری طرف یورپ میں دھکیل رہا تھا ۔ٹھنڈی ہوا کے ایک جھونکے نے مجھے سر سے پائوں تک گدگدایا تو میں جیکٹ لینے اپنی ٹیبل پرگیا۔بوٹ کشتی کا نچلا ہال سیاحوں سے بھرا ہوا تھا جو اس یاد گار سفر سے لطف اندوز ہونے کے لیے دنیا بھر سے آئے ہوئے تھے۔کھانا پینا،گپ شپ، برتنوں کی کھنک اورہر طرف قہقہے گونج رہے تھے مگر ان سب میں ایک شخص ایسا بھی تھا جو اس ماحول کا لگ ہی نہیں رہا تھا،جس کے چہرے پر کوئی خوشی نہیں تھی ۔یہ میرا دوست تھا ۔اپنے شہر کا ایک معروف بزنس مین۔جس کے گھر میں پیسوں کی ریل پیل تھی ،گیراج میں امپورٹڈ گاڑیاں اور زندگی کی ہر قسم کی آسائشات سے بھرپور، مگر نہ جانے کیوں خوشی اس سے روٹھ چکی تھی۔میں نے ہولے سے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اوراس کو لے کر اوپر ٹیرس پر آیا۔موسم ٹھنڈا مگر خوشگوار تھا ،میں نے مسکراکر اپنے دوست کی طرف دیکھا مگر اس کے چہرے پر موجود بیزاری میں ذرہ برابر کمی نہیں آئی تھی۔بالآخر وہ بولا:
’’شاہ جی ! دنیا بھر کے لوگ یہاں سکون کی تلاش میں آئے ہوئے ہیں ۔سب کتنے خوش لگ رہے ہیں۔میرے پاس کسی چیز کی کمی نہیں مگر سکون نہیں ہے ۔آخر یہ سکون ہے کیا چیز ؟‘‘
میں نے سر کے اوپر باسفورس پل کی طرف دیکھا جس کے نیچے ہماری بوٹ کشتی گزررہی تھی ۔ تازہ ہوامیں ایک لمبا سانس بھرتے ہوئے میں بولا:
’’دیکھو بھائی!ہر انسان میں اللہ نے کچھ قوتیں ایسی رکھی ہیں جنہیں اگر توازن اور اعتدال کے ساتھ استعمال کیا ئے تووہ انسان کو بھرپور فائدہ دیتی ہیں لیکن اگر ان میں اعتدال نہ ہو تو پھر انسان ذہنی طورپر بیمار ہوجاتا ہے، جس کو وہ بے سکونی کا نام دیتا ہے۔یہ بے سکونی اس قدر موثر ہوتی ہے کہ اس کو ختم کرنے کے لیے وہ ہر ممکن راستہ اپنا تا ہے لیکن یہ تب تک ختم نہیں ہوسکتی جب تک کہ اس کا اصلی سبب دریافت نہ کیا جائے۔پہلی قوت عقل ہے ۔یہ اگر اعتدال میں رہے تو علم و حکمت اور حسن تدبیر جیسی صفات انسان میں پیدا ہوتی ہیں۔ضرورت سے زیادہ ہوجائے تویہ انسان کو لالچی،مکار اور اگر ضرورت سے کم ہو تو بے وقوف بنادیتی ہے۔دوسری قوت غصہ ہے ۔یہ اعتدال میں رہے تو انسان خوش مزاج اور تحمل والاہوتا ہے ۔ضرورت سے زیادہ ہوتو ظالم اور سنگ دِل بن جاتا ہے اورضرورت سے کم ہو تو خوشامداور بزدِل بن جاتا ہے۔
تیسری قوت شہوت ہے جو اعتدال میں رہے تو انسان باحیااور باوقار ہوتا ہے۔ضرورت سے زیادہ ہو تو بے حیائی اور فحاشی کی طرف مائل ہوتا ہے اور ضرورت سے کم ہو تو بھی انسان پر انگلیاں اٹھتی ہیں۔ان تمام قوتوں کے ساتھ ساتھ ایک قوت روحانی بھی ہے ۔جب بھی اس کو نظر انداز کیا جاتا ہے تو پھر بے سکونی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔سکون درا صل اس کیفیت کا نام ہے جو انسان کو خوشی یا غم سے اتنا متاثر نہ ہونے دے کہ اس کے اخلاق و کردار اور اطوار میں کوئی نمایاں تبدیلی آئے۔‘‘
’’مگر یہ سکون ملتا کہا ں سے ہے؟‘‘میرے دوست نے لاچارگی سے پوچھا۔
میں مسکرایا:’’بے سکونی ایک روحانی مرض ہے۔اس لیے اس کا علاج نہ دوائی سے ہے اور نہ ہی پیسوں سے ،بلکہ بہترین صورت تو وہی ہے جوسورہ الرعد کی آیت نمبر 28میں اللہ نے بیان کیا ہے کہ ’’اللہ کی یاد ہی سے دِل تسکین پاتے ہیں‘‘۔
آپ کے علم میں ہوگا کہ یورپ و امریکہ میں پالتو جانورسب سے زیادہ پائے جاتے ہیں۔ہر دوسرے شخص کے پا س کتا،بلی یا کوئی دوسرا جانور ہوتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک بہترین کمپنی(صحبت) ہے۔وہاں مادیت کا اس قدردور دورہ ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کو وقت دینے کے بجائے ڈالرز یا پونڈ کمانا زیادہ بہتر سمجھتا ہے ، اگر کوئی کسی کے لیے وقت نکال بھی دے تو وہ اس قدر تابعدار نہیں ہوتا جیسے ایک کتا یا بلی ہوتا ہے۔جانور کو جب دِل کرے پاس بلائے، جب دِل کرے دور کردے ، انسان اتنا تابعدار نہیں اور اسی وجہ سے لوگوں نے اپنا کتھارسس اسی میں ڈھونڈلیا ہے۔ لیکن ہمارے پاس اس سے بڑھ کر ایک بہترین راستہ موجود ہے اور وہ رب کی چوکھٹ ہے۔انسان جب بھی بے سکونی کا شکار ہوجائے تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنا کتھارسس اپنے رب میں ڈھونڈے ۔ اپنے رب سے بات کرکے اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہو،یہی سکون پانے کا ایک بہترین عمل ہے۔اپنے مسائل کو رب کے سامنے ڈال کر اس سے التجا کرنا کہ یا باری تعالیٰ! میں نے خود کو دنیاوی مسائل سے چھڑاکر اپنے دِل کو تیری طرف متوجہ کرلیا ہے بس اب تو میرے لیے کافی ہوجا ، یقینا انسان کو مایوس نہیں کرتا اور اس کے دُکھے دِل کا مداوا ہوجاتا ہے۔
دوسرا بہترین عمل بانٹنا ہے۔اس عمل سے اسی فیصد روحانی بیماریاں ٹھیک ہوجاتی ہیں۔آج سائنس بھی اس بات کو تسلیم کرچکی ہے کہ جو لوگ انسانیت کی کسی بھی طرح خدمت کرتے ہیں ،وہ دوسرے لوگوں کی بہ نسبت زیادہ عمر پاتے ہیں اور بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں۔اللہ کا قانون ایسا ہے کہ یہاں جو کوئی بھی اس کی راہ میں کچھ بانٹتا ہے تواس کو ایک کا بدلہ دس سے ملتاہے۔بانٹنے کے عمل میں تاثیر اس لیے زیادہ ہے کہ ہر انسان کا نفس مال و دولت اور راحت کو چاہتا ہے لیکن جب انسان بانٹنا شروع کرتا ہے تو نہ صرف اس کا نفس قابو میں آتاہے بلکہ اس کو دوسروں کے دُکھ درد کا بھی احساس ہوجاتا ہے اور یہ بات یقینی ہے کہ جس دِل میں سخاوت ہو اس میں بخل نہیں آسکتا۔اس کا اللہ کی ذات پر یقین بڑھ جاتا ہے اور اسی کے بدلے میں اللہ اس کو سکون و اطمینان کی دولت سے نوازدیتا ہے۔ ضروری نہیں کہ انسان کے پاس مال و دولت ہو تو ہی وہ بانٹے بلکہ آپ کسی کو خوشی دے سکتے ہیں ، کسی کا دردِ دِل سن کر دلاسہ دے سکتے ہیں ، کسی کی حوصلہ افزائی کرسکتے ہیں اور کسی کو یقین کی دولت سے بھی مالا مال کرسکتے ہیں۔‘‘
میرے دوست کا موڈ کچھ کچھ بہتر ہوتا جارہا تھا ۔’’شاہ جی !لطف ، خوشی اور سکون کیا ایک ہی چیزکے نام ہیں؟‘‘
ایک ویٹر ہماری طرف آیا او ر ہمیں کافی پیش کی ۔میں نے شکریہ اداکرتے ہوئے ایک کپ اٹھایااور بولا:’’میرے دوست!ان میں کافی فرق ہے۔خوشی وہ ہوتی ہے جس کی یاد کل بھی آپ کو خوش کردے ،جبکہ لطف وسرور وقتی ہوتا ہے اور اکثر ان کی یاد پچھتاوا بن جاتا ہے۔ہر وہ مزہ جو بعد میں پچھتا وا بنے ، وہ آپ کو سکون کبھی نہیں دے سکتا۔دین بھی لطف و سرور کے بجائے سکون اور حقیقی خوشی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
امریکہ کا ایک مشہورسماجی شخص کہتا ہے کہ جس وقت میں چھوٹا تھا تو کلاس میں ٹیچر نے مجھ سے پوچھا کہ کل تم کیا ہوگے ؟ میں نے کہا : میں خوش ہوں گا ۔ٹیچر نے کہا: لگتا ہے آپ کو میرا سوال سمجھ نہیں آیا ۔میں نے کہا:’’سر! لگتا ہے آپ کو میرا جواب سمجھ نہیں آیا‘‘۔
اگریہ سوال پوچھا جائے کہ دنیا کی سب سے بڑی اچیومنٹ کیاہے تو اس کا جواب ہوگا خوشی اورسکون ۔ خوشی کو اگرہم باہرتلاش کرنا چاہیں تو ناکام ہوں گے کیونکہ خوشی ہمارے اندر ہوتی ہے ۔انسان کے من میں پنپنے والے خیالات ایسے ہیں جو اس کے حالات بناتے ہیں۔رونڈا بائرن کہتی ہے : ’’انسان اپنی زندگی کو جنت میں بدل سکتا ہے مگر اس کا فقط ایک ہی راستہ ہے کہ پہلے آپ اپنے اندر جنت بسالیں‘‘۔خیالات کے انتخاب کا مکمل اختیار ہمارے پاس ہوتا ہے ۔خوشی ، سکون ، یا مایوسی وپریشانی ،سب ہمارے دِل کے شو پیس میں سجے ہوتے ہیں ، انہیں بس نکالنے کی دیر ہوتی ہے اورپھر وہ انسان کو اپنے مرضی پر چلاتے ہیں۔آزمائش بھرے حالات ہی کیوں نہ ہوں اگر ہم اندر سے شکر گزار ہوں تو باہر کے حالات ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔‘‘
’’لیکن شاہ جی! قسمت بھی تو انسان کو مارسکتی ہے۔بدقسمتی بھی تو انسان کو ہراسکتی ہے ۔پھر اس کا کیا کیا جائے ؟‘‘میرا دوست جو قسمت سے کافی بدظن لگ رہا تھا،نے ایک اور سوال پوچھا۔
’’ بھائی! بات یہ ہے کہ یہاں موجود کوئی بھی انسان بدقسمت نہیں ہے، بس یہ اس کی غلط فہمی ہے جس کی وجہ سے اس کو اپنی قسمت محدود نظر آتی ہے۔ انسان کی پیدائش جن سپرمز سے ہوتی ہے،ان کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے اور وہ سب ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اپنی منزل کی طر ف دوڑ رہے ہوتے ہیں ،جو سب سے پہلے پہنچ جائے وہ کامیاب ٹھہرتا ہے ،اسی سے ایک انسان کے بننے کا آغاز ہوتا ہے اور ایک مخصوص وقت ماں کے پیٹ میں رہنے کے بعد ایک خوبصور ت انسان وجود میں آتا ہے۔میڈیکل سائنس کے اعتبار سے انسان کا دنیا میں آنا ہی اس کی کامیابی کی دلیل ہے۔جب اس کا آغاز ہی ’’کامیابی‘‘ سے ہوا ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ بدقسمت ہو!!یہ مشکلات ، یہ ناکامیاں اصل میں سپیڈ بریکر ز ہیں جو ہمیں چوکنا رکھتے ہیں،ہمیں جگائے رکھتے ہیں تاکہ کہیں سفر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ہماری آنکھ نہ لگ جائے اور ہم کسی بڑے ایکسیڈنٹ کا شکار نہ ہوجائیں۔‘‘
میری باتوں سے اس کی اچھی خاصی تشفی ہوچکی تھی ، اس نے دلچسپی سے ایک اور سوال پوچھا۔’’تو کیا ہم اپنے ہاتھوں اپنی قسمت بناسکتے ہیں؟‘‘
ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا مجھ سے ٹھکرایا اور ایک لمحے کے لیے میرے سارے وجود کوکپکپایا ، میں نے جلدی سے گرم کافی کا ایک گھونٹ بھراجس نے ٹھنڈے موسم کے لطف کو دوبالا کردیا۔دوسرا گھونٹ بھرنے کے بعد میں نے اپنا سلسلہ کلام جوڑا:
’’بالکل بناسکتے ہیں، مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اکثر لوگ ’’تقدیر مبرم‘‘ کو ڈسکس کرتے رہتے ہیں لیکن جو تقدیر بدلی جاسکتی ہے اس کے بارے میں بات نہیں کرتے۔’’تقدیرمبرم ‘‘ایک اٹل تقدیر ہے۔ہم کہا ں پیدا ہوئے، کہاں مرنا ہے، کتنا رزق کھانا ہے ، کس کے گھر پیدا ہونا ہے، والدین اور بہن بھائی کون ہیں،جسمانی ساخت ، قد کاٹھ اور رنگ کیسا ہے ؟یہ تمام وہ چیزیں ہیں جو ہمارے اختیار سے باہر ہیں اور ہم چاہ کر بھی انہیں تبدیل نہیں کرسکتے۔ اس لیے یہ چیزیں جیسی ہیں انہیں قبول کرلینا او ر بہترین انداز میں مینج کرلینا چاہیے۔رہا آپ کا سوال کہ اپنے ہاتھوں ہم اپنی قسمت کیسے بناسکتے ہیں تو بھائی ! اس تقدیر کے علاوہ بھی ایک تقدیر ہے جس کو’’تقدیر معلق‘‘کہا جاتا ہے۔
یہ تقدیر انسان کے اخلاق ، اعمال اور اس کی محنت پر منحصر ہوتی ہے ۔قانون فطرت یہی ہے کہ انسان کو اس کی محنت کا ثمر ضرور ملتا ہے ۔مکلف (پابند)ہونے کے ساتھ ساتھ انسان کو اختیار بھی دیا گیا ہے ۔ سوچنے ،غور و فکر کرنے اور اپنے ہاتھ پائوں کے مفید استعمال کا اختیار ۔اور اسی کی بدولت وہ اپنی تقدیر خود بدل سکتا ہے۔بل گیٹس نے ایک بات بڑی بہترین کہی ہے کہ تم غریب پیدا ہوئے اس میں تمہاراقصور نہیں ، لیکن اگر غریب مرگئے تو سارا قصور تمہارا ہے۔ہم غلطی یہ کرتے ہیں کہ جو چیزیں بدلنی نہیں ہم ان کا رونالے کر بیٹھ جاتے ہیں اور جس گرائونڈ میں ہمیں ہر طرح سے کھیلنے کا اختیار ہے اس کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ہر وہ انسان جو تقدیر کو محدود سمجھ لیتا ہے اس کی ہمت اور حوصلہ بھی جواب دے دیتا ہے لیکن جو اپنے دِل کی آنکھ سے دیکھنا شروع کرلیتا ہے تو اس کو معلوم ہوجا تا ہے کہ وہ تو سر سے پائوں تک اللہ کی رحمت میں ہے۔یہ رحمت اس کو امید دِلاتی ہے ۔اپنی امید پر یقین ہو تو سامنے کتنا ہی بڑا پہاڑکیوں نہ ہو ، انسان کے پائوں کے نیچے آجاتا ہے۔
میرے بھائی! ہم اپنی عادت بدل لیں تو تقدیر بدل جاتی ہے۔سوچ بدلنے سے ہماری تقدیر پلٹ سکتی ہے۔ہم اچھی صحبت میں بیٹھنا شروع کرلیں تو ہمارے اچھے دِن شروع ہوسکتے ہیں۔ہم کتاب کو دوست بنالیں تو انقلاب آسکتا ہے۔ہم کسی سے دُعا لے لیں ،کسی مردمومن کی نگاہ ہم پر پڑ جائے توتقدیر بدلنے میں دیر نہیں لگتی۔‘‘
آخری گھونٹ بھر کر میں نے اپنی کافی ختم کی۔میرے دوست کے چہرے پر بشاشت کی لہریں آگئی تھیں ۔استنبول کی ہوا میں خنکی بڑھ چکی تھی اور اب مزید ٹیرس پر رہنا مشکل لگ رہاتھا ، اس لیے ہم واپس ہال کی طرف آئے ۔میرا دوست اپنے گروپ کے ساتھیوں سے گھل مل گیا،گپ شپ ، کھانا پینا شروع ہوگیا اور کچھ ہی دیر میں قہقہے گونجنے لگے۔ اب ہال میں کوئی اداس اور پریشان چہرے والاانسان نہیں رہا تھا۔اس کو ہم آبنائے باسفورس میں چھوڑ آئے تھے۔
 
Top