جبل رحمت ‘ میدان عرفات ‘مسجد نمرہ‘‘کہاں واقع ہیں‘ منسوبیت کس سے ہے؟

  • Work-from-home

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913

جبل رحمت ‘ میدان عرفات ‘مسجد نمرہ‘‘کہاں واقع ہیں‘ منسوبیت کس سے ہے؟

اس پر آراء ہیں

کتاب المطلع على ألفاظ المقنع از البعلي کے مطابق
، وسمي عرفات؛ لأن جبريل عليه السلام كان يري إبراهيم عليه السلام، المناسك، فيقول: عَرَفْتَ عَرَفْتُ
عرفات کہا جاتا ہے کیونکہ جبریل نے ابراہیم کو مناسک بتائے اور ابراہیم نے کہا جان گیا جان گیا
اس کی سند ہی نہیں

دوسرا قول ہے
الواحدي عن عطاء ، وقيل: لأن آدم عليه السلام، تعارف هو وحواء عليها السلام بها. وكان آدم أهبط بالهند، وحواء بجدة،
الواحدی نے عطاء بن دينار الهذلي سے نقل کیا کہ کہا جاتا ہے یہان آدم و حوا نے ایک دوسرے کو پہچانا کیونکہ آدم ہند میں تھے اور حوا جدہ میں
یہ قول ضعیف ہے

عرفات اغلبا ابراہیم علیہ السلام کی زبان کا لفظ ہے یہ لفظ عربی نہیں ہے کیونکہ اسم پر الف لام ہونا چاہیے دوم وہ الفاظ جو ت پر ختم ہوتے ہیں وہ عربی نہیں ہوتے مثلا طاغوت یا جالوت یا تابوت یہ سریانی کے الفاظ ہیں
—————–
كتاب العين از الفراهيدي البصري (المتوفى: 170هـ) کے مطابق
إِلالٌ: جبل بمكة هو جبل عرفات

جبل رحمت دور جدید کا لفظ ہے اس کو جبل عرفات یا جبل الال کہا جاتا تھا
کتاب المحبر از ابو جعفر البغدادی کے مطابق ایام جاہلیت کا شاعر العامري کہتا ہے
فاُقسم بالذي حجتْ قريشْ … وموقف ذي الحجيج إلى إلال
اور حاجیوں کا وقوف الال پر ہے

الال عبرانی کا لفظ ہے اس کا ذکر کتاب المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام میں الدكتور جواد علي کرتے ہیں
وذكر العلماء أن لفظة “الآل” بمعنى الربوبية، واسم الله تعالى. وأن كل اسم آخره “أل” أو “إيل” فمضاف إلى الله تعالى
اور علماء نے ذکر کیا کہ لفظ الال کا مطلب ربوبیت ہے اور یہ الله کا اسم ہے ہر وہ اسم جس کا آخر ال ہو یا ایل ہو وہ الله کی طرف مضاف ہے

پھر اس کی مثال ہے
ومنه “جبرائيل” و”ميكائيل
اس میں جبریل ہے اور میکائل ہے

اسی کتاب میں جواد علی کہتے ہیں
في الأسماء الأعجمية إيل، مثل إسرافيل، وجبريل، وميكائيل، وإسرائيل، وإسماعيل”. وقيل: الإلّ: الربوبية
اور عجیب اسماء میں سے ہے ایل مثلا اسرافیل اور جبریل اور میکائیل اور اسرائیل اور اسمعیل اور کہا جاتا ہے الال یعنی ربوبیت

یہ بات قرین قیاس ہے کیونکہ جبل الال عرفات کے بیچ میں ہے اور اس کی خبر ابراہیم نے دی جو لفظ ایل بولتے تھے
الله کا لفظ عربی میں سریانی سے آیا ہے جو ابراہیم کے بعد کی زبان ہے
لہذا اس پہاڑ کا اصل نام جبل الال ہے نہ کہ جبل الرحمہ

سورہ توبہ کی آیت ٨ کی تفسیر میں مفسرین لکھتے ہیں
كَيْفَ وَإِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ لَا يَرْقُبُوا فِيكُمْ إِلًّا وَلَا ذِمَّةً يُرْضُونَكُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ وَتَأْبَى قُلُوبُهُمْ وَأَكْثَرُهُمْ فَاسِقُونَ
قال قتادة ” الإلُّ “: الله، و ” الذِّمَّةِ “: العهد.
وقال مجاهد ” الإلُّ “: الله، و ” الذِّمَّةُ “: العهد.

ابو عبید البغدادي (المتوفى: 224هـ) نے غریب الحدیث میں اس آیت کا ذکر کر کے آراء نقل کیں پھر کہا [قَالَ أَبُو عُبَيْد -] : فالإل ثَلَاثَة أَشْيَاء: اللَّه تَعَالَى والقرابة والعهد.
پس الال تین چزیں ہیں الله تعالی اور قرابت اور عہد

کتاب معجم مقاييس اللغة از أحمد بن فارس بن زكرياء القزويني الرازي، أبو الحسين (المتوفى: 395هـ) کے مطابق
قَالَ الْمُفَسِّرُونَ: الْإِلُّ: اللَّهُ جَلَّ ثَنَاؤُهُ

لیکن ابن حجر فتح الباری ج ٦ ص ٢٦٧ میں کہتے ہیں (علماء میں سے بعض اب) ایک سے زائد اس کا انکار کرتے ہیں کہ یہ الال سے مراد الله ہے
وَعَنْ مُجَاهِدٍ الْإِلُّ اللَّهُ وَأَنْكَرَهُ عَلَيْهِ غَيْرُ وَاحِدٍ

یعنی آہستہ آہستہ جب لوگوں کو احساس ہوا کہ الال عربی کا لفظ ہی نہیں تو انہوں نے اس کا انکار کر دیا کہ یہ الله کا نام ہے اور اسی طرح جبل الال کا نام بھی بدل دیا گیا جو عھد قدیم سے چلا آ رہا تھا

راقم کہتا ہے یہ غلط ہوا ابراہیم و اسمعیل کو عرب نہ کہا جائے نہ عربوں کا باپ کہا جا سکتا ہے عرب نسل ابراہیم سے پہلے سے ہے اور عربی زبان بھی ان انبیاء سے قدیم ہے لہذا جو ان انبیاء سے ملا ہے اس کو چھپانے کے بجائے ان کی عبرانییت کو قبول کیا جانا چاہیے
—————
عوام میں مشھور قول ہے
الله نے ارواح سے میثاق ازل میدان عرفات میں لیا
الله نے جو پہلی دو روحیں زمین پر ہبوط کیں وہ آدم و حوا علیھم السلام تھے ان سے قبل کوئی روح زمیں پر نہیں آئی
میثاق ازل عالم بالا میں ہوا میدان عرفات میں نہیں لہذا اس مسجد کا نام لوگوں نے رکھ دیا ہے اس کی کوئی منطقی و شرعی دلیل نہیں

صحیح بات ہے
نمرة هي في الأصل قرية كانت تقع خارج عرفات
نمرہ ایک قریہ کا نام ہے جو عرفات سے خارج ہے

ابن تیمیہ مجموع الفتاوى (26/ 129): “ونمرة كانت قرية خارجة عن عرفات من جهة اليمين
نمرہ عرفات سے خارج ایک قریہ ہے

کتاب فتح العزيز بشرح الوجيز از القزويني (المتوفى: 623هـ) کے مطابق
نمرة موضع من عرفات لكن الاكثرين نفوا كونها من عرفات (ومنهم) أبو القاسم الكرخي والقاضي الرويانى وصاحب التهذيب وقالوا انها موضع قريب من عرفة
نمرہ ایک جگہ ہے عرفات میں لیکن اکثر نے نفی کی کہ یہ عرفات میں ہے اور اس نفی میں ہیں ابو قاسم کرخی اور قاضی رویانی اور صاحب التہذیب اور کہا کہ یہ اس کے قریب ایک مقام ہے

کتاب الام میں امام الشافعی کہتے ہیں
الحج عرفة وليس منها: مسجد إبراهيم عليه السلام ولا نمرة.
حج (کا وقوف) عرفہ پر ہے اور اس میں مسجد ابراہیم اور نمرہ نہیں ہے

چھٹی صدی الروياني (ت 502 هـ) کے کتاب بحر المذهب (في فروع المذهب الشافعي) میں لکھتے ہیں
وقال بعض أصحابنا بخراسان: صدر هذا المسجد من عرنة لا يجوز الوقوف فيه ومؤخرة من عرفات
اور ہمارے خراسان کے اصحاب نے کہا مسجد نمرہ کا آگے کا حصہ میں وقوف جائز نہیں اس کا پچھلا حصہ عرفات میں ہے

مسجد نمره عرفات کے میدان کی مغربی حد پر ہے یہاں آ کر مشعر کی حدود میں اختلاف ہے لہذا بعض علماء کی رائے میں یہ مسجد عرفات میں نہیں اور حاجی کو اس میں جانا منع ہے کیونکہ اس مسجد کا ایک حصہ مشعر کی حدود سے باہر وادي عُرَنة میں ہے
جبل الال کی جڑ پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے نماز پڑھی تھی اور وہاں ہی جمع ہونا صحیح ہے
نووی مجموع میں لکھتے ہیں
==========
وقال جماعة من الخراسانيين منهم الشيخ أبو محمد الجويني والقاضي حسين في تعليقه وإمام الحرمين والرافعي: مقدم المسجد من طرف وادي عرفة لا في عرفات وآخره في عرفات. قالوا: فمن وقف في مقدمه لم يصح وقوفه، ومن وقف في آخره صح وقوفه. اهـ
اور خراسان کے علماء کی جماعت جن میں امام جوینی اور قاضی حسین ہیں اور امام حرمین اور رافعی ہیں کہتے ہیں میدان عرفات کے شروع میں اور آخر میں مسجد ہے جو شروع والی میں وقوف کرتا ہے وہ صحیح ہے اور جو آخری والی میں تو اس کا وقوف صحیح نہیں
============
لیکن جب حاجی اس مسجد میں جائے گا تو اس کو معلوم کیسے ہو گا یہ وہ عرفات کی حد سے نکل چکا ہے

نووی کتاب المجموع میں لکھتے ہیں
===========
الْمُسَمَّى مَسْجِدَ إبْرَاهِيمَ وَيُقَالُ لَهُ أَيْضًا مَسْجِدُ عُرَنَةَ بَلْ هَذِهِ الْمَوَاضِعُ خَارِجَةٌ عَنْ عَرَفَاتٍ عَلَى طَرَفِهَا الْغَرْبِيِّ مِمَّا يَلِي مُزْدَلِفَةَ وَمِنًى وَمَكَّةَ
* هَذَا الَّذِي ذَكَرْتُهُ مِنْ كَوْنِ وَادِي عُرَنَةَ لَيْسَ مِنْ عَرَفَاتٍ لَا خِلَافَ فِيهِ نَصَّ عَلَيْهِ الشَّافِعِيُّ وَاتَّفَقَ عَلَيْهِ الْأَصْحَابُ (وَأَمَّا) نَمِرَةُ فَلَيْسَتْ أَيْضًا مِنْ عَرَفَاتٍ بَلْ بِقُرْبِهَا هَذَا هُوَ الصَّوَابُ الَّذِي نَصَّ عَلَيْهِ الشَّافِعِيُّ فِي مُخْتَصَرِ الْحَجِّ الْأَوْسَطِ وَفِي غَيْرِهِ وَصَرَّحَ بِهِ أَبُو عَلِيٍّ الْبَنْدَنِيجِيُّ وَالْأَصْحَابُ وَنَقَلَهُ الرَّافِعِيُّ عَنْ الْأَكْثَرِينَ قَالَ وَقَالَ صَاحِبُ الشَّامِلِ وَطَائِفَةٌ هِيَ مِنْ عَرَفَاتٍ وَهَذَا الَّذِي نَقَلَهُ غَرِيبٌ لَيْسَ بِمَعْرُوفٍ وَلَا هُوَ فِي الشَّامِلِ وَلَا هُوَ صَحِيحٌ بَلْ إنْكَارٌ لِلْحِسِّ وَلِمَا تَطَابَقَتْ عَلَيْهِ كُتُبُ الْعُلَمَاءِ (وَأَمَّا) مَسْجِدُ إبْرَاهِيمَ فَقَدْ نَصَّ الشَّافِعِيُّ عَلَى أَنَّهُ لَيْسَ مِنْ عَرَفَاتٍ وَأَنَّ مَنْ وَقَفَ
مسجد ابراہیم جس کو مسجد عرنہ بھی کہتے ہیں وہ مغربی جانب عرفات سے باہر ہے … وادی عرنہ عرفات میں نہیں ہے اس پر کوئی اختلاف نہیں امام الشافعی کی نص ہے اور اصحاب کا اتفاق ہے اور جہاں تک مسجد نمرہ کا تعلق ہے تو وہ بھی عرفات میں نہیں ہے … اور صَاحِبُ الشَّامِلِ وَطَائِفَةٌ کہتے ہیں یہ عرفات میں ہے اور یہ غریب بات ہے معروف نہیں ہے اور الشامل میں بھی نہیں ہے
============

بعض حنابلہ کا دعوی ہے کہ مسجد ابراھیم کو آج مسجد نمرہ کہا جاتا ہے جبکہ امام نووی سے لے کر آج تک لوگ کہہ رہے ہیں کہ مسجد ابراہیم بھی عرفات میں نہیں تھی

مزید دیکھیں عرب خود اقرار کر رہے ہیں کہ مسجد نمرہ مکمل عرفات میں نہیں


نمرہ کو عرفات کی مسجد کیوں مشھور کیا گیا؟ اغلبا میدان میں زیادہ سے زیادہ حاجیوں کو بھرنے کے لئے اس میں دجل کیا گیا کہ وہ مسجد نمرہ کی طرف مشعر کی حد تک آ جائیں اس طرح مشعر کا ایک بڑا حصہ خالی رہے گا اور لوگوں میں مشھور رہے گا کہ عرفات میں مسجد نمرہ ہے جبکہ وہ مکمل اس میں نہیں اس طرح زیادہ سے زیادہ حاجی میدان میں جمع کیے جا سکیں گے

زیادہ حاجیوں کو بھرنے کے لئے المزدلفہ کی حدود بھی تبدیل کی گئی ہیں
عبد العزیز بن احمد حمیدی نے تحقیق پیش کی کہ مجھ پر افشا ہوا کہ مزدلفہ تو ان حدود سے بہت بڑا ہے جو آج اس کی ہیں

[URL='http://www.kingbio.org.sa/news.aspx?bioid=637420']http://www.kingbio.org.sa/news.aspx?bioid=637420[/URL]

الله رحم کرے
و الله اعلم

 
Top