حدیث قرع النعال پر ایک نظر

  • Work-from-home

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913

یہ تحریر یہاں سے لی گئی

لنک



http://www.islamic-belief.net/حدیث-قرع-النعال-پر-ایک-نظر/


حدیث قرع النعال پر ایک نظر

صحیح بخاری کی حدیث ہے

عن أنس بن مالك رضي الله عنه، أنه حدثهم: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ” إن العبد إذا وضع في قبره وتولى عنه أصحابه، وإنه ليسمع قرع نعالهم أتاه ملكان فيقعدانه، فيقولان: ما كنت تقول في هذا الرجل لمحمد صلى الله عليه وسلم، فأما المؤمن، فيقول: أشهد أنه عبد الله ورسوله، فيقال له: انظر إلى مقعدك من النار قد أبدلك الله به مقعدا من الجنة، فيراهما جميعا – قال قتادة: وذكر لنا: أنه يفسح له في قبره، ثم رجع إلى حديث أنس – قال: وأما المنافق والكافر فيقال له: ما كنت تقول في هذا الرجل؟ فيقول: لا أدري كنت أقول ما يقول الناس، فيقال: لا دريت ولا تليت، ويضرب بمطارق من حديد ضربة، فيصيح صيحة يسمعها من يليه غير الثقلي

بخاری ح1374کتاب الجنائز باب ماجاء عذاب القبر

۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جب بندہ اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے اصحاب اس سے پلٹ چکے تو بلاشبہ وہ جوتوں کی آوز سنتا ہے کہ اس کے پاس دو فرشتے آ جاتے ہیں جو اسے اٹھا کر بٹھا دیتے ہیں اور کہتے ہیں: “تو اس شخص یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کیا اعتقاد رکھتا تھا؟” اب اگر وہ ایماندار ہے تو کہتا ہے کہ “میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں” پھر اس سے کہا جاتا ہے “تو دوزخ میں اپنا ٹھکانہ دیکھ لے، اللہ تعالیٰ نے اس کے بدل تجھ کو جنت میں ٹھکانا دیا۔” تو وہ ان دونوں کو ایک ساتھ دیکھے گا۔ قتادہ کہتے ہیں “اور ہم سے یہ بھی بیان کیا گیا کہ اس کی قبر کشادہ کر دی جاتی ہے” پھر انس کی حدیث بیان کرتے ہوئے کہا۔ اور اگر وہ منافق یا کافر ہے تو اس سے پوچھا جاتا ہے کہ تو اس شخص کے بارے میں کیا اعتقاد رکھتا ہے؟” تو وہ کہتا ہے “میں نہیں جانتا۔ میں تو وہی کچھ کہتا تھا جو لوگ کہتے تھے۔” پھر اس سے کہا جائے گا کہ “نہ تو تُو خود سمجھا اور نہ ہی خود پڑھا۔” اور لوہے کے ہنٹروں سے اسے ایسی مار پڑے گی کہ وہ بلبلا اٹھے گا۔ اور اس کی یہ چیخ جن و انسان کے سوا تمام آس پاس کی چیزیں سنتی ہیں۔”

اس روایت پر عثمانی صاحب کی رائے ہے کہ یہ قبر برزخی مقام ہے جہاں بندہ فرشتوں کے جوتیوں کی چاپ سنتا ہے

اس پر عبد الرحمن کیلانی نے کتاب روح عذاب قبر اور سماع الموتی میں عثمانی صاحب کی تطبیق کو رد کرنے کو کوشش ناکام کی – عبد الرحمان کیلانی لکھتے ہیں

روایت میں نعالهم ہے جس میں “ھم” جمع کی ضمیر ہے۔ اگر اس سے مراد فرشتے ہیں تو مخالفین کی طرف سے کہا گیا کہ تثنیہ کی ضمیر “ھما” آنا چاہئے تھی۔اس کا جواب عثمانی صاحب یہ دیتے ہیں کہ “عربی زبان میں دونون طریقے رائج ہیں۔ تثنیہ کے لیے جمع کا استعمال عام ہے۔ جیسے قرآن کی آیت ہے:(قَالَ كَلَّا فَاذْهَبَا بِآيَاتِنَا إِنَّا مَعَكُمْ مُسْتَمِعُونَ ( سورۃ شعرا15 ))”فرمایا، تم دونوں جاؤ ہماری نشانیاں لے کر۔ ہم تمہارے ساتھ سب کچھ سنتے رہیں گے۔””(فاذهبا)” میں تثنیہ کی ضمیر ہے اور “(معكم)” میں جمع کی۔اس طرح بخاری کی حدیثِ خضر میں یہ الفاظ ہیں:(فمرت بهما سفينة فكلموهم ان يحملو هما)”پس گزری ان دونوں (موسی علیہ السلام و خضر علیہ السلام) کے پاس سے ایک کشتی، پس انہوں نے (جمع کا صیغہ) کشتی والوں سے بات کی کہ وہ ان دونوں کو کشتی میں سوار کر لیں۔” (بخاری عربی جلد 1 ص23، سطر 15،16)”(فكلموهم)” کے ساتھ ساتھ “(فكلماهم)” بھی بخاری کی روایت میں ہے مگر حاشیہ پر اور نسخہ کے طور پر تین میں “(كلموهم)” کو ہی ترجیح دی گئی ہے جو تثنیہ کے بجائے جمع کا صیغہ ہے۔”

عبد الرحمان کیلانی کا جواب :عربی زبان میں تثنیہ کے لیے جمع کا صیغہ عام نہیں۔ اگر عام ہوتا تو گرائمر کی کتابوں میں اس کا ضرور ذکر پایا جاتا۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ تثنیہ کی صورت میں جمع کا استعمال شاذ ہے اور اس کی بھی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے۔ مثلا:پہلی مثال میں “کم” کی ضمیر “مع” وجہ سے آتی ہے۔ گویا فرعون کی طرف جانے والے تو صرف دو تھے مگر سننے والوں میں اللہ بھی ساتھ شامل ہو گیا ور ضمیر جمع بدل گئی۔

دوسری مثال میں ایک مقام پر “(كلموهم)” اس لیے آیا ہے کہ موسی علیہ السلام کے ساتھ ان کا ایک ساتھی (یوشع بن نون) بھی تھا۔ جس کا ذکر قرآن میں بھی آیا ہے۔ لیکن قابل ذکر چونکہ دو ہی ہستیاں تھیں یعنی موسی علیہ السلام اور خضر علیہ السلام، اس لیے اکثر تثنیہ کا ضمیر آیا اور ایک جگہ اشتباہ کی وجہ سے جمع کا ضمیر بھی آیا۔ اگرچہ اس کی حاشیہ میں تصحیح کر دی گئی۔

جواب در جواب



لیکن کہا گیا


تثنیہ کے لیے جمع کا صیغہ



ہونا چاہیے تھا

عربی زبان میں تثنیہ کے لیے تثنیہ کا صیغہ



قرآن سے مثال



معكم معكما


ہونا چاہیے تھا

فاذهبا بآياتنا إنا معكمآ مستمعون



فاذهبا بآياتنا إنا معكم مستمعون

(الشعراء:15)،

پس تم دونوں جاؤ ہماری آیات کے ساتھ ہم تمہارے ساتھ سنیں گے

يختصمون فإذا هم فريقان يختصمان




فإذا هم فريقان يختصمون} (النمل:45)،


پس جب دو فریق لڑ پڑے



اقتتلوا وإن طائفتان من المؤمنين اقتتلتا


{وإن طائفتان من المؤمنين اقتتلوا} (الحجرات:9)

اور جب مومنوں میں دو گروہ قتال کریں



تسوروا وهل أتاك نبأ الخصم إذ تسورا المحراب




خصمان بغى بعضنا على بعض} (ص:22)

قرآن میں ان کو دو جھگڑنے والے کہا گیا لہذا یھاں تثنیہ کا صغیہ ہونا چاہیے

{وهل أتاك نبأ الخصم إذ تسوروا المحراب} (ص:21)


اور کیا تم کو خبر پہنچی جھگڑے گی جب وہ محراب میں چڑھ آئے



ابن عاشور التحریر و التنویر میں لکھتے ہیں

وأكثر استعمال العرب وأفصحه في ذلك أن يعبروا بلفظ الجمع مضافاً إلى اسم المثنى لأن صيغة الجمع قد تطلق على الاثنين في الكلام فهما يتعاوران

اور عرب اکثر استمعال میں اور فصاحت کرتے ہوئے عبارت کرتے ہیں لفظ جمع سے جو مضاف ہوتا ہے اسم المثنی پر کیونکہ جمع کا صیغہ کا اطلاق تثنیہ پر کلام میں ہوتا ہے

مخالفین نے اعتراض کیا “ھم” کی ضمیر اگر “(ملكان)” فرشتوں سے متعلق ہے تو یہ پہلے کیسے آ گئی؟ اس کا جواب عثمانی صاحب یوں دیتے ہیں کہ:”عربی ادب کا یہ قاعدہ ہے کہ اگر بات بالکل صاف ہو اور سننے والے سے غلطی کرنے کا کوئی اندیشہ نہ ہو تو پہلے اسم کا ذکر نہیں کیا جاتا جیسے قرآن میں ہے:إِنَّا أَنْشَأْنَاهُنَّ إِنْشَاءً (35) فَجَعَلْنَاهُنَّ أَبْكَارًا(سورة الواقعه:35تا36)”ہم نے ان کو (ان کی بیویوں کو) ایک خاص اٹھان سے اٹھایا ہے اور ہم ان کو رکھیں گے کنواریاں۔”سورۃ یس میں:(وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنْبَغِي لَهُ”اور ہم نے اس (پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم) کو شعر کی تعلیم نہیں دی۔”

عبد الرحمان کیلانی کا جواب نمبر 1: پہلی مثال اس لحاظ سے غلط ہے کہ “( إِنَّا أَنْشَأْنَاهُنَّ إِنْشَاءً)” سے چند آیات پہلے “(وَحُورٌ عِينٌ (22) كَأَمْثَالِ اللُّؤْلُؤِ الْمَكْنُونِ(سورة الواقعه 22تا23)” کا ذکر آ چکا ہے۔ بعد میں جنت کی چند صفات بیان کر کے “( وَحُورٌ عِين أَنْشَأْنَاهُنَّ ٌ)” کی ضمیر “( وَحُورٌ عِينٌ کی طرف پھیری گئی ہے جو درست ہے۔ لیکن عثمانی صاحب اسے خواہ مخواہ “( أَبْكَارًا)” کی طرف پھیرنا چاہتے ہیں۔ صرف اس لیے کہ یہ لفظ بعد میں آیا ہے۔

جواب نمبر 2: مثال تو ایسی درکار تھی کہ ضمیر پہلے آئے اور اس کا مرجع اسم بعد میں ہو۔ پہلی مثال میں آپ نے بعد میں مرجع “( أَبْكَارًا)” جو بتلایا ہے وہ ویسے ہی غلط ہے اور دوسری مثال میں ضمیر کا مرجع اسم مذکور ہی نہیں۔تو ڈاکٹر صاحب کا جواب درست کیسے سمجھا جائے؟

جواب در جواب : تفسیر ابن کثیر کے مطابق

قال الأخفش في قوله انا أنشأناهن إنشاء أضمرهن ولم يذكرهن قبل ذلك

الأخفش نے کہا اس قول میں انا أنشأناهن إنشاء ضمیر بیان کی ہے اور ان کا ذکر اس سے قبل نہیں کیا

یعنی یہ وہی بات ہے جو ڈاکٹر عثمانی نے کی ہے – الأخفش عربی زبان کے مشھور نحوی ہیں

اس بحث کو عود الضمير على متأخر کہا جاتا ہے

المقاصد النحوية في شرح شواهد شروح الألفية المشهور میں العيني (المتوفى 855 هـ) پر تعلیق میں دکتور علي محمد فاخر، دکتور أحمد محمد توفيق السوداني، دکتور عبد العزيز محمد فاخر لکھتے ہیں

قال ابن الناظم: “فلو كان ملتبسًا بضمير المفعول وجب عند أكثر البصريين تأخيره عن المفعول؛ نحو: زان الشجر نوره، وقوله تعالى: {وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ} [البقرة: 124] لأنه لو تأخر المفعول عاد الضمير على متأخر لفظًا ورتبة.

ابن ناظم کہتے ہیں پس اگر مفعول کی ضمیر ملتبس ہو تو اکثر بصریوں کے نزدیک مفعول کی تاخیر واجب ہے جیسے زان الشجر نوره سج گیا درخت اس کی روشنی سے . اور الله تعالی کا قول ہے اور جب مبتلا کیا ابراہیم کو تمہارے رب نے پس بے شک اگر مفعول کو متاخر کیا جائے تو اس کی ضمیر اسی لفظ اور مرتبہ کے ساتھ پلٹے گی

ایسا عربی میں کم ہوتا ہے لیکن یہ نا ممکنات میں سے نہیں المسوغأت (جو قاعدة میں ممکن ہوں اگرچہ کم ہوں) میں سے ہے جیسا کہ قرآن میں اسکی مثال بھی ہے اور عربی بلاغت کی کتب میں اس پر بحث بھی موجود ہے

سورة طه الآية 67 میں بھی اس کی مثال ہے

فَأَوْجَسَ فِي نَفْسِهِ خِيفَةً مُوسَى

پس محسوس کیا اپنے نفس میں خوف موسی نے

قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ – کہو وہ – الله احد ہے – ھو ضمیر ہے الله بعد میں ہے

فَإِنَّها لا تَعْمَى الْأَبْصارُ، وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ

پس بے شک یہ آنکھیں اندھی نہیں لیکن دل اندھے ہیں – جو دلوں میں ہیں

فَإِنَّها کی ضمیر پہلے ہے اور یہ الْقُلُوبُ کی طرف ہے جو بعد میں آیا ہے

إِنَّهُ لا يُفْلِحُ الْكَافِرُون

بے شک فلاح نہیں پاتے کفار

إِنَّهُ میں الھا کی ضمیر الْكَافِرُون کی طرف ہے جو بعد میں آیا ہے

یہ انداز قرآن میں ہے اور بصرہ کے نحویوں نے اس کو بیان کیا ہے واضح رہے کہ قرع النعال والی روایت میں بھی بصریوں کا تفرد ہے

کتاب عروس الأفراح في شرح تلخيص المفتاح از أحمد بن علي بن عبد الكافي، أبو حامد، بهاء الدين السبكي (المتوفى: 773 هـ) کے مطابق

وقوله: (هو أو هى زيد عالم) يريد ضمير الشأن مثل قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ (3) أصله الشأن الله أحد وقوله: أو هى زيد عالم صحيح على رأى البصريين، أما الكوفيون فعندهم أن تذكير هذا الضمير لازم، ووافقهم ابن مالك واستثنى ما إذا وليه مؤنث أو مذكر شبه به مؤنث أو فعل بعلامة تأنيث فيرجح تأنيثه باعتبار القصة على تذكيره باعتبار الشأن، والمقصود من ذلك أن يتمكن من ذهن السامع ما يعقب الضمير لأنه بالضمير يتهيأ له ويتشوق، ويقال فى معنى ذلك: الحاصل بعد الطلب أعز من المنساق بلا تعب، وسيأتى مثله فى باب التشبيه.

قاعدہ یہ ہے کہ ضمیر سے پہلے اس کا مفعول ہونا چاہیے لیکن قرآن میں ہی ضمیریں بعض اوقات پہلے آ جاتی ہیں اور اسم کا ذکر ہی نہیں ہوتا جیسے

إنا أنزلناه في ليلة القدر – ہم نے اس کو نازل کیا القدر کی رات کو — کس کو یھاں بیان ہی نہیں ہوا- آگے کا سیاق بتا رہا ہے قرآن کی بات ہے

عبس وتولى – منہ موڑا اور پلٹ گیا – کون ؟ بیان نہیں ہوا تفسیری روایات کے مطابق رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی نصیحت کی گئی

المستشرقين قرآن پر اعتراض کرتے ہیں کہ یہ عربی ادب نہیں ہے – اس کا جواب علماء نحوی دیتے رہے ہیں کہ یہ قرآن کا خلاف قاعدہ انداز بلاغت ہے

الغرض ڈاکٹر عثمانی کی بات عربی نحویوں نے بیان کی ہے اور اس میں بصریوں کا انداز رہا ہے کہ وہ ضمیر کو مفعول یا اسم سے پہلے بیان کر دیتے ہیں جیسا کہ قرع النعال والی روایت میں ہے

اس طرح اس روایت کی قرآن سے تطبیق ممکن ہے جو عربی قوائد کے اندر رہتے ہوئے کی گئی ہے
 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913

قرع النعال والی روایت صحیحین میں جن سندوں سے آئی ہے وہ یہ ہیں- اس روایت کو دنیا میں صرف ایک صحابی انس بن مالک رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں ان سے دنیا میں صرف بصرہ ایک مشھور مدلس قتادہ روایت کرتے ہیں قتادہ بصری سے اس کو دو اور بصری روایت کرتے ہیں – جن میں ایک عبد الرحمان بن شیبان بصری ہیں اور دوسرے سعید بن ابی عروبہ بصری ہیں- امام مسلم صحیح میں اس کو شیبان کی سند سے لکھتے ہیں اور امام بخاری اس کو سعید بن ابی عروبہ المتوفی ١٥٦ ھ کی سند سے لکھتے ہیں


روایت میں عربی کی غلطی پر محققین کی آراء

قرع النعال کی روایت ان الفاظ سے نہیں آئی جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بولے تھے یہ روایت بالمعنی ہے اور اس میں دلیل یہ ہے کہ عربی کی غلطی ہے

کتاب الميسر في شرح مصابيح السنة میں فضل الله بن حسن التُّورِبِشْتِي (المتوفى: 661 هـ) حدیث قرع النعال پر لکھتے ہیں
لما أشرنا إليه من دقيق المعنى وفصيح الكلام، وهو الأحق والأجدر ببلاغة الرسول – صلى الله عليه وسلم – ولعل الاختلاف وقع في اللفظين من بعض من روى الحديث بالمعنى، فظن أنهما ينزلان في هذا الموضع من المعنى بمنزلة واحدة.
ومن هذا الوجه أنكر كثير من السلف رواية الحديث بالمعنى خشية أن يزل في الألفاظ المشتركة، فيذهب عن المعنى المراد جانبا.
قوله – صلى الله عليه وسلم – (لا دريت ولا تليت) هكذا يرويه المحدثون، والمحققون منهم على أنه غلط، والصواب مختلف فيه، فمنهم من قال: صوابه: لا أتليت- ساكنة التاء، دعا عليه بأن لا تتلى إبله. أي: لا يكون لها أولاد تتلوها، فهذا اللفظ على هذه الصيغة مستعمل في كلامهم، لا يكاد يخفى على الخبير باللغة العربية، فإن قيل: هذا الدعاء لا يناسب حال المقبور؛ قلنا: الوجه أن يصرف معناه إلى أنه مستعار في الدعاء عليه بأن لا يكون لعمله نماء وبركة. وقال بعضهم: أتلي: إذا أحال على غيره، وأتلى: إذا عقد الذمة والعهد لغيره. أي: ولا ضمنت وأحلت بحق على غيرك، لقوله: (سمعت الناس) ومنهم من قال: (لا ائتليت) على أنه افتعلت، من قولك: ما ألوت هذا، فكأنه يقول: لا استطعت، ومنهم من قال: (تليت) أصله: تلوت، فحول الواو ياء لتعاقب الياء في دريت.
قوله – صلى الله عليه وسلم – (يسمعها من يليه غير الثقلين) إنما صار الثقلان/ 19 ب عن سماع ذلك بمعزل لقيام التكليف ومكان الابتلاء، ولو سمعوا ذلك

جب ہم معنی کی گہرائی اور کلام کی فصاحت دیکھتے ہیں جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی بلاغت کلام کے لئے احق ہو – تو دو الفاظ میں بالمعنی روایت کی وجہ سے اختلاف ہو جاتا ہے پس گمان ہوتا ہے کہ یہ دونوں معنی میں اپنے مقام سے گر گئے اور اسی وجہ سے سلف میں سے بہت سوں نے روایت بالمعنی کا انکار کیا اس خوف سے کہ مشترک الفاظ معنی میں ایک ہو جائیں جن کا معنی الگ ہوں – رسول الله کا قول ہے (لا دريت ولا تليت) اور ایسا محدثین نے روایت کیا ہے اور جو (عربی زبان کے) محقق ہیں ان کے نزدیک یہ غلط ہیں ، ٹھیک یا صحیح ہے لا أتليت- ساكنة التاء، جو پکارتا ہے اس پر نہیں پڑھا گیا یعنی اس کی اولاد نہیں تھی جو اس پر پڑھتی پس یہ لفظ ہے جو اس صیغہ پر ہے جو کلام میں استمعال ہوتا ہے اور یہ عربی زبان جاننے والے سے مخفی نہیں ہے پس اگر کہے یہ پکار ہے جو قبر والے کے لئے مناسب نہیں ہے تو ہم کہیں گے اگر معنی پلٹ جائیں کہ وہ اس پر استعارہ ہیں پکار کے لئے کیونکہ اس کے لئے عمل نہیں ہے جس میں بڑھنا اور برکت ہو – اور بعض نے کہا أتلي جب اس کو کسی اور سے تبدیل کر دیا جائے اور أتلي جب ذمی سے عقد کرے اور عھد دوسرے سے کرے یعنی اس میں کسی اور کا حق حلال یا شامل نہ کرے … اور کہا لا ائتليت کہ اس نے کیا اس قول سے ما ألوت هذا یعنی میں نے نہیں کیا اور ان میں ہے تليت اس کی اصل تلوت ہے پس واو کو تبدیل کیا ی سے

کتاب غریب الحدیث میں خطابی (المتوفى: 388 هـ) کہتے ہیں
في حديث سؤال القبر: “لا دريت ولا تليت” . هكذا يقول المحدثون، والصواب: ولا ائْتَلَيت، تقديره: افتعلت، أي لا استطعت, من قولك: ما ألوت هذا الأمر, ولا استطعت.

اور قبر میں سوال والی حدیث میں ہے “لا دريت ولا تليت” ایسا محدثین نے کہا ہے اور ٹھیک ہے ولا ائْتَلَيت

مجمع بحار الأنوار في غرائب التنزيل ولطائف الأخبار میں جمال الدين الهندي الفَتَّنِي الكجراتي (المتوفى: 986هـ) کہتے ہیں
ومنه حديث منكر ونكير: لا دريت ولا “ائتليت” أي ولا استطعت أن تدري يقال: ما ألوه أي ما استطيعه، وهو افتعلت منه، وعند المحدثين ولا تليت والصواب الأول

اور حدیث منکر نکیر میں ہے لا دريت ولا “ائتليت” … اور محدثین کے نزدیک ہے ولا تليت اور ٹھیک وہ ہے جو پہلا ہے

لسان العرب میں ابن منظور المتوفی ٧١١ کہتے ہیں
لَا دَرَيْتَ وَلَا ائْتَلَيْتَ
، وَالْمُحَدِّثُونَ يَرْوُونَهُ:
لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ
، وَالصَّوَابُ الأَول.

لَا دَرَيْتَ وَلَا ائْتَلَيْتَ اور یہ محدثین ہیں جو اس کو روایت کرتے ہیں لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ اور ٹھیک پہلا والا ہے

پروفیسر ڈاکٹر عبد الکبیر محسن کتاب توفیق الباری جلد سوم میں لکھتے ہیں



یعنی اس میں بصرہ کے محدثین نے غلطی کی اور روایت میں عربی کی فحش غلطی واقع ہوئی جو کلام نبوی کے لئے احق نہیں ہے کہ اس میں عربی کی غلطی ہو

رواة پر محدثین کی آراء


شَيبَان بن عبد الرحمن التَّمِيمِي بصره کے محدث ہیں – امام مسلم نے اس روایت کو ان کی سند سے نقل کیا ہے انکے لئے امام ابن ابی حاتم کتاب الجرح و التعدیل میں کہتے ہیں میرے باپ نے کہا

يكتب حديثه ولا يحتج به

اس کی حدیث لکھ لو دلیل مت لینا

اسی کتاب میں ابی حاتم اپنے الفاظ لا یحتج بہ کا مفہوم واضح کرتے ہیں

کتاب الجرح و تعدیل میں لکھتے ہیں

قال عبد الرحمن بن أبي حاتم: قلت لأبي: ما معنى (لا يحتج به) ؟ قال: كانوا قوما لا يحفظون، فيحدثون بما لا يحفظون، فيغلطون، ترى في أحاديثهم اضطرابا ما شئت “. انتهى.

فبين أبوحاتم في إجابته لابنه: السبب في أنه لا يحتج بحديثهم، وهو ضعف حفظهم، واضطراب حديثهم.

عبد الرحمن بن أبي حاتم کہتے ہیں میں نے اپنے باپ سے پوچھا کہ لا يحتج به کیا مطلب ہے انہوں نے کہا ایک قوم ہے رجال کی جو یاد نہیں رکھتے تھے اور حدیثیں بیان کرتے ہیں جو انکو یاد نہیں ہوتیں پس ان میں غلطیاں کرتے ہیں پس تم دیکھو گے کہ انکی حدیثوں میں اضطراب کثرت کے ساتھ پایا جاتا ہے

ابن ابی حاتم نے بالکل واضح کر دیا ہے کہ لا يحتج به کا کیا مطلب ہے

امام بخاری نے قرع النعال کو سعید بن ابی عروبہ کی سند سے لکھا ہے اور ان سے دو لوگ روایت کرتے ہیں

یزید بن زریع اور عبد الاعلی بن عبد الاعلی

مسئلہ یہ ہے کہ سعید بن ابی عروبہ آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہوئے اور ان کی اس کیفیت پر محدثین میں اختلاف ہے کہ یہ کب واقع ہوا

امام البزار کہتے ہیں ١٣٣ ہجری میں ہوا تہذیب التہذیب از ابن حجر

قال أبو بكر البزار أنه ابتدأ به الاختلاط سنة “133” میں

یحیی ابن معین کہتے ہیں ١٤٢ ھ میں ہوا

یحیی بن سعید کہتے ہیں ١٤٥ ھ میں ہوا

يزيد بن زريع

ابن حجر تہذیب میں کہتے ہیں

وقال ابن السكن كان يزيد بن زريع يقول اختلط سعيد في الطاعون يعني سنة 132 وكان القطان ينكر ذلك ويقول إنما اختلط قبل الهزيمة قلت والجمع بين القولين ما قال أبو بكر البزار أنه ابتدأ به الاختلاط سنة “133” ولم يستحكم ولم يطبق به وأستمر على ذلك ثم استحكم به أخيرا

اور ابن السکن کہتے ہیں یزید بن زریع نے کہا سعید بن ابی عروبہ کو اختلاط طاعون پر سن ١٣٢ میں ہوا اور القطان نے اس کا انکار کیا اور کہا ہزیمت پر ہوا اور ان اقوال میں اس طرح جمع ممکن ہے جو البزار نے کہا کہ ان کے اختلاط کی ابتداء سن ١٣٣ میں ہوئی لیکن مستحکم نہ تھی اور اس میں استحکام ہوتا گیا یہاں تک کہ آخر میں مستحکم ہو گیا

ابن حجر کے مطابق سن ١٣٣ میں سعید کو اختلاط شروع ہو چکا تھا اور کلابازی کے مطابق سن ١٣٩ ھ میں ابن زریع نے سنا

الهداية والإرشاد في معرفة أهل الثقة والسداد از أبو نصر البخاري الكلاباذي (المتوفى: 398هـ) کے مطابق

وَقَالَ الْغلابِي نَا ابْن حَنْبَل قَالَ نَا يزِيد قَالَ مر بِنَا سعيد بن أبي عرُوبَة قبل سنة 39 فسمعنا مِنْهُ

الْغلابِي کہتے ہیں ابن حنبل نے کہا ہم سے یزید نے بیان کیا کہ سعید ہمارے پاس ١٣٩ ھ سے پہلے گزرے جب ہم نے سنا

امام احمد کے مطابق سعید سے یزید کا سماع صحیح ہے کیونکہ انہوں نے ١٤٥ ھ میں اختلاط والی رائے کو ترجیح دی ہے

عبد الأعلى بن عبد الأعلى السامي

امام بخاری نے اس روایت کو عبد الأعلى بن عبد الأعلى السامي کی سند سے بھی نقل کیا ہے اس میں بھی سماع پر محدثین کا اختلاف ہے

تهذيب التهذيب از ابن حجر کے مطابق

وقال ابن القطان حديث عبد الأعلى عنه مشتبه لا يدري هو قبل الاختلاط أو بعده

اور ابن القطان نے کہا عبد الأعلى بن عبد الأعلى السامي کی سعید بن ابی عروبہ سے روایت مشتبہ ہے – نہیں پتا کہ اختلاط سے قبل سنا یا بعد میں

عبد الأعلى بن عبد الأعلى السامي تمام محدثین کے نزدیک ثقہ بھی نہیں ہیں

وقال ابن سعد: “لم يكن بالقوي

ابن سعد کہتے ہیں یہ قوی نہیں تھے

سنن اربعہ اور مسند احمد میں یہ روایت عبد الوھاب بن عطا اور روح بن عبادہ کی سند سے ہے- یہ دونوں راوی بھی تمام محدثین کے نزدیک ثقہ نہیں مثلا عبد الوہاب ، امام بخاری کے نزدیک ضعیف ہیں اور روح بن عبادہ، امام النسائی اور ابی حاتم کے نزدیک ضعیف ہیں

روایت پر علماء کا عمل


محدثین کا ایک گروہ اس روایت سے دلیل نہیں لیتا جن میں امام احمد ہیں

امام احمد باوجود یہ کہ قر ع النعال والی روایت کو مسند میں روایت کرتے ہیں لیکن جوتیوں کی چاپ سننے والی روایت پر عمل نہیں کرتے اور قبرستان میں داخل ہونے سے پہلے جوتیاں اتارنے کا حکم کرتے تھے ظاہر ہے نہ جوتیاں ہوں گی نہ ان کی چاپ کا سوال اٹھے گا

کتاب مسائل أحمد بن حنبل رواية ابنه عبد الله کے مطابق

وَقَالَ أبي يخلع نَعْلَيْه فِي الْمَقَابِر

میرے باپ (احمد ) کہتے ہیں قبرستان میں نعل اتار دو

وَكَانَ يَأْمر بخلع النِّعَال فِي الْمَقَابِر

امام احمد حکم دیتےتھے کہ قبرستان میں نعل اتار دو

رَأَيْت ابي اذا اراد ان يدْخل الْمَقَابِر خلع نَعْلَيْه وَرُبمَا رَأَيْته يُرِيد ان يذهب الى الْجِنَازَة وَرُبمَا لبس خفيه اكثر ذَلِك وَينْزع نَعْلَيْه

میں نے اپنے باپ کو دیکھا کہ جب قبرستان میں داخل ہوتے تو جوتے اتار دیتے

امام احمد کے بیٹے کتاب العلل ومعرفة الرجال میں لکھتے ہیں

رَأَيْت أبي إِذا دخل الْمَقَابِر يخلع نَعْلَيْه فَقلت لَهُ إِلَى أَي شَيْء تذْهب فَقَالَ إِلَى حَدِيث بشير بن الخصاصية

میں نے اپنے باپ کو دیکھا کہ قبرستان میں اتے تو جوتے اتارتے پس میں نے کہا کس بنا پر اس کو کیا؟ انہوں نے کہا حدیث بشیر بن الخصاصية سے لیا

ابی داود کتاب میں لکھتے ہیں

رَأَيْتُ أَحْمَدَ إِذَا تَبِعَ جِنَازَةً فَقَرِبَ مِنَ الْمَقَابِرِ خَلَعَ نَعْلَيْهِ

میں نے احمد کو دیکھا جب وہ جنازہ کے پیچھے قبرستان کے پاس پہنچتے تو جوتے اتار دیتے

کتاب مسائل الإمام أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه کے مطابق امام احمد

فلما سلم خلع نعليه ودخل المقابر في طريق [عامية] 2 مشياً على القبور حتى بلغ القبر

پس جب (نماز جنازہ سے) سلام پھرنے کے بعد جوتے اتارتے اور قبرستان میں داخل ہوتے حتی کہ قبر تک پہنچتے

امام احمد کا عمل قرع النعال والی روایت پر نہیں بلکہ بشیر بن الخصاصية کی روایت پر تھا جو ابو داود نے بَابُ الْمَشْيِ فِي النَّعْلِ بَيْنَ الْقُبُورِ میں روایت کی ہے جس سے واضح ہے کہ ان کے نزدیک یہ قرع النعال سے زیادہ صحیح روایت تھی ورنہ اعلی کو چھوڑ کر ادنی پر عمل کیوں تھا

ابن قدامة المغني ج 2 ص ٤٢١ میں کہتے ہیں
قال الإمام أحمد رحمه الله إسناد حديث بشير بن الخصاصية جيد أَذْهَبُ إلَيْهِ، إلَّا مِنْ عِلَّةٍ

امام احمد کہتے ہیں بشير بن الخصاصية والی حدیث کی اسناد جید ہیں اسی پر مذھب ہے سوائے اس کے کہ کوئی علت ہو

اتنے سارے حوالے واضح کرتے ہیں کہ امام احمد نے سرے سے اس روایت پر عمل ہی نہیں کیا کہ جوتیاں پہن کر مردے کو دفناتے وقت چلے ہوں امام احمد جس قسم کے روایت پسند سخص تھے ان سے اس روایت پر عمل کرنا سرے سے بیان ہی نہیں ہوا کیوں ؟ اس کی وجہ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ بشير بن الخصاصية رضی الله عنہ کی روایت پر مذھب ہے


الغرض قارئین اپنے ذھن میں رکھیں کہ اس حدیث پر اجماع خود امام بخاری کے دور میں نہیں ملتا اس پر بعض محدثین خود عمل نہیں کرتے اس میں بعض محدثین کے نزدیک سماع فی اختلاط کا مسئلہ ہے خود امام بخاری نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا- روایت پر باب باندھنا تبصرہ نہیں ہے جس کی مثال ہے کہ ادب المفرد میں بھی امام بخاری باب باندھتے ہیں جبکہ اس کی تمام راویات صحیح نہیں ہیں

اس روایت کی بنیاد پر ارضی قبر میں سوال و جواب کا عقیدہ بنانے والے دیکھ سکتے ہیں اس میں کیا آراء ہیں

 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913

اس ایک سوال کیا گیا ہے

سوال ؟

کیا آپ صحیح بخاری کی اس قرع النعال والی حدیث کو ضعیف اور موضوع سمجھتے ہیں کیونکہ آپ نے ان کے راویوں پر جرح کی ھے
جواب

جی روایت سندا مظبوط نہیں اس کو اگر صحیح سمجھا جائے تو اس کی تاویل کی جائے گی لیکن راقم نے دلائل دیے ہیں کہ خود محدثین کے اقوال سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک یہ روایت مختلف فیہ ہے

البزار اور الغلابی کی رائے کو ملا کر یہ ثابت کیا ہے کہ یہ روایت سعید بن ابی عروبہ کے عالم الختلاط کی ہے

لہذا یہ جرح نہیں ہے یہ سعید بن ابی عروبہ کی بیماری کا تذکرہ ہے

البتہ محدثین کے نزدیک بعض راوی مجروح بھی ہیں جن کا ذکر بر سبیل تذکرہ ہوا ہے

مزید یہ کہ اس میں قتادہ کا تفرد ہے کتاب التعديل والتجريح , لمن خرج له البخاري في الجامع الصحيح میں الباجی کہتے ہیں

وَمن ذَلِك حَدِيث قَتَادَة عَن أنس عَن النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم إِذا كَانَ ذَلِك من حَدِيث شُعْبَة وَسَعِيد بن أبي عرُوبَة وَهِشَام الدستوَائي فَإِذا اتّفق الثَّلَاثَة عَن قَتَادَة فَلَا خلاف فِي صِحَة الحَدِيث وَإِذا اتّفق اثْنَان وَخَالَفَهُمَا ثَالِث فَالْقَوْل قَول الْإِثْنَيْنِ وَإِذا اخْتلفُوا نظر فِيهِ


اور اسی قسم کی روایات میں سے قتادہ کی انس سے ان کی نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت ہے اگر یہ حدیث شعبہ یا سعید بن ابی عروبہ یا هِشَام الدستوَائي سے ہوں اور تینوں ائمہ کا اتفاق ہو قتادہ کی روایت پر تو پھر اس روایت کی صحت پر کوئی اختلاف نہیں ہے اور اگر دو کا اتفاق ہو اور تیسرا مخالفت کرے تو پھر اس میں نظر ہے


اس خفیہ روایت کو انس رضی الله عنہ نے بصرہ کے اپنے دوسرے شاگردوں سے بھی کیا چھپایا تھا ؟ ان کے دیگر بصری شاگرد اس کو روایت نہیں کرتے

حمید الطویل ، أَبِي قِلَابَةَ ، مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ ، سليمان بن طرخان التَّيْمِيِّ البصری، ثَابت بن أسلم الْبنانِيّ الْبَصْرِيّ میں سے کوئی بھی قرع النعال کو انس سے روایت کیوں نہیں کرتا؟

اب قرع النعال والی روایت صرف دو لوگ قتادہ سے بیان کرتے ہیں نہ ان میں هِشَام الدستوَائي ہیں نہ شعبہ ہیں لہذا جن تین ائمہ کا اعتماد ملنا چاہیے تھا وہ نہیں ملا

اس میں عربی کی غلطی کس سے واقع ہوئی ؟ اس کو محدثین نقل کرتے رہے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے منسوب کرتے رہے

ان سوالات کے جوابات کسی کے پاس نہیں ہیں لہذا روایت سندی حثیت میں مظبوط نہیں کہ اس کو صحیح کہا جائے

یہ راقم کی رائے ہے ڈاکٹر عثمانی کی رائے الگ ہے

 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913

ایک اور سوال ہوا کہ

لیکن اھلحدیث کہتے ہیں کہ امام بخاری نے باب باند کر یہ مان لیا کہ مردہ دفن کے بعد دفناکر جانے والوں کی جوتوں آواز سنتا ھے

اس بارے ميں کیا کہیں گے؟

جواب

صحیح بخاری کے ابواب ہوں یا ادب المفرد کے ابواب ان سے کچھ ثابت نہیں ہوتا بعض اوقات صرف روایت کے الفاظ باب میں لکھ دیے جاتے ہیں ان کا مقصد صراحتا ان کو ماننا نہیں ہے

بہت سے علماء نے ابواب سے بخاری کا منشا جاننے کی کوشش کی ہے یہ اس وقت بات فٹ بیٹھتی ہے جب اس باب میں دو تین معلق روایات ہوں اور ان میں تضاد ہو مثلا

امام بخاری باب میں روایت لکھتے ہیں کہ جب حسن کی وفات ہوئی تو ان کی بیوی نے حسن کی قبر پر خیمہ لگایا-اس پر کوئی عمل نہیں کرتا غیر مقلدین اور ہم بولتے ہیں یہ صحیح نہیں ہے – امام بخاری نے اس روایت کو پیش کر کے صرف یہ لکھا ہے کہ جب ان کی بیوی کو کوئی فائدہ نہیں ہوا تو ایک آواز سنی گئی کہ تمہیں کچھ فائدہ ہوا؟ کیا اہل بیت کی بیویاں بد عقیدہ تھیں ؟ اس سے بہت سے ضمنی سوالات پیدا ہوتے ہیں امام بخاری اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرتے – آواز یا بھپتی کسنے والا کون تھا؟ کوئی وضاحت نہیں ہے

اس روایت کے بعد امام بخاری مورق العجلی کی روایت لاتے ہیں کہ انہوں نے بریدہ اسلمی پر قبر پر تنکا لگایا

اس سے کیا یہ ثابت ہوتا ہے کہ آج بھی ٹہنی کو لگایا جا سکتا ہے؟ کوئی وضاحت نہیں ہے

صرف علماء کا اندازہ ہے- علماء اس کو امام بخاری کا دقت فہم ان کی عمیق النظری کہہ دیتے ہیں

اسی طرح امام بخاری كيا قرآن و تعليم بر اجرت کو جائز کہتے تھے ؟ اہل حدیث اس میں ایک باب کو پیش کرتے ہیں جس میں دم پر اجرت کا جواز لکھا ہے لیکن جب قرآن پر کمانا وغیرہ کا ذکر اتا ہے تو اس کی تاویل بھیک مانگنے سے کرتے ہیں گویا امام بخاری سے مل کر آئے ہوں

بہت دفعہ یہ ہوتا ہے کہ روایت لکھ دی کوئی باب نہیں ہے کیا اس کا مطلب ہے کہ امام بخاری کے نزدیک اس روایت سے کوئی نتیجہ نہیں نکلتا

اس پر غور کرنا چاہیے نہ کہ صرف باب دیکھا اور اس سے عقیدہ بنا لیا

امام بخاری کے بعض نسخوں میں بندر رجم کرتے ہیں البانی رحم الله اس اثر کو منکر کہتے ہیں اور زبیر علی زئی رحم الله کہتے ہیں یہ جنات تھے اور جو اس اثر کا انکار کرے وہ منکر حدیث ہے

یہ کیسے پتا چلا کہ یہ بندر جنات تھے ؟ یہ خالص قیاس ہے جو ابواب کی بحث میں کیا جائز ہو جاتا ہے ؟


راقم کی رائے میں امام بخاری جب اپنے شاگردوں کو صحیح املا کرا رہے تھے اس وقت یہ ابواب انہوں نے بیان کیے لیکن ان کا مقصد کسی عقیدہ کا اثبات نہیں تھا صرف ایک روایت کو دوسری سے الگ کرنے کے لئے ابواب بنا دیے گئے تھے
علم حدیث کی کتب میں یہ بھی موجود ہے کہ بعض ابواب امام بخاری کی وفات کے بعد قائم کیے گئے ہیں

 
Top