قرآن سوره الاسراء کی آیات ہیں کہ
سُبْحَانَ الَّـذِىٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَى الَّـذِىْ بَارَكْنَا حَوْلَـهٝ لِنُرِيَهٝ مِنْ اٰيَاتِنَا ۚ اِنَّهٝ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْـرُ
پاک ہے وہ (رب) جو لے گیا سفر میں اپنے بندے کو رات میں مسجد الحرام سے مسجد الاقصی جس کا ماحول ہم نے با برکت کیا ہے کہ اس کو اپنی کچھ نشانیاں دکھائے بے شک وہ (الله) سننے دیکھنے والا ہے
یہ معراج کا واقعہ تھا جس میں جسمانی طور پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے سفر کیا ایک گھوڑے اور خچر نما مخلوق پر جس کو براق کہا جاتا ہے- اس میں ایک ان میں آپ مسجد الحرام سے اصلی مسجد الاقصی پہنچ گئے اور آپ کے ہمراہ جبریل علیہ السلام بھی تھے
دوسرے دن آپ نے جب قریش کو اس کی خبر دی تو انہوں نے آزمائشی سوالات کیے اور حجر یا حطیم میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے دیکھا کہ بیت المقدس شہر کو آپ کے سامنے کر دیا گیا
الله تعالی فرماتے ہیں
فإذا جاء وعد الآخرة ليسوءوا وجوهكم وليدخلوا المسجد كما دخلوه أول مرة وليتبروا ما علوا تتبيرا عسى ربكم أن يرحمكم وإن عدتم عدنا وجعلنا جهنم للكافرين حصيرا
پس جب دوسرا وعدا ہونے کو آیا کہ چہروں کو بگاڑ دے اوراسی طرح مسجد میں داخل ہوں جیسے پہلے ہوا تھا اور تتر بتر کر دیں جس پر بھی غلبہ پائیں ہو سکتا ہےکہ اب تم پر تمہارا رب رحم کرے لیکن اگر تم پلٹے تو ھم بھی پلٹیں گے اور ہم جہنم کو تمام کافروں کے لئے گھیرا بنائیں گے
روم میں آرچ اف ٹائیتس پر بنا ایک نقش -رومی فوجی قدس الاقدس کا خالص سونے کا چراغ مال غنیمت کے طور پر لے جا رہے ہیں
یہودی مورخ جوسفس لکھتا ہے
For the same month and day were now observed, as I said before, wherein the holy house was burnt formerly by the Babylonians
– Josephus Wars chapter 4
قدس الاقدس اسی مہینے اور دن جلایا گیا جس دن بابلیوں نے اس کو جلایا تھا
ظاہر ہے اصل مسجد الاقصی کا نام و نشان تک مٹا دیا گیا اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو بیت المقدس شہر دکھایا گیا اور کفار مکہ نے بھی اسی شہر پر سوالات کیے وہاں کوئی مسجد تھی ہی نہیں لہذا جو بھی دیکھا وہ اصلی مسجد الاقصی اور اس کا ماحول تھا جو الله کی قدرت کا نمونہ تھا کہ اسی مسجد کو اصل حالت میں دکھایا گیا جبکہ وہ وہاں تباہ شدہ حال میں تھی یعنی یہ ایک نشانی تھی جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے لئے خاص تھی
ایک بات سمجھنے کی ہے اور قرآن میں یہی بات سوره الاسراء کے شروع میں بیان ہوئی ہے اور معراج کے ساتھ مسجد الاقصی کی تباہی کا خاص ذکر ہے تاکہ غور کرنے والے بات سمجھیں
رومی مشرکوں کا بیت المقدس کو آباد کرنا
یروشلم کے لئے بیت المقدس بہت بعد میں مستعمل ہوا مشرکین مکہ اس شہر کو عیلیا کہتے تھے
بیت المقدس اصلا یہود کی زبان کا لفظ ہے عرب مشرکین اس کو عیلیا کہتے تھے جو اصل میں
AELIA CAPITOLINA
ہے جو ایک رومن کالونی تھی جو ہیرود کے شہر پر بنی
عیلیا کپٹلونا کو رومن ملٹری کیمپ بنانے کا حکم شاہ ہیڈرین
Hadrian
نے دیا جو رومن سلطنت کا ١٤ واں بادشاہ تھا اس کا مکمل نام تھا
Publius Aelius Hadrianus Augustus
لہذا اپنے نام
Aelius
پر اس نے یروشلم کا نام رکھا جو بعد میں ایلیا میں بدل گیا
CAPITOLINA
کا مطلب دار الحکومت ہے یعنی ایسا مقام جہاں سے اس صوبے کی عمل داری ہو گی اسی سے انگریزی لفظ کیپٹل نکلا ہے
–واضح رہے کہ شاہ ہیڈرین کے وقت اس شہر میں نہ عیسائیوں کے کلیسا تھے نہ یہود کے معبد تھے کیونکہ اس دور میں یروشلم تباہ شدہ کھنڈرات کا شہر تھا – مشرک رومی فوجیوں نے اس شہر میں ١٣٥ بعد مسیح میں پڑاو کیا اور وہاں یہودی بدعتی فرقہ عیسیٰ کے ماننے والوں کو انے دیا اور یہود کا داخلہ بند رہا – سن ٣٢٥ ع ب م میں رومن بادشاہ کونسٹنٹین عیسائی ہوا جو دین متھرا پر تھا – اس وقت اس شہر پر متھرا دھرم کا راج تھا اور تمام مندر اسی مذھب والوں کے تھے جن میں رومیوں کی کثرت تھی جو اجرام فلکی اور برجوں کے پجاری تھے – متھرا اصلا ایک فارسی مذھب تھا لیکن اس کی اپیل بہت تھی انہی کا تہوار نو روز ہے جس کو آج تک ایران سے لے کر ترکی تک منایا جاتا ہے – عیلیا کپٹلونا کو مختصر کر کے اور ساتھ ہی اس لفظ کو تبدیل کر کے اہل کتاب اور مسلمانوں نے ایلیا کہنا شروع کر دیا جبکہ ایلیا عبرانی میں ایک نبی کا نام تھا نہ کہ اس شہر کا نام– یہ ایک تاریخی غلط العام چیز ہے
یہود میں ایلیا اصل میں عیسیٰ سے 9 صدیوں قبل انے والے ایک نبی الیاس علیہ السلام کا نام ہے جو یروشلم میں نہیں آئے تھے ان کا نام انگریزی میں
Elijah
ہے جو شمال میں ایک علاقے میں آئے تھے اور یروشلم میں کبھی بھی نہیں آئے
AELIA CAPITOLINA , name given to the rebuilt city of Jerusalem by the Romans in 135 c.e. Following the destruction of Jerusalem by the Romans in 70 c.e. the city remained in ruins except for the camp (castrum) of the Tenth Legion (Fretensis), which was situated in the area of the Upper City and within the ruins of the Praetorium (the old palace of Herod the Great), protected, according to the first-century historian Josephus (War, 7, 1:1) by remnants of the city wall and towers on the northwest edge of the city. Although Jews were banished from the city (except apparently during the Ninth of *Av), some Jewish peasants still lived in the countryside, and remains of houses (with stone vessels) have been found immediately north of Jerusalem (close to Tell el-Ful).
http://www.encyclopedia.com/article-1G2-2587500497/aelia-capitolina.html
عیلیا کپٹلونا نام ہے جو یروشلم کو دیا گیا رومیوں کی جانب سے سن ١٣٥ ب م میں جب یروشلم تباہ ہوا رومیوں کے ہاتھوں سن ٧٠ ب م میں اور اس کے کھنڈرات پر ایک لشکر تعنات ہوا جو پرایتروریم (جو ہیرود کا محل تھا) پر رکا – اور پہلی صدی کے جوزیفس مورخ (کتاب جنگیں ج ٧ ) کہتے ہیں شہر کی دیوار کے کنارے اور ان میناروں کے پاس جو شمال مغربی کناروں پر تھیں وہاں پڑاؤ ڈالا – اگرچہ یہود پر داخلہ بند تھا (سوائے او کے ماہ کی نویں تاریخ پر ) کچھ یہودی کسان اس کے باہر آباد تھے جن کے گھروں کی باقیات ملی ہیں یروشلم کے شمال میں
آج اس پرایتروریم
Praetorium
پر ہی مسجد الأقصى ہے
فتح بیت المقدس اور عمر رضی الله عنہ کی آمد
سوره الاسراء میں بتایا گیا کہ رومیوں نے عیسیٰ علیہ السلام کے دور کی مسجد الاقصی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور ہر اس چیز کو تباہ کر دیا جس پر ان کا ہاتھ پڑا بالکل اسی طرح جس طرح اس سے پہلے اس کواشوریوں کے ذریعہ تباہ کیا گیا یعنی الله کا عذاب بن کر اشوری یروشلم پر پڑے اور انہوں نے حشر اول کیا اس کے بعد رومیوں نے حشر دوم کیا-مسجد الاقصی ٧٠ بعد مسیح میں رومیوں نے مسمار کی اور انجیل کے مطابق یہ عیسیٰ کی زبان سے اہل کتاب پر لعنت تھی کہ اس مسجد کا ایک پتھر بھی اپنی جگہ نہ رہے گا یہاں تک کہ اس کا نشان مٹا دیا گیا اور صخرہ چٹان تک کو کھود دیا گیا اس وجہ سے اس کا مقام انسانوں سے محو ہو گیا
جب عمر رضی الله عنہ ١٧ ہجری میں بیت المقدس میں داخل ہوئے تو طبری کی تاریخ کی ایک بے سند روایت میں ہے کہ ان کے ساتھ أبو إسحاق كعب بن ماتع الحميرى اليمنى( یمن کے حبر یعنی یہودی عالم تھے- عمر رضی الله عنہ کے دور میں ایمان لائے لیکن شاید ہی انہوں نے کبھی مسجد الاقصی کا سفر کیا ہو کیونکہ یہودی ہونے کی وجہ سے ان پر یروشلم میں داخلے پر پابندی تھی- انہوں) نے عمر رضی الله عنہ کو مشورہ دیا کہ الصخرہ پر مسجد الاقصی تھی-
عمر رضی الله عنہ نے اجتہاد سے کام لیا اور مسجد الاقصی کو الگ رومی فورٹ انتونیا ( پرایتروریم ) پر ایک مقام پر بنایا اور وہ یروشلم کا سب سے اونچا مقام تھا – لہذا مسجد الاقصی ایک غیر متنازعہ جگہ بنائی گئی- بعض مسلمانوں کو روایات میں الفاظ ملے ہیں کہ عمر رضی الله عنہ نے یروشلم میں محراب داودی پر نماز پڑھی لیکن ان محققین کو خود نہیں پتا کہ محراب داودی کی کوئی اصل نہیں – یہ اصل میں جافا گیٹ
Jaffa Gate
ہے جو عمر رضی الله عنہ کی بنائی مسجد ( موجودہ الاقصی) سے بہت دور شہر کا مخالف سمت میں دروازہ ہے جو یقینا داود علیہ السلام کا بنایا ہوا نہیں ہے بلکہ رومیوں کی تعمیر ہے اس کو بعض باب الخلیل بھی کہتے ہیں -عمر رضی الله عنہ کی بنائی ہوئی مسجد الاقصی اصل میں عمر رضی الله عنہ نے اپنے اجتہاد سے بنائی – عمر رضی الله عنہ نے کعب الاحبار سے پوچھا کہ مسجدالاقصی کہاں تھی، جس سے ظاہر ہے ان کو خود عمر کو بھی معلوم نہ تھا کہ کہاں تھی نہ کسی اور صحابی نے اس کی کوئی مر فوع حدیث میں بیان کردہ کوئی ایسی نشانی بتائی جس سے اس تک پہنچا جاتا-
طبری کی عمر رضی الله عنہ اور کعب کے مکالمے کی اس روایت کی سند ہے وعن رجاء بْن حيوة، عمن شهد، قال جس میں مجھول راوی ہے
مسند احمد کی روایت ہے
حدثنا أسود بن عامر حدثنا حماد بن سلمة عن أبي سنان عن عُبيد بن آدم وأبي مريم وأبي شعيب: أن عمر بن الخطاب كان بالجابية، فذكر فتح بيت المقدس، قال: فقال أبو سلمة: فحدثني أبو سنان عن عبيد بن آدم قال: سمعت عمر بن الخطاب يقول لكعب: أين ترى أن أصلي؟ فقال: إن أخذت عني صليت خلف الصخرة فكانت القدس كلها بين يديك! فقال عمر: ضاهيت اليهودية، لا، ولكن أصلى حيث صلى رسول الله – صلى الله عليه وسلم -، فتقدم إلى القبلة فصلى، ثم جاء فبسط رداءه، فكنس الكناسة في ردائه وكنس الناس.
أبو سنان ، عبيد بن آدم سے روایت کرتا ہے کہ میں نے سنا عمر رضی الله عنہ نے کعب سے پوچھا کہ تمھاری رائے میں کہاں نماز پڑھیں ؟ کعب نے کہا اگر میں پڑھوں تو صخرہ سے پیچھے پڑھوں گا اس طرح پورا قدس آپ کے سامنے ہو گا پس عمر نے کہا یہودیوں کی گمراہی ! نہیں ہم نماز پڑھیں گے جہاں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے پڑھی پس آگے بڑھ کر قبلہ کی طرف نماز پڑھی
اس کی سند میں أَبُو سِنَانٍ عِيسَى بْنُ سِنَانٍ الْقَسْمَلِيُّ ہے جس کی تضعیف محدثین نے کی ہے ابو حاتم کہتے ہیں ليس بقوي في الحديث حدیث میں قوی نہیں ہے ابن معين وأحمد بن حنبلاس کو ضعیف کہتے ہیں اور أبو زرعة اس کو مخلط ضعیف الحدیث کہتے ہیں الذھبی کہتے ہیں ضعیف ہے متروک نہیں ہے ابن حجر لین الحدیث کہتے ہیں البیہقی سنن الکبری میں ضعیف کہتے ہیں المعلمي بھی ضعیف کہتے ہیں یہ روایت صرف بصرہ کی ہے کیونکہ اس راوی نے اسکو بصرہ میں بیان کیا ہے اسکی وفات 141 – 150 ھ کے دوران ہوئی ہے
مسند احمد کی روایت کی سند میں عبید بن ادم بھی مجھول ہے – المعلمي کہتے ہیں لم يُذْكرْ له راوٍ إلا أبو سنان اس سے صرف ابو سنان ہی روایت کرتا ہے
شعيب الأرناؤوط کہتے ہیں اسکی سند ضعیف ہے حیرت ہے کہ اس روایت کو ابن کثیر اور احمد شاکر حسن کہتے ہیں
کتاب فضائل بيت المقدس از المقدسی کی روایت کی ابو سنان کی روایت ہے
أَبُو أُسَامَةَ عَنْ عِيسَى بْنِ سَنَانَ الشَّامِيِّ عَنِ الْمُغِيرَةِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ عُمَرَ فِي كَنِيسَةٍ يُقَالُ لَهَا كَنِيسَةُ مَرْيَمَ فِي وَادِي جَهَنَّمَ قَالَ ثُمَّ دَخَلْنَا الْمَسْجِدَ فَقَالَ عُمَرُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّيْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي فِي مَقْدِمِ الْمَسْجِدِ ثُمَّ دَخَلْتُ إِلَى الصَّخْرَةِ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ
ابو سنان ، المغیرہ سے وہ اپنے باپ سے روایت کرتا ہے کہ میں نے عمر رضی الله عنہ کے ساتھ چرچ میں نماز پڑھی جس کو مریم کا چرچ کہا جاتا ہے جو وادی جہنم میں ہے – کہا پھر ہم مسجد میں آئے اور عمر نے کہا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ معراج کی رات میں نے مسجد کے مقام پر نماز پڑھی پھر صخرہ آیا اور بیت المقدس شہر میں داخل ہوا
دوسری تاریخی روایات کے مطابق تو عمر رضی الله عنہ نے کسی چرچ میں نماز نہ پڑھی ابو سنان کی یہ دونوں روایآت ضعیف ہیں اگرچہ اس میں ایک نئی چیز ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے نماز مسجد الاقصی پر پڑھی اور پھر صخرہ تک آئے جبکہ شیعہ روایات کے مطابق رسول الله صلی الله علیہ وسلم صخرہ آئے جو مسجد تھی اس پر تفصیل نیچے آئے گی
وادی ہنوم/وادی جہنم میں کنیسہ مریم کا اندرونی منظر قبر مریم کا مقام
Church of Assumption
قبروں پر نماز پڑھنا منع ہے – عمر رضی الله عنہ , مریم علیہ السلام کی قبر پر نماز کیوں پڑھتے – یہ نحوست ابو سنان کی ہے
ابو سنان کی بیت المقدس کی ان روایات میں تفرد ہے انکو کوئی اور بیان نہیں کرتا خود یہ فلسطین کے ہیں اور بصرہ جا کر اس قسم کی روایات بیان کی ہیں
الغرض عمر اور کعب کی صخرہ کے حوالے سے بحث فرضی اور من گھڑت قصہ ہے اس کی کوئی صحیح سند نہیں ہے اور ١٥٠ سال بعد کی قصہ گوئی ہے
عیسائیوں کے مطابق
کہا جاتا ہے کہ الصخرہ پر عیسائیوں کا ایک چرچ ، چرچ اف ہولی وسڈوم تھا جس کو ٦١٤ ع میں فارس والوں نے تباہ کیا – یہ وہی حملہ تھا جس کا ذکر سوره الروم میں ہے کہ روم پر(فارسی) غالب آ گئے – شاید اسی کلیسا کا ملبہ الصخرہ پر تھا- اس کا تذکرہ عیسائیوں کی کتاب زیارت میں ملتا ہے جس کا عنوان ہے
Bordeaux Pilgrim
سن ٣٣٣ ع میں ایک عیسائی زائر نے یروشلم کا دورہ کیا اور بتایا کہ قلعہ انتونیا پر ایک چٹان پر ایک چرچ ہے جہاں پلاٹس نے عیسیٰ پر فیصلہ سنایا – اس چٹان کا یہودی مورخ جوسیفس نے بھی ذکر کیا ہے
The tower of Antonia…was built upon a rock fifty cubits high and on all sides precipitous…the rock was covered from its base upwards with smooth flagstones”
(Jewish War, V.v,8 para.238)
انتونیا کا مینار جو ٥٠ کیوبت بلند اور تمام طرف سے عمودی ہے اس نے چٹان کو گھیرا ہوا ہے اس کی تہہ سے اوپر تک پتھر جڑے ہیں
یعنی ہیرود کے رومی قلعہ پر بھی ایک چٹان تھی اسی کو اب الصخرہ کہا جاتا ہے
عیسائیوں میں یہ مشہور ہوا کہ اور اس پر عیسیٰ کے قدم کے نشان ہیں ( جیسے ہم مقام ابراہیم کے لئے مانتے ہیں کہ اس پر ابراہیم علیہ السلام کے قدم کے نشان تھے) کہ جب ان سے رومی تفتیش کر رہے تھے ان کو اس چٹان پر کھڑا کیا گیا اسلام کے مطابق ایسا کوئی موقعہ ہی نہیں آیا عیسیٰ کا اس سب سے قبل رفع ہو گیا لیکن عسائیوں کو اپنے مذھب کی حقانیت کے لئے کچھ اقوال درکار تھے جس میں سے ایک یہ بھی ہے
– شاید یہی وجہ کے کہ عبد الملک نے قبہ الصخرہ کی عمارت پر جو آیات لکھوائیں ان میں عیسیٰ کی الوہیت کا انکار ہے اور ہیکل کی تباہی سے متعلق ایک آیت بھی نہیں-
صلاح الدین ایوبی کے دور کے عزالدین الزنجلی نے اس جھگڑے کو ختم کرنے کے لئے اسی پلیٹ فارم پر ایک قبه المعراج بنوایا جہاں آج بھی عیسائی آ کر رفع عیسیٰ کی تقریبات کرتے ہیں – صلیبی جنگوں کا اصل مدعآ تھا کہ قبه الصخرہ اصل میں ایک چرچ ہے جیسے سوفیا چرچ یا چرچ اف ہولی وسڈوم کہا جاتا تھا جب بیت المقدس عسائیوں سے آزاد ہوا تو اس مسئلہ کو سمجھتے ہوئے اسی پلیٹ فارم پر ایک نیا قبه رفع
Dome of Ascension
بنا دیا گیا اور مسلمانوں کے لئے اس کو قبه المعراج کہا گیا
صليبي عسائیوں نے یروشلم پر قبضہ ہی اس مقام کی اہمیت کی وجہ سے کیا- اب کتاب البدایہ و النہایہ از ابن کثیر کی ایک بے سند روایت کا قول جو روینا یعنی ہم سے روایت کیا گیا ہے سے شروع ہو رہا ہے اس میں لکھا ہے
وَقَدْ كَانَتِ الرُّومُ جَعَلُوا الصَّخْرَةَ مَزْبَلَةً ; لِأَنَّهَا قِبْلَةَ الْيَهُودِ، حَتَّى إِنَّ الْمَرْأَةَ كَانَتْ تُرْسِلُ خِرْقَةَ حَيْضَتِهَا مِنْ دَاخِلِ الْحَوْزِ لِتُلْقَى فِي الصَّخْرَةِ
اور اہل روم نے صخرہ کو کوڑا ڈالنے کی جگہ بنایا ہوا تھا کہ یہ یہود کا قبلہ ہے یہاں تک کہ انکی عورتیں اپنے حیض کا کپڑا بھی اس پر پھینکتیں
عیسائیوں میں حیض کوئی نا پاک چیز نہیں رہی تھی – یہ توریت کا حکم تھا جوانکے مطابق عیسیٰ کے انے پر معطل ہو چکی ہے
صلیبی عسائیوں نے قبه الصخرہ کو
Templum Domini
کا نام دیا اور یہ اس دور کا ایک مقدس چرچ تھا اس کو انکی مہروں پر بھی بنایا گیا – جبکہ موجودہ مسجد الاقصی کو انہوں نے محل میں تبدیل کر دیا- اب پروٹسٹنٹ کے نزدیک صلیبیوں کی طرح قبه متبرک ہے اصل ہیکل سلیمانی کا مقام ہے