حضرت زبیر بن العوامؓ

  • Work-from-home

Aks_

~ ʍɑno BɨLii ~
Hot Shot
Aug 2, 2012
44,916
17,651
1,113
حضرت زبیر بن العوامؓ
نام،نسب،خاندان


زبیر نام،ابوعبداللہ کنیت،حواری رسول اللہ ﷺ لقب،والد کا نام عوام اوروالدہ کا نام صفیہ تھا، پورا سلسلہ نسب یہ ہے،زبیر بن العوام بن خویلدبن اسد بن عبدالعزی بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوئی القرشی الاسدی،حضرت زبیر ؓ کا سلسلہ نسب قصی بن کلاب پر آنحضرت ﷺ سے مل جاتا ہے اور چونکہ ان کی والدہ حضرت صفیہ ؓ سرورِ کائنات ﷺ کی پھوپی تھیں، اس لیے آنحضرت ﷺ کے پھوپھی زاد بھائی تھے، اس کے علاوہ آنحضرت ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین حضرت خدیجہ ؓ کے بھی حقیقی بھتیجے تھے اورحضرت صدیق ؓ کے داماد ہونے کے سبب سے آنحضرت ﷺ کے ساڑھو بھی تھے اوراس طرح ذات نبوی ﷺ کے ساتھ ان کو متعدد نسبتیں حاصل تھیں۔

حضرت زبیر ؓ ہجرت نبوی ﷺ سے اٹھائیس سال قبل پیدا ہوئے،بچپن کے حالات بہت کم معلوم ہیں،لیکن اس قدر یقینی ہے کہ ان کی والدہ حضرت صفیہ ؓ نے ابتداہی سے ان کی ایسی تربیت کی تھی کہ وہ جوان ہوکر ایک عالی حوصلہ،بہادر،الوالعزم مرد ثابت ہوں، چنانچہ وہ بچپن میں عموماًانہیں مارا پیٹا کرتیں اورسخت سے سخت محنت ومشقت کے کام کا عادی بناتی تھیں، ایک دفعہ نوفل بن خویلد جو اپنے بھائی عوام کے مرنے کے بعد ان کے ولی تھے، حضرت صفیہ ؓ پر نہایت خفا ہوئے کہ کیا تم اس بچے کو اس طرح مارتے مارتے مارڈالوگی، اوربنوہاشم سے کہا کہ تم لوگ صفیہ ؓ کو سمجھاتے کیوں نہیں، حضرت صفیہ ؓ نے حسب ذیل رجز میں اس خفگی کا جواب دیا۔
(ابن سعد اصابہ تذکرہ زبیر ؓ)


من قال انی ابغضہ فقد کذب انما اضربہ لکی یلب

جس نے یہ کہا کہ میں اس سے بغض رکھتی ہوں، اس نے جھوٹ کہا، میں اس کو اس لیے مارتی ہوں کہ عقل مند ہو۔

ویھزم الجیش یاتی باسلب الخ

اورفوج کو شکست دے اورمال غنیمت حاصل کرے

اس تربیت کا یہ اثر تھاکہ وہ بچپن ہی میں بڑے بڑے مردوں کا مقابلہ کرنے لگے تھے،ایک دفعہ مکہ میں ایک جوان آدمی سے مقابلہ پیش آیا، انہوں نے ایسا ہاتھ مارا کہ اس کا ہاتھ ٹوٹ گیا،لوگ اسے لاد کر شکایۃً حضرت صفیہ ؓ کے پاس لائے،تو انہوں نے معذرت و عفوخواہی کےبجائے سب سے پہلے یہ پوچھا کہ تم نے زبیر ؓ کو کیسا پایا،بہادر یا بزدل۔
(اصابہ جلد ۱ تذکرہ زبیر ؓ)
 
  • Like
Reactions: intelligent086

Aks_

~ ʍɑno BɨLii ~
Hot Shot
Aug 2, 2012
44,916
17,651
1,113
اسلام


حضرت زبیر ؓ صرف سولہ برس کے تھے کہ نورِ ایمان نے ان کے خانۂ دل کو منور کردیا (مستدرک حاکم:۳/۳۵۹)بعض روایتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پانچویں یا چھٹے مسلمان تھے،لیکن یہ صحیح نہیں معلوم ہوتا،تاہم سابقین اسلام میں وہ ممتاز اورنمایاں تقدم کا شرف رکھتے ہیں۔

حضرت زبیر ؓ اگرچہ کمسن تھے،لیکن استقامت اورجان نثاری میں کسی سے پیچھے نہ تھے ،قبول اسلام کے بعد ایک دفعہ کسی نے مشہور کردیا،کہ مشرکین نے آنحضرت ﷺ کو گرفتار کرلیا ہے،یہ سن کر جذبہ جانثاری سے اس قدر بیخود ہوئے کہ اسی وقت ننگی تلوار کھینچ کر مجمع کو چیرتے ہوئے آستانہ اقدس پر حاضر ہوئے،رسول اللہ ﷺ نے دیکھا تو پوچھا زبیر ؓ !یہ کیا ہے؟ عرض کیا مجھے معلوم ہوا تھا کہ (خدانخواستہ) حضور گرفتار کرلیے گئے ہیں،سرورکائنات ﷺ نہایت خوش ہوئے اوران کے لیے دعائے خیر فرمائی،اہل سیر کا بیان ہے کہ یہ پہلی تلوار تھی جو راہ فدویت وجان نثاری میں ایک بچے کے ہاتھ سے برہنہ ہوئی۔
(اسد الغابہ تذکرہ زبیر بن عوام ؓ)
 

Aks_

~ ʍɑno BɨLii ~
Hot Shot
Aug 2, 2012
44,916
17,651
1,113
ہجرت​

عام بلاکشان اسلام کی طرح حضرت زبیر ؓ مشرکین مکہ کے پنجہ ظلم و ستم سے محفوظ نہ تھے ،ان کے چچانے ہر ممکن طریقہ سے ان کو اسلام سے برگشتہ کرنا چاہا،لیکن توحید کا نشہ ایسانہ تھا جو اترجاتا ،بالآخراس نے برہم ہوکر اوربھی سختی شروع کی،یہاں تک کہ چٹائی میں لپیٹ کر باندھ دیتا، اوراس قدر دھونی دیتاکہ دم گھٹنے لگتا؛ لیکن وہ ہمیشہ یہی کہے جاتے کچھ بھی کرو اب میں کافر نہیں ہوسکتا۔​
(اصابہ جلد ۱ تذکرہ زبیر ؓ)​
غرض مظالم وشدائد سے اس قدر تنگ آئے کہ وطن چھوڑکر حبش کی راہ لی، پھر کچھ دنوں کے بعد وہاں سے واپس آئے،توخود سرور کائنات ﷺ نے مدینہ کا قصد کیا، اس لیے انہوں نے بھی مدینہ کی مبارک سرزمین کو وطن بنایا۔​
مواخات​

آنحضرت ﷺ نے مکہ میں حضرت طلحہ ؓ کو حضرت زبیر ؓ کا اسلامی بھائی قراردیا تھا، لیکن جب مدینہ پہنچنے کے بعد انصار ومہاجرین میں تعلقات پیدا کرنے کے لیے ایک دوسری مواخات منعقد ہوئی تو اس دفعہ حضرت سلمہ بن سلامہ انصاری ؓ سے رشتہ اخوت قائم کیا گیا، جو مدینہ کے ایک معزز بزرگ اوربیعت عقبہ میں شریک تھے۔​
غزوات
غزوات میں ممتاز حیثیت سے شریک رہے،سب سے پہلے غزوۂ ٔبدر پیش آیا،حضرت زبیر ؓ نے اس معرکہ میں نہایت جانبازی ودلیری کے ساتھ حصہ لیا، جس طرف نکل جاتے تھے غنیم کی صفیں تہ وبالا کردیتے،ایک مشرک نے ایک بلند ٹیلے پر کھڑے ہوکر مبارزت چاہی، حضرت زبیر ؓ بڑھ کر اس سے لپٹ گئے،اور دونوں قلابازیاں کھاتے ہوئے نیچے آئے،آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ان دونوں میں جو سب سے پہلے زمین پر رکے گا وہ مقتول ہوگا،چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ وہ مشرک پہلے زمین پر گرکر حضرت زبیر ؓ کے ہاتھ سے واصلِ جہنم ہوا،(کنزالعمال:۶/۴۱۶) اسی طرح عبیدہ بن سعید سے مقابلہ پیش آیا جو سر سے پاؤں تک زرہ پہنےہوئے تھا،صرف دونوں آنکھیں کھلی ہوئی تھیں، حضرت زبیر ؓ نے تاک کر اس زور سے آنکھ میں نیزہ مارا کہ اس پارنکل گیا،اس کی لاش پر بیٹھ کر بمشکل نیزہ نکالا،پھل ٹیڑھا ہوگیا تھا، آنحضرت ﷺ نے بطوریادگار حضرت زبیر ؓ سے اس نیزہ کو لے لیا،اس کے بعد پھر خلفاء میں تبرکا ًمنتقل ہوتا رہا،یہاں تک خلیفہ ثالث ؓ کے بعد حضرت زبیر ؓ کے وارث حضرت عبداللہ ؓ کے پاس پہنچا اوران کی شہادت تک ان کے پاس موجودتھا۔​
وہ جس بے جگری کے ساتھ بدرمیں لڑے اس کا اندازہ صرف اس سے ہوسکتا ہے کہ ان کی تلوار میں دندانے پڑگئے تھے،تمام جسم زخموں سے چھلنی ہوگیا تھا، خصوصاً ایک زخم اس قدر کاری تھا کہ وہاں پر ہمیشہ کے لیے گڑھا پڑگیا تھا، حضرت عروہ بن زبیر ؓ کا بیان ہے کہ ہم ان میں انگلیاں ڈال کر کھیلا کرتے تھے۔​
(بخاری باب غزوۂ بدر)​
معرکہ بدر میں حضرت زبیر ؓ زرد عمامہ باندھے ہوئے تھے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ آج ملائکہ بھی اسی وضع میں آئے ہیں،(کنز العمال :۶/۴۱۶) غرض مسلمانوں کی شجاعت وثابت قدمی نے میدان مارلیا حق غالب رہا اورباطل کو شکست ہوئی۔​
غزوۂ احد​

؁ ۳ھ میں معرکہ احد کا واقعہ ہوا، اثنائے جنگ میں رسول اللہ ﷺ نے اپنی تلوار کھینچ کر فرمایا کون اس کا حق ادا کرے گا؟ تمام جان نثاروں نے بیتابی کے ساتھ اپنے ہاتھ پھیلائے، حضرت زبیر ؓ نے تین دفعہ اپنے آپ کو پیش کیا،لیکن یہ فخر حضرت ابودجانہ ؓ انصاری کے لیے مقدر ہوچکا تھا۔​
(زرقانی :۲/۱۳۲)​
جنگ احد میں جب تیراندازوں کی بے احتیاطی سے فتح شکست سے مبدل ہوگئی اور مشرکین کے اچانک حملے سے غازیان دین کے پاؤں متزلزل ہوگئے،یہاں تک کہ شمع نبوت کے گرد صرف چودہ صحابہ ؓ پروانہ وار ثابت قدم رہ گئے تھے تو اس وقت بھی یہ جان نثارحواری جان نثاری کا فرض اداکررہا تھا۔​
( ایضاً)​
غزوۂ خندق​

؁ ۵ھ میں یہودیوں کی مفسدہ پردازی سے تمام عرب مسلمانوں کے خلاف امنڈ آیا،سرورِ کائنات ﷺ نے مدینہ کے قریب خندق کھود کر اس طوفان کا مقابلہ کیا، حضرت زبیر ؓ اس حصہ پر معمور تھے جہاں عورتیں تھیں۔​
(مسند:۱/۱۶۴)​
بنوقریظ اورمسلمانوں میں باہم معاہدہ تھا،لیکن عام سیلاب میں وہ بھی اپنے عہد پر قائم نہ رہے، رسول اللہ ﷺ نے دریافت کے لیے کسی کو بھیجنا چاہا اورتین بارفرمایا"کون اس قوم کی خبر لائے گا؟" حضرت زبیر ؓ نے ہر مرتبہ بڑھ کر عرض کیا کہ "میں" آنحضرت ﷺ نے خوش ہوکر فرمایا"ہر نبی کے لیے حواری ہوتے ہیں،میرا حواری زبیر ؓ ہے،(بخاری کتاب المغازی باب غزوۂ خندق) اس نازک وقت میں حضرت زبیر ؓ کی اس طرح بے خطر تنہا آمدورفت سے آنحضرت ﷺ ان کی اس جانبازی سے اس قدر متاثر تھے کہ فرمایا: فداک ابی وامی، یعنی میرے ماں باپ تم پر فداہوں۔​
(مسند : ا/۱۶۴)​
کفار بہت دنوں تک خندق کا محاصرہ کیے رہے، لیکن پھر کچھ تو ارضی وسماوی مصائب اورکچھ مسلمانوں کے غیر معمولی ثبات واستقلال سے پریشان ہوکر بھاگ کھڑے ہوئے۔​
غزوۂ ٔخیبر​

غزوۂ خندق کے بعد غزوۂ ٔبنو قریظہ اوربیعت رضوان میں شریک ہوئے پھر خیبر کی مہم میں غیر معمولی شجاعت دکھائی،مرحب یہودی خیبر کا رئیس تھا وہ مقتول ہوا تو اس کا بھائی یاسر غضبناک ہوکر"ھل من مبارز’’ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے میدان میں آیا، حضرت زبیر ؓ نے بڑھ کر اس کا مقابلہ کیا وہ اس قدر تنومند اور قوی ہیکل تھا کہ ان کی والدہ حضرت صفیہ ؓ نے کہا یا رسول اللہ! میرا لخت جگر آج شہید ہوگا، آنحضرت ﷺ نے فرمایا نہیں!زبیر ؓ اس کو مارے گا،چنانچہ درحقیقت تھوڑی دیر رد وبدل کے بعد وہ واصل جہنم ہوا۔​
(سیرت ابن ہشام :۲/۱۸۲)​
غرض خیبر فتح ہوا اوراس کے بعد فتح مکہ کی تیاریاں شروع ہوئیں،مشہور صحابی حضرت حاطب بن ابی بلتعہ ؓ نے تمام کیفیت لکھ کر ایک عورت کے ہاتھ قریش مکہ کے پاس روانہ کی،لیکن آنحضرت ﷺ کو خبر ہوگئی اورایک جماعت اس عورت کو گرفتاری پر مامور ہوئی،حضرت زبیر ؓ بھی اس میں شریک تھے، وہ گرفتار ہوکر آئی اورخط پڑھاگیا،توابن ابی بلتغہ ؓ کاسرندامت سے جھک گیا،رحمۃللعالمین نے ان کی عفوخواہی پر جب معاف فرمادیا، اوریہ آیت نازل ہوئی۔" یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّکُمْ اَوْلِیَاءَ تُلْقُوْنَ اِلَیْہِمْ بِالْمَوَدَّۃِ"​
(الممتحنۃ:۱)​
فتح مکہ​

رمضان؁ ۸ھ میں دس ہزار مجاہدین کے ساتھ رسول اللہ ﷺ نے مکہ کا قصد کیا اورشاہانہ جاہ وجلال کے ساتھ اس سرزمین میں داخل ہوئے جہاں سے آٹھ سال قبل طرح طرح کے مصائب وشدائد برداشت کرنے کے بعد بے بسی کی حالت میں نکلنے پر مجبور ہوئے تھے، اس عظیم الشان فوج کے متعدد دستے بنائے گئے تھے، سب سے چھوٹا اورآخری دستہ وہ تھا جس میں خود آنحضرت ﷺ موجود تھے،حضرت زبیر ؓ اس کے علمبردار تھے۔​
(بخاری باب غزوۃ الفتح )​
آنحضرت ﷺ جب مکہ میں داخل ہوئے اورہر طرف سکون واطمینان ہوگیا تو حضرت زبیر ؓ اورحضرت مقداد بن اسود ؓ اپنے گھوڑوں پر بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوئے،آنحضرت ﷺ نے کھڑے ہوکر ان کے چہروں سے گرد غبار صاف کیا اورفرمایا میں نے گھوڑے کے لیے دو حصے اورسوار کے لیے ایک حصہ مقرر کیا ہے،جوان حصوں میں کمی کریگا خدا اس کو نقصان پہنچائےگا۔​
(طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث صفحہ ۷۳)​
 

intelligent086

Active Member
Nov 10, 2010
333
98
1,128
Lahore,Pakistan
حضرت زبیر بن العوامؓ
نام،نسب،خاندان


زبیر نام،ابوعبداللہ کنیت،حواری رسول اللہ ﷺ لقب،والد کا نام عوام اوروالدہ کا نام صفیہ تھا، پورا سلسلہ نسب یہ ہے،زبیر بن العوام بن خویلدبن اسد بن عبدالعزی بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوئی القرشی الاسدی،حضرت زبیر ؓ کا سلسلہ نسب قصی بن کلاب پر آنحضرت ﷺ سے مل جاتا ہے اور چونکہ ان کی والدہ حضرت صفیہ ؓ سرورِ کائنات ﷺ کی پھوپی تھیں، اس لیے آنحضرت ﷺ کے پھوپھی زاد بھائی تھے، اس کے علاوہ آنحضرت ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین حضرت خدیجہ ؓ کے بھی حقیقی بھتیجے تھے اورحضرت صدیق ؓ کے داماد ہونے کے سبب سے آنحضرت ﷺ کے ساڑھو بھی تھے اوراس طرح ذات نبوی ﷺ کے ساتھ ان کو متعدد نسبتیں حاصل تھیں۔

حضرت زبیر ؓ ہجرت نبوی ﷺ سے اٹھائیس سال قبل پیدا ہوئے،بچپن کے حالات بہت کم معلوم ہیں،لیکن اس قدر یقینی ہے کہ ان کی والدہ حضرت صفیہ ؓ نے ابتداہی سے ان کی ایسی تربیت کی تھی کہ وہ جوان ہوکر ایک عالی حوصلہ،بہادر،الوالعزم مرد ثابت ہوں، چنانچہ وہ بچپن میں عموماًانہیں مارا پیٹا کرتیں اورسخت سے سخت محنت ومشقت کے کام کا عادی بناتی تھیں، ایک دفعہ نوفل بن خویلد جو اپنے بھائی عوام کے مرنے کے بعد ان کے ولی تھے، حضرت صفیہ ؓ پر نہایت خفا ہوئے کہ کیا تم اس بچے کو اس طرح مارتے مارتے مارڈالوگی، اوربنوہاشم سے کہا کہ تم لوگ صفیہ ؓ کو سمجھاتے کیوں نہیں، حضرت صفیہ ؓ نے حسب ذیل رجز میں اس خفگی کا جواب دیا۔
(ابن سعد اصابہ تذکرہ زبیر ؓ)

من قال انی ابغضہ فقد کذب انما اضربہ لکی یلب

جس نے یہ کہا کہ میں اس سے بغض رکھتی ہوں، اس نے جھوٹ کہا، میں اس کو اس لیے مارتی ہوں کہ عقل مند ہو۔

ویھزم الجیش یاتی باسلب الخ

اورفوج کو شکست دے اورمال غنیمت حاصل کرے

اس تربیت کا یہ اثر تھاکہ وہ بچپن ہی میں بڑے بڑے مردوں کا مقابلہ کرنے لگے تھے،ایک دفعہ مکہ میں ایک جوان آدمی سے مقابلہ پیش آیا، انہوں نے ایسا ہاتھ مارا کہ اس کا ہاتھ ٹوٹ گیا،لوگ اسے لاد کر شکایۃً حضرت صفیہ ؓ کے پاس لائے،تو انہوں نے معذرت و عفوخواہی کےبجائے سب سے پہلے یہ پوچھا کہ تم نے زبیر ؓ کو کیسا پایا،بہادر یا بزدل۔
(اصابہ جلد ۱ تذکرہ زبیر ؓ)
 
Top