داعش، لوگوں کے لئے دلچسپ اور پر کشش کیوں؟

  • Work-from-home

iqbal jehangir

Regular Member
Mar 12, 2011
95
17
708
داعش، لوگوں کے لئے دلچسپ اور پر کشش کیوں؟


آجکل بڑی تعداد میں نوجوان و خواتین کا یورپ اور دوسرے ملکوں سے، داعش کے پراپیگنڈہ سے متاثر ہو کر، داعش میں شامل ہونے کے لئے شام جا نے کا چرچا عام ہے۔ د اعش میں دلچسپی اور اس میں کشش کی سب سے بڑی وجہ سوشل میڈیا و ٹویٹر،فیس بک اور وٹس ایپ پر داعش کے لوگوں کی بھاری موجودگی اور ان کی موثر پراپیگنڈہ مہم اور نہایت پر اثر پراپیگنڈہ ویڈیوز وغیرہ ہیں ، جو بڑی مہارت سے بنائی جاتی ہیں اور حقائق کی مکمل عکاسی نہ کی جاتی ہے۔

ان ویڈیوز میں لوگوں کو داعش میں شامل کرنے کی ترغیب دینے کیلئے دولت اسلامیہ کی بڑی خوش کن تصویر کشی ، سادہ اور عام فہم اور موثر انداز میں کی جاتی ہے، بڑے پیمانہ پر ان کی تشہیر کی جاتی ہے اور لوگوں کو سہانے خواب دکھائے جاتے ہیں اور لوگ داعش کے چکر میں آکر اپنی مغرب کی پر آسائیش اور آرام دہ گھریلو زندگی کو چھوڑ کر بھوکے ننگے ،افلاس و جنگ زدہ سرزمین داعش پر جانے کی دوڑ میں شامل ہوجاتے ہیں۔ لوگوں کو سمجھنا چاہئیے کہ ہر چمکدار چیز سونا نہیں ہوتی۔ ٹوئٹر پر دولت اسلامیہ کے حق میں روزانہ ہزاروں کے حساب سےٹوئیٹس ہوتی ہیں جو داعش میں شمولیت اختیار کرنے والی خواتین کی جانب سے نوجوان لڑکیوں اور نوجوانوں کو متاثر کرنے کیلئے ہوتی ہیں۔ یورپ اور دوسرے ملکوں کےنوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو ٹارگٹ کرنے کے لئے ویڈیوز ان ملکوں کے باشندے تیار کرتے ہیں۔کچھ لوگ بنیادی طور پر مہم جو ہوتے ہیں اور کچھ لوگ ظاہری چمک دمک سے متاثر ہونے والے ہوتے ہیں۔ داعش یہ سب کچھ بڑے سوچے سمجھے،سائینٹفک اور منظم انداز لوگوں کو اپنی طرف راغب کرنے کیلئے کر رہی ہے۔

کچھ خواتین داعش کے جنگجوؤں سے شادی کی خواہش مند ہوتی ہیں اور ان کے خیال میں وہ جنگجو ان خواتین کو معاشرے میں ایک بہتر رتبہ دے سکتے تھے۔د اعش کی جانب سے لوگوں کوپر کشش نوکری دینے کے لیے مستقل مختلف زبانوں میں آن لائن پیغامات بھی دیے جا تےہیں جن میں مسلمانوں اور مسلمان خاندانوں کو دولت اسلامیہ کی خلافت میں آ نے کے لئے کہا جاتا ہے۔زیادہ تر لوگوں نے ان پیغامات کو نظر انداز کیا ہے، مگر خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد ان سے متاثر ہوتی نظر آتی ہے۔داعش میں میں شامل ہونے کے لیےیورپ سے ہجرت کرنے والوں میں ، خواتین کا تناسب حیرت انگیز حد تک بڑھ گیا ہے۔ خواتین کو یہ علم نہ ہوتا ہے کہ جنگ کے حالات میں، ’کسی مردجنگجو کی زندگی کی ضمانت ایک یا دو مہینے ہوتی ہے۔ جنگجو کے مرنے کے بعد اس بیچاری عورت کا کیا ہو گا جس نے اس سے شادی کی ہے؟ عورت کواپنے خاوند کے مرنے پر اسلامی شریعہ کے مطابق عدت کےچار مہینے دس دن پورا کرنا ہوتے ہیں۔ حاملہ ہونے کی صورت میں عدت اس سے بھی لمبی ہوتی ہے۔ اور اس کے بعد وہ پھر کسی دوسرے جنگجو سے شادی کرتی ہے اوروہ بھی مر جاتا ہے تو اس کو دوبارہ ای عمل سے گزرنا پڑتا ہے ۔اکثر جنگجووں کی اس عورت سے پہلے ہی دو تین بیویاں ہوتی ہیں۔عورت سوتن کو کسی قیمت برداشت کرنے کو تیار نہ ہوتی ہے۔خ واتین کو احساس ہونا چاہئیے کہ’یہ خوش گوار نہیں بلکہ ایک تکلیف دہ زندگی ہے۔

مختلف ملکوں میں داعش کے ریکروٹر بھی موجود ہوتے ہیں جو شام کو ہجرت کرنے والوں کی دامے، درمے، قدمے، سخنے مدد کرتے اور ان کو مشورہ دیتےہیں۔ نوجواں لڑکے و لڑکیاں اپنی تئیں یہ سمجھتے ہیں کہ مسلم نشاۃ الثانیہ ہو رہی ہے اور وہ اس نام نہاد نو زائدہ اسلامی خلافت و مملکت کی خدمت و تعمیرکرکے دین اسلام کی سربلندی کے لئے کا م کریں گے اور اپنا رول ادا کریں گے اوراسلامی ماحول میں ،اسلام کے مطابق زندگی بسر کریں گے، جو خواب و سراب کے علاوہ کچھ اور نہ ہے۔

کچھ نوجوان لڑکے اور لڑکیان شادی کے چکر میں ہوتے ہیں۔ کچھ نوجوان جذبات کی لہر میں جہادی زندگی سے بڑے متاثر نظر آتے ہیں۔نوجوان جو زیادہ تر تخیلاتی و تصوراتی دنیا میں رہتے ہیں، تصوراتی دنیا میں رہتے ہوئے ، اور وہ اپنے ذہن میں آئندہ کی زندگی سے متعلق تخلیاتی محل تعمیر کرتے ہوئے اور خیالی منصوبے وضع کرتے ہوئے، نام نہاد خلافت میں اپنا کردار ادا کرنے کی خاطر اپنا گھر بار اور وطن چھوڑ آتے ہیں اور ملک شام میں جا وارد ہوتے ہیں،جہاں داعش کے زیر تسلط لوگوں میں اسلام نام کی کوئی چیز نہ ہوتی ہے۔ جہان یزیدی عورتوں کو غلام کے طور پر رکھا جاتا ہے اور یہ خواتین جنگجووں کی جنسی تسکین کا ذریعہ ہوتی ہیں، جہاں پہنچ کر ان کو اندازہ ہوتا ہے کہ جو کچھ سوچاتھا وہ اک خواب و سراب تھا اور ان کے خیالاتی محل دہڑام سے زمیں بوس ہو جاتے ہے، وہ حسرت و یاس کی تصویر بن جاتے اور پھر وہ وہاں سے بھاگنے کی سعی کرنا شروع کر دیتے ہیں لہزا یہ کہا جا سکتا ہے کہ لوگ بڑی تعداد میں داعش کی سرگرمیوں سے متنفر ہو کر واپس بھاگ رہے ہیں۔

داعش میں موجود لوگوں میں عرب اور غیر عرب کی بہت بڑی خلیج حائل ہے۔ صرف غیر ملکی لوگوں کا جنگ کا ایندہن بنانے کیلئےخودکش بمبار کے طور پر بھیجا جاتا ہے۔

دہشتگرد گروہ داعش ،شام و عراق میں جنگی جرائم، انسانیت سوز مظالم ، یزیدی اقلیت کے قتلِ عام اور نسل کشی اور قتلِ عام جیسی کارروائیوں میں ملوث ہے ۔
داعش سلفی اور وہابیت کی انتہا پسند شاخ ہے۔ د اعش دہشت گردوں نے اسلام کے پانچوں مکاتب فکر میں سے کسی ایک کو بھی قبول نہیں کیا ہے جبکہ چار مکاتب تو سنی مسلمان ہیں جب یہ چاروں کو ہی نہیں مان رہے تو پھر کس طرح سنی مسلمان کہلوانے کے حق دار ہیں۔ داعش نےاسلام کے بالکل بر عکس اصول اور قواعد بنا لئے ہیں ، جیسا کہ ان کے اصولوں کے مطابق شیعہ اور عیسائی خواتین کی بے حرمتی اور آبرو ریزی جائز ہے ، اسی طرح انسانوں کے جگر نکال نکال کر کھانا بھی ان کے نزدیک حرام نہیں ہے،ان کے نزدیک جہاد النکاح جیسی لعنت بھی جائز ہے جس میں اپنے جسم کی بھوک کی خاطر خواتین کا استعمال اور پھر تیس منٹ بعد طلاق دے دیا جانا۔

ڈاکٹر جان اینڈریو کہتے ہیں کہ اس طرح کے جہادی نام نہاد گروہوں میں لڑنے والے افراد یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ شاید وہ اسلام کی خدمت کر رہے ہیں لیکن در اصل وہ دشمن کے مفادات کا تحفظ کر رہے ہوتے ہیں اور انہیں خود بھی علم نہیں ہوتا۔ان کاکہنا تھا کہ داعش کا رویہ بالکل غیرا سلامی ہے،انہوں نے کہا کہ داعش کے دہشت گرد دہشت گردی اور جرم کو فلم بندی کرتے ہیں اور مزے سے نشر کرتے ہیں جو کہ خود ایک غیر اسلامی فعل ہے،وہ انتہائی فخرکرتے ہیں اپنے جرائم اور ظالمانہ کاروائیوں پر ، اور یہ واقعاً اسلام نہیں ہے بلکہ اسلام کی تعلیمات میں ایسا کہیں نہیں ملتا ہے۔
الغرض داعش خوارج قاتلوں اور ٹھگوں کا گروہ ہے جو اسلام کی کوئی خدمت نہ کر رہاہے بلکہ مسلمانوں اور اسلام کی بدنامی کا باعث ہے اور مسلمان حکومتوں کو عدم استحکام میں مبتلا کر رہا ہے۔ داعش کے مظالم کے سامنے ہلاکو اور چنگیز خان کے مظالم ہیچ ہیں۔
شریعت اور اسلام کے احکامات کے مطابق داعش اور اس کے پیرو کار خوارج ہیں۔ خوارج کی اصطلاح ان لوگوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو نظام اور/یا اسلام کے خلاف بغاوت کرتے ہیں۔
داعش ایک ناسور ہے اورکسی صورت میں بھی اُسے دنیا میں پذیرائی نہیں ملنی چاہئے۔ داعش دہشتگرد تنظیم نہ صرف مشرق وسطی بلکہ بین الاقوامی برادری اور عالمی امن و سلامتی کے لئے بہت بڑا اور سنگین خطرہ ہے، داعش کا خاتمہ عالمی و خطے کےامن واستحکام کیلئے ضروری ہے ۔امت مسلمہ کو ان قاتلوں اور ٹھگوں کی مکاری و دہوکہ دہی سے ہوشیار رہنا ہو گا۔
 
Top