"حدیث ِ لَولَاک " سے متعلقہ روایات کی اسنادی حیثیت
پہلی روایت
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مَنْصُورٍ الْعَدْلُ ، ثنا أَبُو الْحَسَنِ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، ثنا أَبُو الْحَارِثِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُسْلِمٍ الْفِهْرِيُّ ، ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْلَمَةَ ، أَنْبَأَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَمَّا اقْتَرَفَ آدَمُ الْخَطِيئَةَ قَالَ: يَا رَبِّ أَسْأَلُكَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ لَمَا غَفَرْتَ لِي ، فَقَالَ اللَّهُ: يَا آدَمُ ، وَكَيْفَ عَرَفْتَ مُحَمَّدًا وَلَمْ أَخْلُقْهُ ؟ قَالَ: يَا رَبِّ ، لِأَنَّكَ لَمَّا خَلَقْتَنِي بِيَدِكَ وَنَفَخْتَ فِيَّ مِنْ رُوحِكَ رَفَعْتُ رَأْسِي فَرَأَيْتُ عَلَىَ قَوَائِمِ الْعَرْشِ مَكْتُوبًا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ فَعَلِمْتُ أَنَّكَ لَمْ تُضِفْ إِلَى اسْمِكَ إِلَّا أَحَبَّ الْخَلْقِ إِلَيْكَ ، فَقَالَ اللَّهُ: صَدَقْتَ يَا آدَمُ ، إِنَّهُ لَأُحِبُّ الْخَلْقِ إِلَيَّ ادْعُنِي بِحَقِّهِ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكَ وَلَوْلَا مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُكَ
" هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَهُوَ أَوَّلُ حَدِيثٍ ذَكَرْتُهُ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ فِي هَذَا الْكِتَابِ "
(مستدرک حاکم 2/672، دلائل النبوۃ للبیہقی 5/489، تاریخ دمشق 7/ 437 ، الشریعۃ للآجری 973)
''جب آدم ؑ غلطی کے مرتکب ہوئے تو اُنہوں نے یہ دعا کی: اے پروردگار! میں محمدؐ کے وسیلہ سے تجھ سے مغفرت کا خواستگار ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا: اے آدم ؑ! تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کیسے جانتے ہو، حالانکہ میں نے تو اسے ابھی پیدا ہی نہیں کیا؟ عرض کیا: اے اللہ! جب تو نے مجھے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور مجھ میں روح پھونکی تو میں نے اپنا سراُٹھایا اور عرش کے پایوں پر لکھا ہوا دیکھا تھا: لا إلہ إلا اﷲ محمد رسول اﷲ تو میں سمجھ گیا کہ جس کو تو نے اپنے نام کے ساتھ ملا رکھا ہے، کائنات میں اس سے برتر کوئی نہیں ہوسکتا تو اللہ نے فرمایا: میں نے تجھے معاف کردیا اور اگر محمدؐ نہ ہوتے تو میں تجھے پیدا ہی نہ کرتا۔''
یہ روایت "شدید ضعیف" بلکہ "موضوع" ہے۔
اسکی سندکا مرکزی راوی "عبد الرحمٰن بن زید بن اسلم " بالاتفاق ضعیف ہے اور اپنے باپ سے (منسوب کر کے) موضوع روایات بیان کرتا ہے اور مذکورہ روایت بھی یہ اپنے والد سے ہی بیان کر رہا ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مَنْصُورٍ الْعَدْلُ ، ثنا أَبُو الْحَسَنِ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، ثنا أَبُو الْحَارِثِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُسْلِمٍ الْفِهْرِيُّ ، ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْلَمَةَ ، أَنْبَأَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَمَّا اقْتَرَفَ آدَمُ الْخَطِيئَةَ قَالَ: يَا رَبِّ أَسْأَلُكَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ لَمَا غَفَرْتَ لِي ، فَقَالَ اللَّهُ: يَا آدَمُ ، وَكَيْفَ عَرَفْتَ مُحَمَّدًا وَلَمْ أَخْلُقْهُ ؟ قَالَ: يَا رَبِّ ، لِأَنَّكَ لَمَّا خَلَقْتَنِي بِيَدِكَ وَنَفَخْتَ فِيَّ مِنْ رُوحِكَ رَفَعْتُ رَأْسِي فَرَأَيْتُ عَلَىَ قَوَائِمِ الْعَرْشِ مَكْتُوبًا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ فَعَلِمْتُ أَنَّكَ لَمْ تُضِفْ إِلَى اسْمِكَ إِلَّا أَحَبَّ الْخَلْقِ إِلَيْكَ ، فَقَالَ اللَّهُ: صَدَقْتَ يَا آدَمُ ، إِنَّهُ لَأُحِبُّ الْخَلْقِ إِلَيَّ ادْعُنِي بِحَقِّهِ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكَ وَلَوْلَا مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُكَ
" هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَهُوَ أَوَّلُ حَدِيثٍ ذَكَرْتُهُ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ فِي هَذَا الْكِتَابِ "
(مستدرک حاکم 2/672، دلائل النبوۃ للبیہقی 5/489، تاریخ دمشق 7/ 437 ، الشریعۃ للآجری 973)
''جب آدم ؑ غلطی کے مرتکب ہوئے تو اُنہوں نے یہ دعا کی: اے پروردگار! میں محمدؐ کے وسیلہ سے تجھ سے مغفرت کا خواستگار ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا: اے آدم ؑ! تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کیسے جانتے ہو، حالانکہ میں نے تو اسے ابھی پیدا ہی نہیں کیا؟ عرض کیا: اے اللہ! جب تو نے مجھے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور مجھ میں روح پھونکی تو میں نے اپنا سراُٹھایا اور عرش کے پایوں پر لکھا ہوا دیکھا تھا: لا إلہ إلا اﷲ محمد رسول اﷲ تو میں سمجھ گیا کہ جس کو تو نے اپنے نام کے ساتھ ملا رکھا ہے، کائنات میں اس سے برتر کوئی نہیں ہوسکتا تو اللہ نے فرمایا: میں نے تجھے معاف کردیا اور اگر محمدؐ نہ ہوتے تو میں تجھے پیدا ہی نہ کرتا۔''
یہ روایت "شدید ضعیف" بلکہ "موضوع" ہے۔
اسکی سندکا مرکزی راوی "عبد الرحمٰن بن زید بن اسلم " بالاتفاق ضعیف ہے اور اپنے باپ سے (منسوب کر کے) موضوع روایات بیان کرتا ہے اور مذکورہ روایت بھی یہ اپنے والد سے ہی بیان کر رہا ہے۔
عبد الرحمٰن بن زید بن اسلم کے بارے میں محدثین کی آراء
ابن حجر نے اسکو ضعیف کہا ہے
عبد الرحمن بن زيد بن أسلم العدوي مولاهم ضعيف
(تقریب 3865)
ابن حبان نے کہا
كَانَ مِمَّن يقلب الْأَخْبَار وَهُوَ لَا يعلم حَتَّى كثر ذَلِك فِي رِوَايَته من رفع الْمَرَاسِيل وَإسْنَاد الْمَوْقُوف فَاسْتحقَّ التّرْك
"یہ شخص لاعلمی میں احادیث کو بدل دیا کرتا تھا حتیٰ کہ اس نے بے شمار مرسل روایات کو مرفوع اور موقوف روایات کو مسند بنا دیا ،جس کی وجہ سے یہ محدثین کے نزدیک متروک قرار پایا ۔''
(المجروحین 2/57)
ابن جوزی نے کہا
ضعفه أحمد وعلي وأبو داود وأبو زرعة وأبو حاتم الرازي والنسائي والدارقطني (الضعفاء والمتروکین 2/95) '' عبدالرحمن بن زیدکو امام احمد بن حنبل ،علی بن مدینی ، ابوداود ، ابوزرعہ ، ابو حاتم رازی ، امام نسائی ، امام دار قطنی رحمہم اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے "۔
یحییٰ بن معین ، علی بن مدینی ، امام بخاری ، امام نسائی نے بھی اسکو ضعیف کہا ہے ۔
میزان الاعتدال 2/564
ابن سعد نے اسکو ضعیف کہا: ۔
و قال ابن سعد : كان كثير الحديث ، ضعيفا جدا
ابن خزیمہ نے برے حافظے والا کہا
و قال ابن خزيمة : ليس هو ممن يحتج أهل العلم بحديثه لسوء حفظه
الساجی نے منکر الحدیث کہا
قال الساجى : و هو منكر الحديث
الجوزجانی نے ضعیف کہا
و قال الجوزجانى : أولاد زيد ضعفاء
اور ابن جوزی نے کہا کہ اس کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے
و قال ابن الجوزى : أجمعوا على ضعفه
(تہذیب التہذیب 6/178-179)
عبد الرحمن بن زيد بن أسلم العدوي مولاهم ضعيف
(تقریب 3865)
ابن حبان نے کہا
كَانَ مِمَّن يقلب الْأَخْبَار وَهُوَ لَا يعلم حَتَّى كثر ذَلِك فِي رِوَايَته من رفع الْمَرَاسِيل وَإسْنَاد الْمَوْقُوف فَاسْتحقَّ التّرْك
"یہ شخص لاعلمی میں احادیث کو بدل دیا کرتا تھا حتیٰ کہ اس نے بے شمار مرسل روایات کو مرفوع اور موقوف روایات کو مسند بنا دیا ،جس کی وجہ سے یہ محدثین کے نزدیک متروک قرار پایا ۔''
(المجروحین 2/57)
ابن جوزی نے کہا
ضعفه أحمد وعلي وأبو داود وأبو زرعة وأبو حاتم الرازي والنسائي والدارقطني (الضعفاء والمتروکین 2/95) '' عبدالرحمن بن زیدکو امام احمد بن حنبل ،علی بن مدینی ، ابوداود ، ابوزرعہ ، ابو حاتم رازی ، امام نسائی ، امام دار قطنی رحمہم اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے "۔
یحییٰ بن معین ، علی بن مدینی ، امام بخاری ، امام نسائی نے بھی اسکو ضعیف کہا ہے ۔
میزان الاعتدال 2/564
ابن سعد نے اسکو ضعیف کہا: ۔
و قال ابن سعد : كان كثير الحديث ، ضعيفا جدا
ابن خزیمہ نے برے حافظے والا کہا
و قال ابن خزيمة : ليس هو ممن يحتج أهل العلم بحديثه لسوء حفظه
الساجی نے منکر الحدیث کہا
قال الساجى : و هو منكر الحديث
الجوزجانی نے ضعیف کہا
و قال الجوزجانى : أولاد زيد ضعفاء
اور ابن جوزی نے کہا کہ اس کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے
و قال ابن الجوزى : أجمعوا على ضعفه
(تہذیب التہذیب 6/178-179)
امام حاکم کا تساہل
امام حاکم نے اس روایت کو نقل کر کے کہا : هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ "یہ حدیث صحیح الاسناد ہے"۔
امام حاکم نے اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد اگرچہ اسے صحیح الاسناد کہا ہے لیکن امام حاکم تصحیح حدیث کے معاملے میں متساہل ہیں کسی روایت کے بارے میں انکی منفرد تصیح قبول نہیں کی جاتی (اس کا ذکر آگے آ رہاہے)۔
لہٰذا یہ حاکم کا صریح تساہل ہے اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ خود حاکم اپنی کتا ب میں "عبدالرحمن بن زید بن اسلم" کے متعلق یہ صراحت کر چکے ہیں کہ یہ اپنے باپ سے موضوع احادیث بیان کرتا تھا
عبد الرَّحْمَن بن زيد بن أسلم روى عَن أَبِيه أَحَادِيث مَوْضُوعَة
(المدخل إلی معرفة الصحیح من السقیم 1/154)
اب ایک طرف تو اس کی "عن ابیہ " سے مروی روایات کو موضوع قرار دینا اور پھر خود ہی اس روایت کو صحیح السند کہنا صریح تساہل نہیں تو اور کیا ہے؟
امام حاکم کے اسی تساہل کی نشاندہی امام ذہبی نے ان الفاظ میں کی ہے
ان في المستدرك أحاديث كثيرة ليست على شرط الصحة بل فيه أحاديث موضوعة شان المستدرك بإخراجها فيه
(تذکرۃ الحفاظ 3/1042)
''بلاشبہ المستدرک میں بکثرت ایسی احادیث موجود ہیں جوصحیح حدیث کی شرط کے مطابق نہیں بلکہ اس میں موضوع احادیث بھی ہیں جن کا تذکرہ مستدرک پر ایک دھبہ ہے۔''
حاکم کے اسی تساہل کی بنا پر انکو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
ذہبی کا حاکم کی تصیح پر رد
ذہبی مستدرک کی تلخیص میں حاکم کی اس تصیح پر تعاقب کرتے ہوئے لکھتے ہیں
[التعليق - من تلخيص الذهبي] 4228 - بل موضوع و عبد الرحمٰن واہ ، رواہ عبد اللہ بن مسلم الفھری ولا ادری من ذا
(ذیل المستدرک 2/723)
''بلکہ یہ حدیث موضوع (من گھڑت) ہے اوراس کا راوی عبدالرحمن انتہائی ضعیف ہے اور میں اس کے دوسرے راوی عبد اللہ بن مسلم فہری کے بارے میں نہیں جانتا کہ یہ کون ہے؟''۔
حافظ ذہبی نے میزان الاعتدال میں فہری (اس روایت کے راوی) کا تذکرہ کیا ہے اور اس کی اسی مذکورہ روایت کو باطل قرار دیا ہے
عبد الله بن مسلم أبو الحارث الفهري
روى عن إسماعيل بن مسلمة ابن قعنب، عن عبد الرحمن بن يزيد بن اسلم خبرا باطلا فيه: يا آدم لولا محمد ما خلقتك
(میزان الاعتدال 2/504)
ابن حجر کا حاکم کی تصیح پر رد
ابن حجر نے حاکم کی تصیح پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے لکھا
ومن العجيب ما وقع للحاكم أنه أخرج لعبد الرحمن بن زيد بن أسلم. وقال بعد روايته
"هذا صحيح الإسناد، وهو أول حديث ذكرته لعبد الرحمن"4. مع أنه قال في كتابه الذي جمعه في الضعفاء:
"عبد الرحمن بن زيد بن أسلم روى/(ر26/ب) عن أبيه أحاديث موضوعة لا يخفى على من تأملها من أهل الصنعة أن الحمل فيها عليه".
فكان هذا من عجائب ما وقع له من التساهل والغفلة.
(النکت 1/318-319)
"اور یہ عجیب بات ہے کہ حاکم نے عبد الرحمٰن بن زید کی روایت کو نقل کرنے کے بعد کہا
'یہ روایت صحیح الاسناد ہے اور یہ عبد الرحمٰن کی ذکر کردہ پہلی روایت ہے (مستدرک میں)' ،
باوجود اس کے اپنی کتاب، جس میں انھوں نے الضعفاء کو جمع کیا ، کہا
' یہ اپنے باپ سے موضوع احادیث بیان کرتا تھا۔ غور کرنے سے اس فن کے ماہرین پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اس حدیث کا دارو مدار اس عبدالرحمن بن زید پر ہے '،
(ابن حجر کہتے ہیں) یہ ان عجائب میں سے ہے جو ان (حاکم ) سے تساہل اور غفلت کی بنا پر ہوا "۔
ابن حجر نے لسان المیزان میں "عبد اللہ بن مسلم الفھری (اس روایت کے راوی)" کے ترجمہ میں اس روایت کو باطل قرار دیا
عبد الله بن مسلم أبو الحارث الفهري روى عن إسماعيل بن مسلمة بن قعنب عبد الرحمن بن يزيد بن أسلم خبرا باطلا فيه يا آدم لولا محمد ما خلقتك رواه البيهقي في دلائل النبوة
(لسان المیزان 3/359)
ابن حجر حاکم کے اس روایت کو صحیح الاسناد کہنے پر تبصر ہ کرتے ہوئے ایک اور مقام پر لکھتے ہیں
قلت: عبد الرحمن متفق على تضعيفه.
(اتحاف المھرۃ 12/97)
"میں (ابن حجر) کہتا ہو ں کہ :عبد الرحمٰن کی تضعیف پر سب متفق ہیں"۔
ابن حجر نے امام حاکم کے اس تساہل اور تناقض کی وجہ یہ ذکر کی ہے کہ
أنه حصل له تغير وغفلة في آخر عمره ويدل على ذلك أنه ذكر جماعة في كتاب الضعفاء له وقطع
بترك الرواية عنهم ومنع من الاحتجاج بهم ثم أخرج أحاديث بعضهم في مستدركه وصححها من ذلك
(لسان المیزان 5/233)
'' مستدرک کی تصنیف کے وقت ان کے حافظے میں فرق آگیا تھا، اس کی دلیل یہ ہے کہ اُنہوں نے رواة کی ایک کثیر تعداد کو اپنی کتاب الضعفاء میں ذکر کیا ہے اور ان سے استدلال کو ممنوع قرار دیا ہے ، لیکن اپنی کتاب مستدرک میں خود اُنہیں سے روایات نقل کی ہیں اور اُنہیں صحیح قرار دیا ہے"۔
اس کے بعد بطور مثال ابن حجر نے اس روایت کا حوالہ دیا
أنه أخرج حديثا لعبد الرحمن بن زيد بن أسلم وكان قد ذكره في الضعفاء فقال: أنه روى عن أبيه أحاديث موضوعة لا تخفى على من تأملها من أهل الصنعة أن الحمل فيها عليه
انہوں نے عبد الرحمٰن بن زید بن اسلم کی روایت کو مستدرک میں نقل کیا حالانکہ وہ اسکا ذکر الضعفاء میں کر چکے تھے انہوں نے کہا: کہ یہ اپنے باپ سے موضوع احادیث بیان کرتا تھا۔ غور کرنے سے اس فن کے ماہرین پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اس حدیث کا دارو مدار اس عبدالرحمن بن زید پر ہے "۔
ابن تیمیہ کا حاکم کی تصیح پر رد
ابن تیمیہ لکھتے ہیں
قلت: ورواية الحاكم لهذا الحديث مما أنكر عليه، فإنه نفسه قد قال في كتاب المدخل(408) إلى معرفة الصحيح من السقيم: عبد الرحمن بن زيد بن أسلم روى عن أبيه أحاديث موضوعة لا يخفى على من تأملها من أهل الصنعة أن الحمل فيها عليه
قلت: وعبد الرحمن بن زيد بن أسلم ضعيف باتفاقهم يغلط كثيراً، ضعفه أحمد بن حنبل(409) وأبوزرعة وأبوحاتم(410) والنسائي(411)، والدارقطني(412) وغيرهم، وقال أبوحاتم بن حبان: كان يقلب الأخبار وهو لا يعلم، حتى كثر ذلك من روايته، من رفع المراسيل وإسناد الموقوف فاستحق الترك(413).
وأما تصحيح الحاكم لمثل هذا الحديث وأمثاله، فهذا مما أنكره عليه أئمة العلم بالحديث وقالوا: إن الحاكم يصحح أحاديث وهي موضوعة مكذوبة عند أهل المعرفة بالحديث.
ولهذا كان أهل العلم بالحديث لا يعتمدون على مجرد تصحيح الحاكم
''امام حاکم کے اس حدیث کو روایت کرنے پر سخت تنقید کی گئی ہے کیونکہ انہوں نے بذاتِ خود اپنی کتاب المدخل إلی معرفة الصحیح من السقیم میں عبدالرحمن بن زید بن اسلم کے متعلق یہ صراحت کی ہے کہ یہ اپنے باپ سے موضوع احادیث بیان کرتا تھا۔ غور کرنے سے اس فن کے ماہرین پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اس حدیث کا دارو مدار اس عبدالرحمن بن زید پر ہے اور میں (ابن تیمیہ )کہتا ہوں کہ عبدالرحمن بن زید بن اسلم سب محدثین کے نزدیک بالاتفاق ضعیف ہے کیونکہ وہ بہت غلطیاں کرتا تھا۔ اسی بنا پر امام احمد بن حنبل، ابوزرعہ، ابوحاتم، امام نسائی، امام دارقطنی رحمہم اللہ اور دیگر متعدد محدثین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ ابن حبان فرماتے ہیں وہ لاعلمی میں احادیث کو بدل دیا کرتا تھا، حتیٰ کہ اس نے متعدد مرسل روایات کو مرفوع اورموقوف روایات کومسند بنا دیاجس کی وجہ سے یہ محدثین کے نزدیک متروک قرار پایا۔ اس جیسی احادیث کو صحیح قرار دینے کی وجہ سے محدثین نے امام حاکم پر سخت تنقیدکی ہے اور کہا ہے کہ امام حاکم ایسی روایات کو بھی صحیح قرار دے دیتے ہیں جو ماہرین حدیث کے نزدیک موضوع اور من گھڑت ہیں ۔ اسی لئے حدیث کے ماہرین علما تنہا امام حاکم کے کسی حدیث کو صحیح قرار دینے پر اعتماد نہیں کرتے'' ۔
یہی بات ابن تیمیہ نے (مجموع الفتاویٰ 1/254) میں کہی ۔
حافظ ابن عبدالہادی (المتوفى: 744ھ) کا حاکم پر رد اور اس روایت کو موضوع کہنا
امام سبکی نے بھی امام حاکم کی تقلید میں اس حدیث کو صحیح کہا ہے جس پرحافظ ابن عبدالہادی نے اس حدیث کو موضوع قرار دیتے ہوئے کہا
وقد أخطأ الحاكم في تصحيحه وتناقض تناقضاً فاحشاً
(الصارم المنکی فی الرد علی السبکی 1/43)
کہ امام حاکم کا اس حدیث کو صحیح کہنا ان کی خطاء اور صریح تناقض ہے۔
وقد أخطأ الحاكم في تصحيحه وتناقض تناقضاً فاحشاً
(الصارم المنکی فی الرد علی السبکی 1/43)
کہ امام حاکم کا اس حدیث کو صحیح کہنا ان کی خطاء اور صریح تناقض ہے۔
الھیثمی (المتوفى: 807ھ) کا اس روایت کو رد کرنا
الھیثمی نے اسکو طبرانئ کے حوالے سے نقل کر کے کہا
وَفِيهِ مَنْ لَمْ أَعْرِفْهُمْ
(مجمع الروائد 8/253)
''اس حدیث میں ایسے راوی ہیں جن کو میں نہیں جانتا"۔
بیہقی کا رد
بیہقی نے اسکو نقل کرنے کے بعد کہا
تفرد به عبد الرحمن بن زيد بن أسلم من هذا الوجه عنه وهو ضعيف والله أعلم
(دلائل النبوۃ 5/489)
"یہ عبد الرحمٰن بن زید بن اسلم کا تفرد ہے اور وہ ضعیف ہے"۔