روایت ’’ لولاک ‘‘ کی حقیقت ، محدثین کی زبان سے

  • Work-from-home

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913



"حدیث ِ لَولَاک " سے متعلقہ روایات کی اسنادی حیثیت
پہلی روایت

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مَنْصُورٍ الْعَدْلُ ، ثنا أَبُو الْحَسَنِ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، ثنا أَبُو الْحَارِثِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُسْلِمٍ الْفِهْرِيُّ ، ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْلَمَةَ ، أَنْبَأَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَمَّا اقْتَرَفَ آدَمُ الْخَطِيئَةَ قَالَ: يَا رَبِّ أَسْأَلُكَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ لَمَا غَفَرْتَ لِي ، فَقَالَ اللَّهُ: يَا آدَمُ ، وَكَيْفَ عَرَفْتَ مُحَمَّدًا وَلَمْ أَخْلُقْهُ ؟ قَالَ: يَا رَبِّ ، لِأَنَّكَ لَمَّا خَلَقْتَنِي بِيَدِكَ وَنَفَخْتَ فِيَّ مِنْ رُوحِكَ رَفَعْتُ رَأْسِي فَرَأَيْتُ عَلَىَ قَوَائِمِ الْعَرْشِ مَكْتُوبًا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ فَعَلِمْتُ أَنَّكَ لَمْ تُضِفْ إِلَى اسْمِكَ إِلَّا أَحَبَّ الْخَلْقِ إِلَيْكَ ، فَقَالَ اللَّهُ: صَدَقْتَ يَا آدَمُ ، إِنَّهُ لَأُحِبُّ الْخَلْقِ إِلَيَّ ادْعُنِي بِحَقِّهِ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكَ وَلَوْلَا مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُكَ


" هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَهُوَ أَوَّلُ حَدِيثٍ ذَكَرْتُهُ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ فِي هَذَا الْكِتَابِ "

(مستدرک حاکم 2/672، دلائل النبوۃ للبیہقی 5/489، تاریخ دمشق 7/ 437 ، الشریعۃ للآجری 973)

''جب آدم ؑ غلطی کے مرتکب ہوئے تو اُنہوں نے یہ دعا کی: اے پروردگار! میں محمدؐ کے وسیلہ سے تجھ سے مغفرت کا خواستگار ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا: اے آدم ؑ! تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کیسے جانتے ہو، حالانکہ میں نے تو اسے ابھی پیدا ہی نہیں کیا؟ عرض کیا: اے اللہ! جب تو نے مجھے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور مجھ میں روح پھونکی تو میں نے اپنا سراُٹھایا اور عرش کے پایوں پر لکھا ہوا دیکھا تھا: لا إلہ إلا اﷲ محمد رسول اﷲ تو میں سمجھ گیا کہ جس کو تو نے اپنے نام کے ساتھ ملا رکھا ہے، کائنات میں اس سے برتر کوئی نہیں ہوسکتا تو اللہ نے فرمایا: میں نے تجھے معاف کردیا اور اگر محمدؐ نہ ہوتے تو میں تجھے پیدا ہی نہ کرتا۔''


یہ روایت "شدید ضعیف" بلکہ "موضوع" ہے۔

اسکی سندکا مرکزی راوی "عبد الرحمٰن بن زید بن اسلم " بالاتفاق ضعیف ہے اور اپنے باپ سے (منسوب کر کے) موضوع روایات بیان کرتا ہے اور مذکورہ روایت بھی یہ اپنے والد سے ہی بیان کر رہا ہے۔

عبد الرحمٰن بن زید بن اسلم کے بارے میں محدثین کی آراء

ابن حجر نے اسکو ضعیف کہا ہے

عبد الرحمن بن زيد بن أسلم العدوي مولاهم ضعيف


(تقریب 3865)

ابن حبان نے کہا

كَانَ مِمَّن يقلب الْأَخْبَار وَهُوَ لَا يعلم حَتَّى كثر ذَلِك فِي رِوَايَته من رفع الْمَرَاسِيل وَإسْنَاد الْمَوْقُوف فَاسْتحقَّ التّرْك


"یہ شخص لاعلمی میں احادیث کو بدل دیا کرتا تھا حتیٰ کہ اس نے بے شمار مرسل روایات کو مرفوع اور موقوف روایات کو مسند بنا دیا ،جس کی وجہ سے یہ محدثین کے نزدیک متروک قرار پایا ۔''


(المجروحین 2/57)



ابن جوزی نے کہا

ضعفه أحمد وعلي وأبو داود وأبو زرعة وأبو حاتم الرازي والنسائي والدارقطني (الضعفاء والمتروکین 2/95) '' عبدالرحمن بن زیدکو امام احمد بن حنبل ،علی بن مدینی ، ابوداود ، ابوزرعہ ، ابو حاتم رازی ، امام نسائی ، امام دار قطنی رحمہم اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے "۔

یحییٰ بن معین ، علی بن مدینی ، امام بخاری ، امام نسائی نے بھی اسکو ضعیف کہا ہے ۔

میزان الاعتدال 2/564

ابن سعد نے اسکو ضعیف کہا: ۔

و قال ابن سعد : كان كثير الحديث ، ضعيفا جدا


ابن خزیمہ نے برے حافظے والا کہا

و قال ابن خزيمة : ليس هو ممن يحتج أهل العلم بحديثه لسوء حفظه


الساجی نے منکر الحدیث کہا

قال الساجى : و هو منكر الحديث


الجوزجانی نے ضعیف کہا

و قال الجوزجانى : أولاد زيد ضعفاء


اور ابن جوزی نے کہا کہ اس کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے


و قال ابن الجوزى : أجمعوا على ضعفه


(تہذیب التہذیب 6/178-179)

امام حاکم کا تساہل

امام حاکم نے اس روایت کو نقل کر کے کہا : هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ "یہ حدیث صحیح الاسناد ہے

امام حاکم نے اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد اگرچہ اسے صحیح الاسناد کہا ہے لیکن امام حاکم تصحیح حدیث کے معاملے میں متساہل ہیں کسی روایت کے بارے میں انکی منفرد تصیح قبول نہیں کی جاتی (اس کا ذکر آگے آ رہاہے)۔

لہٰذا یہ حاکم کا صریح تساہل ہے اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ خود حاکم اپنی کتا ب میں "عبدالرحمن بن زید بن اسلم" کے متعلق یہ صراحت کر چکے ہیں کہ یہ اپنے باپ سے موضوع احادیث بیان کرتا تھا

عبد الرَّحْمَن بن زيد بن أسلم روى عَن أَبِيه أَحَادِيث مَوْضُوعَة


(المدخل إلی معرفة الصحیح من السقیم 1/154)



اب ایک طرف تو اس کی "عن ابیہ " سے مروی روایات کو موضوع قرار دینا اور پھر خود ہی اس روایت کو صحیح السند کہنا صریح تساہل نہیں تو اور کیا ہے؟

امام حاکم کے اسی تساہل کی نشاندہی امام ذہبی نے ان الفاظ میں کی ہے

ان في المستدرك أحاديث كثيرة ليست على شرط الصحة بل فيه أحاديث موضوعة شان المستدرك بإخراجها فيه


(تذکرۃ الحفاظ 3/1042)

''بلاشبہ المستدرک میں بکثرت ایسی احادیث موجود ہیں جوصحیح حدیث کی شرط کے مطابق نہیں بلکہ اس میں موضوع احادیث بھی ہیں جن کا تذکرہ مستدرک پر ایک دھبہ ہے۔''


حاکم کے اسی تساہل کی بنا پر انکو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

ذہبی کا حاکم کی تصیح پر رد

ذہبی مستدرک کی تلخیص میں حاکم کی اس تصیح پر تعاقب کرتے ہوئے لکھتے ہیں

[التعليق - من تلخيص الذهبي] 4228 - بل موضوع و عبد الرحمٰن واہ ، رواہ عبد اللہ بن مسلم الفھری ولا ادری من ذا

(ذیل المستدرک 2/723)

''بلکہ یہ حدیث موضوع (من گھڑت) ہے اوراس کا راوی عبدالرحمن انتہائی ضعیف ہے اور میں اس کے دوسرے راوی عبد اللہ بن مسلم فہری کے بارے میں نہیں جانتا کہ یہ کون ہے؟''۔


حافظ ذہبی نے میزان الاعتدال میں فہری (اس روایت کے راوی) کا تذکرہ کیا ہے اور اس کی اسی مذکورہ روایت کو باطل قرار دیا ہے

عبد الله بن مسلم أبو الحارث الفهري

روى عن إسماعيل بن مسلمة ابن قعنب، عن عبد الرحمن بن يزيد بن اسلم خبرا باطلا فيه: يا آدم لولا محمد ما خلقتك

(میزان الاعتدال 2/504)


ابن حجر کا حاکم کی تصیح پر رد



ابن حجر نے حاکم کی تصیح پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے لکھا

ومن العجيب ما وقع للحاكم أنه أخرج لعبد الرحمن بن زيد بن أسلم. وقال بعد روايته

"هذا صحيح الإسناد، وهو أول حديث ذكرته لعبد الرحمن"4. مع أنه قال في كتابه الذي جمعه في الضعفاء:

"عبد الرحمن بن زيد بن أسلم روى/(ر26/ب) عن أبيه أحاديث موضوعة لا يخفى على من تأملها من أهل الصنعة أن الحمل فيها عليه".

فكان هذا من عجائب ما وقع له من التساهل والغفلة.

(النکت 1/318-319)

"اور یہ عجیب بات ہے کہ حاکم نے عبد الرحمٰن بن زید کی روایت کو نقل کرنے کے بعد کہا

'یہ روایت صحیح الاسناد ہے اور یہ عبد الرحمٰن کی ذکر کردہ پہلی روایت ہے (مستدرک میں)' ،

باوجود اس کے اپنی کتاب، جس میں انھوں نے الضعفاء کو جمع کیا ، کہا

' یہ اپنے باپ سے موضوع احادیث بیان کرتا تھا۔ غور کرنے سے اس فن کے ماہرین پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اس حدیث کا دارو مدار اس عبدالرحمن بن زید پر ہے '،

(ابن حجر کہتے ہیں) یہ ان عجائب میں سے ہے جو ان (حاکم ) سے تساہل اور غفلت کی بنا پر ہوا "۔

ابن حجر نے لسان المیزان میں "عبد اللہ بن مسلم الفھری (اس روایت کے راوی)" کے ترجمہ میں اس روایت کو باطل قرار دیا

عبد الله بن مسلم أبو الحارث الفهري روى عن إسماعيل بن مسلمة بن قعنب عبد الرحمن بن يزيد بن أسلم خبرا باطلا فيه يا آدم لولا محمد ما خلقتك رواه البيهقي في دلائل النبوة


(لسان المیزان 3/359)



ابن حجر حاکم کے اس روایت کو صحیح الاسناد کہنے پر تبصر ہ کرتے ہوئے ایک اور مقام پر لکھتے ہیں

قلت: عبد الرحمن متفق على تضعيفه.


(اتحاف المھرۃ 12/97)

"میں (ابن حجر) کہتا ہو ں کہ :عبد الرحمٰن کی تضعیف پر سب متفق ہیں"۔


ابن حجر نے امام حاکم کے اس تساہل اور تناقض کی وجہ یہ ذکر کی ہے کہ

أنه حصل له تغير وغفلة في آخر عمره ويدل على ذلك أنه ذكر جماعة في كتاب الضعفاء له وقطع
بترك الرواية عنهم ومنع من الاحتجاج بهم ثم أخرج أحاديث بعضهم في مستدركه وصححها من ذلك


(لسان المیزان 5/233)

'' مستدرک کی تصنیف کے وقت ان کے حافظے میں فرق آگیا تھا، اس کی دلیل یہ ہے کہ اُنہوں نے رواة کی ایک کثیر تعداد کو اپنی کتاب الضعفاء میں ذکر کیا ہے اور ان سے استدلال کو ممنوع قرار دیا ہے ، لیکن اپنی کتاب مستدرک میں خود اُنہیں سے روایات نقل کی ہیں اور اُنہیں صحیح قرار دیا ہے"۔


اس کے بعد بطور مثال ابن حجر نے اس روایت کا حوالہ دیا

أنه أخرج حديثا لعبد الرحمن بن زيد بن أسلم وكان قد ذكره في الضعفاء فقال: أنه روى عن أبيه أحاديث موضوعة لا تخفى على من تأملها من أهل الصنعة أن الحمل فيها عليه


انہوں نے عبد الرحمٰن بن زید بن اسلم کی روایت کو مستدرک میں نقل کیا حالانکہ وہ اسکا ذکر الضعفاء میں کر چکے تھے انہوں نے کہا: کہ یہ اپنے باپ سے موضوع احادیث بیان کرتا تھا۔ غور کرنے سے اس فن کے ماہرین پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اس حدیث کا دارو مدار اس عبدالرحمن بن زید پر ہے "۔


ابن تیمیہ کا حاکم کی تصیح پر رد

ابن تیمیہ لکھتے ہیں

قلت: ورواية الحاكم لهذا الحديث مما أنكر عليه، فإنه نفسه قد قال في كتاب المدخل(408) إلى معرفة الصحيح من السقيم: عبد الرحمن بن زيد بن أسلم روى عن أبيه أحاديث موضوعة لا يخفى على من تأملها من أهل الصنعة أن الحمل فيها عليه


قلت: وعبد الرحمن بن زيد بن أسلم ضعيف باتفاقهم يغلط كثيراً، ضعفه أحمد بن حنبل(409) وأبوزرعة وأبوحاتم(410) والنسائي(411)، والدارقطني(412) وغيرهم، وقال أبوحاتم بن حبان: كان يقلب الأخبار وهو لا يعلم، حتى كثر ذلك من روايته، من رفع المراسيل وإسناد الموقوف فاستحق الترك(413).

وأما تصحيح الحاكم لمثل هذا الحديث وأمثاله، فهذا مما أنكره عليه أئمة العلم بالحديث وقالوا: إن الحاكم يصحح أحاديث وهي موضوعة مكذوبة عند أهل المعرفة بالحديث.

ولهذا كان أهل العلم بالحديث لا يعتمدون على مجرد تصحيح الحاكم

''امام حاکم کے اس حدیث کو روایت کرنے پر سخت تنقید کی گئی ہے کیونکہ انہوں نے بذاتِ خود اپنی کتاب المدخل إلی معرفة الصحیح من السقیم میں عبدالرحمن بن زید بن اسلم کے متعلق یہ صراحت کی ہے کہ یہ اپنے باپ سے موضوع احادیث بیان کرتا تھا۔ غور کرنے سے اس فن کے ماہرین پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اس حدیث کا دارو مدار اس عبدالرحمن بن زید پر ہے اور میں (ابن تیمیہ )کہتا ہوں کہ عبدالرحمن بن زید بن اسلم سب محدثین کے نزدیک بالاتفاق ضعیف ہے کیونکہ وہ بہت غلطیاں کرتا تھا۔ اسی بنا پر امام احمد بن حنبل، ابوزرعہ، ابوحاتم، امام نسائی، امام دارقطنی رحمہم اللہ اور دیگر متعدد محدثین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ ابن حبان فرماتے ہیں وہ لاعلمی میں احادیث کو بدل دیا کرتا تھا، حتیٰ کہ اس نے متعدد مرسل روایات کو مرفوع اورموقوف روایات کومسند بنا دیاجس کی وجہ سے یہ محدثین کے نزدیک متروک قرار پایا۔ اس جیسی احادیث کو صحیح قرار دینے کی وجہ سے محدثین نے امام حاکم پر سخت تنقیدکی ہے اور کہا ہے کہ امام حاکم ایسی روایات کو بھی صحیح قرار دے دیتے ہیں جو ماہرین حدیث کے نزدیک موضوع اور من گھڑت ہیں ۔ اسی لئے حدیث کے ماہرین علما تنہا امام حاکم کے کسی حدیث کو صحیح قرار دینے پر اعتماد نہیں کرتے'' ۔


یہی بات ابن تیمیہ نے (مجموع الفتاویٰ 1/254) میں کہی ۔


حافظ ابن عبدالہادی (المتوفى: 744ھ) کا حاکم پر رد اور اس روایت کو موضوع کہنا
امام سبکی نے بھی امام حاکم کی تقلید میں اس حدیث کو صحیح کہا ہے جس پرحافظ ابن عبدالہادی نے اس حدیث کو موضوع قرار دیتے ہوئے کہا

وقد أخطأ الحاكم في تصحيحه وتناقض تناقضاً فاحشاً


(الصارم المنکی فی الرد علی السبکی 1/43)

کہ امام حاکم کا اس حدیث کو صحیح کہنا ان کی خطاء اور صریح تناقض ہے۔


الھیثمی (المتوفى: 807ھ) کا اس روایت کو رد کرنا

الھیثمی نے اسکو طبرانئ کے حوالے سے نقل کر کے کہا

وَفِيهِ مَنْ لَمْ أَعْرِفْهُمْ


(مجمع الروائد 8/253)

''اس حدیث میں ایسے راوی ہیں جن کو میں نہیں جانتا"۔


بیہقی کا رد

بیہقی نے اسکو نقل کرنے کے بعد کہا

تفرد به عبد الرحمن بن زيد بن أسلم من هذا الوجه عنه وهو ضعيف والله أعلم


(دلائل النبوۃ 5/489)

"یہ عبد الرحمٰن بن زید بن اسلم کا تفرد ہے اور وہ ضعیف ہے"۔

 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913





ابن العراق کا اس روایت کو باطل کہنا

ابن العراق نے بھی اس روایت کو باطل قرار دیا

عبد الله بنمُسلم الفِهري عَن إِسْمَاعِيل بن مُسلم بن قعنب عَن عبد الرَّحْمَن بن زيد بن أسلم بِخَبَر بَاطِل

(تنزیہ الشریعۃ لابن العراق 1/76)


اس روایت کی "عبد الرحمٰن بن زید بن اسلم "سے دوسری اسناد


طبرانی میں اس روایت کی سند اس طرح ہے


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ أَسْلَمَ الصَّدَفِيُّ الْمِصْرِيُّ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الْمَدَنِيُّ الْفِهْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْمَدَنِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


(المعجم الصغیر للطبرانی 2/182، المعجم الاوسط 6/313)


اس کے دو راوی مجہول الحال اور مرکزی راوی عبد الرحمٰن بن زید بن اسلم مجروح ہے


(اوپر والی سند ملاحظہ فرمائیں)


مُحَمَّدُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ أَسْلَمَ الصَّدَفِيُّ الْمِصْرِيُّ،: مجہول الحال

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْمَدَنِيُّ،: مجہول الحال


(امالی ابی مطیع المصری 9)

میں اس روایت کی سند طبرانی والی ہی ہے لیکن اس میں ابی مطیع کا استاذ " أَبُو مَنْصُورٍ مَعْمَرُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ" مجہول الحال ہے۔

اور باقی علتیں طبرانی کی روایت والی ہیں۔

الحاصل


اس ساری بحث کا منطقی نتیجہ یہی ہے کہ یہ روایت موضوع ہے۔لہٰذا متاخرین میں کثیر کے حوالے دیکر اور انکے سکوت کو اس روایت کی تصیح کے طور پر پیش کرنا ایک لایعنی سی بات ہے۔

اوپر بیان کردہ توضیحات سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ یہ حدیث امام حاکم کے نزدیک بھی موضوع ہے کیونکہ وہ خودعبدالرحمن بن زید کو ضعیف اور ناقابل اعتبار قرار دے چکے ہیں ۔

چنانچہ امام ناصرالدین البانی لکھتے ہیں


''جو شخص امام حاکم کے سارے کلام پر غور کرے گا، اس پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ یہ حدیث خود امام حاکم کے نزدیک بھی موضوع ہے"۔


(التوسل انواعہ واحکامہ، ص 105)


دوسری روایت

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حَمْشَاذَ الْعَدْلُ ، إِمْلَاءً ، ثنا هَارُونُ بْنُ الْعَبَّاسِ الْهَاشِمِيُّ ، ثنا جَنْدَلُ بْنُ وَالِقٍ ، ثنا عَمْرُو بْنُ أَوْسٍ الْأَنْصَارِيُّ ، ثنا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، قَالَ: "أَوْحَى اللَّهُ إِلَى عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ يَا عِيسَى آمِنْ بِمُحَمَّدٍ وَأْمُرْ مَنْ أَدْرَكَهُ مِنْ أُمَّتِكَ أَنْ يُؤْمِنُوا بِهِ فَلَوْلَا مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُ آدَمَ وَلَوْلَا مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُ الْجَنَّةَ وَلَا النَّارَ وَلَقَدْ خَلَقْتُ الْعَرْشَ عَلَى الْمَاءِ فَاضْطَرَبَ فَكَتَبْتُ عَلَيْهِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولٌ اللَّهِ فَسَكَنَ "

" هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ "


(مستدرک حاکم 2/671)


"اللہ تعالی نے عیسی علیہ السلام کو وحی فرمائ اے عیسی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لاؤ ، اوراپنی امت کوبھی یہ حکم دے دو کہ جوبھی انہیں پالیں وہ اس پر ایمان لائيں ، اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو میں آدم علیہ السلام کو پیدا نہ کرتا اوراگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو میں جنت اورجہنم بھی پیدا نہ کرتا ، میں نے پانی پر عرش پیدا کیا تووہ ہلنے لگا تو میں نےاس پر لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ ، لکھ دیا تووہ حرکت کرنا بندہوگیا "۔


یہ روایت بھی "موضوع" ہے۔

پہلی علت

اسکا راوی "عمرو بن اوس الانصاری" مجہول الحال ہے۔

اس کو بھی حاکم نے صحیح الاسناد قرار دیا اور حاکم کا تساہل اوپر تفصیل سے بیان ہو چکا ہے۔

امام ذھبی نے یہاں بھی ان کا تعاقب کرتے ہوئے یہ کہا کہ

[التعليق - من تلخيص الذهبي] 4227 - أظنه موضوعا على سعيد

" میرا خیال ہے کہ سعید پریہ موضوع ہے (یعنی گھڑ کر سعید بن ابی عروبۃ سے منسوب کی گئی ہے )"۔

ذہبی "عمرو بن اوس" کے ترجمہ میں لکھتے ہیں


عمرو بن أوس

يجهل حاله.
أتى بخبر منكر

أخرجه الحاكم في مستدركه، وأظنه موضوعا من طريق جندل بن والق


(میزان 3/246)


''عمرو بن اوس مجہول الحال راوی ہے اور اس نے ایک منکر روایت بیان کی ہے جسے امام حاکم نے مستدرک میں ذکر کیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ روایت موضوع اور من گھڑت ہے جندل بن والق کے طرق سے ۔ ''


اس کے بعد ذہبی نے اس روایت کو ذکر کیا


حدثنا عمرو بن أوس، حدثنا سعيد عن أبي عروبة، عن قتادة، عن سعيد بن المسيب، عن ابن عباس، قال: أوحى الله إلى عيسى آمن بمحمد، فلولاه ما خلقت آدم ولا الجنة ولا النار ... الحديث.


(ایضاً)

دوسری علت

اس کا راوی "قتادہ بن دعامۃ" مشھور بالتدلیس ہے اور مدلس کا عنعنہ مردود ہوتا ہے جب تک وہ سماع کی تصریح نہ کر دے یا کوئی معتبر متابعت موجو دنہ ہو۔

ابن حجر لکھتے ہیں کہ قتادہ تدلیس میں مشہور ہے

قتادة بن دعامة السدوسي البصري صاحب أنس بن مالك رضي الله تعالى عنه كان حافظ عصره وهو مشهور بالتدليس وصفه به النسائي وغيره (طبقات المدلسین 1/43)

تیسری روایت

اس روایت کو الدیلمی (المتوفى: 509ھ)نے ابن عباس سے اس طرح نقل کیا


ابْن عَبَّاس يَقُول الله عز وَجل وَعِزَّتِي وَجَلَالِي لولاك مَا خلقت الْجنَّة ولولاك مَا خلقت الدُّنْيَا


(الفردوس بمأثور الخطاب 5/227)


" (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! ) اگر آپ ﷺ نہ ہوتے تو جنت پیدا کی جاتی، نہ دنیا"۔


یہ الفاظ اس طرح بھی ہیں

أتاني جبرائیل فقال یامحمد لولاک ما خلقت الجنة، لولاک ماخلقت النار''جبرائیل میرے پاس تشریف لائے اور کہا : اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر آپؐ نہ ہوتے تو جنت پیدا کی جاتی، نہ جہنم ۔۔۔''

لیکن کوئی سند نہیں بیان کی جو اس کے موضوع ہونے پر دال ہے۔

چوتھی روایت

یہ سلمان رضی اللہ عنہ سے منسوب ابن عساکر کی ایک طویل روایت ہے جس کے آخری الفاظ یہ ہیں

لولاک ماخلقت الدنیا "اگر آپ نہ ہوتے تو میں دنیا کو پید انہ کرتا "۔

ابن جوزی نے اس طویل روایت کو اپنی کتاب "الموضوعات" میں نقل کر کے کہا

هذا حديث موضوع لا شك فيه، وفى إسناده مجهولون وضعفاء والضعفاء أبو السكين وإبراهيم بن اليسع. قال الدارقطني: أبو السكين ضعيف وإبراهيم (19 الموضوعات 1)

وقال الفلاس: كان كذابا يحدث أحاديث موضوعة. وقال الدارقطني: متروك

(الموضوعات للجوزی 1/289)

"اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ روایت موضوع ہے۔ اس کی سند میں مجہول اور الضعفاء ہیں۔ اس کے دو راویوں ابوالسکین اور ابراھیم بن الیسع کو دارقطنی نے ضعیف کہا ہے۔

اور اس کے ایک راوی يحيى الْبَصْرِيّ کے بارے میں فلاس نے کہا:"کذاب تھا موضوع روایات بیان کرتا تھا"۔

اور دارقطنی نے اسے (يحيى الْبَصْرِيّ کو) متروک کہا ہے"۔

سیوطی نے بھی ابن الجوزی کی تائید کرتے ہوئے یہی بات کہی


مَوْضُوع: أَبُو السكين وَإِبْرَاهِيم وَيحيى الْبَصْرِيّ ضعفاء متروكون وَقَالَ الفلاس يَحْيَى كَذَّاب يُحدث بالموضوعات.


(اللآلي المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ 1/249)


''یہ حدیث موضوع ہے۔ ابو سکین ، ابراہیم اور یحییٰ بصری ضعیف اور متروک راوی ہیں اور امام فلاس رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یحییٰ کذاب تھا، موضوع اور من گھڑت روایات بیان کیا کرتا تھا ۔''


اسی طرح ابن عراق نے اس حدیث کو من گھڑت قرار دیا ہے۔

( تنزیہ الشریعة1؍324،325)

اس حدیث کی سند کے رواةمجہول ہیں ۔

اس کے علاوہ خلیل بن مرہ بھی ضعیف ترین راوی ہے۔بخاری نے اسے "منکرالحدیث"،ابوحاتم اور یحییٰ بن معین وغیرہ نے اسے "ضعیف "قرار دیا ہے۔ (میزان الإعتدال 1؍667، 668)



پانچویں روایت

"لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الْأَفْلَاكَ"

امام صغانی نے اسکو موضوع قرار دیا ۔

(الأحادیث الموضوعةص52، رقم 78)

امام عجلونی نے اس حدیث کو موضوعات میں ذکر کیا۔

(تذکرة الموضوعات86)

امام عجلونی لکھتے ہیں

''امام صغانی نے اسے موضوع قرار دیا ہے ،لیکن میں کہتا ہوں کہ اگرچہ یہ حدیث نہیں ہے ، لیکن اس کا معنی صحیح ہے۔''

(کشف الخفاء ومُزیل الإلباس2؍214)


اس کو ملا علی القاری نے (صغانی کے حوالے سے) موضوعات (گھڑی ہوئی روایتوں) میں شمار کیا ہے

(الأسرارالمرفوعة في الأخبار الموضوعة للقاری 1/295)

ملا علی قاری لکھتے ہیں

قَالَ الصَّغَانِيُّ إِنَّهُ مَوْضُوعٌ


"صغانی نے اسکو موضوع کہا ہے"۔


لیکن اس کے بعد ملا علی القاری نے ایک عجیب بات کہی

لَكِنَّ مَعْنَاهُ صَحِيحٌ "کہ اس روایت کے معنی صحیح ہیں "۔

اور تائید کے طور پر دیلمی (روایت نمبر3) اور ابن عساکر(روایت نمبر4) کی روایت پیش کی


فَقَدْ رَوَى الدَّيْلَمِيُّ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا مَرْفُوعًا

أَتَانِي جِبْرِيلُ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ لَوْلَاكَ مَا خَلَقْتُ الْجَنَّةَ وَلَوْلَاكَ مَا خَلَقْتُ النَّارَ وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ عَسَاكِرَ لَوْلَاكَ مَا خَلَقْتُ الدُّنْيَا


(الأسرارالمرفوعة في الأخبار الموضوعة للقاری 1/295)

جہاں تک اس حدیث کے معنی کودرست قرا ردینے کا تعلق ہے تو امام عجلونی اور ملاعلی قاری کا یہ دعویٰ درست نہیں ہے ۔ البانی ان کے اس قول پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : الجزم لصحة معناہ لا یلیق إلا بعد ثبوت ما نقلہ عن الدیلمي وھذا مما لم أر أحداً تعرّض لبیانہٖ وأنا فإن کنتُ لم أفق علی سندہ فإني لاأتردّد في ضعفہ وحسبنا في التدلیل علی ذلک تفرد الدیلمي بہ، وأما روایة ابن عساکر فقد أخرجھا ابن الجوزي أیضًا في حدیث طویل عن سلمان مرفوعًا وقال إنہ موضوع وأقرہ السیوطی في اللآلي 1؍272، وانظر الموضوعات1؍288۔290 8

(سلسلة الأحادیث الضعیفة،رقم: 282)

''اس روایت کے معنی کو صحیح قرار دینا اسی صورت میں ہی درست ہوسکتا ہے ،جب دیلمی کی روایت صحیح ثابت ہوجائے۔ جہاں تک میں نے دیکھاہے وہ یہ ہے کہ کسی نے ان کے اس قول سے تعرض نہیں کیا اور میں اگرچہ دیلمی کی اس روایت کی سند سے واقف نہیں ہوسکا، لیکن مجھے اس کے ضعیف ہونے میں ذرا بھر تردّد نہیں ہے اور اس کے لئے یہی دلیل کافی ہے کہ اس میں دیلمی متفرد ہیں اور جہاں تک ابن عساکر کی روایت کا تعلق ہے تو اس کو ابن جوزی نے ایک طویل حدیث میں سلمان سے مرفوع روایت کیا ہے اور اسے موضوع قرار دیا ہے اور سیوطی نے بھی الُّلآلي1؍272میں ان کی تائید کی ہے، دیکھئے: الموضوعات 1؍288 تا290 ''۔


یہ تو تھی ان روایات کی اسنادی حیثیت ۔
منکر المتن

متن کے لحاظ سے بھی یہ روایات شدید منکر ہیں کیونکہ ان میں کائنات ، جنت و جہنم ، آدم و بنی نوع ِ انسان کی تخلیق کا باعث آپ ﷺ کی ذات کو قرار دیا گیا ۔لیکن یہ بات صریحاً قرآن کے خلاف ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تخلیق کائنات کا مقصدیہ بیان فرمایا: وَمَا خَلَقْتُ ٱلْجِنَّ وَٱلْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ۔ .(سورۃ الذاریات: 54) '' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔''

اسی طرح جس روایت میں یہ بیان ہوا ہے کہ آدم علیہ السلام نے آپ ﷺ کی ذات کو وسیلہ بنایا وہ بھی قرآن کے متصادم ہے کیونکہ قرآنِ مجید میں صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم ؑ کو ذاتِ الٰہی کے توسل کے باعث معاف کیا تھا اور توسل کے الفاظ بھی اللہ تعالیٰ نے خود ہی سکھائے تھے۔ چنانچہ فرمانِ الٰہی ہے: ''پھر آدم ؑ نے اپنے ربّ سے چند کلمات حاصل کئے، جن سے اللہ نے ان کی توبہ قبول فرمالی، بلا شبہ وہی توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔'' (البقرۃ: 37)

اور وہ کلمات یہ ہیں: قَالَا رَ‌بَّنَا ظَلَمْنَآ أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ‌ لَنَا وَتَرْ‌حَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ ٱلْخَـٰسِرِ‌ينَ (الاعراف : 23)

عربی گرامر کے لحاظ سے بھی اس کی ترکیب غلط ہے"لولاک " یہ ترکیب نحوی قواعد کے بھی خلاف ہے۔

الفیة ابن مالک میں ہے: ''و'لولا' و'لوما' یلزمان الابتدائ'' اس کی شرح میں ابن عقیل کہتے ہیں : فلا یدخلان إلا علیٰ المبتداء ویکو ن الخبر بعدہما محذوفا (شرح ابن عقیل: 2؍55) ''لولااورلوماہمیشہ مبتدا پر داخل ہوتے ہیں اور اس کے بعد ان کی خبر وجوباً حذف ہوتی ہے۔ ''



اور'کاف ضمیر' ہمیشہ منصوب یا مجرور متصل استعمال ہوتی ہے اور نحو کا یہ مسلمہ قاعدہ ہے کہ ضمیر متصل کبھی مبتدا نہیں بن سکتی۔ابن عقیل لکھتے ہیں : فالمتصل:ہو الذي لا یبتدأ بہ کالکاف (ایضاً) '' ضمیر متصل وہ ہوتی ہے جو مبتدانہ بن سکے ، مثلاً کاف۔''


اورلولاک میں 'کاف ضمیر 'نہ تو متصل استعمال ہوئی ہے اور نہ ہی مبتدا بننے کی اہل ہے، لہٰذا قاعدہ کے صریح خلاف ہے ۔




 
Top