سلطان محمود غزنوی

  • Work-from-home

Tabishss

Regular Member
Jun 15, 2013
82
47
318
32
Landhi, Karachi.
سلطان کا پورا نام یمین الدولہ ابو القاسم محمود ابن سبکتگین تھا جو تاریخ میں محمود غزنوی کے نام سے مشہور ہوا۔ سلطا ن کی پیدائش بروزمنگل 2نومبر 971ء کو ہوئی اور انتقال 30 اپریل 1030ء کو ہوا۔
سلطان محمود 997ء سے اپنے انتقال تک سلطنت غزنویہ کا حکمران تھا۔ انہوں نے غزنی شہر کو دنیا کے دولت مند ترین شہروں میں تبدیل کردیا اور اس کی وسیع سلطنت میں موجودہ مکمل افغانستان، ایران اور پاکستان کے کئی حصے اور شمال مغربی بھارت شامل تھا۔ وہ تاریخ اسلامیہ کے پہلے حکمران تھے جنہوں نے سلطان کا لقب اختیار کیا۔وہ پہلے مسلمان حکمران تھے جنہوں نے ہندوستان پر 17 حملے کئے اور ہر حملے میں فتح حاصل کی ۔اس عظیم مجاہد کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے ہندوستان کے بت کدے لرز اٹھتے تھے ۔سلطان محمود غزنوی نے اپنے زندگی کا زیادہ تر حصہ گھوڑے کی پیٹھ پر سواری کرکے گزارا۔
یہ سلطنت غزنویہ کے سب سے مشہور سلطان تھے۔سلطنت غزنویہ 976ء سے 1186ء تک قائم ایک حکومت تھی جس کا دارالحکومت افغانستان کا شہر غزنی تھا۔سلطان محمود غزنوی نے ہندوستان پر 17 حملے کئے ۔
جب سامانی حکومت کمزور ہوگئی اور اس کے صوبہ دار خودمختار ہوگئے تو ان میں ایک صوبہ دار سبکتگین (366ھ تا 387ھ) نے افغانستان کے دارالحکومت کابل کے جنوب میں واقع شہر غزنی میں 366ھ میں ایک آزاد حکومت قائم کی جو تاریخ میں دولت غزنویہ اور آل سبکتگین کے نام سے جانی جاتی ہے۔ بعد میں سبکتگین کا خراسان پر بھی قبضہ ہوگیا۔ اسی سبکتگین کے زمانے میں مسلمان پہلی مرتبہ درہ خیبر کے راستے پاکستان میں داخل ہوئے ۔
اس زمانے میں لاہور میں ایک ہندو راجہ جے پال حکومت کرتا تھا اس کی حکومت پشاور سے آگے کابل تک پھیلی ہوئی تھی اور اس کی سرحدیں سبکتگین کی حکومت سے ملی ہوئی تھیں۔ راجہ جے پال نے جب دیکھا کہ سبکتگین کی حکومت طاقتور بن رہی ہے تو اس نے ایک بڑی فوج لے کر غزنی پر حملہ کردیا لیکن لڑائی میں سبکتگین نے اس کو شکست دے دی اور جے پال کو گرفتار کرلیا گیا۔ جے پال نے سبکتگین کی اطاعت قبول کرکے اپنی جان بچائی اور سالانہ خراج دینے کا وعدہ کیا۔ اب سبکتگین نے جے پال کو رہا کردیا اور وہ لاہور واپس آگیا لیکن اس نے وعدے کے مطابق خراج نہیں بھیجا جس کی وجہ سے سبکتگین نے حملہ کردیا اور وادی پشاور پر قبضہ کرلیا۔
سبکتگین کا 20 سال کی حکومت کے بعد انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا محمود غزنوی تخت پر بیٹھا۔ سلطان محمود خاندان سبکتگین کا سب سے بڑا بادشاہ ہ ثابت ہوا۔ اسلامی تاریخ کے مشہور حکمرانوں میں سے محمود ہندوستان پر 17 حملوں کے باعث شہرت کی بلندیوں پر پہنچا۔
محمود بچپن سے ہی بڑا نڈر اور بہادر تھا۔ وہ اپنے باپ کے ساتھ کئی لڑائیوں میں حصہ لے چکا تھا۔ بادشاہ ہونے کے بعد اس نے سلطنت کو بڑی وسعت دی۔ وہ کامیاب سپہ سالار اور فاتح بھی تھا۔ شمال میں اس نے خوارزم اور بخارا پر قبضہ کرلیا اور سمرقند کے علاقے کے چھوٹے چھوٹے حکمرانوں نے اس کی اطاعت قبول کرلی۔ اس نے پہلے بخارا اور سمرقند کاشغر کے ایلک خانی حکمرانوں کے قبضے میں تھے اور خوارزم میں ایک چھوٹی سے خودمختار حکومت آل مامون کے نام سے قائم تھی۔ جنوب میں اس نے رے، اصفہان اور ہمدان فتح کرلئے جو بنی بویہ کے قبضے میں تھے ۔ مشرق میں اس نے قریب قریب وہ تمام علاقہ اپنی سلطنت میں شامل کرلیا جو اب پاکستان کہلاتا ہے ۔
محمود عدل و انصاف اور علم و ادب کی سرپرستی کے باعث بھی مشہور ہے۔ اس کے دور کی مشہور شخصیات میں فردوسی اور البیرونی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔فردوسی کا شاہنامہ فارسی شاعری کا ایک شاہکار سمجھاجاتا ہے اور دنیا اسے آج تک دلچسپی سے پڑھتی ہے ۔ البیرونی اپنے زمانے کا سب سے بڑا محقق اور سائنس دان تھا۔ اس نے ریاضی، علم ہیئت، تاریخ اور جغرافیہ میں ایسی عمدہ کتابیں لکھیں جو اب تک پڑھی جاتی ہیں۔
سلطان محمود غزنوی کے کارنامے اور واقعات تاریخ اسلام کے اوراق میں سنہری الفاظ سے محفوظ ہیں۔ سلطان ایک نیک سیرت اور باعمل مسلمان تھا۔
غزنوی حکمرانوں کا دور پاکستان کی تاریخ میں خاص طور پر بڑی اہمیت رکھتا ہے ۔ پاکستان تقریباً 200 سال تک غزنی کی سلطنت کا حصہ رہا اور اس زمانے میں اسلامی تہذیب کی جڑیں مضبوط ہوئیں۔ کوہ سلیمان کے رہنے والے پٹھانوں نے اسی زمانے میں اسلام قبول کیا اور لاہور پہلی مرتبہ علم و ادب کا مرکز بنا۔

1974ء میں شہر غزنوی میں زلزلہ آیا جس سے سلطان محمود غزنوی کی قبر پھٹ گئی اور مزار بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا تو اس وقت کے افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ مرحوم نے دوبارہ مزار کی تعمیر نو کی اور قبر کو مرمت کروایا۔ تعمیر کے مقصد کے لئے قبر کو پورا کھول دیا گیا کیونکہ قبر نیچے تک پھٹ گئی تھی جب قبر کو کھولا گیا تو قبر کے معمار اور قبر کی زیارت کرنے والے حیران رہ گئے کہ قبر کے اندر سے ہزار سال پہلے فوت ہوئےمحمود غزنوی کے تابوت کی لکڑی صحیح سلامت ہے سب لوگ حیران اور ورطہ حیرت کا شکار ہوگئے تابوت صحیح سلامت تھا۔ ہزار سال گزرنے کے باوجود ، حکام نے تابوت کو کھولنے کا حکم دیا تو دیکھا گیا کہ سلطان محمود غزنوی اپنے تابوت میں ایسے پڑے تھے جیسے کوئی ابھی اس کی میت کو رکھ کے گیا ہے اور ان کے سیدھے ہاتھ سینے پر تھے الٹا ہاتھ اور بازو جسم کے متوازی سیدھا تھا اور ہاتھ ایسے نرم جیسے زندہ انسان کے ہوتے ہیں ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ایک کرشمہ ہی ہے کہ جو میرے محبوب کی غلامی اختیار کرتے ہیں۔ وہ ہمیشہ امر رہتے ہیں۔اللہ کی ان کے مرقد پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔آمین

آپ شائد سوچ رہے ہوں کہ میں نے سومنات کے مندر کا ذکر کیوں نہیں کیا۔اور سلطان محمود کے بت شکن والے واقعہ کا ذکر کیوں نہیں کیا۔میں بحثیت تاریخ کے طالب علم ہونے کے اس بات کو سچ نہیں مانتا۔ کہ سلطان نے سومنات میں کسی بڑے مندر کوتوڑا تھا۔ اور وہاں سے سونا' جواہرات ' ہیرے موتی اور مندر کے قیمتی دروازے غزنی لوٹ کر لے گیا تھا۔ یہ کہانی تقریبا سو سال پہلے انگریزوں نے صرف اس لئے گھڑی تھی تاکہ افغانستان میں مسلمانوں کے خلاف ہندووں کی مدد لی جاسکی۔ انگریز کا اس بحث سے ایک ہی مقصد تھا کہ ہندو قوم کو افغانستان میں ہونے والی جنگ میں ساتھ ملایا جائے اور پورے ہندوستان پر یہ ثابت کیا جائے کہ انگریز کا افغانستان پر کس قدر کنٹرول ہے۔ یوں ایک مقامی فوجی بھرتی کے ساتھ افغانستان پر حملہ بھی کیا گیا۔غزنی میں موجود دروازوں کو اکھاڑا گیا ۔ جب انھیں ہندوستان لایا گیا تو ان پر کنندہ آیاتِ قرآنی نے بھانڈا پھوڑ دیا کہ ان کا سومنات تو دور کی بات ہندو مذہب سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ یہ دروازے آج بھی آگرہ کے قلعے کے اسٹور روم میں پڑے ہوئے ہیں۔

یہ ایک طویل بحث ہے اس کا تذکرہ میں ان شاء اللہ ایک الگ پوسٹ میں کروں گا۔ جس کا نام ہوگا "سومنات کا مندراور انگریزوں کی بددیانتی"۔

سلطان نے سومنات شہر پر حملہ ضرور کیاتھا۔ لیکن وہاں پر کوئی بڑا مند ر موجود ہی نہیں تھا۔اگر اس بارے میں مزید پڑھنا چاہیں تو انڈیا کی رومیلاتھاپر کی تحقیقی کتاب ہسٹری آف انڈیا میں پڑھیں۔والسلام محمد عدنان یونس
 
  • Like
Reactions: lovelyalltime

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913

میرے بھائی تحقیق کے لئے یہ بھی پڑھ لیں


کیا اج نبی صلی الله علیہ وسلم کا خواب میں آنا حدیث سے ثابت ہے ؟

http://www.islamic-belief.net/q-a/عقائد/اہم-مباحث/


سلطان نورالدین زنگی نے حضورﷺ کی قبرمبارک کے اردگرد سیسہ پلائی دیوارکیوں تعمیرکروائی؟


یہ واقعہ سن ٥٥٧ ھ کا ہے یہ اصلا نور الدین زنگی المتوفي ٥٦٩ ھ کا خود ساختہ خوف تھا کہ عیسائی جسد اطہر کو چرا لیں گے جبکہ جب وہ سرنگ سے وہاں پہنچتے تو تین اجسام پاتے اس میں سے کون سا نبی کا ہے اور کون سا عمر و ابو بکر کا ہے وہ معلوم نہیں کر سکتے تھے- نور الدین کو سیاسی محاذ پر سلطان ایوبی سے خطرہ تھا – نور الدین اور صلاح الدین میں اختلافات ہو گئے تھے اور ایوبی نے صلیبی جنگوں میں شرکت بھی چھوڑ دی تھی یہاں تک کہ نور الدین کی وفات کے بعد صلاح الدین نے اس کی بیوہ سے شادی کر لی اور نورالدین کے بیٹے کا صلاح الدین نے تختہ الٹ دیا

 
Top