Ikhlaqiat شامی مہاجرین کے مددگار

  • Work-from-home

i love sahabah

TM Star
Sep 17, 2008
1,108
1,572
1,313
تحریر مفتی ابولبابہ شاہ منصور
انسان چونکہ اشرف المخلوقات ہے، اس لیے اسے شرف و کرامت کے ساتھ جینے کے لیے جو چیزیں درکار ہیں ان میں روٹی، کپڑا، مکان بنیادی جز نہیں ہے۔ بنیادی جز وہ ایمان، خیر کی روشنی یا روح کا اعتماد ہے جو اسے مشکلات میں جینے کا حوصلہ دیتا، ہمت بندھاتا اور ممولے کو ہتھیار سے لڑادیتا ہے۔

مسئلہ اس وقت صرف ان مہاجرین کی خدمت کا نہیں جو دنیا کی قدیم تہذیبوں میں سے ایک مثالی تہذیب کے وارث، اعلامی تاریخ کے ممتاز ترین نسب و حسب کے حامل اور صدیوں علوم و فنون کی آماجگاہ رہنے والے متمدن و مہذب علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

مسئلہ صرف انصار کا دست و بازو بننے، ان کی حوصلہ افزائی کا بھی نہیں، کہ ان کو ہر طرف سے گھیرا جارہا ہے تاکہ وہ نصرت سے دستبردار ہوجائیں، اور جس طرح دو لاکھ مہاجر افراد غائب اور لاپتہ ہیں، اسی طرح یہ 35، 40 لاکھ مہاجر بھی دربدر ہوکر دوسری قوموں میں ضم ہوجائیں اور شام میں اسلامی تہذیب کا خاتمہ ہوجائے۔


مسئلہ ہمارا بھی ہے۔ جب دو بھائیوں میں سے ہر ایک کے گھر میں آگ لگی ہو اور دونوں اپنی اپنی آگ بجھاتے رہیں تو دونوں کی کامیابی مشکوک ہے۔ خرمن جل کر راکھ ہوجائے گا اور آگ بجھانے والے ہاتھ شل کے شل رہیں گے۔ البتہ اگر دونوں ایک دوسرے کی آگ بجھانے میں مدد کریں تو بہت ممکن ہے کہ ایک کے ہاں لگی آگ بجھانے میں دوسرے کے پاس موجود مواد یا آلات کام آجائیں اور دونوں بچ جائیں۔ پاکستان ایٹمی طاقت ہے۔ عسکری طاقت ہے۔ اس کے پاس دنیا کی بہترین افرادی طاقت ہے۔ جغرافیائی اور سیاسی حیثیت اور معدنی و قدرتی وسائل کا مالک ہے۔ ترکی معاشی طاقت ہے۔ منظم اور ترقی یافتہ ملک ہے۔ تیزی سے ابھر کر دنیا میں کئی اعتبار سے نام بناچکا ہے۔ اگر یہ دونوں ملک ایک ہوجائیں تو ایک دوسرے کو درپیش بحرانوں سے بھی نکال سکتے ہیں اور پورے عالم اسلام کے لیے امید کی کرن اور نجات کی نوید بھی بن سکتے ہیں۔

ماضی قریب میں جب تحریک خلافت چلی اور امّاں بولیں کہ بیٹا! جان خلافت پر دے دو، جبکہ ترکی ہم سے سمندروں دور تھا اور انگریز جو یہاں مسلط تھا وہ جان لینے پر تلا بیٹھا تھا۔ تو اس سے عالم اسلام کو وہ نفسیاتی قوت حاصل ہوئی، ایسی اخوت اور بھائی چارے کا مظاہرہ ہوا کہ ہم اس کے سہارے آج تک جی رہے ہیں۔ آج کوئی ملک دنیا میں ہماری عزت کرتا ہے تو وہ ترکی ہے جس کے عوام کے دل میں ہماری محبت رچی بسی ہوئی ہے۔ آج پھر اسی تاریخ کو زندہ کرنے کا موقع ہے۔ اس کے سہارے ہم آیندہ کئی سو سال تک جی سکتے ہیں۔

مسئلہ دو بحری درّوں پر گرفت رکھنے والے ملک اور دو سمندروں کے سنگم پر واقع شہر کے باسیوں کی حمایت کا نہیں۔ مسئلہ ہمارا اپنا بھی ہے۔ ہم دونوں ملک دشمنوں سے گھرے ہوئے ہیں۔ الگ الگ رہیں گے تو دونوں آسان شکار ہوجائیں گے۔ اکھٹے ہوجائیں گے تو سیسہ پلائی دیوار ہوجائیں گے۔ دنیا کے مظلوم اسی دیوار کے سائے تلے پناہ لے لیں گے جب ہم شامی مہاجرین کی مدد کرتے ہیں تو درحقیقت ترک انصار کی مدد کرتے ہیں اور جب ہم ترک انصار کی مدد کرتے ہیں تو درحقیقت ہم خود اپنی مدد کررہے ہوتے ہیں۔ اپنے گھر میں لگی آگ… بدامنی، بدنظمی اور بدعنوانی کی آگ… بجھارہے ہوتے ہیں۔ اور جب ہم دوسروں کی براہ راست اور اپنی مدد بالواسطہ کررہے ہوتے ہیں تو درحقیقت ہم پورے عالم اسلام کی مدد کررہے ہوتے ہیں اور کوئی شبہ نہیں کہ حقیقت ہی ایسی ہے کہ ہم درحقیقت اللہ تعالیٰ کی مدد اپنے ساتھ لے رہے ہوتے ہیں۔ ہمت مرداں مدد خدا۔ اللہ بس باقی ہوس، یار زندہ صحبت باقی۔

پاکستانی حکومت کو احسان کا بدلہ احسان کی شکل میں دینا چاہیے۔ اور پاکستانی عوام کو اپنے آباء و اجداد کی روایت زندہ کرنے کے ساتھ اپنی اولاد و اخلاف کے لیے بہترین روایت قائم کرنی چاہیے۔ افغانستان کے پیچھے جب پاکستان کھڑا ہوا تھا تو ساری امت آکر پاکستان کے ساتھ کھڑی ہوگئی تھی۔ آج شام کے پیچھے ترکی کھڑا ہے، لیکن تنہا ہے۔ ساری اُمت ترکی کے ساتھ کھڑی ہوجائے تو امت واحدہ کا تصور حقیقت میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہماری زمین سے ٹھنڈی ہوائیں آتی محسوس ہوئی تھیں۔ ترکی سے ہمیں ٹھنڈی ہوائیں آتی محسوس ہوتی ہیں کہ وہاں سات سو کے قریب صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین آرام فرما ہیں۔ جو ہجرت کرکے وہاں گئے تھے۔ آج یہ دارالحجرت، دارالنصرت بن چکا ہے۔ اور اللہ کے دین کی نصرت کرنے والوں کا منتظر ہے۔​

khubaib.jpg

 
Top