قربانی۔۔۔کس کی؟

  • Work-from-home

AnadiL

••●∂ιѕαѕтєя●••
VIP
Nov 24, 2012
72,933
23,237
1,313
قربانی۔۔۔کس کی؟
گلی کی نکڑ میں سیٹھ دلاور کے لڑکے عید کے لیۓ ہوۓ جانور کے ساتھ کھیلنے میں مصروف تھے۔ سب بچے اس جانور کے اردگرد ایسے جمع تھے جیسے یہ جانور ہمیشہ انکے ساتھ رہنے والا تھا۔کوئی اُسے پیار کررہا تھا، کوئی گھاس پکڑ کر اُسکے منہ میں ڈال رہا تھا،واقعی میں سارے بچے خوش و خرم دکھائی دے رہے تھے۔ سیٹھ صاحب کے بچے اپنے دوستوں کو بڑے فخر سے بتا رہے تھے کہ اباجان نے یہ بکرا 50000 میں خریدا ھے۔ اسی اثناء میں ایک بچہ جو اُسی گروہ کے پاس کھڑا تھا، اُس بکرے کو پیار کرنے کے لیۓ آگے بڑھا کہ سیٹھ کے چھوٹے بیٹے نے اُسے دھکا دے کر پیچھے کر دیا اور کہا موچی کے بچے ہو ،تمہاری ہمت کیسے ہوئی ہمارے بکرے کو ہاتھ لگانے کی۔ ہاں وہ موچی چچا سعید کا لڑکا جمیل تھا، لبوں پر خفیف سی مسکراہٹ لیۓ، آنکھوں میں کچھ عجب سی پریشانی لیۓ وہ 10 برس کی عمر میں 40 سال کا لگ رہا تھا۔ دھکا لگنے سے وہ دھڑام کر کے نیچے گرا۔اُس کے بازو پر کافی چوٹ آئی۔۔ روتا ہوا اُٹھا ، اور اپنے میلے کپڑے جھاڑتا ہوا گھر چلا گیا۔

رقیہ سعید اپنے بیٹے کو اس حالت میں دیکھ کر بہت پریشان ہوئی اور اُس سے ساری کتھا سننے بیٹھ گیئ۔ ماں کی ممتا
تھی کہ اسکے کمزور بازو سے بہتے ہوۓ ننھے خون کے قطرے اپنے تر کیۓ ہو دوپٹے سے پونچھنے لگی اور اسے جھک کر گلے سے لگا لیا، کچھ موتی اُسکی آنکھوں میں اُمڈ آۓ۔

شام کو جب سعید گھر واپس آیا تو رقیہ کو خاموش پا کر اُس سے پوچھ بیٹھا۔رقیہ نے سارا قصہ اسکے سامنے رکھ دیا۔اُس وقت تک جمیل سو چکا تھا، لیکن اُس رات سعید سو نا سکا۔کچھ خیالوں میں گُم سم بیٹھا تھا، "یہ غریب بھی نا۔اپنی آنکھوں پر نیںدوں کے قرض لیۓ ہوۓ ہوتے ہیں" کچھ یہی معاملہ سعید کے ساتھ بھی تھا، خیر جیسے تیسے اُس نے رات گزاری اور صبح جمیل کو سکول چھوڑنے کے لیۓ اپنا سائیکل نکالا۔لیکن آج منظر عجیب رنگ پیش کر رہا تھا،صبح بھی اُس طرح روشن دکھائی نا دیتی تھی، سعید اسے سکول لے جانے کی بجاۓ اپنے ساتھ فٹ پاتھ پر لے گیا جہاں وہ اپنا ٹھیلہ سا لگا کر جوتے مرمت کرتا تھا۔ "جوتا مرمت کرنے والے کو بھی جوتا ہی سمجھ لیا جاتا ھے"۔ سعید نے بڑے پیار سے اپنے لال کا گال چومتے ہوۓ کہا،" دیکھ جمیل پُتر۔ ہم لوگ غریب ہیں ،بکرا لینے کی حیثیت نہیں ہے ہماری۔تو سیٹھ کے بچوں کے پاس مت جایا کر ، وہ بڑے لوگ ہیں، تجھے کیا ضرورت تھی ان سے جھگڑنے کی؟ دیکھ جب تو پڑھ کے بڑا صاحب بن جاۓ گا نا تو ایک نہیں دو دو بکرے ذبح کرنا۔"

جمیل کا ذہن ان باتوں کو سمجھنے کے لیۓ کب بڑا تھا۔ اُس کے سر پر تو ایک ہی چیز سوار تھی کہ عید آرہی ھے ، ہمیں بھی بکرا لینا ھے، ابا سے دس دفع گلہ کر چکا تھا کہ ابا آپ ہمیشہ کہتے ہو اِس دفع اللہ کے حکم سے ہم بھی بکرا لیں گے، یہ اللہ کا حکم کیوں نہیں آتا؟ یہ بات سُن کر ہمیشہ سعید آب دیدہ ہو جاتا۔ خیر اس دفع جمیل کی ضد کچھ کم دکھائی دیتی تھی۔
اللہ اللہ کر کے عید کا دن بھی آ پہنچا ۔ رقیہ ہمیشہ جمیل کو صاف کپڑے پہنا کر تیار کرتی تھی، اِس دفعہ بھی معاملہ کچھ ایسا ہی تھا۔لیکن جمیل نے نمازِعید سے واپس آتے ہی کپڑے بدل کر وہی اپنے پُرانے کپڑے پہن لئے۔ اِس دفعہ وہ کھیلنے کے لیے باہر بھی نہیں تھا جا رہا ۔ آخر رقیہ نے پریشان ہو کر معاملہ سعید سے کہہ ڈالا۔ سعید بڑے پیار سے کمرے میں جا کر جمیل کو گود میں لیتے ہوۓ کہتا ھے۔
"جمیل پُتر ، کیا بات ھے؟ اتنا اُداس کیوں بیٹھا ھے؟ "
جمیل کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اپنے چھوٹے چھوٹے سُرخ لبوں کو جنبش دیتے ہوۓ پوچھتا ھے،" ابا جی ، آج بھی ہمارے گھر دال ہی پکے گی؟ آپ کسی سے گوشت مانگ لاؤ نا، میرا بہت دل کر رہا ھے گوشت کھانے کو"

جمیل کا یہ سوال سعید کے دل پر تیر کی طرح چُبھ گیا۔یک دم وہ اپنے عمر سے 20 سال بڑا دکھائی دینے لگا ، بالوں کی چاندی تھی کہ دن بدن نمایاں ہوتی جاتی تھی لیکن اس سوال پر تو پورا گھر روشن ہو گیا تھا۔

کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد سعید کے کمزور پڑتے ہوۓ ہاتھ جمیل کے گال پر آ پڑے اور اُسے سینے سے بھنچتے ہوۓ اُس کی بوڑھی آنکھوں میں ایک سیلاب تیرنے لگا۔ہاں وہ آج بھی دال ہی کھائیں گے، وہ آج بھی وہی کپڑے پہنیں گے جو پچھلی بہت سی عیدوں سے پہنتے آۓ تھے، وہ آج بھی اپنی عید کا جشن گھر میں رہ کر ہی منائیں گے، سعید ہر بار کی طرح آج بھی جوتے مرمت کرنے جاۓ گا تا کہ شام کے راشن کا بندوبست ہو سکے۔ آج بھی اللہ کا حکم نہیں آیا۔ یہ غریبوں کے ساتھ معاملے کچھ ایسا ہی ہوتا ھے۔قربانی تو ہوتی ھے، کچھ جانوروں کی کرتے ہیں ، کچھ اپنی خواہشوں کی ، اپنی ضرورتوں کی۔ ہمیں ان باتوں کو سمھجنا چاہیے کہ آخر۔
"قربانی۔۔۔کس کی؟"

ہمیں چاہیۓ کہ ایسے لوگ جو سفید پوش ہوں، وہ لوگ جو سارا سال کسمپر سی میں گزارا کرتے ہوں، عید کے دن اُنکا خیال رکھیں، اگر انہیں اپنی خوشیوں میں شریک ن کر سکیں تو انکی خوشی میں شریک ہو جائیں۔

"غریب کے چہرے کی چاندنی ہمیشہ دولت کی چمک دھمک کے سامنے ماند ہی پڑی ھے۔۔ عزت دولت کی ،کی جاتی ھے، شہرت دولت کی ہوتی ھے۔۔ غریب کے سامنے تو بس ایک ہی سمندر ہوتا ھے، اُسکی انا کا سمندر ۔۔ جس کے دھارے میں وہ موت تک ڈبکیاں لگاتا جاتا ھے، اور اُسی دھارے میں وہ ایک دن ڈوب جاتا ھے، اور پھر ایک دن اسی کے چہرے کی چاندنی ،اُس سمندر کی گہرائیوں سے موتیوں کی صورت اُبھرتی ھے۔۔۔"
اللہ پاک سب کو آسانیاں دے اور آسانیاں تقسیم کرنے کی توفیق دے، آمین۔

بقلم: سید اُسامہ علی شیرازی
یونیورسٹی آف انجئینرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، ٹیکسلا۔
 

Bhanjara

KaChiii
Banned
Nov 24, 2014
3,748
338
133
hlhlhl
قربانی۔۔۔کس کی؟
گلی کی نکڑ میں سیٹھ دلاور کے لڑکے عید کے لیۓ ہوۓ جانور کے ساتھ کھیلنے میں مصروف تھے۔ سب بچے اس جانور کے اردگرد ایسے جمع تھے جیسے یہ جانور ہمیشہ انکے ساتھ رہنے والا تھا۔کوئی اُسے پیار کررہا تھا، کوئی گھاس پکڑ کر اُسکے منہ میں ڈال رہا تھا،واقعی میں سارے بچے خوش و خرم دکھائی دے رہے تھے۔ سیٹھ صاحب کے بچے اپنے دوستوں کو بڑے فخر سے بتا رہے تھے کہ اباجان نے یہ بکرا 50000 میں خریدا ھے۔ اسی اثناء میں ایک بچہ جو اُسی گروہ کے پاس کھڑا تھا، اُس بکرے کو پیار کرنے کے لیۓ آگے بڑھا کہ سیٹھ کے چھوٹے بیٹے نے اُسے دھکا دے کر پیچھے کر دیا اور کہا موچی کے بچے ہو ،تمہاری ہمت کیسے ہوئی ہمارے بکرے کو ہاتھ لگانے کی۔ ہاں وہ موچی چچا سعید کا لڑکا جمیل تھا، لبوں پر خفیف سی مسکراہٹ لیۓ، آنکھوں میں کچھ عجب سی پریشانی لیۓ وہ 10 برس کی عمر میں 40 سال کا لگ رہا تھا۔ دھکا لگنے سے وہ دھڑام کر کے نیچے گرا۔اُس کے بازو پر کافی چوٹ آئی۔۔ روتا ہوا اُٹھا ، اور اپنے میلے کپڑے جھاڑتا ہوا گھر چلا گیا۔

رقیہ سعید اپنے بیٹے کو اس حالت میں دیکھ کر بہت پریشان ہوئی اور اُس سے ساری کتھا سننے بیٹھ گیئ۔ ماں کی ممتا
تھی کہ اسکے کمزور بازو سے بہتے ہوۓ ننھے خون کے قطرے اپنے تر کیۓ ہو دوپٹے سے پونچھنے لگی اور اسے جھک کر گلے سے لگا لیا، کچھ موتی اُسکی آنکھوں میں اُمڈ آۓ۔

شام کو جب سعید گھر واپس آیا تو رقیہ کو خاموش پا کر اُس سے پوچھ بیٹھا۔رقیہ نے سارا قصہ اسکے سامنے رکھ دیا۔اُس وقت تک جمیل سو چکا تھا، لیکن اُس رات سعید سو نا سکا۔کچھ خیالوں میں گُم سم بیٹھا تھا، "یہ غریب بھی نا۔اپنی آنکھوں پر نیںدوں کے قرض لیۓ ہوۓ ہوتے ہیں" کچھ یہی معاملہ سعید کے ساتھ بھی تھا، خیر جیسے تیسے اُس نے رات گزاری اور صبح جمیل کو سکول چھوڑنے کے لیۓ اپنا سائیکل نکالا۔لیکن آج منظر عجیب رنگ پیش کر رہا تھا،صبح بھی اُس طرح روشن دکھائی نا دیتی تھی، سعید اسے سکول لے جانے کی بجاۓ اپنے ساتھ فٹ پاتھ پر لے گیا جہاں وہ اپنا ٹھیلہ سا لگا کر جوتے مرمت کرتا تھا۔ "جوتا مرمت کرنے والے کو بھی جوتا ہی سمجھ لیا جاتا ھے"۔ سعید نے بڑے پیار سے اپنے لال کا گال چومتے ہوۓ کہا،" دیکھ جمیل پُتر۔ ہم لوگ غریب ہیں ،بکرا لینے کی حیثیت نہیں ہے ہماری۔تو سیٹھ کے بچوں کے پاس مت جایا کر ، وہ بڑے لوگ ہیں، تجھے کیا ضرورت تھی ان سے جھگڑنے کی؟ دیکھ جب تو پڑھ کے بڑا صاحب بن جاۓ گا نا تو ایک نہیں دو دو بکرے ذبح کرنا۔"

جمیل کا ذہن ان باتوں کو سمجھنے کے لیۓ کب بڑا تھا۔ اُس کے سر پر تو ایک ہی چیز سوار تھی کہ عید آرہی ھے ، ہمیں بھی بکرا لینا ھے، ابا سے دس دفع گلہ کر چکا تھا کہ ابا آپ ہمیشہ کہتے ہو اِس دفع اللہ کے حکم سے ہم بھی بکرا لیں گے، یہ اللہ کا حکم کیوں نہیں آتا؟ یہ بات سُن کر ہمیشہ سعید آب دیدہ ہو جاتا۔ خیر اس دفع جمیل کی ضد کچھ کم دکھائی دیتی تھی۔
اللہ اللہ کر کے عید کا دن بھی آ پہنچا ۔ رقیہ ہمیشہ جمیل کو صاف کپڑے پہنا کر تیار کرتی تھی، اِس دفعہ بھی معاملہ کچھ ایسا ہی تھا۔لیکن جمیل نے نمازِعید سے واپس آتے ہی کپڑے بدل کر وہی اپنے پُرانے کپڑے پہن لئے۔ اِس دفعہ وہ کھیلنے کے لیے باہر بھی نہیں تھا جا رہا ۔ آخر رقیہ نے پریشان ہو کر معاملہ سعید سے کہہ ڈالا۔ سعید بڑے پیار سے کمرے میں جا کر جمیل کو گود میں لیتے ہوۓ کہتا ھے۔
"جمیل پُتر ، کیا بات ھے؟ اتنا اُداس کیوں بیٹھا ھے؟ "
جمیل کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اپنے چھوٹے چھوٹے سُرخ لبوں کو جنبش دیتے ہوۓ پوچھتا ھے،" ابا جی ، آج بھی ہمارے گھر دال ہی پکے گی؟ آپ کسی سے گوشت مانگ لاؤ نا، میرا بہت دل کر رہا ھے گوشت کھانے کو"

جمیل کا یہ سوال سعید کے دل پر تیر کی طرح چُبھ گیا۔یک دم وہ اپنے عمر سے 20 سال بڑا دکھائی دینے لگا ، بالوں کی چاندی تھی کہ دن بدن نمایاں ہوتی جاتی تھی لیکن اس سوال پر تو پورا گھر روشن ہو گیا تھا۔

کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد سعید کے کمزور پڑتے ہوۓ ہاتھ جمیل کے گال پر آ پڑے اور اُسے سینے سے بھنچتے ہوۓ اُس کی بوڑھی آنکھوں میں ایک سیلاب تیرنے لگا۔ہاں وہ آج بھی دال ہی کھائیں گے، وہ آج بھی وہی کپڑے پہنیں گے جو پچھلی بہت سی عیدوں سے پہنتے آۓ تھے، وہ آج بھی اپنی عید کا جشن گھر میں رہ کر ہی منائیں گے، سعید ہر بار کی طرح آج بھی جوتے مرمت کرنے جاۓ گا تا کہ شام کے راشن کا بندوبست ہو سکے۔ آج بھی اللہ کا حکم نہیں آیا۔ یہ غریبوں کے ساتھ معاملے کچھ ایسا ہی ہوتا ھے۔قربانی تو ہوتی ھے، کچھ جانوروں کی کرتے ہیں ، کچھ اپنی خواہشوں کی ، اپنی ضرورتوں کی۔ ہمیں ان باتوں کو سمھجنا چاہیے کہ آخر۔
"قربانی۔۔۔کس کی؟"

ہمیں چاہیۓ کہ ایسے لوگ جو سفید پوش ہوں، وہ لوگ جو سارا سال کسمپر سی میں گزارا کرتے ہوں، عید کے دن اُنکا خیال رکھیں، اگر انہیں اپنی خوشیوں میں شریک ن کر سکیں تو انکی خوشی میں شریک ہو جائیں۔

"غریب کے چہرے کی چاندنی ہمیشہ دولت کی چمک دھمک کے سامنے ماند ہی پڑی ھے۔۔ عزت دولت کی ،کی جاتی ھے، شہرت دولت کی ہوتی ھے۔۔ غریب کے سامنے تو بس ایک ہی سمندر ہوتا ھے، اُسکی انا کا سمندر ۔۔ جس کے دھارے میں وہ موت تک ڈبکیاں لگاتا جاتا ھے، اور اُسی دھارے میں وہ ایک دن ڈوب جاتا ھے، اور پھر ایک دن اسی کے چہرے کی چاندنی ،اُس سمندر کی گہرائیوں سے موتیوں کی صورت اُبھرتی ھے۔۔۔"
اللہ پاک سب کو آسانیاں دے اور آسانیاں تقسیم کرنے کی توفیق دے، آمین۔

بقلم: سید اُسامہ علی شیرازی
یونیورسٹی آف انجئینرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، ٹیکسلا۔
:bigtears:bigtears:bigtears:bigtears:bigtears:bigtears:bigtears:bigtears:bigtears:bigtears:bigtears:bigtears:bigtears:bigtears:bigtears:bigtears
 
Top