مجبورآّ ہی سہی

  • Work-from-home

dr maqsood hasni

Senior Member
Aug 11, 2008
943
286
1,163
72
kasur, pakistan

مجبورآّ ہی سہی

منسانہ


جب انسان زمین پر آتا ہے‘ اپنے قدموں پر نہیں ہوتا۔ اسی طرح جب زمین سے اٹھتا ہے‘ تو بھی اپنے قدموں پر نہیں ہوتا۔ پہلے روز کی طرح‘ مجبور و بےکس اور لاچار ہوتا ہے۔ دونوں صورتوں میں وہ اوروں کا محتاج ہوتا ہے۔ اللہ نے انسان کو زمین پر اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا ہوتا ہے اور یہ خلافت کا فریضہ‘ اسے اپنے قدموں پر ہونے کے بعد سے‘ تامرگ انجام دینا ہوتا ہے۔ زمین پر موجود تمام مخلوق کی اس پر ذمہ داری ہوتی ہے اور کمی کوتاہی کے سلسلہ میں‘ بعد از مرگ پوچھ گچھ کا دروازہ کھل جاتا ہے۔


بدقسمتی دیکھیے‘ وہ نفس کے تابع ہو کر‘ ذات کے خول میں مقید ہو جاتا ہے۔ کسی اور کے دکھ درد پریشانی سے لینا دینا ختم کر دیتا ہے۔ وہ زمین اور آسمان میں موجود سب کچھ‘ گرہ میں کر لینے کی فکر میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ وہ یہ بھول جاتا ہے‘ کچھ باقی رہنے کا نہیں۔ باقی تو اللہ کی ذات کو رہنا ہے۔ یہ معاملہ شاہوں اور اس کے قریبیوں تک ہی محدود نہیں‘ اس میں ہر کوئی شامل ہو جاتا ہے اور اپنی سطع کی کوشش کرتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ جمع کر لینے کی فکر‘ اس سے راتوں کی نیند چھین لیتی ہے۔


اس بات کو ایک عرصہ ہوا۔ کوڑا رسید محکمے کا ایک افسر‘ جو اوروں کی طرح جب پیدا ہوا‘ یقینا اپنے قدموں پر نہ تھا‘ جب حیات سے گیا‘ چارپائی پر بےحس و حرکت پڑا ہوا تھا۔ اندر باہر جنازہ پر آنے والوں کا ہجوم تھا کہ اس کے تینوں پتر افسر اور چلتا پھرتا پرزہ تھے۔ شاید ہی کسی زبان پر‘ اس کے لیے کلمہءخیر ہو گا۔ اس نے زندگی میں لٹ مچائے رکھی تھی۔ مرتشی ہونے کے حوالہ سے‘ خوب نام کمایا تھا۔ اسی کمائی سے‘ اس نے بچے پڑھائے لکھائے۔ یہ دو نمبری‘ ان کی خوراک کے لیے استعمال ہوا۔ اسی کمائی سے عالی شان کوٹھی تعمیر کی۔ ورنہ گریڈ سترہ کا افیسر بمشکل کھانا پانی اور لباس مہیا کر پاتا تھا۔
باہر صحن میں اس افسر کی میت پڑی تھی‘ اے سی لگے اندر اس کے تینوں پڑھے لکھے پوت پلاٹوں کی تقسیم پر تقریبا جھگڑ رہے۔ تقریبا اس لیے لکھا ہے کہ ابھی تک ان کے ہاتھ ایک دوسرے کے گریبان تک نہ پہنچے تھے۔ شاید پہنچ ہی جاتے کہ ان کی ماں برق رفتاری سے اس اے سی لگے کمرے میں داخل ہوئی اور کہنے لگی: پلاٹوں کی بانٹ کا معاملہ کسی اگلی نشت پر اٹھا رکھو پہلے صحن میں پڑے کنجر کی میت کو ٹھکانے لگا لو اور مجبورآّ ہی سہی‘ برا سا منہ بنا کر آئے لوگوں میں شامل ہو جاؤ۔

ماں کا کہا مان کر وہ باہر آ گئے اور مگر مچھ کے آنسو بہانے لگے۔ دیکھنے والے ان کا چالا دیکھ چکے تھے‘ تاہم وہ بھی جعلی افسردگی میں آ گئے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ان تینوں میں سے‘ کسی نے بھی‘ مرنے والے کا آخری بار منہ دیکھنے کی زحمت نہ اٹھائی۔ وہ لوگوں سے زیادہ جلدیوں میں تھے۔ سوچ میں پڑ گیا‘ جن کے لیے وہ اپنے کندھوں کا بوجھ بڑھاتا رہا‘ وہ غیروں سے بھی بڑھ کر‘ غیر ہو چکے تھے۔ انہیں اسباب بالا زمین کے چھین لینے کی فکر لاحق تھی۔ زہے افسوس اسباب زیر زمین کی کسی کو یاد تک نہ تھی۔

 
Top