ملول کر ہمیں اتنا ملول کر جاناں
کہ ہم نہ یاد کریں تجھ کو بھول کر جاناں
ہیں مثلِ نامۂ بے نام ، دستِ قاصد میں
سو ہم سے در بدروں کو وصول کر جاناں
پھر آگئے ترے کوچے میں خوش نگاہ ترے
غمِ جہاں کی صلیبوں پہ جھول کر جاناں
کبھی تو دستِ حنائی سے سرخی لب سے
ہمارے زخمِ تمنا کو پھول کر جاناں
یہ اہلِ درد تری مملکت میں رہتے ہیں
سو تو وہ ترکِ تعلق کا فیصلہ یہ سہی
سو اختیار کوئی تو اصول کر جاناں
فراز تجھ کو خداوند مانتا ہے ، اسے
دیارِ عشق میں اپنا رسول کر جاناں
کہ ہم نہ یاد کریں تجھ کو بھول کر جاناں
ہیں مثلِ نامۂ بے نام ، دستِ قاصد میں
سو ہم سے در بدروں کو وصول کر جاناں
پھر آگئے ترے کوچے میں خوش نگاہ ترے
غمِ جہاں کی صلیبوں پہ جھول کر جاناں
کبھی تو دستِ حنائی سے سرخی لب سے
ہمارے زخمِ تمنا کو پھول کر جاناں
یہ اہلِ درد تری مملکت میں رہتے ہیں
سو تو وہ ترکِ تعلق کا فیصلہ یہ سہی
سو اختیار کوئی تو اصول کر جاناں
فراز تجھ کو خداوند مانتا ہے ، اسے
دیارِ عشق میں اپنا رسول کر جاناں