نئے سال کا اسقبالیہ اور حوادث کی یلغار

  • Work-from-home

dr maqsood hasni

Senior Member
Aug 11, 2008
943
286
1,163
72
kasur, pakistan

نئے سال کا اسقبالیہ اور حوادث کی یلغار

(جاوید اقبال بھٹی)

نیا سال شروع ہونے کو ہے، دنیا کے مختلف ممالک میں نئے سال کا مختلف طریقوں سے استقبال کیا جاتا ہے، ہمارے ہاں کا طور ہی ان سب سے الگ تھلگ ہے۔ یہ چلن ہمیں مہذیب دنیا کے' غیر مہذیب شہریوں میں لا کھڑا کرتا ہے۔ ہم خدا نخواستہ' حسدوں اور باتیں بنانے والوں کے منہ میں مقدس امریکی خاک' دہشت پسند سے دکھنے لگتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہے' کہ وہ فلفل سرخ کھانے سے پرہیز رکھتے ہیں اور ہم اس کے عاشق صادق ہیں۔ دوسروں کو مرچیں نہ لگیں' تو کام یا معاملہ کرنے کا فائدہ ہی کیا ۔ ہمارے ہاں نئے سال کی آمد دھڑلے
دار اور کھڑاک دار ہوتی ہے۔۔ پٹاخے تو پٹاخے' ہوائی فائرنگ اور سڑکوں پر موٹرسائیکلوں کے کرتب' بلا قیمت اور بلا کہے' دکھائے جاتے ہیں۔ ان کا ایک ہی نعرہ ہوتا ہے۔
بچ کے رہنا ساڈے تے ناں رہنا

ہم آزاد شہری ہیں اور آزاد' موج میں آ کر کچھ بھی اور کہیں بھی کچھ یا کچھ ناکچھ کر سکتا ہے۔ اگر اگر ہم یہ طور طریقے اختیار نہیں کریں گے تو ڈاکٹروں کا تو دیوالیہ نکل جائے گا۔ بہت سووں کی جیب کے بھرم ان کے اس چلن سے وابستہ ہیں۔

انتہائی افسوسناک خبروں کے ساتھ ہمارے بیشتر تہواروں کا اختتام ہوتا ہے چاہے وہ بسنت ہو یا نیو ائیر نائٹ۔ ہر سال 31 دسمبر کی رات پورا پاکستان ہوائی فائرنگ سے گونج اٹھتا ہے۔ ہمارے ہاں نئے سال کا آغاز' گویا حادثات سے ہوتا ہے اور پھر سارا سال چل سو چل۔ اگر کسی کی سمجھ میں ہمارا طریقہ نہیں آتا' تو اس کی سمجھ' کسی کی سمجھ کے قابل ہی کب ہے۔ انہیں اہل سمجھ سے اپنی سمجھ کا علاج کرانا چاہیے۔ ماتم کرنے کی ضرورت نہیں' کیوں کہ حوادث کے بعد جگہ جگہ صف ماتم بچھ جاتی ہے۔


بندر کے ہاتھ میں استرا' اس طرح یا اس طرح آ جائے' تو پورے جنگل کے گلے خطرے میں پڑ جاتے ہیں۔ خود بندر کا گلا خطرے کی زد سے باہر نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ اس کی ناتجربہ کاری تک محدود نہیں' موج مستی اور چلبلیوں کا اس میں بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں بیشتر لوگ لائسنسڈ اسلحہ بطور فیشن صرف نیو ائیر اور شادی بیاہ کے موقع پر استعمال کرنے کی غرض سے رکھتے ہیں۔ اسلحہ ایسی چیز نہیں جو بطور فیشن رکھی جائے کہ اس کو استعمال اور ہینڈل کرنے کی باقائدہ تربیت نہ لی جائے ورنہ ایسی صورت میں اسلحہ رکھنے سے انسان محفوظ نہیں بلکہ مزید خطرے میں آ جاتا ہے۔

نیو ائیر پر حادثات کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ لوگوں نے اسلحہ استعمال کرنے کی تربیت نہیں لی ہوتی ان سے غلطی سے گولی چل جاتی ہے اور یہ گولی کسی نہ کسی کو لگ جاتی ہے. دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ ہوا میں چلائی گئی گولی واپس زمین کی طرف بھی آتی ہے ظاہر ہے جب ہوائی فائرنگ گنجان آباد شہروں میں کی جائے گی تو اس بات کا بہت امکان ہے کہ ہوا میں چلائی گئی گولی' زمین پر آ کر کسی انسان پر گر کر اسے زخمی یا ہلاک کر سکتی ہے۔ ان حادثات کی ذمہ داری حکومت سے زیادہ عوام پر عائد ہوتی ہے۔

کوئی بھی حکومت ہر شہر کی ہر گلی میں پولیس تعینات نہیں کر سکتی جو لوگوں پر نظر رکھے اور ہوائی فائرنگ کرنے والوں کو گرفتار کرے۔ عوام میں ہی اس بات کا شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ اس قسم کی خوشی اور تفریح درست نہیں۔ پستول کی ایک گولی تیس روپے اور رائفل کی سو روپے سے زائد کی آتی ہے اور ہر سال 31 دسمبر کو ملک بھر میں لاکھوں نہیں تو ہزاروں گولیاں تو فائر کی جاتی ہوں گی۔ اگر حساب لگایا جائے تو یہ ایک خطیر رقم بنتی ہے. اگر اس رقم کو ہوا میں اڑا کر دوسروں کی زندگیوں سے کھیلنے کی بجائے مستحقین میں تقسیم کر دیا جائے تو کسی ناکسی خرابی کا دروازہ بند ہو سکتا ہے۔ نئے سال کے آنے کا اس سے بڑھ کر کوئی استقبال نہیں ہو سکتا۔

سوچنے کی یہ بات بھی ہے کہ ہمارے ملک کے نوجوان نئے سال کا آغاز ان خطرناک سرگرمیوں سے کیوں کرتے ہیں؟
باقی دنیا میں ایسا کیوں نہیں ہوتا؟
شاید اس کی دجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہر سال 31 دسمبر کو سرِ شام ایک ڈنڈا بردار ٹولہ سڑکوں پر نکل کھڑا ہوتا ہے اور جو بھی نئے سال کی خوشی مناتا نظر آئے اس کو آڑے ہاتھوں لیتا ہے۔
ہو سکتا ہے یہ اس کا رد عمل ہو۔
ہاں التہ کسی مسلح شخص کو' جو ہوائی فائرنگ یا موٹرسائیکل پر ہوا سے باتیں کر رہا ہو اس کو آڑے ہاتھوں لینا آسان کام نہیں ہوتا۔
نوجوانوں کو یہ بتایا جاتا ہے کے نیا سال منانا ہماری روایات اور اقدار کے منافی ہے اور اس کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔ نتیجتاً نوجوان جس کے پاس پہلے ہی تفریح کے کوئی خاص ذرائع نہیں' وہ اس موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتا اور اس طرح نیو ائیر منانے میں مہم جوئی کا عنصر بھی شامل ہو جاتا ہے۔
اگر ہمارے ملک میں نوجوانوں کو نئے سال کا آغاز منانے کی آزادی ہو تو کوئی بھی نیا سال یقیناً ایسے منانا نہیں پسند کرے گا جیسے فی الحال منایا جاتا ہے۔
 
Top