نہیں کوئی Relationجز عشق کہیں سچا
نہیں کوئی Justification چاہت سے بڑی
یہ درد ملا ہے جو تیرے پیار میں مجھ کو
نہیں کوئی Vacation یہ کارِ مسلسل ہے
ہم بکھری ہوئی ڈار پرندوں کی ہیں یارو
نہیں کوئی Nation ہم لوگ تو اِک بِھیڑ ہیں
وہی شہر ستم کیش ستم خیز ہے یارو
نہیں کوئی Nagation اس شہر میں ظالم کی
ہر شخص بنا پھرتا ہے سچائی کا اوتار
نہیں کوئی Verificattion اور اس پہ ستم
ہے سالگرہ آج جدائی کی مگر کیوں
نہیں کوئی celebration اے چشم کرم
اِک بار جو چل پڑتا ہے رُکتا نہیں فرحت
نہیں کوئی station اس راہ محبت میں
فرحت عباس شاہ