پولیو کے مسیحا

  • Work-from-home

Just_Like_Roze

hmmmm ...
Super Star
Aug 25, 2011
7,884
5,089
1,313

الیکٹران مائیکرو اسکوپ سے لی گئی پولیو وائرس کی تصویر Corbis

جوناس ایڈورڈ سالک (1995-1914) امریکی ریسرچ سائنٹسٹ تھے جنھوں نے مختلف امراض کی روک تھام اور خاتمے کے لیے تحقیقات کیں- پولیو ویکسین کی دریافت ان کا سب سے عظیم کارنامہ ہے جس کے لیے ساری انسانیت ان کی احسان مند رہے گی- بعد ازاں البرٹ بی سابن نے پولیو کے قطرے ایجاد کیے جو آجکل دنیا بھر میں استعمال کیے جاتے ہیں- پولیو ویکسین اور پولیو کے قطروں میں فرق یہ ہے کہ سالک نے ویکسین مردہ جرثوموں سے تیار کی تھی جبکہ سابن نے زندہ جرثومہ استعمال کیے تھے-

1953 میں جب پولیو ویکسین تیار ہوئی تو سالک نے اس کا تجربہ سب سےپہلے خود پر، اپنی بیوی اور تین بچوں پر کیا- جب ثابت ہوگیا کہ یہ دوا موثر اور محفوظ ہے تو اس کا تجربہ بڑے پیمانے پر کیا گیا- امریکہ کے اسکولوں میں 1830000( اٹھارہ لاکھ تیس ہزار) بچوں کو ایک پروگرام کے تحت پولیو کے ٹیکے دئیے گئے جس کا اہتمام National Foundation for Infantile Paralysis نے کیا تھا جس کا موجودہ نام March of Dimes Birth Defects Foundation ہے-
1957
فاؤنڈیشن نے سالک کے پروجیکٹ کے لیے 1700000 ڈالرز کا عطیہ دیا- اپریل 1955 میں اس ویکسین کے محفوظ اور موثر ہونے کا اعلان کیا گیا- سالک کو کئی ایک اعزازات سے نوازا گیا- صدر آئزن ہاور نے انھیں Great Achievements in the Field of Science کا طلائی تمغہ دیا- انھوں نے نقد انعامات لینے سے انکار کردیا اور اپنی لیبارٹری میں مصروف ہوگئے-
البرٹ سابن(1993-1906) دوسرے سائنسدان ہیں جن کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا- وہ روس کے اس علاقے میں پیدا ہوئے جو آج کل پولینڈ کا حصہ ہے- 1922 میں وہ اپنے والدین کے ساتھ امریکہ چلے گئے- نیویارک یونیورسٹی سے انھوں نے 1931 میں میڈیکل کی ڈگری لی اور مختلف اداروں سے منسلک ہوکر تحقیقات میں مصروف ہوگئے-

جن دنوں سالک پولیو ویکسین تیار کر رہے تھے سابن بھی اپنی تحقیقات میں مصروف تھے- انھوں نے 1957 میں پولیو کے قطرے دریافت کیے- سالک اور سابن کے ویکسین اور قطروں میں فرق یہ تھا ، جیسا کہ اوپر کہا جاچکا ہے، سالک نے مردہ جرثوموں سے دوا تیار کی تھی جبکہ سابن نے کمزور زندہ جرثوموں سے قطرے دریافت کیے-

سالک کے ویکسین میں نقص یہ تھا کہ اس سے آنتوں کا انفیکشن ابتدائی مرحلے میں ختم نہیں ہوتا تھا- دوسرے یہ کہ، ویکسین کے مقابلے میں قطرے پلانا آسان تھا اور اس کا اثر طویل عرصے تک قائم رہتا تھا- ایک اور خرابی یہ تھی کہ سالک کے ویکسین میں پولیو کے جراثیم مریض سے دوسرے لوگوں میں منتقل ہوسکتے تھے- 1954 میں سابن نے اوہائیو میں تجربے کیے- اسکے بعد انھوں نے روسی ماہرین کے ساتھ کام کیا تاکہ قطروں کو زیادہ سے زیادہ محفوظ اور موثر بنایا جاسکے- سابن کے قطروں سے انفیکشن کو آنتوں ہی میں کنٹرول کرلیا گیا تاکہ وہ خون میں داخل نہ ہوسکیں-
hi.png


امریکا کے صدر آئزن ہاور جوناس سالک کو طلائی تمغہ دے رہے ہیں —
27
جنوری 1956 —

1955 سے 1961 کے دوران دس کروڑ افراد کو روس، مشرقی یورپ، سنگاپور، میکسیکو اور نیدرلینڈز میں پولیو کے قطرے پلائے گئے- پولیو کے قطروں کی تیاری سب سے پہلے میخائیل چوماکوف نے صنعتی پیمانے پر شروع کی- امریکہ میں سب سے پہلے اپریل 1960 میں سنسناٹی میں 180000 اسکول کے بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے گئے- سوویت یونین نے پولیو سے متاثر ہونیوالے ممالک مثلاًجاپان میں لاکھوں کی تعداد میں پولیو کے قطرے بھیجے -

دنیا پر اسکے کیا اثرات ہوئے؟ ایک اندازے کے مطابق عالمی ادارۃ صحت، یونیسف اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں کی کاوشوں سے 1990 تک تقریباً پانچ لاکھ افراد اس سے فیض یاب ہوئے اور 1991 تک دنیا کے مغربی نصف میں اس مرض پر قابو پالیا گیا تھا- ترقی پزیر ممالک میں 1988 تک ہر سال 350000 کیس ریکارڈ کیے گئے تھے- 2002 میں 93 ممالک میں پانچ کروڑ سے زیادہ لوگوں کو پولیوکےقطرے پلائے گئے-

2002 تک دنیا بھر میں اس مرض کے 1924 کیس ریکارڈ ہوئےجو زیادہ تر ہندوستان میں ہوئے تھے- ہندوستان میں بل اور ملینڈا گیٹس فاونڈیشن کی مدد سے پولیو کے خاتمے کی کامیاب مہم چلائی گئی اور یہاں آخری کیس 2011 میں ریکارڈ کیا گیا- اس کے بعد افغانستان، مصر، نائیجر، نائیجیریا، پاکستان اور صومالیہ چھ ایسے ممالک تھے جہاں پولیو موجود تھا-آج 2014 میں، دنیا کے تین ممالک پاکستان، افغانستان اور نائیجیریا میں یہ مرض اب بھی موجود ہے۔

چین میں 1993 میں قومی مہم چلائی گئی جس میں صرف دو دنوں میں آٹھ کروڑ سے زیادہ بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے گئے اور 1995 میں وہاں صرف پانچ کیس ہوئے تھے-

پاکستان واحد ملک تھا جہاں 2010 میں پولیو کے کیسز میں اضافہ ہوا-

پاکستان میں پولیو کے قطرے پلانا جان جوکھم کا کام ہے جہاں عسکریت پسند پولیو کے قطرے پلانے والوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں- قبائلی علاقوں کے علاوہ پاکستان کے بعض شہروں مثلاً کراچی، پشاور اور کوئٹہ وغیرہ میں دہشت گرد انھیں اپنا نشانہ بناتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پولیو اب بھی یہاں موجود ہے اور بیرون ملک سفر کرنے کے لیے انسداد پولیو کی سرٹیفیکٹ پیش کرنا لازمی ہے-

افسوس اس بات کا ہے کہ ایک طرف اس معاملے میں ہمیں دہشت گردی کا سامنا ہےتو دوسری طرف بعض مشکلات ہماری اپنی پیدا کردہ ہیں- ہمارے ملک میں یہ شعبہ بھی دیگر اور شعبوں کی طرح سست روی کا شکار ہے جبکہ ہمیں اس منصوبہ کو ہنگامی بنیادوں پر آگے بڑھانے کی ضرورت ہے- یہ خبر البتہ امید افزا ہے کہ پشاور میں دو دن کے اندرتقریباً پانچ لاکھ بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جائیں گے-

مشہور صحافی Edwad R.Murrow نے جوناس سالک سے پوچھا

"اس ویکسین کا پیٹنٹ کس کے پاس ہے؟"

اس عظیم مسیحا نے جو جواب دیا، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔

انہوں نے کہا "اس کا پیٹنٹ عوام کے پاس ہے، بلکہ میں تو آپ سے یہ پوچھتا ہوں کہ کیا آپ سورج کو پیٹنٹ کر سکتے ہیں؟"۔
 

Bird-Of-Paradise

TM ki Birdie
VIP
Aug 31, 2013
23,935
11,040
1,313
ώόήȡέŕĻάήȡ

الیکٹران مائیکرو اسکوپ سے لی گئی پولیو وائرس کی تصویر Corbis

جوناس ایڈورڈ سالک (1995-1914) امریکی ریسرچ سائنٹسٹ تھے جنھوں نے مختلف امراض کی روک تھام اور خاتمے کے لیے تحقیقات کیں- پولیو ویکسین کی دریافت ان کا سب سے عظیم کارنامہ ہے جس کے لیے ساری انسانیت ان کی احسان مند رہے گی- بعد ازاں البرٹ بی سابن نے پولیو کے قطرے ایجاد کیے جو آجکل دنیا بھر میں استعمال کیے جاتے ہیں- پولیو ویکسین اور پولیو کے قطروں میں فرق یہ ہے کہ سالک نے ویکسین مردہ جرثوموں سے تیار کی تھی جبکہ سابن نے زندہ جرثومہ استعمال کیے تھے-

1953 میں جب پولیو ویکسین تیار ہوئی تو سالک نے اس کا تجربہ سب سےپہلے خود پر، اپنی بیوی اور تین بچوں پر کیا- جب ثابت ہوگیا کہ یہ دوا موثر اور محفوظ ہے تو اس کا تجربہ بڑے پیمانے پر کیا گیا- امریکہ کے اسکولوں میں 1830000( اٹھارہ لاکھ تیس ہزار) بچوں کو ایک پروگرام کے تحت پولیو کے ٹیکے دئیے گئے جس کا اہتمام National Foundation for Infantile Paralysis نے کیا تھا جس کا موجودہ نام March of Dimes Birth Defects Foundation ہے-
1957
فاؤنڈیشن نے سالک کے پروجیکٹ کے لیے 1700000 ڈالرز کا عطیہ دیا- اپریل 1955 میں اس ویکسین کے محفوظ اور موثر ہونے کا اعلان کیا گیا- سالک کو کئی ایک اعزازات سے نوازا گیا- صدر آئزن ہاور نے انھیں Great Achievements in the Field of Science کا طلائی تمغہ دیا- انھوں نے نقد انعامات لینے سے انکار کردیا اور اپنی لیبارٹری میں مصروف ہوگئے-
البرٹ سابن(1993-1906) دوسرے سائنسدان ہیں جن کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا- وہ روس کے اس علاقے میں پیدا ہوئے جو آج کل پولینڈ کا حصہ ہے- 1922 میں وہ اپنے والدین کے ساتھ امریکہ چلے گئے- نیویارک یونیورسٹی سے انھوں نے 1931 میں میڈیکل کی ڈگری لی اور مختلف اداروں سے منسلک ہوکر تحقیقات میں مصروف ہوگئے-

جن دنوں سالک پولیو ویکسین تیار کر رہے تھے سابن بھی اپنی تحقیقات میں مصروف تھے- انھوں نے 1957 میں پولیو کے قطرے دریافت کیے- سالک اور سابن کے ویکسین اور قطروں میں فرق یہ تھا ، جیسا کہ اوپر کہا جاچکا ہے، سالک نے مردہ جرثوموں سے دوا تیار کی تھی جبکہ سابن نے کمزور زندہ جرثوموں سے قطرے دریافت کیے-

سالک کے ویکسین میں نقص یہ تھا کہ اس سے آنتوں کا انفیکشن ابتدائی مرحلے میں ختم نہیں ہوتا تھا- دوسرے یہ کہ، ویکسین کے مقابلے میں قطرے پلانا آسان تھا اور اس کا اثر طویل عرصے تک قائم رہتا تھا- ایک اور خرابی یہ تھی کہ سالک کے ویکسین میں پولیو کے جراثیم مریض سے دوسرے لوگوں میں منتقل ہوسکتے تھے- 1954 میں سابن نے اوہائیو میں تجربے کیے- اسکے بعد انھوں نے روسی ماہرین کے ساتھ کام کیا تاکہ قطروں کو زیادہ سے زیادہ محفوظ اور موثر بنایا جاسکے- سابن کے قطروں سے انفیکشن کو آنتوں ہی میں کنٹرول کرلیا گیا تاکہ وہ خون میں داخل نہ ہوسکیں-View attachment 86382

امریکا کے صدر آئزن ہاور جوناس سالک کو طلائی تمغہ دے رہے ہیں —
27
جنوری 1956 —

1955 سے 1961 کے دوران دس کروڑ افراد کو روس، مشرقی یورپ، سنگاپور، میکسیکو اور نیدرلینڈز میں پولیو کے قطرے پلائے گئے- پولیو کے قطروں کی تیاری سب سے پہلے میخائیل چوماکوف نے صنعتی پیمانے پر شروع کی- امریکہ میں سب سے پہلے اپریل 1960 میں سنسناٹی میں 180000 اسکول کے بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے گئے- سوویت یونین نے پولیو سے متاثر ہونیوالے ممالک مثلاًجاپان میں لاکھوں کی تعداد میں پولیو کے قطرے بھیجے -

دنیا پر اسکے کیا اثرات ہوئے؟ ایک اندازے کے مطابق عالمی ادارۃ صحت، یونیسف اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں کی کاوشوں سے 1990 تک تقریباً پانچ لاکھ افراد اس سے فیض یاب ہوئے اور 1991 تک دنیا کے مغربی نصف میں اس مرض پر قابو پالیا گیا تھا- ترقی پزیر ممالک میں 1988 تک ہر سال 350000 کیس ریکارڈ کیے گئے تھے- 2002 میں 93 ممالک میں پانچ کروڑ سے زیادہ لوگوں کو پولیوکےقطرے پلائے گئے-

2002 تک دنیا بھر میں اس مرض کے 1924 کیس ریکارڈ ہوئےجو زیادہ تر ہندوستان میں ہوئے تھے- ہندوستان میں بل اور ملینڈا گیٹس فاونڈیشن کی مدد سے پولیو کے خاتمے کی کامیاب مہم چلائی گئی اور یہاں آخری کیس 2011 میں ریکارڈ کیا گیا- اس کے بعد افغانستان، مصر، نائیجر، نائیجیریا، پاکستان اور صومالیہ چھ ایسے ممالک تھے جہاں پولیو موجود تھا-آج 2014 میں، دنیا کے تین ممالک پاکستان، افغانستان اور نائیجیریا میں یہ مرض اب بھی موجود ہے۔

چین میں 1993 میں قومی مہم چلائی گئی جس میں صرف دو دنوں میں آٹھ کروڑ سے زیادہ بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے گئے اور 1995 میں وہاں صرف پانچ کیس ہوئے تھے-

پاکستان واحد ملک تھا جہاں 2010 میں پولیو کے کیسز میں اضافہ ہوا-

پاکستان میں پولیو کے قطرے پلانا جان جوکھم کا کام ہے جہاں عسکریت پسند پولیو کے قطرے پلانے والوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں- قبائلی علاقوں کے علاوہ پاکستان کے بعض شہروں مثلاً کراچی، پشاور اور کوئٹہ وغیرہ میں دہشت گرد انھیں اپنا نشانہ بناتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پولیو اب بھی یہاں موجود ہے اور بیرون ملک سفر کرنے کے لیے انسداد پولیو کی سرٹیفیکٹ پیش کرنا لازمی ہے-

افسوس اس بات کا ہے کہ ایک طرف اس معاملے میں ہمیں دہشت گردی کا سامنا ہےتو دوسری طرف بعض مشکلات ہماری اپنی پیدا کردہ ہیں- ہمارے ملک میں یہ شعبہ بھی دیگر اور شعبوں کی طرح سست روی کا شکار ہے جبکہ ہمیں اس منصوبہ کو ہنگامی بنیادوں پر آگے بڑھانے کی ضرورت ہے- یہ خبر البتہ امید افزا ہے کہ پشاور میں دو دن کے اندرتقریباً پانچ لاکھ بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جائیں گے-

مشہور صحافی Edwad R.Murrow نے جوناس سالک سے پوچھا

"اس ویکسین کا پیٹنٹ کس کے پاس ہے؟"

اس عظیم مسیحا نے جو جواب دیا، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔

انہوں نے کہا "اس کا پیٹنٹ عوام کے پاس ہے، بلکہ میں تو آپ سے یہ پوچھتا ہوں کہ کیا آپ سورج کو پیٹنٹ کر سکتے ہیں؟"۔
informative
 
Top