پھر کوئی آیا دلِ زار، نہیں کوئی نہیں
راہرو ہوگا کہیں اور چلا جائیگا
ڈھل چکی رات ، بکھرنے لگا تاروں کا غبار
لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ
سو گئی راستہ تک تک کے ہر ایک راہگزار
اجنبی خاک نے دھندلا دئیے قدموں کے سراغ
گل کرو شمعیں ، بڑھا دو مے و مینا و ایاغ
اپنے بے خواب کواڑوں* کو مقفل کر دو
اب یہاں کوئی نہیں ، کوئی نہیں آئیگا
راہرو ہوگا کہیں اور چلا جائیگا
ڈھل چکی رات ، بکھرنے لگا تاروں کا غبار
لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ
سو گئی راستہ تک تک کے ہر ایک راہگزار
اجنبی خاک نے دھندلا دئیے قدموں کے سراغ
گل کرو شمعیں ، بڑھا دو مے و مینا و ایاغ
اپنے بے خواب کواڑوں* کو مقفل کر دو
اب یہاں کوئی نہیں ، کوئی نہیں آئیگا