ھماری تاریخ

  • Work-from-home

yoursks

Always different.., Confirm
VIP
Jul 22, 2008
17,222
8,013
1,113
دعاؤں میں
جرجان سے طوس جانے والا قافلہ پہاڑ کے دامن میں پہنچا ہی تھا کہ اچانک ڈاکو اس پر ٹوٹ پڑے اور لوٹ مار کا بازار گرم ہوگیا۔ اسی دوران ڈاکوؤں کے سردار نے دیکھا کہ قافلے کا ایک نو عمر لڑکا اپنا تھیلا ادھر ادھر چھپانے کی کوشش کررہا ہے۔ اس پکڑ کر سردار کی خدمت میں لایا گیا ۔ لڑکے نے تھیلا سینے سے چمٹا لیا تھا۔ سردار نے وہ تھیلا اس سے چھین لیا تو وہ لڑکا منت سماجت کرتے ہوئے کہنے لگا، تھیلے میں جو کچھ نقدی ہے، وہ آپ لے لیں مگر جو کاغذات اس میں ہیں وہ براہ کرم مجھے لوٹا دیں۔
سردار بڑی حیرت سے بچے کو دیکھنے لگا کہ خلاف معمول اسے نقدی کی تو فکر ہے نہیں مگر ان کاغذات کی بڑی فکر ہے۔ آخر کیوں? جب ڈاکو نے اس کی وجہ بچے سے پوچھی۔ تو بچے نے جواب دیا کہ ان اوراق میں میرا وہ علمی سرمایہ ہے جو میں نے بڑی مصیبتیں جھیل کر اور سفر کی سختیاں سہہ کر حاصل کیا ہے۔ اگر یہ مجھ سے چھن گیا تو میں اپنے اس عزیز ترین علمی سرمائے سے محروم ہوجاؤں گا۔ سردار چند لمحوں کیلئے حیرت میں ڈوب گیا، پھر اس کی آواز ابھری: "میاں صاحبزادے! وہ علم کس کام کا جسے مجھے ڈاکو لے اڑیں۔ ہم تو یہ سنتے آئے ہیں کہ علم وہ دولت ہے جسے کوئی چرا نہیں سکتا"۔ یہ کہا اور تھیلا بچے کی جانب پھینک دیا۔
اس کی بات تو ختم ہوگئی۔ ادھر بچے کے دل و دماغ میں ایک ہلچل سی مچ گئی۔ سردار کے الفاظ بار بار اس کے ذہن میں گونج رہے تھے:
"وہ علم کس کام کا جسے مجھ سے ڈاکو لے اڑیں"۔
سوچتے سوچتے اس بچے نے اپنی زندگی کا اہم ترین فیصلہ کیا۔ وہ یہ کہ اب لکھے ہوئے علم پر کبھی انحصار نہیں کرے گا، وہ جو کچھ سیکھے گا ، اسے قرطاس و قلم کے حوالے کرنے کی بجائے دل و دماغ میں نقش کرے گا۔ بچے کے اس فیصلے نے اس کی زندگی بدل ڈالی۔ اس نو عمر لڑکے نے علم حاصل کرنے کیلئے اپنا سب کچھ قربان کر ڈالا۔ اپنے سینے اور اپنے دل و دماغ کو علوم کا مرکز بنالیا۔ تاریخ نے اس بچے کو امام غزالی رحمہ اللہ کے نام سے پہچانا۔
 
  • Like
Reactions: nrbhayo
Top