ہمیں اک عہد کرنا ہے
ہمیں اپنی جنوں آثار تنہائی سے
وحشت خیز اور پرہول راتوں کے مسلسل رتجگوں سے
عہد کرنا ہے
ہمیں اک عہد کرنا ہے
در و دیوار کی بے مہر خاموشی سے
آنکھوں میں دریچوں سے گزرتے
خوف کے لرزیدہ لمحوں سے
مکانوں میں مکینوں کی فسردہ ہم نشینی سے
سماعت میں اترتے اجنبی لہجوں سے
سنگ آثار آوازوں سے
ہر سو قریۂ بے سبزہ و گل میں
سرابوں کے چمکتے منظروں سے
عرصۂ بے سائباں میں آتشیں کرنوں کی بارش سے
نگاہوں کے سلگتے زاویوں میں
شہر ناپرساں کی صحرا آشنا ویرانیوں سے
اور ان نا آشنا رستوں کے سناٹوں سے
ان ڈھلتی ہوئی شاموں کی بے چہرہ اداسی سے
غم ہجراں کی ان جاں سوز صبحوں کی سسکتی ساعتوں سے
دل کے صحرا کی سلگتی بے کنارہ وسعتوں سے
اور سر شاخ تمنا کھلنے والی حسرتوں سے
عہد کرنا ہے
کہ ہم ہر اک صعوبت سے گزر جائیں گے لیکن
عرصۂ ہجراں کی اس جانکاہ تنہائی کی جاں آشوبیوں میں بھی
وطن کی نرم اور مہکی ہواؤں، دلنشیں صبحوں
شفق آثار شاموں کی سہانی ساعتوں کو اپنی پلکوں پر سجا لیں گے
سفر اندر سفر پھیلے ہوئے تنہائی کے صحرا میں ہم
عہد گزشتہ کی کسی مہتاب شب کو تازہ رکھیں گے
مسافت کے غبار آلود آئینے کو ہم
گزرے ہوئے لمحوں کے روشن عکس سے شفاف کر لیں گے
ہم اپنے طاق دل میں
اس کی یادوں کا دیا روشن رکھیں گے
لوح جاں پر خامۂ احساس سے
اس کی ہوس ناآشنا وارفتگی تحریر کر لیں گے
تو اپنی آنکھ کے جل تھل میں
اس کی مہرباں آنکھوں کے دلکش رنگ بھر لیں گے
ہم اس کے مرمریں ہاتھوں کے گل اندام لمسوں
انگبیں لہجے کی جاں آویز خوشبو
اور اس کے کاکل شب رنگ کی دلکش مہک کو
اپنی سانسوں میں بسا لیں گے
کہ اس کے شبنمیں چہرے کے ہم سارے دھنک رنگوں کو
اپنی سوچ کی گہرائیوں میں تہ رکھیں گے
اور جب ہم ہجر جاں آشوب کی وادی سے واپس
اس کے وصل مہرباں کے قریۂ مہر آشنا میں لوٹ جائیں گے
تو یہ ساری اذیت بھول جائیں گے
ہم ان وحشی ہواؤں کو چراغ یاد گل کرنے نہیں دیں گے
@hoorain @parri