ہم تو بچپن میں بھی اکیلے تھے
صرف دل کی گلی میں کھیلے تھے
اک طرف مورچے تھے پلکوں کے
اک طرف آنسوؤں کے ریلے تھے
تھیں سجی حسرتیں دکھوں پر
زندگی کے عجیب میلے تھے
آج ذہن و دل بھوکے مرتے ہیں
ان دنوں فاقے بھی ہم نے جھیلے تھے
خود کشی کیا غموں کا حل بنتی
موت کے اپنے بھی سو جھمیلے تھے