ہولو کاسٹ ایک افسانوی ڈرامہ یا حقیقت

  • Work-from-home

Tabishss

Regular Member
Jun 15, 2013
82
47
318
32
Landhi, Karachi.
ہولو کاسٹ ایک افسانوی ڈرامہ یا حقیقت

ہولو کاسٹ ہے کیا۔۔
مغرب کی تاریخ کے مطابق ۔۔ ہولو کاسٹ Holocaust ۔دراصل دوسری جنگ عظیم کے دوران قتلِ عام کا شکار ہونے والے60 لاکھ یہودیوں کی جرمنی کے چانسلر ہٹلر کی نازی افواج کے ہاتھوں مبینہ ہلاکت سے منسوب ہے۔
اس کو یہودیوں کی نسل کشی بھی قرار دیا جاتا ہے۔ ہالوکاسٹ دراصل یونانی لفظ ὁλόκαυστον سے بنا ہے، جس کے معنی ہیں “مکمل جلادینا“۔
اس طرح سے لاکھوں یہودی مردوں، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے علاوہ، پولینڈ کے مشترکہ قومیت کے حامل باشندوں، غلاموں، معذوروں، ہم جنس پرستوں، سیاسی اور مذہبی اقلیتوں کو انتہائی بے دردی سے موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔

یہ انسانیت سوز مظالم و نسل کشی کی مہم مرحلہ وار انجام دی گئی۔ یہودیوں کو مہذب معاشرے سے الگ کردینے کی قانون سازی دوسری جنگِ عظیم سے کئی سال پہلے کی جا چکی تھی۔ خصوصی توجیہی کیمپس میں قیدیوں سے اُس وقت تک غلاموں کی طرح کام لیا جاتا تھا جب تک وہ تھکن یا بیماری کا شکار ہوکر موت کی آغوش میں نہ چلے جاتے۔ جب نازی فتوحات کا سلسلہ مشرقی یورپ میں پہنچا تو اینساٹزگروپین (جرمنی کی خصوصی ٹاسک فورس) کو یہ ہدف دیا گیا کہ یہودیوں اور سیاسی حریفوں کو بے دریغ قتل کر دیا جائے۔

یہودیوں اور رومانیوں کو سینکڑروں میل دور بنائے گئے، مقتل گاہوں پر جانوروں کی طرح کی ریل گاڑیوں میں ٹھونس کر گھیتو (قید خانہ) منتقل کردیا گیا، جہاں زندہ پہنچ جانے کی صورت میں اُنہیں گیس چیمبر کے ذریعے موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا۔ جرمنی کے تمام افسرِ شاہی اس عظیم نسل کشی میں پیش پیش تھے، جس نے اس ملک کو “نسل کشی کے اڈے“ میں تبدیل کردیا۔

نوٹ:۔
یہ تو تھی مغرب کی تاریخ جس کو یہودیوں کو مظلوم ثابت کرنے کے لئے بنایا گیا۔ جبکہ بہت سے تاریخ دان اس کو ایک افسانے سے تعبیر کرتے ہیں۔ آپ اس کا انداز ہ ذرا اس بات سے لگائیں۔

کہ آپ یورپین ممالک اور امریکہ کینڈا میں ہولوکاسٹ پر تحقیق نہیں کرسکتے۔ اور اس پر زبان درازی کرنا آپ کو جیل میں بھی بھیج سکتا ہے۔

متعدد یورپین صحافی، مصنف اور کالم نگار ہولوکاسٹ میں یہودیوں کی جانب سے بیان کردہ تعداد کو صرف غلط کہنے کی پاداش میں جیلوں میں بند کردیے گئے تھے۔ ہولوکاسٹ کے خلاف زبان کھولنے والے دانشوروں کے صرف ملکی ہی نہیں، بلکہ عالمی سطح پر وارنٹ جاری کیے گئے ہیں۔ حالانکہ تحقیق کا دروازہ کبھی اور کسی ملک میں بند نہیں ہوتا، لیکن ہولوکاسٹ پر تحقیق کرنا اور آزادی سے اپنی رائے کا اظہار کرنا بھی قابل تعزیر جرم قرار پائے ہیں۔

بہت سے ممالک میں ہولوکاسٹ پر زبان بندی کے حوالے سے سخت قانون سازی کی گئی، صرف یورپ کے تقریباً تین درجن ممالک میں ہولوکاسٹ کے حوالے سے قوانین موجود ہیں، جن کے تحت اس بارے میں ہر نوعیت کا منفی اظہار رائے جرم ہے، جس پر قید اور جرمانے کی سزا دی جاسکتی ہے۔

برطانیہ کی لبرل پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ ڈیوڈ وارڈ نے اپنے بلاگ میں صرف یہ لکھ دیا تھا کہ ’’میں ہولوکاسٹ کے دور میں یہودیوں کے لیے پیش آئے" ناقابل یقین "واقعات پڑھ کر غم زدہ ہوجاتا ہوں، لیکن یہودی جنھوں نے یہ مصائب و آلام برداشت کیے ہیں، وہ کیونکر فلسطینیوں کے خلاف مظالم ڈھا رہے ہیں۔‘‘

اس بلاگ کے بعد ڈیوڈ وارڈ پر اس قدر دباؤ بڑھا کہ اسے مجبوراً معافی مانگنا پڑی ۔
دوسری جانب ہولوکاسٹ کے حوالے سے اسرائیل کی پارلیمنٹ حکومت کو یہ اختیار دے چکی ہے کہ وہ دنیا میں کہیں بھی،کسی بھی جگہ کوئی شخص اگر 60 لاکھ کی تعداد کو کم بتانے کی کوشش کرے،اس پر مقدمہ چلا سکتی ہے اور اس ملک سے اسے نفرت پھیلانے کے جرم میں Hate Criminal کے طور پر مانگ سکتی ہے، گرفتار کرسکتی ہے،اور سزا بھی دے سکتی ہے۔

عالمی برادری نے ہولوکاسٹ کے حوالے سے بغیر تحقیق کیے سخت سے سخت تر قوانین بنا دیے، لیکن کسی نے یہ پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ
کیا دوسری جنگ عظیم کے وقت جرمنی میں ساٹھ لاکھ یہودی آباد بھی تھے یا نہیں؟
اور جو آباد بھی تھے ان میں سے بیشتر کو ہٹلرکے حکم پر جنگ عظیم کے شروع ہونے سے پہلے ہی ملک بدر نہیں کردیا گیا تھا؟ وغیرہ وغیرہ

عالمی برادری کی ناانصافی اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہے کہ ایک طرف یہودیوں کے ’’افسانوی واقعہ‘‘ ہولوکاسٹ کے حوالے سے تقریباً پون صدی بعد بھی سخت قوانین نافذ ہیں، لیکن دوسری جانب اپنی مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹنے والے انھی یہودیوں کے ہاتھوں گزشتہ 66 سالوں سے مظلوم فلسطینیوں کا ہولوکاسٹ جاری ہے،انھیں تہہ و تیغ کیا جا رہا ہے، بمباری کرکے بے گناہ فلسطینیوں کا قتل عام کیا جارہا ہے، ان کے گھروں کو مسمار اور ان کی زمینیں ہتھیائی جارہی ہیں، اس سب کچھ کے بعد بھی عالمی برادری کی زبانیں گنگ ہیں، آخر کیوں؟
یک طویل عرصے سے فلسطین پر قابض اسرائیل نے مظلوم فلسطینیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے،لیکن عالمی برادری نے اپنے لب سی لیے ہیں، آخر کیوں؟
عالمی برادری کہاں ہے؟
یہودیوں کے ہولوکاسٹ کے حوالے سے قوانین بنانے والے ممالک کیا اسرائیل سے یہ نہیں پوچھ سکتے کہ فلسطینیوں پر کس جرم کی پاداش میں بربریت کی تاریخ رقم کی جارہی ہے؟

فلسطینیوں کے سفاکانہ قتل عام پر اسرائیل کو نہ عالمی برادری کی کسی کارروائی کا خدشہ ہوتا ہے، نہ بڑی طاقتوں کی طرف سے کسی روک ٹوک کا اندیشہ ہوتا ہے،کیونکہ اسرائیل مغرب کا سرکش و مغرور بچہ بنا ہوا ہے، اسرائیل کو ظالمانہ کارروائیوں میں امریکا اور مغرب کی مکمل حمایت حاصل ہوتی ہے، مغرب" صہیونیت" کے دفاع میں ہمہ وقت تیار رہتا ہے، اسی لیے مظلوم فلسطینیوں پر مظالم ڈھاتے ہوئے اسرائیل کو نہ کسی عالمی برادری کے دباؤ کا خوف ہوتا ہے اور نہ ہی کسی عالمی قانون کا پاس ہوتا ہے۔ وہ اپنے آپ کا تمام قوانین سے آزاد خیال کرتے ہوئے فلسطینیوں کا قتل عام کرتا ہے۔

اے اللہ مسلم امہ کے اندر اتحاد و اتفا ق پیدا کر۔ اور یہودیوں کی سازشوں سے مسلمانوں اور بالخصوص فلسطینیوں کی حفاظت فرما۔آمین




10906012_406589919496343_9187633692357001573_n.jpg

 
Top