30 Days 0f Ramzan & 30 Siparah 0f Quran Majeed

  • Work-from-home

GraetBoy1234

Active Member
May 18, 2013
281
460
113
Chowk Yadgar, Peshawar





ماہ رمضان ایک دفعہ پھر اہل زمین کے سروں پر سایہ فگن ہے۔اس حال میں کہ آج ہر طرف ظلم اور گمراہی کا دور دورہ ہے۔انسانیت کے مصائب کا علاج آج بھی یہی ہے کہ قرآن کی ہدایت لوگوں کے سامنے رکھی جائے اور لوگ اسے قبول کرلیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن اور رمضان کا تعلق اس طرح بیان کیا ہے۔
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنْ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ. (البقرہ2:185 )
رمضان کا مہیناہے جس میں قرآن نازل کیاگیا، لوگوں کے لیے رہنما بنا کر اور نہایت واضح دلیلوں کی صورت میں جو اپنی نوعیت کے لحاظ سے سراسر ہدایت بھی ہیں اور حق وباطل کا فیصلہ بھی۔
قرآن کی ہدایت کیا ہے ؟ اگر اسے ایک جملے میں بیان کیا جائے تو یہ انسانوں کو اس مسئلے سے آگاہ کرنے آیا ہے جو انھیں ان کی موت کے بعد درپیش ہوگا۔یعنی ان کے مالک کے حضور پیشی کا مسئلہ۔ اپنے اعمال کی جوابدہی کا مسئلہ۔ جنت سے محرومی اور جہنم کی آگ کا مسئلہ۔ ابدی ذلت یا دائمی عیش کا مسئلہ۔مگر بڑی عجیب بات ہے کہ یہ ہدایت جس کا تعلق دنیا سے نہیں آخرت سے ہے؛ زندگی سے نہیں موت سے ہے، انسانوں کی زندگی اور ان کی دنیا کے سارے مسائل کا واحد ممکنہ حل ہے۔
Main Yahan Aik Aisa Therad Bana Raha Hon Jis Mian Ramdan k 30 Dinon Mian Rozana Quran Majeed Ky Aik Sipary ka Mukhtaser Khulasa Aap Tak Puhnchaya Jaiye Ga.
Umeed Hai Ap Ise Pasand Karain Gy Or Faida Bhi Uthaien Gy........
 

GraetBoy1234

Active Member
May 18, 2013
281
460
113
Chowk Yadgar, Peshawar
پارہ نمبر ١
سورة الفاتحہ

قرآن کریم کی ہر سورت کی ابتداءبسم اللہ الرحمن الرحیم سے کی گئی ہے اور حدیث شریف میں ہر اچھے اور مفید کام کو بسم اللہ پڑھ کر شروع کرنے کی تلقین کی گئی ہے جس میں نہایت لطیف پیرائے میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ کائنات کی ہر چیز کا وجود اللہ کی رحمتوں کا مظہر ہے، لہٰذا احسان شناسی کا یہ تقاضا ہے کہ منعم و محسن کے انعامات و احسانات سے فائدہ اٹھاتے وقت اس کے نام سے اپنی زبان کو ترو تازہ رکھا جائے۔
سورہ فاتحہ سات آیات پر مشتمل مکی سورت ہے۔ مفسرین کرام نے اس کے بہت سے نام شمار کرائے ہیں۔ علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر روح المعانی میں سورہ فاتحہ کے بائیس نام شمار کرائے ہیں۔ عربی کا مقولہ ہے کثرت الاسماءتدل علی عظمة المسمی کسی چیز کے زیادہ نام اس کی عظمت پر دلالت کرتے ہیں۔ سورہ فاتحہ کے بہت سارے نام بھی اس مبارک سورت کی عظمتوں کے غماز ہیں۔اہمیت کے پیش نظر اس سورت کے چند نام ہم ذکر کرتے ہیں۔ اس کا مشہور نام سورة الفاتحہ ہے کیونکہ مصحف عثمانی کی ابتداءاس سورت سے ہوئی ہے۔ نیز نماز کی ابتداءبھی اسی سورت سے ہوتی ہے۔ اس کا نام ام الکتاب بھی ہے جس کا مطلب ہے قرآن کریم کی اساس اور بنیاد۔ قرآن کریم میں بیان کئے جانے والے مضامین و مقاصد کا خلاصہ اس چھوٹی سی سورت میں ذکر کرکے دریا کو کوزہ میں بند کردیا گیا ہے۔ توحید و رسالت، آخرت، احکام شریعت اور قرآنی نظام کے وفاداروں کا قابل رشک انجام.... اور اس کے باغیوں کا عبرتناک انجام یہ وہ پانچ مضامین ہیں جنہیں پورے شرح و بسط کے ساتھ قرآن کریم کی باقی ۳۱۱ سورتوں میں بیان کیا گیا ہے اور یہی مضامین معجزانہ انداز میں انتہائی اختصار کے ساتھ اس سورت میں بیان کردیئے گئے ہیں۔ اسی لئے اس سورت کو ام الکتاب اور اساس القرآن کہا گیا ہے۔ مفسرین کرام نے سورت الفاتحہ کو قرآن کریم کا مقدمہ یا پیش لفظ بھی کہا ہے۔ اس کے مضامین کی اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے ہر نماز میں اس کی تلاوت کا حکم دیا تاکہ شب و روز میں کم از کم پانچ مرتبہ پورے قرآن کا خلاصہ ہر مسلمان کے ذہن میں تازہ ہوتا رہے۔ اس سورت کا ایک نام تعلیم المسئلة ہے کہ اس میں مانگنے کا ڈھنگ اور سلیقہ سکھایا گیا ہے کہ بندہ کو اللہ تعالیٰ سے کیا مانگنا چاہئے اور کس طرح مانگنا چاہئے۔ یہ سورت الشفاءبھی ہے کہ روحانی و جسمانی امراض کے لئے پیغام شفاءہے۔ سات مرتبہ پڑھ کر دم کرنے سے موت کے علاوہ ہر جسمانی مرض سے صحت حاصل ہوتی ہے اور اس کے مضامین پر عمل کرنے سے روحانی امراض سے شفایابی ہوتی ہے۔
سورہ فاتحہ کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کے تمام کمالات اور خوبیوں کے اعتراف کے لئے حمد کا عنوان اختیار کیا گیا ہے اور تمام کائنات کی ربوبیت کو تسلیم کرنے کے لئے رب العالمین کی صفت کا بیان ہے، کیونکہ رب وہ ہوتا ہے جو کسی چیز کو عدم سے وجود میں لائے اور اس کی زندگی کے ہر مرحلہ میں اس کی تمام ضروریات پوری کرنے اور اس کی تربیت کے تمام وسائل مہیا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ کائنات کا وجود و عدم اس کی صنعت رحمت کا مرہونِ منت ہے۔ قیامت کے دن انسانی اعمال کی جزاءو سزا کا حتمی فیصلہ کرنے والا مالک و مختار وہی ہے۔ ہر قسم کی وفاداریوں کا مرکز اور مالی و جسمانی عبادات کا مستحق وہی ہے۔ ہر مشکل مرحلہ میں اسی سے مدد طلب کی جانی چاہئے۔ ہر کام کو اللہ تعالیٰ کی منشاءو مرضی کے مطابق سرانجام دینے کا سلیقہ ہدایت کہلاتا ہے۔ اس لئے بندہ صراط مستقیم کی ہدایت انبیاءو صدیقین و شہداءو صالحین جو اپنے خالق سے وفاداریوں کی بناءپر انعامات کے مستحق قرار پا چکے ہیں ان کے راستہ کی ہدایت، اپنے مالک سے طلب کرتا ہے اور قرآنی نظام کے باغی یہود و نصاریٰ اور ان کے اتحادیوں کے راستہ سے بچنے کی درخواست پیش کرتا ہے اور آخر میں آمین کہہ کر اس عاجزانہ درخواست کی قبولیت کے لئے نیاز مندانہ معروض پیش کرتا ہے۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ بندہ جب سورہ فاتحہ ختم کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ”میرے بندے نے مجھ سے جو مانگا، میں نے اسے عطاءکردیا۔“ دوسری حدیث میں ہے کہ ”امام جب نماز میں سورہ فاتحہ کی تلاوت ختم کرتا ہے تو فرشتے آمین کہتے ہیں۔ تم بھی آمین کہا کرو کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل جائے اس کے گزشتہ گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔“
ایک حدیث قدسی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ”میں نے سورہ فاتحہ کو اپنے اور بندے کے درمیان تقسیم کرلیا ہے۔ آدھی سورہ فاتحہ میرے لئے ہے اور آدھی میرے بندے کے لئے ہے۔ جب بندہ الحمدﷲ رب العالمین کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں حمدنی عبدی میرے بندے نے میری حمد بیان کی جب الرحمن الرحیم کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اثنی علی عبدی میرے بندے نے میری ثنا بیان کی جب مالک یوم الدین کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میرے بندے نے میری عظمت و بزرگی کا اعتراف کیا۔ جب ایاک نعبد و ایاک نستعین کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ہذا بینی و بین عبدی یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے۔ جب بندہ اہدنا الصراط المستقیم سے آخر تک کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ہذا العبدی والعبدی ماسال یہ میرے بندہ کے لئے ہے اور میرے بندے نے جو مانگا ہے میں نے اسے عطاءکردیا ہے۔


سورة البقرة

بقرہ گائے کو کہتے ہیں۔ بنی اسرائیل میں جرم و سزا اور سراغ رسانی کا ایک انوکھا واقعہ پیش آیا تھا جس میں مجرم کی نشاندہی معجزانہ طریقہ پر کی گئی تھی، جو بنی اسرائیل کے لئے اعزاز و افتخار کا باعث ہے۔ اس سورت میں دوسرے مضامین کے علاوہ زیادہ تر روئے سخن بنی اسرائیل کی طرف ہے۔ ان کے دلوں میں اسلام کے لئے نرم گوشہ پیدا کرنے کے لئے اس معجزانہ واقعہ کی طرف اشارہ کے طور پر پوری سورت کو بقرہ سے موسوم کردیا گیا۔ سورئہ بقرہ قرآن کریم کی طویل ترین سورت ہے جس میں متنوع اور مختلف مضامین کا بیان ہے۔ حروف مقطعات سے سورت کی ابتداءکرکے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ قرآنی علوم و معارف سے استفادہ کے لئے اپنی جہالت اور کم علمی کا اعتراف اور علمی پندار کی نفی پہلا زینہ ہے، کلام الٰہی پر غیر متزلزل یقین اور اسے ہر قسم کے شکوک و شبہات سے بالاتر سمجھنا دوسرا زینہ ہے۔ نیز یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سورئہ فاتحہ میں جس صراط مستقیم کی درخواست کی گئی تھی وہ قرآن کریم کی شکل میں آپ کو عطا کررہے ہیں۔
ابتدائی بیس آیتوں میں انسان کی تین قسموں کا بیان ہے: پہلی قسم ان لوگوں کی ہے جو اپنی زندگیوں میں انقلابی تبدیلیاں لانے کے لئے اپنے مالی و جسمانی اعمال کو قرآنی نظام کے تابع لانے کے لئے تیار ہیں۔ یہ لوگ قرآن کریم اور اس سے پہلی آسمانی کتابوں پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو کافر ہیں، وہ اپنی زندگی کی اصلاح اور اس میں قرآنی نظام کے مطابق تبدیلی کے لئے بالکل تیار نہیں ہیں۔ تیسری قسم ان خطرناک لوگوں کی ہے جو دلی طور پر قرآنی نظام کے منکر ہیں مگر ان کی زبانیں ان کے مفادات کے گرد گھومتی ہیں۔ قرآن کریم کو ماننے میں اگر کوئی مفاد ہے تو اسے تسلیم کرنے میں دیر نہیں لگاتے اور اگر اس سے مفادات پر چوٹ پڑتی ہے تو اس کا انکار کرنے میں بھی دیر نہیں لگاتے۔ ان کے دل و زبان میں مطابقت نہیں ہے، اسے منافقت کہتے ہیں۔ منافقت کے ذریعہ انسانوں کو تو دھوکہ دیا جاسکتا ہے مگر دلوں کے بھید جاننے والے اللہ کو دھوکہ دینا ممکن نہیں ہے۔ یہ لوگ اصلاح کے نام پر دنیا میں فساد برپا کرتے ہیں اور قرآنی نظام کے وفادار اہلِ ایمان کو عقل و دانش سے محروم سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ لوگ خود شعور و آگہی سے بے بہرہ اور محروم ہیں۔ یہ لوگ ہدایت و روشن خیالی کے مقابلہ میں تاریک خیالی اور گمراہی کی تجارت کررہے ہیں اور یہ بڑے خسارہ کا کاروبار ہے۔ قرآن کریم نے دو مثالوںکے ذریعہ منافقت کی دو قسموں کو واضح کیا ہے۔
۱: کسی شخص نے ٹھٹھرتی، اندھیری رات میں سردی سے بچنے اور روشنی حاصل کرنے کے لئے آگ جلائی اور جیسے ہی چاروں طرف روشنی پھیلی تو وہ آگ ایک دم بجھ گئی اور وہ گھپ اندھیرے میں کچھ بھی دیکھنے کے قابل نہ رہا۔
۲: رات کے وقت اندھیرے کے اندر کھلے میدان میں موسلادھار بارش میں کچھ لوگ پھنس کر رہ گئے، بجلی کی کڑک ان کے کانوں کو بہرہ کئے دے رہی ہو اور چمک سے ان کی آنکھیں خیرہ ہورہی ہوں اور اس ناگہانی آفت سے وہ موت کے ڈرسے کانوں میں انگلیاں ٹھوسے ہوئے ہوں۔ بجلی کی چمک سے انہیں راستہ دکھائی دینے لگے مگر جیسے ہی وہ چلنے کا ارادہ کریں تو اندھیرا چھا جائے اور انہیں کچھ بھی سجھائی نہ دے۔ یہ لوگ اندھے اور بہرے ہیں کیونکہ آیات خداوندی کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتے۔
اس کے بعد انسانیت سے پہلا خطاب کیا گیا اور ایک وحدہ لاشریک لہ رب کی عبادت کا پہلا حکم دیا گیا۔ پھر توحید باری تعالیٰ پر کائناتی شواہد کو بطور دلیل پیش کیا گیا ہے۔ جس میں انسان کو عدم سے وجود بخشنا اور اس کی زندگی کی گزر بسر کے لئے آسمان و زمین کی تخلیق اور بارش اور سبزیوں اور پھلوں کی پیدائش کا تذکرہ ہے۔ پھر قرآن کریم کے کلام الٰہی ہونے کی عقلی دلیل دی گئی ہے کہ اگر تم اسے بشر کا کلام سمجھتے ہو تو تم بھی بشر ہو۔ ایسا کلام بنا کر دکھا دو ورنہ جہنم کا ایندھن بننے کے لئے تیار ہوجاﺅ۔ قرآن کریم کی ایک سورت بلکہ ایک آیت بنانے سے بھی عاجز آجانا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ محمد علیہ السلام کا کلام نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ اس کے بعد قرآنی نظام کے منکرین کے لئے جہنم کے بدترین عقوبت خانہ کی سزا اور اس کے ماننے والوں کے لئے جنت کی بہترین نعمتوں اور پھلوں کے انعام کا تذکرہ ہے۔ قرآن کتاب ہدایت ہے، انسانی ہدایت و رہنمائی کے لئے کوئی بھی اسلوب بیان اپنا سکتا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے مکھی یا مچھر یا کسی دوسرے چھوٹے یا بڑے جانور کی مثال دے سکتا ہے، مسئلہ مثال کا نہیں اس سے حاصل ہونے والے مقصد کا ہے۔
تخلیق انسانی کی ابتداءکا تذکرہ آیت نمبر ۰۳ سے ۹۳ تک ۹ آیتوں میں ہے۔ انسان اس سرزمین پر اللہ تعالیٰ کا نائب اور خلیفہ ہے اور اس کی وجہ انسان کا حصول علم کی صلاحیت رکھنا ہے۔ انسانی بلندی و عظمت کی بنا پر اسے سجود ملائک بنایا گیا۔ ناپاک نطفہ سے تخلیق دے کر عظمت و بلندی کے تمام مراحل آناً فاناً طے کراکے اسے سجود ملائک بنادیا۔ پستی سے عظمت کے بام عروج تک پہنچا دیا۔ آدم سے حوا کی پیدائش سے نر اور مادہ کے ملاپ کے بغیر ایک انسان سے دوسرا انسان پیدا کرنے (CLOAN) کا امکان ثابت ہوسکتا ہے بلکہ آدم کی مٹی سے تخلیق سے یہ نکتہ بھی واضح ہوتا ہے کہ جس مٹی سے سبزیوں اور پھلوںکی شکل میں ”مادہ حیات“ انسانوںمیں منتقل ہوتا ہے اس سے براہِ راست وہ مادہ لے کر بھی انسان کو وجود میں لایا جاسکتا ہے۔ انسان اس سرزمین پر بطور سزا نہیں بلکہ بطور امتحان بھیجا گیا ہے۔ قرآن کریم کی شکل میں آسمانی ہدایت کی پیروی اس کی کامیابی کی علامت اور اس کی مخالفت اور کفر اس کی ناکامی و نامرادی کی علامت قرار دی گئی۔ اس کے بعد بنی اسرائیل کا تذکرہ ہے جو آیت نمبر ۰۴ سے شروع ہوکر نمبر ۳۲۱ تک ۳۸۱ آیات پر مشتمل ہے۔ بنی اسرائیل دنیا کی ایک منتخب قوم تھی۔ انبیاءکی اولاد تھی، اللہ تعالیٰ نے انہیں اس دور کی سیاسی اور مذہبی قیادت و سیادت سے نوازا ہوا تھا مگر ان کی نا اہلی اور اپنے منصب کے منافی حرکات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں معزول کرنے کا فیصلہ کرلیا کہ اس منصب کے اہل او رحقیقی وارث امت محمدیہ کی شکل میں اس سرزمین پر تیار ہوچکے ہیں۔ تقریباً آدھے سیپارے پر محیط اس قوم کے جرائم اور عادات بد کی ایک طویل فہرست ہے جو چالیس نکات پر مشتمل ہے۔ یہ وہ ”فرد جرم“ ہے جو بنی اسرائیل کے اس منصب عالی سے معزولی کا سبب ہے۔ آیت نمبر ۰۴ سے نمبر۶۴ تک سات آیتوں میں ان ذمہ داریوں کا ذکر ہے جو بنی اسرائیل کو سونپی گئی تھیں۔ انعامات خداوندی کا استحضار، عہد الٰہی کی پاسداری، خوفِ خدا، تقویٰ، آسمانی تعلیمات پر یقین کامل، اپنے مفادات کو دین کا تابع بنا کر زندگی گزارنے کی تلقین، حق و باطل کو خلط ملط کرنے کی بجائے حق کی پیروی اور باطل سے دوٹوک انداز میں برات کا اظہار، نماز کی ادائیگی کے ذریعہ اللہ سے اپنی وفاداری کا اظہار اور زکوٰة کی ادائیگی کے ذریعہ غرباءو مساکین سے تعاون، خیر اور شر میں تمیز کرکے نیکی پر کاربند رہتے ہوئے دوسروں کو نیکی کی تلقین اور آسمانی تعلیمات کی روشنی میں عقل و دانش کا استعمال، بنی اسرائیل ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے سے قاصر رہے جس کی تفصیل ۶۷ آیتوں میں مذکور ہے۔
بنی اسرائیل کو دریا میں معجزانہ طریقہ پر راستہ بنا کر فرعونی مظالم سے نجات دی۔ دشمن کو ان کی آنکھوں کے سامنے غرق کیا، موسیٰ علیہ السلام کو کتاب دینے کے لئے چالیس دن کے لئے کوہ طور پر بلایا تو یہ لوگ بچھڑے کی عبادت میں مصروف ہوگئے۔ اس مشرکانہ حرکت پر سزا کے طور پر انہیں باہمی قتل کا حکم دے کر ان کی توبہ قبول کی گئی۔ ان کے بے جا مطالبے پورے کئے۔ اللہ تعالیٰ سے گفتگو اور بالمشافہہ ملاقات کرائی گئی مگر یہ پھر بھی اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے۔ تیہ کے چٹیل اور کھلے میدان میں انہیں بادل کے ذریعہ سایہ اور ”من و سلویٰ“ کی شکل میں کھانا فراہم کیا گیا مگر انہوںنے اس نعمت کی قدر نہ کی۔ پتھر سے معجزانہ طریقہ پر بارہ چشمے جاری کرکے ان کے بارہ خاندانوں کے سیراب کرنے کا انتظام کیا گیا مگر یہ سرزمین پر فساد پھیلانے سے باز نہ آئے۔ اللہ کی عظیم الشان نعمتوں کے مقابلہ میں لہسن پیاز اور دال روٹی کا مطالبہ کرکے ذہنی پستی اور دیوالیہ پن کا مظاہرہ کیا۔ اللہ کے احکام کا کفر کرنے اور انبیاءعلیہم السلام (اپنے مذہبی پیشواﺅں) کو قتل کرنے کے عظیم جرم کا ارتکاب کیا، جس پر انہیں ذلت و رسوائی اور غضبِ خداوندی کا مستحق قرار دیا گیا۔ قرآنی ضابطہ ہے کہ اللہ کے نزدیک کامیابی قومی یا مذہبی تعصب کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایمان اور عمل صالح کی بنیاد پر ملتی ہے، خوف اور غم سے نجات حاصل ہوتی ہے۔ ان کے سروں پر پہاڑ بلند کرکے تجدید عہد کرایا گیا، مگر انہوں نے اس کی پاسداری نہ کی۔ دل جمعی اور یکسوئی کے ساتھ عبادت کرنے کے لئے ہفتہ کے دن کی چھٹی دی گئی ، مگر اس کی پابندی نہ کرنے پر عبرتناک انجام کے مستحق ٹھہرے اور ان کی شکلیں بگاڑ کر ذلیل و قابل نفرت بندر بنادیا گیا۔
جرم و سزا اور سراغ رسانی کا انوکھا واقعہ
بنی اسرائیل میں ایک شخص بے اولاد تھا۔ وراثت حاصل کرنے کے لئے اس کے بھتیجے نے اسے قتل کرکے دوسروں پر الزام لگایا اور قصاص کا مطالبہ کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قاتل کا پتہ چلانے کے لئے اللہ تعالیٰ کے حکم سے گائے ذبح کرنے کا حکم دیا۔ بڑی پس و پیش کے بعد یہ لوگ ذبح پر آمادہ ہوئے۔ گائے کے گوشت کا ایک ٹکڑا جب میت کے جسم سے لگایا گیا تو وہ زندہ ہوگیا اور اپنے قاتل کا نام بتاکر پھر مرگیا۔ اس طرح اصل مجرم گرفت میں آگیا اور سزا کا مستحق قرار پایا اور کسی بے گناہ کی ناجائز خونریزی سے وہ لوگ بچ گئے۔ عقل و دانش کے نام پر کلام الٰہی میں تحریف اور رد و بدل کی بدترین عادت کے مریض تھے۔ اپنے مفادات اور دنیا کی عارضی منفعت کے لئے اللہ کی آیتوں کو بیچ ڈالتے تھے اور اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ ہم جو چاہےں کریں ہمیں آخرت میں کوئی عذاب نہیں ہوگا اور ہم جہنم میں نہیں جائیں گے۔ قرآن کریم نے ضابطہ بیان کردیا کہ جو بھی جرائم اور گناہوں کا مرتکب ہوگا وہ جہنم سے بچ نہیں سکے گا اور ایمان و اعمال صالحہ والے دائمی جنتوں کے حقدار قرار پائیں گے۔
بنی اسرائیل سے عہد لیا گیا کہ وہ ایک اللہ کی عبادت کریں۔ والدین، عزیز و اقارب، غرباءو مساکین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں۔ لوگوں سے خوش اخلاقی کے ساتھ معاملہ کریں۔ دنیا میں فساد پھیلانے اور خونریزی کرنے سے باز رہیں، مگر یہ لوگ تخریب کار اور جنگ کے ذریعہ لوگوں کو قتل کرنے، ان کے گھروں سے بے گھر کرنے اور انہیں گرفتار کرکے ان کی آزادی سلب کرنے جیسی بدترین حرکات کے مرتکب پائے گئے۔ تورات کی جو باتیں ان کے مفادات کے مطابق ہوتیں انہیں مان لیتے اور جو مفادات کے خلاف ہوتیں انہیں رد کردیتے۔ اس لئے دنیا میں ذلت و رسوائی اور آخرت کے بدترین عذاب کے مستحق ٹھہرے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ آخرت میں تمام نعمتیں اور جنت صرف ہمارے ہی لئے ہے۔ قرآن کریم نے کہا کہ پھر تو تمہیں موت کی تمنا کرنی چاہئے تاکہ وہ نعمتیں تمہیں جلدی سے حاصل ہوجائیں۔ یہ لوگ جبریل علیہ السلام کے مخالف تھے کہ وہ عذاب اور سزا کے احکام لے کر کیوں آتے ہیں؟ وہ لوگ یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ جبریل تو ایک قاصد اور نمائندہ ہے۔ جزا یا سزا کے احکام اللہ تعالیٰ نازل کرتے ہیں۔ کسی کے نمائندہ کی مخالفت دراصل اس کی مخالفت شمار ہوتی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جبریل تو میرے حکم سے قرآن کریم نازل کررہے ہیں، لہٰذا جبریل کی دشمنی درحقیقت اللہ، اس کے رسول اور تمام فرشتوں کے ساتھ دشمنی کے مترادف ہے۔ یہودیوں کی عادات بد میں جادوگروں کی اطاعت اور ان کی اتباع بھی تھی۔ اس کی مذمت آیت ۲۰۱ میں کی گئی ہے۔ مسلمانوں کی زبانی کلامی دل آزاری اور گستاخی رسول بھی یہودیوں کی گھٹی میں داخل ہے۔ آیت ۴۰۱ میں اسی بات کی مذمت ہے۔ قرآنی تعلیمات میں انسانی نفسیات، ماحول اور معاشرتی ضرورتوں کے پیش نظر جس طرح تدریجی احکام اور مرحلہ وار تبدیلیاں کی گئی ہیں آیت ۶۰۱ میں ان کا بیان ہے۔
یہود و نصاریٰ اپنے کفر اور حسد کی بناءپر مسلمانوں کو ایمانی تقاضوں پر کاربند دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ یہ ان کی فطرتی خباثت ہے لہٰذا انہیں نظر انداز کرکے اپنے کام سے کام رکھیں۔ دلائل کو نظر انداز کرکے محض اپنے مذہب یا نظریہ کی بنیاد پر کسی بات کو اختیار کرنا تعصب کہلاتا ہے۔ اس کی مذمت آیت ۳۱۱ میں بیان ہوئی ہے۔ مسجدیں اللہ کے گھر ہیں ان میں اللہ کی بات کرنے سے روکنا ظلم کی بدترین مثال ہے۔ ایسی حرکت کے مرتکب افراد دنیا میں بھی ذلیل و خوار ہوں گے اور آخرت میں بھی بدترین عذاب کے مستحق ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کے لئے اولاد کے عقیدہ کی مذمت آیت ۶۱۱ میں ہے اور اللہ کی قدرت کا بیان ہے۔ یہود و نصاریٰ کے تعصب کی بدترین شکل کو بیان کیا کہ اس وقت تک مسلمانوں سے خوش نہیں ہوں گے جب تک مسلمان اسلام سے دستبردار ہوکر یہودیت یا عیسائیت کو اختیار نہ کریں۔ آسمانی کتاب کی تلاوت کا حق ادا کرنے کی تلقین کے ساتھ بنی اسرائیل پر انعامات کا ایک مرتبہ پھر تذکرہ اور یوم احتساب کی یاد تازہ کرکے یہودیوں کے بارے میں گفتگو پوری کردی۔ پھر انسانیت کے لئے مثالی شخصیت حضرت ابراہیم کا تذکرہ شروع ہوتا ہے۔ ان کی آزمائش و ابتلاءاور اس میں کامیابی کی شہادت کے ساتھ ہی انہیں امامتِ انسانیت کے منصب پر فائز کرنے کا اعلان اور ابراہیمی زندگی اپنانے والے ہر شخص کو اس عہدہ کا اہل قرار دینے کا فیصلہ۔ ابراہیم علیہ السلام کی دینی خدمات خاص طور پر تعمیر کعبہ کا کارنامہ جو انسانوں کے لئے مرکز وحدت ہے۔ پھر دعاءابراہیمی جس کے نتیجہ میں بعثت نبوی اور امت مسلمہ کو وجود ملا۔
پھر اس مثالی شخصیت کے مثالی خاندان کا تذکرہ اور بیان کہ اگر آباءو اجداد حق و انصاف کے علمبردار ہوں تو ان کی اتباع و تقلید ہی کامیابی کی اصل کلید ہے۔ آخر میں اس ضابطہ کا اعلان کہ ”وہ لوگ جو گزر چکے، ان کے اعمال کے مطابق ان کے ساتھ معاملہ ہوگا اور تمہارے اعمال کے مطابق تمہارے ساتھ معاملہ ہوگا۔“
ع عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
 
  • Like
Reactions: AnaZai

GraetBoy1234

Active Member
May 18, 2013
281
460
113
Chowk Yadgar, Peshawar
پارہ 2
مسلمان پہلے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے، پھر بیت اللہ کی طرف حکم ہوا تو یہودیوں نے اعتراض کیا۔ پارہ کی ابتداء میں اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: تحویل قبلہ کے حکم خداوندی نا سمجھ لوگ اعتراض کریں گے کہ مسلمان بیت المقدس کو چھوڑ کر بیت اللہ کا رخ کیوں کرنے لگے؟ اس کا جواب دیا کہ تمام جہات: مشرق و مغرب اللہ ہی کی ہیں، وہ جس طرف چاہے اپنے بندوں کو رخ کرنے کا حکم دے ۔ کسی بندہ کو اعتراض کا حق نہیں ہے ۔ اللہ نے فرمابرداروں اور نافرمانوں میں تمیز کیلئے تحویل قبلہ کا حکم دیا ہے کہ فرما بردار فوراً اسے مان لیں گے اور نافرمان ماننے کی بجائے اعتراضات پر اتر آئیں گے اور اس طرح مخلص مسلمان اور کافر و منافق کھل کر سامنے آجائیں گے۔ اس کے بعد امتِ مسلمہ کے اعتدال اور میانہ روی کا تذکرہ اور فضیلت کا بیان ہے کہ قیامت کے دن جب کافر اپنے نبیوں پر تبلیغِ رسالت میں کوتاہی کرنے کا اعتراض کریں گے تو امت محمدیہ کے لوگ انبیاء علیہم السلام کے فریضۂ نبوت کی ادائیگی پر گواہ کے طور پر پیش ہوں گے اور محمد علیہ الصلوٰة والسلام سب کی گواہی دیں گے اور تصدیق کریں گے۔
آپ کتنے دلائل پیش کردیں ان اہل کتاب پر تعصب و ہٹ دھرمی کا ایسا پردہ پڑا ہوا ہے کہ کسی قیمت پر ماننے کیلئے تیار نہیں ہوں گے۔ نماز میں قبلہ کی طرف سفر و حضر میں رخ کرنا ضروری ہے۔ اہل کتاب حضور علیہ السلام کے نبی برحق ہونے کو اس طرح جانتے ہیں جس طرح اپنی اولاد کو جانتے ہیں مگر حق کو چھپانے کے مرض میں مبتلا ہیں اس لئے آپ پر ایمان نہیں لاتے ۔ اللہ کا ذکر اور اس کا ادا شکرکرنے کی عادت بنائیں۔ نماز اور صبر کے زریعے مشکلات پر قابو پانا چاہئے اور اسلام کیلئے جانی و مالی ہر قسم کی بڑی سے بڑی قربانی کیلئے تیار رہیں۔ اللہ کے راستہ میں جانی قربانی دینے والے مردہ نہیں ہیں وہ زندہ ہیں مگر تمہیں اس کا شعور نہیں ہے۔ حج و عمرہ کے موقع پر کئے جانے والے اعمال خصوصاً صفا و مروہ کی سعی اسلامی شعائر ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ دلائل اور ہدایت کے واضح احکام کو چھپانے والے لعنت خداوندی کے مستحق ہیں لیکن توبہ تائب ہوکر اپنا رویہ درست کرکے احکام خداوندی کوبیان کرنے لگیں تو وہ لعنت سے بری ہوسکتے ہیں ۔ معبود حقیقی ایک ہی ہے، اس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں، اس کی رحمت تمام مخلوقات کیلئے عام ہے اور اہل ایمان کیلئے اس کی رحمت تام ہے۔ آسمان و زمین کی تخلیق، دن رات کی ترتیب اور انسانی نفع کیلئے پانی میں چلنے والی کشتیاں، بادل، بارش، زمین سے نکلنے پھل اور سبزیاں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے عقلی دلائل ہیں۔ اللہ کے مقابلہ میں معبود ان باطل کے ماننے والے قیامت کے دن پچھتائیں گے اور ایک دوسرے سے برأت کا اظہار کریں گے مگر جہنم سے کسی طرح بھی بچ نہیں سکیں گے۔ قران کریم کے اتباع کی تلقین اور قران کے مقابلے میں آباء اجداد کی اندھی تقلید کی مذمت کرتے ہوئے ایسے لوگوں کو اندھے بہرے کہہ کر جانوروں کی مانند قرار دیا گیا ہے۔
پاکیزہ اور حلال کھانے کا حکم ہے۔ مردار، جاری خون۔ خنزیر اور غیراللہ کیلئے نامزد اشیاء کی حرمت کا اعلان ہے۔ نیز اس ضابطہ کا بھی بیان ہے کہ جان بچانے کیلئے ضرورت کے وقت حرام کا استعمال بھی گناہ نہیں ہے۔ نیکی اور اس کی مختلف اقسام کی فہرست بیان کی گئی ہے ۔ نیکی دراصل ایمانی بنیادوں پر سرانجام پانے والے اعمال ہیں۔ عزیز و اقارب، یتیم و مسکین کے ساتھ مالی تعاون، نماز اور زکوة کا اہتمام، ایفاء عہد، مشکلات میں حق پر صبر و ثابت قدمی کا مظاہرہ، سچائی کا التزام کرنے والے ہی متقی کہلا سکتے ہیں۔ قصاص و دیت کے قانون کو بیان کرکے بلا امتیاز اس پر عملدرآمد کی تلقین ہے ۔ قصاص حیات انسانی کے تحفظ کا ضامن ہے۔ وصیت کی تلقین کرتے ہوئے کسی پر ظلم و ناانصافی نہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ روزہ کے احکام اور اس کی حکمتوں کا بیان ہے۔ رمضان المبارک کی فضیلت کا سبب اس مہینہ میں قران کریم نازل ہونا ہے، رمضان کی راتوں میں کھانے پینے اور بیویوں سے ملنے کی اجازت ہے۔ نیز اعتکاف کے عمل کا تذکرہ ہے، روزہ کے ابتدائی اور انتہائی وقت کا بیان ہے۔ دوسروں کا مال ناجائز طور پر کھانے اور لوگوں کو ناجائز مقدمات میں الجھانے سے باز رہنے کی تلقین ہے۔
قمری مہینہ کے مختلف ایام میں چاند کے چھوٹا بڑا ہونے کی حکمت بتائی گئی ہے کہ اوقات کے انضباط اور حج وغیرہ کی تاریخوں کے تعین کیلئے ایسا ہی کیا جاتا ہے۔ دنیا سے برائی ختم کرنے کیلئے قتال فی سبیل اللہ اور اس کے احکام کا تذکرہ ہے۔ احترام کا ضابطہ بیان ہے حرمت بدلہ کی چیز ہے لہذا احترام کروانے کیلئے دوسروں کے مقدسات کا بھی احترام کرنا ہوگا۔ اللہ کے دین کے دفاع میں مال خرچ کرنا ہی تباہی سے بچنے کا بہترین زریعہ ہے۔ عمرہ و حج کے احکام ہیں۔ اگر حالت احرام میں خانہ کعبہ تک پہنچنے میں کوئی رکاوٹ پیدا ہوجائے تو ''دم'' دے کر احرام کھول سکتے ہیں۔ حج تمتع یا قران کی صورت میں ''دم شکر '' دینا ہوگا۔ احرام کی حالت میں غیر اخلاقی حرکتوں سے گریز کیا جائے۔ جنسی موضوع پر گفتگو نہ کریں۔ مساوات کو مد نظر رکھ کر تمام افعال حج کی ادائیگی ہونی چاہئے ۔ جمرات کی کنکریاں تین دن واجب ہیں۔ چوتھے دن حاجی کی صوابدید پر منحصر ہے۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ کو خوب یاد کیا جائے اور دنیا و آخرت کی خیر کی اور بھلائی مانگی جائے۔
دو قسم کے انسانوں کا تذکرہ:
کبر نخوت ، فسادو ہٹ دھرمی کے خوگر جو اللہ کی بات کسی صورت میں بھی تسلیم نہ کریں ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ عجز واخلاص کے پیکر جو اپنی جان و مال اللہ کے لئے خرچ کرنے کے لئے تیار ہوں وہ اللہ کی رحمتوں اور مہربانیوں کے مستحق ہیں۔ شیطان کی اتباع چھوڑ کر پورے پورے اسلام میں داخل ہونے کی تلقین۔ بنی اسرائیل اور ان پر انعامات خداوندی کا تذکرہ۔ مذہبی اختلافات اور فرقہ واریت کے لئے ضابطہ کا بیان کہ دلائل کی بنیاد پر حق کی اتباع کرنے والے ہدایت یافتہ اور پسندیدہ لوگ ہیں جبکہ دلائل سے تہی دامن اپنے من مانے نظریات پر چلنے والے قابل مذمت اور گمراہ ہیں ۔ جنت کے حصول کے لئے قربانیوں کے لمبے سلسلے اور تکالیف و مشقت کی پر خطر وادی سے گزرنا پڑتا ہے۔ جہاد طبیعتوںپر گراں گزرتا ہے۔ مگر انسانیت کا اس میں فائدہ ہے دوسروں پر اعتراض کرنے والوں کو خود اپنے کردار پر نظر ثانی کرنی چاہئے ۔ مسلمانوں پر جہاد کے حوالہ سے اعتراض کرنے والے اپنے ظلم و ناانصافی پر بھی غور کریں۔ کہ وہ مسلمانوں کو بیت اللہ سے روکتے ہیں ۔ اسلام پر عمل پیرا ہونے کے راستے میں رکاوٹ بنتے ہیں مسلمانوں کو ان کے گھروں سے بے گھر کرتے ہیں۔ ایسی فتنہ پردازی تو قتل سے بھی بد تر ہے ۔ شراب اور قمار کے بارے میں ابتدائی ذہن سازی کرتے ہوئے ان کے فوائد اور نقصانات میں تقابل کی تلقین کی گئی ہے۔ یتیموں کی کفالت کی تعلیم ہے اور نکاح میں توحید پرست کو بت پرستوں پر ترجیح دینے کا حکم ہے۔ خواتین کے مسائل جن میں حالت حیض میں اپنی بیویوں سے دور رہنے کا حکم ہے۔
جھوٹی قسم سے بچنے کی ترغیب ہے ۔ بیویوں کے پاس نہ جانے کی قسم (ایلاء ) کے حکم کا بیان ہے ۔ طلاق و عدت گزارنے کا خاص طور پر تین طلاق کا حکم اور حلالہ شرعی کا بیان ہے۔ بچوں کو دودھ پلانے کی مدت دو سال مقرر کی گئی ہے۔ اور زچہ و بچہ کی کفالت شوہر کے ذمہ رکھی گئی ہے۔ شوہر کے انتقال کی صورت میں عورت کو چار ماہ دس دن عدت گزارنے کا حکم ہے۔ عدت کے ایام میں نکاح یا منگنی کے موضوع پر گفتگو کی ممانعت کی گئی ہے۔ نکاح کے بعد اگر بیوی سے ملاقات سے پہلے ہی طلاق اور علیحدگی کی نوبت آجائے تو مہر متعین ہونے کی صورت میں نصف مہر کی ادائیگی لازم ہوگی۔ ان شرعی ضوابط کی پابندی اللہ کا حق ہے، لہٰذا ایک دوسرے کے لئے پریشانیوں اور مسائل پیدا کرنے کے لئے شرعی ضوبط کا پامال نہ کیا جا ئے ۔
نماز کی پابندی اور اس کے اہتمام کی تلقین ہے کہ کسی خوف و خطر کی وجہ سے اگر کھڑے ہو کر نہ پڑھ سکیں تو سواری پر ہی ادا کرلیں۔
جہاد کی ترغیب دینے کے لئے ایک قوم کا تذکرہ ہے۔ جو موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے محض اس لئے نکل بھاگے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں موت دے دی اور بنی اسرائیل کے ایک نبی حضرت حزقیل کی دعا سے انہیں دوبارہ زندہ کردیا ۔ پھر جہاد کا حکم اور اس کے ساتھ ہی اللہ کے نام پر مال خرچ کرنے کی تلقین ہے۔ پھر مسلم حکمران طالوت اور کافر حکمران جالوت کے درمیان مقابلہ کا تذکرہ ہے۔
بنی اسرائیل کے جہاد سے راہ فرار اختیار کرنے کی وجہ سے ایک ظالم قوم عمالقہ کو اللہ تعالیٰ نے ان پر مسلط کر دیا تو انہیں جہاد کی فکر لاحق ہوئی۔ حضرت شمویل کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو مسلم بادشاہ طالوت کی زیر قیادت جہاد کا حکم دیا ۔ طالوت کی امارت پر بنی اسرائیل نے اعتراض کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی جسمانی قوت اور جنگی علوم میں مہارت کو اس کی اہلیت امارت کی دلیل کے طور پر بیان کیا اور بنی اسرائیل کے مذہبی مقدسات اور حضرت موسیٰ و ہارون کے تبرکات پر مشتمل تابوت جو کہ دشمنوں کے قبضہ میں تھا۔ انہیں واپس دلا کر ان کی تسلی اور دلجمعی کا انتظام کردیا۔ بنی اسرائیل نے کچھ پس و پیش کے بعد جہاد پر آمادگی ظاہر کردی۔ طالوت نے جنگی نقطہ نظر سے کچھ پابندیاں عائد کیں، جن میں راستہ میں آنے والے دریا سے پانی پینے کی ممانعت بھی شامل تھی۔ بہت سے لوگ اس کی پابندی نہ کر سکے اور جہاد میں شرکت کے لئے نااہل قرار پائے ۔ ایک قلیل تعداد جو کہ بعض روایات کے مطابق تین سو تیرہ تھی جہاد میں شریک ہوئی ۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کو شکست دے کر اہل ایمان کو غالب کرکے ہمیشہ کے لئے یہ ضابطہ بتا دیا کہ اللہ کی مدد قلت و کثرت کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایمان و عمل کی بنیاد پر ہوا کرتی ہے اور دوسرا ضابطہ یہ بتایا کہ جب ظلم اپنی انتہاء کو پہنچ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے بعض مؤمن بندوں کو استعمال کر کے ظالموں کا صفایا کر دیا کرتے ہیں اگر ایسا نہ ہو تو دنیا کا نظام درہم برہم پو کر رہ جائے۔
حضور اکرم ۖ کا نبی امّی ہونے کے باوجود ان تاریخی واقعات کو بیان کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ قرآن اللہ کی نازل کردہ حق کتاب ہے اور آپ اللہ کے رسول برحق ہیں۔
 
  • Like
Reactions: AnaZai

GraetBoy1234

Active Member
May 18, 2013
281
460
113
Chowk Yadgar, Peshawar
پارہ 3
شروع میں انبیاء السلام اور ان کی ایک دوسرے پر فضیلت بیان کی گئی ہے۔ درجات کا یہ فرق کسی نبی یا رسول کی کمی یا کوتاہی کا غماز نہیں بلکہ ان کے منصب اور ذمہ داری میں فرق اور اہمیت کے پیش نظر ہے۔ دنیا میں ہی صدقہ و خیرات کرکے اپنی عاقبت سنوارلو ورنہ قیامت کے دن کوئی سودے بازی، تعلقات یا سفارش کام نہیں دے گی۔ قران کریم کی ایک آیات میں مرتبہ اور مقام کے اعتبار سے آیت الکرسی سب سے بڑی آیت ہے ۔ یہ سورة البقرہ کی آیت نمبر 255 ہے اس کی عظمت کا راز یہ ہے کہ اس میں توحید کو بھرپور انداز میں بیان کیاگیا ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اوروہ زندہ جاوید اور کائنات میں پائی جانے والے ہر چیز کا وہی مالک ہے۔ اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے سفارش کرنے کی کوئی جرأت بھی نہیں کرسکتا۔ ان لوگوں سے پہلے کیا تھا اور ان کے بعد میں کیا ہوگا؟ اس سب کا علم اس کے پاس ہے ۔ یہ لوگ اتنا ہی جانتے ہیں جتنا وہ ا نہیں سکھاتا ہے۔ اس کے علم کی معمولی مقدار کا بھی احاطہ نہیں کرسکتے ۔ اس کی کرسی کی وسعت اور بڑائی کا یہ عالم ہے کہ وہ آسمانوں و زمین پر حاوی ہے اور آسمان و زمین کی حفاظت ، اس کیلئے کسی قسم کی مشکلات کا باعث نہیں ہے۔ وہ نہایت بلند ہے اور عظمتوں کا مالک ہے۔ ہدایت اور گمراہی واضح ہوچکی ہے۔ لہذا دین اسلام کو قبول کرنے کیلئے کوئی جبر یا زبردستی نہیں ہے۔ جو باطل قوتوں سے بغاوت کرکے اللہ کا وفادار بن گیا تو اس نے ایسی مضبوط کڑی کو تھام لیا جو ٹوٹنے والی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کا دوست ہے اور انہیں کفر کی ظلمتوں سے ایمان کے نور کی طرف لاتا ہے جبکہ کافروں کے دوست طاغوت (باطل قوتیں) ہیں جو انہیں ایمان کی روشنی سے کفر کے اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں،یہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ اس کے بعد تین تاریخی واقعات بیان کئے جو توحید پر دلالت کرتے ہیں اور مرنے کے بعد زندہ ہونے کے قرآنی عقیدہ کو اجاگرکرتے ہیں ۔
پہلا واقعہ: ابراہیم اور اور نمرود کا ہے جس کا دعویٰ تھا کہ میں مار بھی سکتا ہوں اور موت سے بچا بھی سکتا ہوں لہٰذا میں اس کائنات کا رب ہوں۔ ابراہیم نے فرمایا اللہ تعالیٰ سورج کو مشرق سے نکالتے ہیں اور تم مغرب سے نکال کر دکھائو ۔ اس پر وہ لاجواب ہو کر حیران ہوگیا ۔
دوسرا واقعہ :حضرت عزیر کا ہے کہ کسی سفر میں ان کا گزر ایک تباہ شدہ بستی پر ہوا جس کے باشدے لاشوں کی صورت میں پڑے ہوئے تھے۔ انہوں نے ان کی تباہ شدہ کیفیت اور بوسیدگی اور اللہ تعالیٰ کی دوبارہ پیدا کرنے کی قوت پر تعجب کا اظہار کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر اور ان کی سواری پر موت طاری کر کے سو سال کے بعد زندہ کیا۔ سواری کی بوسیدہ ہڈیوں کو ان کے سامنے جمع کر کیان پر گوشت پوست چڑھایا اور ان کے زاد سفر (کھانے) کو سو سال تک باسی ہونے سے بچاکر تروتازہ رکھا۔ اور اس طرح انہیں اپنی قدرت کا عملی مشاہدہ کرایا ۔
تیسرا واقعہ: حضرت ابراہیم نے مرنے کے بعد زندہ ہونے کی کیفیت کا مشاہدہ کیا۔ حضرت ابراہیم نے اپنے اطمینان قلب کے لئے مرُدوں کو زندہ کرنے کی کیفیت کو عملی شکل میں دیکھنا چاہا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ چار پرندے لیکر انہیں اپنے ساتھ مانوس کریں ، پھر انہیں ذبح کریں اور بالکل قیمہ بنا کر ان کے ذرات آپس میں خلط ملط کرکے مختلف پہاڑیوں پر رکھ کر ان پرندوں کا نام لیکر پکاریں ۔ ابراہیم کے پکارنے پر ہر پرندے کی ہڈی سے ہڈی ، پر سے پر ، خون سے خون سب مل کر اپنی اصل شکل وصورت میں بن کر ان کے پاس آ گئے۔
صدقہ و خیرات کے حوالے سے آیت نمبر 261سے آیت 266تک چار مثالیں بیان کی ہیں، دو مثالیں اخلاص کیں اور دو مثالیں ریاء کاری کی۔ اخلاص کے ساتھ اللہ کے نام پر خرچ کرنے کی مثال ایسے ہی ہے جیسے زمین میں ایک بیج ڈال کر سینکڑوں دانے حاصل کر لینا۔ اور ریاء کاری کا صدقہ ایسا ہے چٹان پر غلہ اگانے کی کوشش کرنا ۔ اچھی بات کہنا اور درگزر کر دینا ایسی مالی امداد سے بہتر ہے جس میں ریاکاری اور احسان جتلانے کا عنصر شامل ہو ۔ اللہ کے لئے صدقہ و خیرات کی دوسری مثال زرخیز خطہ زمین میں باغ لگانے کی ہے جو سال میں دو مرتبہ پھل دیتا ہو اور دکھاوے کے طور پر خیرات کرنے کی مثال ایسی اس شخص کی ہے جو اپنی جوانی میں محنت کر کے بہترین باغ اور فصل اگائے مگر اس کے بڑھاپے میں جب وہ محنت کے قابل نہ رہے ، وہ اور اس کے چھوٹے چھوٹے بچے غلہ اور پھلوں کے لئے محتاج ہوں تو یہ باغ کسی ناگہانی آفت سے تباہ ہو کر رہ جائے ، اسی طرح ریاکار کا اجر وثواب آخرت میں تباہ ہو برباد ہو جاتا ہے اور اسے کچھ نہیں ملتا۔اللہ کے عطا کردہ مال و جائداد اور زمین سے حاصل شدہ غلوں اور فصلوں میں سے پاکیزہ چیزیں اللہ کے نام پر دینی چاہئیں، گھٹیا اور بے کار چیزیں جب اپنے لئے پسند نہیں کرتے تو اللہ کے نام پر کیوں دیتے ہو؟ صدقہ وخیرات کرنے پر شیطان غربت اور پیسہ کی کمی سے ڈراتا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ مال میں برکت اور گناہوں کی معافی کا وعدہ کرتے ہیں ۔ حکمت و دانائی اللہ کی عطاء ہے جسے حکمت مل گئی اسے بہت بڑی خیر میسر آگئی ۔ کھلے عام اور چھپا کر موقع محل کے مطابق دونوں طرح صدقہ کرتے رہنا چاہئے ۔ دین دار غرباء جو اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لئے مانگتے نہیں ہیں وہ آپ کے مالی تعاون کے زیادہ مستحق ہیں۔ عدل و انصاف پر مشتمل معاشی نظا م کے لئے رہنما اصول، غریب اور چھوٹے تاجروں کے لئے زہر قاتل اور تجارت کے لئے ''رستا ہوا ناسور'' یہودی ذہنیت کی بد ترین پیداوار ''سودی نظام '' کے تباہ کن عواقب و نتائج سے آیت نمبر 275 سے آیت نمبر 280 تک خبردار کرتے ہوئے سختی کے ساتھ اس سے باز رہنے کا حکم دیا ہے اور سود خوری سے بچنے کو ایمان کا تقاضا قرار دیا اور سودی نظام کو جاری رکھنے کو اللہ اور اس کے رسول ۖ سے جنگ کے مترادف قرار دیا ہے۔ یوم احتساب یعنی قیامت کی یاد دہانی کراتے ہوئے آیت نمبر 281 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : اس دن سے ڈرو جب تم اللہ کی جانب لوٹائے جاؤ گے اور ہر شخص کو نیک و بد اعمال کا پورا پورا حساب دینا ہوگا۔ کسی پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا ۔ یہ قرآن کریم کی نزول کے اعتبار سے آخری آیت ہے۔ اور اس میں حضور ۖ کے اس دنیا سے ارتحال کا اشارہ بھی موجود ہے ۔ آیت نمبر282 کمیت کے اعتبار سے قرآن کریم کی سب سے سب سے بڑی آیت ہے ۔ اسے آیة المداینہ بھی کہتے ہیں۔ اس میں ادھار لین دین کے قرآنی ضوابط ، ادائیگی کی مدت کا تعین ، تحریری و ثیقہ کی تیاری اور گواہوں کی موجودگی وغیرہ کابیان ہے ۔ رہن رکھنے کے احکام کا تذکرہ ہے ۔ آسمان و زمین کے اندر سب کچھ اللہ کی ملکیت ہے ، وہ دلوں کے ظاہر اور خفیہ تمام بھیدوں سے واقف ہے ۔ اللہ کے نازل کردہ قرآن پر رسول اور مؤمنین سب کا ایمان ہے ۔ اللہ پر، فرشتوں پر، آسمانی کتابوں پر اور تمام انبیاء و رسل پر بلا تفریق ایما ن لانا ضروری ہے۔ اپنی اطاعت شعاری اور فرماں برداری کا عاجزانہ اعتراف کر کے اپنی کمی و کوتاہی پر اللہ سے مغفرت طلب کرنی چاہئے اللہ تعالیٰ انسانی وسعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتالہٰذا شریعت کے جتنے احکام ہیں وہ انسانی وسعت و قدرت کے اندر ہی ہیں اور ہر شخص کو اپنے برے اور بھلے اعمال کا نتیجہ بھگتنا ہوگااس لئے فدویانہ طریقے پر اپنی وفاداری کا اظہار کرتے ہوئے اللہ سے درخواست کریں۔اے ہمارے رب ! ہماری غلطی اور کمی پر ہماری گرفت نہ فرما ہماری طاقت سے زیادہ ہم پر ذمہ داریوں نہ ڈال ہمارے ساتھ عفو درگزر کا معاملہ فرما ۔ رحم فرما تو ہی ہمارا مولا ہے ، کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد فرما ۔ آیت نمبر 285اور 286 سورة بقرہ کی آخری دو آیتیں ہیں ان کے بہت فضیلت ہے۔ حدیث شریف میں ہے جس نے رات کو سوتے وقت یہ دو آیتیں پڑھ لیں تو یہ اس کے لئے کافی ہیں۔
سورة آل عمران
قرآن کریم کی طویل ترین سورتوں میں سے ایک ہے۔ مدنی ہے دوسو آیتوں اور بیس رکوع پر مشتمل ہے۔ اس سورت میں عقائد پر گفتگو کرتے ہوئے زیادہ تر روئے سخن عیسائیوں کی طرف ہے۔ عیسائیت کے مذہبی تقدس کے حامل خاندان کا تذکرہ اس میںموجود ہے۔ عمران حضرت عیسی علیہ السلام کے نانا تھے۔ عیسائیوں کے دلوں میں قرآن کریم کے لئے نرم گوشہ پیدا کرنے کی خاطر پوری سورت کو آل عمران کے نام سے موسوم کردیا۔ یہ سورت ایک واقعہ کے پس منظر میں نازل ہونا شروع ہوئی۔ نجران کے عیسائیوں کا ساٹھ افراد پر مشتمل ایک بڑا وفد مدینہ منورہ میں حضور علیہ السلام سے ملاقات کے لئے آیا تھا۔ ان لوگوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو ان کے مرتبہ سے بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ کبھی کہتے کہ وہ اللہ ہیں کبھی کہتے کہ وہ ابن اللہ ہیں اور کبھی کہتے کہ الوہیت کے مثلث (باپ، ماں اور بیٹا)کا ایک حصہ ہیں۔ حضور علیہ السلام نے انہیں مسکت جواب دیتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالی زندہ جاوید ہیں ان پر موت طاری نہیں ہوسکتی جبکہ عیسی علیہ السلام پر موت طاری ہوکر رہے گی۔ بیٹا اپنے باپ کے مشابہہ ہوتا ہے جبکہ عیسی علیہ السلام میں اللہ تعالی کی مشابہت نہیں، اللہ تعالی کھاتے پیتے نہیں جبکہ عیسی علیہ السلام کھاتے پیتے ہیں۔ اللہ تعالی سے آسمان کی بلندیوں اور زمین کی پنہائیوں میں کوئی چیز مخفی نہیں جبکہ عیسی علیہ السلام سے بے شمار چیزیں مخفی ہیں۔ اس پر وہ لاجواب ہوگئے۔ اللہ تعالی نے آپ کی تائید میں یہ سورت نازل فرمائی۔ ابتدامیں اللہ کی وحدانیت اور قرآن کریم، تورات اور انجیل کی حقانیت کو بیان کیا اور اللہ کی آیات کے منکروں کو عذاب شدید سے ڈرایا۔ علم الہی کی وسعتوں کو بیان کیا۔ قدرت کے تخلیقی شاہکار انسان کے رحمِ مادر میں تیاری کے مرحلہ کو بیان کیا اور بتایا کہ قرآن کریم اللہ تعالی ہی نے نازل فرمایا ہے، جس میں محکم اور واضح معنی و مفہوم رکھنے والی آیات بھی ہیں اور متشابہات بھی ہیں، جن کے معنی و مفہوم ہر شخص پر واضح نہیں ہوتے، لیکن اگر متشابہہ آیات پر حضور علیہ السلام کے بیان کردہ ضوابط کی روشنی میں غور کریں تو ان کے معنی واضح ہوسکتے ہیں، مگر جو لوگ ضلالت و گمراہی کے مریض ہیں وہ ان آیات کو من مانے معنی پہناکر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسی آیات کو اللہ کی طرف سے یقین کرکے ان پر مکمل ایمان رکھنا چاہئے۔
اللہ سے ہدایت کی دعا مانگنی چاہئے اور روز جزاء کے تصور کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ کافروں کا مال و اولاد ان کے کسی کام نہیں آسکے گا۔ وہ جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ فرعون اور اس سے پہلے اقوام کے واقعات سے یہ بات ظاہر ہے۔ انہوں نے ہماری آیات کا انکار کیا، ہم نے ان کے جرائم پر ان کی گرفت کرکے انہیں عبرت کا نشانہ بنادیا۔ بدر کے واقعہ میں غور کرو جب دو جماعتیں مقابلہ پر آئیں۔ ایک جماعت اللہ کے لئے جہاد کرنے والی اور دوسری جماعت کافروں کی تھی، جن کی تعداد مسلمانوں سے کئی گنا زیادہ نظر آرہی تھی۔ اللہ تعالی نے کافروں کو شکست دے کر ایمان والوں کو اپنی مدد سے غالب کیا۔ اس سے اہل بصیرت درس عبرت حاصل کرسکتے ہیں۔ انسانوں کو بیوی، بچے، مال و دولت کے خزانے، سونا چاندی، سواریاں، چوپائے، جانور اور کھیتیاں بہت بھلی معلوم ہوتی ہیں، مگر یہ سب دنیا کی عارضی چیزیں ہیں۔ اللہ تعالی کے پاس بہترین انجام ہے۔ متقی لوگوں کے لئے باغات، نہریں، پاکیزہ بیویاں اور اللہ کی رضا ہے۔ اللہ اپنے بندوں کو خوب جانتے ہیں۔ وہ بندے گناہوں پر استغفار اور جہنم سے حفاظت کے طلبگار ہیں۔ صبر کرنے والے، سچ بولنے والے، فرماں برداری کرنے والے، صدقہ و خیرات کرنے والے اور تہجد کے وقت اپنے گناہوں کی معافی مانگنے والے ہیں۔ اللہ تعالی اور فرشتے اور تمام اہل علم، توحید کی گواہی دیتے ہیں۔ انسانی زندگی کے لئے نظام حیات جو اللہ تعالی کے یہاں مستند و مسلم ہے وہ صرف اسلام ہے اور اس سے اختلاف رکھنے والے ہٹ دھرم اور ضدی ہیں۔ اللہ تعالی جلد ہی ان کافروں کا احتساب کریں گے۔ بحث بازی اور جھگڑا کرنے کی بجائے اللہ تعالی کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہی ہدایت ہے۔
انبیااور عدل و انصاف کے داعی مذہبی پیشواں کا قتل یہودی ذہنیت کا غماز ہے۔ ایسے لوگوں کو دردناک عذاب ہوگا۔ ہر قسم کی حکمرانی اللہ ہی کی ہے وہ جسے چاہے عزت دے جسے چاہے ذلیل و رسوا کرے وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ دن کو رات میں داخل کرتا ہے، رات کو دن میں داخل کرتا ہے۔ زندہ سے مردہ کو اور مردہ سے زندہ کو نکالتا ہے اور جب چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔ ایمان والوں کے لئے کافروں سے گہری دوستی لگانا جائز نہیں۔ اللہ کی محبت اور مغفرت کے حصول کا آسان اور کامیاب راستہ اتباعِ رسول ہے۔ انبیاکی بعثت درحقیقت انتخاب ربانی ہوتا ہے۔ آدم و نوح اور ابراہیم و عمران کے خاندانوں کو اللہ تعالی نے ہی منتخب فرمایا تھا۔ حضرت مریم کی ولادت ان کی کراماتی نشوونما اور انہیں بیت المقدس کی خدمت کے لئے وقف کرنے کی تفصیل کا بیان ہے۔ حضرت زکریا علیہ السلام کو بڑھاپے اور بیوی کے بانجھ پن کے باوجود یحیی جیسے پاکباز اور قائدانہ صلاحیتوں کے حامل بیٹے کی خوشخبری کا تذکرہ ہے۔ پھر عیسی علیہ السلام کی معجزانہ ولادت، بچپن اور بڑھاپے میں گفتگو کے امتیاز کا تذکرہ۔ آپ کی نبوت و رسالت کے ساتھ ہی آپ کے معجزات، مردوں کو زندہ کرنا، مٹی کے پرندے بناکر اڑادینا، اندھوں اور کوڑھوں کو صحت مند کردینا وغیرہ کو ذکر کرکے بتایا ہے کہ یہ تاریخی باتیں ایک نبی امی کے ذریعہ لوگوں کے سامنے آنا، اس نبی کی حقانیت کی واضح دلیل ہیں۔ پھر عیسی علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے اور ان کو نبی برحق مان کر ان کی پیروی کرنے والوں کے دنیا پر غلبہ اور قیامت تک ان کی حکمرانی کو بیان کیا ہے۔
پھر عیسائیوں کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مباہلہ کا تذکرہ ہے، جس میں دو مقابل فریق اپنے اہل و عیال کے ساتھ میدان میں نکل کر بددعا کرتے ہیں، جس کے نتیجہ میں باطل فریق ہلاک ہوجاتا ہے۔ عیسائی مباہلہ کی بجائے فرار ہوگئے، جس سے ان کا بطلان واضح ہوگیا۔ قرآن کا اعلان ہے کہ ابراہیم علیہ السلام یہودی، عیسائی یا مشرک نہیں بلکہ یکسوئی کے ساتھ اللہ کی اطاعت کرنے والے مسلمان تھے۔ پھر یہودیوں کی خامیوں اور کمزوریوں کا تذکرہ ہے۔ خود راہِ راست پر آنے کی بجائے دوسروں کو بھی اپنے جیسا گمراہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ حق و باطل کو خلط ملط کرکے لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔ سازش کے تحت اسلام کا اظہار کرکے پھر انکار کردیتے ہیں تاکہ دوسروں کو بھی اسلام سے برگشتہ کریں۔ مسلمانوں کا مال ناجائز طریقہ پر کھانے کو اپنے لئے حلال سمجھتے ہیں، دنیوی مفادات کی خاطر اللہ کے کلام کو بیچ ڈالتے ہیں۔ نبی و رسول کی شان یہ ہے کہ وہ لوگوں کو اپنا پرستار بنانے کی بجائے اللہ کی عبادت پر آمادہ کرتے ہیں۔ پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے حوالے سے انبیاکرام سے لئے جانے والے میثاق کا ذکر ہے، جس کی رو سے تمام انبیاعلیہم السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت کرنے کے پابند قرار دیئے گئے۔ اسلام کے علاوہ کوئی دین قابل قبول نہیں۔ اللہ کے نزدیک، تمام فرشتوں اور تمام انسانوں کے نزدیک کافر ملعون ہیں۔ ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ اگر زمین کے بھرا کے برابر سونا بھی فدیہ میں دے دیں تب بھی انہیں جہنم کے عذاب سے نجات حاصل نہیں ہو گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
  • Like
Reactions: AnaZai

GraetBoy1234

Active Member
May 18, 2013
281
460
113
Chowk Yadgar, Peshawar
روزہ 4 ........ پارہ4
اعلی ترین نیکی اپنی محبوب چیز کو اللہ کے نام پر خرچ کرنا ہے۔ اللہ کے بارے میں غلط بیانی اور جھوٹ سے کام لینا بدترین ظلم ہے، اللہ سچے ہیں۔ کفر و شرک اور تمام ادیان باطلہ سے بیزار ہوکر ایک اللہ کے بن جانے والے ابراہیم علیہ السلام کا طرز زندگی اپنانے کاحکم دیتے ہیں۔بیت اللہ تک پہنچنے کی گنجائش رکھنے والوں پر حج فرض ہونے کا حکم بیان کرکے بتایا کہ انسانیت کے لئے سب سے پہلا گھر کعب اللہ تعمیر ہوا ہے جس سے زمین کو پھیلایا گیا ہے اور یہ مکہ مکرمہ میں واقع ہے۔ بہت بابرکت اور ہدایت کا ذریعہ ہے۔ اس میں اللہ کی واضح نشانیاں موجود ہیں جن میں سے مقام ابراہیم بھی ہے۔ یہ وہ پتھر ہے جو خود بخود اوپر نیچے ہوتا تھا۔ ابراہیم علیہ السلام نے اس پر کھڑے ہوکر تعمیر کعبہ کا عمل سر انجام دیا تھا۔ اللہ کا گھر امن کی علامت ہے اس میں جو بھی داخل ہوگیا اسے امن دے دیا جاتا ہے۔ اہل کتاب کی کچھ خرابیاں ذکر کرنے کے بعد ان کی گندی ذہنیت کو بیان کیا کہ اگر مسلمان ان کی بات ماننے لگ گئے تو وہ انہیں ایمان سے دستبردار ہونے پر مجبور کردیںگے! پھر تقوی کی تعلیم دے کر مرتے دم تک اسلام پر ثابت قدم رہنے کی تلقین فرمائی۔ فرقہ واریت کی لعنت سے نجات حاصل کرنے کے لئے اللہ کی رسی (قرآن کریم) کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیا۔ ایک ایسی جماعت کی ضرورت پر زور دیا جو خیر کی داعی ہو اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والی ہو۔ ایسے ہی لوگ کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ قیامت کے دن کافروں کے چہرے کالے سیاہ ہوں گے جبکہ اہل ایمان کے چہرے روشن اور چمکدار ہوںگے وہ اللہ کی رحمت میں ہوں گے جس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ امت مسلمہ بہترین امت ہے کیونکہ یہ اللہ پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی نفع رسانی کا کام کرتے ہیں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ بھی سر انجام دیتے ہیں، یہود و نصاری بھی اگر یہ صفات اپنے اندر پیدا کرلیں تو وہ بھی خیر کے حامل قرار دیئے جائیں گے، زبانی کلامی تمہاری دل آزاری کے علاوہ یہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے، ان پر ذلت و رسوائی کی چھاپ لگائی جاچکی ہے۔ اللہ کا ان پر غضب نازل ہوا ہے کیونکہ یہ لوگ انبیاعلیہم السلام کے ناجائز قتل کے مرتکب ہوتے رہے ہیں۔ یہ لوگ گناہوں کے عادی اور انتہا پسند ہیں۔ تمام اہل کتاب ایک جیسے نہیں ہیں بعض ان میں معتدل مزاج بھی ہیں جو راتوں میں اللہ کے کلام کی تلاوت کرتے اور نما زپڑھتے ہیں۔ اللہ اور آخرت پر ایمان لانے کے ساتھ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی کرتے ہیں، اللہ تعالی ان کی نیکیوں کو نظر انداز نہیں کریں گے۔ اللہ متقیوں کو خوب جانتے ہیں۔ کافروں کے مال و اولاد ان کے کسی کام نہیں آسکیں گے، وہ دائمی طور پر جہنم میں رہیں گے، یہ اگر کسی نیک راہ میں مال خرچ بھی کرتے ہیں تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی ظالم شخص کی لہلہاتی کھیتی کو سردی اور پالا لگ جائے اور سوکھ کر تباہ ہوجائے، درحقیقت ایمان سے انکار کرکے انہوں نے خود ہی اپنے اوپر ظلم کیا ہے۔ پھر مسلمانوں کے ساتھ یہودیوں کی ازلی دشمنی اور بغض بیان کرکے بتایا ہے کہ تمہیں فائدہ ہو تو انہیں تکلیف پہنچتی ہے اور تمہیں نقصان ہو تو یہ خوش ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ دوستی لگانے کے قطعا قابل نہیں ہیں، تم نے اگر صبر و تقوی اختیار کئے رکھا تو یہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ بدر میں قلیل تعداد ہونے کے باوجود اللہ کی مدد و نصرت سے کامیابی ملنے پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے، سورئہ آل عمران کی آیت نمبر 121 سے180 تک 59آیتوں میں غزوہ احد کا تذکرہ نہایت شرح و بسط کے ساتھ کیا ہے۔ مدد تو اللہ ہی کرتے ہیں مگر فرشتوںکا نزول مومنین کی تسلی اور دل جمعی کے لئے ہوتا ہے۔ اللہ تعالی نے وعدہ کیا تھا کہ ہم تین ہزار فرشتے بھیج رہے ہیں اگر کفار نے اچانک حملہ کردیا تو ہم پانچ ہزار فرشتے بھیجیں گے، جب کفار کے حملہ میں آپ کے دندان مبارک شہید ہوگئے تو آپ نے کفار قریش کے لئے بددعاکی جس پر اللہ تعالی نے فرمایا کہ یہ آپ کا اختیار نہیں بلکہ میری مرضی پر منحصر ہے میں چاہوں تو انہیں عذاب دوں اور چاہوں تو معاف کردوں! اللہ بہت غفور رحیم ہے۔ سود خوری سے بچنے کے حکم کے ساتھ ہی تقوی اختیار کرنے اور جہنم سے بچنے کی تلقین ہے اور اللہ کی رحمت سے محظوظ ہونے کے لئے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی تاکید ہے۔ جنت کے مستحقین متقی ہوتے ہیں جو ہر حال میں اللہ کے نام پر خرچ کرتے ہوں۔ غصہ کو پینے والے، لوگوں کو معاف کرنے والے اور اپنے گناہوں پر اصرار کی بجائے ندامت کے ساتھ توبہ کرنے والے ہوتے ہیں۔ اقوام عالم کے جرائم پر ان کی گرفت کا نظام جاری و ساری ہے دنیا میں چل پھر کر اس کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ قرآن کریم انسانوں کے لئے بیان ، ہدایت اور متقین کے لئے نصیحت ہے۔ میدان جہاد میں پیش آنے والی ناپسندیدہ صورتحال پر دل گرفتہ ہوکر کمزوری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔ ایمان کامل کے تقاضے پورے کرنا ہی اہل ایمان کے غلبہ کی ضمانت ہے۔ جہاد میںجانی و مالی نقصان اس عمل کا حصہ ہے اور ہر فریق کے ساتھ یہ صورتحال پیش آسکتی ہے۔ میدان احد میں مسلمانوں کو پیش آنے والے مصائب کے تین بڑے مقاصد تھے، مسلمانوں کی ایمانی قوت کا امتحان، مسلمانوں اور کافروں(منافقوں)میں امتیاز اور بعض خوش نصیبوں کو شہادت کے اعلی مرتبہ پر فائز کرنا۔ جہاد پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنے والے جنت کے مستحق ہیں۔ غزوہ احد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی افواہ پھیلانے والوں کا مقصد اگرچہ منفی تھا اور وہ مسلمانوں میں بددلی پھیلا کر انتشار پیدا کرنا چاہتے تھے مگر قرآن کریم نے اس سے مثبت مقاصد حاصل کرتے ہوئے اسے تربیت کا حصہ قرار دے کر مستقبل میں آپ کے انتقال کی صورت میں پیدا ہونے والے ممکنہ انتشار کے سد باب کے طور پر استعمال کیا اور بتایا کہ محمد علیہ السلام اللہ کے رسول ہیں، خدا نہیں ہیں۔ان کے انتقال کی خبر سے دل برداشتہ ہوکر اسلام سے روگردانی کرنے والے اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، وہ اپنا ہی نقصان کریں گے۔ ایسے موقع پر کمزوری اور بزدلی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے بہادری اور ثابت قدمی کے ساتھ غلبہ اسلام کی جدوجہد میں حصہ لینا چاہئے اور اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں پر مغفرت مانگتے ہوئے، اللہ سے ثابت قدمی اور کافروں کے مقابلہ میں نصرت کی دعامانگنی چاہئے۔ غزوہ احد میں پیش آمدہ بعض مناظر کی قلبی تصویر کشی کرتے ہوئے، کافروں پر مسلمانوں کا رعب ڈال کر اہل ایمان کو مستقبل میں کامیابی کی نوید سنائی گئی ہے۔ جن اہل ایمان سے میدان احد میں کسی قسم کی کوتاہی یا کمزوری کا مظاہرہ ہوا تھا انہیں معاف کرنے کا اعلان کیا گیا ہے اور جن منافقین نے جہاد پر اعتراضات کرکے مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی تھی ان کی سخت گرفت کی گئی ہے۔ منافقوں کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کی تعداد اور اسلحہ میں کمی اور کافروں کی تعداد اور اسلحہ میں برتری کے پیش نظر میدان قتال میں اترنا کوئی دانشمندی نہیں ہے بلکہ یہ جہاد ہی نہیں ہے اگر یہ لوگ ہماری طرح گھروں میں بیٹھے رہتے تو قتل ہونے اور زخمی ہونے سے بچ جاتے۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ تم پر جب گھروں میں موت کا فرشتہ مسلط ہوکر تمہیں موت کے منہ میں دھکیلے گا تو اس وقت موت سے تم کیسے بچوگے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو صحابہ کرام کے ساتھ نرم، برتا جاری رکھنے اور تمام معاملات کو مشورہ سے طے کرتے رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔ نصرت خداوندی کا ضابطہ کہ توکل کرنے والوں کی اللہ ضرور مدد کرتے ہیں۔ بعثت نبوی اللہ کی طرف سے مسلمانوں کے لئے عظیم احسان ہے۔ نبی کا فرض منصبی کلام اللہ کی آیات کی تلاوت، مسلمانوں کی تربیت اور انہیں قرآن و حدیث کی تعلیم ہے۔ انسان پر آنے والی مشکلات و مصائب اس کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ شہدامردہ نہیں بلکہ اسلام کے غلبہ اور دفاع کی جنگ میں اپنی جانیں لگا کر حیات ابدی سے ہمکنار ہوکر جنت میں اللہ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ اس کے بعد غزوہ حمراالاسد کا تذکرہ ہے جو غزوئہ احد کے فورا بعد پیش آیا۔ کفار نے دوبارہ حملہ آور ہونے کا فیصلہ کیا تو حضور علیہ السلام تھکے ماندے اور زخموں سے چور چور مجاہدین کو لے کر ان کے تعاقب میں نکلے تو کافروں نے فرار اختیار کرنے میں ہی عافیت جانی اور مسلمانوں کو حمراالاسد کے مقام پر لگنے والے تجارتی بازار میں خریدو فروخت سے اتنا منافع ہوا کے احد کی پریشانی اور نقصان کا تدارک ہوگیا۔ اس نازک موقع پر نبی کی دعوت پر لبیک کہنے والوں کے ایمان و ثابت قدمی کی قرآن کریم نے تعریف کی ہے اور کافروں کی طاقت اور اسلحہ سے خوفزدہ ہونے والوں کو شیطان اور اس کے حمایتی قرار دیا ہے۔ کافروں کی کامیابیوں سے متاثر ہونے والوں کو بتایا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے مہلت اور ڈھیل ہے۔ ان کے لئے ذلت آمیز عذاب تیار ہے۔ اللہ کے نام پر خرچ کرنے سے بخل کرنے والوں کو جان لینا چاہئے کہ یہ ان کے لئے خیر نہیں بلکہ شر ہے۔ اللہ کے راستہ سے جو مال بچا کر رکھیں گے اسے جہنم میں تپا کر ان کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا۔ غلبہِ اسلام کی جدو جہد اور دینی مقاصد کے لئے چندہ کرنے پر یہودیوں نے اعتراض کیا کہ مسلمانوں کا خدا (نعوذ باللہ )فقیر ہوگیا ہے اور ہم مالدار ہیں تبھی تو ہم سے چندہ مانگ رہا ہے۔ حضرت ابو بکر نے اس گستاخانہ بات کہنے والے یہودی کو زدو کوب کیا اور اسے قتل کی دھمکی دی جس پر یہودی تلملا اٹھے اور حضور علیہ السلام کے سامنے اپنی گستاخانہ گفتگو سے انکار کرکے حضرت ابو بکر کو سزا دینے کا مطالبہ کرنے لگے۔ اللہ تعالی نے حضرت ابو بکر صدیق کی تائید اور یہودیوں کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ نے ان کی گستاخانہ گفتگو سن لی ہے اور یہ عادی مجرم ہیں پہلے بھی اس قسم کی نازیبا حرکتیں کرتے رہے ہیں۔ یہ لوگ انبیاعلیہم السلام کے قتل جیسے بدترین جرائم کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں اور ہم انہیں قیامت کے دن آگ میں جلانے کا عذاب دیں گے۔ اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ حضرت ابوبکر نے ایمانی غیرت و حمیت کے پیش نظر جو قدم اٹھایا تھا وہ بالکل جائز اور مبنی برانصاف تھا۔ حضور علیہ السلام کی نبوت کو تسلیم نہ کرنے پر یہودی یہ جواز پیش کرتے تھے کہ ہمیں اللہ نے حکم دیا ہے کہ کسی بھی نبی پر اس وقت تک ایمان نہ لائیں جب تک وہ اپنی نبوت کے ثبوت کے طور پر خاص نشانی نہ دکھادے اور وہ نشانی یہ ہے کہ قربانی کرکے کسی پہاڑ پر رکھے اور آسمانی آگ اسے جلادے تو ہم اس کی صداقت کو تسلیم کریں گے ورنہ نہیں۔ درحقیقت یہ ان کی بہانہ بازی تھی۔ اللہ تعالی نے فرمایا کہ پہلے انبیاعلیہم السلام کا بھی تم انکار کرتے رہے ہو لہذا تمہاری بات قابل اعتماد نہیں ہے۔ ہر انسان پر موت کا آنا برحق ہے۔ روز قیامت تمہارے اعمال کا محاسبہ ہوگا اور جہنم سے بچ کر جنت میں جانے والے ہی کامیاب قرار پائیں گے! اہل کتاب سے عہد لیا گیا تھا کہ وہ آسمانی کتاب کے مضامین کو وضاحت کے ساتھ لوگوں کے سامنے بیان کریں گے۔ کسی بات کو نہیں چھپائیں گے، مگر انہوں نے اس عہد کی پاسداری نہیں کی اور اپنے مفادات کی خاطر اللہ کی آیات میں رد و بدل کرنے کی بدترین حرکت میں مبتلا ہوگئے۔ یہ لوگ اپنے کرتوتوں پر خوش ہورہے ہیں اور ناکردہ اعمال کو اپنے کھاتے میں ڈال کر اپنی تعریف کرانا چاہتے ہیں۔ یہ اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکتے۔ ان کے لئے دردناک عذاب تیار کرلیا گیا ہے۔ آسمان و زمین پر اللہ کی حکمرانی اور کوئی چیز اللہ کی قدرت سے باہر نہیں ہے۔ اہل دانش و بینش کو اللہ تعالی کی مخلوقات آسمان و زمین اور دن رات میں غور و خوض کی دعوت دی گئی ہے اور اللہ کے برگزیدہ بندوں کی پانچ دعاں کا تذکرہ ہے، جنہیں شرف قبولیت حاصل ہے۔ مرد و عورت کی تخلیق اور ان کی ذمہ داریوں میں اختلاف کے باوجود انہیں اجر و ثواب میں برابری اور مساوات کی خوشخبری سنائی گئی ہے اور بتایا ہے کہ ہجرت اور جہاد جیسے عظیم الشان اعمال جو بھی کرے گا اس کے لئے گناہوں کی معافی، اللہ کے ہاں بہترین اجر و ثواب اور جنت کا وعدہ ہے۔ کافروں کے پاس مالی وسائل کی فراوانی اور عیش و عشرت کو دیکھ کر دھوکہ میں نہیں پڑنا چاہئے۔ یہ عارضی اور معمولی فوائد ہیں۔ آخرت میں ان کا بدترین ٹھکانہ جہنم ہے۔ متقین کے لئے نہریں اور باغات اور اللہ کے ہاں بہترین مہمانی ہے۔ اہل کتاب میں بعض انصاف پسند بھی ہیں، جو قرآن اور نبی اسلام پر ایمان لانے کی نعمت سے سرفراز ہیں۔ سورت کی آخری آیت میں دین پر ثابت قدمی اور میدان جہاد میں مورچوں میں کفر کے مقابلہ میں ڈٹ جانے والوں کو دائمی فلاح و کامرانی کی نوید سنائی گئی ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضور علیہ السلام تہجد کے وقت جب بیدار ہوتے تو سورہ آل عمران کی آخری گیارہ آیتیں آسمان کی طرف رخ کرکے تلاوت فرمایا کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہلاکت ہے اس شخص کے لئے جو ان آیتوں کی تلاوت کے باوجود کائنات کے اندر اللہ کی نشانیوں میں غور و خوض نہ کرے!
سورة النسائ
یہ مدنی سورت ہے۔ ایک سو چھہتر آیتوں اور چوبیس رکوع پر مشتمل ہے۔ امرا عورت کو کہتے ہیں۔ اس کی جمع نساہے، جس کے معنی عورتیں یا خواتین ہے۔ اس سورت میں منجملہ دوسرے مسائل کے عورتوں کے انتہائی اہم اور حساس مسائل زیر بحث آئے ہیں، اس لئے اس کا نام سورة النسارکھا گیا ہے۔ سورةبقرہ کے بعد متنوع اور بھرپور طریقہ پر مسائل کا بیان اس سورت کے اندر ہے۔ معاشرتی اور قومی مسائل کے ساتھ تشریعی مسائل اور ہجرت اور جہاد پر سیر حاصل گفتگو، غیر مسلم اقوام کے ساتھ تعلقات کی نوعیت، میراث کے احکام، کلالہ کا مسئلہ، عقائد پر بحث، منافقین کا تذکرہ اور یہود و نصاری کے مکروہ چہرہ کی نقاب کشائی جیسے اہم موضوعات پر مفصل بات کی گئی ہے۔
تقوی اختیار کرنے کی تلقین کے ساتھ سورت کی ابتداکی گئی ہے اور اللہ کی قدرت کا بیان ہے کہ آدم و حواعلیہما السلام کی معجزانہ تخلیق کے بعد بے شمار انسانوں کو اس جوڑے کی صلب سے پیدا کرکے اس سرزمین پر پھیلادیا۔ اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ ایک ماں باپ کی اولاد ہونے کے ناطے تمام انسانوں کو ایک گھرانے کے افراد کی طرح باہمی اتفاق و اتحاد سے زندگی بسر کرنی چاہئے۔
پھر یتیموں کی کفالت اور ان کے اموال کی دیانتداری کے ساتھ حفاظت کا حکم دیا گیا ہے۔ چار تک بیویاں رکھنے کی اجازت اور ان میں عدل و انصاف قائم رکھنے کا بیان ہے۔ مہر کی ادائیگی بطیبِ خاطر کی جائے اور خواتین چاہیں تو اپنا مہر معاف بھی کرسکتی ہیں۔ معاشرہ میں ناسمجھ افراد کی نگہداشت اور ان کی مالی سرپرستی کا حکم دیا گیا ہے، پھر وراثت کے موضوع پر تفصیلی گفتگو اور تمام وارثوں کے حصے متعین کرکے بتایا گیا ہے کہ وارثوں کے استحقاق کو اللہ تم سے بہتر جانتے ہیں۔ وراثت کی تقسیم سے پہلے میت کے قرض کی ادائیگی اور وصیت پر عملدرآمد کی تلقین ہے۔ زنا اور لواطت کے لئے ابتدائی قانون سازی کی گئی ہے۔ عورتوں کو ان کی مرضی کے خلاف زبردستی کسی کے نکاح میں دینے اور ان کے مہر میں خوردبرد کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ والد کے انتقال کے بعد اس کی منکوحہ سے نکاح پر پابندی لگائی گئی ہے اور محرمات کی فہرست ذکر کرکے بتایا گیا ہے کہ ان خواتین سے نکاح حرام ہے۔ ماں، بیٹی، بہن، پھوپھی، خالہ، بھتیجی، بھانجی، رضاعی ماں، رضاعی بہن، ساس، بہو، جس منکوحہ کا شوہر موجود ہے۔ ان خواتین سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔
..........
 

GraetBoy1234

Active Member
May 18, 2013
281
460
113
Chowk Yadgar, Peshawar
آٹھویں پا ر ے کے اہم مضامین

قریش مکہ کا کہنا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مرنے کے بعد زندہ ہونے کا جو دعویٰ کرتے ہیں اس کا عملی ثبوت پیش کرنے کے لئے عرب کے بڑے دادا قُصَی (جوکہ نیک اور محترم شخصیت تھے) کو زندہ کرکے دکھا دیں، وہ اگر آپ کی تصدیق کردیں تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا اگر ہم ان پر فرشتے نازل کردیں جو ان سے باتیں کرنے لگیں اور آج تک مرنے والی ہر چیز کو زندہ کرکے ان کے سامنے اکٹھا کردیں تب بھی یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ صرف آپ ہی کی مخالفت نہیں ہورہی ہے بلکہ آپ سے پہلے انبیاءعلیہم السلام کو بھی ایسی ہی صورتحال سے سابقہ پڑتا رہا ہے۔ شیطان کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے ہر نبی کے مخالفین ایسے ہی بنا سنوار کر دھوکہ دینے کے لئے ہر دور میں اعتراضات کرتے رہے ہیں مگر ایسی باتوں سے بے ایمان، منکرین آخرت ہی متاثر ہوتے ہیں۔ اللہ اگر چاہتے تو یہ ایسی نازیبا حرکتیں نہ کرتے۔ آپ انہیں ان کے حال پر چھوڑ کر اپنے کام میں لگے رہئے، آپ ان سے کہہ دیجئے کہ جب اللہ نے واضح کتاب نازل فرمادی تو میں فیصلہ کرنے کے لئے کسی اور کو کیوں تلاش کروں؟ تیرے رب کی باتیں سچائی اور انصاف کی آئینہ دار ہیں انہیں کوئی تبدیل نہیں کرسکتا۔ لوگوں کی بے دلیل باتوں کو مان کر انسان گمراہ ہوسکتاہے، اللہ ہدایت یافتہ اور گمراہوں کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ مردار اور ذبیحہ میں فرق کرنے پر مشرکین کہتے تھے کہ اللہ کا مارا ہوا کھاتے نہیں ہو اور اپنا مارا ہوا کھالیتے ہو۔ قرآن کریم نے اس کے جواب میں فرمایا کہ شیطان کے ایجنٹ کٹ حجتی کے لئے اس قسم کے اعتراضات کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حلال و حرام کو تفصیل کے ساتھ بیان کردیا ہے، لہٰذا مردار جانور کا کھانا گناہ ہے جبکہ اللہ کا نام لے کر ذبح کیا ہوا جانور کھانا تمہارے ایمان کا تقاضا ہے۔ اگر ان کی باتوں سے متاثر ہوگئے تو تم بھی مشرکین کے زمرے میں شمار کئے جاﺅگے۔ جس طرح مردہ اور زندہ برابر نہیں ہوسکتے اسی طرح کفر کے اندھیروں میں بھٹکنے والے اور ایمان کی روشنی میں چلنے والے برابر نہیں ہوسکتے۔ جب انہیں کوئی آیت سنائی جائے تو اسے ماننے کی بجائے یہ کہتے ہیں کہ ان آیتوں کی وحی اللہ ہم پر کیوں نہیں اتارتا؟ اللہ بہتر جانتے ہیں کہ کس پر وحی اتارنی ہے کس پر نہیں۔ مجرموں کو ان کے جرائم کی وجہ سے ذلت ورسوائی اور عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جسے اللہ ہدایت دینا چاہیں اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتے ہیں اور جس کی گمراہی کا فیصلہ کریں اس کا سینہ تنگ کردیتے ہیں جیسے کوئی شخص بلندی پر چڑھ رہا ہو۔
بلندی پر چڑھتے ہوئے سینہ تنگ ہونے کی مثال اعجازِ قرآنی کی معرکة الآراءمثال شمار ہوتی ہے۔ اس لئے کہ طب جدید کی تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ بلندی پر آکسیجن کی کمی کی وجہ سے دَم گھٹنے لگتا ہے اور سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ آج سے سوا چودہ سو سال پہلے اس سائنسی حقیقت کی طرف اشارہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ قرآن کسی انسان کا نہیں بلکہ اللہ رب العالمین کا کلام ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ تمام جنات و انسانوں سے قیامت کے دن باز پرس کی جائے گی اور ہر ایک کو احتساب کے عمل سے گزرنا ہوگا جبکہ یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ انسانوں کی طرح جنات بھی قرآنی تعلیمات پر عمل کرنے کے پابند ہیں، پھر یہ بتایا کہ مجرموں کی گرفت کے لئے اللہ کا ضابطہ ہے کہ ظالم کی بے خبری میں گرفت نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات سے مستغنی اور رحیم ذات ہے۔ وہ اگر انسانوں کو ختم کرکے کسی دوسری قوم کو لانا چاہے تو اسے کوئی روک نہیں سکتا۔ پھر کھیتیوں اور جانوروں میں مشرکانہ رسوم و رواج کی مذمت کرتے ہوئے اسے شیطانی عمل قرار دیا ہے۔ قدرت خداوندی کا بیان ہے کہ اللہ زمین سے کیسے کیسے باغات پیدا کرتا ہے، جن میں سہارے کی محتاج بیلیں اور بغیر سہارے کے پروان چڑھنے والے پودے ہوتے ہیں۔ کھجوریں، مختلف ذائقہ والے ملتے جلتے اور غیر متشابہ پھل ہوتے ہیں۔ یہ سب انسانی خوراک اور صدقہ و خیرات کے لئے اللہ نے پیدا کئے ہیں۔ ان میں اسراف نہ کیا جائے۔ چھوٹے بڑے جانور بھی کھانے کے لئے اللہ نے پیدا کئے۔ ان کے بارے میں شیطانی تعلیمات کی پیروی نہ کریں۔ نر اور مادہ کو شمار کرکے عام طور پر آٹھ قسم کے پالتو جانور ہیں۔ بھیڑ، بکری، گائے، اونٹ۔ اللہ نے ان میں سے کسی کو حرام قرار نہیں دیا تو تم لوگ ان کے نر یا مادہ یا ان کے حمل کو حرام کیوں کرتے ہو؟ مشرک کہتے ہیں کہ ہم اللہ کی اجازت سے شرک کرتے ہیں۔ کیا یہ اپنے دعوی پر کوئی دلیل یا دست آویز پیش کرسکتے ہیں؟ اس کے بعد تمام انبیاءعلیہم السلام کا دس نکاتی مشترکہ پروگرام پیش کیا جو حقوق اللہ اور حقوق العباد پر مشتمل ہے۔ اللہ کی عبادت، والدین کے ساتھ حسن سلوک، تنگی کے خوف سے اولاد کے قتل سے گریز، برائی کے کاموں سے پرہیز، بے گناہ کے قتل سے بچنا، یتیم کے مال کو ناجائز استعمال نہ کرنا، ناپ تول میں کمی نہ کرنا، قول و فعل میں انصاف کے تقاضے پورے کرنا، اللہ سے کئے ہوئے عہد و پیمان کو پورا کرنا اور صراط مستقیم کی پیروی کرنا پھر موسیٰ علیہ السلام کی نبوت اور ان کی کتاب کا تذکرہ پھر نزولِ قرآن کی بشارت کہ اس میں برکت بھی ہے، رحمت بھی اور ہدایت بھی۔ پھر دین میں تفرقہ اور دھڑے بندی کرنے والوں کی مذمت، پھر امت محمدیہ کی فضیلت کہ نیکی پر دس گنا اجر اور گناہ پر ایک سے زیادہ کی سزا نہیں ملے گی۔ محمدی تعلیمات کے ملت ابراہیمی کے عین مطابق ہونے کا اعلان۔ ابراہیمی طرز زندگی کی وضاحت کہ تمام بدنی و مالی عبادت اور جینا اور مرنا بھی اللہ ہی کے لئے ہے۔ ”جو کرے گا وہی بھرے گا“ کا ضابطہ اور سورت کے آخر میں امتحان کے نقطہ نظر سے انسانوں میں فرقِ مراتب اور زمین کی خلافت کا استحقاق اور اللہ کے سریع العقاب ہونے کی دھمکی کے ساتھ ساتھ غفور رحیم ہونے کی خوشخبری بھی شامل ہے۔

سورة الاعراف

جنت اور جہنم کے درمیان واقع ایک چبوترا ہے، جس پر ان لوگوں کو عارضی طور پر ٹھہرایا جائے گا، جن کی حسنات و سیئات برابر ہوں گی۔ اعراف کا تذکرہ اس سورت میں موجود ہے اس لئے اسی نام سے پوری سورت کو موسوم کردیا گیا۔
یہ سورت دو سو چھ آیتوں اور چوبیس رکوع پر مشتمل ہے۔ یہ ایک طویل مکی سورت ہے جو تقریباً سوا پارہ پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس سے پہلی سورة الانعام کا مرکزی مضمون ”توحید“ تھا اور اس سورت کا مرکزی مضمون ”رسالت“ ہے۔ اس کے ساتھ ہی جنت و جہنم اور قیامت کے موضوع پر بھی گفتگو موجود ہے۔ سورت کی ابتداءمیں قرآن کریم کی حقانیت کو ایک انوکھے انداز میں بیان کیا گیا ہے، جس میں ایک طرف حضور علیہ السلام کی ہمت افزائی ہے تو دوسری طرف آپ کی تسلی کے لئے ”وحی الٰہی“ کے منکرین کا انجام ہے کہ اگر مشرکین مکہ آپ پر نازل شدہ قرآن کریم کا انکار کرتے ہیں تو آپ دل برداشتہ نہ ہوں۔ یہ لوگ اپنے منطقی انجام کو پہنچ کر رہیں گے کیونکہ اس سے پہلے بھی ایسی قومیں گزری ہیں جنہیں ”وحی الٰہی“ کے انکار پر پلک جھپکتے میں نیست و نابود کردیا گیا۔ پھر یہ بتایا گیا ہے کہ آج کے دور کا فرقہ بندیوں، پارٹی بندیوں اور جنگ و جدل کا شکار ہونے والا انسان درحقیقت ایک ہی باپ کی صلب سے پیدا ہونے والا اور ایک ہی ماں کی کوکھ سے جنم لینے والا ہے۔ یہ سب کالے اور گورے، امیر و غریب، شاہ و گدا ایک ہی گھرانے کے افراد اور ایک ہی خاندان کے چشم و چراغ ہیں اور انہیں باہمی افتراق و نزاع کسی طرح بھی زیب نہیں دیتا۔ خالقِ انسان کی نگاہ میں اس انسان کی قدر و منزلت کیا ہے؟ اس کی طرف اشارہ کرنے کے لئے انسانیت کے جدامجد آدم علیہ السلام کو مسجود ملائکہ بناکر اعزاز و اکرام کے ساتھ اس کے اصلی گھر جنت میں بھیج دیا اور شیطان کی ازلی دشمنی بتانے کے لئے شجر ممنوعہ کو استعمال کرواکر جدوجہد اور معرک حق و باطل کے طویل اور صبر آزما امتحان کے لئے اسے زمین پر اتاردیا۔ چار مرتبہ اس انسان کو یا بنی آدم ”اے آدم کی اولاد“ کہہ کر پکارا۔ یہ نداءاس سورت کے ساتھ خاص ہے۔ شیطان کے شر سے بچنے کے لئے انتہائی پرحکمت خطاب کرتے ہوئے فرمایا:”اے بنی آدم! جس شیطان نے تمہارے والدین کا لباس اترواکر انہیں جنت سے نکلوادیا تھا کہیں تمہیں بھی فتنہ میں مبتلا کرکے جنت سے محروم نہ کردے۔“ اس کے بعد قیامت کے دن کی منظر کشی کرتے ہوئے اصحاب الجنة، اصحاب النار اور اصحاب العراف کے نام سے تین گروہ ذکر کئے۔ اس گروہ کا تذکرہ صرف اسی سورت میں ہے۔ اس کے بعد وہ منظر پیش کیا گیا، جس میں جنت والے، جہنم والوں کا ویسے ہی مذاق اڑائیں گے جیسے وہ لوگ دنیا میں ان کی نیکی اور صلاح و تقویٰ پر مذاق اڑایا کرتے تھے۔ وہ کیسا منظر ہوگا جب جنت والے انعامات اور عیش و عشرت کے مزے لے رہے ہوں گے اور جہنم والے عذاب کی اذیت و کربناکی میں مبتلا ہوں گے اور جنتیوں سے کھانے کے ایک نوالہ اور پانی کے دو گھونٹ بھیک مانگ رہے ہوں گے اور اصحاب العراف اپنی فصیل سے دائیں بائیں جھانک کر جنت و جہنم والوں میں اپنے جاننے والوں کو پہچانیں گے اور ان سے گفتگو کریں گے۔ اہل جنت کے چہرے روشن اور چمکدار ہوں گے جبکہ اہل جہنم بدشکل، سیاہ اور ذلت و رسوائی کے عالم میں ہوں گے۔ اسی اثناءمیں اللہ کا منادی آواز لگائے گا:”اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ نیکیوں کا بدلہ جنت ہے جو صلحاءکو مل گئی اور اللہ کے راستہ میں رکاوٹیں ڈالنے والے اور من مانے طریقہ پر اللہ کے احکام کو اپنی خواہشات کے مطابق توڑ مروڑ کر پیش کرنے والے ظالم اور منکرین آخرت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے عذاب کا طوق ان کے گلے میں ڈالا گیا“۔ اس کے بعد آسمان و زمین کے پیدا کرنے، دن رات کے آنے جانے، ہواﺅں کے چلنے اور بارش کے برسنے اور درختوں اور پودوں کے زمین سے نکلنے میں غور و خوض کرنے کی دعوت دے کر پہلے انبیاءعلیہم السلام کا طویل تذکرہ شروع کردیا۔
نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو توحید کی دعوت دی۔ قوم نے انہیں گمراہ قرار دے کر ان کا مذاق اڑایا۔ ان کی رسالت کا انکار کیا، جس پر اللہ نے پانی کا عذاب مسلط کرکے انہیں ہلاک کردیا اور اپنے نبی کو کشتی کے اندر بچالیا۔ ہود علیہ السلام کا تذکرہ کہ انہوں نے قوم عاد کو دعوت توحید دی انہوں نے ہود علیہ السلام کو بے وقوف اور ناسمجھ قرار دے کر انکار کیا۔ اللہ نے ان پر آندھی اور طوفان کا عذاب مسلط کرکے ہلاک کردیا اور اپنے نبی اور ان کے متبعین کو بچالیا۔ پھر قوم ثمود کا تذکرہ، صالح علیہ السلام نے انہیں دعوت توحید دی۔ انہوں نے انکار کیا اور بیجا مطالبے شروع کردیئے۔ کہنے لگے کہ پہاڑ سے اونٹنی پیدا کرکے دکھاﺅ جو نکلتے ہی بچہ جنے۔ جب اونٹنی معجزانہ طریقہ پر ظاہر ہوگئی تو انہوں نے اسے قتل کرکے اپنے اوپر عذاب مسلط کرلیا۔ ان کی بستی پر ایسا زبردست زلزلہ آیا کہ ان کا نام و نشان مٹ کر رہ گیا۔
پھر قوم لوط اور ان کی بے راہ روی کا تذکرہ۔ لوط علیہ السلام نے انہیں بدفعلی جیسے گھناﺅنے جرم سے منع کیا تو وہ ان کا مذاق اڑانے لگے کہ تم بہت پاکباز بنتے ہو۔ ہم تمہیں اپنے ملک سے نکال باہر کریں گے۔ اللہ نے ان پر پتھروں کی بارش کرکے انہیں تباہ کردیا۔
پھر قوم مدین کا تذکرہ۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے انہیں توحید کی دعوت دی اور تجارت میں بددیانتی سے منع کرکے ناپ تول پورا کرنے کی تلقین فرمائی اور انہیں راہ گیر مسافروں کو ڈرانے دھمکانے سے باز رہنے کا حکم دیا، جس پر وہ لوگ بگڑگئے اور حضرت شعیب علیہ السلام کی مخالفت پر اتر آئے۔ انہوں نے فرمایا کہ میری قوم تمہارے دو گروہ بن چکے ۔ ایک ایمان والا اور دوسرا کفر والا۔ لہٰذا اپنے انجام کا انتظار کرو عنقریب ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ فیصلہ کردیں گے۔
 

GraetBoy1234

Active Member
May 18, 2013
281
460
113
Chowk Yadgar, Peshawar
نویں پارے کے اہم مضامین
آٹھویں پارے کے آخر میں حضرت شعیب علیہ السلام کا یہ مقولہ تھا کہ آسمانی نظام کو تسلیم کرنے والی اور انکار کرنے والی مو من و منکر دو جماعتیں بن چکی ہیں۔ اب خدائی فیصلہ کا انتظار کرو۔ نویں پارہ کی ابتداءمیں ان کی قوم کے سرداروں کی دھمکی مذکور ہے کہ آپ اور آپ کے ساتھی اپنے خیالات سے تائب ہوکر اگر ہمارے طریقہ پر نہ لوٹے تو ہم آپ لوگوں کو ملک بدر کئے بغیر نہیں چھوڑیں گے۔ اہل ایمان نے اس کے جواب میںکہا کہ ہمیں اللہ نے ملتِ کفر سے نجات دے کر ملتِ اسلامیہ سے وابستہ ہونے کی نعمت سے سرفراز کیا ہے تو ہم کیسے غلط راستہ کی طرف لوٹ سکتے ہیں۔ ہم اللہ سے دعاءگو ہیںکہ وہ ہمارے اورتمہارے درمیان دوٹوک فیصلہ کرکے حق کو غالب کردے۔ چنانچہ بڑی شدت کا زلزلہ آیا اور حضرت شعیب علیہ السلام کی نبوت کے منکر اس طرح تباہ ہوگئے کہ ان کا نام و نشان بھی باقی نہ بچا اور مو منوں کو اللہ تعالیٰ نے عافیت کے ساتھ بچالیا جس پر حضرت شعیب علیہ السلام نے فرمایا کہ میںنے تو قوم کی خیرخواہی کرتے ہوئے اپنے رب کا پیغام پہنچادیا تھا مگر اسے تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے یہ لوگ تباہ ہوگئے اب ان پر میں کیسے رحم کھاسکتا ہوں؟ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ضابطہ بیان کردیا کہ خوشحالی اور تنگدستی کن حالات میں عذاب خداوندی کا مظہر ہوتی ہے اور کن حالات میں اللہ کی طرف سے ابتلاءو آزمائش ہوتی ہے۔ اگر اچھے یا برے حالات کی تبدیلی اعمال میں بہتری پیدا کرکے اللہ کا قرب نصیب کردے تو یہ تبدیلی امتحان ہے اور اللہ کی رضا کا باعث ہے اور اگر اعمال صالحہ میں ترقی نہ ہو بلکہ وہی سابقہ صورتحال رہے یا نافرمانیوں میں اور اضافہ ہوجائے تو یہ تبدیلی عذاب ہے اور اللہ کی ناراضگی اور غضب کا موجب ہے۔ اللہ کے عذاب سے کبھی بھی مطمئن نہیں ہونا چاہئے وہ صبح و شام کسی وقت بھی اچانک آسکتا ہے۔ ہم ان تباہ شدہ بستیوں کے حالات اس لئے سنارہے ہیں کہ انبیاءو رسل کی آمد کے باوجود بھی ان لوگوں نے اپنے اعمال میں بہتری پیدا نہ کرکے اپنے آپ کو عذاب الٰہی کا مستحق ٹھہرالیا۔ جس کی وجہ سے اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگاکر ان کا نام و نشان مٹاکر رکھ دیا۔
اس کے بعد معرکہ خیر و شر کا مشہور واقعہ ”قصہ موسیٰ و فرعون“ کا بیان ہے جو آیت ۳۰۱ سے ۶۰۱ تک پھیلا ہوا ہے اور اس میں بعض جزئیات کو بہت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ قرآن کریم میں باربار دہرائے جانے والے واقعات میں سے ایک ہے اور جتنی تفصیل اس واقعہ کی بیان کی گئی ہے، اتنی کسی دوسرے واقعہ کی تکرار کے ساتھ تفصیل بیان نہیں ہوئی ہے۔ یوں تو اکثر سورتوں میں کسی نہ کسی انداز میں اس کا حوالہ مل جاتا ہے مگر سورہ بقرہ، اعراف، طٰہٰ اور قصص میں مختلف پہلوﺅں سے اس واقعہ کو زیادہ اجاگر کیا گیا ہے۔ اس میں خیر کی بھرپور نمائندگی حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کرتے ہیں جبکہ شر کی بھرپور نمائندگی فرعون، ہامان، قارون اور یہودی قوم کرتی ہے۔ یہ لوگ اقتدار اعلیٰ، نوکر شاہی، سرمایہ داری کے نمائندہ ہیں۔ سورة الاعراف میں فرعون اور قوم یہود کے ساتھ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ کو بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ہم نے اپنی آیات دے کر موسیٰ علیہ السلام کو فرعون اور اس کے حمایتیوں کی طرف بھیجاانہوں نے ان آیات کو ٹھکراکر فساد برپا کیا۔ آپ دیکھیں ان مفسدین کو کیسے عبرتناک انجام سے دوچار ہونا پڑا۔ موسیٰ علیہ السلام جب رسول کی حیثیت سے فرعون کے پاس تشریف لے گئے اور انہوں نے بنی اسرائیل کی آزادی کا مطالبہ کیا تو اس نے معجزہ دکھانے کا مطالبہ کیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے ”عصا کا اژدھا“ اور ”ہاتھ کو چمکتا“ ہوا بناکر دکھادیا۔ فرعون نے اسے ”جادو“ قرار دے کر مقابلہ کے لئے ”جادوگر“ بلوالئے۔ انہوں نے رسیوں اور لکڑیوں سے سانپ بنائے۔ موسیٰ علیہ السلام کے عصا کا اژدھا ان سب کو نگل گیا۔ جادوگر چونکہ اپنے فن کے ماہر تھے وہ سمجھ گئے کہ یہ جادو نہیں بلکہ نبی کا معجزہ ہے۔ وہ مسلمان ہوکر سجدہ ریز ہوگئے۔ فرعون نے یہ کہہ کر کہ موسیٰ جادوگروں کا استاد ہے۔ یہ چھوٹے شاگرد ہیں انہوں نے سازباز کرکے یہ ڈراما رچایا ہے اس نے سب جادوگروں کے ہاتھ پاﺅں کاٹ کر انہیں سولی پر چڑھادیا وہ مرتے مرگئے مگر ایمان سے منحرف نہیں ہوئے۔ موسیٰ علیہ السلام نبی تھے، فرعون ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکا مگر بنی اسرائیل پر اس نے عرصہ حیات تنگ کردیا۔ مظالم سے تنگ آکر قوم نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا: آپ کی نبوت تسلیم کرنے سے پہلے بھی ہم ستائے جارہے تھے آپ کے آنے کے بعد اس میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ مظالم پہلے سے بڑھ گئے۔ موسیٰ علیہ السلام نے انہیں حکم دیا کہ اپنے گھروں میں ہی قبلہ رو ہوکرنماز اور صبر کی مدد سے اللہ کی مدد کو اپنی طرف متوجہ کرو۔ دنیا میں آزمائش کے طور پر اللہ جسے چاہیں اقتدار پر فائز کریں، لیکن آخرت میں متقیوں کو بہتر انجام ملے گا۔پھر اللہ تعالیٰ نے فرعونیوں پر مختلف عذاب مسلط کئے۔ قحط سالی اور سبزیوں اور پھلوں کی قلت کا عذاب آیا۔ جب انہیں کوئی فائدہ پہنچتا تو وہ کہتے کہ ہماری ”حسن تدبیر“ کا کرشمہ ہے اور جب انہیں کوئی نقصان یا تکلیف پہنچتی تو اسے موسیٰ علیہ السلام اور ان کے مو من ساتھیوں کی نحوست قرار دیتے اور کہتے کہ ہم پر اپنا جادو آزمانے کے لئے تم بڑے سے بڑا معجزہ دکھادو ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے۔ ان پر اللہ نے طوفان، مکڑی، جوﺅں، مینڈکوں اور خون کا پے در پے عذاب بھیجا مگر وہ تکبر کے ساتھ اپنے جرائم میں بڑھتے ہی چلے گئے۔ جب ان پر عذاب کی کوئی شکل ظاہر ہوتی تو وہ جھوٹے عہد و پیمان کرکے موسیٰ علیہ السلام سے دعاءکرالیتے، مگر عذاب کے ختم ہوتے ہی پھر نافرمانیوں پر اتر آتے۔ ہماری آیات سے غفلت برتنے اور جھٹلانے کا ہم نے انتقام لے کر انہیں سمندر میں غرق کردیا۔ ہم نے دنیا میں کمزاور ضعیف سمجھی جانے والی قوم کو ان کے محلات، باغات اور اقتدار کا وارث بنادیا اور بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنے کی خاطر کتاب دینے کے لئے حضرت ہارون کو جانشین قرار دے کر حضرت موسیٰ علیہ السلام ”کوہِ طور“ پر ریاضت کرنے کے لئے بلائے گئے، جہاں وہ چالیس روز تک مقیم رہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں شرف ہمکلامی بخشا اور تورات عطا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ سے ہمکلامی کا ایسا مزہ تھا کہ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کی زیارت کی درخواست کردی۔ اللہ تعالیٰ نے پہاڑ پر تجلی کی جس کی تاب نہ لاکر پہاڑ ریزہ ریزہ ہوگیا، جس سے ثابت ہوا کہ انسان اپنے دنیاوی قویٰ کے ساتھ اللہ کی زیارت نہیں کرسکتا۔
موسیٰ علیہ السلام کی عدم موجودگی میں قوم شرک میں مبتلا ہوکر بچھڑے کی پوجا کرنے لگی۔ موسیٰ علیہ السلام واپس آکر قوم پر بہت ناراض ہوئے، بھائی ہارون کو بھی ڈانٹا اور پھر تواضع کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے لئے، اپنے بھائی کے لئے اور پوری قوم کے لئے معافی طلب کرتے ہوئے مغفرت، رحمت اور ہدایت کی دعا مانگی۔ اللہ نے فرمایا میری رحمت کے مستحق وہ لوگ ہوں گے جو صدقہ و خیرات کا اہتمام کریں۔ تقویٰ اور ایمان کو اختیار کریں اور نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم جن کا تذکرہ ان کی کتابوںتورات اور انجیل میں ہے اور وہ انہیں امر بالمعروف ، نہی عن المنکر کرتے ہیں، ان کی خودساختہ پابندیوں کو ان پر سے ختم کرکے ان کے گناہوں کے بوجھ سے انہیں آزاد کراتے ہیں، ان پر ایمان لاکر ان کی مدد و نصرت کریں تویہ لوگ کامیابی سے ہمکنار ہوجائیں گے۔ پھر حضور علیہ السلام کی رسالت کی عمومیت کو بیان کیا کہ آپ تمام انسانیت کے لئے نبی بن کر تشریف لائے ہیں۔ پھر بنی اسرائیل پر مزید احسانات کا تذکرہ فرمایا کہ بارہ قبیلوں کے لئے پتھر سے بارہ چشمے جاری کئے۔ بادل کا سائبان اور من و سلویٰ کی خوراک عطاءکی۔ بیت المقدس میں داخلہ کے لئے جہاد کا حکم دیا اور مخالفت پر آسمانی عذاب کے مستحق قرار پائے۔ پھر سمندر کے کنارے بسنے والوں کا تذکرہ جنہوں نے سنیچر کا دن عبادت کے لئے مقرر کیا، مگر اس کی پابندی کرنے کی بجائے اس دن شکار میں مشغول ہوگئے، جس کی وجہ سے ذلت آمیز عذاب میں مبتلا ہوکر بندروں کی شکل میں مسخ ہوگئے۔ پھر پہاڑ سروں پر معلق کرکے بنی اسرائیل سے میثاق لینے کا تذکرہ ہے کہ اتنے اہتمام کے باوجود بھی انہوں نے پابندی نہیں کی۔ پھر پوری انسانیت سے لئے جانے والے ”عہد ا لست“ کا تذکرہ ہے جو عالم ارواح میں آدم علیہ السلام کی پشت سے تمام روحوں کو ”بھوری چیونٹیوں“ کی شکل میں نکال کر لیا گیا۔ تمام روحوں نے اللہ کی ربوبیت کا اقرار کیا، مگر دنیا میں آکر بہت سے لوگ اس سے منحرف ہوگئے۔ پھر ایک اسرائیلی عالم کا تذکرہ جس نے اپنی بیوی کے بہکاوے میں آکر مالی مفادات کے لئے اللہ کی آیات کی غلط تعبیر و تشریح کی، اسے کتے کی مانند بناکر اس کی زبان سینے تک لٹکادی گئی اور وہ کتے کی طرح ہانپتا ہوا جہنم رسید ہوگیا۔ جسے اللہ ہدایت دیں وہی ہدایت یافتہ بن سکتا ہے اور جسے اللہ گمراہ کردیں وہ خسارے میں ہے۔
جنات اور انسانوں میں جو لوگ اپنے دل و دماغ اور آنکھ اور کان کا صحیح استعمال کرکے توحید باری تعالیٰ کو نہ مانیں وہ لوگ گمراہی میں جانوروں سے بھی بدتر ہیں ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ اللہ کو اس کے اسماءحسنیٰ کے ساتھ یاد کیا جائے۔ ملحدین کے خودساختہ نام اللہ کے لئے استعمال نہ کئے جائیں۔ پھر قیامت کا تذکرہ کہ وہ اچانک کسی بھی وقت آجائے گی۔ اس کا علم اللہ کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہے۔ پھر نبی سے اعلان کروایا گیا ”میں اپنے لئے بھی نفع نقصان کا مالک نہیں ہوں۔ اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو مجھ پر کبھی کوئی تکلیف نہ آتی اور تمام بھلائیاں میں اپنے لئے جمع کرلیتا۔ میں تو اہل ایمان کو ڈرانے اور خوشخبری سنانے کے لئے آیا ہوں“ پھر قدرتِ خداوندی کے بیان کے لئے ایک جان آدم علیہ السلام سے انسانی تخلیق کا تذکرہ اور پھر ازدواجی زندگی کے فائدہ کا بیان کہ اس کا مقصد زوجین کا ایک دوسرے کے ذریعہ سکون حاصل کرنا ہے۔ پھر شرک کی مذمت کہ ایسے کمزوروں کو اللہ کا شریک بناتے ہیں جو دوسروں کو تو کیا پیدا کریں گے خود اپنی پیدائش میں اللہ کے محتاج ہیں۔ جن بتوں کو یہ اپنا معبود سمجھتے ہیں وہ چلنے پھرنے اور دیکھنے سننے سے بھی محروم ہیں۔ جو اپنی مدد نہ کرسکیں وہ دوسروں کی کیا مدد کریں گے؟ ایک داعی الی اللہ کو اخلاق فاضلہ کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا ”عفو و درگزر کرتے ہوئے نیکی کا حکم دیتے رہیں، اگر کبھی شیطان کے اثرات سے کوئی نازیبا حرکت سرزد ہوجائے تو اللہ کی پناہ میں آکر تقویٰ اور نصیحت کو اختیار کرلینا چاہئے۔ اتباع اور پیروی کے لئے وحی الٰہی کا ہونا ضروری ہے۔ جب قرآن پڑھاجائے تو توجہ سے سنیں اور صبح و شام اللہ کو یاد کرتے رہیں۔ اللہ کے برگزیدہ بندے اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے۔ وہ اس کی تسبیح و تحمید کرتے ہوئے اس کے حضور سجدہ ریز رہتے ہیں۔

سورة الانفال
انفال کے معنیٰ مال غنیمت کے ہیں، اس سورت میں غنیمت کے احکام کا بیان ہے۔ اس میں غزوہ بدر کا تفصیلی تذکرہ ہے اس لئے بعض مفسرین نے اسے سورئہ بدر بھی کہا ہے۔ پچھتر آیات اور دس رکوعات پر مشتمل یہ مدنی سورت ہے۔ اس سورت میں چھ مرتبہ یا ایہا الذین اٰمنوا کہہ کر خطاب کرتے ہوئے یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ دیئے جانے والے احکام پر عمل ایک مسلمان کے ایمان کا اولین تقاضا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں یہ لوگ مال غنیمت کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ مال غنیمت اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہے وہ جس طرح چاہے اس کی تقسیم کا حکم جاری کرے۔ پھر کامل ایمان والوں کی صفات، اللہ کے ذکر سے متاثر ہونا، کلام اللہ کو سن کر دلوں کا نرم ہوجانا اور اللہ پر توکل کرنا مذکور ہے۔ پھر بدر کے ابتدائی مرحلہ کا تذکرہ ہے کہ نکلتے وقت تمہارے بعض لوگ پوری طرح تیار نہ ہونے کی وجہ سے جہاد پر آمادہ نہیں تھے۔ لیکن جب نبی کے ساتھ مل کر کافروں سے مقابلہ کے لئے میدان میں آگئے تو اللہ نے فرشتے اتا رکر تمہاری مدد فرمائی۔ کافر قتل اور زخمی ہوئے اور میدان سے راہِ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوئے۔ مجاہدین کی عظمت کا بیان ہے کہ تم نے جو کافر قتل اور گرفتار کئے یا ان پر تیر برسائے تو درحقیقت وہ اللہ نے سب کچھ کیا۔ پھر بتایا کہ میدان جہاد سے بھاگنے والے کا ٹھکانہ جہنم ہے البتہ اگر مزید تیاری کرکے دوبارہ حملہ آور ہونے کے ارادے سے پیچھے ہٹا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اللہ اور اسکے رسول کا جب بھی کوئی حکم آئے تو اس پر عمل کرنے میں تاخیر نہ کریں اس میں تمہاری حیات کا راز مضمر ہے۔ کافر لوگ نبی کو گرفتار یا قتل کرنا چاہتے ہیں یا انہیں علاقہ بدر کرنے کے لئے کوشاں ہیں مگر ان کی سازشیں کبھی کامیاب نہیں ہوں گی اور ان کی سازشوں کا توڑ کرتے رہیںگے۔ اسلام کا راستہ روکنے کے لئے کافر اپنا مال خرچ کررہے ہیں مگر اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ یہ جتنا مال چاہیں خرچ کردیں آخر کار انہیں اپنا مال ضائع ہونے پر حسرت اور افسوس ہی ہوگا۔ دشمنان اسلام کو یہ پیغام دے دو کہ اگر وہ اسلام دشمن ہتھکنڈوں سے باز آجائیں تو انہیں معافی مل سکتی ہے ورنہ پہلی قوموں کی گرفت، نظام دنیا کے سامنے موجود ہے۔ قتال فی سبیل اللہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک دنیا سے فتنہ و فساد ختم ہوکر دین اسلام کا نظام پوری دنیا پر غالب نہ آجائے۔
 
  • Like
Reactions: Mahiya

GraetBoy1234

Active Member
May 18, 2013
281
460
113
Chowk Yadgar, Peshawar
دسویں پارے کے اہم مضامین


پارے کی ابتداءمیں بتایا گیا ہے ”مال غنیمت“ میں سے پانچواں حصہ بیت المال کے لئے نکال کر باقی چار خمس مجاہدین میں تقسیم کردیئے جائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے پہلے سے کسی تیاری کے بغیر غزوہ بدر میں کفر و اسلام کو مدمقابل لانے کی حکمت بیان فرمائی کہ اگر تم مقابلہ کا وقت مقرر کرلیتے تو اس بات کا قوی امکان تھا کہ مسلمان اپنی تعداد و اسلحہ کی قلت کے پیش نظر پس و پیش کا مظاہرہ کرتے یا کافر مرعوب ہوکر مسلمانوں کے مقابلہ سے گریز کرتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ مسلمانوں اور کافروں سے جنگ چاہتے تھے تاکہ بے سروسامانی کے باوجود انہیں کامیاب کرکے حق و باطل کا فرق واضح کردیں اور جو مسلمان ہونا چاہے علی وجہ البصیرت ہو اور جو کافر رہنا چاہے وہ بھی سوچ سمجھ کر ہو۔ اس کے بعد جہاد میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنے اور ذکر الٰہی میں مشغول رہنے کی تلقین ہے، اس بات کا بیان ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے ساتھ باہمی اختلاف و نزاع سے بھی بچنا ضروری ہے۔ ورنہ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ کافر ریاکاری اور تکبر کے ساتھ میدان میں اس لئے نکلے تھے تاکہ اہل ایمان کو اللہ کے راستہ سے روکیں اور شیطان انسانی شکل میں ان کی حوصلہ افزائی کررہا تھا مگر جب اس نے فرشتوں کی شکل میں اللہ کی مدد اترتی ہوئی دیکھی تو بھاگ اٹھا اور کہنے لگا کہ میں جس صورتحال کا مشاہدہ کررہا ہوں وہ تمہیں نظر نہیں آرہی ہے۔ اس وقت بعض منافق اور دلوں میں مرض رکھنے والے لوگ یہ کہہ رہے تھے، ان مسلمانوں کو ان کے دین نے دھوکے میں ڈال رکھا ہے اور انہوں نے اللہ کے بھروسہ پر اتنا بڑا خطرہ مول لے لیا ہے۔ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم اپنے پر توکل کرنے والوں کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں اور انہیں کامیابی عطا فرمایا کرتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس سے پہلے کافروں کے عبرتناک انجام کو بیان کیا اور بتایا کہ کافر بھی اسی صورتحال سے دوچار ہوکر رہیں گے۔ اس کے بعد قوموں کے عروج و زوال کا ناقابل تردید ضابطہ بیان فرمایا۔ اللہ کسی قوم کو اس وقت تک زوال پذیر نہیں کرتے جب تک وہ اپنی عملی زندگی میں انحطاط کا شکار نہ ہوجائیں۔ حضرت محمد علیہ السلام پر ایمان نہ لانے والے لوگ بدترین جانور ہیں۔ یہودیوں نے اس موقع پر میثاق مدینہ کی مخالفت کرتے ہوے مشرکین مکہ کی حمایت کی تھی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :عہد شکنی کرنے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنا چاہئے تاکہ دوسروں کو عبرت حاصل ہو اور خیانت کرنے والوں کے ساتھ کئے گئے معاہدوں کی پاسداری لازمی نہیں رہ جاتی ایسے معاہدے توڑ دینے چاہئیں۔ کافر یہ نہ سمجھیں کہ وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوجائیں گے وہ اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے۔ مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ دشمنان اسلام پر رعب ڈالنے کے لئے تم لوگ جس قدر ہوسکے قوت اور مضبوط گھوڑے تیار رکھو۔ اللہ کے راستہ میں تم جو بھی اخراجات کروگے اللہ تمہیں واپس کردیں گے۔ تم کافروں کے مقابلہ میں کسی قسم کی کمزوری کا مظاہرہ نہ کرنا البتہ اگر وہ تمہارے ساتھ صلح کرنا چاہیں تو پھر صلح کرلینا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ اللہ نے اپنی مدد اور ایمان والوں کی قوت سے آپ کو مضبوط کیا ہوا ہے اور ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے باہم شیر وشکر بناکر آپ کے گرد جمع کردیا ہے۔ ساری دنیا کا مال دولت خرچ کرکے بھی آپ انہیں اس طرح جمع نہیں کرسکتے تھے جس طرح اللہ نے انہیں جمع کردیا ہے۔ جہاد میں کامیابی کے لئے اللہ کی مدد اور مسلمانوں کا تعاون آپ کے لئے بہت کافی ہے۔ خود بھی جہاد کریں اور اہل ایمان کو بھی جہا دکی ترغیب دیں۔ ابتداءمیں جب مسلمانوں کی تعداد کم تھی تو، اگر مسلمانوں اور کافروں میں ایک اور دس کا تناسب ہوتو میدان سے ہٹ جانے کو فرار عن الزحف اور گناہ کبیرہ قرار دیا گیا پھر جب تعداد زیادہ ہوگئی تو ایک اور دو کا تناسب باقی رکھا گیا اور اس سے زیادہ ہونے کی صورت میں میدان چھوڑ دینے کی اجازت دے دی گئی۔
غزوہ بدر میں ستر کافر قتل ہوئے اور ستر ہی گرفتار ہوئے تو قیدیوں کا مسئلہ درپیش آگیا۔ اس سلسلہ میں دو رائے سامنے آئیں کہ مسلمانوں کا رعب پیدا کرنے کے لئے انہیں قتل کردیا جائے یا ان کے ایمان لانے کی امید پر فدیہ لے کر رہا کردیا جائے۔ دوسری رائے کو اختیار کیا گیا مگر اس میں شبہ تھا کہ یہ قیدی رہائی کے بعد پھر اسلام کے خلاف استعمال ہوسکتے ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس رائے کے مطابق فیصلہ پسند نہیں فرمایا مگر بعد کے حالات نے ثابت کردیا کہ اس سے اسلام کو کوئی نقصان نہیں پہنچا اس لئے اللہ نے فدیہ کا فیصلہ کرنے والوں کو کوئی سزا نہیں دی۔
اس کے بعد ہجرت و نصرت کا حکم بیان کیا کہ جب کسی علاقہ میں رہ کر اپنا ایمان و عمل بچانا مشکل ہوجائے تو رشتہ داروں اور وطن کی محبت میں وہاں رہنے کی اجازت نہیں بلکہ وہاں سے ہجرت کرکے اپنے ایمانی رشتہ داروں کے ساتھ جاکر مقیم ہوجانے کا حکم ہے۔ ایمانی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ہجرت نہ کرنے پر بہت سخت وعید سنائی گئی کہ اس سے دنیا میں فتنہ و فساد پھیل جائے گا۔

سورہ توبہ
مدنی سورت ہے۔ ایک سو انتیس ۹۲۱ آیتوں اور سولہ رکوع پر مشتمل ہے۔ اس میں جہاد سے پیچھے رہ جانے والے تین مخلص مسلمانوں کی توبہ قبول ہونے کا اعلان ہے۔ اس لئے اس کا نام توبہ رکھا گیا ہے اور اس سورت کا مضمون پہلی سورت سے جہاد کے حوالہ سے ملتا جلتا ہے اور اس میں کفار کے لئے مہلت ختم کرکے کھلا ہوا اعلان جنگ ہے اس لئے اس کے شروع میں بسم اللہ نہیں لائی گئی۔
یہ سورت غزوہ تبوک کے بعد واپسی پر نازل ہوئی۔ جہاد اور زکوٰة کے حوالہ سے منافقین کی خباثتوں کی نشاندہی کی گئی ہے اور ان کے مکروہ چہرے سے اسلام کا نقاب ہٹاکر انہیں معاشرے میں ظاہر کیا گیا ہے۔ صلح اور امن کے معاہدوں سے کافروں نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اور ان کے اسلام دشمن طرز عمل میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، لہٰذا ان معاہدوں کو چار مہینہ کی مہلت دے کر ختم کرنے کا اعلان کیا جارہا ہے اور حکم دیا جارہا ہے کہ جس طرح یہ کافر مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے اور انہیں نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اسی طرح مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ کافر جہاں بھی ملیں انہیں تہِ تیغ کریں۔ اللہ ان کافروں پر آسمان سے کوئی عذاب اتارنے کی بجائے میدان جہاد میں مسلمانوں کے ہاتھ سے قتل کرانا چاہتے ہیں تاکہ انہیں سزا بھی مل جائے، یہ ذلیل و رسوا بھی ہوں اور مسلمانوں کے دلوں کا غصہ بھی اتر جائے اور بعض کافر اس عبرتناک انجام سے سبق حاصل کرکے اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل کرسکیں۔ دو مسلمانوں کی آپس میں گفتگو ہوئی، ایک نے کہا حضور علیہ السلام کے ساتھ جہاد میں شرکت کے بہت سے مواقع مل چکے ہیں۔ اب تو میں کعبة اللہ میں رہ کر عبادت کرنے اور حاجیوں کو پانی پلانے کی سعادت حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ دوسرے نے کہا کہ جہاد کے برابر کوئی دوسرا عمل نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا میں تو اللہ کے نبی کے ہمراہ جہاد کی سعادت حاصل کرتا رہوں گا۔ حضور علیہ السلام نے آیت قرآنی پڑھ کر سنائی۔ کیا تم نے کعبة اللہ کی عبادت اور حاجیوں کو پانی پلانے کی خدمت کو جہاد فی سبیل اللہ کے برابر سمجھ لیا ہے؟ یہ اللہ کی نگاہ میں کبھی بھی برابر نہیں ہوسکتے۔ رشتہ داریوں، کاروباری مفادات اور اپنے گھروں کو اللہ اور اس کے رسول اور جہاد پر ترجیح دینے والے اللہ کے عذاب کے لئے تیار ہوجائیں۔ ایسے فاسقوں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتے۔ اس کے بعد غزوہ حنین اور اس میں کثرت تعداد کے باوجود مسلمانوں کے نقصان اٹھانے اور پھر اللہ کی مدد سے کامیاب ہونے کا تذکرہ ہے۔ آئندہ کے لئے کافروں کے حرم شریف میں داخلے پر پابندی کا قانون بیان کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ توحید و آخرت پر ایمان نہ لانے والے اور اسلامی نظام حیات سے پہلوتہی کرنے والے اسلامی معاشرہ کے افراد بن کر نہیں رہ سکتے۔ انہیں ذلت و رسوائی کے ساتھ جزیہ ادا کرکے اپنے رہنے کے لئے جواز پیدا کرنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کے لئے اولاد ثابت کرنے کے عقیدہ کی تردید ہے اور بتایا گیا ہے کہ کسی مذہبی رہنما کو اتنا تقدس نہیں دیا جاسکتا کہ اللہ کی بجائے اسی کو معبود بنالیا جائے اور عبادت سے مراد احکام کی پابندی ہے۔ مذہبی رہنماﺅں کے احکام اسی وقت تک قابل عمل ہیں جب تک وہ قوم کو آسمانی وحی کی روشنی میں رہنمائی فراہم کرتے رہیں۔ اس کے بعد مال و دولت اور سونے چاندی میں اللہ کے احکام کی ادائیگی نہ کرنے والوں کے لئے وعید ہے کہ سونا چاندی جہنم میں تپاکر انہیں داغا جائے گا۔ پھر مہینوں اور تاریخوں میں تبدیلی کرکے حرام کو حلال کرنے کی کافرانہ حرکت پر تنبیہ کی گئی ہے۔ پھر جہاد کے لئے نہ نکلنے پر وعید بیان کی ہے اور دردناک عذاب کا پیغام دیا گیا ہے اور اس اٹل حقیقت کا اعلان ہے کہ اسلام ہمیشہ غالب رہے گا اور کفر کو اللہ نے مغلوب کرنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ تبوک کے پرمشقت اور طویل جہادی سفر میں شریک نہ ہونے والے منافقین نے امام المجاہدین صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی مجاہدین پر مختلف اعتراض اٹھائے تھے۔ کوئی کہتا تھا کہ خوبصورت رومی عورتوں کی وجہ سے ہم بدنظری کے فتنہ میں پڑسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جہاد سے انکار بڑا فتنہ ہے، جس میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ کوئی جہاد کے لئے چندہ اور صدقات جمع کرنے پر اعتراض کرتا، کوئی حضور علیہ السلام کی گستاخی کرتے ہوئے کہتا کہ یہ سنی سنائی باتوں پر عمل کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ چندہ پر اعتراض کرنے والوں کو اگر اس میں سے ”مال“ مل جائے تو ان کا سارا اعتراض ختم ہوجائے گا اور سنی سنائی باتوں کے حوالہ سے فرمایا کہ وہ اللہ سے سنی ہوئی باتوں پر عمل کرتے ہیں اور ایمان و رحمت کے پھیلانے اور بدی کے راستہ میں رکاوٹ پیدا کرنے والے ہیں۔ ان کے لئے باغات اور نہریں ہیں، جن میں ہمیشہ رہیں گے۔ کفار و منافقین کے خلاف جہاد جاری رکھنے کا دوٹوک اعلان کیا گیا ہے۔ ایک شخص نے حضور علیہ السلام سے دعاءکرائی کہ اللہ مجھے مال و دولت دے تو میں فی سبیل اللہ خرچ کروں گا۔ جب اس کے پاس بہت مال و دولت ہوگیا تو اس نے زکوٰة دینے سے بھی انکار کردیا۔ اس کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ سے صدقہ و خیرات کا عہد و پیمان کرتے ہیں اور جب اللہ انہیں عطاءکردے تو وہ بخل کرتے ہیں اور صدقہ سے انکار کردیتے ہیں۔ منافقین کو ہمیشہ کے لئے مسترد کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ اگر ستر مرتبہ بھی ان کے لئے معافی کی درخواست کریں گے تو اللہ تعالیٰ ہرگز انہیں معاف نہیں کریں گے۔ گرمی اور راستہ کی مشقت کا بہانہ بناکر یہ لوگ جہاد میں شریک نہیں ہوئے اور رسول اللہ کی مخالفت کرکے خوش ہورہے ہیں۔ ان سے کہہ دو کہ جہنم کی گرمی بہت سخت ہے اور جہاد پر نہ جانے کی وجہ سے تمہیں جہنم میں جانا پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو منافقین کا جنازہ پڑھنے اور ان کی قبروں پر جاکر دعاءمغفرت کرنے سے منع کردیا، نبی پیغمبرانہ تقاضوں کے مطابق مسلمانوں کے لئے نرم دل ہیں اور نبی کے گستاخوں اور دل آزاری کرنے والوں کے لئے دردناک عذاب تیار ہے۔ ایمان والے کبھی جہاد سے نہیں بھاگتے۔ جہاد سے راہِ فرار تو بے ایمان اور کافر ہی اختیار کرتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ ہم بھی جہاد کے لئے نکلنے کو تیار ہیں۔ تیاری کا مطلب تو یہ ہے کہ تربیت اور اسلحہ کے ساتھ تیار ہوں (جبکہ ان لوگوں نے ایسی کوئی تیاری نہیں کی)۔ ان منافقین کو بدعملی اور دوغلی پالیسی کے پیش نظر آئندہ بھی جہاد کے سفر میں شریک نہیں کیا جائے گا۔
آپ نے انہیں جہاد سے پیچھے رہ جانے پر معافی دے دی ہم اس بات پر آپ کو معاف کررہے ہیں ورنہ آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا تاکہ مخلص ایمان والے اور منافق سامنے آجاتے۔ پھر زکوٰة و صدقات کے مستحقین کی آٹھ اقسام کو بیان کیا ہے کہ فقرائ، مساکین، زکوٰة وصول کرنے والے عامل، مولفة القلوب، غلاموں کو آزاد کرانے، قرض دار، مسافر اور جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ پھر منافقین کے متعلق بتایا کہ برائی کی نشر و اشاعت اور نیکی کے راستہ میں رکاوٹ ہیں ان کے لئے جہنم کی سزا ہے جبکہ مومنین ایک دوسرے کے دوست، نیکی پھیلانے والے ہیں جبکہ منافقین نے جہاد کے مقابلہ میں گھروں میں رہنے کو ترجیح دے کر نسوانیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگادی ہے۔ اگر کوئی شرعی معذور، غربت و مسکنت کا شکار جہاد سے پیچھے رہ گیا تو کوئی حرج نہیں ہے کچھ لوگ سواری طلب کرنے کے لئے حضور علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے، آپ کے پاس سواری کا انتظام نہ پاکر ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے کہ وہ سواری نہ ہونے کی وجہ سے جہاد کے عظیم الشان عمل سے محروم ہوجائیں گے۔ اللہ نے ان کی تعریف کی اور صاحبِ حیثیت کے سفر خرچ کی گنجائش رکھنے کے باوجود جہاد کے لئے نہ جانے پر مذمت کی گئی ہے۔
 
  • Like
Reactions: AnaZai

GraetBoy1234

Active Member
May 18, 2013
281
460
113
Chowk Yadgar, Peshawar
گیارہویں پارہ کے اہم مضامین
اس پارہ کی ابتداءمیں ان لوگوں کا تذکرہ ہے جو اپنے نفاق کی وجہ سے تبوک کے سفر جہاد میں حضور علیہ السلام کے ساتھ شریک نہیں ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ عذر بیان کریں گے اور قسمیں کھا کر اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے۔ آپ ان کی بات کا اعتبار نہ کریں۔ یہ لوگ چاہیں گے کہ آپ صرفِ نظر کرکے ان سے راضی ہوجائیں۔ آپ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں، اگر آپ ان سے راضی ہو بھی گئے تو اللہ ایسے نافرمانوں سے کبھی راضی نہیں ہوں گے۔ دیہاتیوں میں بھی دونوں قسم کے لوگ ہیں۔ کفر و نفاق میں پختہ کار اور اللہ کے نام پر خرچ کرنے کو جرمانہ سمجھنے اور مسلمانوں پر تکلیف و مشکلات کا انتظار کرنے والے اور توحید و قیامت پر ایمان کے ساتھ اللہ کے نام پر پیسہ لگا کر خوش ہونے والے۔ یہ اللہ کے قرب اور رحمت کے مستحق ہیں۔ دین میں پہل کرنے والے اور نیکی میں سبقت لے جانے والے انصارو مہاجرین اور ان کے متبعین کے لئے جنت کی دائمی نعمتوں کی خوشخبری اور عظیم کامیابی کی نوید ہے۔ اور ایسے لوگوں کی تعریف کی گئی ہے جو اپنی غلطیوں کے اعتراف کے ساتھ نیک اعمال سر انجام دینے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی توبہ اللہ تعالیٰ ضرور قبول فرماتے ہیں۔ اس کے بعد مسجد ضرار کا تذکرہ ہے۔ قبا کے مخلص مسلمانوں نے مسجد بنا کر اللہ کی عبادت اور اعمالِ خیر کی طرح ڈالی تو کافروں نے ان کے مقابلہ میں فتنہ و فساد کے لئے ایک مرکز بنا کر اسے مسجد کا نام دیا۔ انہیں خفیہ طور پر عیسائیوں کی سرپرستی حاصل تھی۔ یہ لوگ حضور علیہ السلام کو بلا کر افتتاح کرانا چاہتے تھے تاکہ مسلمانوں کی نگاہ میں مسجد مقدس بن جائے اور وہ در پردہ اس مسجد کے ذریعہ مسلمانوں میں انتشار اور فساد پھیلانے کی سازشیں کرتے رہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک سے واپسی پر اس مسجد کے افتتاح کی حامی بھری جس پر اللہ نے آپ کو منع کردیا اور اس مسجد کو گرانے کا حکم دیا۔ اللہ کے نبی نے اسے مسجد ضرار (مسلمانوں کو نقصان پہنچانے والی مسجد) قرار دے کر بعض صحابہ کو بھیجا اور اسے آگ لگا کر جلانے اور پیوند زمین کرنے کا حکم دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر اسلامی معاشرہ میں فتنہ و فساد برپا کرنے کے لئے کوئی مسجد بھی تعمیر کی جائے تو اس کا تقدس تسلیم نہیں کیا جائے گا اور یہ بھی واضح ہوا کہ یہود و نصاریٰ مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے اور فرقہ واریت کو ہوا دینے کے لئے مذہبی رنگ میں کوشاں رہتے ہیں اور ایسی کارروائیوں کی سرپرستی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مسجد قبا اور اس میں جمع ہونے والے مخلصین کی تعریف فرمائی اور ان کی ظاہری و باطنی طہارت کے جذبہ کو سراہا۔
مسلمانوں کی مجاہدانہ کارروائیوں کو اللہ کے ساتھ تجارت قرار دے کر بتایا کہ جنت کی قیمت میں اللہ نے اہل ایمان کی جانیں خریدلی ہیں۔ یہ لوگ کافروںکو قتل کرتے ہیں اور خود بھی مرتبہ شہادت پر فائز ہوتے ہیں۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ ان کی مزید خوبیاں یہ ہیں کہ یہ توبہ کرنے والے، عبادت گزار، اللہ کی تعریف کرنے والے، روزہ رکھنے والے، رکوع سجدہ کرنے والے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والے اور اللہ کی حدود کے محافظ ہیں۔ ایسے مسلمان بشارت کے مستحق ہیں، مسلمانوں کو منع کیا کہ مشرکین کے لئے استغفار نہ کریں۔ غزوہ تبوک میں شرکت سے تین مخلص مسلمان بھی بغیر کسی عذر کے پیچھے رہ گئے تھے۔ پچاس دن تک ان کا مقاطعہ کیا گیا، ان سے بات چیت اور لین دین بند رکھا گیا پھر ان کی توبہ قبول فرما کر ان کے تذکرہ کو قرآن کریم کا حصہ بنادیا گیا۔ اس سے جہاد فی سبیل اللہ کی عظمت اور پیچھے رہ جانے والے مخلصین کی سچی توبہ کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ سچائی کو ہر حال میں اپنانے کی تلقین ہے اورکسی بھی حال میں نبی کا ساتھ نہ چھوڑنے کی تاکید ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ کے دوران بھوک پیاس اور تھکن برداشت کرنے اور مال خرچ کرنے کی فضیلت کا بیان ہے۔ عام حالات میں جہاد کے فرض کفایہ ہونے کا بیان ہے۔کافروں کے ساتھ مقابلہ میں کسی قسم کی سستی اور نرمی اختیار کرنے کی ممانعت ہے۔ قرآن کریم کی تائید کا بیان ہے کہ اہل ایمان کے ایمان میں اضافہ اور ترقی کا باعث ہے جبکہ منافقین کے نفاق اور بغض میں اضافہ کرتا ہے۔ سورت کے آخر میں حضور علیہ السلام کی عظمت و فضیلت کا بیان ہے کہ وہ عظیم الشان رسول مسلمانوں کی تکلیف سے رنجیدہ ہوتے ہیں اور انہیں فائدہ پہنچانے کے خواہاں رہتے ہیں۔ اللہ کی وحدانیت کے اعلان کے ساتھ ہی عرش عظیم کے رب پر توکل کی تعلیم پر سورت کا اختتام ہوتا ہے۔
سورئہ یونس
مکی سورت ہے۔ ایک سو نو آیتوں اور گیارہ رکوع پر مشتمل ہے۔ حروف مقطعات سے آغاز ہے اور قرآن کریم کے حکیمانہ کلام ہونے کا بیان ہے اور منکرین قرآن کی ذہنیت کی نشاندہی کی ہے کہ وہ محض اس لئے اسے تسلیم نہیں کرتے کہ یہ ایک انسان پر کیوں نازل ہوا۔ پھر توحید باری تعالیٰ اور آسمان و زمین میں اس کی قدرت کے مظاہر کا بیان ہے۔ اس کے بعد قیامت کا تذکرہ اور اس بات کی وضاحت کہ دنیا کا سارا نظام ایمان اور اعمال صالحہ والوں کو جزا دینے اور کافروں کو کھولتے ہوئے پانی اور دردناک عذاب کی سزا دینے کے لئے وضع کیا گیا ہے۔ چاند اور سورج رات اور دن کی روشنی اور ماہ و سال کے حساب کے لئے بنائے گئے ہیں۔ دن رات کے آنے جانے میں اللہ کی قدرت کی نشانیاں موجود ہیں۔ جس طرح لوگ خیر کے لئے جلدی مچاتے ہیں ایسے ہی اگر شر کو بھی اللہ تعالیٰ جلدی نازل کردیتے تو دنیا کا سارا نظام ختم ہوجاتا، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ کافروں پر عذاب اتارنے میںجلدی نہیںکرتے۔ انسان کا مزاج ہے کہ جب تکلیف میں مبتلا ہو تو اٹھتے بیٹھتے اللہ کو یاد کرتا رہتا ہے اور جیسے ہی تکلیف ہٹا دی جائے ویسے ہی اللہ کو بھلا دیتا ہے جیسے کسی مشکل میں کبھی پکارا ہی نہ تھا۔ پہلی قوموں کے گناہوں پر ان کی گرفت کی گئی پھر اللہ نے تمہیں ان کی جگہ دی تاکہ تمہارے اعمال کو دیکھ کر ان کے مطابق تمہارے مستقبل کا فیصلہ کریں۔
منکرین آخرت کوجب ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو یہ اس میں تبدیلی اور ترمیم و تنسیخ کا مطالبہ کرتے ہیں، آپ کہہ دیں کہ یہ تبدیلی میرے اختیار میں نہیں ہے۔ میں وحی کا پابند ہوں۔ تم دیکھ چکے ہو کہ چالیس سال کا طویل عرصہ میں نے تمہیں قرآن نہیں سنایا کیونکہ اللہ کا حکم نہیں آیا تھا۔ اب سنانے کا حکم آگیا ہے اس لئے سنا رہا ہوں میں اپنی طرف اگر کسی قسم کی ترمیم و تنسیخ کرنے لگا تو مجھے بڑے دن کے عذاب کا خطرہ ہے، تمہارے معبودان باطل تمہیں کوئی نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتے، نہ ہی اللہ کے سامنے کسی قسم کی سفارش کرسکتے ہیں۔ کفر کے اندھیرے میں تمام لوگ متحد نظر آتے ہیں جیسے ہی ایمان کی روشنی آتی ہے تو اختلاف کرنے لگ جاتے ہیں۔ جب ہم تکلیف کے بعد انہیں راحت دیتے ہیں تو یہ اپنی فطری کجروی کے باعث شر ارتوں پر اتر آتے ہیں، آپ انہیں بتادیجئے کہ ہمارے فرشتے سب کچھ لکھ رہے ہیں اور اللہ بہت جلدی تمہاری بدعملی پر سزا دے سکتے ہیں۔ بحر و بر میں اللہ کے حکم پر تمام نقل و حرکت ہوتی ہے۔ باد بانی کشتیاں ہوا کے زور پر تمہیں منزل مقصود تک لے جائیں تو تم خوش ہوتے ہو اور شرک میںمبتلارہتے ہو اور طغیانی میں پھنس کر بادِ مخالف کی زد پر آجائیں تو مایوس ہوکر اللہ سے مدد طلب کرنے لگتے ہو۔ جیسے ہی اللہ نجات دیتے ہیں تم پھر شرک میں مبتلا ہوجاتے ہو۔ دنیا کی فانی اور عارضی زندگی کی مثال ایسی ہے جیسے بارش برسے اور کھیتیاں لہلہانے لگیں او رکسان خوش ہونے لگیں اسی اثنا میں کوئی آفت آکر اسے اس طرح تباہ کرکے رکھ دے کہ جیسے کچھ تھا ہی نہیں۔ غور و فکر کرنے والوں کے لئے ہم ایسی ہی آیات کو واضح کرتے ہیں۔ اللہ جنت کی طرف بلاتے ہیں۔ نیک و صالح لوگوں کے لئے بہترین بدلہ، ان کے چہروں پر ذلت و رسوائی یا کدورت نہیں چھائے گی اور گناہ گاروں کو ان کے گناہ کا بدلہ ملے گا۔ ان کے چہروں پر ذلت اور سیاہی چھا رہی ہوگی۔ ہم قیامت میں ان سب کو جمع کرکے پوچھیں گے تو یہ اپنے معبودان باطل کا انکارکریں گے اور ان کے معبود انکار کرتے ہوئے کہیں گے کہ یہ ہماری عبادت نہیں کرتے تھے۔ وہاں ان لوگوں کو اپنے اعمال کے غلط ہونے کا پتہ چل جائے گا۔ پھر اللہ کی قدرت کے دلائل اور ہدایت و ضلالت کے اللہ کی مشیت کے تابع ہونے کا بیان ہے۔ قرآن کریم کی حفاظت کا تذکرہ ہے کہ ایسا کلام کوئی شخص اپنے طور پر گھڑ نہیں سکتا۔ اگر تم میں ہمت ہے تو ایسی ایک سورت ہی بناکر دکھادو۔ اگر یہ لوگ جھٹلاتے ہیں تو ان پر جبر نہیں کیا جائے گا۔ آپ انہیں کہہ دیجئے کہ تمہارے اعمال کا بدلہ تمہیں ملے گا اور میرے اعمال کا بدلہ مجھے ملے گا۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتے۔ ہر قوم کے پاس اللہ کا پیغام پہنچانے والا بھیجا گیا ہے۔ اگر اللہ کا عذاب اچانک آجائے تو پھر جلدی مچانے والے کیا کریں گے۔ ظالموں سے کہا جائے گا کہ اب دائمی عذاب کا مزہ چکھ لو۔ یہ لوگ سوال کرتے ہیں کہ کیا یہ سب باتیں سچی ہیں؟ آپ کہئے میرے رب کی قسم یہ تمام برحق اور سچ ہے۔ تم اس عذاب کی ہولناکی سے بچنے کے لئے تمام دنیا کے خزانے فدیہ میں دینے کی تمنا کرو گے۔ عذاب دیکھ کر تم پر ندامت چھا جائے گی مگر اس وقت انصاف کیا جائے گا کسی پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔
اے انسانو! تمہارے رب کی طرف سے وعظ و نصیحت کا پیغام آگیا۔ اس میں شفا اور ہدایت و رحمت ہے۔ اللہ کے فضل و رحمت پر ایمان والوں کو خوشیاں منانی چاہئیں۔ یہ اس سے بہت بہتر ہے جسے یہ لوگ جمع کررہے ہیں تم کسی حالت میں ہو کوئی بھی عمل کرو اللہ اس پر گواہ ہیں کوئی چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی آسمان و زمین کے اندر اللہ سے پوشیدہ نہیں رہ سکتا۔ اللہ کے دوستوں پر کوئی اندیشہ و غم نہیں ہوگا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان اور تقویٰ والے ہیں دنیا و آخرت میں ان کے لئے بشارت ہے۔ اللہ کی بات بدلی نہیں جاسکتی یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ اس کے بعد اللہ کی قدرت کا بیان اور اولاد کے باطل عقیدہ کی تردید ہے۔ پھر نوح علیہ السلام کے واقعہ کا اختصار کے ساتھ تذکرہ کہ انہوںنے اپنی قوم کے متکبر سرداروںکے مقابلہ میں اللہ پر توکل کیا اور اللہ کا پیغام سنانے کے عوض کوئی تنخواہ طلب نہیں کی، اللہ نے انہیں اپنے پیروکاروں کے ساتھ کشتی میں بچالیا اور مخالفین کو طوفان میں غرق کرکے عبرتناک انجام سے دوچار کردیا۔پھر موسیٰ و ہارون کو فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس بھیجنے کا تذکرہ۔ انہوںنے متکبرانہ انداز میں جھٹلایا۔ موسیٰ علیہ السلام نے معجزات دکھائے۔ انہوںنے اسے جادو قرار دے کر مقابلے کے لئے اس دور کے بڑے جادوگر بلالئے۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ تمہارا جادو میرے معجزہ کے مقابلے میں ناکام ہوکر رہے گا۔ موسیٰ علیہ السلام نے بددعا کی جس پر اللہ نے فرعون اور اس کے لشکر کو غرق کرنے کا فیصلہ کردیا۔ فرعون نے غرق ہوتے وقت کلمہ پڑھا۔ اللہ نے اسے رد کردیا کہ زندگی بھر گناہ اور فساد مچا کر اب مرتے وقت ایمان لاتے ہو۔ حالت نزع کا ایمان قبول نہیں۔ البتہ انسایت کی عبرت کے لئے فرعون کے جسد خاکی کو باقی رکھ کر دنیا کو بتایا گیا کہ اتنا بڑا مقتدر اور متکبر بادشاہ کس طرح بے بس اور ذلت کی موت کا شکار ہوا۔ پھر یونس علیہ السلام اور انکی قوم کا تذکرہ کہ ان کی نافرمانیوں پر عذاب آگیا اور آیا ہوا عذاب کبھی نہیں ٹلتا مگر ان کی الحاح و زاری پر اللہ نے عذاب ٹال دیا۔ کسی کو زبردستی اللہ ہدایت نہیں دیتے انسان کی چاہت اور اپنے اندر تبدیلی کا فیصلہ ضروری ہے۔ کفرو شرک سے برات کا اظہار اور دین حنیف پر غیر متزلزل اعتماد کا اعلان کرنے کی تلقین ہے اور بتایا گیا کہ نفع نقصان اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ہدایت کا پیغام انسانیت کے لئے آچکا ہے جو اسے اختیار کرے گا اپنا نفع کرے گا اور جو اس سے منکر ہوگا اپنا نقصان کرے گا۔وحی کی اتباع اور ثابت قدمی کی تلقین پر سورت کا اختتام کیا گیا ہے۔
سورئہ ھود
مکی سورت ہے، اس میں ایک سو تئیس آیتیں اور دس رکوع ہیں۔ اس سورت میں رسالت کا موضوع مرکزی موضوع کی حیثیت رکھتا ہے۔ دوسرے انبیاءکے علاوہ قوم عاد، ان میں مبعوث کئے گئے نبی حضرت ہود علیہ السلام کا تذکرہ ہے اس لئے سورت کا نام ”ہود“ رکھا گیا۔ ابتداءمیں قرآن کریم کی حقانیت کا بیان ہے کہ یہ مفصل اور پر حکمت کتاب ہے پھر توحید باری تعالیٰ کا بیان اور توبہ و استغفار کی تلقین کے ساتھ آخرت کے یوم احتساب کا تذکرہ اور محاسبہ کے عمل کی یاددہانی ہے اور اللہ کے علم کی وسعت و شمول کا بیان کہ وہ خفیہ و علانیہ ہر چیز کو جانتا ہے اور سینوں کے تمام بھید اس کے علم میں ہیں۔
 
  • Like
Reactions: AnaZai

GraetBoy1234

Active Member
May 18, 2013
281
460
113
Chowk Yadgar, Peshawar
با ر ہو یں پا ر ے کے اہم مضامین
ابتداءمیں تمام مخلوقات کی معیشت کا مسئلہ حل کرتے ہوئے اعلان کیا زمین پر چلنے والے تمام جانوروں کی روزی اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی عارضی اورمستقل قیام گاہ کو جانتا ہے۔ چھ دن میں آسمان و زمین پیدا کرکے انسان کو دنیا میں بھیجا تاکہ بہتر سے بہتر عمل کرنے والے کو منتخب کیا جاسکے۔ اللہ کے یہاں مقدار کی کثرت کی بجائے ”معیار کا حسن“ مطلوب ہے۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد دوبارہ انسان زندہ کئے جائیں گے تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ مردوں کو زندہ کرنا تو جادو کے عمل سے ہی ممکن ہوسکتا ہے اور ہم اگر ان کی نافرمانیوں پر مصلحت کے پیش نظر عذاب نہیں اتارتے تو یہ کہتے ہیں کہ آپ کے عذاب موعود کو کس نے روک لیا ہے وہ آتا کیوں نہیں ہے؟ آپ ان سے کہئے کہ عذاب کی جلدی نہ مچائیں جس دن ہم نے عذاب اتار دیا تو تم اسے روکنے کی طاقت نہیں رکھو گے۔ یہ انسانی نفسیات ہے کہ اسے خوشحالی کے بعد اگر کچھ تنگی آجائے تو مایوس ہوجاتا ہے اور اگر تکلیف کے بعد راحت مل جائے تو اپنے گناہوں کو بھول کر اترانے اور تکبر کرنے لگتا ہے۔ اچھے انسان وہ ہیں جو دین پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعمال صالحہ پر کاربند رہیں۔ ان کافروں کے بیجا مطالبات سے آپ پریشان نہ ہوں اور محض اس لئے وحی الٰہی سے دستبردار نہ ہوں کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس نبی پر خزانے کیوں نہیں نازل ہوتے یا اس کی حفاظت کے لئے فرشتے اس کے ساتھ کیوں نہیں رہتے؟ ایسے مطالبات کا شریعت کی پابندی کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ یہ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن اللہ کا کلام نہیں ہے بلکہ محمد علیہ السلام نے یہ کلام خود بنایا ہے، اگر یہ اپنے دعویٰ میں سچے ہیں تو یہ بھی چند سورتیں بناکر دکھادیں۔ قرآن کریم جیسی سورتیں بنانے سے ان کا عاجز آجانا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ قرآن اللہ کا نازل کردہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ انسانوں کا ایسا کلام بنانے سے عاجز آجانا اس کی حقانیت کا داخلی ثبوت ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے مثال دے کر بتایا کہ قرآن کریم کو تسلیم کرنے والا اپنی بصارت کے تقاضے پورے کررہا ہے، اس لئے وہ بینا ہے اور نہ تسلیم کرنے والا اپنی بصارت کے تقاضے پورے نہیں کرتا اس لئے وہ نابینا ہے اور قرآن پر ایمان لانے والا اپنی سماعت کے تقاضے پورے کرتا ہے اس لئے وہ سننے والا ہے اور ایمان نہ لانے والا اپنی سماعت کے تقاضے پورے نہیں کرتا اس لئے وہ بہرا ہے اور یہ لوگ آپس میں کبھی برابر نہیں ہوسکتے۔ اس کے بعد حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی قوم کا سبق آموز واقعہ بیان ہوا ہے۔ نوح علیہ السلام نے قوم کو توحید و رسالت کی بات سمجھائی اور نہ ماننے کی صورت میں انہیں درد ناک عذاب کی وعید سنائی۔ قوم میں اونچی سوسائٹی کے لوگ، سردار اور ارباب اقتدار کہنے لگے کہ آپ ہمارے جیسے عام انسان ہیں اور آپ کا ساتھ دینے والے معاشرہ کے نچلے طبقے کے لوگ ہیں، دنیا کے اعتبار سے آپ کے اندر وہ کون سی خوبی ہے جس کی بنیاد پر ہم آپ پر ایمان لائیں۔ ہمیں تو آپ جھوٹے معلوم ہوتے ہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام نے جواب دیا کہ ہدایت کے لئے مفادات اور مال و دولت کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ دلائل اور رحمت خداوندی درکار ہوتی ہے اور یہ نعمت ہمیں حاصل ہے۔ پھر داعی الی اللہ کے لئے کچھ ضوابط بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ میں دین کے نام پر مالی مفادات کا طلبگار نہیں ہوں اور دین میں سب غریب و امیر برابر ہیں، لہٰذا میں غریبوں کو محض غربت کی بنیاد پر اپنے آپ سے جدا نہیںکرسکتا۔ میں نہ تو مال و دولت کے خزانوں کا دعوے دار ہوں نہ ہی غیب دانی کا دعویٰ کرتا ہوں نہ ہی فرشتہ ہونے کا مدعی ہوں اور غریب مسلمان جنہیں تم حقیر سمجھتے ہو صرف تمہیں خوش کرنے کے لئے میں یہ بھی نہیں کہتا کہ انہیں اللہ تعالیٰ کوئی اجرو ثواب نہیں دیں گے، اللہ کا معاملہ تو نیت اور عمل کے ساتھ ہوتا ہے اور وہ سردار جو اقتدار اور مال کے نشہ میں بدمست ہورہے تھے اور اپنی طاقت اور پیسہ کے زور پر انہوںنے پورا معاشرہ یرغمال بنایا ہوا تھا، ہٹ دھرمی اور عناد کا مظاہرہ کرتے ہوئے عذاب کا مطالبہ کرنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کو بتادیا کہ چند مخلص ایمان والوں کے علاوہ باقی قوم ضلالت و گمراہی کے لاعلاج مرض میں مبتلا ہوچکی ہے لہٰذا ان پر عذاب آکر رہے گا آپ کشتی بنانا شروع کردیں اور ان لوگوں کی کسی قسم کی سفارش نہ کریں۔ نوح علیہ السلام کشتی بناتے رہے اور قوم کے گمراہ لوگ ان کا مذاق اڑاتے رہے۔ اللہ تعالیٰ چونکہ نافرمانوں کو غرق کرنے کا فیصلہ فرماچکے تھے لہٰذا حکم دیا کہ ہر جانور کا ایک جوڑا اور تمام اہل ایمان کو کشتی میں سوار کرلو۔ آسمان سے پانی برسنے لگا اور زمین سے پانی ابلنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے سفینہ¿ نوح سیلاب کے پانی میں پہاڑ کی مانند تیرتی ہوئی نظر آنے لگی۔ کشتی کے سواروں کے علاوہ باقی سب غرق ہوگئے، نوح علیہ السلام کا نافرمان بیٹا بھی نہ بچ سکا۔ ایمان سے محرومی کی وجہ سے باپ کی نبوت بھی اس کے کسی کام نہ آسکی۔ اللہ تعالیٰ نے واضح کردیا کہ اسلامی معاشرہ کے اجزائے ترکیبی قوم، وطن یا نسبی رشتہ داری نہیں بلکہ ایمان اور اعمال صالحہ ہیں، ایک نبی امی کا اس تاریخی واقعہ کو بیان کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ نبی برحق ہیں لہٰذا ایمان والوں کو صبر و استقامت کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ بہتر انجام متقیوں کے لئے ہے۔ اس کے بعد حضرت ہود علیہ السلام کا واقعہ ہے جنہوں نے اپنے دور کی ”سپر پاور“ قومِ عاد سے ٹکرلی تھی۔ یہ قوم ڈیل ڈول اور جسمانی طاقت میں بہت زیادہ تھی، ان کا دعویٰ تھا کہ دنیا میں ہم سے طاقت ور کوئی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا انہیں سوچنا چاہئے کہ جس اللہ نے انہیں بنایا ہے وہ یقینا ان سے زیادہ طاقتور ہے۔ ہود علیہ السلام نے قوم کو توحید کا پیغام سنایا اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کرکے معافی مانگنے کی ترغیب دی اور بتایا کہ تم اگر توبہ و استغفار کرلوگے تو اللہ تمہیں معاشی اعتبار سے خود کفیل کردے گا اور بارش برسا کر تمہاری کھیتیوں کو سیراب کردے گا اور تمہاری طاقت و قوت میں مزید اضافہ کردے گا، قوم نے ایمان لانے کی بجائے مذاق اڑانا شروع کردیا، کہنے لگے، ہم تمہاری باتوں کو مان کر اپنے بتوں کو نہیں چھوڑ سکتے۔ ہمارے بتوں نے تم پر اثر انداز ہوکر تمہارا دماغ خراب کردیا ہے تبھی تم اس قسم کی بہکی بہکی باتیں کرتے ہو۔ حضرت ہود علیہ السلام نے ان کی باتوں پر مشتعل ہونے کی بجائے انہیں بتادیا کہ وہ بھی اللہ پر ایمان سے دستبردار نہیں ہوں گے اور اللہ کی طاقت و قوت کا اعتراف کرتے ہوئے ان پر بھروسہ اور توکل میں اضافہ کردیں گے اور پھر قوم کو اللہ کے حکم سے یہ وعید بھی سنادی کہ اگر تم باز نہ آئے تو میرا رب تمہیں ہلاک کرکے تمہاری جگہ کسی دوسری قوم کو اس سرزمین کا مالک بنا دے گا اور تم اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکو گے۔ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ ہماری رحمت کا مظہر تھا کہ ہم نے حضرت ہود اور ان پر ایمان لانے والوں کو عذاب سے بچالیا۔ قوم کی ہٹ دھرمی اور آیات خداوندی کا انکار اور اللہ کے فرستادہ رسول کی نافرمانی نے انہیں تباہ و ہلاک کرکے رکھ دیا۔ یہ ضدی اور عناد پرست قومِ عاد تھی جن پر عذاب آیا اور دنیا و آخرت میں لعنت کے مستحق قرار پائے۔ یہ سب قومِ عاد کے کفر کا نتیجہ تھا۔ حضرت ہود کی قوم ”عاد“ اللہ کی رحمت سے دور قرار دے دی گئی۔ اس کے بعد قوم ثمود کا تذکرہ ہے کہ صالح علیہ السلام نے انہیں پیغامِ توحید دیا اور انہیں غیر اللہ کی عبادت سے باز رہنے کی تلقین فرمائی۔ انہیں بتایا کہ تمہیں اللہ نے ہی پیدا کیا اور زمین میں آباد کیا اس اللہ کے سامنے توبہ و استغفار کرلو مگر وہ لوگ باز نہ آئے۔ بلکہ کہنے لگے کہ صالح! ہمیں تو آپ سے بڑی توقعات تھیں مگر آپ نے تو ہمارے آباءو اجداد کی ہی مخالفت شروع کردی اور ہمیں تو آپ کی نبوت میں شک ہے۔ ہم آپ کی نبوت کا اقرار صرف اس صورت میں کریں گے جب آپ سامنے والی پہاڑی سے اونٹنی نکالیں جو فوراً ہی بچہ دےدے۔ حضرت صالح نے فرمایا: میری قوم میں تو دلائل کی بنیاد پر توحید کی دعوت دے رہا ہوں اور تم بیجا مطالبات کررہے ہو میں تمہارے کہنے سے اللہ کی رحمت کو نہیں چھوڑوں گا ورنہ میری مدد کون کرے گا۔ تمہارے مطالبہ کے مطابق یہ رہی اونٹنی۔ اب تم اسے اللہ کی نشانی سمجھ کر حق کو تسلیم کرلو اور اس اونٹنی کو نقصان نہ پہنچاﺅ ورنہ تم پر عذاب خداوندی بہت جلد آجائے گا۔ ان لوگوں نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ کر اسے مارڈالا جس پر انہیںتین دن کی مہلت دے کر ذلت آمیز عذاب کا نشانہ بنادیا گیا۔ جبریل علیہ السلام نے زور دار چیخ ماری جس کی دہشت سے ان کے کلیجے پھٹ گئے اور وہ اوندھے منہ گر کر ایسے ختم ہوئے کہ ان کا نام و نشان بھی باقی نہ بچا۔ جب ہمارا عذاب آیا تو ہم نے حضرت صالح اور ان کے ساتھیوں کو اپنی رحمت کے ساتھ اس دن کی رسوائی سے بچالیا۔
اس کے بعد ابراہیم اور لوط علیہما لسلام کا تذکرہ ہے کہ ہمارے فرشتے قاصد بن کر انسانی شکل میں ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئے۔ ابراہیم علیہ السلام نے ان کی مہمانی کے طور پر بچھڑا ذبح کرکے بھونا اور انہیں کھانے کی دعوت دی۔ مگر انہوںنے کھانے میں کسی رغبت کا مظاہرہ نہیں کیا تو ابراہیم علیہ السلام سمجھے کہ یہ لوگ کہیں دشمنی کی وجہ سے کھانے سے گریز نہ کررہے ہوں، لہٰذا ان سے خوف زدہ ہوگئے تو انہوںنے بتادیا کہ ہمارے نہ کھانے کی وجہ دشمنی نہیں ہے بلکہ ہم فرشتے ہیں اس لئے نہیں کھارہے۔ ہم تو قوم لوط کے لئے عذاب کے احکام لے کر آئے ہیں۔ہم راستہ میں آپ کو اولاد کی خوشخبری دینے آئے ہیں۔ اللہ تمہیں اسحاق نامی بیٹا اور یعقوب نامی پوتا عطا فرمائیں گے۔ ان کی بیوی قریب ہی کھڑی ہوئی یہ گفتگو سن رہی تھیں۔ عورتوں کے انداز گفتگو میں اپنے چہرہ پر دوہتڑ مارتی ہوئی کہنے لگیں کہ میں بانجھ او رمیرا شوہر بڑھاپے کی آخری عمر میں ہے۔ ہمارے ہاں کیسے اولاد ہوسکتی ہے۔ فرشتوں نے کہا اس میں تعجب اور حیرانی کی کون سی بات ہے۔ اللہ تمہارے گھرانے پر اپنی رحمتیں اور برکتیں اتارنا چاہتے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام بڑے ہی نرم دل تھے اس خوشخبری کو سن کر لوط علیہ السلام کی قوم کی سفارش کرنے لگے۔ فرشتوں نے کہا کہ ان کی ہلاکت کا اٹل فیصلہ ہوچکا ہے، آپ اس میں مداخلت نہ کریں۔ جب فرشتے لوط علیہ السلام کے پاس خوبصورت لڑکوں کے روپ میں پہنچے تو وہ لوگ ”اِغلام بازی“ کے شوق میں جمع ہوکر لوط علیہ السلام سے نووارد مہمانوں کو اپنے حوالہ کرنے کا مطالبہ کرنے لگے، حضرت لوط نے انہیں بہت سمجھایا کہ مجھے مہمانوں کے سامنے رسوا نہ کرو مگر وہ اپنے بیجا مطالبہ پر بضد رہے تو مہمانوںنے کہا: اے لوط! آپ پریشان نہ ہوں۔ ہم انسان نہیں فرشتے ہیں اور عذاب کا حکمنامہ لے کر آئے ہیں، اس لئے یہ لوگ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔انہیں صرف ایک رات کی مہلت ہے، آپ فوراً یہاں سے نکلنے کا بندوبست کرکے چلے جائیں۔ آپ کی بیوی چونکہ اس مجرم قوم کے ساتھ شریک ہے لہٰذا وہ بھی نہیں بچ سکے گی۔ جب ہمارا عذاب آیا تو انہیں الٹ پلٹ کر رکھ دیا گیا اور ان پر نشان زدہ پتھروں کی بارش کرکے انہیں تباہ کردیا گیا۔ پھر قوم مدین کی حضرت شعیب علیہ السلام کے ساتھ کٹ حجتی کا تذکرہ کرکے ان کی ہلاکت کا تذکرہ ہے۔ اس کے بعد موسیٰ و فرعون کے واقعہ کا اختصار کے ساتھ تذکرہ، پھر جنت و جہنم کا ذکر اور آخر میں دعوت الی اللہ کا کام کرنے والوں کے لئے کچھ سنہری اصول (۱)استقامت کا مظاہرہ۔ (۲)حدود کی پابندی۔ (۳)ظالموں کی حمایت سے دست کشی۔ (۴)صبح و شام عبادت میں مشغولی۔ (۵)صبر کا دامن نہ چھوڑنے کی تلقین۔ اگر قوم میں اصلاح کی جدوجہد کرنے والے افراد پیدا ہوجائیں تو وہ ہلاکت سے بچ سکتی ہے۔
سورئہ یوسف
مکی سورت ہے جو ایک سو گیارہ آیات اور بارہ رکوع پر مشتمل ہے۔ یہ منفرد سورت ہے جس میں صرف ایک ہی واقعہ بیان ہوا ہے۔ یوسف علیہ السلام کے واقعہ کو قرآن کریم نے ”احسن القصص“ بہترین واقعہ قرار دیا ہے۔ اس میں انسانی زندگی کے ہر پہلو کو اجاگر کیا گیا ہے اور اپنوں کے مظالم اور ان کے مقابلہ میں اللہ کی مدد کا منظر دکھا کر حضور علیہ السلام کو اپنی قوم کے مظالم کے مقابلہ میں نصرت خداوندی حاصل ہونے کی بشارت ہے۔ سورت کے شروع میں قرآن کریم کی حقانیت کا بیان ہے۔ پھر یوسف علیہ السلام کے خواب کا ذکر ہے کہ انہوںنے گیارہ ستارے اور چاند اور سورج کو اپنے سامنے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا جس کی تعبیر واضح تھی کہ ان کے گیارہ بھائی اور والدین ان کے سامنے جھکیں گے اور ان سب کے درمیان یوسف علیہ السلام کو امتیازی مقام حاصل ہوگا۔ اس خواب کے بعد بھائیوں نے حسد کرنا شروع کردیا اور یوسف علیہ السلام کے قتل کا پروگرام بناکر اپنے والد کو راضی کرکے جنگل میں لے گئے۔ انہیں کنویں میں پھینک کر کپڑوں کو کسی جانور کے خون سے آلودہ کرکے والد کو بتادیا کہ ہم جنگل میں کھیلتے رہے اور بھائی کو بھیڑیا کھاگیا۔ یعقوب علیہ السلام ان کی سازش کو سمجھ گئے اور یوسف علیہ السلام کے فراق میں پریشان رہنے لگے اور دن رات روتے رہے۔ ایک تجارتی قافلہ نے کنویں سے یوسف علیہ السلام کو نکال کر مصر کے بازار میں فروخت کردیا۔ یوسف علیہ السلام کی خوبصورتی کے چرچے پھیل گئے، بادشاہ نے انہیں خرید کر اپنا منہ بولا بیٹا قرار دے دیا اور اس طرح یوسف کنویں سے نکل کر شاہی محل میں رہنے لگے۔ شاہ مصر کی بیوی حسنِ یوسف پر ریجھ گئی اور انہیں ”دعوت گناہ“ دینے لگی، یوسف نے اپنی عفت و عصمت کی حفاظت کی۔ شوہر کو معلوم ہونے پر اس عورت نے بدکاری کا الزام لگادیا۔ اللہ نے اسی کے خاندان کے بچے سے حضرت یوسف کی بے گناہی کی شہادت دلوا کر انہیں باعزت بری کروادیا۔ جب مصر کی عورتوں نے بادشاہ کی بیوی پر ملامت کی تو اس نے حسن یوسف کا مظاہرہ کرنے کے لئے عورتوں کی دعوت کرکے یوسف علیہ السلام کو سامنے بلوایا۔ تمام عورتیں حسن یوسف کو دیکھ کر مبہوت ہوکر رہ گئیں اور پھلوں کو کاٹتے ہوئے اپنے ہاتھ بھی کاٹ بیٹھیں اور ان کے حسن کی تعریف کرکے انہیں دعوت گناہ دینے لگیں۔ یوسف علیہ السلام نے گناہ پر قید کو ترجیح دی اور بادشاہِ وقت نے اپنی عزت بچانے کی خاطر انہیں قید کردیا۔ یوسف علیہ السلام جیل میں بھی تبلیغ و تعلیم کے فریضہ سے غافل نہ رہے۔ دو قیدیوں نے خواب دیکھا یوسف علیہ السلام نے تعبیر دی جو حرف بہ حرف صحیح نکلی۔ ایک قیدی قتل ہوا دوسرا رہا ہوکر بادشاہ کا خادم بنا بادشاہ نے خواب دیکھا، اس خادم نے یوسف علیہ السلام سے تعبیر پوچھی انہوںنے بتایا کہ سات موٹی تگڑی گائیوں کو دبلی پتلی گائیوں کا کھانا اور سات خشک بالیوں کا تروتازہ بالیوں کو، مستقبل میں سات سالہ قحط کا اشارہ ہے۔ قحط کا مقابلہ کرنے کا طریقہ بھی بیان کردیا۔ بادشاہ نے تعبیر سے متاثر ہوکر رہائی کا فیصلہ کیا مگر یوسف علیہ السلام نبوت کے دامن کو داغدار ہونے سے بچانے کے لئے تحقیقات کا مطالبہ کیا جس پر انہیں بے گناہ قرار دے کر رہائی ملی اور شاہ مصر نے اپنی کابینہ میں شامل کرنے کا اعلان کردیا۔
 
  • Like
Reactions: AnaZai

GraetBoy1234

Active Member
May 18, 2013
281
460
113
Chowk Yadgar, Peshawar
تیرہویں پارہ کے اہم مضامین

حکومت وقت کی مدعیت میں درج ہونے والے مقدمہ سے برا ت ایک بہت بڑا اعزاز تھا جو خود پنداری اور عجب میں مبتلاءکرسکتا تھا اس لئے حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ گناہ سے بچنے میں میرا کوئی ذاتی کمال نہیں بلکہ اللہ کا فضل و کرم شامل حال تھا۔ آپ کو وزارت خزانہ کی ذمہ داری سونپ دی گئی اور یہ بھی اللہ کی قدرت کا مظہر تھا کہ جیل کی پستیوں سے اقتدار کی بلندیاں نصیب فرمادیں۔ کنعان سے آنے والے تاجروں میں برادران یوسف بھی شامل تھے۔ انہیں علم نہیں تھا کہ ان کا بھائی وزارت خزانہ کے منصب پر فائز ہے مگر یوسف علیہ السلام اپنے بھائیوں کو پہچان چکے تھے۔ بادشاہ کے خواب کے مطابق حضرت یوسف نے اناج کا مناسب ذخیرہ کیا ہواتھا۔ قحط سالی شروع ہوچکی تھی اور یہ لوگ کنعان سے اناج خریدنے کے لئے آئے تھے، حضرت یوسف نے پہچاننے کے باوجود ان سے ان کے حالات معلوم کئے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم بارہ بھائی ہیں ایک جنگل میں ہلاک ہوگیا تھا۔ والد اس کے صدمہ سے پریشان ہے اور اس نے چھوٹے بھائی کو اپنی تسلی اور تسکین کے لئے اپنے پاس روکا ہوا ہے اور ہم تجارت کی غرض سے آئے ہیں۔ یوسف علیہ السلام نے انہیں کافی خیرات دے کر واپس روانہ کیا اور آئندہ چھوٹے بھائی کو بھی ساتھ لانے کا وعدہ لے لیا۔ انہوں نے واپس جاکر بادشاہ کے حسن سلوک کا تذکرہ کیا اور سامان کھول کر دیکھا تو ان کا مال بھی پورا موجود تھا اور ان کی ضرورت کا غلہ و سامان بھی تھا۔ انہوں نے والد صاحب کو راضی کرنے کی کوشش کی کہ چھوٹے بھائی (بنیامین) کو بھی بھیج دیں تاکہ ایک مزید آدمی کا راشن بھی مل سکے۔ والد نے کہا کہ تم پہلے یوسف کے بارے میں میرے اعتماد کو ٹھیس پہنچا چکے ہو مگر گھریلو اخراجات کی مجبوری ہے اس لئے اللہ کی حفاظت میں اسے تمہارے ساتھ بھیجتا ہوں۔ جب برادران یوسف چھوٹے بھائی کے ہمراہ دوبارہ پہنچے تو یوسف علیہ السلام نے موقع پاکر اپنے بھائی بنیامین کو ساری صورتحال سے آگاہ کرکے اسے اپنے پاس روکنے کا حیلہ یہ کیا کہ مصر کے قانون میں چور کی سزا یہ تھی کہ اسے غلام بنا کر اپنے پاس رکھ لیا جاتا تھا۔ شاہی کارندوں نے بنیامین کے سامان میں ایک پیمانہ چھپا کر تلاشی کے دوران برآمد کرلیا۔ برادران یوسف پریشان ہوگئے ہم پہلے ہی والد کا اعتماد کھو چکے ہیں۔ اب کیا جواب دیں گے۔ مجبوراً واپس جاکر یعقوب علیہ السلام کو بنیامین کے سامان سے پیمانے کی برآمدگی اور مصری قانون کے مطابق اس کی گرفتاری کی خبر دی۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کا غم بے انتہا بڑھ گیا اور یوسف کی یاد کے ساتھ بنیامین کا غم بھی شامل ہوگیا۔ برادران یوسف نے کہا کہ یوسف کب کا مر کھپ چکا اور اس کی یاد میں ہلکان ہورہے ہیں۔ والد نے کہا میرے بیٹو! مجھے یقین ہے کہ یوسف اور اس کا بھائی مجھے مل کر رہیں گے۔ میں اللہ سے مایوس نہیں اللہ سے مایوس تو کافر ہوا کرتے ہیں۔ جاﺅ دونوں کو تلاش کرو اور گھر کے اخراجات کا انتظام بھی کرکے آﺅ۔ قحط سالی کی شدت میں ان کے پاس تجارت کے لئے بھی کچھ نہیں بچا تھا۔ یہ لوگ پھر مصر پہنچ گئے اور شاہ مصر کے انتقال کے بعد یوسف علیہ السلام عزیز مصر کے عہدہ پر فائز ہوچکے تھے۔ انہوںنے جاکر اپنی بپتا سنائی اور خیرات و غلہ کے لئے درخواست گزار ہوئے حضرت یوسف علیہ السلام نے اس موقع پر ان کی حالت زار اور والد کی پریشانی کے پیشِ نظر صورتحال واضح کرنے کے لئے انہیں یاد دلایا کہ یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں کو تم کیسے بھول گئے ہو؟ ان کا ماتھا ٹھنکا اور وہ حیران ہوکر پوچھنے لگے کہ آپ یوسف ہی تو نہیں ہیں۔ یوسف علیہ السلام نے بتادیا کہ میں ہی یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی بنیامین ہے۔ اللہ نے اپنے فضل و کرم سے ہمیں دوبارہ اکٹھا کردیا۔ یوسف علیہ السلام جو کہ مصر کے اقتدار اعلیٰ پر متمکن ہونے کے ساتھ ساتھ نبوت کے منصب اعلیٰ پر بھی فائز تھے، ایمان اور تحمل کی بلندیوں پر پہنچے ہوئے تھے۔ انہوںنے بھائیوں کی پریشانی اور جرم کے طشت از بام ہونے پر گھبراہٹ کو بھانپ لیا اور فرمایا کہ آپ لوگوں سے کسی قسم کا انتقام نہیں لیا جائے گا۔ میں تمام زیادتیوں اور مظالم کو معاف کرتا ہوں۔ اس حلم و بردباری نے ان پر بڑا اثر کیا اور انہوںنے بھی اعتراف جرم کے ساتھ اپنے لئے عفو و درگزر کی درخواست پیش کردی۔ بیٹے کے غم میں رو رو کر حضرت یعقوب اپنی بینائی سے محروم ہوچکے تھے۔ یوسف علیہ السلام نے معجزانہ تاثیر کی حامل اپنی قمیص روانہ کردی کہ باپ کے چہرہ پر ڈالوگے تو ان کی بنیائی واپس آجائے گی۔ جیسے ہی قاصد قمیص لے کر مصر سے روانہ ہوا کنعان میں حضرت یعقوب نے حاضرین مجلس سے کہا کہ مجھے یوسف کی مہک آرہی ہے۔ وہ لوگ کہنے لگے کہ آپ نے پھر یوسف کی رٹ لگالی ہے۔ مگر اتنی دیر میں قاصد پہنچ چکا تھا اور قمیص کا کرشمہ ظاہر ہوکر ان کی بینائی مل چکی تھی۔ بیٹوں کو اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہونے لگا، انہوںنے والد صاحب سے معافی کی درخواست کی والد صاحب نے خود بھی معاف کردیا اور اللہ سے بھی ان کے لئے مغفرت طلب کی اور مصر کے لئے روانہ ہوگئے۔ شہر سے باہر سرکاری پروٹوکول کے ساتھ ان کا استقبال کیا گیا اور دربار شاہی میں پہنچتے ہی والدین اور گیارہ بھائی یوسف کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے۔ یوسف علیہ السلام نے اپنے خواب کی عملی تعبیر پالی اور تشکر آمیز جذبات سے اللہ کے حضور دست بہ دعا ہوگئے کہ اللہ تونے مجھے نبوت و حکمرانی سے سرفراز فرمایا اور میرے جان کے دشمن بھائیوںکے دل صاف کرکے مجھے میرے ساتھ ملایا تو ہی میرا سرپرست اور ولی ہے، مجھے اسلام پر ثابت قدم رکھ اور اپنے نیکو کار بندوں میں شامل رکھ۔ اس واقعہ میں بہت سے دروس و عبر موجود ہیں۔ باپ کی محبت سے بھائیوں کی عداوت اور اندھے کنویں سے شاہی محل اور وہاں سے جیل اور پھر اقتدار مصر پر فائز ہوکر والدین اور بھائیوں کے سامنے سرخروئی اس سارے منظر میں مکہ مکرمہ کے اندر حضور علیہ السلام اور اپنوں کے مظالم کا شکار آپ کے ساتھیوں کے لئے بشارت موجود تھی کہ ایک دن مشرکین مکہ بھی آپ کے سامنے جھکنے پر مجبور ہوں گے اور دس رمضان کو تاریخ نے ہمیشہ کے لئے منظر محفوظ کرلیا کہ کعبة اللہ کی دہلیز پر کھڑے ہوکر حضور علیہ السلام نے یوسف علیہ السلام والا جملہ لا تثریب علیکم الیوم (آج تم پر کوئی گرفت یا انتقامی کارروائی نہیں ہوگی) کہہ کر اپنی قوم کو معاف کرنے کا اعلان کردیا۔ پھر قرآن کریم نے ”جمہوریت“ کی بنیاد ”اکثریت و اقلیت“ پر ضرب کاری لگاتے ہوئے بتایا کہ دنیا میں اچھے لوگ کبھی اکثریت میں نہیں رہے جس سے یہ منطقی نتیجہ نکلتا ہے کہ ”جمہوری“ نظام سے پاکیزہ معاشرہ اور اچھی حکومت کبھی بھی تشکیل نہیں پاسکتی۔ نبوت کا راستہ دلائل کے ساتھ اللہ کا پیغام پہنچانا ہے، نصرت خداوندی تب آتی ہے جب اللہ کے علاوہ تمام سہاروں سے مسلمان برات کا اظہار کردے اور ہر طرف سے مایوس ہوکر ایک اللہ سے اپنا رشتہ استوار کرلے۔ قرآن کریم قصے کہانیاں سنا کر جی نہیں بہلاتا بلکہ تاریخی واقعات سے کارکنوں کی تربیت کرتا ہے اور مسلمانوں کو اس سے ہدایت و رحمت کی دولت میسر آتی ہے۔
سورة الرعد
مدنی سورت ہے۔ چھیالیس آیتوں اور چھ رکوع پر مشتمل ہے۔ مدنی سورت ہونے کے باوجود اس میں قانون سازی کی بجائے عقیدہ توحید و آخرت پر بحث کی گئی ہے۔ پہلی آیت میں حقانیت قرآن کو بیان کیا اور توحید باری تعالیٰ پر کائناتی شواہد پیش فرمائے۔ منکرین کو قیامت کے دن طوق اور بیڑیاں ڈال کر جہنم رسید کردیا جائے گا۔ نشانیوں کا مطالبہ کرنے والوں کو بتادو کہ میں تو ڈرانے اور انسانیت کو پیغامِ ہدایت سنانے والا ہوں، پھر اللہ کے علم و قدرت کا مزید بیان ہے۔ ماں کے پیٹ میں کیا ہے۔ اسے اللہ ہی جانتے ہیں۔ جدید طب زیادہ سے زیادہ بچہ کی جنس (Sex) اور صحت کے بارے میں الٹراساﺅنڈ کی مدد سے اندازہ لگاسکتی ہے، لیکن نیکی بدی، غربت و امارت، علم و جہالت اور زندگی کے ماہ و سال ان تمام باتوں کا علم بچہ کے بارے میں اللہ کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہے۔ انسانی حفاظت کے لئے فرشتوں کے ذریعہ اللہ نے سیکیورٹی نظام بنایا ہوا ہے۔ قوموں کے عروج و زوال کا ضابطہ کہ جب تک کسی قوم کی عملی زندگی نہیں بدلتی اللہ اس کی حالت کو نہیں بدلتے۔ بارش سے بھرے ہوئے بادل، بجلی کی چمک اور کڑک اللہ کی تسبیح و تحمید کرتے ہیں۔ فرشتے بھی خوف اور ڈر کے ساتھ اللہ کی تعریف میں رطب اللسان رہتے ہیں۔
صحیح معنی میں دعا تو اللہ ہی سے مانگی جاسکتی ہے۔ غیر اللہ سے مانگنے والوں کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی پیاسا دور سے ہاتھ پھیلاکر پانی اپنے منہ تک پہنچانے کی ناکام کوشش کرے۔ پھر حق و باطل کی دو مثالیں: آسمان سے بارش برسی جس نے سیلاب کی شکل اختیار کرلی، غیر مفید جھاگ اور کوڑا کباڑ اوپر ہوتا ہے اور مفید پانی نیچے ہوتا ہے۔ آگ میں زیور پگھلایا تو غیر مفید کھوٹ اوپر آجاتی ہے اورمفید سونا چاندی نیچے رہ جاتا ہے، ایسے ہی حق و باطل کے مقابلہ میں باطل کے اوپر آجانے سے دھوکا نہیں کھانا چاہئے۔ حق کے ماننے والے اور منکرین کی مثال ایسی ہے جیسے آنکھوں والا اور اندھا۔ عقل والے ہی درس عبرت حاصل کیا کرتے ہیں پھر مالی اور جسمانی نیکی اور برائی کرنے والوں کا تذکرہ کرکے جنت و جہنم میں ان کے ٹھکانے کو بیان کیا۔ رزق میں کمی زیادتی اللہ ہی کرتے ہیں۔ دنیاوی نعمتیں تو عارضی فائدہ پہنچاتی ہیں۔ اللہ پر ایمان رکھنے والوں کو اللہ کے تذکرہ سے ہی سکون ملتا ہے۔ ان کے لئے مبارک اور بہترین ٹھکانہ ہے۔ لوگوں کی ہدایت کو کرامات اور معجزات کے ساتھ منسلک نہیں کیا گیا بلکہ ہر قوم کی ہدایت کے لئے انبیاءو رسل نے مستقل محنت کی ہے۔ اگر کسی کلام کی تاثیر سے پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہٹاکر چلایا جاسکے، زمین کو پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کیا جاسکے یا مردوں کو زندہ کرکے ان سے گفتگو کی جاسکے تو وہ کلام یہ قرآن ہی ہوسکتا ہے۔ نشانیاں طلب کرنے والوں کے لئے اس سے بڑی نشانی اور کیا ہوسکتی ہے؟ پہلے انبیاءو رسل کا مذاق اڑانے والوں کو مہلت دے کر عبرتناک طریقہ سے پکڑاگیا لہٰذا آپ کا مذاق اڑانے والے بھی بچ نہیں سکیں گے۔ نبی کوئی مافوق الفطرت مخلوق نہیں ہوتی وہ تو عام انسانی زندگی گزارنے والے افراد ہوتے ہیں۔ بیوی بچے اور بشری تقاضے ان کے ساتھ لگے ہوئے ہوتے ہیں۔ اللہ کے حکم کے بغیر کوئی نشانی دکھانے کا انہیں اختیار نہیں ہوتا۔ انہیں غور کرنا چاہئے کہ جب سے نزول قرآن شروع ہوا ہے اہل ایمان پھیلتے جارہے ہیں اور کفر کا دائرہ محدود ہوتا جارہا ہے اور یہ تنگ جزیرہ میں محصور ہوتے جارہے ہیں۔ اللہ کے فیصلہ کے بعد کسی دوسرے کا فیصلہ نہیں چل سکتا۔ اے میرے نبی! ان کافروں کی طرف سے آپ کی رسالت کا انکار کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اللہ تعالیٰ بھی اور اہل علم بھی آپ کی رسالت کی گواہی دینے کے لئے کافی ہیں۔
سورئہ ابراہیم
مکی سورت ہے۔ باون آیتوں اور سات رکوع پر مشتمل ہے۔ اس سورت کا مرکزی مضمون ”اثبات رسالت“ ہے جبکہ جنت اور جہنم کا تذکرہ اور ظالموں کی عبرتناک گرفت کا تذکرہ بھی موجود ہے۔ انبیاءکے اختصار کے ساتھ تذکرہ ہے مگر ابو الانبیاءابراہیم علیہ السلام کی اپنے معصوم بچے اور بیوی کو لق و دق صحراءمیں چھوڑنے کا خصوصیت کے ساتھ تفصیل سے تذکرہ ہے۔ ابتداءسورت میں نزول قرآن کا مقصد بیان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ انسان اس سے کفر کی ظلمتوں سے نکل کر ایمان کی روشنی میں آجاتا ہے۔ پھر بتایا گیا ہے کہ ہر قوم میں اس کی زبان میں سمجھانے والے نبی ہم نے مبعوث کئے۔ پھر موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کا تذکرہ ہے۔ اللہ نے بنی اسرائیل پر نعمتیں اتاریں فرعون کے بدترین تعذیب کے طریقوں سے نجات دی۔ شکر کرنے سے نعمت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ناشکری سے نعمت چھن جاتی ہے۔ قوم نوح، عاد، ثمود کا مختصر تذکرہ اور نبیوں کے خلاف ان کے گھسے پٹے اعتراض کا بیان ہے کہ تم ہمارے جیسے انسان ہو نبی کیسے ہوسکتے ہو؟ ہمیں ہمارے آباءو اجداد کے طریقہ سے ہٹانا چاہتے ہو۔ ہم تمہیں اپنے ملک سے نکال باہر کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سب کے جواب میں فرمایا کہ ظالم اور معاند و متکبر ہلاک ہوں گے اور ان کی جگہ انبیاءکے متبعین زمین کے اقتدار کے وارث بنادئے جائیں گے۔ کافروںکے اعمال کی مثال راکھ کی طرح ہے جب تیز ہوا چلتی ہے تو اسے اڑا کر لے جاتی ہے۔ قیامت کے دن جب مجرمین کو آپس میں بات چیت کا موقع ملے گا تو وہ ایک دوسرے پر اعتراضات کرکے اپنے دل کی بھڑاس نکالیں گے کہیں گے کہ دنیا میں تم نے ہم سے گناہ کروائے اب عذاب کو بھی ہم سے ہٹواﺅ۔ تو وہ کہیں گے کہ ہم تو خود عذاب میں پھنسے ہوئے ہیں تمہیں کس طرح بچاسکتے ہیں۔ پھر جہنمی شیطان کی طرف متوجہ ہوکر اسے ملامت کریں گے، وہ کہے گا کہ مجھے کیوں ملامت کرتے ہو میں نے تو ذرا سا اشارہ کیا تھا تم خود ہی ا س پر چل کر گناہوںکے مرتکب بنے ہو لہٰذانہ تو میں اپنے آپ سے عذاب کو ہٹا سکتا ہوں اور نہ ہی تم سے ہٹا سکتا ہوں۔ پھر ایمان اور کفر کی مثال دی کہ کلمہ طیبہ کی بدولت ایمان کا مضبوط اور تناور درخت بن جاتا ہے جسے آندھی اور طوفان بھی نقصان نہیں پہنچاسکتے جبکہ کلمہ خبیثہ کے نتیجہ میں کفر کی کمزور جھاڑیاں اگتی ہیں جو معمولی اشارہ سے زمین سے اکھڑجاتی ہیں۔ پھر ابراہیم علیہ السلام کی عظیم الشان قربانی اور دعاءکا تذکرہ ہے کہ معصوم بچے اور بیوی کو اللہ کے حکم سے جنگل بیابان میں سکونت پذیر کردیا اور اللہ سے دعاءمانگی، لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت پیدا فرما۔ پھلوں اور سبزیوں اور ہر قسم کی ضروریات زندگی میں برکت عطاءفرما۔ مجھے اورمیری اولاد کو نماز کا پابند بنا اور ہمارے ساتھ تمام اہل ایمان کی مغفرت فرما۔ اس کے بعد ظالموں کی گرفت کے آسمانی نظام کا تذکرہ ہے کہ ظالموں کو آزادی کے ساتھ دندناتے ہوئے پھرتا دیکھ کر دھوکا میں نہیں پڑنا چاہئے۔ یہ اللہ کی طرف سے مہلت ہے اور جب اچانک ان کی گرفت کے لئے نظام الٰہی متحرک ہوگا تو انہیں کوئی بچا نہیں سکے گا۔
 

GraetBoy1234

Active Member
May 18, 2013
281
460
113
Chowk Yadgar, Peshawar
چو د ھو یں پا ر ے کے اہم مضامین
سورة الحجر
مکی سورت ہے۔ اس میں ننانوے آیتیں اور چھ رکوع ہیں۔ اس سورت کی دوسری آیت سے چودھواں پارہ شروع ہورہا ہے۔ اس مختصر سورت میں عقیدئہ اسلام کے تینوں بنیادی مضامین توحید و رسالت اور قیامت پر منفرد انداز میں گفتگو کی گئی ہے۔ پہلی آیت میں قرآن کریم کے عظیم اور واضح کتاب ہونے کا بیان ہے۔ چودھویں پارے کی ابتداءمیں کہا گیا ہے کہ کافر اگرچہ آج مسلمان ہونے کے لئے تیار نہیں ہیں مگر ایک وقت آنے والا ہے جب یہ تمنا کریں گے کہ کاش! یہ لوگ مسلمان ہوتے۔ لہٰذا آپ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں یہ کھاتے پیتے رہیں اور دنیا کے عارضی مفادات میں مگن رہیں اورامیدوں اور آرزوﺅں کے دھوکے میں پڑے رہیں عنقریب انہیں دنیا کی بے ثباتی کا پتہ چل جائے گا۔ یہ لوگ حضور علیہ السلام کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے ہیںکہ جس شخص پر قرآن اتارا گیا ہے وہ تو مجنون اور دیوانہ ہے۔ اگر یہ سچا رسول ہوتا تو ہر وقت فرشتوں کو اپنے ساتھ رکھتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم فرشتوں کو بھیجیں گے تو عذاب دے کر بھیجیں گے پھر ان لوگوں کو کسی قسم کی مہلت بھی نہیں مل سکے گی۔ اس قرآن کریم کو ہم نے ہی اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔ حضور علیہ السلام کی تسلی کے لئے اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ کافروںکی طرف سے مذاق اڑانے اور نشانیوں کا مطالبہ کرنے پر آپ دل گرفتہ نہ ہوں۔ رسالت کی ”وادی پُرخار“ ایسی ہی ہے کہ پہلے بھی جتنے انبیاءآتے رہے ان کے ساتھ بھی استہزاءو تمسخر کیا گیا۔ مجرمین کا یہی وطیرہ رہا ہے۔ یہ ہٹ دھرم ہیں نشانی دیکھ کر بھی ایمان نہیں لائیں گے۔ اگر ہم آسمان کا دروازہ کھول کر انہیں اوپر چڑھنے کا موقع فراہم کردیں اور یہ لوگ ہماری نشانیوں اور مظاہر قدرت کا بچشم خود مشاہدہ بھی کرلیں تو یہ کہنے لگیں گے کہ ہماری نظر بندی کر دی گئی ہے بلکہ ہم پر محمد علیہ السلام کا جادو چل گیا ہے۔ پھر قدرت خداوندی اور توحید باری تعالیٰ کے کائناتی شواہد پیش کرنے شروع کردیئے۔ ہم نے آسمان کو دیکھنے والوں کے لئے خوبصورت بنایا ہے اور اس میں چوکیاں قائم کرکے شیطانوں سے محفوظ بنادیا ہے اور اگر کوئی چوری چھپے سننے کی کوشش کرے تو ”شہاب مبین“ اس کا پیچھا کرتا ہے، زمین کو ہم نے پھیلا کر اس میں پہاڑ گاڑ دیئے ہیں تاکہ یہ ڈانواں ڈول ہونے سے بچی رہے اور اس میں مناسب چیزیں ہم نے اگادی ہیں۔ تمہاری معیشت کا سامان ہم نے اس زمین کے اندر ہی رکھا ہے۔ ہر چیز کے خزانے ہمارے پاس ہیں دنیا میں ہم ایک مقررہ اندازہ کے مطابق ہی اتارتے ہیں۔ بار آور کرنے والی ہوائیں ہم ہی چلاتے ہیں جس کے نتیجہ میں آسمان سے پانی برسا کر تمہیں سیراب کرتے ہیں۔ ہم نے تمہارے لئے پانی ذخیرہ کررکھا ہے تم اسے محفوظ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہو۔ زندگی اور موت ہمارے ہاتھ میں ہے۔ ہم پہلوں اور پچھلوں کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں اور قیامت میں ان سب کو جمع کرلیں گے۔ پھر تخلیق جن و انس کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: انسان کو بدبودار چکنی مٹی سے پیدا کیا جو خشک ہونے کے بعد ٹھن ٹھن بجنے لگتی ہے اور جنات کو تپتی ہوئی آگ سے تخلیق کیا۔ انسان کو پیدا کرکے مسجود ملائک بنایا۔ شیطان نے سجدہ سے انکار کیا تو اسے راندئہ درگاہ کردیا اور قیامت تک کے لئے لعنت کا طوق اس کے گلے میں ڈال دیا۔ شیطان نے قیامت تک کے لئے انسانوں کو گمراہ کرنے کی قسم کھالی مگر ہم نے بتادیا کہ مفاد پرست ہی تمہاری گمراہی کا شکار بنیں گے۔ مخلصین پر تمہارا زور نہیں چلے گا۔ وہ لوگ ہماری عالی شان صراط مستقیم پر چلنے والے ہوں گے۔ پھر جنت و جہنم اور رحمت خداوندی کے تذکرہ کے بعد حضرت لوط علیہ السلام اور ان کی بدکردار قوم اور اس کی ہلاکت کا تذکرہ فرمایا اور اس کے بعد قوم ثمود اور ان کی تباہ شدہ بستی ”حجِر“ کو درس عبرت کے لئے ذکر فرمایا۔ پھر عظمت قرآن اور خاص طور پر بار بار دہرائی جانے والی سورئہ فاتحہ کی سات آیتوں کا ذکر کیا۔ کافروںکے سامانِ تعیش کو للچائی ہوئی نظروں کے ساتھ نہ دیکھنے کی تلقین اور اپنے پیروکار مومنین کے لئے نرم رویہ اختیار کرنے کا حکم دے کر فرمایا کہ آپ کو جو حکم دیا گیا ہے اس پر ڈٹے رہئے اور کافروں کے استہزاءکی پرواہ نہ کیجئے ان کے لئے ہم ہی کافی ہیں انہیں عنقریب پتہ چل جائے گا۔ ہمیں معلوم ہے کہ ان کی باتوں سے آپ کی دل آزاری ہوتی ہے مگر آپ صبر سے کام لیتے ہوئے تسبیح و تحمید میں مشغول رہیں اور مرتے دم تک سجدہ ریز ہوکر اپنے رب کی عبادت میں لگے رہیں۔
سورة النحل
مکی سورت ہے، اس میں ایک سو اٹھائیس آیتیں اور سولہ رکوع ہیں۔ نحل شہد کی مکھی کو کہتے ہیں۔ اس سورت میں نحل کے محیر العقول طریقہ پر چھتہ بنانے اور شہد پیدا کرنے کی صلاحیت کا تذکرہ ہے۔ اس لئے پوری سورت کو اس کے نام سے موسوم کردیا گیا ہے۔ مشرکین کی طرف سے قیامت کے مطالبہ پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قیامت آیا ہی چاہتی ہے۔ تمہیںجلدی کس بات کی ہے؟ اللہ تعالیٰ فرشتوں کو اپنا پیغام دے کر بھیج رہے ہیں کہ لوگوں کو ڈرائیں کہ میں ہی معبود ہوں میرے علاوہ کسی دوسرے کی پرستش نہ کریں۔ میں نے آسمان و زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا اور انسان کو نطفہ سے تخلیق کیا پھر بھی وہ جھگڑالو بن گیا۔ انسان کی خوراک، اس کے منافع خاص طور پر سردیوں میں گرمائش کے حصول کے لئے جانور پیدا کئے۔ صبح و شام جب ان کے ریوڑوں کے ریوڑ چرنے کے لئے آتے اور جاتے ہیں تو کتنے خوشنما معلوم ہوتے ہیں۔ تمہارے بھاری سامان کو ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کرنے میں کام آتے ہیں۔ گدھے، گھوڑے ، خچر اسی نے تمہاری تمہاری سواری کے لئے پیدا کئے اور تمہارے لئے ایسی سواریاں ( مثلاً ہوائی جہاز وغیرہ) بھی مستقبل میںپیدا کرے گا جنہیں تم جانتے بھی نہیں ہو۔ پھر بارش اور اس کے اثرات سے انسانوں اور جانوروں کی سیرابی اور چراگاہوں کی آبادی، فصلوں، زیتون، کھجور، انگور اور ہرقسم کے پھل پھول کے ظاہر ہونے میں عقل استعمال کرکے غور و خوض کرنے اور نصیحت حاصل کرنے کی تلقین فرمائی۔ سمندری دنیا کا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ بحری جہازوں اور کشتیوں کی مدد سے پانی میں سفر کرنے اور سامان منتقل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے جبکہ اس سے تمہیں مچھلیوں کا ترو تازہ گوشت اور زیورات بنانے کے لئے موتی اور جواہر بھی فراہم ہوتے ہیں۔ مظاہر قدرت کا مستقل تذکرہ جاری ہے اور اس سے خالقِ کائنات تک رسائی حاصل کرنے کی تعلیم ہے۔ انسان کی نفسیات میں احسان شناسی کا مادہ ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ اپنے احسانات و انعامات کا تذکرہ کرکے فرمارہے ہیں کہ ہماری نعمتیں بے حد و حساب ہیں اگر تم شمار کرنا بھی چاہو تو نہیں کرسکتے ہو۔ تمہیں چاہئے کہ خفیہ و علانیہ ہر ڈھکی چھپی کا علم رکھنے والے رب کی خالقیت و عبودیت کا اقرار کرلو۔ تم سے پہلے لوگوں نے بھی سازشیں کرکے آسمانی تعلیمات کا انکار کیا تھا۔ ان پر ایسا عذاب مسلط کیا گیا جو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا اور ان کی بستیاں چھتوں کے ساتھ تہس نہس کرکے رکھ دی گئیں۔ پھر ان لوگوں کو قیامت کی ذلت و رسوائی سے الگ واسطہ پڑے گا۔ وہاں ان کے شرکاءبھی کسی کام نہیں آئیں گے۔ ایسے ظالموں کو بدترین ٹھکانہ جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ جلنا پڑے گا۔ جبکہ نیکوکار اور متقی لوگوں کا بہترین ٹھکانہ جنت ہوگا، جس میں باغات اور نہریں ہوں گی اور یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس میں رہیں گے۔ مشرک لوگ اپنے جرائم کی ذمہ داری قبول کرنے کی بجائے اسے اللہ کی مشیت کا کرشمہ قرار دینا چاہتے ہیں۔ پہلی مجرم قومیں بھی ایسا ہی کرتی رہی ہیں حالانکہ ہمارے رسول ہر امت کو یہ تعلیم دیتے رہے ہیں کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو۔ بعض لوگوں نے ہماری بات کو تسلیم کیا اور بعض نے انکار کیا تو ان پر ہمارا عذاب آکر رہا۔ دنیا میں چل پھر کر ایسے جھوٹوں کے انجام سے تم عبرت حاصل کرسکتے ہو۔ یہ لوگ قسمیں کھا کھاکر کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے۔ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ہم زندہ کرکے دکھائیں گے۔ مردوں کو زندہ کرنا ہمارے لئے کیا مشکل ہے ہم ”کن فیکون“ کے ایک حکم سے تمام انسانوں کو زندہ کردیں گے۔ اللہ کے نام پر ہجرت کرنے والوں کو بہتر ٹھکانہ فراہم کرنے کی نوید اور انہیں صبر و توکل کے ساتھ زندگی گزارنے کی تلقین ہے۔ انبیاءو رسل انسان ہوتے ہیں اور دلائل و شواہد کی روشنی میں توحید بیان کرتے ہیں۔ گناہوں کو دنیا میں پھیلانے کی سازشیں کرنے والے اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکیں گے۔ یہ لوگ دائیں بائیں جھکنے اور بڑھنے والے سائے میں غور کرکے اس نتیجہ پر کیوں نہیں پہنچ جاتے کہ زمین و آسمان کی ہر مخلوق حتی کہ فرشتے بھی اللہ ہی کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں اور کسی قسم کا تکبر نہیں کرتے۔ بلندیوںکے مالک اپنے رب کے عذاب سے خوفزدہ رہتے ہیں اور انہیں جو حکم دیا جاتا ہے اس کی حرف بہ حرف پابندی کرتے ہیں۔بعض مشرکین کے تصور کی نفی کی گئی ہے کہ پوری کائنات کو دو خدا چلا رہے ہیں۔ خیر کا خدا ”یزدان“ ہے اور شر کا خدا ”اہرمن“ ہے اور اسی سے یہ نظریہ بھی باطل قرار پاتا ہے کہ آسمانوںکا خدا ”احد“ ہے اور زمین کا خدا ”میم“ کے پردہ میں ”احمد“ ہے۔ پھر اللہ کے لئے اولاد کے عقیدہ کی دندان شکن انداز میں تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ مشرکین کہتے ہیں کہ فرشتے چونکہ نظر نہیں آتے، عورتوں کی طرح چھپے رہتے ہیں اس لئے وہ اللہ کی بیٹیاںہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم خود تو بیٹیوں کو پسند نہیں کرتے اگر کسی کو بیٹی پیدا ہونے کی خوشخبری سنائی جائے تو اس کے چہرہ پر مایوسی چھا جاتی ہے اور وہ منہ چھپائے پھرتا ہے اور سوچتا ہے کہ میں ذلت و رسوائی اٹھانے کے لئے بیٹی کی پرورش کروں یا اسے ”زندہ درگور“ کردوں؟ اس کے باوجود اللہ کے لئے بیٹیوںکا عقیدہ قائم کرکے تم نے بدترین فیصلہ کیا ہے۔ انسانوں کے جرائم اور مظالم اس قدر ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان پر گرفت کرنے پر آجائیں تو کوئی جاندار زمین پر زندہ نہ بچ سکے۔ اللہ تعالیٰ نے جرائم پر محاسبہ کے نظام کو قیامت کے دن تک موخر کیا ہوا ہے جسے ٹالا نہیں جاسکتا۔ پھر اللہ نے کائناتی شواہد سے توحید و رسالت کے مزید دلائل پیش کرکے جانوروں کی مثال شروع کردی۔ چوپایوں میں تمہارے لئے عبرت کا سامان موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ خون اور گوبر کے بیچ میں سے خالص مزیدار دودھ تمہیں پلاتے ہیں۔ شہد کی مکھی میں مظاہر قدرت کا مطالعہ کرکے دیکھو، اسے ہم نے پہاڑوں گھروں کی چھتوں اور درختوں پر چھتہ بنانے کا سلیقہ عطاءفرمایا ہے۔ پھر ہر قسم کے پھلوں اور پھولوں سے رس چوس کر دور دراز کا سفر طے کرکے اپنے چھتہ تک پہنچنے کی سمجھ عطاءفرمائی پھر مکھی کے پیٹ سے مختلف رنگوں اور ذائقوںکا شہد نکالا جو انسانوںکے مختلف امراض کے لئے شفاءاور صحت عطاءکرنے والا ہے۔ سوچ و بچار کرنے والوںکے لئے اس میں دلائل موجود ہیں۔ اللہ ہی تمہیں مارتے اور جِلاتے ہیں اور تم میں سے بعض کو بڑھاپے کی عمر تک پہنچادیتے ہیں کہ اس کی یاد داشت کمزور ہوجاتی ہے اور وہ معلومات رکھنے کے باوجود کچھ سمجھنے سے قاصر ہوجاتا ہے۔ اللہ بڑے علم و قدرت والے ہیں۔ اس کے بعد توحید کے مزید دلائل پیش کرنے کے بعد معبود حقیقی اور معبودان باطلہ کا فرق دو مثالوں سے سمجھایا ہے۔ (۱)ایک غلام ہے جو اپنے جان و مال کے معاملے میں بالکل بے اختیار ہے مالک کی اجازت کے بغیر کچھ نہیںکرسکتا۔ دوسرا آزاد شخص ہے جو وسیع مال و دولت رکھتا ہے اور شب و روز فقراءو مساکین کی مدد کرتا ہے۔ جس طرح ان دونوں افراد کو برابر سمجھنے والا عدل و انصاف کے تقاضوں کا خون کرنے والا ہے اسی طرح معبود حقیقی کے ساتھ بتوں کو شریک سمجھنے والا عقل و خردسے عاری ہے۔ (۲)ایک غلام گونگا، بہرا، کسی کام کا نہیں ہے۔ اپنے مالک پر بوجھ بنا ہوا ہے اور دوسرا معتدل طرز زندگی رکھنے والا اور معاشرہ میں خیر اور نیکی کو پھیلانے والا ہے۔ کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ دلائل توحید اور روز قیامت کا تذکرہ جاری ہے۔ قیامت کے دن مشرکین اپنے معبودوں سے براءت کا اظہار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے عہد وفا باندھنے کی کوشش کریں گے مگر وقت گزر چکا ہوگا اور اللہ کے دین کے راستہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والے کافروں کو ان کے فساد پھیلانے کے جرم میں سزا پر سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کے بعدقرآن کریم کے ہدایت و رحمت ہونے کا بیان ہے اور بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ عدل و احسان اور غریب پروری کی تعلیم دیتے ہیں اور ظلم و بے حیائی اور منکرات سے باز رہنے کی تلقین فرماتے ہیں۔ اللہ کا عہد پورا کرو اور ایمان و اعمال صالحہ کی نعمت سے سرفراز ہونے کے بعد اس کو چھوڑ کر کفر و ارتداد کا راستہ اختیار کرنا ایسا ہے جیسے کوئی عورت روئی کاتنے کے بعد تیار ہونے والے ”سوت“ کو الجھاکر اپنی ساری محنت کو ضائع کردے، مساوات مرد و زن کا ضابطہ کہ جسمانی ساخت کے پیش نظر فرائض و حقوق کے اختلاف کے باوجود ایمان و اعمال صالحہ کے نتیجہ میں پاکیزہ زندگی اور اجر و ثواب کے حصول میں دونوں برابر ہیں۔ قرآن کریم کی حقانیت بیان کرتے ہوئے مشرکین کے اس لغو اعتراض کا جواب دیا کہ شام کے سفر میں عیسائی راہب سے ملاقات کے موقع پر اس سے یہ قرآن سیکھ کر محمد علیہ السلام ہمیں سناتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان کی باتیں یقینا آپ کی دل آزاری کا باعث بنتی ہیں، مگر موٹی عقل رکھنے والا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ عجمی راہب آپ کو عربی قرآن کی تعلیم کیسے دے سکتا ہے؟ پھر ہجرت و جہاد اور استقامت کا پیکر اہل ایمان کو مغفرت و رحمت کی بشارت سنائی ہے اور بتایا ہے کہ کسی شہر یا علاقہ پر اللہ کی نعمتوں اور رحمتوں سے امن وامان اور خوشحالی کا دور دورہ ہو تو اللہ اس وقت تک اس میں تبدیلی نہیں لاتے جب تک وہاں کے باشندے نافرمانی اور گناہوں پر نہ اتر آئیں۔ اس کے بعد محرمات کی مختصر فہرست کا اعادہ ہے اور اللہ کے حلال کردہ کو کھانے اور حرام کردہ سے گریز کرنے کا حکم ہے پھر ابراہیم علیہ السلام کے پسندیدہ طرز زندگی کو اپنانے کا حکم اور دعوت و تبلیغ کا فریضہ ادا کرنے والوں کے لئے زرین ضوابط کا تذکرہ ہے کہ حکمت، موعظہ حسنہ اور سنجیدہ بحث و مباحثہ کی مدد سے اللہ کی طرف لوگوں کو بلایا جائے۔ پھر انتقام اور بدلہ لینے کا قانون بتایا کہ اس میں مساوات پیش نظر رہے اور حد سے تجاوز نہ کیا جائے۔ اللہ کی مدد اور توفیق سے دین اسلام پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کے ساتھ آخر میں خوشخبری سنادی کہ اللہ تعالیٰ تقویٰ اور احسان (اعلیٰ کردار) کے حاملین کی ہر قدم پر مدد و نصرت فرمایا کرتے ہیں۔
 

GraetBoy1234

Active Member
May 18, 2013
281
460
113
Chowk Yadgar, Peshawar
پند ر ھویں پا ر ہ کے اہم مضامین
سورة الاسرائ
اس سورت کے مضامین میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ توحید اور قیامت کے اثبات کے ساتھ اخلاق فاضلہ کی تعلیم بھی ہے مگر مرکزی مضمون اثبات رسالت اور خاص طور پر ”رسالت محمدیہ“ کا اثبات ہے۔ جس ذات نے اپنے بندہ کو رات کے تھوڑے سے حصہ میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کا سفر کرادیا وہ ہر قسم کی کمزوری اور نقص سے پاک ہے۔ مسجد اقصیٰ جس کے چاروں طرف مادی اور روحانی برکتیں پھیلی ہوئی ہیں کہ پھل پھول اور باغات کی سرزمین ہونے کے علاوہ نبیوں اور فرشتوںکی بعثت و نزول کی جگہ ہے۔ ”عبد“ چونکہ جسم و روح کے مجموعہ کو کہتے ہیں اس لئے معراج نبی عالم بیداری میں بہ نفس نفیس پیش آیا تھا۔ آیت نمبر ۰۶ میں معراج کے سفر کو مومن اور کافر میں امتیاز اور فرق کا ذریعہ قرار دیا ہے اور یہ تبھی ہوسکتا ہے جب جاگتے ہوئے جسمانی سفر کی شکل میں ہو۔ ورنہ خواب تو کوئی بھی دیکھ سکتا ہے۔
ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے کتاب عطا فرمائی اور ساتھ ہی یہ بھی بتادیا کہ تم اللہ کی کتاب پر عمل کرنے کی بجائے زمین میں سرکشی اور بغاوت پھیلاﺅگے اور دو مرتبہ بڑا فساد کرو گے۔ پہلی مرتبہ حضرت زکریا علیہ السلام کو قتل کرکے ظلم و ستم کا بازار گرم کیا اور اللہ تعالیٰ کے احکام سے بغاوت میں حد کردی تو شاہ بابل بخت نصر کی شکل میں تم پر عذاب مسلط کیا جس نے چادر اور چاردیواری کے تقدس کو پامال کیا۔ پھر جب تم نے توبہ کی تو ہم نے دوبارہ تمہیں اقتدار اور مال و دولت سے نواز دیا۔ اس کے بعد ضابطہ خداوندی کو بیان کیا کہ اگر کوئی قوم اپنا رویہ درست رکھے تو اس میں ان کا اپنا فائدہ ہے اور اگر بغاوت و سرکشی کرے تو اس میں اس کا اپنا ہی نقصان ہے۔ پھر تم نے اللہ کے نبی یحییٰ علیہ السلام کے قتل کی صورت میں قتل و بربریت اور فساد کی آگ بھڑکائی، مجوسیوں کے اقتدر کی شکل میں تم پر عذاب اتارا جنہوںنے قتل و غارت گری کے ذریعہ تمہیں تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔ پھر اللہ نے اپنے رحم و کرم سے تمہیں بچایا لیکن اگر تم نے اپنی حرکتیں نہ چھوڑیں تو ہمارے عذاب کی شکل پھر لوٹ سکتی ہے۔ جب کسی آبادی کے مقتدر لوگ سرکشی و نافرمانی پر اتر آئیں تو ہم انہیں عذاب اتار کر ملیا میٹ کردیا کرتے ہیں۔ اس کے بعد اخلاق فاضلہ کی تعلیم دیتے ہوئے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور فضول خرچی سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے۔ پھر روزی کی کمی کے ڈر سے اولاد کو قتل کرنے کی مذمت کرتے ہوئے بتایا ہے کہ تمہاری روزی بھی اللہ کے ذمہ ہے اور تمہاری اولاد کی روزی بھی اللہ ہی کے ذمہ ہے۔ زنا کاری سے بچو ناحق قتل نہ کرو، یتیم کا مال ناجائز طریقہ سے نہ کھاﺅ، عہد شکنی نہ کرو، ناپ تول میں کمی نہ کرو، بغیر تحقیق کے کسی بات کو نقل نہ کرو، زمین پر متکبرانہ انداز میں نہ چلو۔ یہ سب برائی کے ناپسندیدہ کام ہیں۔ تمہارے رب کی طرف سے حکمت سے بھرپور وحی بھیجی جارہی ہے۔ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراﺅ ورنہ جہنم میں قابل ملامت اور ملعون بن کر پڑے رہوگے۔قرآن کریم میں ہر بات کو مختلف انداز میں ہم بیان کرتے ہیں تاکہ یہ لوگ نصیحت حاصل کرلیں مگر یہ لوگ حق سے اور بھی دور ہوتے چلے جارہے ہیں۔ آسمان و زمین کی ہرچیز اللہ کی تسبیح و تحمید کرتی ہے۔ تم اسے سمجھنے سے قاصر ہو۔ جب آپ قرآن کریم کی تلاوت فرماتے ہیں تو آپ کے اور بے ایمانوں کے درمیان میں ایک حد فاصل قائم ہوجاتی ہے ان کے دلوں پر پردہ پڑ جاتا ہے ان کے کانوں میں ڈاٹ لگ جاتے ہیں اور اکیلے وحدہ لاشریک رب کا تذکرہ سن کر یہ لوگ دور بھاگنے لگتے ہیں اور قرآن سنتے ہوئے یہ ظالم باہمی سرگوشیوںمیں کہنے لگتے ہیں کہ یہ مسلمان تو ایک جادو زدہ شخص کی پیروی کررہے ہیں۔ یہ لوگ ہڈیوں کو بوسیدہ اور پرانا دیکھ کر کہتے ہیں کہ انہیں کس طرح زندہ کیا جائے گا۔ یہ لوگ اگر سخت ترین چیز لوہے اور پتھر میں بھی تبدیل ہوجائیں تو جس ذات نے انہیں پہلے پیدا کیا تھا وہ دوبارہ بھی پیدا کرلے گا۔ تمہارا رب تمہیں بہت اچھی طرح جانتا ہے وہ جانتا ہے کہ کس کو عذاب دینا ہے کس پر رحم کرنا ہے۔ تیرے رب کے عذاب سے ڈرنا ہی چاہئے، جس بستی کی ہلاکت یا عذاب قیامت سے پہلے مقدر ہے وہ ہمارے پاس لکھی ہوئی ہے۔ ہم اپنی نشانیاں اس لئے ظاہر نہیں کرتے کہ لوگ انہیں دیکھ کر ماننے کی بجائے انکار پر اتر آتے ہیں اور اس طرح وہ عذاب کے مستحق قرار پاجاتے ہیں۔ ہم نے قوم ثمود کی مطلوبہ نشانی اونٹنی کی شکل میں بھیج دی تھی انہوں نے ا س پر ظلم کرکے اپنی ہلاکت کو خود ہی دعوت دی۔ ہم تو ڈرانے اور راہِ راست پر لانے کے لئے نشانیاں اتارا کرتے ہیں۔ اس کے بعد خیر و شر کے ازلی معرکہ کا آئینہ دار قصہ آدم و ابلیس ذکر کرکے انسان کو شیطان کے گمراہ کن داﺅ پیچ سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے اوربتایا ہے کہ بحرو بر میں انسانی مشکلات کو اللہ کے سوا کوئی نہیں حل کرسکتا۔پھر بتایا کہ تمام مخلوقات میں انسان کو خصوصی فضیلت اور اعزاز کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔ قیامت کے دن انسان کے نامہ اعمال کے مطابق اس کے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا۔ جو شخص دنیا میں اپنی آنکھوں سے دلائل قدرت کا مشاہدہ کرکے بھی کفر کے اندھے پن سے نجات حاصل نہ کرسکا وہ ان دیکھی آخرت کے بارے میں زیادہ اندھے پن کا مظاہرہ کرے گا۔ یہ لوگ دوستی کا دم بھر کر آپ کو وحی الٰہی کے مقابلہ میں خود ساختہ باتیں بیان کرنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں مگر ہماری دی ہوئی توفیق سے آپ حق پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ اگر آپ ان کافروں کی طرف میلان کا اظہار کرتے تو ہم دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں آپ کو عذاب میں مبتلا کردیتے۔ جس طرح پہلے لوگوں نے اپنے رسولوں کو اپنے وطن سے نکال کر عذاب کو دعوت دی تھی مکہ والے بھی ایسا ہی کرنا چاہتے تھے مگر ہم نے آپ کے اعزاز میں آپ کی قوم کو عذاب سے بچانے کے لئے انہیں ایسا نہیں کرنے دیا۔ آپ صبح و شام نما زپڑھیں اور قرآن کریم کی تلاوت کریں۔ فجر کے وقت قرآن سننے کے لئے دن رات کے فرشتوں کا خصوصی اجتماع ہوتا ہے۔ رات کو تہجد کا اہتمام جاری رکھیں۔ آپ کو ”مقام محمود“ عطا کرنے کا وعدہ کیا جارہا ہے۔ حق آنے پر باطل زائل ہوجایا کرتا ہے۔ قرآن کریم مومنین کے لئے شفاءو رحمت ہے اور ظالموں کے لئے خسارہ اور نقصان کا باعث ہے۔ روح اللہ کا ایک امر ہے، اس کی حقیقت کو جاننے کی علمی صلاحیت تمہارے اندر مفقود ہے۔ ساری دنیا کے جنات و انسان مل کر بھی قرآن کریم جیسا کلام بنانے پر قادر نہیں ہوسکتے۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا فرعون کے ساتھ مباحثہ اور انہیں عطا کی جانے والی نو نشانیوں کا اجمالی تذکرہ کیا اور فرعون نے جب موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو ملک بدر کرنا چاہا تو ہم نے فرعونیوں کو غرق کرکے ان کا قصہ ہی تمام کردیا۔ قرآن کریم حق کے ساتھ اترا ہے اسے تھوڑا تھوڑا کرکے اتارنے کی حکمت یہ ہے کہ آپ انہیں ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناتے رہیں اور ان کی دل جمعی کا باعث بنتا رہے۔ اپنی دعا میں نہ زیادہ چلاﺅ اور نہ ہی بالکل خفیہ آواز رکھو بلکہ میانہ روی اختیار کرو۔ سورت کے آخر میں فرمایا آپ اعلان کردیں کہ تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں، جس کی نہ کوئی اولاد ہے اور نہ ہی اس کے ملک میں کوئی شریک ہے۔
سورة الکہف
الکہف عربی میں غار کو کہتے ہیں، اس سورت میں چند ایمان والے نوجوانوں کا ذکر ہے، جنہیں ایمان کے تحفظ کے لئے غار میں پناہ لینی پڑی تھی اس لئے پوری سورت کو کہف کے نام سے موسوم کردیا۔ مشرکین کے تین سوالوں کے جواب میں یہ سورت اتری تھی۔ روح کیا ہے اس کا جواب سورہ بنی اسرائیل میں ہے۔ کہف میں پناہ لینے والے نوجوانوں کے ساتھ کیا بیتی اور مشرق و مغرب میں فتح و کامرانی کے جھنڈے گاڑنے والے بادشاہ کا کیا واقعہ ہے ان دونوں سوالوں کا جواب اس سورت میں دیا گیا ہے۔ اس سورت میں چار واقعات (۱)اصحاب کہف (۲)آدم و ابلیس (۳)موسیٰ و خضر (۴)ذوالقرنین کا ذکر ہے جبکہ دنیا کی بے ثباتی کے بیان کے لئے دو مثالیں دی گئی ہیں۔
ابتداءمیں تمام تعریفوں کا مستحق اللہ کو قرار دے کر بتایا ہے کہ اسی نے واضح اور ہر قسم کی کجی سے پاک و صاف قرآن اتارا ہے پھر اللہ کے لئے اولاد ثابت کرنے والوں کی مذمت کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس سرزمین پر ہر قسم کی نعمتیں اور آسائشیں اتار کر انسان کی آزمائش مقصود ہے۔ پھر اصحاب کہف کا واقعہ شروع کردیا۔ ان کا واقعہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے اور دعوت الی اللہ اور جہاد فی سبیل اللہ کے اس مرحلہ کو بیان کرتا ہے جس میں حکمت عملی کے تحت کارکنوں کو زیرِ زمین ہونا پڑتا ہے۔ حضور علیہ السلام سے تقریباً تین سو سال قبل اردن کے ملک میں دقیانوس نامی بادشاہ تھا، اس نے اپنی حکومت کو مضبوط کرنے کے لئے ملک کے ہر علاقہ سے نمائندے طلب کئے، جن میں چند نوجوان ایسے نکلے جو اس کے کفر و شرک اور ظلم و ستم میں اس کی حمایت کے لئے تیار نہیں تھے۔ انہوں نے بادشاہ سے مہلت طلب کی اور باہمی مشورہ کرکے طے کیا کہ ایمان و کفر میں سے ایک چیز کا انتخاب کرنا ہوگا۔ لہٰذا ایمان بچانے کے لئے یہ لوگ رات ہی رات خاموشی سے نکل کھڑے ہوئے۔ ایک کتابھی ان کے پیچھے ہولیا۔ لمبا سفر کرکے یہ لوگ تھک گئے اور ایک غار میں آرام کے لئے لیٹ گئے اور کتا غار کے دہانے پر بیٹھ کر سوگیا۔ جب یہ لوگ دوسرے روز بادشاہ کو نہ ملے تو انہیں تلاش کرایا گیا اور پھر مایوس ہوکر ان کے نام ایک تختی پرلکھ کر رکھ دیئے گئے۔ یہ لوگ غار میں پڑے سوتے رہے سردی گرمی، دن رات ہرحال میں اللہ نے ان کی حفاظت کی۔ ان کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور یہ کروٹیں بھی بدلتے تھے۔ دیکھنے والا انہیں بیدار خیال کرکے مرعوب ہوکر بھاگ جاتا۔ کتا بھی غار کے دہانہ پر ایسے بیٹھا ہوا سورہا تھا جیسے وہ گھات لگاکر کسی پر حملہ آور ہونا چاہتا ہو جب اللہ نے انہیں بیدار کیا تو آپس میں ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ ہمیں سوتے ہوئے کتنا وقت گزرا ہوگا۔ ان کا خیال تھا کہ ایک دن یا آدھا دن ہوا ہوگا مگر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ شمسی حساب سے تین سو سال اور قمری حساب سے تین سو نوسال تک یہ لوگ سوتے رہے تھے۔ بیدار ہونے پر انہیں بھوک نے ستایا۔ رقم جمع کرکے ایک آدمی کو احتیاط کے تمام پہلو مدنظر رکھتے ہوئے کھانا لینے کے لئے شہر بھیجا، جس ہوٹل سے اس نے کھانا لیا اس کے مالک نے پرانے سکے دیکھ کر اسے پولیس کے حوالہ کردیا۔ اس طرح اسے بادشاہ کے دربار میں پہنچادیا گیا۔ ان دنوں وہاں کا بادشاہ مسلمان تھا مرنے کے بعد زندہ ہونے کا قائل تھا۔ لوگ اس کے عقیدہ کو نہیں مانتے تھے وہ دعائیں کیا کرتا تھا کہ اللہ کی کوئی ایسی نشانی ظاہر ہو کہ وہ اپنی قوم کو صحیح عقیدہ کا قائل کرسکے۔ جب اس نوجوان کو اس کے سامنے پیش کیا گیا اور تحقیقات سے پتہ چلا کہ یہ ان نوجوانوں کا ساتھی ہے، جن کے نام آج سے تین صدیاں قبل ایک تحریر کی شکل میں محفوظ کردیئے گئے تھے تو بہت خوش ہوا۔ لوگ اس واقعہ کو سن کر ایمان لے آئے اور جہاں اصحاب کہف دریافت ہوئے تھے ان کی یادگار کے طور پر مسجد تعمیر کردی گئی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ دوبارہ زندہ کرنے سے ہم لوگوں کو یہی پیغام دینا چاہتے تھے کہ قیامت برحق ہے اور مرنے کے بعد ہر انسان کو زندہ ہونا ہے۔ یہ لوگ تین تھے چوتھا کتا تھا۔ پانچ تھے چھٹا کتا تھا یا سات تھے آٹھواں کتا تھا۔ اللہ ہی جانتے ہیں کہ ان کی صحیح تعداد کتنی تھی اور اس سے کوئی فرق بھی نہیں پڑتا۔ اللہ کی قدرت ہرحال میں ظاہر ہوجاتی ہے۔
کافروں کے سوالوں کے جواب میں حضور علیہ السلام نے فرمادیا تھا کہ کل جواب دے دوں گا اور ان شاءاللہ نہیں کہا تھا۔ اللہ تعالیٰ کو یہ بات ناپسند ہوئی اور فرمایا کہ آئندہ جب بھی کوئی کام کرنا ہوتو ان شاءاللہ کہا کریں۔ پھر قرآن کریم پر غیرمتزلزل ایمان رکھنے اور اسے دوسروں تک پہنچانے کا حکم دیا اور غریب اہل ایمان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کی تلقین فرمائی۔ پھر جنت جہنم کا تذکرہ کیا اور دو دوستوں کی مثال دی جن میں ایک کافر، متکبر اور مال و دولت کا پجاری دوسرا غریب متواضع اور اللہ کی مشیت پر راضی۔ اللہ نے کافر کا مال و دولت تباہ کرکے بتادیا کہ جب اللہ کی پکڑ آجائے تو اس سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ پھر دنیا کی زندگی کی بے ثباتی کی مثال دے کر بتایا کہ بارش کے نتیجہ میں کھیتیاں لہلہانے لگتی ہیں مگر اچانک کسی آفت سے تباہ ہوکر رہ جاتی ہیں اور کسان ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے۔ پھر آدم و بلیس کا قصہ ہے۔ قرآن کریم میں ہر قسم کے انسانوں کی رہنمائی کے لئے مختلف پیرائے اور اسالیب میں دلائل پیش کرنے کا تذکرہ اور اس بات کا بیان ہے کہ اللہ اگر دنیا کو ہلاک کرنا چاہے تو کوئی روک نہیں سکتا۔ مگر اس نے ایک وقت مقرر کیا ہوا ہے اور اس کی رحمت کے تقاضے کے پیش نظر گناہ گاروں کو مہلت دی ہوئی ہے۔ پھر حضرت موسیٰ و خضر علیہما السلام کے واقعہ کا بیان ہے۔ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بڑی زبردست تقریر فرمائی، جس سے لوگ بہت متاثر ہوئے اور پوچھنے لگے کہ آپ سے بڑا کوئی عالم ہے؟ آپ نے اپنی معلومات کے مطابق فرمادیا کہ مجھ سے بڑا اس وقت کوئی عالم نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دنیا کے سب سے بڑے عالم سے ملاقات کے لئے رخت سفر باندھنے کا حکم دیا اور زاد راہ کے طور پر ایک بھنی ہوئی مچھلی ساتھ لینے کے لئے فرمایا۔ حضرت موسیٰ ارشاد خداوندی کے مطابق ایک شاگرد کو ساتھ لے کر مقررہ سمت میں روانہ ہوگئے۔ ساحل سمندر پر آپ کا سفر جاری رہا۔ ایک جگہ تھک کر آرام کرنے کے لئے ٹھہرے تو مچھلی سمندر میں چلی گئی اور ایک سرنگ نما راستہ بناگئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اس سرنگ میں پانی کے اندر چلے گئے، جہاں حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات پر ان سے تحصیل علم کے لئے درخواست کی، انہوں نے فرمایا کہ میرا علم آپ کی قوت برداشت سے باہر ہے۔ آپ میری باتوں پر صبر نہیں کرسکیں گے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے صبر کرنے اور کسی قسم کے سوالات نہ کرنے کا دعویٰ کیا، جس پر موسیٰ و خضر علیہما لسلام ”علمی سفر“ پر سمندر کے کنارے کنارے روانہ ہوگئے۔
 

GraetBoy1234

Active Member
May 18, 2013
281
460
113
Chowk Yadgar, Peshawar
سولہویں پارے کے اہم مضامین
پندرھویں پارے کی چند باقی ماندہ آیتوں سے آج کے تفسیری خلاصہ کی ابتداءکی جارہی ہے۔ ساحل سمندر پر چلتے ہوئے حضرت موسیٰ و خضر علیہما لسلام ایک کشتی میں سوار ہوگئے۔ خضر علیہ السلام نے کشتی پر سوار ہوتے ہی کشتی کو ایک طرف سے توڑ کر عیب دار کردیا۔ موسیٰ علیہ السلام کہنے لگے کہ آپ کشتی کو توڑ کر سواریوں کو غرق کرنا چاہتے ہیں؟ آپ نے بہت خطرناک کام کیا ہے۔ انہوںنے یاد دہانی کراتے ہوئے کہا کہ میں نے آپ کو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ آپ میری باتوں پر صبر نہیں کرسکوگے۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ میں بھول گیا تھا آپ مجھ پر اتنی سختی نہ کریں۔ پھر وہ چل پڑے، راستہ میں ایک بچہ ملا جس کا گلا گھونٹ کر خضر علیہ السلام نے مار ڈالا۔ موسیٰ علیہ السلام سے پھر نہ رہا گیا اور کہنے لگے کہ آپ نے یہ کیا کیا؟ ایک معصوم جان کو قتل کر ڈالا۔ انہوںنے کچھ زور دے کر کہا کہ میںنے نہ کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ نہیں چل سکیں گے۔ موسیٰ علیہ السلام کہنے لگے کہ مجھے آخری موقع دے دیں اگر اس مرتبہ میںنے اعتراض کیا تو آپ کو اختیار ہوگا کہ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیں۔ پھر وہ لوگ چل پڑے اور چلتے چلتے ایک گاﺅں میں جا پہنچے، دونوں حضرات کو لمبے سفر کی بناءپر بھوک لگی ہوئی تھی۔ وہاں کے لوگوں سے کھانا طلب کیا تو انہوں نے کھانا کھلانے سے انکار کردیا۔ گاﺅں میںایک دیوار گرنے والی ہورہی تھی۔ خضر علیہ السلام نے مرمت کرکے اسے درست کردیا۔ موسیٰ علیہ السلام کہنے لگے کہ جب گاﺅں کے لوگوں نے ہمیںکھانا نہیں دیا تو آپ کو چاہئے تھا کہ ان کا کام کرکے معاوضہ وصول کرلیتے تاکہ ہم اس سے کھانا ہی خریدلیتے۔ حضرت خضر علیہ السلام کہنے لگے کہ اب ہمارا مزید اکٹھے رہنا ممکن نہیںہے اس لئے آئندہ کے لئے ہمارے راستے جدا جدا ہوجائیں گے، البتہ گزشتہ جو تین واقعات پیش آئے ہیں میںان کی وضاحت کردیتا ہوں۔ کشتی کو عیب دار بنانے کی وجہ دراصل کشتی کے غریب مالکان کا مفاد تھا کیونکہ آگے سمندری حدود میں ایک ظالم بادشاہ کی عملداری تھی اور وہ ہر اچھی اور نئی کشتی کو بحق سرکار ضبط کرلیتا تھا۔ میں نے اس کشتی کا ایک کونا توڑ دیا جس سے ان غریبوں کی کشتی بچ گئی۔
جس لڑکے کو میں نے قتل کیا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ مستقبل میں آوارہ، بدمعاش، منکر، کفر کا علم بردار بننے والا تھا اور اپنے نیک والدین کے لئے مشکلات کا باعث بننے والا تھا، اسے میں نے قتل کردیا تاکہ اللہ تعالیٰ اس کے والدین کو اس کا نعم البدل عطاءفرما کر اس کے شر سے محفوظ فرمالیں۔ دیوار کی تعمیر کا مسئلہ یہ تھا کہ گاﺅں میںایک نیک سیرت انسان تھا، اس کے بچے چھوٹے چھوٹے تھے کہ اس کے انتقال کا وقت آگیا۔ اس نے اپنا خزانہ زمین میں دفن کرکے اوپر دیوار تعمیر کردی تھی تاکہ بچے بڑے ہوکر وہ خزانہ حاصل کرسکیں اگر دیوار گر جاتی تو لوگ وہ خزانہ لوٹ کر لے جاتے اور یتیموں کا نقصان ہوجاتا اس لئے میں نے گرتی ہوئی دیوار کو سہارا دے کر درست کردیا۔ یہ ان واقعات کی وضاحت ہے جن پر آپ صبر و تحمل کا دامن چھوڑ بیٹھے تھے۔ پھر قرآن کریم نے مشرکین کے تیسرے سوال کا جواب دیتے ہوئے صالح بادشاہ کے حالات بیان فرمائے ہیں کہ وہ مشرق و مغرب اور جنوب کی تینوں اطراف میں فتح و کامرانی کے پھریرے لہراتا ہوا پہنچا اور وہاں کے باشندوں کو ہر قسم کا فائدہ پہنچانے میں اس نے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ جنوب کے پہاڑی سلسلہ کے باشندوں کا ایک دیرینہ اور پیچیدہ مسئلہ یہ تھا کہ یاجوج ماجوج کے جنگجو دستے ان پر حملہ آور ہوکر انہیں مسلسل نقصان پہنچاتے رہتے تھے، سکندر ذوالقرنین نے لوہے اور پیتل کے جوڑ سے ایک آہنی دیوار ”سدسکندری“ تعمیر کرکے ان کے حملوں کا سلسلہ بند کروا دیا جس سے وہاںکے باشندوں کو امن نصیب ہوا۔ اب قرب قیامت میں جب اللہ چاہیں گے یاجوج ماجوج کا ٹڈی دل اس دیوار کو توڑنے میںکامیاب ہوجائے گا اور اس وقت کے لوگوں پر تاخت و تاراج کرکے ان کے لئے مسائل و مشکلات پید اکرے گا، جس کے بعد قیامت قائم ہوجائے گی۔
سورہ مریم
ابتداءسورت میں زکریا علیہ السلام کی اولاد کے حصول کے لئے رقت انگیز دعا اور ان کے لئے بیٹے کی بشارت اور پھر یحییٰ علیہ السلام جیسے نابغہ روزگار بیٹے کی ولادت کی اطلاع ہے۔ اس کے بعد مریم علیہا السلام کے ہاں عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کا ایمان افروز تذکرہ ہے کہ وہ غسل کے لئے تیاری کررہی تھیں کہ ایک شخص ان کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا، وہ اسے انسان سمجھ کر اللہ کی پناہ مانگنے لگیں مگر اس نے بتایا کہ وہ انسان نہیں بلکہ فرشتہ ہے اور اللہ کے حکم سے بیٹے کی بشارت دینے آیا ہے۔ انہیں تعجب ہوا کہ شوہر کے بغیر کیسے بیٹا پیدا ہوگا۔ انہیں بتایا گیا کہ اللہ کے لئے یہ بات کوئی مشکل نہیں ہے۔ چنانچہ وہ امید سے ہوگئیں اور جب ولادت کا درد شروع ہوا تو پریشان ہوکر کہنے لگیں کہ کاش تکلیف اور رسوائی کا یہ وقت آنے سے پہلے ہی وہ انتقال کرچکی ہوتیں۔ وہ اس وقت ویرانے میں کھجور کے ایک خشک تنے کے سہارے بیٹھی ہوئی تھیں۔ فرشتے نے ندا دی کہ آپ کے نچلی جانب نہر جاری ہے۔ کھجور کو جھنجوڑ کر پھل حاصل کریں اور نہر سے پانی پئیں اور بچہ کو دیکھ کر اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان کریں اور اگر کوئی پوچھے تو بتادیں کہ میں نے ”چُپ“ کا روزہ رکھا ہوا ہے۔ اس بچہ سے پوچھ لو۔ جب وہ بچہ کو گود میں لئے ہوئے بستی میں پہنچیں تو لوگوںنے اعتراضات کی بوچھاڑ کر دی۔ تمہارے والد صاحب ایک صالح انسان تھے تمہاری والدہ نیک خاتون تھیں پھر تم نے اتنا بڑا حادثہ کیسے کردیا؟ بچہ بول اٹھا کہ میں اللہ کا بندہ اور بابرکت رسول بنایا گیا ہوں۔ مجھے نماز اور زکوٰة کے اہتمام کی تعلیم دے کر بھیجا گیا ہے۔ میں صلاح و تقویٰ کا پیکر اور والدہ کا فرماں بردار ہوں۔ بچہ کی اس گفتگو نے مریم کو پاک باز بھی ثابت کردیا اور اللہ کی قدرت کو ثابت کرکے لوگوںکے تعجب میں بھی اضافہ کردیا۔ یہ تھے مریم کے بیٹے عیسیٰ۔ یہ اللہ کے بیٹے نہیں بلکہ اللہ کے حکم ”کن فیکون“ کے کرشمہ کے طور پر ظاہر ہوئے۔ پھر ابراہیم علیہ السلام کی صداقت و نبوت کے اعلان کے ساتھ ان کا مکالمہ توحید مذکور ہے جو انہوںنے اپنے والد سے کیا اور اس میں کفر کی بداخلاقی اور نبی کے اخلاق کا بھرپور مظاہرہ کیا گیا ہے۔ پھر موسیٰ و ہارون کی نبوت اور کوہِ طور پر اللہ سے ہمکلامی کا تذکرہ پھر اسماعیل علیہ السلام کی نبوت و رسالت اور وعدہ کی پاسداری اور نماز اور زکوٰة کے اہتمام کا ذکر۔پھر ادریس کی صداقتِ نبوت کا ذکر، پھر اس بات کا بیان کہ تمام انبیاءعلیہم السلام ایک ہی انعام یافتہ سلسلہ کی کڑیاں ہیں اور اس سلسلہ کے بانی آدم و نوح و ابراہیم علیہم السلام ہیں۔ یہ لوگ ہمارے منتخب اور ہدایت یافتہ افراد کے سرخیل تھے۔ بعد میں لوگ خواہشات کے پیچھے چل کر ان کے برگزیدہ افراد کے نقش قدم سے ہٹ گئے اور نماز کے ضائع کرنے والے بن کر جہنم کی خطرناک وادی ”غیّ“ کے مستحق بن گئے، لیکن توبہ کرکے ایمان و اعمال صالحہ کی پابندی کرنے والے ظلم سے محفوظ ہوکر جنت کے حقدار ٹھہرے۔ پھر انسان کی مرنے کے بعد دوبارہ زندگی کا تذکرہ کرتے ہوئے قیامت کے منکرین کو کھری کھری سنائی گئی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے لئے اولاد کے عقیدہ کی بھرپور مذمت کی گئی ہے۔ یہ ایسا بدترین عقیدہ ہے کہ اس کی نحوست سے آسمان گرجانے چاہئیں اور زمین پھٹ جانی چاہئے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجانے چاہئیں۔ اللہ کی اولاد نہیں سب اللہ کے بندے اور مملوک ہیں۔
سورہ طہ
اس سورت میں بہت تفصیل کے ساتھ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تذکرہ ہے اور میدانِ محشر کی منظر کشی اور اختصار کے ساتھ قصہ آدم و ابلیس ہے اور دعوتِ الی اللہ کے لئے آخر میں کچھ زریں ہدایات دے کر سورت کو ختم کردیا گیا ہے۔ ابتداءمیں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ نزول قرآن کا مقصد انسانی مشکلات و پریشانیوں میں اضافہ نہیں بلکہ نصیحت و خیرخواہی ہے۔ اس کے بعد توحید کا بیان ہے اور موسیٰ علیہ السلام کا تفصیلی واقعہ شروع ہوجاتا ہے۔ ابتدائی حصہ کو یہاں نظر انداز کرکے موسیٰ علیہ السلام کی زوجہ کے ہمراہ مدین سے واپسی کے تذکرہ سے واقعہ شروع کیا گیا ہے۔ زوجہ امید سے تھیں دردزہ شروع ہوچکا تھا۔ سامنے آگ جلتی ہوئی دیکھ کر موسیٰ علیہ السلام آگ لینے کو گئے، پیمبری مل گئی۔ موسیٰ علیہ السلام کو بتایا گیا کہ یہ آگ نہیں تمہارے رب کی تجلی ہے۔ وادی مقدس کے احترام میں جوتے اتارنے کے حکم کے ساتھ ہی پروانہ نبوت عطاءکرکے توحید کا پیغام نبی اسرائیل کے لئے دے کر نماز کے اہتمام کی تلقین کی گئی ۔ عصا سے اژدھا اور ہاتھ کو روشن و چمکدار بناکر دو معجزات عطاءفرماکر فرعون جیسے سرکش و باغی حکمران کے دربار میں توحید کا ڈنکا بجانے کے لئے روانگی کا حکم دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے گفتگو کا سلیقہ اور زبان میں تاثیر کی دعاءکے ساتھ ہی معاون کے طور پر اپنے بھائی ہارون کو بھی منصب نبوت پر فائز کرنے کی درخواست کی۔ اللہ تعالیٰ نے سابقہ احسانات کی یاد دہانی کراتے ہوئے اپنا ماضی یاد رکھنے کا سبق دیا اور اخلاق فاضلہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اللہ کی یاد میں رطب اللسان رہنے اور نرم گفتاری کے ساتھ فرعون سے خطاب کرنے کی تلقین فرمائی۔ فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کو بحث بازی میں الجھاکر مقصد سے ہٹانے کی کوشش کی، لیکن موسیٰ علیہ السلام کی نپی تلی گفتگو سے فرعون کٹ حجتی اور دھمکیوں پر اتر آیا۔ موسیٰ علیہ السلام کو جادوگر اور اقتدار کا بھوکا قرار دے کر کہنے لگا کہ آپ اپنے جادو کی مدد سے مجھے اقتدار سے بے دخل کرکے قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہم بھی چوٹی کے جادوگر بلاکر آپ کا مقابلہ کریں گے۔ عید کے روز مقابلہ طے ہوا۔ جادوگر آگئے اور موسیٰ علیہ السلام کو مرعوب کرنے اور اپنی قابلیت جتلانے کے لئے انہوں نے عصا اور رسی کی مدد سے دو دو سانپ بنائے۔ موسیٰ علیہ السلام کی طبعی گھبراہٹ پر اللہ نے تسلی دی اور لاٹھی پھینکنے کا حکم دیا وہ اژدھا بن کر دیکھتے ہی دیکھتے تمام سانپوں کو نگل گئی، جس پر جادوگر مسلمان ہوگئے۔ فرعون نے انہیں قتل کی دھمکی دی۔ جب وہ نہ مانے تو انہیں پھانسی پر لٹکادیا۔ پھر موسیٰ علیہ السلام کو بحر قلزم سے پار کرایا اور فرعون کو سمندر میں غرق کردیا۔ موسیٰ علیہ السلام تورات لینے کے لئے کوہ طور پر تشریف لے گئے۔ وہاں چالیس دن تک عبادت و ریاضت میں لگے رہے اور پھر کتاب لے کر واپس آئے تو قوم بچھڑے کو معبود بناکر شرک میںمبتلا ہوچکی تھی۔ سامری کا کہنا تھا کہ جبریل کے نشان قدم کی مٹی میں نے سنبھال کر رکھی ہوئی تھی۔ بنی اسرائیل کے پاس فرعونیوں کے زیورات کا سونا جو کہ یہ لوگ مصر سے نکلتے وقت اپنے ہمراہ لے آئے تھے جمع کرکے آگ میں پگھلا کر اسے بچھڑے کی صورت میں ڈھالا اور اس کے منہ میں جبریل کے نشان قدم کی مٹی ڈالی تو وہ جگالی کرنے اور گائے جیسی آوازیں نکالنے لگا۔ چنانچہ اس نے بنی اسرائیل کو باور کرالیا کہ یہ تمہارا معبود ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کا معبود تمہیں بھلا چکا ہے۔ قوم اس کے بہکاوے میں آکر گﺅ سالہ پرستی میںمبتلا ہوگئی، موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور سے واپس آکر سخت ناراض ہوئے، حضرت ہارون کو ڈانٹا، ان کے سر اور داڑھی کے بال پکڑ کر گھسیٹا مگر حضرت ہارون کا معقول عذر تھا کہ قوم سمجھانے کے باوجود باز نہیں آئی بلکہ مشتعل ہوکر انہیں قتل کرنے پر آمادہ ہوگئی اور جان کے خوف اور انتشار کے ڈر سے خاموشی اختیار کرنی پڑی۔ پھر موسیٰ علیہ السلام نے سامری کو بلا کر فرمایا کہ دیکھو ہم تمہارے معبود کا کیا حشر کرتے ہیں۔ بچھڑے کو آگ میںجلا کر راکھ بنادیا اور سامری کو بددعا دی کہ اگر کسی سے اس کا جسم چھو جائے تو بخار میںمبتلا ہوجائے۔ چنانچہ سامری جب بھی گھر سے باہر نکلتا تو بخار میںمبتلا ہونے کے خوف سے چلاتا اور شور مچاتا ”لامساس، لامساس“ مجھے کوئی ہاتھ نہ لگائے۔ مجھے کوئی ہاتھ نہ لگائے۔ اسی طرح زندگی بھر شور مچاتا ہوا مر گیا، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ پہلے انبیاءاور ان کی اقوام کے واقعات سنا کر ہم آپ کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ کفر و شرک اور گناہوں کا بوجھ لادنے والے قیامت کے دن کیری آنکھوں اور سیاہ چہرے والے اپنے جرائم پر ملنے والی سزا کے تصور سے تھر تھرا رہے ہوں گے۔ قیامت کے دن اللہ کے خوف سے پہاڑ ریزہ ریزہ ہوکر ہوامیں اڑنے لگیں گے، زمین ایک ہموار چٹیل میدان میں تبدیل ہوجائے گی اور ہر انسان دم بخود بے حس و حرکت ہوگا کسی کی سفارش نہیں چلے گی لیکن ایمان و اعمال صالحہ والوں کو کوئی خوف اور غم نہیں ہوگا۔ ہم نے قرآن کریم کو عربی زبان میں اتار کر ایک ہی بات کو مختلف اسالیب میںبیان کیا ہے تاکہ تمہیں نصیحت اور تقویٰ حاصل ہوسکے۔ اس لئے قرآن کریم کو ٹھہر ٹھہر کر غور و خوض کرکے پڑھا کرو اور اللہ تعالیٰ سے اپنے علم میں اضافے کی دعاءمانگتے رہا کرو۔
پھر آدم علیہ السلام کا تذکرہ کہ انہیں مسجودِ ملائک بنایا مگر ابلیس سجدہ سے انکاری بنا۔ ہم نے آدم علیہ السلام کو بتادیا کہ یہ تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے۔ کہیں تمہیں جنت سے نکلوا کر مشکلات میںمبتلاءنہ کردے۔ جنت میں آپ کی تمام بنیادی ضرورتیں پوری کی جائیں گی، بھوک اور پیاس کا انتظام کردیا جائے گا اور لباس اور چھت کا بندوبست بھی ہوگا، لہٰذا نہ آپ کو بھوک اور پیاس ستائے گی اور نہ ہی جسم ڈھانپنے اور دھوپ سے بچاﺅ کے لئے آپ کو پریشانی ہوگی۔ مگر آپ کو فلاں مخصوص درخت کے قریب نہیں جانا ہوگا۔ شیطان نے مختلف حیلے بہانے سے آدم علیہ السلام کو اللہ کا عہد بھلا کر وہ درخت کھانے پر آمادہ کرلیا اور بتایا کہ اس درخت کو کھا کر آپ دائمی طور پر جنت میں سکونت پذیر ہوجائیں گے۔ مگر نتیجہ برعکس نکلا اور اس طرح حضرت آدم کو خلد سے نکل کر اس دنیا کے دارالامتحان میں آنا پڑ گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ اللہ کے نازل کردہ آسمانی نظام حیات سے روگردانی اس انسان کے تمام مسائل کی جڑ اور معیشت کی تباہی کا سبب ہے۔ دعوت الی اللہ کا کام کرنے والوں کو تلقین فرمائی کہ معاندین کی باتوں کو صبر و تحمل سے برداشت کریں۔ صبح وشام، دن اور رات میں تسبیح و تحمید کا اہتمام رکھیں۔ کافروں کے لئے وسائل زندگی کی فراوانی اور عیش و عشرت کو للچائی ہوئی نگاہوں سے نہ دیکھیں۔ خود بھی نماز کی پابندی کریں اور اپنے اہل خانہ کو بھی نماز کا پابند بنائیں اور اعلان کردیں ہر ایک کو اس کے عمل کا بدلہ ملے گا۔ لہٰذا تم بھی انتظار کرو ہم بھی انتظار کررہے ہیں۔ عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ کون راہ ہدایت پر ہے اور کون ضلالت و گمراہی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرا ہوا ہے۔
 
Top