Anchal (september 2012)

  • Work-from-home

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313

’’اماں! خیریت اس وقت۔‘‘
’’کیوں بھئی اس وقت کیا ہے؟ بازار کے بکھیڑے تو اسی وقت نمٹائے جائیں گے۔‘‘ وہ بولیں۔
’’اماں! آج پہلا روزہ تھا‘ بہت عجیب سی کیفیت ہے۔ ‘‘ اس نے عذر پیش کیا۔
’’زریاب! دماغ ٹھیک ہے تمہارا‘ روزے کے ساتھ بازاروں کے چکر نہیں لگتے‘ چلو ضروری جاناہے۔‘‘ انہوں نے اسے لتاڑا کہ زریاب گم صم سا حنا بھابی کا منہ دیکھنے لگا۔ اماں اپنا بٹوہ اور سامان کی فہرست اٹھائے کمرے میں گئیں تو بولا۔
’’بھابی! اماں کو بتادینا چاہیے‘ راحمین بہت ضدی لڑکی ہے‘ بعد میں اماں بہت خفا ہوں گی۔‘‘
’’نہیں! میں نے طاہرہ مامی کو بتادیاہے‘ اب جو کہنا ہے وہ کہیں اور کچھ دیر پہلے اماں نے اشرف ماموں اور طاہرہ مامی سے بات کی ہے‘ انہوں نے انکار کیا ہوتا تو اماں بتادیتیں۔‘‘
’’توپھر۔‘‘
’’پھر یہ کہ اللہ پر توکّل رکھ کے خاموشی سے ویسا کرو‘ جیسا اماں چاہتی ہیں۔‘‘
’’لیکن…‘‘
’’لیکن کیا…؟‘‘ اماں نے آتے ہوئے پوچھا۔
’’کچھ نہیں‘ آیئے چلیں۔‘‘ زریاب ٹال گیا۔ حنا اور اماں ساتھ ساتھ چلنے لگیں۔
زریاب دل ہی دل میں راحمین کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اسے اب تک یقین نہیں آیا تھا کہ راحمین شادی سے انکار کرے گی۔ جس سے وہ شدید محبت کرتا ہے اور جسے خود راحمین نے بھی پسند کیا‘ منگنی کی انگوٹھی پہنتے ہوئے کتنے خوب صورت انداز میں شرمائی تھی‘ اب اسے کیا ہوگیا۔ کہیں اور کوئی تو… اتنا سوچ کر ہی وہ بے قرار ہوگیا۔
…٭٭٭…
اشرف صاحب نے طاہرہ کو بتایا تو وہ پھٹ پڑیں۔
’’اشرف! آپ کو کیا ہوگیا ہے۔ بیٹی نے بچوں کا کھیل سمجھا اورآپ نے مان لیا۔‘‘
’’تو کیا کروں؟ کیا ضرورت تھی ڈرانے کی۔ ارے بچی ہے شادی کے بعد خود سمجھ جاتی۔‘‘ وہ بھی غصے سے بولے۔
’’برسبیل تذکرہ چھوٹی سی نصیحت کردی تو اسے ضد بنالیا‘ کتنی نامعقول بات ہے‘ اپنی بہن کا سوچیں اور اپنی عزت کا سوچیں لوگ کیا کہیں گے۔ آپ باپ ہیں۔‘‘ وہ بہت جذباتی ہوگئیں۔

’’اچھا! کچھ حل نکالتے ہیں۔‘‘ وہ نرم پڑگئے۔
’’کس بات کا حل؟ شادی ہوگی بس۔‘‘
’’سوچتا ہوں‘ تم اسے کچھ نہ کہنا۔‘‘
’’مجھے خاموش کراکرا بیٹی کو خود سر اور بدتمیز بنادیا ہے۔ انگریزی تعلیم کے سوا کیا ہے اس کے پاس۔ نا نماز‘ نا روزہ‘ دین اور دنیا دونوں ہی اکارت۔‘‘ طاہرہ بڑبڑاتی ہوئی چلی گئیں تو اشرف صاحب آفس کے لیے تیار ہونے لگے۔
مزید دو روز خاموشی کی نذر ہوگئے پھر اتفاقاً نغمہ آپا کی علالت کی اطلاع آئی تواشرف صاحب نے فوری طور پر سب کے ساتھ لاہور جانے کا فیصلہ کیا۔ راحمین کو کوئی اعتراض نہیں ہوا۔ وہ بڑے نارمل انداز میں ہنستی مسکراتی ساتھ گئی۔ نغمہ آپا کا شوگر لیول کم ہوگیا تھا۔ دو روز ٹھہر کر اشرف صاحب‘ طاہرہ اور اماں جان واپس آگئے۔ حنا کے سمجھانے پر راحمین کو چند دن کے لیے چھوڑ آئے۔ آتے ہوئے طاہرہ نے زریاب اور حنا کو راحمین کے انکار کی وجہ بتادی جس پر وہ دونوں مطمئن ہوگئے۔ انہیں راحمین کے معصوم سے انکار کی وجہ نے بہت لطف دیا‘ راحمین نے رکنے پر ہچکچاہٹ کی لیکن پھر حنا کے اصرار پر رک گئی۔ زریاب تو اس سے ویسے بھی کھچا کھچا تھا لیکن راحمین کو کہاں اس بات کی پروا تھی۔ وہ ماں باپ کے یہاں سے خاموشی سے جانے پر حیران تھی۔ دادی کو بھی اس نے کئی بار ٹٹولا مگر شادی سے انکار والی بات کسی نے نہیں کی بس طاہرہ نے فقط جاتے ہوئے اتنا کہا۔
’’شادی کے معاملے میں زبان بالکل بند رکھنا‘ جو کہنا سننا ہے‘ وہ ہم کہیں گے۔ نغمہ آپا کی طبیعت ناساز ہے فی الحال ایسی کوئی بات نہیں کرنی۔‘‘ طاہرہ کی بات پر وہ چپ ہوگئی۔
اس وقت وہ حنا بھابی اور ننھے چاند کے ساتھ پھوپو کے پاس بیٹھی تھی۔ تبھی زریاب آگیا اور اسے نظر انداز کرتے ہوئے حنا سے بولا۔
’’بھابی! یہ گلاب دین اور جمیلہ کہاں ہیں؟‘‘
’’ہاں‘ وہ اپنے گائوں گئے ہیں‘ گلاب دین کی اماں کی طبیعت خراب ہے۔ ایک ہفتے کی چھٹی پر گئے ہیں۔‘‘ حنا نے بتایا۔
’’اور اب گوشت سبزی‘ پھل کون سنبھالے گا اور سب چیزیں کچن میں رکھی ہیں میں نے؟‘‘ وہ بولا۔
’’اوہ! میں تو چاند کو نہلانے جارہی ہوں‘ پلیز راحمین سب چیزیں دیکھ لو۔‘‘ حنا نے براہ راست راحمین کو مخاطب کیا تو وہ جز بز سی اٹھی اور ہکلائی۔
’’جی… جی… میں جاتی ہوں۔‘‘ وہ جانے لگی تو زریاب کو جیسے یاد آگیا۔
’’بھابی! میری شرٹ بھی استری نہیں ہے۔‘‘
’’راحمین میری جان! کچن سے فارغ ہوکر صرف ایک شرٹ زریاب کی استری کردینا‘ باقی میں کردوں گی۔‘‘
’’جی…؟‘‘ راحمین کے منہ سے کچھ عجیب سے اندا زمیں نکلا۔ زریاب باہر نکل گیا تو راحمین بھی باہر نکل آئی۔
راحمین نے شاید زندگی میں پہلی مرتبہ کام کرنے تھے‘ وہ پریشان حال کچن میں سب چیزوں کو دیکھ رہی تھی۔ زریاب نے دانستہ جھانک کر دیکھا اور اندر آگیا۔
’’پریشان ہو۔‘‘ وہ بولا۔
’’یہ سب چیزیں کہاں اور کیسے رکھنی ہیں؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’گوشت صاف کرکے دھونا اور پھر پانی نکلنے کے بعد ڈیپ فریزر میں رکھو۔ سبزیاں اور پھل دھوکر فریج میں رکھتے ہیں۔‘‘ زریاب یہ کہہ کر چلا گیا‘ وہ سر تھام کے رہ گئی۔ اتنے مشکل کام…
شرٹ الٹی سیدھی استری کرکے فارغ ہوئی تو سر میں درد ہورہا تھا۔ جسم تھکن سے چُور تھا۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کس سے ایک کپ چائے بنوائے؟ حنا بھابی روزے سے تھیں انہیں بھی نہیں کہہ سکتی تھی۔ لہٰذا بیڈ پر تکیے میں منہ دے کر سوگئی۔ آنکھ حنا بھابی کی آواز پر کھلی۔
’’راحمین! پلیز افطار کا وقت ہورہا ہے‘ کچن میں میری مدد کرادو۔‘‘
’’جی‘ میں…؟‘‘ وہ بمشکل یہ کہہ کر اٹھی۔
’’جلد آجائو‘ پکوڑے اور فروٹ چاٹ تم بنالو۔‘‘ حنا بھابی یہ کہہ کر چلی گئیں۔ اسے اچھا نہیں لگا کیوں کہ ایسا کوئی کام اسے آتا ہی نہیں تھا۔ زریاب نے کمرے میں جھانکا تو وہ جلدی سے بولی۔
’’زریاب!‘‘
’’جی!‘‘
’’مجھے واپس جانا ہے۔‘‘
’’اتنی جلدی۔‘‘ وہ چونکا۔
’’وہ بس‘ مجھے کچھ آتا نہیں‘ شرمندگی سے بہتر ہے کہ چلی جائوں۔‘‘ وہ خاصی نرمی سے بولی۔
’’بس اتنی سی بات ہے‘ حنا بھابی سے پوچھ لیا کرو‘ وہ سب کچھ سیکھادیں گی۔‘‘
’’مجھے ایسے کام نہیں سیکھنے۔‘‘ وہ بولی۔
’’تو پھر نہ سیکھو‘ پریشانی کیا ہے؟‘‘
’’ایسے کاموں سے میرا کوئی واسطہ نہیں‘ اسی لیے تو شادی نہیں کرنا چاہتی۔‘‘ وہ نظریں چراتے ہوئے بولی۔
’’اچھا فیصلہ ہے‘ اسی لیے اب میری شادی ایسی لڑکی سے ہورہی ہے جسے سب کاموں سے دلچسپی ہے۔‘‘ زریاب نے جواب دیا تو وہ حیران سی دیکھتی رہ گئی۔ وہ چلا گیا تو نہ چاہتے ہوئے بھی وہ کچن میں پہنچ گئی۔ حنا بھابی تیزی سے افطاری کے کاموں میں مصروف تھیں۔
افطار کا وقت قریب تھا۔ اس نے حنا بھابی کی ہدایت کے مطابق میزپر برتن لگائے‘سب تیار شدہ چیزیں لاکر رکھیں۔ کچھ ہی دیر میں اوصاف اور زریاب آگئے۔ نغمہ آپا نے تو طبیعت خرابی کے باعث روزہ نہیں رکھا تھا۔ اس کا بھی روزہ نہیں تھا‘ زریاب نے سب چیزوں کو غور سے دیکھا اور تعریف کی۔
’’بھئی پکوڑے اور فروٹ چاٹ راحمین نے بنائے ہیں۔‘‘ حنا بھابی نے کہا۔
’’مزہ تو تب ہے کہ راحمین روزے بھی رکھے۔‘‘ زریاب نے گھڑی پر نگاہ ڈالتے ہوئے کہا۔ راحمین خجالت سے مسکرادی۔ اوصاف بھائی نے اس کی طرف سے کہا۔
’’یہ کون سی بڑی بات ہے سب کے ساتھ اٹھے گی تو روزہ بھی رکھ لے گی۔‘‘ وہ کچھ نہ بولی۔
پھر ایسا ہی ہوا۔ حنا بھابی نے اسے گہری نیند سے جگادیا۔
’’راحمین! چاند کو ٹمپریچر سا ہے‘ سو نہیں رہا ذرا سحری کے لیے آملیٹ تو بنائو میں آتی ہوں۔‘‘ اسے بہت غصہ آیا مگر بول نہ سکی‘ اٹھنا پڑا۔ منہ پر پانی کے چھینٹے مارے‘ دوپٹا لیا اور باہر نکلی۔ تیزی سے اپنی فہم کے مطابق آملیٹ بنایا‘ حنا بھابی نے پراٹھے بنائے‘ اس نے چائے کا پانی رکھا‘ برتن لگائے‘ سب کے ساتھ کھانا پڑا۔ حنا بھابی نے بآواز بلند روزہ رکھنے کی دعا پڑھی پھر اوصاف اور زریاب مسجد گئے تو حنا بھابی نے اس کے ساتھ فجر کی نماز پڑھی‘ نماز پڑھ کر اسے کافی اچھالگا۔ نغمہ پھوپو کی آواز آئی تو وہ ان کے پاس آگئی۔ گلابی دوپٹے کے ہالے میں اس کا چہرہ دیکھ کر نغمہ پھوپو کھل اٹھیں۔
’’ماشاء اللہ! جیتی رہو‘ کتنا نور ہے میری بیٹی کے چہرے پر۔‘‘ وہ خوش ہوگئی۔
’’آپ کے لیے چائے لائوں۔‘‘ پہلی بار اس نے پوچھا۔
’’نہیں‘ بس مجھے الماری سے قرآن پاک نکال کر دو۔‘‘
’’جی بہتر!‘‘ اس نے جلدی سے الماری کھول کر سبز غلاف شدہ قرآن پاک نکالا اور انہیں تھمادیا۔
’’جائو جاکر آرام کرلوبیٹا!‘‘ انہوں نے کہا تو وہ اٹھ کر آگئی۔
زریاب سے پھوپو کے کمرے کے باہر ٹکرائو ہوگیا۔ دوپٹے میں پاکیزہ پاکیزہ سی راحمین بہت اچھی لگی۔ نظریں اس کے چہرے پر جم سی گئیں مگر اس کے بولنے سے بوکھلایا۔
’’زریاب! ایسے کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘
’’ہاں‘ وہ تم بالکل میری ہونے والی بیوی جیسی لگ رہی ہو‘ سوری…!‘‘
’’حیرت ہے۔‘‘
’’حیرت کی کوئی بات نہیں ہے‘ تم اس سے ملو گی تو دیکھتی رہ جائو گی۔‘‘
’’تو کب ملوا رہے ہیں اس سے۔‘‘
’’ان شاء اللہ عید کے بعد۔‘‘
’’مجھے بتانے کی ضرورت نہیں۔‘‘ وہ آگے بڑھ گئی‘ زریاب کو ہنسی آگئی۔
وہ کمرے میں آکر بھی کافی ڈسٹرب سی رہی۔ ذرا دیر کو بیڈ پر دراز ہوئی تو حنا بھابی کافی سارے کپڑے اٹھائے اس کے پاس آگئیں۔
’’راحمین! یہ کپڑے ٹیلر کو دینے ہیں‘ بتائو تو کیسے سلنے چاہئیں؟‘‘

’’میں کیسے بتائوں؟‘‘
’’بھئی وہ لڑکی بہت ماڈرن ہے سمجھ میں نہیں آرہا کیسے سلوائے جائیں؟‘‘
’’اسی سے پوچھ لیں۔‘‘ وہ بولی۔
’’ارے واہ! تم سے کیوں نہ پوچھیں بلکہ تم ساتھ جائو‘ زریاب لے جائے گا۔‘‘ اسی وقت نغمہ بیگم نے وہاں آتے ہوئے کہا۔
’’مگر پھوپو!‘‘ وہ کترائی۔
’’اچھا ہے نا‘ تمہارے مشورے سے سل جائیں گے۔‘‘ حنا نے کہا۔ نغمہ بیگم جونہی کمرے سے گئیں تو حنا نے سنجیدگی سے کہا۔
’’راحمین! دراصل اماں کو تمہارے انکار کا ابھی بتایا نہیں۔‘‘
’’تو تیاری…‘‘ اسے حیرت ہوئی۔
’’زریاب کے دوست کی بہن فریحہ‘ زریاب کو پسند ہے ہم نے خاموشی سے ان سے بات کی ہے‘ ذرا اماں کی طبیعت بہتر ہوجائے تو بتادیں گے۔‘‘
’’آپ اور زریاب پھوپو جانی کو دھوکا دے رہے ہیں؟‘‘ اسے بہت غصہ آیا۔
’’نہیں‘ مصلحت کا تقاضایہ ہے۔‘‘
’’زریاب کی پسند کا پھوپو کو پتا ہونا چاہیے‘اسے غصہ آرہا تھا۔‘‘ حنا نے واضح طور پر محسوس کیا۔
’’رحمین! زریاب کی پہلی پسند تم ہی تھیں مگر تم نے کیونکہ انکار کردیا ہے تو گھر کی عزت بچانے کے لیے فریحہ کا انتخاب کیا ہے۔‘‘ حنا بولیں۔
’’محبت کا محور بدل گیا نا۔‘‘ اس نے طنز کیا۔
’’کس نے بدلا؟‘‘ حنا نے بھی طنزیہ لہجے میں پوچھا۔
’’چھوڑیئے‘ مجھے کیا بس مجھے واپس جانا ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے جیسی تمہاری مرضی۔‘‘
’’مرضی تو زریاب کی چلی۔‘‘
’’لیکن پہل تم نے کی۔‘‘
’’ٹھیک ہے… ٹھیک ہے‘ مجھے واپس جانا ہے پلیز اوصاف بھائی سے کہیں کہ ڈرائیور کے ساتھ بھیج دیں۔‘‘
’’اوکے رات کہہ دوں گی۔‘‘ حنا نے جواب دیا اور باہر چلی گئی۔ تب اسے بہت غصہ آیا‘ کھٹ سے پپا کو فون ملایا اور انہیں بھی آنے کو کہا وہ تو بے قرار ہوگئے۔ وہیں سے دلاسے دیئے اور اوصاف کو کہنے کا یقین دلایا۔
حنا اور زریاب بازار گئے تھے‘ عصر کاوقت ہورہا تھا اور وہ اب تک نہیں لوٹے تھے۔ تب نغمہ پھوپو نے چاند کو اس کے حوالے کیا۔
’’ارے بیٹا! تم چاند کو سنبھال لو‘ میں ذرا کچن میں جائوں کھانا بنانا ہے۔ افطار کا بندوبست کرنا ہے۔‘‘
اس نے بڑے سلیقے سے روتے ہوئے چاند کو بازوئوں میں بھرلیا۔ روزے کی وجہ سے شدید نقاہت محسوس ہورہی تھی کیونکہ عادت ہی نہیں تھی۔ بڑی مشکل سے وقت گزر رہا تھا ایسے میں چاند کو سنبھالنا مشکل کام تھا خیر تھپک تھپک کے اسے سلایا تو اخلاقاً کچن میں آگئی۔ نغمہ پھوپو اکیلی مصروف تھیں۔
’’ارے تم سوئیں نہیں۔‘‘وہ بولیں۔
’’نیند نہیں آرہی۔‘‘
’’چلو یہ لو دہی بھلے مکس کرو‘ وقت منٹوں میں گزر جائے گا۔‘‘ انہوں پھینٹا ہوا دہی کا بڑا سا ڈونگا اسے پکڑاتے ہوئے کہا۔ اس کے ذہن میں آیا کہ وہ پھوپو کو حقیقت بتادے لیکن باہر گاڑی کی آواز پر چپ ہوگئی۔
’’راحمین ! بچے آئو پہلے عصر کی نماز پڑھ لیتے ہیں۔‘‘
’’جی! وہ سب کام چھوڑ کر ان کے ساتھ باہر آگئی۔‘‘
نمازسے فارغ ہوتے ہی حنا نے نغمہ پھوپو کو ان کے کمرے میں بھیج دیا اور خود اسے لیے کچن میں آگئی۔ سالن میں کچھ کثر باقی تھی‘ پکوڑوں کامسالا تیار تھا‘ رائتہ تیار تھا۔


 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
’’آج تو تھک گئی ہوں۔‘‘ حنا ہینڈیا میں چمچہ چلاتے ہوئے بولی۔
’’آپ رہنے دیں‘ میں دیکھتی ہوں۔‘‘ اسے اخلاقاً کہنا پڑا۔
’’ارے نہیں‘ یہ سب چیزیں زندگی کا حصہ ہیں‘ شادی کی تیاری تو اچھا شگن ہے اور یہ باورچی خانے کی گہما گہمی بہت بڑی برکت ہے۔ مجھے عادت ہے۔‘‘ حنا نے بڑے سلیقے سے کہا۔
’’دراصل ملازم بھی تو چھٹی پر ہیں۔‘‘
’’ہاں! لیکن میں اور اماں ملازمین پر بھروسا نہیں کرتے۔ بھلا کام کاج سے بھی کچھ ہوتا ہے۔ عورت کی پہچان ہی گھرداری ہے۔‘‘ حنا نے یخنی میں بھیگے ہوئے چاول ڈالتے ہوئے بتایا تو وہ ٹھٹکی۔
’’یہ گھر داری اتنی ضروری کیوں ہے؟‘‘
’’اس لیے کہ گھر اسی سے چلتا ہے‘ بنتا ہے۔ لاکھ ملازم ہوں مگر لڑکیوں کو دلچسپی لینی پڑتی ہے۔‘‘ حنا نے تیزی سے جوس نکالنے کے لیے موسمبی چھیلنی شروع کردی۔
’’آپ کو پسند ہے؟‘‘
’’شادی سے پہلے بہت کام نہیں کرتی تھی‘ مما کو دیکھ دیکھ کر ان سے سیکھ گئی۔ یہاں آکر اماں نے سب کچھ سکھادیا۔‘‘ وہ چپ ہوگئی‘ مزید کچھ پوچھا نہیں‘ حسب معمول میز پر برتن لگائے‘ چیزیں رکھیں‘ سب کو اطلاع دی اور یوں آج کے دن کا روزہ افطار ہوا۔
…٭٭٭…
رات وہ سامان بیگ میں رکھ رہی تھی کہ زریاب آگیا۔
’’مائی ڈئیر کزن! کیا ہورہا ہے؟‘‘ اس نے بیگ دیکھ کر بھی دانستہ پوچھا۔
’’سامان پیک کررہی ہوں۔‘‘ وہ بولی۔
’’اچھا! میرا تو خیال تھا کہ تم میری شادی اٹینڈ کرکے جاتیں۔‘‘
’’جی نہیں۔‘‘ اسے ایک دم غصہ آگیا۔
’’سوری یار! تمہیں کام کرنا پڑرہا ہے۔‘‘ وہ انجان بن کر بولا۔
’’میں کام کی بات نہیں کررہی۔‘‘
’’تو پھر…؟‘‘
’’تم نے اب تک پھوپو جانی کو اصل بات نہیں بتائی۔‘‘
’’ہاں نہیں بتایا کیونکہ شادی ہورہی ہے‘ تم نہ سہی فریحہ سہی‘ میں اپنی اماں کو صدمہ نہیں دے سکتا۔‘‘
’’دھوکا دے سکتے ہو‘ وہ تو مجھے ہی سمجھ رہی ہیں۔‘‘
’’سمجھنے دو‘ حقیقت کھل جائے گی‘ وہ جان لیں گی کہ راحمین اشرف ان کی بہو نہیں بن رہیں بلکہ فریحہ امجد بن رہی ہیں۔‘‘ وہ حد درجہ سختی اور بے پروائی کے ساتھ ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولا تو وہ چلائی۔
’’کچھ بھی کہو تم پھوپو جانی کو دھوکا دے رہے ہو‘ میرے فیصلے سے سب آگاہ ہیں لیکن پھوپو جانی نہیں۔‘‘
’’تو جائو بتائو پھوپو جانی کو کہ تم نے شادی نہیں کرنی۔‘‘ وہ شان بے نیازی سے بولا۔
’’میں ضرور بتائوں گی۔‘‘ وہ اکڑی۔
’’اگر میری اماں کو صدمہ سے کچھ ہوا تو میں تمہارا گلا دبا دوں گا۔‘‘ وہ دونوں ہاتھ اس کی گردن کی طرف لاتے ہوئے غرایا تو وہ پرے ہوگئی۔
’’تم اپنی ماں کو چیٹ کررہے ہو۔‘‘ وہ بولی۔
’’کہیں ایسا تو نہیں کہ تم فریحہ سے جیلس ہورہی ہو۔‘‘ اس نے پوچھا۔ وہ گڑبڑائی۔
’’جی نہیں‘ مجھے فریحہ سے کوئی مطلب نہیں۔‘‘
’’چلو پھر تو جھگڑا ہی ختم اب تو خوشی سے شاپنگ وغیرہ کرادو۔‘‘
’’راحمین ! راحمین بیٹا! یہ دیکھو تو کڑوں کا سائزہ ٹھیک ہے۔‘‘ اسی اثناء میں نغمہ پھوپو دو خوب صورت کٹرے لیے آگئیں۔
’جی سائز‘ کس کا سائز…؟‘‘ وہ الجھن کا شکار ہوگئی۔
’’اماں بظاہر تو ٹھیک لگ رہا ہے۔‘‘ زریاب نے کہا۔
’’بظاہر چھورو‘ بار بار توڑ پھوڑ کی میں قائل نہیں۔ پہن کر دیکھ لو۔‘‘ اماں کب ماننے والی تھیں۔
’’راحمین ! پہن کر دیکھ لو‘ یہ اسٹینڈرڈ سائز ہے‘ سب کو میرا مطلب ہے ایسی کلائی والی ہر لڑکی کو پورا آئے گا۔‘‘ مجبوراً راحمین نے ایک کڑا کلائی میں ڈال کر دیکھا اور اتار کے نغمہ پھوپو کو پکڑادیا۔
’’جیتی رہو۔‘‘ وہ یہ کہہ کر چلی گئیں تو اس نے زریاب کو گھور کر دیکھا۔
…٭٭٭…​
اگلی صبح وہ اوصاف کے کہنے کے مطابق تیار تھی مگر ڈرائیور نہ ہونے کے باعث زریاب کو کہا گیا۔ پہلے تو اس نے انکار کیا مگر پھر اماں کے کہنے پر راضی ہوگیا۔ وہ سب سے مل کر آخر میں نغمہ پھوپو کے پاس گئی اور کچھ کہتے کہتے رک گئی‘ زریاب نے جلدی سے آواز لگادی۔
’’محترمہ آجائیں‘ مجھے شام کو واپس بھی آنا ہے۔‘‘
’’کوئی افراتفری نہیں ہے‘ جو کام ضروری ہیں وہ کرکے آنا۔‘‘ نغمہ پھوپو نے زریاب سے کہا۔ وہ گاڑی کا پچھلا دروازہ کھول کر بیٹھنے لگی تو وہ ہتھے سے اکھڑ گیا۔
’’مس راحمین بی بی! میں آپ کا ڈرائیور ہوں‘ نا منگیتر‘ آگے تشریف لائیں۔‘‘
’’ایکسکیوزمی مسٹر زریاب! بار بار جتلانے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ وہ یہ کہہ کر فرنٹ ڈور کھول کر بیٹھ گئی۔
’’میں تو حیران ہوں وہ قسمیں وعدے سب کوئی کیسے بھول سکتا ہے؟‘‘ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے بہت ہولے سے وہ بولا۔
’’میں کچھ نہیں بھولی۔‘‘
’’بھولی ہو تو شادی نہیں کررہیں نا۔‘‘ گاڑی مین روڈ پر لاتے ہوئے بولا۔
’’کوئی اور وجہ بھی ہوسکتی ہے۔‘‘ وہ بڑبڑائی۔
’’چلو اب تمہیں کوئی خطرہ نہیں‘ شادی تو میں فریحہ سے کررہا ہوں لہٰذا وہ وجہ تو بتائو۔‘‘ اس پر ترچھی نظر ڈال کر پوچھا۔
’’بتایا تو تھا‘ بار بار بتانے کی مجھے عادت نہیں۔‘‘
’’یار! مجھے بالکل نہیں یاد ایک بار بتادو۔‘‘
’’مجھے اتنا ہی پتا چلا ہے کہ محبت‘ پسند نا پسند کی کوئی حیثیت نہیں‘ شادی صرف کولہو کے بیل کا نام ہے۔‘‘
’’وہاٹ؟‘‘ وہ زور سے چلایا۔
’’میں حنا بھابی جیسی زندگی بسر نہیں کرسکتی۔ انسان آزاد فطرت پیدا ہوا ہے‘ میں پابندی کی قائل نہیں ہوں۔‘‘ وہ بتا کر کھڑکی سے باہر بھاگتے دوڑتے مناظر دیکھنے لگی۔
’’کتنی بچکانہ سوچ ہے تمہاری۔ تم نے جو بھی ہمارے ساتھ رہتے ہوئے کیا‘ کیا وہ کوفت کا باعث ہے یا کہیں کوئی خوشی اور اطمینان بھی ہے۔ وقت ملے تو سوچنا۔‘‘ زریاب نے کافی سنجیدگی سے کہا اور پوری توجہ سے ڈرائیو کرنے لگا۔ وہ اس کی بات سے الجھن کا شکار ہوگئی مگر کچھ بولی نہیں۔
پھر سارا رستہ خاموشی کی نذر ہوگیا۔ وہ سیٹ کی پشت سے سر ٹکائے سوتی رہی اور وہ گاڑی دوڑاتا رہا۔
…٭٭٭…​
طاہرہ بیگم نے واضح طور پر محسوس کیا کہ راحمین بجھی بجھی سی ہے۔ زریاب اشرف صاحب کے ساتھ مصروف تھا‘ تقریباً دو روز اسے رکنا پڑا‘ مگر وہ کھوئی کھوئی سی تھی۔ دادی کی گود میں سر رکھا‘ انہوں نے بالوں میں انگلیاں پھیریں تو آنکھیں بھر آئیں وہ پریشان ہوگئی‘ طاہرہ بیگم نے بیٹی کی طرف دیکھا۔
’’کیا بات ہے میری جان؟‘‘
’’کچھ نہیں۔‘‘
’’کچھ تو ہے؟‘‘ طاہرہ نے پوچھا۔
’’جب میں نے کہا تھا کہ شادی نہیں کرنی تو آپ نے نغمہ پھوپو کو کیوں نہیں بتایا؟‘‘ وہ ایک دم احتجاجی انداز میں چلائی۔
’جی سائز‘ کس کا سائز…؟‘‘ وہ الجھن کا شکار ہوگئی۔
’’اماں بظاہر تو ٹھیک لگ رہا ہے۔‘‘ زریاب نے کہا۔
’’بظاہر چھورو‘ بار بار توڑ پھوڑ کی میں قائل نہیں۔ پہن کر دیکھ لو۔‘‘ اماں کب ماننے والی تھیں۔
’’راحمین ! پہن کر دیکھ لو‘ یہ اسٹینڈرڈ سائز ہے‘ سب کو میرا مطلب ہے ایسی کلائی والی ہر لڑکی کو پورا آئے گا۔‘‘ مجبوراً راحمین نے ایک کڑا کلائی میں ڈال کر دیکھا اور اتار کے نغمہ پھوپو کو پکڑادیا۔
’’جیتی رہو۔‘‘ وہ یہ کہہ کر چلی گئیں تو اس نے زریاب کو گھور کر دیکھا۔
…٭٭٭…​
اگلی صبح وہ اوصاف کے کہنے کے مطابق تیار تھی مگر ڈرائیور نہ ہونے کے باعث زریاب کو کہا گیا۔ پہلے تو اس نے انکار کیا مگر پھر اماں کے کہنے پر راضی ہوگیا۔ وہ سب سے مل کر آخر میں نغمہ پھوپو کے پاس گئی اور کچھ کہتے کہتے رک گئی‘ زریاب نے جلدی سے آواز لگادی۔
’’محترمہ آجائیں‘ مجھے شام کو واپس بھی آنا ہے۔‘‘
’’کوئی افراتفری نہیں ہے‘ جو کام ضروری ہیں وہ کرکے آنا۔‘‘ نغمہ پھوپو نے زریاب سے کہا۔ وہ گاڑی کا پچھلا دروازہ کھول کر بیٹھنے لگی تو وہ ہتھے سے اکھڑ گیا۔
’’مس راحمین بی بی! میں آپ کا ڈرائیور ہوں‘ نا منگیتر‘ آگے تشریف لائیں۔‘‘
’’ایکسکیوزمی مسٹر زریاب! بار بار جتلانے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ وہ یہ کہہ کر فرنٹ ڈور کھول کر بیٹھ گئی۔
’’میں تو حیران ہوں وہ قسمیں وعدے سب کوئی کیسے بھول سکتا ہے؟‘‘ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے بہت ہولے سے وہ بولا۔
’’میں کچھ نہیں بھولی۔‘‘
’’بھولی ہو تو شادی نہیں کررہیں نا۔‘‘ گاڑی مین روڈ پر لاتے ہوئے بولا۔
’’کوئی اور وجہ بھی ہوسکتی ہے۔‘‘ وہ بڑبڑائی۔
’’چلو اب تمہیں کوئی خطرہ نہیں‘ شادی تو میں فریحہ سے کررہا ہوں لہٰذا وہ وجہ تو بتائو۔‘‘ اس پر ترچھی نظر ڈال کر پوچھا۔
’’بتایا تو تھا‘ بار بار بتانے کی مجھے عادت نہیں۔‘‘
’’یار! مجھے بالکل نہیں یاد ایک بار بتادو۔‘‘
’’مجھے اتنا ہی پتا چلا ہے کہ محبت‘ پسند نا پسند کی کوئی حیثیت نہیں‘ شادی صرف کولہو کے بیل کا نام ہے۔‘‘
’’وہاٹ؟‘‘ وہ زور سے چلایا۔
’’میں حنا بھابی جیسی زندگی بسر نہیں کرسکتی۔ انسان آزاد فطرت پیدا ہوا ہے‘ میں پابندی کی قائل نہیں ہوں۔‘‘ وہ بتا کر کھڑکی سے باہر بھاگتے دوڑتے مناظر دیکھنے لگی۔
’’کتنی بچکانہ سوچ ہے تمہاری۔ تم نے جو بھی ہمارے ساتھ رہتے ہوئے کیا‘ کیا وہ کوفت کا باعث ہے یا کہیں کوئی خوشی اور اطمینان بھی ہے۔ وقت ملے تو سوچنا۔‘‘ زریاب نے کافی سنجیدگی سے کہا اور پوری توجہ سے ڈرائیو کرنے لگا۔ وہ اس کی بات سے الجھن کا شکار ہوگئی مگر کچھ بولی نہیں۔
پھر سارا رستہ خاموشی کی نذر ہوگیا۔ وہ سیٹ کی پشت سے سر ٹکائے سوتی رہی اور وہ گاڑی دوڑاتا رہا۔
…٭٭٭…​
طاہرہ بیگم نے واضح طور پر محسوس کیا کہ راحمین بجھی بجھی سی ہے۔ زریاب اشرف صاحب کے ساتھ مصروف تھا‘ تقریباً دو روز اسے رکنا پڑا‘ مگر وہ کھوئی کھوئی سی تھی۔ دادی کی گود میں سر رکھا‘ انہوں نے بالوں میں انگلیاں پھیریں تو آنکھیں بھر آئیں وہ پریشان ہوگئی‘ طاہرہ بیگم نے بیٹی کی طرف دیکھا۔
’’کیا بات ہے میری جان؟‘‘
’’کچھ نہیں۔‘‘
’’کچھ تو ہے؟‘‘ طاہرہ نے پوچھا۔
’’جب میں نے کہا تھا کہ شادی نہیں کرنی تو آپ نے نغمہ پھوپو کو کیوں نہیں بتایا؟‘‘ وہ ایک دم احتجاجی انداز میں چلائی۔
 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
’جی سائز‘ کس کا سائز…؟‘‘ وہ الجھن کا شکار ہوگئی۔
’’اماں بظاہر تو ٹھیک لگ رہا ہے۔‘‘ زریاب نے کہا۔
’’بظاہر چھورو‘ بار بار توڑ پھوڑ کی میں قائل نہیں۔ پہن کر دیکھ لو۔‘‘ اماں کب ماننے والی تھیں۔
’’راحمین ! پہن کر دیکھ لو‘ یہ اسٹینڈرڈ سائز ہے‘ سب کو میرا مطلب ہے ایسی کلائی والی ہر لڑکی کو پورا آئے گا۔‘‘ مجبوراً راحمین نے ایک کڑا کلائی میں ڈال کر دیکھا اور اتار کے نغمہ پھوپو کو پکڑادیا۔
’’جیتی رہو۔‘‘ وہ یہ کہہ کر چلی گئیں تو اس نے زریاب کو گھور کر دیکھا۔
…٭٭٭…​
اگلی صبح وہ اوصاف کے کہنے کے مطابق تیار تھی مگر ڈرائیور نہ ہونے کے باعث زریاب کو کہا گیا۔ پہلے تو اس نے انکار کیا مگر پھر اماں کے کہنے پر راضی ہوگیا۔ وہ سب سے مل کر آخر میں نغمہ پھوپو کے پاس گئی اور کچھ کہتے کہتے رک گئی‘ زریاب نے جلدی سے آواز لگادی۔
’’محترمہ آجائیں‘ مجھے شام کو واپس بھی آنا ہے۔‘‘
’’کوئی افراتفری نہیں ہے‘ جو کام ضروری ہیں وہ کرکے آنا۔‘‘ نغمہ پھوپو نے زریاب سے کہا۔ وہ گاڑی کا پچھلا دروازہ کھول کر بیٹھنے لگی تو وہ ہتھے سے اکھڑ گیا۔
’’مس راحمین بی بی! میں آپ کا ڈرائیور ہوں‘ نا منگیتر‘ آگے تشریف لائیں۔‘‘
’’ایکسکیوزمی مسٹر زریاب! بار بار جتلانے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ وہ یہ کہہ کر فرنٹ ڈور کھول کر بیٹھ گئی۔
’’میں تو حیران ہوں وہ قسمیں وعدے سب کوئی کیسے بھول سکتا ہے؟‘‘ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے بہت ہولے سے وہ بولا۔
’’میں کچھ نہیں بھولی۔‘‘
’’بھولی ہو تو شادی نہیں کررہیں نا۔‘‘ گاڑی مین روڈ پر لاتے ہوئے بولا۔
’’کوئی اور وجہ بھی ہوسکتی ہے۔‘‘ وہ بڑبڑائی۔
’’چلو اب تمہیں کوئی خطرہ نہیں‘ شادی تو میں فریحہ سے کررہا ہوں لہٰذا وہ وجہ تو بتائو۔‘‘ اس پر ترچھی نظر ڈال کر پوچھا۔
’’بتایا تو تھا‘ بار بار بتانے کی مجھے عادت نہیں۔‘‘
’’یار! مجھے بالکل نہیں یاد ایک بار بتادو۔‘‘
’’مجھے اتنا ہی پتا چلا ہے کہ محبت‘ پسند نا پسند کی کوئی حیثیت نہیں‘ شادی صرف کولہو کے بیل کا نام ہے۔‘‘
’’وہاٹ؟‘‘ وہ زور سے چلایا۔
’’میں حنا بھابی جیسی زندگی بسر نہیں کرسکتی۔ انسان آزاد فطرت پیدا ہوا ہے‘ میں پابندی کی قائل نہیں ہوں۔‘‘ وہ بتا کر کھڑکی سے باہر بھاگتے دوڑتے مناظر دیکھنے لگی۔
’’کتنی بچکانہ سوچ ہے تمہاری۔ تم نے جو بھی ہمارے ساتھ رہتے ہوئے کیا‘ کیا وہ کوفت کا باعث ہے یا کہیں کوئی خوشی اور اطمینان بھی ہے۔ وقت ملے تو سوچنا۔‘‘ زریاب نے کافی سنجیدگی سے کہا اور پوری توجہ سے ڈرائیو کرنے لگا۔ وہ اس کی بات سے الجھن کا شکار ہوگئی مگر کچھ بولی نہیں۔
پھر سارا رستہ خاموشی کی نذر ہوگیا۔ وہ سیٹ کی پشت سے سر ٹکائے سوتی رہی اور وہ گاڑی دوڑاتا رہا۔
…٭٭٭…​
طاہرہ بیگم نے واضح طور پر محسوس کیا کہ راحمین بجھی بجھی سی ہے۔ زریاب اشرف صاحب کے ساتھ مصروف تھا‘ تقریباً دو روز اسے رکنا پڑا‘ مگر وہ کھوئی کھوئی سی تھی۔ دادی کی گود میں سر رکھا‘ انہوں نے بالوں میں انگلیاں پھیریں تو آنکھیں بھر آئیں وہ پریشان ہوگئی‘ طاہرہ بیگم نے بیٹی کی طرف دیکھا۔
’’کیا بات ہے میری جان؟‘‘
’’کچھ نہیں۔‘‘
’’کچھ تو ہے؟‘‘ طاہرہ نے پوچھا۔
’’جب میں نے کہا تھا کہ شادی نہیں کرنی تو آپ نے نغمہ پھوپو کو کیوں نہیں بتایا؟‘‘ وہ ایک دم احتجاجی انداز میں چلائی۔
’’شادی سے انکار تم نے زریاب سے کر تو دیا نا۔‘‘ طاہرہ بیگم نے نرمی سے کہا۔
’’ہاں! اسی لیے وہ اپنی مرضی کررہا ہے‘ پھوپو کو دھوکا دے رہا ہے۔‘‘ وہ بولی۔
’’راحمین ! تمہیں کیا لینا دینا‘ وہ جس سے مرضی شادی کرے۔‘‘ طاہرہ بیگم بولیں۔
’’بھئی ہماری سمجھ میں تو کچھ نہیں آرہا‘ معاملہ کیا ہے؟‘‘ دادی قطعاً انجان تھیں۔
’’آپ نہیں جانتیں کیا؟‘‘
’’اللہ رکھے تمہاری شادی ہورہی ہے ہمیں تو یہی پتا ہے۔‘‘
’’نہیں اماں! آپ کی لاڈلی نے انکار کردیا تھا‘ اب صرف زریاب کی شادی ہورہی ہے۔ نغمہ آپا کو نہیں پتا‘زریاب آج کل میں بتائے گا۔‘‘ طاہرہ نے بتایا تو وہ گرجیں۔
’’ہیں… یہ کیا ہورہا ہے اور کوئی ہمیں بتا بھی نہیں رہا؟‘‘
’’کیا بتائیں‘ راحمین نے خود انکار کیا ہے۔ نغمہ آپا کی طبیعت ٹھیک نہیں اس لیے یہ صدمہ انہیں نہیں دیا۔‘‘ طاہرہ بیگم بولیں۔
’’ذرا ملائو فون نغمہ کا‘ ہم خود بات کریں‘ یہ کل کا بچہ من مانیاں کرتا پھر رہا ہے۔‘‘
’’میں نے کچھ نہیں کیا نانو! سب راحمین نے کیا ہے؟ گھر میں شادی کارڈ چھپ کر آجائیں‘ زیور کپڑے تیار ہوجائیں تو لڑکی معمولی سی وجہ پر شادی سے انکار کردے۔ ایسے میں لڑکے کو گھر کی عزت بچانی چاہیے یا ماں کی صحت‘ میں نے جو کیا اپنے گھر کی بہتری میں کیا۔‘‘ز ریاب اسی وقت آیا تھا‘ آخری جملہ سن کر سیخ پا ہوگیا۔
’’ہمیں تو کچھ بتاتے۔‘‘
’’کیا بتاتا‘ آپ کی تربیت نے تو یہ دن دکھایا ہے۔‘‘ وہ سنجیدگی سے بولا۔
’’اپنی ماں سے بات کرائو ہماری۔‘‘ وہ غصے سے بولیں۔
’’میں جارہا ہوں‘ آپ بات کرلیجیے گا۔‘‘
’’اتنے منہ پھٹ اور بدلحاظ ہوگئے ہو۔‘‘
’’معاف کرنا نانو! راحمین سے کم ہوں مگر افسوس آپ کے لاڈ پیار نے اسے ایسا بنادیا ہے۔‘‘ وہ یہ کہہ کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا چلا گیا۔
…٭٭٭…​
زریاب گھر پہنچا تو نغمہ بیگم نے اسے آڑے ہاتھوں لیا۔ وہ حنا بھابی کو اشارہ کرکے خود کمرے میں چلا گیا۔ حنا نے ساری بات زریاب کے کھاتے میں ڈال دی‘ راحمین کو صاف بچالیا۔ نغمہ بیگم تو سرپیٹ کے رہ گئیں۔ رو رو کر بُرا حال کرلیا۔ زریاب کو دودھ نہ بخشنے کی دھمکیاں دیں‘ مگر وہ چپ رہا۔ دوسری طرف راحمین کو احساس ندامت کچوکے لگارہا تھا‘ نغمہ پھوپو بیٹے کے کیے پر معافی مانگ رہی تھیں۔ راحمین زمین میں گڑی جارہی تھی کہ سب کچھ زریاب نے اپنے سر لے لیا۔ اب کیا کیا جائے؟ دادی زریاب کو بُرا بھلا کہہ رہی تھیں۔
دل بُری طرح بے تاب تھا… بے چین تھا… مضطرب تھا… دن تیزی سے گزر رہے تھے‘ سب خاموش تھے۔ اشرف صاحب باہر کے کاموں میں مصروف تھے۔طاہرہ بیگم اداس اداس سی عید کی تیاریوں میں محو تھیں۔ آخری عشرے کے آخری چار دن بچے تھے‘ دادی نے نغمہ پھوپو سے ہر قسم کے رابطے پر پابندی لگادی تھی‘ وہ چائے بناکر اپنے کمرے میں آگئی‘ غیر ارادی طور پر وارڈ روب کھولی تو سی گرین خوب صورت سوٹ پر نظریں ٹک گئیں۔ بے اختیار ہی آنکھوں میں نمی تیر گئی۔ پچھلی عید پر یہ سوٹ‘ ہمرنگ چوڑیاں اور ڈھیر ساری مٹھائی لے کر نغمہ پھوپو اور زریاب آئے تھے‘ جاتے ہوئے زریاب نے پیار بھری فرمائش کی تھی۔
’’عید پر یہ سوٹ پہن کر میرا تصور کرنا‘ کیسامحسوس ہوا ضرور بتانا۔‘‘ وہ گلابی پڑگئی تھی۔
آج یہ سوٹ دیکھ کر دل غم سے بھرگیا‘ دل چاہا کہ زریاب کی بے وفائی پر خوب روئے مگر قصور تو سراسر اپنا تھا۔ یہ سو چ کر الماری بند کرکے سوفے پر بیٹھ گئی۔ چائے پینے کو دل نہ چاہا آنکھیں موند لیں تبھی طاہرہ بیگم آگئیں۔ اس کی حالت دیکھ کر رنجیدہ ہوگئیں۔
’’چھوٹی سی ضد اور خود سری کی کتنی بڑی قیمت ادا کرنی پڑی ہے۔‘‘
’’کیوں… کچھ نہیں ہے؟‘‘ وہ چونک کر ہکلائی۔
’’راحمین! تم نے غور کیا کہ جب سے نغمہ آپا کے پاس رہ کر آئی ہو تم میں سکون اور اطمینان کی کیفیت نہیں رہی‘ تمہیں وہاں گزارے پل یاد آتے ہیں۔‘‘ طاہرہ بیگم نے گویا اس کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ
دیا تھا وہ افسردہ سی ہوگئی۔ بات تو سچ تھی وہاں جس انداز میں دن رات گزارے تھے وہ یاد گار تھے۔
’’مجھے کچھ یاد نہیں کرنا۔‘‘ وہ جھوٹ بول گئی۔
’’کہانی یاد ہے نا‘ ہاتھ نا آئیں تو انگور کھٹے ہیں۔‘‘
’’امی! آپ میری دلجوئی کررہی ہیں؟‘‘
’’میں اپنے دل کا درد شیئر کررہی ہوں‘ اپنی بیٹی کے دکھ کو محسوس کررہی ہوں۔‘‘
’’مجھے کوئی پروا نہیں۔‘‘وہ صاف مُکر گئی۔
…٭٭٭…
باقی کے دن بھی بے سکونی میں گزرگئے۔ وہ رات بھی آگئی جس کو چاند رات کہتے ہیں۔ طاہرہ بیگم عید کے دن کے لیے شیر خرما بنانے میں مصروف تھیں۔ باقی ملازمین گھرکی صفائی ستھرائی میں مگن تھے‘ خانسا ماں مچھلی کو مسالا لگارہا تھا۔ زیبو شامی کباب کے لیے ہرا مسالا کاٹ رہی تھی۔ وہ بے زار سی ان سب کو دیکھ کر اپنے کمرے میں آگئی۔ بیڈ پر تکیے کے سہارے بیٹھ کر صرف اور صرف زریاب کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ سوچتے سوچتے نیند آگئی‘ آنکھ ایک دم ٹھنڈک کے احساس سے کھلی تو حیرت سے آنکھیں کھلی رہ گئیں۔ یقین کے لیے پلکیں جھپکا کر دیکھا۔ حنا کے ہاتھ میں کون مہندی تھی اور اس کے ہاتھ پر مہندی سے حنا نے ابھی صرف زیڈ آر لکھا تھا۔
’’حنا… حنا بھابی!‘‘ بے اختیار ہی وہ ننھی منی بچی کی طرح روتی ہوئی ان سے لپٹ گئی۔
’’ارے‘ یہ کیا ہم اتنی دور سے تمہیں مہندی لگانے آئے ہیں‘ عیدی دینے آئے ہیں اور تم رو رہی ہو۔‘‘ حنا نے ہنستے ہوئے اس کا چہرہ اوپر اٹھایا تو وہ روتے روتے مسکرادی۔
’’عیدی…؟‘‘
’’عیدی پلس مایوں کا جوڑا۔‘‘ حنا نے اور چونکایا تو وہ مزید حیرت زدہ سی ہوگئی۔
’’اور زریاب کی شادی…؟‘‘
’’زریاب کی شادی ہورہی ہے اس پیاری سی‘ نادان سی راحمین سے۔‘‘ حنا نے چھیڑا۔
’’اور وہ…؟‘‘ وہ ہچکچائی۔
’’وہ سب تمہیں درست کرنے کا پلان تھا جس میں ہم سب شامل تھے۔ سب انتظامات زریاب‘ اشرف ماموں کے ساتھ مل کر کروا کے گیا تھا۔‘‘ حنا نے بتایا تو وہ شرمندہ سی ہوگئی۔
’’لائو نام تو مکمل کردوں پھر ہم نے کھانا کھانا ہے‘ قسم سے بہت بھوک لگی ہے۔‘‘ حنا نے ہاتھ پکڑ کے مہندی سے زریاب لکھ کر اس کی پیشانی چومی او رکہا۔
’’مبارک ہو۔‘‘ وہ کھل اٹھی‘ ذہن سے بوجھ اتر گیا۔ پہلی بار اسے احساس ہوا کہ وہ زریاب کے بنا ادھوری ہے۔
طاہرہ بیگم نے زیبو سے کھانا لگانے کو کہا تو حنا فوراً چلی گئی وہ غور سے ہاتھ دیکھنے لگی۔ تبھی موبائل فون کی گھنٹی بجی ۔ نمبر دیکھ کر اس کے دل میں گدگدی سی ہوئی۔
’’میرے چاند کو چاند رات مبارک ہو۔‘‘ دوسری طرف سے زریاب کی شوخ آواز ابھری۔
’’کتنا ستایا ہے تم نے…؟‘‘ اس نے گلہ کیا۔
’’اور تم نے محترمہ گھرداری صاحبہ! کتنا تڑپایا؟‘‘ وہ بھی جواباً چہکا۔ اسے ہنسی آگئی۔
’’تم بہت اچھے ہو زریاب!‘‘ اس نے اعتراف کیا۔
’’اور تم بھی بہت اچھی بن گئی ہو‘ قسم سے جب تمہیں کام کرتا دیکھتا تھا دل شرارت کو مچلتا تھا۔ ایک دو بار تو ذہن میں آیا کہ…‘‘ اس نے کہتے کہتے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
’’کیا…؟‘‘
’’چھوڑو…‘‘
’’نہیں بتائو نا…؟‘‘
’’یہی کہ تمہیں بیگم کہہ کر بلائوں۔ تمہارے ہاتھوں کو چوم کر تمہیں سینے سے لگائوں‘ کتنے پیار سے استری کررہی تھیں تم…‘‘ زریاب نے شوخ و شنگ لہجے میں کہا تو وہ گل رنگ ہوگئی۔
’’آپ بہت بُرے ہو۔‘‘
’’ہیں… کبھی اچھے کبھی بُرے ۔ یار! سوچ لو کر ایک فیصلہ کرلو۔‘‘ اس نے کہا تو وہ کھل کھلا کے ہنس پڑی۔ فضا میں اس کی ہنسی کے جلترنگ بج اٹھے۔
 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
جھیل‘ کنارہ‘ کنکر… نازیہ کنول نازی‘
اے شمع کوئے جاناں
ہے تیز ہوا مانا
لو اپنی بچا رکھنا رستوں پر نگاہ رکھنا
ایسی ہی کسی شب میں‘ آئے گا یہاں کوئی
ایک زخم دکھانے کو
ٹوٹا ہوا ایک تارا مٹی سے اٹھانے کو
آنکھوں میں نمی ہوگی چہرے پر دھواں ہوگا
ہاتھوں کی لکیروں میں‘ گزرے ہوئے سالوں کا
اک ایک نشاں ہوگا
بولے گا نہ کچھ لیکن فریاد کناں ہوگا
اے شمع کوئے جاناں
وہ خاک بسر راہی‘ وہ سوختہ پروانہ
جب آئے یہاں اس کو‘ مایوس نہ لوٹانا
ہو تیز ہَوا کتنی‘ لو اپنی بچا رکھنا
رستے پر نگاہ رکھنا‘ راہی کا پتا رکھنا
سارے گھر میں گمبھیر خاموشی کا راج تھا۔ گاڑی گیراج میں پارک کرنے کے بعد وہ جیسے ہی گھر میں داخل ہوا‘ اذیت و کوفت کی ایک لہر پورے بدن میں سرائیت کر گئی۔ آج زندگی کو اس سے روٹھے کتنے ماہ ہوگئے تھے۔ اسے یقین ہی نہ آتا تھا کہ جس کے بغیر وہ چند لمحے بڑی مشکل سے گزارتا تھا اس کے بغیر اس نے اتنے ماہ زندہ رہ کر گزار کیسے لیے تھے۔ کسی کے بغیر یہ دن کس اذیت و ٹوٹ پھوٹ میں بسر ہوئے یہ الگ کہانی تھی۔
علی کے کمرے سے ٹی وی چلنے کی آواز آرہی تھی۔ جس کا مطلب تھا کہ وہ اپنے کمرے میں تھا۔ وہ تھکا تھکا سا لائونج میں پڑے سوفے پر ڈھے گیا۔
’’صاحب کھانا لگا دوں؟‘‘ حفیظ بابا اس کی موجودی کی اطلاع پاتے ہی فوری کچن سے نکل آئے تھے۔ میکال نے سر سوفے کی پشت گاہ سے ٹکا کر پلکیں موند لیں۔
’’نہیں بابا‘ بھوک نہیں ہے۔‘‘
’’آپ نے صبح بھی کچھ نہیں کھایا تھا صاحب کل رات بھی۔‘‘
’’کوئی فرق نہیں پڑتا بابا ابھی ایک پارٹی میں جا رہا ہوں۔ وہاں کچھ کھالوں گا۔ آپ فکر مند نہ ہوں علی کو کھانا کھلا کر سلا دیجیے گا اور خود بھی کھا لیجیے گا۔‘‘
اپنے کمرے کی طرف بڑھتے ہوئے اس نے حفیظ بابا کو ہدایت کی تھی۔ وہ خاموشی سے سر جھکا کر کھڑے رہے۔ ابھی وہ شاور لے کر نکلا تھا کہ سیل بج اٹھا تھا۔
’’میکال کے بچے‘ کہاں ہو تم پارٹی شروع ہوگئی ہے۔‘‘
کال پک ہوتے ہی مسز رحیم کی تھکی تھکی سی مگر پر شکوہ آواز سماعتوں سے ٹکرائی۔ وہ شرمندہ ہوگیا۔
’’ایم سوری آپا‘ بس ابھی نکل رہا ہوں صرف پندرہ منٹ دے دیں پلیز۔‘‘
دوسری طرف جانے اس کی التجا سنی گئی تھی کہ نہیں مگر کال کٹ گئی تھی۔ وہ سیل شرٹ کی جیب میں ڈالتا جلدی جلدی بال سنوارنے لگا۔
پچھلے گزرے چند ماہ نے اسے بہت بدل دیا تھا۔ گورا رنگ سانولے پن میں ڈھل گیا آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے پڑ گئے۔ چہرے اور جسم کی ہڈیاں ابھر آئی تھیں۔ اب بھلا آئینے کے سامنے آنے اور خود کو سنوارنے کا دل ہی کہاں چاہتا تھا۔
بال سنوار کر پرفیوم کا چھڑکائو کرتے ہوئے اس نے آخری نظر آئینے میں اپنے سراپا پر ڈالی اور بیڈ پر بیٹھ کر جوتے پہننے لگا۔ اس سے فارغ ہو کر جلدی سے ٹائی کی ناٹ لگائی اور گاڑی کی چابی اٹھا کر فوراً باہر کی طرف بڑھ گیا۔ صد شکر کہ علی کو اس کی آمد کی خبر نہیں ہوئی تھی وگرنہ اس وقت اس کا یوں اکیلے گھر سے باہر جانا ممکن ہی نہیں تھا۔
خاصی ریش ڈرائیونگ کے ساتھ وہ تقریباً بیس منٹ میں مسز رحیم کے سامنے تھا۔
’’تم انتہائی فضول اور اسٹوپڈ شخص ہو میکال۔ تم بھائی ہو تو کچھ کہہ بھی نہیں سکتی وگرنہ وہ کان کھینچتی کہ یاد رکھتے۔‘‘ اسے دیکھتے ہی وہ پھر خفا ہوئی تھیں۔ وہ مسکرا کر رہ گیا۔
’’سوری کہا تو ہے آپا‘ آج سچ میں آفس میں بہت کام تھا۔‘‘
’’بس رہنے دو‘ یہ فضول کے بہانے کسی اور کو سنانا۔‘‘
وہ کوئی عذر سننے کو تیار نہیں تھیں۔ میکال بے چارگی سے کندھے اچکا کر رہ گیا۔ تبھی قطعی نا دانستہ طور پر اس کی نگاہ سامنے اٹھی تھی اور پھر وہ جیسے وہیں فریز ہو کر رہ گیا تھا۔
زیست کی راہ پر گزرے ہوئے چند لمحوں میں
ہم نے چاہا تھا تیرے ساتھ چلیں
تیرے ہونٹوں پر ہنسی‘ آنکھ میں جگنو بن کر
دل کی دھڑکن میں سما کر تجھے جیتا دیکھیں
تیرے خوابوں کو سجا لیں ہم اپنی آنکھوں میں
تیرے چہرے کی اداسی کو خوشی میں بدلیں
اور کچھ رنگ بھی بھر دیں تیرے روز و شب میں
پھر تجھے رنگ بہاروں کے چراتے دیکھیں
زیست کی راہ پر گزرے ہوئے چند لمحوں میں
ہم نے چاہا تھا…
آج کی اس تقریب میں وہ بھی شریک تھی۔ میکال کو لگا وہ سانس بھی نہیں لے سکے گا۔ مسز رحیم سے اس کی کیفیت چھپی نہیں رہ سکی تھی۔ تبھی ایک نظر سامنے موجود ہانیہ صفدر پر ڈالتے ہوئے وہ مسکرا کر بولیں۔
’’ہانیہ آئی ہے‘ بہت اصرار کے بعد سمجھو زبردستی بلوایا ہے اسے‘ صرف تمہارے لیے آج کی اس تقریب کو ارینج کرنے کا مقصد ہی تم دونوں کو ایک دوسرے کے قریب لانا تھا۔ ساری غلط فہمیاں دور کرلو اپنی۔‘‘
’’اب نہیں آپا اب بہت دیر ہوچکی ہے۔‘‘
جلتی آنکھوں سے اسے باتوں میں مشغول دیکھتے ہوئے اس نے جیسے خود کلامی کی تھی۔ پھر سر جھٹک کر سائیڈ پر چلا آیا۔ دل کے زخم پھر سے رسنے لگے تھے۔ خدا خدا کر کے تو اسے صبر آیا تھا


اور مسز رحیم جیسے پھر سے اس کا صبر آزمانے پر تل گئی تھیں۔
نہیں ہم کو شکایت اب کسی سے
بس اپنے آپ سے روٹھے ہوئے ہیں
بظاہر خوش ہیں لیکن سچ بتائیں
ہم اندر سے بہت ٹوٹے ہوئے ہیں
پیچھے آکر وہ ایک خالی نشست پر بیٹھ گیا تھا مگر جلتی‘ سلگتی نا فرمان نگاہیں اب بھی اس کے چہرے کا طواف کر رہی تھیں۔ وہ چہرہ کہ جسے آنکھ کھلتے ہی دیکھے بغیر اس کی صبح نہیں ہوتی تھی۔ جسے رات سونے سے پہلے پیار کیے بغیر اسے نیند نہیں آتی تھی۔ کتنی عجیب بات تھی کہ جب وہ اس کی دسترس میں تھی تو اسے ارد گرد کی دنیا میں کشش محسوس ہوتی تھی اب جب وہ دور تھی تو دنیا ویران لگتی تھی۔
وہ کسی بات پر مسکرا رہی تھی اور میکال کو لگا جیسے اس کی مسکراہٹ نے ساری محفل میں رنگ بکھیر دیے ہوں۔ اب کھانا سرو ہو رہا تھا۔ وہ بد دل سا وہاں سے اٹھ گیا۔
’’میں واپس جا رہا ہوں آپا میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔‘‘
’’ایسی کی تیسی تمہاری طبیعت کی۔ بیٹھے رہو آرام سے‘ کھانے کے بعد تم نے ہانیہ سے بات کرنی ہے۔‘‘
’’مجھے کسی سے کوئی بات نہیں کرنی آپا‘ نہ میرا اب اس کی زندگی سے کوئی لینا دینا ہے پلیز۔‘‘ وہ چٹخا تھا۔ مسز رحیم اپنا سر پیٹ کر رہ گئیں۔
میکال چپ چپ سا مسز رحیم کے بلاوے پر ان کی طرف چلا آیا۔
’’کہاں جا رہے ہو کھانا لگ گیا ہے‘ کھانا تو کھا کے جائو۔‘‘ انہوں نے اصرار کیا۔
’’سوری‘ مجھے بھوک نہیں ہے۔‘‘
’’بھوک بھی لگ جائے گی تم آئو تو سہی اور یہ علی کہاں ہے؟‘‘
’’گھر پر ہی ہے دیر ہو رہی تھی اس لیے اسے ساتھ نہیں لایا۔‘‘
’’چلو‘ جیسی تمہاری مرضی۔‘‘
رسان سے کہتے ہوئے انہوں نے میکال کو زبردستی اپنے ساتھ بٹھا لیا تھا۔
کھانے کے بعد مشروب کا دور چلا اور مشروب کے بعد ڈانس کا‘ سب ڈانس کے نام پر یونہی تھرک رہے تھے۔ اس نے دیکھا ایک لڑکا ہانیہ کو ڈانس کی آفر کر رہا تھا۔ مگر اس نے انکار کردیا۔ وہ سوچ رہا تھا اس وقت اگر وہ اس لڑکے کی آفر قبول کرلیتی تو جانے وہ کیا کر بیٹھتا۔
وہ ڈانس فلور کے بالکل سامنے بیٹھی تھی۔ میکال کچھ سوچتے ہوئے اٹھا اور اپنے قریب ہی بیٹھی ایک ماڈرن سی لڑکی کو ڈانس کی آفر کردی۔ جسے اس لڑکی نے فوراً سے پیشتر قبول کرلیا تھا۔ ہانیہ اپنی ٹیبل پر بالکل اکیلی بیٹھی تھی۔ غیر ارادی طور پر اس کی نظریں جونہی سامنے اٹھیں۔ اس کا دل گویا کٹ کر رہ گیا۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ وہاں آئے گا وگرنہ شاید وہ وہاں کسی قیمت پر نہ آتی۔
دل کے اندر کہیں طوفان اٹھا تھا اور ایک آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر گالوں پر پھسل آیا۔ اس بار اس نے جو منظر دیکھا اس کے بعد اس میں کچھ اور دیکھنے کی تاب نہیں رہی تھی۔ وہ اٹھی تھی اور کچھ سوچتے ہوئے مسز رحیم کے پاس چلی آئی تھی۔
’’مسز رحیم ایک فیور دیں گی؟‘‘ وہ ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں سائیڈ پر لے آئی تھی۔
’’ہاں بولو میری جان۔‘‘
’’مسز رحیم‘ آپ پلیز کچھ دیر تک میکال کو یہیں مصروف رکھیے گا میں گھر جا رہی ہوں اپنے بیٹے سے ملنے۔‘‘
’ٹھیک ہے تم جائو‘ میں روک لوں گی۔‘‘
اس کے گال تھپتھپاتے ہوئے انہوں نے تسلی دی تھی۔ اس کی آنکھوں میں نمی جھلک آئی۔
’’تھینکس۔‘‘ بوجھل لہجے میں وہ صرف یہی کہہ سکی تھی وہ مسکراتی نگاہوں سے اسے جاتے ہوئے دیکھتی رہیں۔ میکال ہانیہ کے اٹھتے ہی ڈانس فلور سے اتر آیا تھا۔
’’چلی گئی وہ؟‘‘ مسز رحیم کے قریب آکر اس نے استفسار کیا تو وہ مسکرا کر بولیں۔
’’ہاں مگر تمہارے گھر گئی ہے اپنے بیٹے سے ملنے۔‘‘
’’او نو وہ یقیناً اسے ساتھ لے جائے گی۔‘‘
’’نہیں‘ کہیں نہیں لے جا سکتی وہ اسے‘ میری ساری محنت پر تو پانی پھیر ہی دیا ہے تم نے اب خدا کا واسطہ ہے تمہیں فوری گھر جائو اور اسے منالو۔ یہ فاصلے اگر ابھی نہ سمیٹے تو عمروں کی لمبی جدائی جھیلنی پڑ جائے گی۔ میکال بڑا ذاتی تجربہ ہے میرا‘ وہ ایک ہستی کہ جس کے بغیر دنیا خالی خالی سی بے معنی لگے اسے انا کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہیے۔ ورنہ ساری عمر کی بے سکونی اور رونا نصیب میں لکھا جاتا ہے۔‘‘ قدرے اداس لہجے میں وہ اسے سمجھا رہی تھیں۔ میکال چپ چاپ سا ان کا شکریہ ادا کرتا وہاں سے سیدھا گھر چلا آیا۔
…٭٭٭…
شہر خاموشاں میں اس وقت غروب ہوتے سورج کی نارنجی کرنوں کے ساتھ ہی ایک عجیب سی خاموشی بکھرتی گئی تھی۔ آس پاس سے گزرتے لوگوں کی آمد و رفت کا سلسلہ بھی مانند پڑ گیا تھا۔ ہاتھ میں تازہ پھولوں کے گلدستے کے ساتھ جونہی وہ شہر خاموشاں کی حدود میں داخل ہوا اس کی نگاہ سامنے لگے شیشم کے اس پیڑ کی طرف اٹھی تھی جس کے نیچے ابھی چند ہفتے قبل ایک نئی لحد تیار کی گئی تھی۔
پچھلے چند ہفتوں میں عذیر اس کامنی سی لڑکی کو روزانہ اسی وقت اس لحد کے نزدیک‘ درخت کے تنے سے ٹیک لگائے ارد گرد سے قطعی بے نیاز بیٹھے دیکھتا تھا۔ روز وہ تازہ پھول اور پانی لاتی‘ قبر پر پہلے پانی اور پھر پھول بکھیرتی پھر خاموشی سے دونوں بازو‘ گھٹنوں کے گرد لپیٹ کر شیشم کے پیڑ کے تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ جاتی۔ ایک طرح سے اس نے اپنے سارے سلسلے مٹی کے اس ڈھیر سے وابستہ کر رکھے تھے۔ عذیر کو اس لمحے بے ساختہ معروٖف مصنفہ بشریٰ رحمن کے وہ چند الفاظ یاد آئے تھے۔ جو انہوں نے کسی کی یاد میں شاید ایسے ہی کسی موقع پر تحریر کیے تھے۔
’’شہر خاموشاں میں جانے والے وہاں جا کر اتنے بے پروا کیوں ہوجاتے ہیں جا کر کوئی خیر خیریت کی خبر کیوں نہیں بھیجتے خوابوں میں آتے ہیں تو کھل کر بات کیوں نہیں کرتے سارے سلسلے مٹی کے ایک ڈھیر سے کیوں وابستہ ہوجاتے ہیں۔‘‘
اسے لگتا تھا جیسے اس نے اسے کہیں دیکھا ہے مگر کہاں یہ اسے یاد نہیں آتا تھا۔ شاید اسے علم ہی نہیں تھا کہ عورتوں کا قبرستان میں آنا جانا جائز نہیں۔ وگرنہ شاید وہ یوں روز پابندی سے وہاں نہ آتی۔
جانے چند ہفتے قبل مٹی کے ڈھیر تلے اترنے والی اس ہستی سے اس کا کیا تعلق تھا؟ وہ کیوں اسے کسی اور ہی دیس کی باسی لگتی تھی۔
روز وہ اس کے بارے میں سوچتا تھا اور روز رات گئے تک خود سے الجھتے ہوئے بے چین رہتا تھا۔
…٭٭٭…
درخت جاں پر عذاب رت تھی نہ برگ جاگے نہ پھول آئے
بہار وادی سے جتنے پنچھی‘ ادھر کو آئے ملول آئے
وہ ساری خوشیاں جو اس نے چاہیں اٹھا کے جھولی میں اپنی رکھ لیں
ہمارے حصے میں عذر آئے جواز آئے اصول آئے
 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
شام ڈھل رہی تھی۔ آسمان پر سیاہ بادل کسی بھی پل برسنے کو تیار دکھائی دے رہے تھے۔ میکال حسن نے تھکی تھکی سی نظر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا اور نگاہیں پھر سے عائشہ برہان کے خوب صورت چہرے پر ٹکا دیں۔ جو آسمان کی طرح اپنی آنکھوں کے گہرے بادل لیے کسی گزرے ہوئے طوفان کی مانند خاموش بیٹھی تھی۔
’’تو یہ طے ہے کہ ہمیں آج کے بعد نہیں ملنا؟‘‘
گہری سانس بھرتے ہوئے اس نے پوچھا تھا۔ جواب میں عائشہ برہان نے ذرا سا رخ پھیر لیا۔ اس کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو انمول ہیروں کی مانند دمک رہے تھے۔
’’ہوں…!‘‘
’’زندگی کا اتنا لمبا سفر میرے بغیر طے کرلو گی؟‘‘ دھیرے سے ہاتھ بڑھا کر اس نے اس کے سرد ہاتھوں کو اپنی گرفت میں لیا تھا۔ جواب میں اس کی سسکاری نکل گئی۔
’’پتا نہیں یہاں زندگی کا اعتبار کسے ہے میکال‘ ہوسکتا ہے میں ابھی یہاں سے اٹھ کر جائوں اور صبح تم تک میرے مرنے کی خبر پہنچ جائے۔‘‘
’’نہیں…!‘‘ وہ اس کی طرف دیکھ نہیں رہی تھی میکال تڑپ اٹھا۔
’’نہیں عائش‘ ایسا مت کہو پلیز‘ میں تمہیں چھوڑ سکتا ہوں ہمیشہ کے لیے کھو نہیں سکتا۔‘‘ اس کا سیل بار بار بج رہا تھا مگر اس میں اتنی سی ہمت بھی نہیں تھی کہ وہ پاکٹ سے سیل نکال کر باہر سڑک پر پھینک دے۔ پچھلے پچیس منٹ میں وہ پچاس لاکھ کا نقصان کر بیٹھا تھا۔ مگر اسے پروا نہیں تھی۔ عائشہ برہان کے لفظ اس کا آخری دیدار‘ کسی بھی اہم میٹنگ سے بڑھ کر تھا اس کے لیے۔ عائشہ نے بس ایک نظر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا تھا اور پھر فوراً سے پیشتر نگاہیں پھیر لی تھیں۔
’’تم میری زندگی میں آنے والے پہلے اور آخری شخص ہو میکال۔ نہ تم سے پہلے کوئی نظر میں جچا نہ تمہارے بعد میں کسی سے دل لگا پائوں گی شاید میں کبھی تمہیں بھلا بھی نہ سکوں کہ یہ میرے اختیار میں نہیں ہے مگر ایک چیز میرے اختیار میں ہے۔‘‘ بوجھل آواز میں بولتے بولتے اچانک اس نے سر اٹھایا تھا۔
’’میں تمہیں دفن کرسکتی ہوں یہاں۔‘‘ اپنے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس کی آنکھ سے ایک اور موتی ٹوٹ کر گرا تھا۔
’’تم وہ شخص ہو میکال جسے زندگی سے پیار کروانا آتا ہے تمہیں دلوں میں گھر کرنا آتا ہے۔ کسی بھی لڑکی کے دل کو اپنے قدموں کی آہٹ پر دھڑکانا آتا ہے تم محبت کی نگری کے وہ مسافر ہو میکال جو خواب دکھاتا ہے اور پھر اپنے اسیروں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے تصور میں قید کرلیتا ہے اور میں… میں وہ بد نصیب لڑکی ہوں جو صرف تمہاری رفاقت کے خواب دیکھ سکتی ہے‘ مگر تمہیں پا نہیں سکتی۔ اس لیے آج میں یہاں تم سے مل کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تمہیں اپنی یادوں میں قید کرلینا چاہتی ہوں تم سمجھ لینا کہ ہم کبھی ملے ہی نہیں تھے۔‘‘
’’کیا تمہارے لیے یہ سمجھ لینا آسان ہے؟‘‘
’’نہیں‘ مگر اس کے سوا کوئی حل بھی تو نہیں ہے۔‘‘
’’حل نکالا جا سکتا ہے آخر تم مجھے اپنے گھر والوں سے بات کرنے کیوں نہیں دے رہیں؟‘‘ وہ زچ ہوا تھا۔ عائشہ نے اپنے ہاتھ اس کی گرفت سے نکالتے ہوئے آنسو پونچھے۔
’’اب اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ تم میری فیملی کو نہیں جانتے۔ یہ لوگ ایک بار اگر کوئی بات طے کرلیں تو پھر مرتے دم تک اس سے پیچھے نہیں ہٹتے اور میں ان بیٹیوں میں سے نہیں ہوں جو اپنی خواہشات کے لیے اپنے ماں باپ کے سامنے تن کر کھڑی ہوجاتی ہیں۔‘‘ سر جھکائے بہت دھیمے لہجے میں وہ کہہ رہی تھی۔
’’میری ماں نے زندگی میں بہت دکھ دیکھے ہیں۔ پاپا کی رحلت کے بعد بہت مشکل سے پال پوس کر بڑاکیا ہے ہمیں۔ میں انہیں مزید کوئی دکھ نہیں دینا چاہتی میکال۔ میں وہ ہر گز نہیں کرنا چاہتی جو میری آپی نے کیا‘ بہت مشکل سے سنبھالا ہے میری ماں نے خود کو میں دوبارہ انہیں اس اذیت میں نہیں دھکیل سکتی۔‘‘
’’اچھی بات ہے مگر میرا کیا قصور ہے۔ کس چیز کی کمی ہے مجھ میں؟ تم اپنے والدین کے عمر بھر کے دکھوں کا مداوا مجھے دکھ سونپ کر کیوں کرنا چاہتی ہو؟‘‘ اس بار میکال کے لہجے میں دکھ کی آمیزش تھی۔
’’کیا قصور ہے میرا کہ میں ساری زندگی خوشی کے لیے ترستا رہوں تم میری آئیڈیل ہو عائش پہلی محبت ہو میری‘ میں یوں آسانی سے تمہیں کھو کر زندہ نہیں رہ سکتا۔ بہت شدت سے چاہا ہے
میں نے تمہیں۔ زندگی میں کسی کو تمہارا مقام نہیں دے سکوں گا۔ میری زندگی میں کوئی اور لڑکی کبھی تمہاری جگہ نہیں لے سکے گی۔ سچ میں مرجائوں گا۔ تمہیں اپنی ماں کی پروا ہے میری نہیں۔‘‘ اس کا لہجہ بھیگ گیا تھا۔ عائشہ کو لگا وہ سانس بھی نہیں لے پائے گی۔
’’ایم سوری میکال‘ رئیلی ویری سوری۔‘‘ اس کی آنکھوں سے بھی لہو ٹپک رہا تھا۔ وہ رخ پھیر گیا۔
’’نہیں‘ تم ایک سنگدل اور منافق لڑکی ہو‘ میں کبھی تمہیں اس بے وفائی کے لیے معاف نہیں کروں گا۔‘‘
’’میکال…!‘‘ بہت شدت سے تڑپ کر اس نے اسے پکارا تھا مگر میکال نے پلٹ کر اس کی طرف نہیں دیکھا تھا وہ اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
’’میں جا رہی ہوں تم سمجھ لینا تمہیں جس عائشہ برہان سے محبت ہوئی تھی وہ مر گئی۔ خدا حافظ…! ہو سکے تو پلیز مجھے معاف کردینا اور اپنا بہت خیال رکھنا۔‘‘
اسے جانے کی جلدی تھی وہ ہارے ہوئے شکستہ جواری کی طر چپ چاپ بیٹھا رہ گیا۔ شام اپنی تمام تر اداسی کے ساتھ رخصت ہو رہی تھی۔ اسے لگا جیسے وہ اپنی متاع کل لٹا چکا ہو۔ اس میں اتنی سی ہمت بھی نہیں رہی تھی کہ وہ اٹھ کر اسے اس کے گھر تک ڈراپ ہی کردیتا۔ تاہم اپنی گاڑی کی چابی ضرور اس نے اس کے پرس میں ڈال دی تھی۔ محبت بچھڑ رہی تھی اور وہ جیسے آنکھوں میں ریت بھرے خود اپنی ہی بربادی کا تماشا دیکھ رہا تھا۔
آخری بار ملو
ایسے کہ جلتے ہوئے دل
راکھ ہوجائیں کوئی اور تقاضا نہ کریں
چاکِ وعدہ نہ سلے‘ زخم تمنا نہ کھلے
سانس ہموار رہے شمع کی لو تک نہ جلے
باتیں بس اتنی کہ لمحے بھی انہیں گن جائیں
آنکھ اٹھائے کوئی امید تو آنکھ چھن جائے
اس ملاقات کا اس بار کوئی وہم نہیں
جس سے اک اور ملاقات کا امکاں نکلے
اب نہ ہیجان جنوں کا نہ حکایات کا وقت
اب نہ تجدید محبت نہ شکایات کا وقت
لٹ گئی شہر حوادث میں متاع الفاظ
اب جو کہنا ہو تو کیسے کوئی نوحہ کہیے
آج تک تم سے رگ جاں کے کئی رشتے تھے
کل سے جو ہوگا اسے کون سا رشتہ کہیے
پھر نہ دہکیں گے کبھی عارض و رخسار ملو
ماتمی ہیں دم رخصت در و دیوار ملو
ہم نہ پھر ہوں گے نہ اقرار نہ انکار ملو
’’آخری بار ملو۔‘‘
عائشہ برہان جا چکی تھی!
کسی منہ زور آندھی کی طرح وہ اس کی زندگی میں آئی تھی اور پھر چلی بھی گئی مگر وہاں دل پر کبھی نہ مندمل ہونے والا ایک زخم ضرور لگ گیا تھا۔ اس رات اس کی گھر واپسی نہیں ہوئی تھی وہ خود کو ختم کرلینا چاہتا تھا مگر… نہیں کر پایا۔
…٭٭٭…​
اگلے روز اس کی آنکھ اسپتال میں کھلی تھی۔
کل عائشہ برہان کے چلے جانے کے بعد جس حال میں اٹھ کر وہ گھر واپسی کے لیے چلا تھا اس کا ایکسیڈنٹ ہوجانا لازمی بات تھی۔ جانے کب سامنے سے آتی گاڑی نے اسے ٹکر ماری۔ اس کے بعد اسے کوئی ہوش نہیں رہا تھا کہ وہ کہاں ہے؟
آنکھوں کے سامنے یکلخت اندھیرا چھا گیا تھا۔ اس کی آنکھ کھلی تو مسز حسن اس کے بیڈ کے قریب بیٹھی رو رہی تھیں۔
’’میکال… میری جان تم ٹھیک ہو نا؟‘‘
’’جی۔‘‘ اسے ٹانگ میں شدید درد کا احساس ہو رہا تھا تبھی وہ پھر سے پلکیں موند گیا۔
’’کہاں گئے تھے کل؟ تمہیں پتا ہے تمہارے پاپا کتنے پریشان رہے ہیں تمہارے لیے۔ کتنا بڑا نقصان ہوا ہے کل…!‘‘
’’سوری مما… ایک دوست کی طرف نکل گیا تھا۔‘‘
’’اتنا اہم دوست تھا کہ لاکھوں کے نقصان کی پروا نہیں کی۔‘‘ وہ متحیر تھیں۔ میکال کے رگ و پے میں شدید درد کی ٹیس سرائیت کر گئی۔ بند پلکوں سے بے ساختہ آنسو پھسلے تھے۔
’’میکال کیا بات ہے میری جان سب ٹھیک تو ہے نا۔‘‘ اپنے سوال پر اس کے خاموش آنسوئوں نے انہیں بے چین کردیا تھا۔
’’جی…!‘‘ کچھ لمحے کمرے میں خاموشی چھائی رہی تبھی وہ بولا تھا۔
’’آپ لوگ چاہتے ہیں ناں مما کہ میں کمال بھائی کی جگہ پاپا کی یو کے والی فرم کا چارج سنبھال لو۔‘‘ زندگی میں پہلی بار مسز حسن اسے اتنا رنجیدہ دیکھ رہی تھیں۔ مسٹر حسن بھی کمرے میں چلے آئے تھے مسز حسن اسے دیکھتی رہ گئیں۔
’’میں آپ لوگوں کی خواہش پر سر جھکانے کے لیے تیار ہوں ماما‘ آپ پاپا سے کہیں کمال بھائی کو واپس بلالیں۔‘‘ اپنی بات مکمل کرنے کے بعد اس نے پھر پلکیں موند لی تھیں۔ جواب میں ریاض حسن صاحب اور ان کی بیگم دونوں شاکڈ رہ گئے تھے۔ وہ تو کسی صورت پاکستان سے جانے پر آمادہ نہیں تھا۔ اب ایک دم سے کیا ہوا تھا کہ اس نے یہ جاں گسل فیصلہ اچانک کرلیا تھا۔
’’میکال… تم ٹھیک تو ہو نا؟‘‘
مسز حسن پریشانی سے اس پر جھکی تھیں۔ تبھی ریاض حسن صاحب نے ان کے شانے پر ہاتھ رکھ کر انہیں آنکھ کے اشارے سے خاموش رہنے کی ہدایت کی تھی۔ ’’مصطفیٰ ہائوس‘‘ میں اس رات کوئی فرد بھی سکون کی نیند نہیں سو سکا تھا۔
…٭٭٭…​
ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہَوا چل رہی تھی اور وہ سنگی بینچ پر خاموش بیٹھا جانے کن خیالات میں گم تھا جب ہانیہ نے چپکے سے اس کے پیچھے آکر اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیے۔ نہال نے ان ہاتھوں کی نرماہٹ کو فوراً پہچان لیا تھا۔
’’ہانی…!‘‘
’’جی ہاں‘ ہانی آج مجھے بتا کر کیوں نہیں نکلے گھر سے؟‘‘ اس کے شانے پر ہلکا سا مکا رسید کرتی وہ اس کے برابر میں بیٹھ گئی تھی۔ نہال کے لبوں پر ہلکی سے مسکان بکھر گئی۔
’’میری مرضی‘ تمہیں بتا کر نکلتا ہوں تو سارے رستے فضول سر کھاتی رہتی ہو۔‘‘
’’یہ بات ہے؟‘‘ اس نے آنکھیں دکھائی تھیں وہ کھل کر ہنس پڑا۔
’’نہیں یار مذاق کر رہا ہوں اصل میں کچھ اپ سیٹ تھا۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’بس یونہی میکال بھائی یو کے جا رہے ہیں۔‘‘
’’تو اس میں اپ سیٹ ہونے کی کیا بات ہے؟‘‘
’’بات تو کوئی نہیں مگر وہ اپنی خوشی سے نہیں جا رہے۔ تم عائشہ برہان کے بارے میں تو جانتی ہو کتنے ٹچی ہیں وہ ان کے معاملے میں۔ مگر کل سے وہ ان کے بارے میں کوئی بات نہیں کر رہے بس اسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بعد سارا دن کمرا بند کیے پڑے رہتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ ایکسیڈنٹ شدید نہیں تھا۔ ورنہ شاید وہ چل پھر بھی نہ سکتے۔‘‘
’’ہوں‘ ہوسکتا ہے ان کا جھگڑا ہوگیاہو عائشہ جی سے۔‘‘
’’شاید ایسا ہی ہو‘ مگر… میرا خیال ہے کہ انہیں شیئر کرنا چاہیے۔ یوں چپ چاپ میدان چھوڑ کر بھاگنا نہیں چاہیے۔‘‘
’’صحیح کہا تم نے‘ خیر چھوڑو چلو گھر چلتے ہیں میرا خیال ہے ابھی تھوڑی دیر میں بارش شروع ہونے والی ہے۔‘‘
اسے میکال حسن اور اس کی عائشہ جی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی تبھی فوری اٹھ کھڑی ہوئی تو نہال کو بھی اس کی تقلید کرنی پڑی… وہ دونوں یونیورسٹی کے بے حد اچھے دوست تھے اور اس وقت جاگنگ کے لیے نکلے تھے۔ نہال اس روز گھر آکر بھی میکال حسن کے لیے خاصا اپ سیٹ رہا تھا۔
…٭٭٭…​
ریاض حسن صاحب ریٹائرڈ کرنل تھے۔ زندگی کا طویل حصہ آرمی جیسی خشک جاب میں بسر کرنے کے باوجود اپنے گھر والوں کے ساتھ ان کا رویہ بے حد نرم‘ شگفتہ اور دوستانہ تھا۔ قدرت نے انہیں زندگی کے ہر میدان میں آسودگی ہی آسودگی سے نوازا تھا۔ بہترین جاب‘ محبت کرنے والی بے مثال بیوی اور بے حد سمجھ دار‘ فرماں بردار بچے…!
وہ اپنے مالک حقیقی کا جتنا بھی شکر ادا کرتے کم تھا۔
کمال حسن ان کے سب سے بڑے ہونہار بیٹے تھے اور شادی شدہ تھے۔ ریاض صاحب نے آرمی سے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنا ذاتی کاروبار شروع کردیا تھا۔ جس میں کمال ان کے ہم قدم تھا۔ پچھلے دس سال میں ان کی گتے کی فیکٹری ترقی کر کے کہاں سے کہاں پہنچ گئی تھی۔ اسی لیے دو سال قبل ریاض صاحب نے کمال کو اپنی یو کے والی فرم کا چارج سنبھالنے کے لیے وہاں بھیج دیا تھا۔ میکال ان دنوں اپنا ایم بی اے مکمل کر کے نیا نیا بزنس کی طرف آیا تھا۔ وہ بھی ریاض صاحب کی ضد و اصرارپر‘ وگرنہ وہ اپنے بل بوتے پر ہی کچھ کرنا چاہتا تھا۔ میکال سے چھوٹا نہال ابھی یونیورسٹی میں پڑھ رہا تھا۔ جبکہ مائرہ کالج میں تھی۔
میکال کی طبیعت اپنے دونوں بھائیوں سے قدرے مختلف تھی۔ وہ اپنے آپ میں مگن رہنے والا بہت ریزرو نیچر کا مالک تھا۔ کمال کی بیوی غیا ان کی چچا زاد تھی اور بے حد شگفتہ مزاج کی حامل خاتون تھی۔
غیا کے والد فیاض حسن صاحب کا اپنا بزنس تھا اور وہ ساتھ والے پورشن میں ہی قیام پزیر تھے۔ غیا کی ایک چھوٹی بہن اور ایک بڑا بھائی سمیر تھا۔ پچھلے پچیس سالوں سے دونوں گھرانوں کی محبت مثالی تھی۔ صبح کا ناشتا ہوتا یا دوپہر کا لنچ یا پھر رات کا ڈنر دونوں گھرانوں کے افراد ایک ہی میز پر مل جل کر کھانا کھاتے تھے۔ مائرہ اور سارا ایک ہی کالج میں پڑھ رہی تھیں اور دونوں کی گہری دوستی تھی۔ نہال اور سمیر آپس میں بہت کلوز فرینڈ تھے۔ گھر میں ہر وقت دھما چوکڑی کا ماحول رہتا تھا مگر میکال اس ماحول کا حصہ نہیں تھا۔ اس کی گھر میں کسی کے ساتھ بھی فرینڈ شپ نہیں

 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
تھی۔ جتنا وقت وہ گھر پر گزارتا تھا اس کی یہی کوشش ہوتی تھی کہ اپنے کمرے میں بند رہے۔ غیا کے ساتھ بھی بس واجبی سی دعا سلام تھی اس کی یہی وجہ تھی کہ ریاض صاحب اسے کمال کی جگہ یو کے کے بھیجنے پر بضد تھے مگر وہ عائشہ کی وجہ سے ان کی اس ضد کے سامنے اڑ گیا تھا۔
عائشہ اسے اتنی دور بھیجنے کے حق میں نہیں تھی مگر‘ اب تو بازی الٹ گئی تھی۔ یو کے جانے کا فیصلہ کر کے اپنے بند کمرے میں وہ بہت دیر تک بے آواز روتا رہا تھا۔
…٭٭٭…
عائشہ برہان نے جس وقت قدم گھر کی دہلیز پر رکھے وہاں عجیب سناٹے کا راج تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے کسی کی مرگ ہوگئی ہو‘ اور مرگ تو ہوگئی تھی خود اپنے آپ کو مار کر باہر دفن کرنے کے بعد ہی وہ گھر واپس لوٹی تھی۔
لائونج خالی پڑا تھا وہ کچھ دیر گم صم سی وہیں بیٹھی خود کو سنبھالنے کی کوشش کرتی رہی پھر سوفے کی پشت گاہ سے سر ٹکا کر پلکیں موندلیں۔ ایک عجیب سی تھکن جیسے اس کی رگ رگ میں سرائیت کر گئی تھی۔ عین اسی لمحے اسے اپنی ماں کے کمرے سے اپنی بڑی بہن کے چنگھاڑنے کی آواز سنائی دی تھی۔
’’آپ ٹھیک نہیں کر رہی ہیں امی۔ وہ لڑکا کسی بھی طور سے عائشہ کے قابل نہیں ہے۔ دیکھنے سے ہی پاگل لگتا ہے۔ کیسی ماں ہیں آپ؟ خاندان سے رشتا بنائے رکھنے کے لیے اپنی بیٹی کو سولی پر چڑھا دیں گی‘‘ اس کا دل چاہا وہ دونوں کانوں پر انگلیاں رکھ لے مگر وہ بے حس بنی بیٹھی رہی۔ بہن کے بعد اب اس کی ماں چیخ رہی تھی۔
’’بکواس بند کرو اپنی اور دفع ہوجائو یہاں سے کوئی حق نہیں ہے تمہیں اپنی ماں کے فیصلوں میں ٹانگ اڑانے کا۔ تم نے جو کرنا تھا اپنی باری پر کر چکی اب میں اسے کسی پاگل سے بیاہوں یا ہوش مند سے یہ میرا اور اس کا معاملہ ہے سمجھیں تم؟‘‘
’’ظلم کر رہی ہیں آپ اور وہ بھی اپنی سگی اولاد پر۔ ماں سے بڑھ کر اس روئے زمین پر کوئی رشتا خوب صورت اور مخلص نہیں‘ ماں سے زیادہ اولاد کا غمگسار دوسرا کوئی نہیں‘ ماں تو بن کہے اپنی اولاد کے دل کا حال جان لیتی ہے۔ آپ کیسی ماں ہیں جو آپ کو اس کی آنکھوں میں تیرتے آنسو دکھائی نہیں دے رہے۔‘‘
ایک بار پھر اسے اپنی بہن کی آواز سنائی دی اور اس کے فوراً بعد ہی ماں کی۔
’’تم بکواس بند کرو گی یا میں دھکے دے کر نکال دوں تمہیں یہاں سے؟‘‘
’’نکال دیں یہی کرسکتی ہیں آپ‘ مجھے تو لگتا ہی نہیں کہ آپ ہماری سگی ماں ہیں مجھ پر دائو نہیں چلا تو چھوٹی بیٹی کو اپنی جھوٹی انا پر قربان کر رہی ہیں۔‘‘
اس کے حق میں کسی قابل وکیل کی مانند بولتی اس کی بہن از حد جرأت کا مظاہرہ کر تے ہوئے کمرے سے نکل آئی تھی۔ عائشہ نے پلکوں سے ٹوٹ کر گال پر پھسلتے آنسو کو مٹھی میں دبا لیا۔ تھوڑی دیر بعد اسے سیڑھیوں پر اپنی بہن کی سینڈل کی ٹک ٹک سنائی دی تھی۔ وہ بے جان سی بیٹھی رہی۔ اس کی بہن اب خاموشی سے اس کے پہلو میں سوفے پر آبیٹھی تھی۔
’’یوں چپ کر کے بیٹھے رہنے سے زندگی کے مسائل حل نہیں ہوتے۔ سمجھیں تم۔‘‘
’’میرے پاس اس کے سوا دوسرا کوئی حل نہیں ہے آپا۔‘‘
’’کیوں حل نہیں ہے صاف انکار نہیں کرسکتیں؟ تم پڑھی لکھی سمجھ دار لڑکی ہو وہ شخص جو کسی بھی طرح سے کسی لڑکی کے قابل نہیں ہے تم اس شخص سے شادی کا تصور بھی کیسے کرسکتی ہو؟ اور پھر میکال اس سارے کھیل میں اس کا کیا قصور ہے اسے کس بات کی سزا دے رہی ہو تم؟‘‘ طائشہ کی آنکھوں میں خفگی تھی‘ غصہ تھا‘ رنج تھا۔
عائشہ نے آہستہ سے رخ پھیر لیا۔ اس کی آنکھیں اس لمحے جیسے جل رہی تھیں۔
’’آج جو میرے ساتھ ہو رہا ہے یہ آپ کا نصیب تھا آپا مگر آپ نے اپنے نصیب سے بغاوت کر کے اپنی پسند کا ہم سفر چن لیا‘ دو سال پہلے اگر آپ ایسا نہ کرتیں تو آج میں میکال کے لیے کچھ کر سکتی تھی۔ مگر اب نہیں آپا‘ مجھ میں دو سال پہلے والا تماشا دوبارہ دیکھنے کی ہمت نہیں ہے۔‘‘
’’نہیں ہے تو مرو‘ میرا کیا جاتا ہے۔‘‘
عائشہ کے جواب نے اسے تپا دیا تھا تبھی مزید بحث کیے وہ اٹھ گئی تھی مگر عائشہ سر جھکائے ٹپ ٹپ بہتے آنسوئوں کے ساتھ وہیں بیٹھی رہی۔ اس رات کا ایک ایک لمحہ اس پر کسی عذاب کی صورت نازل ہوا تھا۔
…٭٭٭…​
اگلی صبح ناشتے کی میز پر اس کا سامنا اپنی ماں سے ہوا تھا۔
سرخ متورم آنکھیں رات بھر رت جگے کی چغلی کھا رہی تھیں۔ ہلکا ہلکا بخار بھی تھا۔ اس کے باوجود وہ اپنے ٹائم پر بے دار ہو کر کمرے سے نکلی تھی۔ سعد بھی خلاف توقع وہیں موجود تھا۔ تاہم اس کی بہن موجود نہیں تھی۔ رات شدید جنگ کے بعد شاید طائشہ اپنے گھر واپس چلی گئی تھی۔ ناشتے کی میز پر آج خاصا اہتمام تھا۔ وہ ماں اور بھائی کو مشترکہ سلام کرتی اپنی نشست پر بیٹھ گئی۔
’’کیسی ہو‘ جاب سے ریزائن دے دیا یا نہیں؟‘‘
نشست سنبھالتے ہی ماں نے سوال داغ دیا تھا۔ وہ ’’کیسی ہو‘‘ کو یکسر نظر انداز کر گئی۔
’’جی… کل شام دے آئی تھی۔‘‘
’’شاباش‘ آج گائوں سے تمہارے سسرالی آرہے ہیں۔ بہت جلدی ہے انہیں اپنی بہو کو گھر لے جانے کی اگلی اتوار کا ٹائم طے کیا ہے میں نے‘ تم آج ان کے ساتھ جا کر کچھ شاپنگ وغیرہ کرلینا۔‘‘
’’ٹھیک ہے امی۔‘‘ اس کا سر جھکا تھا تبھی شاید انہیں خیال آیا۔
’’تم خوش ہو نا عائشہ؟‘‘
اور عائشہ کا دل چاہا وہ اس سوال پر خوب ہنسے‘ مگر اپنے آنسوئوں کی طرح اس نے اپنی ہنسی کا گلا بھی گھونٹ دیا تھا۔
’’کیا فرق پڑتا ہے امی۔ میری خوشی تو آپ کی خوشی میں ہے۔ اگر آپ خوش ہیں تو میں بھی خوش ہوں کیونکہ میرا ایمان ہے کوئی ماں کبھی اپنی اولاد کا برا نہیں چاہ سکتی۔ آپ نے میرے لیے جو طے کیا ٹھیک ہی ہوگا۔ نہ بھی ہوا تو کیا فرق پڑتا ہے‘ آپ مجھے جنم دینے والی ہیں۔ راتوں کو جاگ جاگ کر سنبھالنے اور پیٹ کاٹ کاٹ کر پالنے والی ہیں آپ خدا کا دوسرا روپ ہیں امی میں آپ کے حکم کی خلاف ورزی کیسے کرسکتی ہوں؟‘‘
’’خوش رہو بیٹے؟‘‘اس کے الفاظ نے عائزہ بیگم کے دل پر خاص اثر کیا تھا۔ تبھی انہوں نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔
’’طائشہ بکواس کرتی ہے اسے ماں کی قدر نہیں ہے مگر تم وہاں بیاہ کر جائو گی تو دیکھو گی تمہاری ماں نے تمہارے لیے کیسا شان دار گھر پسند کیا ہے میں بہت ڈری ہوئی ہوں عائشہ‘ تمہارے ابا کے بعد ساری زندگی ایک ایک چیز کے لیے ترس ترس کر جیسے میں نے عمر پوری کی ہے میں نہیں چاہتی ویسی ہی زندگی تمہیں گزارنی پڑے۔ پھر تمہارے ابا کی وفات کے بعد میں بہت اکیلی پڑ گئی ہوں۔ ایسے میں خاندان والوں سے کٹ کر میں اپنی بیٹیاں غیر خاندان کے سپرد کیسے کرسکتی ہوں۔ اپنا اگر مارے بھی تو چھائوں میں پھینکتا ہے تم سمجھ رہی وہ نا میری بات۔‘‘
’’جی امی۔‘‘ وہ اگر یہ ساری وضاحت نہ بھی کرتیں تب بھی اسے کہیں بھاگنا نہیں تھا۔
’’شاباش‘ سیدھا سادا لڑکا ہے۔ دیکھا ہے میں نے زیادہ چخ چخ نہیں ہے گھر میں ماں بہن تھوڑی تیزی ہے مگر تمہیں تو شوہر کے ساتھ رہنا ہے وہ اگر مٹھی میں ہو تو ساس نندوں کا کیا ہے؟ گھر کی گاڑی ہے زمین ہے اور کیا چاہیے سعد کا ویزہ لگوا دیا ہے تمہارے دیور نے وہ باہر ہی ہوتا ہے۔ اب دیکھنا اس گھر کے حالات بھی چٹکیوں میں بدل جائیں گے۔‘‘
اپنی بیٹی کا سودا کر کے وہ ماں خوش ہو رہی تھی اور عائشہ کو اب پتا لگا تھا کہ اس کا پورا گھر اس رشتے پر خوش کیوں تھا۔ جس کی نسبت اس سے بڑی طائشہ سے طے تھی طائشہ کے انکار اور پھر اپنی مرضی سے گھر والوں کی پسند کے بغیر کورٹ میرج کرلینے کے بعد وہ ہڈی خود بخود اس کے گلے میں فٹ ہوگئی تھی۔ سارا خاندان اور برادری الگ منہ بنائے بیٹھے تھے۔ ایسے میں وہ چاہتے ہوئے بھی اپنے لیے کچھ نہیں کرسکتی تھی۔

بیٹی رحمت کا روپ بن کر باپ کے گھر جنم لیتی ہے‘ پروان چڑھتی ہے اور پھر اس رحمت کو اس کے وارث جب چاہیں جیسے چاہیں آزمائش کی بھٹی میں ڈال دیتے ہیں۔ وہ بھی رحمت تھی لہٰذا اس نے بھی دل پر پتھر رکھ کر خود کو اپنے والدین کی طرف سے آزمائش کی بھٹی میں جلانے کے لیے ذہنی طور پر تیار کرلیا تھا۔
…٭٭٭…​
اس کی شادی طے ہوگئی تھی۔
پتھر کے بے جان مجسمے کی طرح نکاح کے روز وہ آنکھوں کے سوتے خشک کیے اپنے ساتھ ہونے والا تماشا دیکھتی رہی تھی۔ جس روز اس کا نکاح تھا اس سے دو روز قبل اسے میکال حسن کی طرف سے ایک خط ملا تھا اور اس خط میں سوائے سرخ روشنائی سے تحریر ایک قطعے کے اور کچھ بھی نہیں تھا۔ نہ کوئی سوال‘ نہ گلہ‘ بس ایک قطعہ۔
عکس پانی کا اگر قید کیا جاسکتا
عین ممکن تھا کہ اس شخص کو میں پا سکتا
کتنی بے سود جدائی ہے کہ دکھ ہے نہ ملال
کوئی دھوکہ ہی وہ دیتا کہ میں پچھتا سکتا
اور عائشہ نے یہ قطعہ بھیگی آنکھوں سے پڑھنے کے بعد ہمیشہ کے لیے محفوظ کرلیا تھا۔
…٭٭٭…​
میکال حسن کو یو کے آئے ہوئے دوسرا سال تھا۔ جب اس روز اسکائپ پر مائرہ نے اس سے رابطہ کیا۔
’’السّلام علیکم! بھائی کیسے ہیں آپ؟ ٹھیک ٹھاک ہیں نا؟ آپ کے لیے ایک گڈ نیوز ہے۔‘‘ ہر روز آن لائن ہوتے ہی وہ یونہی شروع ہوجاتی تھی۔ میکال جو ابھی کیمرا سیٹ کر رہا تھا ایک دم سے چونک اٹھا۔
’’گڈ نیوز۔‘‘
’’جی ہاں گڈ نیوز‘ سنیں گے؟‘‘
’’ہوں۔‘‘
’’مما نے آپ کے لیے لڑکی پسند کرلی ہے اور پتا ہے لڑکی کون ہے…ہانیہ صفدر۔‘‘ مسکرا کر مطلع کرتے ہوئے اس نے گویا دھماکا کر ڈالا تھا۔ وہ سر تا پیر ہل کر رہ گیا۔
’’وہاٹ مگر میری مرضی کے بغیر یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ میں ابھی شادی کے حق میں نہیں ہوں۔‘‘
’’تو کیا ہوا۔ ہم لوگ تو ہیں نا اور پھر ہانیہ جیسی لڑکی تو چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی۔ آپ نے تو دیکھا ہی ہوا ہے انہیں۔ کل نہال بھائی کی برتھ ڈے پارٹی میں آئی تھیں۔ اتنی پیاری لگ رہی تھیں کہ بس مت پوچھیں۔ ویسے بھی آپ کو کون سا ان کے ساتھ رہنا ہے۔ وہ تو یہاں رہیں گی ہمارے پاس۔‘‘
مائرہ اپنا راگ الاپ رہی تھی۔ میکال نے تنک کر لائن ڈسکنکٹ کردی۔
دو سال ہوگئے تھے مگر آج بھی اس کے دل میں اپنی محبت کا زخم تازہ تھا۔ آج بھی بے دار ہو کر آنکھ کھلتے ہی وہ بے تابی سے موبائل دیکھتا کہ شاید عائشہ کی طرف سے کوئی میسج آیا ہو‘ دن بھر اس کی یاد چٹکی بن کر کاٹتی رہتی۔ رات میں بستر پر لیٹتا تو وہ چھم سے تصور میں آموجود ہوتی۔ اس کی ہر یاد اب بھی اس کے دل سے لپٹی تھی۔
’’پتا ہے میکال جب ہماری شادی ہوگی نا تو میں روز تمہیں بہت پیار سے لاڈ کر کے جگایا کروں گی۔‘‘
اس روز وہ دونوں قریبی پارک آئے تھے جب عائشہ نے بہت ترنگ میں اس سے کہا تھا میکال اس کی بات پر مسکرایا تھا۔
’’اچھا‘ مثال کے طور پر کیسے جگایا کرو گی؟‘‘
’’اوں… سوچنے دو… ہاں… تم سو رہے ہو گے میں کمرے میں آئوں گی تمہیں آواز دوں گی مگر تم آنکھیں نہیں کھولو گے۔ تب میں بیڈ پر تمہارے پہلو میں بیٹھ کر ذرا سا جھکوں گی۔ پھر اپنے لب تمہاری پیشانی پر رکھ دوں گی تم ذرا سا کسمسائو گے اور میں پیشانی کے بعد تمہاری آنکھوں کو باری باری چوموں گی۔ پھر دونوں گالوں پر پیار کروں گی پھر…!‘‘ وہ شرما بھی رہی تھی اور بتا بھی رہی تھی میکال کی آنکھیں شرارت سے چمک اٹھیں۔
’’ہوں اور تمہیں پتا ہے پھر اس کے بعد میں کیا کروں گا۔‘‘
’’نہیں تم بتا دو۔‘‘
’’شادی کے بعد بتائوں گا۔‘‘
عائشہ کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ میکال کا دل چاہا اسے خود میں جذب کرلے۔ اسے خبر بھی نہ ہوئی اور اس کی آنکھوں کے گوشے نمی سے بھیگ گئے۔ اسی لمحے اس نے اپنے گھر کا نمبر ڈائل کیا تھا۔
’’السّلام علیکم امی!‘‘ کئی بیلز کے بعد اس کی کال مسز حسن نے ریسیو کی تھی۔
’’وعلیکم السّلام کیسے ہو بیٹا۔‘‘
’’ٹھیک ہوں۔‘‘ چاہنے کے باوجود ان سے اپنے لہجے کی نمی چھپا نہیں سکا تھا۔
’’مگر مجھے ٹھیک نہیں لگ رہے ہو کیا تم رو رہے ہو میکال؟‘‘
وہ ماں تھیں اور مائوں کے دلوں کے ساتھ قدرت نے عجیب سگنل فٹ کیے ہوتے ہیں سمندر پار سے بھی انہیں اپنی اولاد کی آنکھوں میں آنسو دکھائی دے جاتے ہیں۔ میکال نے ان کے سوال پر اپنی آنکھیں رگڑلیں۔
’’نہیں مما‘ ایسی کوئی بات نہیں‘ بس کل سے زکام ہوا ہے تو خیر چھوڑیں آپ اس بات کو‘ مجھے آپ سے کچھ اور بات کرنی تھی۔‘‘
’’جی میری جان کہو۔‘‘
’’مما مائرہ بتا رہی تھی آپ لوگوں نے میرے لیے کوئی لڑکی پسند کی ہے۔‘‘
’’ہاں بہت پیاری بچی ہے ہانیہ‘ تمہارے پاپا کے بہت عزیز دوست کی بیٹی ہے تم جانتے تو ہو انہیں۔ پسند آئی ہے ہمیں‘ بس میں اور تمہارے پاپا تو رشتا کر آئے ہیں۔‘‘
’’مگر مما آپ لوگوں کو مجھ سے پوچھنا چاہیے تھا۔ میں ابھی شادی نہیں کرسکتا پلیز آپ نہال کی کردیں۔‘‘
’’پاگل ہوئے ہو‘ اس کی ابھی تعلیم مکمل نہیں ہوئی ہے۔‘‘
’’تو کیا ہوا جب پاپا نے آپ سے شادی کی تھی تو آپ کی بھی تعلیم مکمل نہیں ہوئی تھی۔‘‘
’’عورت اور مرد میں فرق ہوتا ہے بیٹے‘ ایک لڑکا جو ابھی اپنے پیروں پر کھڑا بھی نہیں ہوا میں اس کے لیے اس بچی کا ہاتھ مانگ لوں جو ہزاروں نہیں لاکھوں میں ایک ہے اور تم کیا سمجھتے ہو اس کے لیے رشتوں کی کمی ہے۔ ہر گز نہیں‘ بہت لوگ ہیں اس کے لیے جھولی پھیلانے والے مگر تمہارے پاپا کی محبت کی وجہ سے وہ لوگ ہماری عزت کر رہے ہیں۔‘‘
’’جو بھی ہو‘ میں اس شادی کے لیے تیار نہیں ہوں‘ سوری۔‘‘ اس کا ضبط جواب دے رہا تھا۔ تبھی حتمی لہجہ اختیار کرتے ہوئے اس نے لائن کاٹ دی تھی۔
’’کیا ہوا مما؟‘‘ نہال لائونج میں مسز حسن کے پاس ہی بیٹھا تھا۔ وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے چپ چاپ سی وہیں بیٹھ گئیں۔
’’میکال نے شادی سے انکار کردیا ہے۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
’’پتا نہیں؟‘‘
’’مجھے پتا ہے۔‘‘ گہری سانس بھرتے ہوئے اس نے ہاتھ میں پکڑی کتاب بند کردی تھی۔ مسز حسن نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔
’’کیا پتا ہے؟‘‘
’’اس کی زندگی میں ایک لڑکی تھی مما‘ عائشہ برہان پاپا کے آفس میں ہی کام کرتی تھی میکال بہت چاہتا ہے اسے‘ مگر بد قسمتی سے اس لڑکی کے گھر والوں نے اس کی شادی کہیں اور کردی اسی لیے وہ گھر اور ملک چھوڑ کر گیا ہے۔‘‘
’’تمہیں کیسے پتا ہے یہ سب‘‘
’’میکال کے دوست نے بتایا تھا آج کل یو کے میں اسی کے ساتھ ہوتا ہے۔ پل پل کی خبر دیتا رہتا ہے اس کی۔ میکال اپنے ساتھ ٹھیک نہیں کر رہا ہے مما‘ وہ خود کو تباہ کر رہا ہے۔‘‘
ایک کے بعد ایک یہ کیا انکشاف ہو رہا تھا۔ یہ ساری باتیں سن کر حیران ہوگئی تھیں۔ اسی روز رات میں انہوں نے ریاض حسن صاحب سے بات کی۔
’’میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا کروں؟‘‘
’’تم فکر مت کرو‘ ہانیہ بہت پیاری بچی ہے‘ یقیناًوہ اسے سمیٹ لے گی۔‘‘
’’مگر وہ ہانیہ سے شادی پر تیار نہیں ہے۔‘‘
’’ہوجائے گا ہم پلاننگ ہی ایسی کریں گے کہ اس کے پاس فرار کا کوئی راستا ہی کھلا نہ رہے۔‘‘
’’مگر…!‘‘
’’اگر مگر چھوڑو اللہ بہتر کارساز حقیقی ہے۔ یقیناً وہ سب کچھ بہتر کردے گا۔‘‘ حسن صاحب تھکے ہوئے تھے لہٰذا لائٹ آف کر کے سو گئے۔ تاہم مسز حسن اس رات ایک پل کے لیے بھی نہیں سو سکی تھیں۔
…٭٭٭…
تمہاری یاد کی کرنوں کو اکثر ذہن میں رکھ کر
میں اپنی نیند کھوتا ہوں تو یہ میری محبت ہے
ہَوا‘ احساس‘ خوشبو‘ چاندنی کو دیکھ کر اکثر
تیرے دھوکے میں رہتا ہوں تو یہ میری محبت ہے
فلک کے چاند تاروں کے حسیں جھرمٹ میں جان جاں
تیرے چہرے کو تکتا ہوں تو یہ میری محبت ہے
میں اپنی زندگی کے سارے جذبوں کو میری جاناں
تمہارے نام کرتا ہوں تو یہ میری محبت ہے!
’’یار آخر تم بتا کیوں نہیں دیتیں کہ تمہیں اس شادی پر کیا اعتراض ہے۔ تم یہ شادی کیوں نہیں کرنا چاہتیں؟‘‘ وہ کوئی تیسری بار اس سے پوچھ رہی تھی۔ ہانیہ صفدر نے پلٹ کر اسے دیکھا۔ بھیگی ہوئی پلکوں اور سرخ چہرے کے ساتھ وہ رخ موڑے کھڑکی کے قریب کھڑی رہی تھی۔
’’بتا دوں گی تو کیا ہوجائے گا کیا تم یہ شادی رکوا دو گی؟‘‘
’’ہاں رکوا بھی سکتی ہوں‘ تمہیں پتا ہے تمہارے لیے میں کچھ بھی کرسکتی ہوں مگرتم منہ سے کچھ پھوٹو تو سہی۔‘‘
وہ اس کے لیے پریشان تھی۔ ہانیہ گہری سانس بھرتی کھڑکی سے پلٹ آئی۔
’’یہ شادی رکوا دو ہادیہ‘ جیسے بھی ہوسکتا ہے پلیز نہیں تو میں مرجائوں گی‘ دیکھ لینا تم ٹھیک ایک ہفتے کے بعد ان ہاتھوں پر مہندی کی جگہ خون رچے گا۔ ڈولی کی جگہ جنازہ اٹھے گا میرا۔‘‘ گلو گیر لہجے میں وہ شروع ہوئی تو پھر بولتی چلی گئی۔
ہادیہ نے بے ساختہ اپنا سر پیٹ لیا۔
’’تم پاگل ہوگئی ہو ہانی‘ اور کچھ نہیں یار ماں باپ اولاد کا بھلا سوچتے ہیں ہمیشہ۔‘‘
’’بھلا‘ یہ بھلا سوچا ہے میرے ماں باپ نے میرا۔ ایک شخص جس کے پاس آپ کو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں، خالص محبت‘ خالص جذبات کچھ بھی نہیں اس کے ساتھ میرا رشتا جوڑ کر بھلا کیا ہے میرے گھر والوں نے؟ ایسا بھلا کرتا ہے کوئی اپنی سگی اولاد کے ساتھ؟ میں کیا لولی لنگڑی ہوں‘ اندھی ہوں‘ پچاس سال سے اوپر عمر ہوگئی ہے میری یا پھر بد کردار ہوگئی ہوں۔ کیوں یہ لوگ کسی بوجھ کی طرح گلے سے اتار پھینکنا چاہتے ہیں مجھے‘ کیوں؟‘‘ وہ دوبارہ آبدیدہ ہوگئی تھی۔
ہادیہ اس بار اسے دیکھ کر رہ گئی۔
’’تم غلط سوچ کی شکار ہو رہی ہو ہانیہ‘ میکال بھائی اتنے بھی برے نہیں ہیں کہ کوئی لڑکی ان سے شادی کے لیے یوں رو رو کر آنکھیں سجالے اور پھر آج کل اتنے اچھے لڑکے ملتے کہاں ہیں۔ لڑکیوں کے ماں باپ کی نیندیں اڑی ہوئی ہیں شکر کرو کہ گھر بیٹھے اتنا اچھا بَر مل گیا ہے تمہیں وگرنہ آج کل حسین سے حسین لڑکیاں صرف ایک نام کے لیے کس کس عذاب کا شکار ہو رہی ہیں تم نہیں جانتیں۔‘‘
’’میں جاننا بھی نہیں چاہتی‘ کوئی شوق نہیں ہے مجھے شادی وادی کا اور ایک بٹے ہوئے انسان سے شادی کا تو ہر گز نہیں‘ میں جس حال میں ہوں خوش ہوں۔‘‘
’’آج خوش ہو‘ ساری عمر خوش نہیں رہ سکو گی‘ پانچ سال دس سال پندرہ سال کتنا عرصہ جوان رہو گی ایک وقت آئے گا جب تم تنہا چلتے چلتے تھک جائو گی اور تب تمہارے اندر یہ خواہش بے دار ہوگی کہ کوئی ہو‘ جو زندگی کے سفر میں تمہارے ساتھ چلے مگر تب وقت گزر چکا ہوگا۔ پھر کیا کرو گی؟‘‘
’’خود کشی کرلوں گی مگر میکال حسن جیسے کسی فضول انسان سے شادی نہیں کروں گی۔‘‘ مرغی کی ایک ٹانگ کی طرح وہ اپنی بات سے پیچھے نہیں ہٹی تھی۔
ہادیہ اپنے گال پیٹ کر رہ گئی۔
’’کیوں نہیں کرو گی اتنا خوب صورت اور اچھا رشتا ہے۔‘‘
’’تمہیں لگتا ہوگا تم کرلو‘ ویسے بھی مشکل میں دوست ہی دوستوں کے کام آتے ہیں۔ تم نے دیکھا نہیں فلموں کہانیوں میں فرینڈز کیسی کیسی قربانیاں نہیں دیتیں اپنی فرینڈز کے لیے۔ میری تو پھر بھی حقیقی زندگی ہے وہ بھی بے حد مختصر یہاں تو دوسرا جنم بھی نہیں کہ رو دھو کر ایک قطعی نا پسندیدہ شخص کے ساتھ یہ جیون بیتا لوں اور اگلے جنم میں مجھے میری پسند کا شخص مل جائے۔‘‘ ہادیہ بیڈ سے اتر کر سوفے پر اس کے پاس آ بیٹھی۔
’’آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے محترمہ کہ یہاں میری بھی ایک ہی زندگی ہے وہ بھی بے حد مختصر اور دوسری بات تمہارے علم میں ہے کہ میری نسبت بچپن سے ہی تمہارے عاشق مزاج اسٹوپڈ بھائی کے ساتھ طے نہ ہوتی تو میکال حسن جیسے آئیڈیل شخص کو پانا میری اولین ترجیح ہوتی۔‘‘ چٹخارہ لے کر کہتی وہ یہ جان ہی نہ سکی کہ اس کی بات نے ہانیہ کو پھر سے کتنا بے چین کر دیا ہے۔ قدرے اضطراب میں لب کاٹتی ہوئی وہ اٹھی تھی اور پھر سے کھڑکی میں جا کر کھڑی ہوگئی۔
’’مجھے بھی یہی لگتا تھا کہ وہ آئیڈیل ہے مگر اس کے کردار نے مجھے غلط ثابت کردیا وہ ایک بٹا ہوا شخص ہے ہادی چار سال کسی لڑکی کو ٹوٹ کر چاہتا رہا ہے اسے اپنی محبت اور دیوانگی کا احساس دلاتا رہا ہے۔ کوئی اتنا عرصہ کسی کے ساتھ چل کر اس کی جگہ کسی اور کو کیسے دے سکتا ہے۔ کیسے بھلا سکتا ہے اسے ایک دم سے کسی اور کے ساتھ کیسے نئی زندگی شروع کرسکتا ہے۔ جبکہ اس کے پاس
دوسرے شخص کو دینے کے لیے کچھ بھی نہ ہو۔‘‘
شادی سے انکار کی اصل وجہ سامنے آگئی تھی۔ ہادیہ چاپ چاپ اسے دیکھتی رہی۔
’’میں بہت صاف گو لڑکی ہوں ہادی‘ بہت ایماندار ہوں‘ رشتوں کے معاملے میں مجھ سے منافقت برداشت نہیں ہوتی۔ وہ شخص جو چار سال کسی کی چاہ‘ کسی کی پسند‘ کسی کے خوابوں میں رہا ہے وہ میرا کیسے ہوسکتا ہے؟ کیا رہا ہوگا میرے لیے اس شخص کے پاس خالص محبت‘ خالص چاہ‘ خالص خواب… کچھ بھی تو نہیں۔ وہ میرا چہرہ بھی دیکھے گا تو اس چہرے میں تشبیہ اسی کی نظر آئے گی جو اس کی اولین پسند ہے میں برتی ہوئی چیزیں استعمال نہیں کرتی ہادیہ۔ برتا ہوا شخص کیسے قبول کرلوں؟ مجھے کسی کی سیکنڈ چوائس بننے کا کوئی شوق نہیں‘ بس… جو میرا ہم سفر بنے‘ اس کی ہر سانس مجھ سے مخلص ہو‘ میرے ہوتے ہوئے اس کے دل و دماغ پر کسی دوسری لڑکی کی پرچھائی بھی نہ پڑے۔ وہ صرف میرا ہو ہادی صرف میرا۔ میرے پہلو میں لیٹ کر اس کے دھیان میں پنچھی کسی اور کی یاد کے آسمان کو نہ چھوئیں‘ بس…!‘‘ ذرا سی جذباتی ہوئی وہ لڑکی اسے بے حد پیاری لگی تھی۔
وہ سوفے سے اٹھ کر اس کے پاس کھڑکی کے قریب آکے کھڑی ہوگئی۔
’’تمہاری سوچ اور پسند تو بہت اچھی ہے میری جان مگر افسوس جیسا نایاب ہیرو تمہیں مطلوب ہے وہ ساٹھ ستر سال پہلے تو کہیں ملتا ہوگا اب ممکن نہیں ہے کیونکہ موجودہ دور میں صرف ایک لڑکی پر دنیا حرام کرلینا فلموں کہانیوں میں تو چلتا ہے حقیقی زندگی میں نہیں۔ یہاں مرد ہو یا عورت زندگی کے سفر میں ہر نئے موڑ پر‘ نئے ہم سفر کے ساتھ چلنا پسند کرتے ہیں سویٹی۔ ایک ہی محبت کو روگ بنا کر دل سے لگا لینا مرد تو خاص طور اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔‘‘
’’تو سمجھتے رہیں یار‘ میں شادی کے لیے مر تو نہیں رہی۔‘‘ وہ تپی تھی ہادیہ مسکرا کر رہ گئی۔
’’ٹھیک ہے‘ تو چل کر انکل کو یہ بات بتا دو‘ سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘
’’کاش میں ایسا کرسکتی‘ کاش وہ اتنے سخت باپ نہ ہوتے‘ کاش…!‘‘
’’جب کچھ بھی اختیار میں نہیں ہے تو فضول میں اپنی جان کیوں ہلکان کر رہی ہو‘ تین دن ہوگئے تمہیں بھوک ہڑتال کیے کیا یہ اس مسئلے کا حل ہے؟‘‘
’’نہیں مگر یہ اذیت‘ یہ بے چینی‘ یہ غصہ میری جان لے لے گا ہادی میں جب جب میکال حسن کے متعلق سوچتی ہوں میری شریانیں پھٹنے لگتی ہیں۔ وہ شخص مجھے وقت سے پہلے مار دے گا دیکھ لینا تم۔‘‘ ہانیہ کے لہجے میں گہرا اضطراب تھا۔ ہادیہ تڑپ کر رہ گئی۔
’’پاگل ہوگئی ہو‘ خبردار جو دوبارہ کبھی ایسی بات منہ سے نکالی تو۔‘‘
’’میں سچ کہہ رہی ہوں ہادی دیکھ لینا تم‘ اگر یہ شادی نہ رکی تو میری سانس میرا دل ضرور رک جائے گا۔‘‘
’’نہیں‘ ایسا کچھ نہیں ہوگا تم میکال حسن سے شادی نہیں کرنا چاہتیں ٹھیک ہے مت کرنا میں وعدہ کرتی ہوں تمہاری شادی اس سے نہیں ہونے دوں گی۔ مگر تم دوبارہ کبھی مرنے کی بات نہیں کرو گی ٹھیک ہے؟‘‘ اس کی بے چینی محبت سے مشروط تھی۔ ہانیہ کی پلکیں بھیگ گئیں۔
’’اتنے کم دنوں میں تم کیا کرو گی؟‘‘
’’کچھ نہ کچھ تو کروں گی‘ اپنی کسی سہیلی کو اس کی پہلی بیوی اور اس کے ڈھیر سارے بچوں کی اماں بنا کر عین نکاح کے وقت سامنے لے آئوں گی۔ ابھی کل ہی کسی کہانی میں یہ سب پڑھا تھا میں نے تم بے فکر رہو‘ سب ٹھیک ہوجائے گا‘ میں ہوں نا۔‘‘
وہ اس کی صحیح درد آشنا تھی ہانیہ اس کے گلے لگ کر رو پڑی۔
’’تھینکس ہادی‘ تم نہ ہوتیں تو جانے میں کب کی مر چکی ہوتی۔‘‘
’’اف پھر مرنے کی بات‘ اب تم مار کھائو گی مجھ سے اور کچھ نہیں۔‘‘

ایک دھموکا اس کی نازک کمر پر رسید کرتے ہوئے وہ بولی تو ہانیہ روتے میں مسکرا دی۔
’’اب جلدی سے فریش ہوجائو میں کھانا بھجوا رہی ہوں اچھی طرح کھا لینا اوکے۔‘‘ اسے خود سے الگ کرتے ہوئے اس نے ہدایات جاری کیں تو وہ اس کا شکریہ ادا کرتی واش روم کی طرف بڑھ گئی۔
…٭٭٭…
صفدر منیر باجوہ صاحب حال ہی میں آرمی سے کرنل کے عہدے پر ریٹائر ہوئے تھے۔
ہانیہ ان کی اکلوتی بیٹی تھی۔ اس سے بڑا ان کا صرف ایک بیٹا جاذب تھا۔ جو مڈل کے بعد اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے ان کی بڑی بہن کے پاس انگلینڈ چلا گیا تھا۔ ہانیہ اس سے پورے سات سال چھوٹی تھی۔ وہ ففتھ میں تھی جب صفدر منیر باجوہ صاحب کی محبوب بیوی ’’آسیہ بانو‘‘ کا انتقال ہوگیا۔ یہ سانحہ ان کے لیے اتنا شدید ثابت ہوا کہ عین بیوی کے سوئم والے دن وہ خود بھی ہارٹ اٹیک کا شکار ہو کر اسپتال جا پہنچے۔ مگر قدرت کو ابھی انہیں زندگی کی نعمت سے نوازنا تھا۔ لہٰذا ایک ہفتہ اسپتال میں رہ کر دوبارہ گھر لوٹ آئے۔
ہانیہ اس ایک ہفتے میں رشتہ داروں کی موجودگی کے باوجود ملازمین کے رحم و کرم پر رہی تھی۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ صفدر صاحب نے تو خود کو سنبھال لیا۔ مگر بیٹی کے لیے زیادہ حساس ہوتے گئے۔ جاذب اس وقت پندرہ سال کا تھا مگر پھر بھی ہانیہ کے کمرے میں گھسا اسے گلے سے لگائے روتا رہتا تھا۔
صفدر باجوہ صاحب کے مزاج میں حاکمیت اور سختی تھی ۔ وہ چاہتے ہوئے بھی اپنے بچوں سے فری نہیں تھے۔ یہی وجہ تھی کہ آسیہ بیگم کی رحلت کے بعد جہاں اس گھر سے خوشیاں روٹھی تھیں وہیں رشتہ داروں نے بھی آنا جانا کم کردیا۔ جاذب کو واپس چلے جانا تھا ایسے میں آٹھ سال کی ہانیہ کو ملازمین کے رحم و کرم پرچھوڑ کر بے فکر رہنا ان کے لیے ممکن نہیں تھا۔ لہٰذا خاصی سوچ و بچار کے بعد بالآخر انہیں وہ فیصلہ کرنا پڑا۔ جس کے لیے انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ صرف ہانیہ کی زندگی اور مستقبل کے لیے انہیں ذکیہ بیگم کو بیوی بنا کر آسیہ بیگم کی جگہ اس گھر میں لانا پڑا تھا کہ جس کے در و دیوار سے جھلکتی وحشت صاف دکھائی دیتی تھی۔ ذکیہ بیگم کو پہلے شوہر سے طلاق ہوچکی تھی۔ لہٰذا صفدر باجوہ کی زندگی میں آنے کے بعد وہ اگر بہت اچھی چوائس ثابت نہیں ہوسکی تھیں تو اتنی بری بھی نہیں تھیں۔
ہانیہ ’’باجوہ ہائوس‘‘ میں ذکیہ بیگم کی آمد کے بعد منیر صاحب سے مزید دور ہوگئی تھی۔ وہ شخص جو صرف اس کی ماں سے محبت کا دعوے دار تھا۔ اسی شخص کو ماں کی وفات کے بعد کسی اور کے ساتھ مطمئن دیکھ کر روز جانے کتنے آتش فشاں تھے جو اس کے اندر پھٹتے تھے۔ مرد ذات سے بد گمانی کا پہلا بیج یہ شادی ہی ثابت ہوئی تھی۔ جس کے لیے وہ قطعی یہ ماننے کو تیار نہیں تھی کہ یہ شادی صرف اس کے مستقبل اور تحفظ کے لیے کی گئی ہے۔ وہ سوچتی کہ کاش اس کی ماں زندہ ہوتی تو ہر گز باجوہ صاحب کو اس بے وفائی کے لیے معاف نہ کرتی۔ اندر ہی اندر کی گھٹن اور کھولن نے اس کی ذات میں بہت سے رخنے ڈال دیے تھے۔ وہ پہلے سے زیادہ حساس اور تنہا ہوگئی تھی۔ یہ اس کی حساسیت اور تنہائی کا احساس ہی تھا کہ بہت چھوٹی سی عمر میں اس نے رنگوں سے کھیلنا شروع کردیا۔ اپنے اندر کے غبار کو وہ مختلف مناظر اور تصاویر کے ذریعے باہر نکالتی تھی۔ وہ میٹرک میں تھی جب اس کی پھوپھو زاد ہادیہ پاکستان دیکھنے کے شوق میں اس کے پاس چلی آئی اور پھر اس کا دل ایسا لگا پاکستان میں کہ جاذب کی خفگی اور ماں کے اعتراض کے باوجود وہ ’’باجوہ ہائوس‘‘ کی ہو کر ہی رہ گئی۔ ہانیہ کے بی اے کے بعد اس نے بھی مزید تعلیم کے لیے اسی کے ساتھ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ دونوں ایک ہی کمرے میں سوتیں اور ہر جگہ اکٹھی رہتیں۔ صحیح معنوں میں ہادیہ کے آجانے سے ہانیہ کی زندگی میں بہت بڑی تبدیلی آئی تھی۔ وہ اب زندگی جینے لگی تھی۔ مارننگ واک‘ ایوننگ واک‘ یونیورسٹی کے فکشنز میں دل لگانے لگی تھی۔ ذکیہ بیگم خود کو ان دونوں کے معاملات سے دور ہی رکھتیں۔
ریاض مصطفیٰ صاحب‘ صفدر منیر باجوہ صاحب کے قریبی دوستوں میں سے تھے۔ انہی کے گھر ایک تقریب میں انہیں اور ان کی بیگم کو ہانیہ پسند آئی تھی اور دونوں ہی اسے اپنے گھر کی بہو بنانے پر تل گئے۔ صفدر صاحب نے میکال کو دیکھا تھا۔ انہیں وہ پسند تھا۔ لہٰذا ریاض صاحب کے سوال پر انہوں نے اپنی رضا مندی کا اظہار کردیا۔
دونوں گھروں میں شادی کی تیاریاں ہو رہی تھیں اور دونوں فریق‘ جن کی شادی ہو رہی تھی دونوں ہی اس بندھن پر خوش اور راضی نہیں تھے۔
(جاری ہے)
 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
بھیگی پلکوں پر ’’قسط نمبر 15‘‘…اقراء صغیر احمد
گزشتہ اقساط کا خلاصہ
پارس عرف پری عدم توجہی اور سوتیلے رشتوں کی بد سلوکی کا شکار ہے۔ دادی جان اس کے لیے گھر بھر میں واحد محبت کرنے والی شخصیت ہیں جبکہ اپنے والد فیاض صاحب سے اس کا رابطہ واجبی سا ہے۔ فیاض صاحب کی دوسری بیوی صباحت فطرتاً حاسد‘ فضول خرچ اور طمع پرست ہیں۔ ان کے یہی اوصاف ان کی بیٹیوں عادلہ اور عائزہ میں بھی بہ درجہ اتم موجود ہیں۔ البتہ پری اور دادی جان کی حیثیت گھر بھر میں مضبوط ہے۔
طغرل کی آمد خاصی ہنگامہ خیز ثابت ہوتی ہے۔ پری کے ذہن میں طغرل اور اپنی بچپن کی لڑائیاں تازہ ہیں۔ عادلہ‘ طغرل پر ملتفت ہے اس کی وجاہت اور اس کے اسٹیٹس کے سبب۔
پری کی والدہ فیاض صاحب سے علیحدگی کے بعد اپنے خالہ زاد صفدر جمال سے شادی کرچکی ہیں جو ایک کامیاب بزنس مین ہیں۔ پری کے لیے مثنیٰ کی محبت لازوال ہے مگر صفدر جمال کو پری کا ذکر بھی نا پسند ہے۔
رات کی تاریکی میں طغرل نے ایک سائے کو سوٹ کیس تھامے گھر سے فرار ہوتے دیکھا۔ طغرل کے خیال میں رات کے اندھیرے میں گھر سے فرار ہونے والی لڑکی پری ہے۔ جب کہ حقیقت مختلف ہے۔ صفدر جمال اور مثنیٰ کا بیٹا سعود غیر ملک میں کسی ہندو لڑکی سے شادی کا خواہاں ہے‘ جس کی مثنیٰ سختی سے مخالفت کرتی ہیں مگر اک روز صفدر جمال انہیں بتاتے ہیں کہ سعود‘ پوجا سے شادی کرچکا ہے وہ بھی ان کی اجازت اور شمولیت کے ساتھ… مثنیٰ شاکڈ رہ جاتی ہیں اور ان سے برگشتہ ہوکر گھر چھوڑ دیتی ہیں۔
صفدر جمال مثنیٰ کو منانے کی بہت کوشش کرتے ہیں مگر وہ ہنوز غم و غصے کا شکار ہیں‘ جس پر صفدر جمال انہیں بتاتے ہیں کہ سعود نے پوجا سے شادی کرنے کے لیے خود کشی کی کوشش کی تھی جس پر انہیں ہتھیار ڈالنے پڑے۔ صفدر جمال کی منت سماجت پر بالآخر مثنیٰ واپس لوٹ آتی ہیں۔
جویریہ کے بھائی اعوان سے ماہ رخ کا ربط محبت میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
پری کے سامنے طغرل کو ایک بار پھرلان کے اندھیرے میں وہی سایہ نظر آتا ہے تو وہ پری کے روکنے کے باوجود اس سائے کے پیچھے بھاگتا ہے۔
طغرل باہر نکل کر اس سایہ کا پیچھا کرکے اس کو پکڑ لاکر اس کا چہرہ بے نقاب کرتا ہے تو وہ عائزہ ہوتی ہے جس کو دیکھ کر پری اور عادلہ حیران و پریشان ہوجاتیں ہیں۔ کمرے میں شور کی آواز سن کے صباحت بیگم جب اندر آتی ہیں تو وہ کا منظر دیکھ کر ہقا بقا رہ جاتیں ہیں اور طغرل کی زبانی عائزہ کا کارنامہ جان کر ان کے ہوش اڑ جاتے ہیں۔طغرل کے جانے کے بعد صباحت پری کو سرزنش کرکے کمرے سے نکال دیتیں ہیںباہر طغرل پری کا منتظر ہوتا ہے وہ عائزہ پر نظر رکھنے کی تاکید کرتا عائزہ صباحت سے ضد کرتی ہے کہ وہ صرف راحیل سے ہی شادی کرے گی تو صباحت اس کو سمجھا سمجھا کر مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوتی۔
ماہ رخ جب گھر پہنچتی ہے تو وہاں گلفام پہلے سے موجود ہوتا ہے جس کو دیکھ کر وہ کچھ خوف زدہ سی ہوجاتی ہے وہ اپنی گھبراہٹ پر قابو پاکر اس سے باز پرس کرتی ہیں کہ گھر والے کہاں ہیں اور گلفام کا جواب سن کر وہ طیش میں آکر اس کو صلاوتیں سنا جاتی ہے۔ دوسری طرف وہ عون سے جھوٹ بول کر اس کو کورٹ میرج پر اکساتی ہے جس پر عون تیار نہیں ہوتا جس پر وہ عون سے ناراض ہوجاتی ہے۔
پری کے گھر پر نہ ہونے سے دادی کچھ کچھ پریشان اور بے زار سی ہوجاتی ہیں تو طغرل ان کو پھوپو کے گھر لے جاتا ہے تاکہ ان کا کچھ دل بہل سکے۔ دادی کو یوں اچانک دیکھ کر ان کی بیٹی اور نواسیاں بے حد خوش ہوجاتی ہیں اور طغرل رات کو آکر ان کو واپس لے جاتا ہے دادی کو ان کے کمرے میں چھوڑ کر اپنے کمرے میں آکر فریش ہوکر جیسے ہی مڑتا تو اس کی نظر عادلہ پر پڑتی ہے جس کو دیکھ کر وہ بھونچکا سا رہ جاتا ہے۔
طغرل عادلہ کو آڑے ہاتھوں لیتا ہے اور اس کو آئندہ رات کے وقت اپنے کمرے میں آنے سے روک دیتا ہے۔ دادی پری کے نانی کے گھر جانے سے بے حد ڈسٹرب ہوجاتی ہیں جس سے ان کی طبیعت بھی کچھ خراب ہوجاتی جس کے باعث فیاض صاحب اور طغرل کچھ پریشان ہوجاتے ہیں جب پری کو دادی کی طبیعت کے بارے میں پتا چلتا ہے تو وہ واپس آنے کا ادارہ کرکے فیاض صاحب کو فون کردیتی ہے اور فیاض صاحب اپنی مصروفیات کے باعث پری کو لینے طغرل کو بھیج دیتیں ہیں اور پری طغرل کو دیکھ کر موڈ خراب ہوجاتا ہے۔
پری گھر واپس آتے ہوئے گاڑی میں طغرل سے بیزا سی نظر آتی ہے یہ بات طغرل نوٹ کرلیتا ہے وہ اس سے باتیں کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر وہ بے رخی سے جواب دیتی ہے جس پر طغرل چپ ہوجاتا ہے اور پری گھر آتا دیکھ دادی یک دم خوش ہوجاتی ہیں اور پری دادی سے گلے مل کر گلے شکوہ کرنے لگتی ہے۔ ادھر ماہ رخ کی بے چینیاں بڑھتی ہی جارہی ہے اس کا کسی بھی طرح عون سے رابطہ ہی نہیں ہورہا اور اس کے گھر میں اس کی شادی کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں جس وہ مزید بؐگھبرا جاتی ہے۔ پری طغرل اور معید کی ساری باتیں سن لیتی ہے اور اس کو دکھ ہوتا ہے اپنی ذات کی نفی ہونے کا وہ خوب روتی ہے۔ دوسری طرف عادلہ ہر ممکن کوشش کرتی ہے طغرل کو اپنی طرف مائل کرنے کی مگر وہ اپنی ہر کوشش میں ناکام ہوجاتی ہے اور رات کچن میں عادلہ پری کو برا بھلا کہہ رہی ہوتی ہے کہ اچانک طغرل آجاتا ہے اور عادلہ کی باتیں سن کر وہ پری کو پرپوزکردیتا ہے۔
طغرل کی بات سن کر عادلہ کی حالت خیر ہوجاتی ہے اور بہت مشکل سے اپنی کمرے تک پہنچتی ہے اور عائزہ کا اس کی حالات دیکھ کر اس کا پریشان ہوجاتی ہے اور پھر اس سے ساری بات سن کر وہ لوگ طغرل اور پری کے خلاف سازش کرتے ہیں۔ ادھر ساحر ماہ رخ کو عون کے خلاف ورغلاکوٹ میرج پر راضی کرلیتا ہے۔ادھر صباحت طغرل کے پرپوزل کا سن کر بہت ہی آگ بگولا ہوتیں ہیں اماں جان
اور مذنہ بھابی کو خوب سناتیں ہیں جس پر مذنہ فوری طغرل کو کال کر کہ گھر آنے کا کہتیں ہیں اس دوران طغرل ساری کارروائی سے معید کو آگاہ کردیتا ہے۔ صباحت طغرل اور پری پر بیجا الزامات لگا رہیں ہوتی ہی تاکہ مذنہ بھابی پری سے بدزن ہوجائے مگر یہاں بھی ان کو شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور پھر صباحت اپنی نندوں کا کارڈ استعمال کرنا کا سوچتی ہیں اور ان کو طغرل کے پروپوزل کے بارے میں سب کچھ بتا دیتیں ہیں جس کو سن کر وہ دونوں فوری اماں جان کے سامنے حاضر ہوجاتیں اور پری اور اس کی ماں خوب باتیں سناتیں ہے جسے سن کر پری خود کشی کی کوشش کرتی مگر اچانک کی طغرل پہنچ کر پری اس کوشش کو ناکام بنا دیتا ہے۔
(اب آگے پڑھیے)
…٭٭٭…​
’’پوچھئے دادی جان! اس سے‘ یہ خود کشی کیوں کرنا چاہتی تھی؟ اگر مجھے ذرا دیر ہوجاتی ان محترمہ کے ارادے بھانپنے میں تو… یہ ابھی عالم بالا پر پہنچ چکی ہوتیں۔‘‘ اس نے ان کے آگے پری کو دھکیلتے ہوئے غصے سے کہا۔ اماں نے اس کے بارش سے شرابور وجود کو سینے سے لگالیا تھا اور روتے ہوئے گویا ہوئیں۔
’’یہ کیا کرنے چلی تھی تُو؟ تجھے ذرا بھی خیال نہیں آیا اس بوڑھی دادی کا؟ کس طرح صبر کرتی میں‘ کیا کہہ کر لوگوں کے الٹے سیدھے سوالوں کے جواب دیتی‘ جو جوان لڑکیاں اس طرح حرام موت مرتی ہیں مرنے کے بعد وہ برے ناموں سے پکاری جاتی ہیں‘ لوگ کیا کیاباتیں بناتے ہیں‘ رسوائیوں کے نت نئے خنجر سے گھر والوں کے دل فگار کرتے ہیں۔‘‘
’’اپنی ماں کی طرح نت نئے ڈرامے کرنے کی عادت ہے اس کو۔‘‘ مثنیٰ نے بھی اسی طرح کے حربے دکھا کر بھائی جان کو الّو بنایا تھا۔ عامرہ کے لہجے میں سخت کبیدگی تھی۔
’’یہ سب نوٹنکی تمہیں پھانسنے کے لیے کی جارہی ہے بیٹا! ابھی کچھ دیر قبل تو یہ کمرے میں تھی‘ جیسے ہی تمہارے آنے کی آہٹ سنی‘ ویسے ہی یہ کمرے سے نکل کر یہاں چھت پر پہنچ گئی۔‘‘ آصفہ طغرل کی طرف دیکھتے ہوئے بولیں۔
مزنہ جو اپنے کمرے میں سو رہی تھیں وہ بھی شوروغل سن کر وہاں پہنچ گئی تھیں اور ناسمجھ انداز میں طغرل کی طرف دیکھ رہی تھیں جو کوٹ سوٹ میں شوز سمیت ان کے سامنے شرابور کھڑا تھا۔
’’پھوپو جان! آپ نے میرے آنے کی آہٹ سنی تھی؟‘‘ وہ سنجیدہ اندازمیں ان سے مخاطب ہوا تھا۔
’’نہیں‘ میں نے تو نہیں سنی‘ اتنی گرج چمک میں کون سنے گا؟‘‘ وہ اس کی بات پر اتنابوکھلائیں کہ خود ہی اپنے الزام کی نفی کر بیٹھی تھیں ان کی مدد کو آگے بڑھتی ہوئیں صباحت بولیں۔
’’آپ کے واپس آنے کا ٹائم تو سب کو ہی معلوم ہے۔‘‘
’’آج تو میں بارش کی وجہ سے آفس ٹائم سے پہلے لوٹ آیا ہوں۔‘‘ اس کی بات پر وہ بھونچکا سی رہ گئی تھیں۔
’’مجھے بے حد معذرت کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے‘ آپ لوگ ناجانے کیوں پارس کے خلاف ہوگئے ہیں‘ ابھی پھوپو جان آپ نے کہا یہ میرے قدموں کی آہٹ سن کر چھت پر آئی ہے حالاں کہ ابھی آپ نے خود اعتراف کیا اس طوفانی بارش میں قدموں کی آہٹ کوئی نہیں سن سکتا تھا۔ آنٹی! آپ کا خیال ہے پارس میرے آفس سے واپسی کے ٹائم سے واقف ہے اس لیے اس نے یہ وقت چوز کیا‘ یہ سب ڈرامہ کرنے کے لیے…‘‘ وہ اس وقت وہاں بنے چھجے کے نیچے تھے جو بارش سے محفوظ تھا۔
’’میں حلفیہ کہتا ہوں ایسا کچھ نہیں ہے یہ محض اتفاق ہے میں آفس سے آکر کمرے میں جارہا تھا جب اتفاقیہ میری نگاہ اس پر پڑی اور مجھے محسوس ہوا یہ روتے ہوئے چھت پر جارہی ہے‘ گھر میں جو کل سے ٹینشن چل رہی ہے وہ خیال مجھے آیا اور میں فوراً ہی یہاں آیا تو دیکھایہ محترمہ بائونڈری وال پر چڑھنے کی کوشش کررہی تھیں۔‘‘
’’سن لیا تم لوگوں نے‘ ٹھنڈک پڑگئی تمہارے کلیجوں میں یا ابھی بھی کوئی حسرت باقی ہے؟‘‘ دادی جان نے طنزاً کہا۔
’’کوئی کچھ بھی کہے اماں جان! ایک بار جس سے اعتماد اٹھ جائے‘ وہ لاکھ صفائیاں دینے سے بھی واپس نہیں آتا ہے۔‘‘ صباحت ترچھی نگاہوں سے طغرل کو دیکھتے ہوئے گویا ہوئیں۔
’’مائنڈ اٹ آنٹی! میں نے صفائی پیش نہیں کی اور نہ ہی میری عادت ہے صفائیاں دینے کی۔ کل جو کچھ آپ نے کہا وہ میں اس لیے چپ چاپ سنتا رہا کہ مجھے انکل کی عزت کا خیال ہے آپ سمجھ رہی ہیں جو آپ نے دیکھا سب ویسا ہی تھا تو یہ آپ کی بھول ہے۔ پارس کل بھی شبنم کے قطروں کی طرح پاکیزہ تھی اور آج بھی ان برستی بوندوں کی طرح پاکیزہ ہے۔‘‘ وہ کہہ کر وہاں سے چلا گیا۔
’’اماں جان! یہ کیا ہورہا ہے؟کیا یہ سب دیکھنے کے لیے ہم پاکستان آئے تھے؟ غیروں میں رہتے ہوئے برسوں گزر گئے اور ہم پر کسی نے انگلی نہیں اٹھائی اور اپنوں میں آئے ابھی زیادہ عرصہ بھی نہیں گزرا اوریہاں میرے بچے کو اس طرح رسوا کیا جارہا ہے‘ اس کی بے عزتی کی جارہی ہے۔‘‘ مزنہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تھا۔
’’بھابی جان! آپ دل خراب مت کریں۔‘‘ آصفہ نے آگے بڑھ کر جاپلوسی سے کہا تو عامرہ اور صباحت بھی آگے بڑھ آئی۔
’’ہم اپنے بچے کو کیوں رسوا کرنے لگے بھلا‘ وہ ہمارا خون ہے۔‘‘
’’مجھے تو اللہ نے بیٹا دیا نہیں ہے‘ طغرل کو ہی میں اپنا بیٹا سمجھتی ہوں بھابی! آپ بے فکر رہیں‘ ابھی طغرل غصے میں ہے‘ ان کا موڈ درست ہوجائے گا تو میں خود ان سے معافی مانگوں گی۔‘‘ صباحت نے ان کے ہاتھ تھام کر کہا۔
مزنہ کا موڈ آف ہی رہا‘ وہ ان کی باتوں کو نظر انداز کرتی ہوئیں اماں اور پری کے پیچھے چلی گئی تھیں۔
’’چل گیا بیٹے کے ساتھ ساتھ ماں پر بھی جادو‘ دیکھا بھابی کے تیور کس طرح آنکھیں بند کرکے بات کی ہے ہم سے۔‘‘
’’جب اماں ہی ہمارا ساتھ نہیں دے رہیں تو کون دے گا عامرہ!‘‘
…٭٭٭…​
چلو پھر ڈھونڈ لائیں ہم
اسی معصوم بچپن کو
انہی معصوم خوشیوں کو
انہی رنگین لمحوں کو
جہاں غم کا پتا نہ تھا
جہاں دکھ کی سمجھ نہ تھی
جہاں بس مسکراہٹ تھی
بہاریں ہی بہاریں تھیں
کہ جب ساون برستا تھا
تو اس کاغذ کی کشتی کو
بنانا اور ڈبو دینا
بہت اچھا سا لگتا تھا
اور اس دنیا کا ہر چہرہ
بہت سجا سا لگتا تھا
چلو پھر ڈھونڈ لائیں ہم
اسی معصوم بچپن کو
اس کو یقین نہیں ہورہا تھا پیار و محبت اور خلوص سے مسکراتے ان چہروں پر وہ سب منافقت‘ ریاکاری اور مفاد پرستی تھی۔کس قدر نفسا نفسی اور لالچ میں گرے ہوئے لوگ تھے۔
وہ ڈریس چینج کرکے بیڈ پر نیم دراز ہوا تو دل پر سخت بد دلی اور بے زاری چھائی ہوئی تھی‘ اسے مسلسل پری کی وہ دیوانگی بے چین کیے ہوئے تھی‘ جس جنون میں وہ بھاگتی ہوئی اوپر گئی تھی۔ اگر اس وقت اس کی چھٹی حس خطرے کا سگنل نہ دیتی تو‘ اس سوالیہ نشان کے آگے کا تصور اس کو پریشان کردیتا تھا۔
’’مائی پور کزن! مجھے اب سمجھ آرہا ہے‘ تم عادلہ اور عائزہ سے اتنی مختلف کیوں ہو‘ میں جو تمہیں اوّل دن سے طعنے دیتا رہا‘ تمہاری کم گوئی و بدمزاجی پر‘ تم جو خود کو تنہائی میں بھی سینت سینت کر رکھتی ہو‘ اس احتیاط کو میں ڈراما سمجھتا تھا کیونکہ میری نظر سے کبھی بھی ایسی لڑکی نہ گزری تھی جو اتنی سختی سے اپنے آپ کو سمیٹ کر رکھتی ہو۔‘‘ وہ آنکھیں بند کیے تصور میں پری سے مخاطب تھا۔
’’آنٹی کی باتوں سے معلوم ہوا جو خود کو اتنا پابند کیا ہواہے‘ کتنا محتاط کیا ہوا ہے کہ تم نے خود کو‘ اس سب کے باوجود آنٹی کی بے ہودہ گوئی سے نہ تم بچ سکی ہو‘ تمہارے ساتھ ساتھ انہوں نے مجھے بھی نہیں بخشا اور اچھا ہی ہوا ان کی ذہنیت بہت جلد کھل گئی‘ ان کا اصلی چہرہ مجھے نظر آگیا ہے۔‘‘ اس نے گہری سانس لیتے ہوئے سوچا اور اٹھ کھڑا ہوا‘ باہر بارش کا زور کچھ کم ہوا تھا۔وہ کھڑکی میں کھڑا لان میںدیکھ رہا تھا۔ جہاں جل تھل تھا لان کی گھاس کی جگہ پانی ہی پانی تھا۔ شام کا وقت بارش اور گہرے ابر آلود موسم کے باعث رات میں بدل گیا تھاجس کی تاریکی کو بجلی کی چمک لمحے بھر کو منور کردیتی تھی‘ وہ خاصی دیر کھڑا دیکھتا رہا تھا۔
پھر چائے کی طلب نے اسے کمرے سے نکلنے پر مجبور کردیا تھا‘ ابھی وہ کمرے سے نکلا ہی تھا کہ عادلہ ٹرالی لیے چلی آئی تھی۔
’’میں گرما گرم سموسے‘ پکوڑے‘ چائے کے ساتھ لائی ہوں۔‘‘
’’دادی جان کے روم میں آجائو۔‘‘ وہ کہہ کر چلا گیا۔
…٭٭٭…​
اس کو محبت کی چاہ نہ تھی
اس کو دولت کی چاہت تھی
اعوان سے اس نے کب محبت کی تھی‘ وہ تو اس کی گاڑی بزنس اور بنگلہ دیکھ کر اس پر وارفتہ ہوئی تھی‘ اسے اعوان سے نہیں اس کی دولت سے محبت تھی اور اب اعوان کی بے وفائی کے بعد اسے ساحر کاساتھ مل گیا تھا۔
ساحر! ایک کروڑ پتی اور اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا‘ اعوان سے کہیں زیادہ اسمارٹ اور دولت مند تھا۔ جو سب سے بہترین بات اس کے حق میں تھی وہ یہ تھی کہ وہ اسے پسندکرتا تھا‘ محبت کرتا تھا۔
’’اعوان اگر تمہیں دھوکا دے کر وہاں شادی نہ کرلیتا تو یقین کرنا رخ!میں اپنی محبت کا اظہار مر کر بھی نہ کرتا تم سے۔‘‘ وہ اس کی انگلی میں خوب صورت ڈائمنڈ رنگ پہناتے ہوئے کہہ رہا تھا‘ وہ تو گویا ہوائوں میں اڑ رہی تھی۔
’’یہ میری دعائیں رنگ لے آئی ہیں جو اعوان نے تمہارے ساتھ بے وفائی کی ہے۔‘‘ وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے گہرے لہجے میں بولا۔
’’میںیہ کس طرح یقین کرلوں کہ آپ بے وفائی نہیں کریں گے؟‘‘ اس نے اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے سنجیدہ انداز میں استفسار کیا۔
’’تم مجھ پر اعتبار کرسکتی ہو‘ میں تم سے محبت کرتاہوں۔‘‘
’’اعتبار ہی تو نہیں رہا اب۔ اعوان بھی تو محبت کرنے کے دعوے کیا کرتا تھا‘ اس نے ساتھ نبھانے کی قسمیں کھائی تھیں‘ میری آنکھوں میں سہانے سپنے سجا کر وہ وہاں شادی رچا کر بیٹھ گیا ہے‘ میرے دل میں بے اعتباری کا موسم خزاں بن کر ٹھہر گیا ہے۔‘‘
’’میرااعتبار کرو‘ میں تمہارے دل پر چھائی خزائوں کوبہاروں میں بدل دوں گا‘تمہیں مجھ پر اعتبار کرنا ہوگا‘ کرو گی نا؟‘‘ اس نے اعتماد دلاتے ہوئے پوچھا۔
’’اتنی جلدی کس طرح سے اعتماد کرسکتی ہوں؟‘‘
’’میرے پاس ٹائم نہیں ہے‘مجھے کسی بھی وقت بزنس کی ڈیلنگ کے لیے جانا پڑے گا‘ اگر تمہیں مجھ پر اعتبار ہے تو کل آجانا‘ ہم کورٹ میرج کرلیں گے اورمیں تمہیں اپنے ساتھ لے جائوں گا۔‘‘
…٭٭٭…​
بارش ایک بار پھر شروع ہوگئی تھی‘ آصفہ اور عامرہ جاچکی تھیں‘ سب اپنے اپنے کمروں میں تھے ایک عجیب سی ویرانی اور پر ہول سناٹا چھاگیا تھا‘ پری اپنے کمرے میں بند تھی اور اسے چپ لگ گئی تھی جس طرح سے اس کی ذات کو گزشتہ چند دنوں سے تذلیل و تحقیر کا نشانہ بنایا جارہا تھا۔
وہ اس کے لیے برداشت کرنا مشکل تھا مستزاد اس پر جو آج ہوا وہ سب اس کی غلطی نہ ہوتے ہوئے بھی اسے اپنی ہی نگاہوں میں گر اگیا تھا اور یہ اس کے ذہنی دبائو کی ہی صورت تھی جو وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہوئے بھی جذباتی طور پر اس بُری طرح مفلوج ہوئی تھی کہ خود کشی جیسے حرام فعل کو سر انجام دینے چھت پر پہنچ گئی تھی اور کامیاب بھی ہوجاتی اگر بروقت وہاں طغرل نہ پہنچ جاتا۔
’’اس طرح کب تک پتھر کی مورت کی مانند یہاں بیٹھی رہو گی؟‘‘ اماں جان نماز پڑھ کرآئیں تو اسے دریچے کے پاس کارپٹ پر دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے دیکھ کر وہ نرمی سے گویا ہوئی تھیں۔ وہ چپ بیٹھی چھت کو گھور رہی تھی‘ مسلسل گریہ و زاری سے اس کی آنکھیں سرخ ہورہی تھیں‘ خوب صورت چہرے پر پھیلے حزن وملال نے اس کے وجود پر ایک ایسا دلگیر سوز طاری کردیا تھا اتنی گہری سنجیدگی پھیل گئی تھی کہ اماں جان بھی اس سے سختی سے پیش نہ آسکی تھیں بلکہ ان کے چہرے پر بھی افسردگی تھی‘ پری کی دلی کیفیت سے وہ اچھی طرح آگاہ تھیں۔
’’پری! میں تم سے کہہ رہی ہوں بیٹا! لیٹ جائو آکر ۔ اس طرح بیٹھے بیٹھے کمر اکڑ کر رہ جائے گی ۔ جو ہوا بہت بُرا ہوا ‘میں جانتی ہوں جو تمہارے دل پر بیت رہی ہے مگر یہی تاکید کروں گی وہ سب بھول جائو۔‘‘ وہ بستر پر بیٹھ کر اس سے مخاطب ہوئی تھیں۔
’’بھول جائوں‘ کس طرح بھول جائوں دادی جان! ایسا کوئی ہی دن گزرا ہوگا جومجھے میری ممی کے حوالے سے طعنے نہ ملتے ہوں‘ میری بے عزتی نہ کی جاتی ہو۔‘‘ آنسو پھر اس کے چہرے کو بھگونے لگے تھے تیزی سے۔
اس کی آواز میں شدید درد تھا۔
تڑپ تھی‘ دکھ و رنج تھا۔
عجیب بے بس و لاچاری تھی۔
’’میری ممی کے کردار کے حوالے سے مجھے بُرا کہا جاتا ہے‘ مجھے یہ تو بتائیں دادی! ممی میں آپ نے کیا بدکرداری دیکھی تھی؟ کیا تھا ان کے کردار میں ایسا جھول؟ کیا گناہ کیا تھا انہوں نے ایسا جس کی سزا آج تک مجھے بھگتنی پڑرہی ہے؟‘‘
’’ایسی کوئی بات نہیں ہے پری! تمہاری ماں کردار کی بھی نیک تھی اور زبان کی بھی اچھی تھی۔‘‘
’’پھر کیوں مجھے سولی پر لٹکایا جاتا ہے ان کی ذات کو نشانہ بناکر کس لیے بار بار مجھے سنگسار کیا جاتا ہے؟‘‘ وہ روتے ہوئے کہہ رہی تھی اماں کی آنکھوں میںخود نمی تھی‘ زبان ان کی پتھر کی مانند ہوگئی تھی۔
کیا جواب دیتیں‘ کیا بتاتیں کہ جھوٹی انا کی تسکین کے لیے وہ بیٹیوں کی باتوں میں آکر بیٹے کا گھر اپنے ہی ہاتھوں تباہ کر بیٹھی تھیں اور اس وقت وہ حکمراں تھیں‘ سیاہ و سفید کی مالک تھیں۔ ہر جابر اور ظالم حکمراں کی طرح ان کو بھی یہ خیال نہیں تھا کہ ہر عروج کو زوال ہے‘ نائو کے پتوار ہمیشہ ایک ملاح کے ہاتھ میں نہیں رہتے‘ نائو وہی رہتی ہے مگر ملاح بدل جاتے ہیں اور آج وہ اس گھر میں ہی تھیں بظاہر تو

 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
حکمراں وہ ہی تھیں لیکن معزول حکمران تھیں‘ جو لوگ وقت پر درست فیصلے نہیں کرتے وہ ان کی طرح ہی وقت گزرنے کے بعد پچھتاتے ہیں اور یہ پچھتاوے حسرتیں بن کر قبر تک ان کا پیچھا کرتے ہیں۔
وہ آہستہ آہستہ اٹھ کر اس کے قریب آکر بیٹھیں اور ہاتھ جوڑ کر اس سے مخاطب ہوئیں۔
’’مجھے معاف کردے پری! میں تیری گناہ گار…‘‘
’’یہ … یہ کیا کررہی ہیں دادی جان آپ؟‘‘ اس نے بوکھلا کر ان کے ہاتھ پکڑ لیے تھے۔
’’مثنیٰ‘ فیاض اور تمہاری زندگی میری وجہ سے خراب ہوئی ہے اگر اس وقت میں صرف تمہارا ہی خیال کرلیتی تو شاید تم پر کوئی انگلی نہ اٹھاتا‘ تم اس طرح خود کو تنہا نہیں سمجھتیں‘ اللہ گواہ ہے پری! میں نے یہی کوشش کی کہ تم کو کبھی ماں کی کمی کا احساس نہ ہو‘ چاروں بچوں سے زیادہ تم کو چاہا۔‘‘ پھر گہری سانس لے کر افسردگی سے بولیں۔
’’ماں کی محبت کوئی نہیں دے سکتا‘ یہ حقیقت مجھے آج معلوم ہوئی ہے‘ ماں پھر ماں ہی ہوتی ہے۔‘‘
’’اٹھیں دادی جان! آپ کیوں نیچے بیٹھی ہیں پہلے ہی آپ کے گھٹنوں میں درد ہے۔‘‘ وہ رونا بھول کر انہیں سہارا دیتی ہوئی اٹھانے لگی تھی۔
’’آج تو میرا کلیجہ چھلنی ہوگیا ہے پری! صباحت سے تو میں کبھی خیر کی توقع ہی نہیں کرتی مگر معلوم نہ تھا میری بیٹیاں بھی اسی شر کا حصہ ہیں نامعلوم کیوں ان کا خون سفید ہوگیا ہے؟‘‘ وہ اس کے سہارے سے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے آزردگی سے گویا ہوئیں۔
…٭٭٭…
عشرت جہاں نے کمرے میں آتے ہوئے سرسری نگاہوں سے بیٹی کی طرف دیکھا تھا جوہاتھ میں سیل فون پکڑے سوچوں میں گم تھی‘ ان کے اندر ایک بے چینی سی سرائیت کرگئی۔
’’مثنیٰ! خیریت تو ہے نا؟ کیا کہہ رہے تھے صفدر جمال!‘‘ وہ ان کے قریب بیٹھتے ہوئے فکر مندی سے استفسار کرنے لگیں۔
’’سعود نے ڈرنک لینی شروع کردی ہے وہ ہر وقت نشے میں رہتا ہے‘ اسے اپنے باپ کی بھی فکرنہیں ہے جو اس کی خاطر دو ماہ سے وہاں رہ رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے آہستگی سے بتایا۔
’’ہا… اس دور کا ایک بڑا امتحان اولاد ہے‘ نہ ہو تو پریشانی اور پیدا ہوکر صالح نہ نکلے تو سب سے بڑی پریشانی ہے‘ اس سعود نے تو سب سے زیادہ دکھ دیئے ہیں اللہ اس کو ہدایت دے‘ صفدر سے کہو اسے پاکستان لے آئیں یہاں اپنوں میں رہے گا تو اس کا دل بہلے گا اچھے اوربرے کی تمیز آئے گی۔‘‘
’’ممی! وہ کوئی چند سال کا بچہ نہیں ہے جس کو بہلا پھسلا کر گود میں بھر کر لایا جاسکتا ہے‘ 26-25 سال کا باشعور اور جوان لڑکا ہے۔ جو خود کو ضرورت سے زیادہ ہی عقل مند سمجھتا ہے۔‘‘ مثنیٰ کا لہجہ شکایتی و برہمی لیے ہوئے تھا۔
’’جن بچوں کو شروع سے اپنی چلانے‘ اپنی منوانے کی عادت ہو وہ پھر اسی طرح کسی کو بھی اہمیت دینے کو تیار نہیں ہوتے اور اس کے بگڑنے میں زیادہ ذمے دار صفدر جمال ہیں۔‘‘
’’یہ میرے لیے سزا ہے ممی!‘‘ وہ مضطرب انداز میں بولیں۔
’’میں نے پری کے حقوق سلب کیے‘ اس عمر میں اسے چھوڑ کر آگئی تھی‘ جب اسے میری سب سے زیادہ ضرورت تھی۔‘‘
’’کیوں ہر بار خود کو الزام دیتی ہو مثنیٰ! اس کو اس کی دادی اور باپ نے تم سے چھین لیا تھا ایک عرصے تک ملنے نہیں دیا تھا۔‘‘
’’کچھ بھی کہیں ممی! سارا قصور ان کا نہیں تھا کچھ میرا بھی تھا‘ اگر فیاض ماں اور بہنوں کی حمایت میں مجھ سے لڑتے تھے تو مجھے ہی کچھ برداشت سے کام لینا چاہیے تھا اور شروع شروع میں میں نے ایسا ہی کیا تھا مگر جب ہر وقت عامرہ اور آصفہ آپا نے بات بات پر لڑائی جھگڑے شروع کیے اور فیاض کو میرے خلاف کرکے ورغلانے لگیں اور فیاض ان کی سکھائی جھوٹی باتوں میں آکر مجھ سے بدظن رہنے لگے تو میں بھی زبان کھولنے پر مجبور ہوگئی۔‘ وہ اضطرابی انداز میں ٹہلتے ہوئے اعتراف کررہی تھیں۔
’’کیوں ماضی کی راکھ کو کریدتی ہو بیٹی! جو رشتہ رہا ہی نہیں ہے اس کو یاد کرکے سوائے دکھوں کے کچھ اور نہیں ملے گا۔‘‘
’’یہ جو ٹوٹے ہوئے رشتے ہوتے ہیں ممی! یہ ٹوٹ کربھی کسی نہ کسی طرح قائم رہتے ہیں‘ کہیں نفرت کی دھول بن جاتے ہیں‘ کہیں پچھتاوے بن کر سانپوں کی طرح ڈستے رہتے ہیں اور کبھی زخم بن کر درد میں مبتلا کرتے رہتے ہیں۔‘‘
’’آپ ایسا کریں پری کو کال کرکے بلوالیں وہ یہاں ہمارے پاس ہوگی تو آپ کا دل بہل جائے گا‘ ہم کسی بہترین جگہ پر چلتے ہیں پکنک کے لیے۔‘‘ وہ اسے کسی بچوں کی طرح بہلانے لگی تھیں۔
’’وہ ابھی آنا نہیں چاہ رہی ہے کال کی تھی میں نے اسے۔‘‘
’’کیوں آنا نہیں چاہ رہی ہے معلوم تو کرتیں پری سے۔‘‘
’’پوچھاتھا میں نے‘ مگر وہ کہاں بتاتی ہے کوئی بات۔‘‘
…٭٭٭…
ثریا ٹرنک کھولے کپڑوں کا معائنہ کررہی تھیں اس میں کپڑوں کے علاوہ دیگر وہ سامان بھی موجود تھا جو وقتاً فوقتاً اپنی بہو کی بری کے لیے جمع کرتی رہی تھیں بہت احتیاط سے وہ سامان انہوں نے اپنے بیڈ
پر رکھ کر دیکھنا شروع کیا تھا تب ہی گلفام اندر آیا تھا اور سلام کرنے کے بعد ماں سے پوچھنے لگا۔
’’یہ پرانے کپڑوں کا ڈھیر کیوں نکالا ہے امی!‘‘ وہ بیڈ پر ہی بیٹھ گیا تھا‘ اسی دم فاطمہ اندر آئی تھیں‘ گلفام کی بات پر مسکرا کر گویا ہوئی تھیں۔
’’یہ پرانے نہیں ہیں بلکہ وہ کپڑے ہیں جو میں اور ثریا مارکیٹ سے لاکر جمع کرتے رہے ہیں تاکہ تسلی کے ساتھ سلائی ہوتی رہے اور ابھی تو یہ تمام سوٹ کڑھائی اور زری کے کام ہونے کے لیے جائیں گے پھر سلائی ہوگی۔‘‘
’’میں تو زیادہ تر کامدانی ورک کروائوں گی آپا! پھر دبکے اور سلمیٰ ستاروں کا کام کروائوں گی شادی کے شرارے اور ولیمے کے غرارے سوٹوں پر‘ سچے موتیوں اور سونے چاندی کے تاروں سے کام کروائوں گی۔‘‘ ثریا کی آنکھوں میں اکلوتے بیٹے کی شادی کے ارمان سجے تھے۔
’’ہاں ہاں‘ جیسا تمہارا دل چاہے ویسا کام کروالو‘ ہمارے اکلوتے بچوں کی شادی ہے ہم دل بھر کر ارمان نکالیں گے۔‘‘
’’گوٹے کرن کا کام ہم اپنے ہاتھوں سے کریں گے‘ اس کام میں جو دیدہ زیبی اور مہارت ہمارے ہاتھوں میں ہے وہ کسی کے ہاتھوں میں نہیں دیکھی میں نے اب تک۔‘‘
’’امی‘ خالہ! پہلے آپ رخ کو یہ سب کپڑے دکھا دیں‘ اگر وہ پسند کرتی ہے تو ٹھیک ہے ورنہ اس کی پسند سے ہر چیز دوبارہ خریدیں تو بہتر ہے۔‘‘ وہ سنجیدگی سے بولا۔
’’ارے کیسی باتیں کررہے ہو گلفام بیٹے! یہ سارے جاپانی کپڑے کے سوٹ ہیں‘ بہت دکانیں چھاننے کے بعد خریدے ہیں۔ رخ کو پسند آئیں گے ان میں ناپسند کرنے کی بات ہی نہیں ہے۔‘‘
’’آپا! گلفام ٹھیک ہی کہہ رہا ہے میرا بھی خیال ہے ایک بار رخ کو دکھا کر رائے لینے میں کیا حرج ہے؟
’’اب میں کیا کہوں‘ چلو پوچھ لو اس سے بھی۔‘‘
…٭٭٭…​
’’آبرو کی ٹیچر کی کال آئی تھی‘ وہ بتا رہی تھیں آبرو گھر کو مس کررہی ہے وہ گھر آنا چاہتی ہے اور اسپیشلی وہ پری کو مس کررہی ہے‘ ٹیچر کہہ رہی تھیں تم کو کال کی تھی انہوں نے اور تم نے کہا آبرو ہاسٹل میں ہی رہے گی۔‘‘ فیاض صاحب صباحت سے مخاطب تھے۔
’’جی ہاں‘ آئی تھی ٹیچر کی کال اور میں نے منع کیا تھا آبرو کو گھر بلوانے سے اور کہا تھا وہ تمام چھٹیاں ہاسٹل میں ہی گزارے گی‘ گھر نہیں آئے گی۔‘‘
’’پر کیوں؟تم کون ہوتی ہو یہ فیصلہ کرنے والی؟‘‘
’’میں ماں ہوں اس کی‘ بھول گئے کیا آپ؟‘‘
’’نہیں‘ یہ کیسے بھول سکتا ہوں میں؟‘‘ وہ گھور کر طنزیہ انداز میں بولے۔
’’یہ فیصلہ کرنے کی تمہیں ضرورت ہی کیا پیش آئی ہے؟‘‘
’’نہیں چاہتی میں میری بیٹی کی تربیت گمراہ لوگوں کے ہاتھوں سے ہو‘ میں اپنی بچی کا اچھا مستقبل چاہتی ہوں۔‘‘
’’گمراہ لوگ…؟‘‘ وہ حیرت سے بڑبڑائے تھے۔
’’کون ہیں وہ گمراہ لوگ جن کی تم بات کررہی ہو؟ جو بھی کہنا ہوا کرے تمہیں سیدھے طریقے سے کہا کرو۔‘‘
’’فی الحال میں بات بڑھانا نہیں چاہتی بہتر یہی ہوگا کہ آپ آبرو کو گھر نہ بلوائیں۔‘‘
’’بات تم نے شروع کی ہے اس لیے تم اس کو ادھورا نہیں چھوڑ سکتیں‘ بتائو مجھے گمراہ کن لوگوں سے تمہیں اپنی بیٹی کو بچانا ہے؟ کون ہے وہ…؟‘‘ فیاض صاحب کا غصہ بڑھنے میں وقت نہیں لگا‘ وہ تیز لہجے میں بولے تھے اور آواز سن کر وہاں سے گزرنے والی عادلہ اور عائزہ کھڑکی سے سننے لگی تھیں۔
’’سننے کا حوصلہ ہے آپ میں سچ…؟‘‘
’’تم جیسی عورت کو بھگت رہا ہوں‘ ابھی بھی تم کو میرے حوصلوں پر شک ہے؟‘‘ وہ دوبدو گویا ہوئے تھے۔
’’مجھ جیسی عورت آپ کو دوسری مل بھی نہیں سکتی ہے جو آپ کی ساری بے گانگی و لاتعلقی کے باوجود آپ کے ساتھ ہے آپ کو چھوڑ کر نہیں گئی ہے۔‘‘
’’مجھے ان فضول اور بے معنی باتوں میں الجھانے کی سعی مت کرو صباحت‘ جو کہنا ہے وہ کہو۔‘‘
’’پلیز عائزہ! ممی کو روکو کسی طرح سے مجھے لگتا ہے وہ پاپا کو پری کے متعلق سب بتانے والی ہیں۔‘‘ کھڑکی کے قریب کھڑی عادلہ بے قراری سے گویا ہوئی تھی۔
’’تمہیں کیوں درد ہورہا ہے؟ اچھا ہے پاپا کوبھی تو معلوم ہو ان کی لاڈلی کی اصلیت جس کو وہ بہت نیک و پارسا سمجھتے ہیں۔‘‘ وہ سرگوشی میں منہ بناکر گویا ہوئی تھی۔
’’پلیز ایسا مت کرو‘ ابھی بھی مجھے آس باقی ہے طغرل کے لوٹ آنے کی‘ پاپا کو معلوم ہوا تو سب کچھ ہی ختم ہوجائے گا۔‘‘
’’وہ تمہاری طرف آیا ہی کب تھا جو تمہیں آس باقی ہے؟‘‘ عائزہ اپنے مخصوص طنزیہ انداز میں گویا ہوئی تھی پھر عادلہ کی صورت دیکھ کر وہ مسکرائی تھی اور دوسرے لمحے کھڑکی کے پاس سے چند قدم آگے
بڑھ کر وہ زور دار آواز سے گری تھی اور یہ سب چند لمحوں میں ہوا تھا عائزہ گرتے ہوئے چیخی تھی ساتھ عادلہ نے بھی چیخ کی صورت میں دیا تھا‘ جس کا نتیجہ ان کی حسب توقع نکلا تھا۔ کمرے میں موجود صباحت اور فیاض گھبرا کر باہر نکلے تھے۔
’’کیا ہوا بیٹا!‘‘ وہ گری ہوئی عائزہ کو دیکھ کر اپنا غصہ بھول کر اس کی طرف بڑھے تھے‘ عادلہ کے ساتھ خود بھی اسے اٹھنے میں مدد دینے لگے تھے۔
’’کس طرح گر گئیں… زیادہ چوٹ تو نہیں آئی؟‘‘ صباحت بھی قریب آگئی تھیں۔
’’پائوں سلب ہوگیا تھا ممی!‘‘ وہ تکلیف زدہ لہجے میں بولی۔
’’فیاض! دیکھیں ذرا کہیں فریکچر نہ ہوگیا ہو؟‘‘
’’پائوں دکھائیں بیٹا!‘‘ فیاض اس کے پائوں کا معائنہ کرنے لگے۔
’’فریکچر تو نہیں ہے پھر بھی ہمیں ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے۔‘‘
’’ڈونٹ ویری پاپا! میں پین کلر لے لیتی ہوں‘ کچھ ریسٹ کروں گی تو درد ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘ وہ ڈاکٹر کے پاس جانے سے کترا رہی تھی اس نے عادلہ کو اشارہ کیا وہ اسے کمرے میں لے جائے۔
’’ٹھیک کہہ رہی ہے عائزہ پاپا! معمولی سی چوٹ ہے جو ٹیبلٹ سے ٹھیک ہوجائے گی‘ ڈاکٹر بھی ایکسرے وغیرہ کے چکر میں سارا ٹائم ویسٹ کریں گے۔‘‘
’’اوکے‘ میں تو چاہ رہا تھا ڈاکٹر کے ہاں چلیں توبہتر ہے۔‘‘
’’جب وہ خود مطمئن ہے تو آپ کیوںپریشان ہورہے ہیں‘ آپ کمرے میں چلیں میں چائے لاتی ہوں۔‘‘ عادلہ عائزہ کو سہارا دے کر اس کے کمرے میں لے گئی تو صباحت فیاض سے گویا ہوئی تھیں۔
’’ہوں‘ اماں کو چائے دے کر آنا۔‘‘
’’ہونہہ… ہر وقت اس بڑھیا کا ہی خیال رہتا ہے‘ کبھی میری فکر تو ہوتی ہی نہیں ہے‘ مجھے کیا پسند ہے اور کیا نہیں‘ آج تک اس آدمی نے جاننے کی سعی نہ کی۔‘‘
…٭٭٭…​
’’ویل ڈن یار! کیا غضب کی اداکاری کرتی ہو تم‘ ایک لمحے کو تو میںبھی یہی سمجھی تھی کہ تم سچ مچ گر گئی ہو مگر…‘‘ کمرے میں پہنچتے ہی عادلہ نے اس سے ستائشی لہجے میں کہا تھا۔
’’خوامخواہ ہی تو راحیل میرا دیوانہ نہیں ہے۔‘‘
’’کیوں نام لیتی ہو راحیل کا تمہیں معلوم ہے وہ تمہارے ساتھ بالکل سنجیدہ نہیں ہے‘ جیولری لے کر بھاگا ہوا ہے۔‘‘
’’پھر تم نے وہ ہی بات کی‘ جس سے مجھے چڑ ہے‘ راحیل کے خلاف بات کرنے والوں سے مجھے نفرت ہے اور تم جو کل تک طغرل کے اس حد تک خلاف ہوگئی تھیں کہ اس کو زندہ ہی نہیں دیکھنا چاہتی تھیں اور آج بھی تمہارے دل میں اسے پانے کی چاہ باقی ہے۔‘‘ وہ بھی تیوڑی بدل کر گویا ہوئی تھی۔
’’طغرل کی بات دوسری سے وہ ہمارے خاندان کا فرد ہے۔‘‘
’’راحیل بھی مجھ سے شادی کے بعد ہمارے خاندان کا فرد بن جائے گا۔‘‘ وہ ترکی بہ ترکی بولی‘ بے حد بے خوفی تھی اس کی آنکھوں میں۔
’’عادلہ! دیکھو یہ دنیا کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر چلتی ہے‘ سیدھی بات یہ ہے کہ میں اگر تمہاری مدد کررہی ہوں تو کسی محبت میں نہیں کررہی ہوں بلکہ اس وقت ہم دونوں کا مفاد ایک دوسرے سے وابستہ ہے‘ تم میری مدد کرو گی تو میں بھی تمہاری مدد کروں گی۔‘‘
’’اچھا ٹھیک ہے تم جیسا چاہو گی‘ میں وہی کروں گی۔‘‘
’’اوکے‘یہ ہوئی نا بات۔‘‘
’’تم طغرل کو کسی طرح بھی میرا ہونے پر مجبور کرسکتی ہو؟ کوئی ایسا طریقہ بتادو پلیز‘ جو اسے میرا بنادے۔‘‘ وہ جذباتی انداز میں اس سے کہہ رہی تھی۔
’’یقین کرو‘ وہ تمہارا نہیں ہوگا تو پری کا بھی نہیں ہوگا‘ بس اس کے لیے تم کو میرا ساتھ دینا ہوگا۔‘‘
’’میں نے کہا نا میں تمہار ساتھ دوں گی‘ جو تم کہو گی وہ میں کروں گی‘ مجھے صرف طغرل کی محبت چاہیے۔‘‘
…٭٭٭…​
زندگی کا ایک نام سمجھوتا بھی ہے۔
جب حالات ہمارے موافق نہیں ہوتے ہیں اور ہماری سوچوں اور خواہشوں سے زندگی متصادم ہونے لگتی ہے توپھر سب کچھ اسی طرح بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے جس طرح اس نے جینے کا ہنر سیکھ لیا تھا‘سب کچھ بھلائے وہ اس گھر میں رہ رہی تھی جو اس کے لیے پناہ گاہ بھی تھا اور عقوبت گاہ بھی تھا۔
جہاں زندگی صرف دادی جان کی صورت میں مہربان نظر آتی تھی ورنہ نفرت‘ بے گانگی اور بے پروائی کی فضا ہر سو قائم تھی۔
’’پری! کیا سوچ رہی ہو تم بیٹی؟‘‘وہ نماز ادا کرکے کمرے میں داخل ہوئیں تو پری کو بہت گہری سوچ میں گم دیکھ کر گویا ہوئی تھیں۔
’’کچھ بھی نہیں دادی جان!‘‘ وہ اٹھ کر بیڈ سیٹ درست کرنے لگی۔
’’کیوں سوچتی ہو اتنا؟ اگر ہماری سوچوں سے سب بدلنے لگتا توصدیوں پہلے سب کچھ بدل چکا ہوتا بیٹی!‘‘ وہ بیڈ پر نیم دراز ہوتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔
’’سوچوں سے نہیں دعائوں سے تو سب بدلتا ہے دادی! مگر میری تو دعائیں بھی رد ہوجاتی ہیں‘ میری ایک بھی دعا آج تک قبول نہیں ہوئی‘ کیا اللہ مجھ سے ناراض ہے؟ کیا میں بہت بُری بندی ہوں اللہ کی؟‘‘ وہ ان کے قریب بیٹھ کر پوچھ رہی تھی۔
’’اللہ تو ستر مائوں سے زیادہ چاہنے والا ہے‘ شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے بندے کے۔ وہ ہمارا ربّ ہے اس کی چاہت جیسی چاہت تو کسی کی نہ ہے اور نہ ہوگی۔ اللہ کی اپنے بندوں سے چاہت اور محبت کی اس سے زیادہ اور واضح دلیل کیا ہوگی کہ آدم کو فرشتوں سے سجدہ کروا کر اپنا نائب ہونے کا ثبوت دے دیا اس پروردگار نے۔‘‘ وہ نرمی سے اس کو سمجھا رہی تھیں جو ان کو دیکھ رہی تھی۔
’’اللہ سے ہمیشہ اچھا گمان رکھا کرو بیٹی! اس کے ہر کام میں بہتری ہے جو ہم کو سمجھ نہیں آتی اور ہم اپنی بساط کے مطابق سوچنا شروع کردیتے ہیں۔‘‘
’’آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں دادی جان! میں ہی دن بدن قنوطی ہوتی جارہی ہوں‘ نامعلوم کیا کیا الٹی سیدھی سوچیں ذہن میں بے چینی پھیلائے رکھتی ہیں۔‘‘ وہ شرمندہ سی ہوکر ان کے پائوں دبانے لگی تھی۔
’’جیسے جیسے بڑھاپا میری ہڈیوں کو کمزور کرتا جارہا ہے اسی طرح مجھے تنہائی‘ بے بسی اور کمزوری کا احساس جکڑنے لگا ہے اور میں تمہارے دل کی حالت کو سمجھنے لگی ہوں پری۔‘‘ وہ اٹھ کر بیٹھ گئیں اور اس کے سر پر اپنا نحیف و نزار ہاتھ رکھ کر پشیمان لہجے میں گویا ہوئی تھیں۔
’’سارے رشتے میرے اردگرد موجود ہیں مگر پھر بھی میرے اندر تنہائی کا ایک جنگل اُگ آیا ہے جہاں ہر سو بے بسی کے کانٹے پھیلے ہوئے ہیں اور تم میری بچی!‘‘ انہوں نے اسے سینے سے لگا کر گلوگیر لہجے میں کہا۔
’’ماں اور باپ کے ہوتے ہوئے بھی ان رشتوں کی چمک اور خلوص سے محروم ہو‘ آئے دن ماں کے سوتیلے پن کا شکار ہوتی رہتی ہو‘ بہنیں تمہیں بہنیں نہیں سمجھتی ہیں۔‘‘
’’دادی جان آپ ہیں نا میرے ساتھ‘ مجھے کسی کی پروا نہیں ہے‘ کوئی مجھ سے محبت کرے یا نہ کرے مجھے فرق نہیں پڑتا ہے۔‘‘ آنچل کے پلو سے اس نے ا ن کی نم آنکھیں صاف کی تھیں۔
’’میں آصفہ اور عامرہ کو دودھ نہیں بخشوں گی‘ بہت ظلم کیا ہے انہوں نے تمہارے ساتھ‘ پھوپو اور بھتیجی کے رشتے کو کلنک لگا دیا ہے ان دونوں نامرادوں نے۔‘‘
’’دادی جان! ایسا مت کریں‘ معاف کردیں ان کو۔‘‘
’’ہر گز نہیں‘ ارے صباحت تو غیر ہے لیکن وہ دونوں تو میری اپنی بیٹیاں ہیں‘میری کوکھ سے جنم لیا ہے۔‘‘ ان کا ملال و دلگرفتگی ختم ہونے کا نام ہی نہیںلے رہی تھی۔
’آپ لیٹیں میں چائے بناکر لاتی ہوں آپ کے لیے۔‘‘ وہ ان کو بہلاتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
…٭٭٭…
کورٹ کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے لمحے بھر کو اس کے قدم ڈگمگائے تھے‘ دل میں ایک مانوس سی ہلچل پیدا ہوئی تھی اور دل اتنی تیزی سے دھڑکنے لگا تھا کہ اس کی لرزش اس کے ہاتھ سے ساحر خان کو بھی محسوس ہوئی تھی۔
’’ کیا ہوا؟ کیوں اس قدر نروس ہورہی ہو؟‘‘ اس نے چونک کر استفسار کیا تھا۔
’’ساحر! مجھے فیل ہورہاہے‘ ممی پاپا رو رہے ہیں بہت تیز اونچے اندا زمیں‘ ان کی سسکیاں مجھے ہر طرف سے سنائی دے رہی ہیں۔‘‘ وہ جو بہت خوشی خوشی اس کے ہمراہ کورٹ کے احاطے میں داخل ہوئی تھی اور اب چند سیڑھیاں چڑھنے کے بعد ہی وہ ادھر اُدھر دیکھتی ہوئی وحشت زدہ لہجے میں کہہ رہی تھی۔
’’کم ان ڈارلنگ! یہ کیا تم نے ایک مڈل کلاس گرل کی مانند ایٹی ٹیوڈ دکھارہی ہو‘ ایسی باتیں تو غریب گھرانے کی لڑکیاں کرتی ہیں‘ تم میں یہ اسٹائل کہاں سے آیا‘ تمہارا اسٹیٹس تو ہائی ہے۔‘‘ اس کے حیرانگی سے کی گئی بات رخ کو فوراً ہی اپنی غلطی کا احساس دلانے لگی اور وہ بے ساختہ امڈ آنے والے آنسوئوں کو صاف کرکے مسکرا کر گویا ہوئی۔
’’لڑکی کسی بھی کلاس سے بی لانگ کرتی ہو ساحر صاحب! شادی کے لیے اس کے دل میں ارمان ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں۔ مایوں‘ مہندی‘ بارات‘ کیا کیا ارمان نہیں ہوتے ہیں دل میں۔یہ جس طرح سے ہماری شادی ہورہی ہے‘ اس طرح خاموشی سے تو جنازہ بھی نہیں اٹھتا ہے ہمارے ہاں۔‘‘ وہ تیزی سے اپنا دفاع کرتی ہوئی گویا ہوئی تھی۔
’’ڈونٹ وری یار! وہ بے حد گرم جوش سے اس کا ہاتھ دباتا ہوا جذباتی انداز میں سرگوشی کرتے ہوئے گویاہوا۔
’’ہم میرج کرلیں اس کے بعد میں بہت جلد تمہاری ڈاکومنٹس تیار کروالوں گا اور پھر ہم ہنی مون کے لیے سوئٹزرلینڈ چلیں گے۔‘‘
…٭٭٭…
 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
’’اگر ایک کپ چائے ہمیں بھی عنایت کی جائے تو ذرّہ نوازی ہوگی۔‘‘وہ دبے پائوں کچن میں داخل ہوا تھا اور وہ فریج سے دودھ کاپیکٹ نکال رہی تھی‘ بہت قریب سے ابھرنے والی اس کی بھاری و دلکش آواز سن کر بری طرح سٹپٹا گئی تھی۔
’’مانا کہ میری آواز ازحد خوب صورت ہے مگر اب ایسی بھی حسین نہیں ہے کہ آپ بے ہوش ہونے لگیں۔‘‘
فرش پر گرنے والا پیکٹ اٹھا کر کائونٹر پر رکھتے ہوئے وہ شوخ لہجے میں گویا ہوا تھا۔ ساس پین میں پتی ڈالتی ہوئی پری کے چہرے پر گہری سنجیدگی پھیلتی چلی گئی تھی۔
’’آپ یہاں سے جائیں میں خیراں کے ہاتھ چائے بھیج رہی ہوں۔‘‘
’’خیراں کے ہاتھ کیوں بھیجو گی؟ تمہارے ہاتھ کو کیا ہوا؟‘‘
’’طغرل بھائی! پلیز میں سیریس ہوں اور نہ ہی میرا اس وقت جوک سننے کا موڈ ہورہا ہے۔‘‘ وہ اسٹینڈ سے ساسر اور کپ نکال کر ٹرے میں سیٹ کرتے ہوئے قدرے ناگوار لہجے میں بولی۔
’’میں نے کوئی جوک نہیں سنایا‘ بہت سیریس انداز میں پوچھا ہے کہ چائے تم کیوں نہیں لاسکتیں؟ خیراں کے ہاتھ کیوں بھیجو گی؟ ویسے بھی تمہیں میرا بے حد احسان مند ہونا چاہیے‘ بہت خیال رکھنا چاہیے میرا۔‘‘
’’کس خوشی میں؟‘‘ وہ چمک کر گویا ہوئی۔
’’اپنے زندہ رہنے کی خوشی میں‘ اگر پرسوں مجھے ذرا بھی دیر ہوجاتی تو آج تمہارے سوئم کی بریانی کھارہے ہوتے سب۔‘‘ اس کے شوخ لہجے میں طنزیہ کاٹ بھی تھی۔
’’آپ یہ احسان مجھ پر کب تک جتاتے رہیں گے؟ میں نے آپ سے التجا نہیں کی تھی کہ آپ میری جان بچائیں۔‘‘
’’ارے بڑی احسان فراموش لڑکی ہو تم‘ میرا شکریہ ادا کرنے کے بجائے طنز کررہی ہو۔‘‘ وہ اسے گھورتے ہوئے بولا۔
’’آپ کے قدموں میں پڑی رہوں؟ اور کس احسان کا شکریہ ادا کروں؟ ایک جہنم سے بچا کر دوسرے جہنم میں دھکیل دیا ہے مجھے۔‘‘ وہ چائے فلاسک میں ڈالتی ہوئی کچھ ایسے انداز میں گویا ہوئی تھی کہ لمحے بھر کو ششدر سا اسے دیکھتا رہ گیا تھا۔
…٭٭٭…
ان دونوں نے احتیاطاً ٹیکسی لی اور بڑی بڑی شالیں لپیٹے اور کچھ حصہ چہرے پر ڈالے وہ راحیل کے فلیٹ سے کچھ دور اتر گئی تھیں۔ عادلہ اور عائزہ شہر کے قدیم اور کنجسٹیڈ ایریا کی تنگ و تاریک گلیوں سے گزرتی ہوئیں عجیب نظروں سے ان ٹوٹی پھوٹی خستہ حال عمارتوں کو دیکھ رہی تھیں‘جن میں ڈھیروں لوگ آباد تھے اور عمارتیں تھیں کسی ضعیف العمر بزرگ کی مانند اس حد تک خمیدہ ہوگئی تھیں کہ محسوس ہوتا تھا ہوا کے تیز جھونکوں کا بوجھ بھی نہ سہار پائیں گی۔
’’آخ تھو… کس غلاظت کے ڈھیر میں لے آئی ہو مجھے؟‘‘
عادلہ ان تنگ گلیوں میں جا بجا بکھرا کچرا‘ ٹوٹی پھوٹی سیوریج لائنز سے رستا پانی جو جگہ جگہ جمع ہوکر بدبو و جراثیم پھیلا رہا تھا اور اس سے اٹھتے تعفن سے سانس لینا محال ہورہا تھا جس سے مکھی اور مچھروں کی بہتات تھی۔ رنگ و روغن اور پلسٹر سے عاری دیواروں پر چسپاں پان و گٹکے کی پچکاریوں سے شاید رنگ و روغن کا کام لینے کی کوشش کی گئی تھی۔
حبس‘ گھٹن‘ گندگی اور تاریکی وہ جتنا آگے بڑھ رہی تھیں ان کیفیات میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ عائزہ تو گویا کسی کشش کے باعث وہاں کھنچی جارہی تھی ‘ اسے نہ بدبو کا احساس تھا‘ نہ ہی وہاں سے گزرتے لوگوں کی پروا جو ان کو دیکھ رہے تھے۔
’’سنو! راحیل نے تمہیں اپنے گھر میں بلایا ہے یا اپنی قبر میں؟‘‘ وہ سخت لہجے میں گویا ہوئی تھی۔
’’کیا بکواس کررہی ہو؟ زبان چلانے سے پہلے کچھ سوچ بھی لیا کرو۔‘‘ عائزہ کو تو گویا کسی نے کند چھری سے ذبح کر ڈالا ہو۔
’’یہ جگہ انسانوں کے رہنے کے قابل لگ رہی ہے تمہیں؟‘‘
’’یہ لوگ تمہیں حیوان نظر آرہے ہیں؟ غریب ہیں مگر انسان ہیں۔‘‘
’’غریب ہیں مگر کوئی اتنا بھی غریب نہیں ہوتا کہ اپنے گھر اورباہر کی صفائی نہ رکھ سکے‘ ان جگہوں کاحال دیکھ رہی ہو تم اگریہاں کے سارے رہائشی اپنے گھر کے آگے کی ہی صفائی رکھیں تو چمک اٹھے گا یہ علاقہ۔‘‘
’’اوہو‘ تمہیں بڑی فکر ہورہی ہے اس علاقے کی؟ فیوچر میں اسی جگہ میں رہائش کا ارادہ ہے؟‘‘ وہ اپنے مخصوص کاٹ دار لہجے میں گویا ہوئی۔
’’اللہ نہ کرے جو میرے ایسے نصیب پھوٹیں‘ میں تو سوچ رہی ہوں وہ راحیل یہاں کس طرح رہتا ہے؟‘‘
’’رہ رہا ہے مجبوری میں بے چارہ! کسی وجہ سے اس کو اپنا فلیٹ چھوڑنا پڑا ہے اس لیے وہ یہاں کسی دوست کے پاس رہ رہا ہے۔‘‘
’’مجبوری… اس کو بھلا کیا مجبوری ہوسکتی ہے؟ ایویں تمہیں بے وقوف بنارہا ہوگا اور تم اس کی باتوں میں آجاتی ہو۔‘‘ عائزہ اس کو جواب دینے کے بجائے ایک ایسی عمارت کے آگے آکر رک گئی تھی
جو شاید اس علاقے کی سب سے خستہ حال عمارت تھی۔
’’آجائو عادلہ! یہی بلڈنگ ہے راحیل نے جو نشانیاں بتائی تھیں وہ میں نے دیکھ لی ہیں وہ سیکنڈ فلور پر رہتا ہے۔‘‘
’’نشانیاں… ہاہاہا… بے چاری بلڈنگ اپنا ایڈریس تو کھوچکی ہے اب تو واقعی نشانیوں سے ہی اندازہ ہوتا ہے کبھی عمارت تھی۔‘‘ عادلہ بے ساختہ ہنسے لگی تھیں۔
’’ایک تو تم جگہ دیکھتی ہو نا محلہ اور کھی کھی شروع کردیتی ہو‘ چلو آئو میرے ساتھ ہمیں اوپر جانا ہے۔‘‘
وہ اسے گھور کر بولی تھی اور آگے بڑھ گئی تھی سو اس کی تقلید عادلہ کو بھی کرنی پڑی تھی بہت چھوٹی چھوٹی سی سیڑھیاں تھیں جو ٹوٹ پھوٹ کر شکار تھیں‘ وہاں روشنی بھی ناکافی تھی ان کو بہت سنبھل سنبھل کر چلنا پڑرہا تھا۔
ان ہی پتھروں پر چل کر اگر آسکو تو آئو
میرے گھر کے راستے میں کہیں کہکشاں نہیں ہے
عائزہ کا بار بار پائوں سلپ ہورہا تھا عادلہ نے ہنس کر شعر پڑھا تھا۔
’’تم سے پوچھ لوں گی کسی دن‘ سارا بدلہ چکادوں گی‘ ابھی تو مجھے راحیل سے ملنے کی خوشی میں کچھ برا نہیں لگ رہا ہے۔‘‘ خلاف مزاج و ہ مسکرا کر گویا ہوئی تھی وہ بہت خوش اور مطمئن لگ رہی تھی اس کی بدمزاجی اور چڑچڑاپن غائب تھا۔
’’تم کتنی اچھی لگتی ہو مسکراتی ہوئی عائزہ! مسکراتی رہا کرو نا۔‘‘ وہ سیڑھیاں عبور کرکے سیکنڈر فلور پر پہنچ گئی تھیں۔
’’راحیل اور میں ایک ہوجائیں گے تم دیکھنا میں سوتے میں بھی مسکراتی رہوں گی۔‘‘ وہ آگے بڑھ کر کال بیل پش کرتی ہوئی بولی۔
…٭٭٭…​
فیاض صاحب خلاف توقع آج گھر سر شام ہی آگئے تھے ور حسب عادت وہ پہلے اماںکو سلام کرنے ان کے کمرے میں گئے تھے اور سلام کرکے ان کے قدموں میں ہی بیٹھ گئے تھے۔
’’آج تو جلدی گھر لوٹ آئے ہو بیٹا! بہت اچھا لگ رہا ہے تمہیں شام کی روشنی میں دیکھنا۔‘‘ وہ شفقت بھرے لہجے میں بولیں۔
’’آج عابدی کے ہاںڈنر پارٹی ہے انہوں نے اتنا اصرار کیا کہ ضرور آنا بلکہ ود فیملی شرکت کرنی ہے۔ عابدی کے اتنے احسانات ہیں مجھ پر اماں جان‘ میں انہیں نہ نہیں کہہ سکا۔‘‘
’’ہاں ہاں ضرور جائو بیٹا! وہ تمہارا جگری دوست بھی ہے پارٹنر بھی ہے‘ پھر کوئی اتنی خلوص و مروت سے دعوت دے تو قبول کرنا بھی چاہیے۔‘‘انہوں نے مسکراتے ہوئے انہیں سمجھایا تھا۔
’’پاپا! چائے لائوں آپ کے لیے؟‘‘ اماں کی وارڈ روب درست کرتی ہوئی پری ان سے مخاطب ہوئی تھی۔
’’نہیں‘ میں آفس سے چائے پی کر آیا ہوں۔‘‘ وہ اس کی جانب دیکھتے ہوئے گویا ہوئے تھے وہ ان کو بہت رنجیدہ اور کمزور لگ رہی تھی۔ ان کا شدت سے دل چاہا اس سے پوچھیں‘ اسے کیا ہوا ہے؟ وہ اتنی کمزور اور افسردہ کیوں دکھائی دے رہی ہے؟ مگر پھر وہ ہی ایک خلیج… بچپن سے قائم ہوا ایک حجاب مانع تھا۔ مثنیٰ سے علیحدگی کے بعد ان کے بدلتے جذبات نے ان کو اس حد تک بدلا تھا کہ وہ اس پری سے بھی اس حد تک نفرت کرنے لگے تھے کہ اس کی جانب دیکھنا بھی پسند نہ کیا تھا۔ اپنی جان سے بڑھ کر چاہنے والی بچی کو وہ فراموش کر بیٹھے تھے۔ سالوں تک ان کی محبت پر برف پڑتی رہی تھی اور گلیشیئر کا روپ دھار چکی تھی۔‘ مگر موسم بدلا تھا اور برف پگھلنے لگی تھی لیکن اس دوران ان باپ بیٹی کے درمیان فاصلہ بے حد وسیع ہوگیا تھا‘ جس کو عبود کرنے کے لیے ایک جست کافی نہ تھی۔
’’اماں جان! آپ کو بھی چلنا ہوگا ہمارے ساتھ‘ پری آپ بھی تیار ہوجائیں ‘ میں مزنہ بھابی اور صباحت کو بھی کہہ دیتا ہوں‘ صباحت اور بچیاں بھی چلیں گی۔‘‘ وہ کھڑے ہوکر گویا ہوئے۔
’’میری تو ہمت بالکل بھی نہیں ہے بیٹا! ہاں تم صباحت اور بچیوں کے ساتھ پری کو بھی لے جائو‘ مزنہ اور طغرل تو کسی عزیز کے ہاں گئے ہوئے ہیں۔‘‘ اماں کے انداز میں قطعیت تھی ایسے میں کسی کی نہیں سنتی تھیں وہ ان کے مزاج آشنا تھے سو پھر اصرار نہ کیا تھا پری سے بولے۔
’’آپ ریڈی ہوجائیں ہمیں جلدی جانا ہے۔‘‘
’’پاپا! دادی جان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے میں…‘‘
’’خیر اب ایسی بھی میری حالت نہیں ہے کہ تم جائو نہیں‘ پہلی بار تمہارے باپ کو تمہارا خیال آیا ہے‘ آج تو تمہیں خوش ہونا چاہیے‘ جائو تم یہ میرا حکم ہے بس۔‘‘
اماں کی کھری بات پر نگاہ نہ اٹھا سکے تھے فقط آہستگی سے بولے۔
’’میں جلد آپ کو گھر بھیج دوں گا آپ ریڈی ہوجائیں۔‘‘ وہ اماں سے اجازت لے کر اپنے کمرے میں آگئے تھے‘ صباحت بال برش کررہی تھیں‘ فیاض کو دیکھ کر مسکرا کر بولیں۔
’’مجھے معلوم تھا آپ آج جلدی آئیں گے مسز عابدی کا فون آیا تھا ڈنر پر انوائٹ کیا ہے بہت اصرار کررہی تھیں کہہ رہی تھیں پوری فیملی کو لے آئیں۔‘‘ وہ خاصی مسرور تھیں۔
’’پھر تم نے کیا کہا ان سے؟‘‘ وہ ایزی ہوکر لیٹ گئے۔
’’جان چھڑانے کے لیے ہامی بھرلی میں نے‘ بہت پکائو عورت ہے اگر میں کہہ دیتی بچیاں گھرمیں نہیں ہیں‘ مزنہ بھابی اور طغرل بھی ایک پارٹی میں مدعو ہیں‘ اماں جان کے جوڑوں میں درد ہے‘ وہ تو آج
کل بستر کی ہوکر رہ گئی ہیں اب میں کس کو لائوں بھلا ساتھ؟ ہم دونوں مسٹر اینڈ مسز ہی آسکتے ہیں۔‘‘
’’عائزہ اور عادلہ کہاں ہیں؟‘‘
’’وہ اپنی فرینڈز کی برتھ ڈے پارٹی میں گئی ہیں۔‘‘
’’تمہیں معلوم ہے کس فرینڈ کے ہاں اور کہاں گئی ہیں؟ا ور تم ملی ہو کبھی ان سے؟ گئی ہو وہاں…؟‘‘ ان کا لہجہ بہت سخت اور باز پرس کرنے والا تھا‘ صباحت چند سیکنڈز تو ہکا بکا سی رہ گئی تھیں کہ ان کو کچھ علم نہ تھا وہ کہاں اور کس فرینڈ کے گھر گئی ہیں۔ وہ بیٹیوں کی باتوں پر آنکھیں بند کرکے یقین کرنے والی خاتون تھیں‘ سو اب بھی ایسا ہی ہوا تھا۔
’’گاڑی پورٹیکو میں کھڑی ہے‘ ڈرائیور بھی موجود ہے وہ کس کے ساتھ گئی ہیں؟‘‘ وہ سوال در سوال کررہے تھے۔
’’آپ خود ہی سوچیے میں بھلا جوان بیٹیوں کو آنکھیں بند کرکے کہیں بھیج دوں گی‘ جب سے بچیاں بڑی ہوئی ہیں ہر وقت آنکھیں کھلی رکھتی ہوں۔‘‘ بہت سرعت سے انہوں نے خود پر قابو پایا تھا۔
’’تمہاری آنکھیں تو صرف مجھے سوتے میں ہی کھلی نظر آتی ہیں۔‘‘
’’آپ مذاق اڑارہے ہیں میرا؟‘‘
وہ ان کے قریب بیٹھتے ہوئے خفیف مسکراہٹ سے بولیں۔
’’وہ تو کمزوری سے کھلی رہ جاتی ہیں جان کر تھوڑی کھولتی ہوں۔‘‘
’’چلو تمہاری کمزوری سے یہ فائدہ ہوگا کہ کبھی گھر میں چور گھس گئے تو سمجھیں گے تم جاگ رہی ہو تو بھاگ جائیں گے۔‘‘ان کے شگفتہ انداز میں بھی بلا کی سنجیدگی تھی۔
’’توبہ! کیسی باتیں کررہے ہیں آپ؟ ہمارے ہاں چور کیوں آنے لگے اور اگر کبھی خدانخواستہ آبھی گئے تو خالی ہاتھ بھاگیں گے‘ آپ کے خراٹے کسی شیر کی دہاڑ سے کم نہیں ہوتے ہیں۔‘‘
…٭٭٭…​
بار بار بیل دینے کے بعد بھی اندر سے کوئی جواب نہ آیا تھا۔
’’عائزہ! شاید کوئی اندر ہے ہی نہیں‘ ہمیں واپس چلنا چاہیے۔‘‘ عادلہ اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر بولی تھی۔
’’یہاں آنے سے پہلے کال کی تھی‘ میں نے اس کو کہہ دیا تھا وہ میرا انتظار کررہا ہے میں جلد پہنچوں۔‘‘
’’اگر وہ انتظار کررہا تھا تو کم از کم ہمیں یہیں مل جاتا۔‘‘
’’ٹھیک کہہ رہی ہو تم‘ اگر وہ ہمارے لیے کوکنگ نہ کررہا ہوتا تو ضرور ہمیں باہر روڈ سے ہی پک کرتا۔‘‘
’’کوکنگ؟‘‘ وہ عائزہ کو دیکھ کر حیرانگی سے بڑبڑائی۔
’’ہاں کوکنگ‘ وہ کہہ رہا تھا وہ بیسٹ کوک ہے۔‘‘
اسی دم اندر سے کسی کے غصے سے بڑبڑانے کی آواز آئی اور زور دار انداز میں دروازہ کھو لا گیا آنے والے کا اندا ز بڑا جارحانہ تھا‘ اس کے ہونٹوں سے مغلظات رواں ہونے ہی والے تھے۔ ان پر نگاہ پڑتے ہی وہ پل بھر میں غصے بھول کر مسکرانے لگا۔
’’ہائے! ہم کب سے بیل بجا رہے ہیں۔‘‘ عائزہ بے تکلفی سے اندر داخل ہوگئی تھی۔ عادلہ تذبذب کا شکار وہیں دہلیز پر کھڑی تھی۔ راحیل کا حلیہ بہت عجیب تھا‘ہاف چیک ٹرائوزر کے ساتھ اس نے وائٹ بنیان پہن رکھا تھا‘ آنکھیں اس کی بے تحاشا سرخ ہورہی تھیں‘ نامعلوم وہ نیند میں تھا یا نشے میں۔
’’آپ کو کیا اٹھا کر لے جانا پڑے گا اندر؟‘‘
وہ اسے وہیں ایستادہ دیکھ کر بے باکی سے بولا تھا اور اس کے قریب کھڑی عائزہ اس کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنس پڑی اور کہنے لگی۔
’’پلیز آبھی جائو نا‘ کیوں چپک کر کھڑی ہوگئی ہو وہاں پر‘ آئو نا۔‘‘اس کا ہاتھ پکڑ کر وہ اندر آئی۔ کمرے میں قدم رکھتے ہی لائٹ چلی گئی اور اسے لگا آنکھیں میں سے بینائی بھی چلی گئی ہو ‘ مہیب اندھیرا ہر سو چھاگیا تھا۔
’’یہ کہاں آگئی ہو عائزہ! واپس چلو میرا دل گھبرا رہا ہے۔‘‘ اس نے سرگوشی کی تھی‘ عائزہ نے اسے چپ رہنے کے لیے ٹہوکا مارا تھا۔
’’بھئی! کیا قدم ہیں آپ کے تاریکی ساتھ لائی ہیں۔‘‘ وہ ایک کینڈل جلا کر لایا تھا اور قریب رکھے اسٹینڈ پر رکھ دی۔
اس مہیب اندھیرے کمرے میں روشنی کی وہ معمولی سی مقدار ماحول کو وحشت ناک بنارہی تھی۔ وہ عائزہ کے ساتھ سوفے پر بیٹھ گئی تھی۔ کمرے میں سامان بے حد مختصر تھا‘ ایک سوفہ سیٹ‘ سامنے سنگل بیڈ تھا جس پر رضائی اور تکیہ بے ترتیب پڑے تھے‘ بیڈ کے برابر میں ایک الماری تھی جس کا آدھا شیشہ ٹوٹا ہوا تھا اور جو باقی تھا وہ زنگ آلود اور کرچیوں کی صورت میں جما ہوا تھا۔
’’ایک کینڈل لائے ہو اتنے اندھیرے میں؟‘‘ عائزہ نے کہا۔
’’تمہارے ہوتے ہوئے ایک بھی کینڈل کی ضرورت نہ تھی‘ تمہارے حسن کی روشنی سے کمرہ جگمگ کررہا ہے۔‘‘
وہ اپنی باتوں کے جادو سے لڑکیوں کو شیشے میں اتارتا تھا۔
’’یہ پھر یہ ایک بھی کیوں لائے ہو‘ میرے حسن کی توہین کرنے کے لیے؟‘‘ وہ یہ تو گویا بھول ہی گئی تھی کہ عادلہ اس کے ساتھ ہے‘ وہ مخمور نگاہوں سے راحیل کو دیکھ رہی تھی۔
’’یہ کینڈل ہماری گیسٹ کو ویلکم کے لیے ہے۔‘‘ اس کی نگاہیں گاہے بگاہے عادلہ پر اٹھ رہی تھیں جو چپ تھی۔
’’ہوں‘ پھر معاف کیایہ بتائو کیا کیا بنایا ہے ہمارے لیے؟‘‘
’’سوری یار! مجھے نیند آرہی تھی میں سوگیا تھا۔‘‘
’’وہاٹ!‘‘ عائزہ ایک دم غصے سے بولی تھی۔
’’تم… سورہے تھے؟ میں سمجھی تم ڈشز بنارہے ہو‘ ہمارے لیے؟‘‘
’’ایزی ایزی میری جان! ہائپر مت ہو‘ میں ابھی کال کرکے کسی بھی بہترین ریسٹورنٹ پر آرڈر کردیتا ہوں‘ کیا کھانا ہے مینو بتائو؟‘‘
’’تم تو کہہ رہے تھے خود بنارہے ہو ہمارے لیے؟‘‘
’’میں سمجھا تم کہاں آئوں گی یار! تمہارا وہ ہٹلر کزن نہیں آنے دے گا۔‘‘
’’اوہ تو یہ بات ہے۔‘‘ وہ لمحے میں غصہ بھول گئی۔
’’بائی دا وے تو لوگ اس سے بچ کر کس طرح آگئے؟‘‘
’’ہم تو بچ کر آگئے مگر اب وہ نہیں بچنا چاہیے۔‘‘ وہ سخت لہجے میں گویا ہوئی تھی۔
’’عائزہ! تم تو کہہ رہی تھیں کوئی دوسرا راستہ نکالو گی پھر یہ…‘‘
’’یہ دوسرا راستہ تو ہے جو موت کی طرف جاتا ہے ہاہاہا۔‘‘
…٭٭٭…​
پارٹی بہت شان دار تھی شہر کی تمام کریم وہاں موجود تھی اور مسز عابدی نے ان لوگوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا تھا۔ صباحت نے بھی اپنا رویہ نارمل رکھا تھا‘ بلو کلر کی سلک کی ساڑھی میں نک سک سے تیار خوب صورت لگ رہی تھیں‘ اس کے پاپا بھی گرے کوٹ سوٹ میں بہت پُروقار اور ہینڈسم لگ رہے تھے۔ وہ انکل عابدی آنٹی اور ان کی دونوں شادی شدہ بیٹیوں سے علیک سلیک کے بعد ایک چیئر پر بیٹھ گئی تھی۔
ویٹر کولڈ ڈرنگ سرو کرکے گیا تھا وہ سپ لیتے ہوئے ممی اور پاپا کو دیکھ رہی تھی جو ساتھ ساتھ تھے آج اور پاپا ان کو سب سے ملوا رہے تھے‘ ممی کے چہرے کی مسکراہٹ میں بڑی آسودگی‘ طمانیت اور فخر تھا‘ انہوں نے آگے بڑھ کر پاپا کے بازو میں اپنا بازو ڈال لیا تھا‘ لحظہ بھر کو اس نے پاپا کے ماتھے پر شکن ابھرتی دیکھی تھی اور اس وقت کچھ بے تکلف دوست ان کے قریب آگئے تھے۔
صباحت نے بڑی فاتحانہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا تھا‘ جیسے بتانا چاہ رہی ہو کہ دیکھو‘ تمہاری ماں کی جگہ لے لی ہے میں نے ۔ ان کے اس انداز سے اس کی بہت عجیب سی کیفیت ہوئی تھی۔ اس نے کانپتے ہاتھوں سے گلاس ٹیبل پر رکھ دیا تھا۔
’’ممی کیا سوچتی ہیں میں ان سے حسد کرتی ہوں؟ انہوں نے میری طرف ایسی نظروں سے کیوں دیکھا ہے؟ کیا جتانا چاہتی ہیں وہ؟ شاید…شایدوہ سمجھتی ہیں کہ میں ان کے اور پاپا کے درمیان رشتہ قائم نہیں دیکھنا چاہتی ہوں۔‘‘ صباحت کی نفرت بھری نظر اس کے دل اس طرح پیوست ہوئی کہ تکلیف کے باعث یہ بھی بھول گئی وہ کسی گوشے میں نہیں بیٹھی ہے وہ شدید ذہنی دبائو کا شکار ہوگئی تھی‘ تب ہی وہ فلیش کی زد میں آئی تھی اور اس نے چونک کر حواسوں میں آنے اور اٹھ کر وہاں تک جانے کے دوران وہ متعدد بار فلیش کی زد میں آئی تھی۔
’’کون ہیں آپ؟‘‘آپ نے جرأت کیسے کی میری تصویر لینے کی؟‘‘
(ان شاء اللہ باقی آئندہ ماہ)

 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
سنہری دھوپ… ام مریم
وہ تین دن کی دلہن چھت پر اکیلی کھڑی تھی‘ اس کے لمبے اور گھنے بال کمر تک آئے ہوئے تھے‘ چہرے اور گردن پر لمبی کھرنچیں تھیں جن سے رسنے والا خون وہیں جم کر کھرنڈ کی شکل اختیار کرگیا تھا۔
وہ بے خیال سی آگے بڑھی اور منڈیر سے لگی جالی کے ساتھ آرکی۔ اب نگاہ کے سامنے ہل چلے ہوئے کھیت تھے۔ ہوا اچانک تیز ہوئی تو سامنے شہر جانے والی تارکول کی سڑک پر گردو غبار بگولوں کی صورت اڑتا نظر آنے لگا۔ گھر کی چار دیواری کے باہر مویشی بندھے تھے۔
ہل چلے کھیت میں ایک آدمی بغل میں کپڑے کی پوٹلی دبائے بیچ بو رہا تھا۔ جب کہ سفید لباس میں ملبوس ایک قدر آور شخص منڈر پر کھڑا ہاتھ اٹھا کر بیچ بوتے آدمی سے بات کررہا تھا۔ وہ قد آور شخص اس چھت پر کھڑی دلہن کا شوہر تھا۔ لڑکی کی نگاہ اس پر پڑی تو ایک دم اس کا دل بھر آیا اور ذہن پرجیسے کوئی ہیجان طاری ہوگیا۔ وہ ایک دم چیخی اور چیختی چلی گئی تھی۔ منڈر پر کھڑے آدمی نے قدرے چونکتے ہوئے پلٹ کر دیکھا۔ کچھ دیر چھت پر کھڑی روتی لڑکی کو گھورا پھر تیز تیز چلتا حویلی کی جانب آنے لگا اور حویلی میں داخل ہوکر دوڑتا ہوا لمحوں میں وہ آدمی چھت پر اس کے روبرو تھا۔
’’عبیر کیا تکلیف ہے تمہیں‘ ہاں بوبو…؟‘‘ اس نے قریب آتے ہی اس کا بازو کہنی سے پکڑ کر زور دار جھٹکا دیا تھا‘ وہ جیسے ہوش میں آگئی اور آنسوئوں سے جل تھل آنکھوں سے اسے تکنے لگی۔
’’کیوں پاگل ہورہی ہو؟‘‘ کیسا لہجہ تھا‘ کڑا‘ بے زار اور سنگین‘ حالانکہ کبھی یہی لہجہ شہد ٹپکاتا تھا۔ زیادہ پرانی بات بھی نہیں تھی۔
’’نیچے چلو‘ اب اگر مجھے چھت پر نظرآئیں تو ٹانگیں توڑ کر رکھ دوں گا۔‘‘ جارحانہ انداز میں اسے دھکا دے کر سیڑھیوں کی جانب لاتے وہ تلخی سے بولا‘ اس کے چہرے پر کوئی نرمی یا ملائمت نہیں تھی۔
’’اسامہ… اسامہ!میری بات کا یقین کریں‘ آپ سے میری پہلی شادی ہے اور میں باعصمت ہوں‘ آپ کو…‘‘
اس کے فولادی ہاتھ کے زناٹے دار تھپڑ نے اس کی بات مکمل نہیں ہونے دی۔
’’بکواس بند رکھو اپنی‘ میں نے تم سے کوئی وضاحت نہیں مانگی ہے‘ سمجھیں۔‘‘ وہ حلق کے بل چیخا تھا‘ عبیر نے گنگ ہوتے ہوئے پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھا۔ وہ کچھ نہیں بول سکی تھی۔
…٭٭٭…
کھڑکی کا پردہ ہٹا کر اس نے پٹ وا کیا تو ہوا کا یخ بستہ جھونکا اس کے بالوں کو چھوتا کمرے میں پھیل گیا۔ باہر ہر سو برف کی سفید چاردر بچھی ہوئی تھی۔ بلند و بالا پہاڑ‘ سروقد درخت‘ سڑکوں کے سرمئی پن کو بھی برف کی سفید چادر نے ڈھانپ رکھا تھا۔ فضا میں خاموشی اور اداسی کا رنگ غالب تھا یا اسے محسوس ہورہا تھا۔ کمرے کے آتش دان میں آگ روشن تھی۔مگر اس کے اندر جیسے کوئی گلیشیئر جما ہوا تھا۔ نیا ٹھکانہ وہ نئے لوگ اور اس پر دھوکا۔ وہ جتنا سوچتی اسی قدر مضطرب ہوجاتی تھی۔ گو کہ وہ اس دھوکے و فریب کا کبھی حصہ نہیں بنی تھی مگر ضمیر زندہ ہو تو اضطراب اپنوں کی بد اعمالی پر بھی نصیب ہوا کرتا ہے۔ معاً اس کی نگاہ یک دم ایک منظر پر ٹھہر گئی۔ کر بھری یخ بستہ صبح کے ملگجے اجالوں میں جیسے ایک دم سورج کی سنہری کرنیں ہر سو جگمگانے لگی تھیں۔ وہ جو کوئی بھی تھا‘ ٹریک سوٹ میں سڑک کنارے چلتے ہوئے اچانک گلاب کے کنج کے پاس رک گیا تھا۔ جھک کر گلاب کی ادھ کھلی کلی کو توڑتا ہوا وہ اس سارے ماحول میں ایک دم خوب صورت اضافے کا سبب بن گیا تھا۔ کچھ منظر بلاشبہ اپنے اندر طلسمی کشش رکھتے ہیں۔ وہ بھی بے خود اسی منظر میں کھوگئی تھی وہ اپنے دھیان میں تھا۔ گلاب کی ادھ کھلی کلی ہمراہ لیے آگے بڑھ گیا۔ وہ تب چونکی جب ہنسی کی آواز سنی‘ حیرانی سے پلٹنے پر سارہ کو روبرو پاکے اس کے حلق تک کڑواہٹ گھل گئی تھی۔
’’بہت ہینڈسم ہے… ہے نا؟ محترم یہاں کے مشہور بزنس مین ہیں۔ اس مرتبہ ہمارا شکار یہی ہوگا۔ ساری معلومات لے چکی ہیں مام!‘‘ سینے پر ہاتھ باندھے سارہ بہت جوش سے اطلاع فراہم کررہی تھی۔ عبیر کا دل دھک سے رہ گیا۔
’’بلکہ انا نے تو اس پر اپنے حسن جہاں سوز کے ڈورے بھی ڈالنے شروع کردیئے ہیں۔‘‘
عبیر نے ہونٹ بھینچ لیے اور کوشش کی کہ چہرے سے کچھ اخذ نہ ہونے پائے۔
’’کچھ کام تھا تمہیں مجھ سے؟‘‘ اس نے نروٹھے پن کی انتہا کردی۔ جبھی سارہ کے چہرے پر توہین کے احساسات سے آگ بھڑک اٹھی تھی۔
’’مام کا میسج ہے تمہارے لیے۔ اس پڑھائی اب ختم کرو اور دھندے میں ہاتھ بٹائو۔ آج کل ویسے بھی بڑا مندا چل رہا ہے۔ یہ تیسرا ٹھکانہ بدل لیا ہے مگر کوئی شکار نہیں پھنسا۔‘‘
’’تو یہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔‘‘ عبیر نے کسی قدر ناگواری کا اظہار کیا۔
’’ہاں تمہارا مسئلہ کیوں ہوگا۔ تم توبس عیش کرنے دنیا میں آئی ہو بکائو مال تو ہم ہیں نا‘ پیسہ بنانے کی مشین۔‘‘ سارہ تنفر سے بولتی چلی گئی۔ گویا اس گناہ آلود زندگی کا احساس ندامت بن کر انہیں بھی کچوکے لگاتا تھا۔
’’تونہ بنو مشینیں‘ کس نے فورس کیا ہے؟ جو کچھ کررہی ہو اپنی مرضی سے کرتی ہو۔‘‘ بغیر لگی لپٹی رکھے عبیر نے اسے سنانا شروع کیں‘ سارہ کو تو جیسے آگ لگ گئی۔
’’شٹ اپ! تمہیں کوئی حق نہیں پہنچتا‘ میری انسلٹ کرنے کا‘ سمجھیں۔‘‘
’’میں بھی تمہاری انسلٹ نہیں کررہی‘ حقیقت بیان کررہی ہوں‘ یہ الگ بات ہے کہ حقیقت بہت شرمناک ہے۔‘‘ عبیر کے لہجے میں نا صرف تاسف تھا بلکہ تضحیک اور حقارت بھی تھی‘سارہ اسے دیکھتی رہ گئی۔
’’تم بھی کوئی شریف زادی نہیں ہو‘ اسی سسٹم کا حصہ ہو۔‘‘ وہ چیخ پڑی تھی‘ عبیر کا چہرہ دھواں دھواں ہوکر رہ گیا۔
’’یہی بد نصیبی ہے میری مگر یاد رکھنا میں تمہاری طرح اس گندگی میں نہیں رہوں گی۔‘‘ عبیر نے خود پر سکون رہتے ہوئے بھی سارہ کو آگ لگا دی تھی۔غصے میں بے قابو ہوتی وہ اس پر جھپٹ پڑی تھی۔ اگلے لمحے دونوں گتھم گتھا ہوچکی تھیں۔ ان کی چیخوں ‘ کوسنوں کی آواز پر دوسرے کمرے سے مام ‘ انا اور عینادوڑتی ہوئی وہاں پہنچی تھیں۔ انہیں اک دوسرے کو نوچنے کھسوٹتے اور گالیاں دیتے دیکھ کر مام کو صحیح معنوں میں دھچکا لگا تھا۔ انہوں نے عینا اور انا کے ساتھ مل کر بمشکل دونوں کو ایک دوسرے سے چھڑایا۔ مام‘ انا اور عینا کو اسے وہاں سے لے جانے کا اشارہ کرکے عبیر کو گھورنے لگیں۔ جس کے بال کھل کر بکھر چکے تھے‘ چہرہ سرخ اور آنکھوں میں آنسو تھے۔
’’یہ سب کیا ہے عبیر؟‘‘ ان کا لہجہ بے حد سنگینی لیے ہوئے تھا۔ عبیر نے محض انہیں گھورنے پر اکتفا کیا اور بکھرے بالوں کو سمیٹ کر بینڈ میں جکڑنے لگی۔ مام کو اس کی اس حرکت میں سراسر اپنی توہین محسوس ہوئی تھی۔ یہ لڑکی شروع سے ہی اپنے انداز و اطوار کے باعث انہیں خائف کرتی رہی تھی۔ جبھی انہوں نے اس کے لیے اپنے مخصوص طریقہ کار کو بدلا تھا۔ وہ بہت زیرک اور جہاندیدہ تھیں۔ عبیر جیسی سرکش گھوڑی کو انہوں نے چابک سے نہیں پیار کی تھپکی سے قابو کیا تھا مگر پھر بھی اس کے تیور تیکھے اور انداز نخوت سے بھرا ہوا رہتا تھا۔ وہ ان میں سے کسی سے بھی گھلی ملی نہیں تھی۔ اس نے ہمیشہ اپنی الگ دنیا بسائی تھی۔
وہ پڑھنا چاہتی تھی مام نے پابندی نہیں لگائی مگر آئے دن بدلنے والے ٹھکانوں کی وجہ سے انہوں نے بڑی مشکل سے سہی مگر اس کی ضد کے آگے ہار کر ہی ہاسٹل میں چھوڑا تھا۔ وہ انہیں ہاسٹل میں نہیں آنے دیتی تھی۔ وہ اپنے حلقہ احباب میں انہیں ملوانے سے کیوں گریزاں تھی‘ وہ جانتی تھیں اس کا بس چلتا تو شاید وہ چھٹیوں میں بھی ان کے پاس نہ آتی۔
’’کیا پوچھا ہے تم سے عبیر؟‘‘ اب کی مرتبہ انہوں نے اسے ڈانٹا تھا۔
’’بہتر ہوگا آپ سارہ سے پوچھ لیں۔‘‘ گردن پر پڑنے والی سارہ کے ناخنوں کی خراشوں کو دوپٹے سے سہلاتے ہوئے اس نے تلخی سے جواب دیا۔
’’میں تمہاری زبان سے سننا چاہتی ہوں۔‘‘ انہوں نے برہمی سے جواب دیا تو عبیر نے ہونٹ بھینچ لیے جب کہ وہ ہنوز منتظر نگاہوں سے اسے تک رہی تھیں‘ عبیر کو ناچار زبان کھولنا پڑی۔
’’ہوں…‘‘ اس کے مختصر ترین جواب پر انہوں نے پر سوچ انداز میں ہنکارا بھرا۔
’’تمہیں اتنا غصہ کس بات کو سن کر آیا؟ پڑھائی چھوڑنے پر یا دھندے میں ہاتھ بٹانے پر؟‘‘ سوال ایسا تھا کہ عبیر کی گلابی رنگت کچھ اور بھی دہک کر انگارہ ہونے لگی۔
’’مام آپ جانتی ہیں مجھے آپ کا یہ طریقہ کار پسند نہیں ہے۔‘‘ وہ کسی قدر بے بسی سے بولی تو انہوں نے محض سر کو اثبات میں جنبش دی۔
’’پھر یہ کہ میں آپ کے ساتھ شامل نہیں ہونا چاہتی‘ اسے میری ضد سمجھیں یا پھر التجا۔‘‘ اب کی بار اس کا لہجہ مزید مضبوط اور دوٹوک تھا۔ اس کے چہرے پر ٹھہری مام کی پر سوچ نگاہوں میں تفکر بھی اتر آیا۔
’’اس کے باوجود کہ یہ معاشرہ تمہیں تمہاری اس پاکی سمیت قبول نہیں کرے گا۔ تم پر اس گھرانے کی عورت کا لیبل لگ چکا ہے عبیر!‘‘
’’نہ کرے‘ مگر میں مجبوری میں بھی گناہ کا راستہ اختیار نہیں کروں گی۔‘‘ وہ پھر اسی قطعیت سے کہہ گئی۔
’’پھر کیا کرو گی‘ خود کشی!‘‘ اب کے ان کے لہجے میں صرف جھنجلاہٹ نہیں تھی ‘ طنز بھی تھا۔
’’مام بہتر ہوگا آپ مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں‘ میں کچھ نہ کچھ کرلوں گی۔ خدا بہتر راستہ نکالے گا۔‘‘ مام کچھ دیر اسے تکتی رہیں پھر خاموشی سے اٹھ کر چلی گئیں۔
…٭٭٭…​
مام لبنیٰ فریدہ بیگم والدین کی ڈھیروں ڈھیر اولاد میں ان کا نمبر آخری تھا اور ایسے بچے یا تو بہت زیادہ توجہ کے مستحق ہوتے ہیں یا پھر توجہ و محبت میں بھی ان کا نمبر آخر میں ہی آتا ہے۔ ان کے ساتھ دوسرا معاملہ ہوا تھا۔ جوتے کپڑے یہاں تک کہ کتابیں تک انہیں ہمیشہ بڑے بھائی‘ بہنوں کی استعمال شدہ ہی ملی تھیں۔ محدود آمدنی میں اتنے بڑے کنبے کی کفالت اور بے شمار اخراجات۔ کوئی ایک بھی تو ایسی خواہش نہیں تھی جو دل نے کی ہو اور وہ پوری بھی ہوگئی ہو۔ یہ محبت‘ توجہ میںکمی اور خواہشات کی بے مائیگی و تشنگی ان کے اندر کیسی باغی سوچیں اور خیالات جنم دے چکی ہیں‘ والدین کو اندازہ ہی نہ ہوسکا اور وہ بیاہ کر اگلے گھر سدھار گئیں جو والدین کے گھر سے مختلف حالات میں ہر گز نہیں تھا۔
وہاں بھی زندگی کا ڈھب ویسا ہی تھا جس سے چھٹکارے کی وہ ہمیشہ متمنی رہی تھیں مگر چھٹکارا ہی نہیں تھا تو انہوں نے حالات کو خود اپنے بل بوتے پر بدلنے کی ٹھان لی۔ بغاوت تبدیلی کا سب سے موثر ہتھیار ثابت ہوا کرتی ہے۔ خوب صورتی پاس تھی نازو ادا سے آراستہ حسن‘ سج سنور کر میدان میں اترا تو قدر دانوں کی کمی نہ ہوئی۔ دنیا میں ایسے مردوں کی کمی نہیں جنہیں عورت اشارہ کرے تو قدموں میں لوٹنے اور شرافت کے جامے سے باہر آنے میں دیر نہیں لگاتے۔ ایسے لوگوں کو اپنا وقت رنگین کرنا ہوتا اور ان کی مٹھی اور جیب گرم ہوجاتی۔ یہ مرد خاندان میں بھی ہوتے ہیں عزیز واقارب میں بھی ملتے ہیں اور گلی محلے میں بھی پائے جاتے ہیں۔ جو وقت اور حالات کے مطابق سہولت سے مطلب نکالنا خوب جانتے ہیں۔
کہتے ہیں گناہ خوشبو کی طرح ہوتا ہے پھیلنے سے روکا نہیں جاسکتا۔ ان کے سسرالیوں میں پہلے چہ مگوئیاں ہوئیں پھر منہ پر کھل کر جھگڑے ہوئے مگر شرمندہ ہونے والوں میں ہوتیں تو یہ سب کرتیں کیوں۔ شوہر نے نام نہاد شرافت کا اظہار طلاق کی صورت میں کیا اور بچیوں کو بھی ماں کے سپرد کردیا۔ فریدہ بیگم نے سسرال سے جو جمع پونجی سمیٹی وہ یہی چار بیٹیاں تھیں۔ جو شکل و صورت میں انہی پر تھیں

اور ان کے مستقبل اور عیش و عشرت کا بہترین ذریعہ تھیں۔
…٭٭٭…​
جب تک وہ خود جوان اور خوب صورت رہیں تب تک انہیں سراہنے والوں کی کمی نہیں رہی۔ انہی میں سے مسکین صورت آدمی سے نکاح کرکے انہوں نے اپنے اوپر سے طلاق یافتہ کا لیبل بھی اتار پھینکا اور معاشرے میں بظاہر عزت سے جینے لگیں۔ بیٹیاں انہی کی طرح تھیں‘ طرحدار ‘ حسین اور ادائوں کے ہتھیاروں سے لیس‘ راہ چلتوں کو بھی منٹوں میں اسیر کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا گو کہ ان کی تربیت ہی اس نہج پر نہیں ہوئی تھی انہوں نے آنکھ کھولتے ہی اپنے گھر کا ماحول بھی یہی دیکھا تھا۔ بس یہ اک عبیر تھی جس کے مزاج اور فطرت کی نیکی اور راستی نے انہیں پریشان کرکے رکھ دیا تھا۔
وہ یہ بھی جانتی تھیں معاشرے میں انہیں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا‘ جبھی کچھ سالوں سے انہوں نے انداز بدل لیا تھا۔ مہذب اور خاندانی ہونے کا بہروپ بھرا اور اپنی پشت پر چند طاقت ور ہاتھوں کی شہ پر بہت اطمینان سے اپنا کھیل کھیلنے لگیں۔ امیر دولت مند لوگوں میں کسی نہ کسی بیٹی کا رشتہ طے کرتیں‘ بیاہ ہوتا اور سمجھ دار بیٹی موقع ملنے پر وہاں سے سب کچھ سمیٹ لاتی اور پھر لٹنے والوں کو ان کا نشان تک بھی نہ مل پاتا۔ صرف یہی نہیں جو شادی کے چکر میں نہیں پڑنا چاہتے تھے وہ رات کے اندھرے میں لڑکی کو اپنے ٹھکانے پر لے جاتے تھے۔ یہ کام بہت راز داری سے کئی سالوں سے جاری تھے۔ جنہیں خبر تھی وہ اس راز کو افشا نہیں کرتے تھے اگر کبھی وہ پھنسیں بھی تو ان کے تعلقات کام آئے اور وہ صاف بچ نکلتی تھیں۔
…٭٭٭…
’’چھوٹی بی بی! آپ کو بیگم صاحبہ یاد کررہی ہیں۔‘‘ وہ اپنا بیگ تیار کررہی تھی جب ملازمہ دستک دے کر اندر آئی۔ اس کی صبیح پیشانی پر شکنیں سی نمودار ہوئیں۔
’’تم جائو‘ آتی ہوں میں۔‘‘ ملازمہ کو بھیج کر وہ الجھن زدہ متفکر سی بیٹھی رہی۔
’’کیوں بلوایا ہوگا مام نے؟‘‘ گوکہ ابھی اس کی چھٹیاں باقی تھیں مگر وہ چند دن میں ہی یہاں کے ماحول سے گھبرا گئی تھی۔ بس نہ چلتا تھا اڑ کر واپس ہاسٹل پہنچ جائے۔ اس نے گیلے بال تولیے کی قید سے آزاد کیے‘ انہیں سلجھایا پھر دوپٹہ ڈھنگ سے اوڑھتی ان کے کمرے کی جانب چلی آئی۔
’’یس کم ان!‘‘اس کی دستک کے جواب میں مام کی مغرور سی آواز ابھری تھی۔ انہیں دیکھ کر اب کوئی یہ یقین نہیں کر سکتا تھا کہ وہ معمولی تعلیم یافتہ غربت میں پل کر جوان ہونے والی وہی فریدہ ہے جو کبھی ایک عام سی لڑکی تھی اب تو ان کے رنگ ڈھنگ ہی بدل گئے تھے۔
’’بیٹھو!‘‘ اسے اندر داخل ہوتے دیکھ کر وہ جو سیل فون پر کسی سے بہت بے تکلفانہ گفتگو میں مصروف تھیں الوداعی کلمات ادا کرکے اس کی سمت متوجہ ہوتے ہوئے بولیں۔
’’آپ نے بلوایا تھا؟‘‘
گوکہ وہ اس کی سگی ماں تھیں مگر عبیر نے کبھی ان کے لیے اپنے دل میں کوئی جذبہ محسوس نہیں کیا تھا اس کی وجہ واضح تھی اسے ان کے اندازو اطوار سے ہی نہیں ان کی گناہ آلود زندگی سے بھی نفرت تھی۔ وہ ان سے شاکی تھی کہ انہوں نے اپنے ساتھ ساتھ اپنی اولاد کی بھی عاقبت تباہ کر ڈالی تھی۔
’’ایکچولی یہاںایک فیملی نے ہمیں اپنے پوتے کی برتھ ڈے پارٹی میں انوایٹ کیا ہے‘ ایسا ہے کہ تم آج شام کی اس تقریب کے لیے اناکے ساتھ جاکر اپنا پارٹی ویئر لے آئو۔‘‘
’’مگر میں وہاں جانے میں انٹرسٹڈ نہیں ہوں تو…‘‘
انٹرسٹڈ نہ ہونا ایک الگ بات ہے اور کسی کام کو کرنا ایک یکسر الگ بات‘ تم وہاں جارہی ہو‘ اٹس مائی آرڈر اوکے‘ اب وہی کرو جو میں نے کہا ہے۔‘‘ ان کے لہجے میں واضح حکم تھا۔ عبیر کچھ دیر ہونٹ بھینچے خاموش کھڑی رہی۔ پھر ایک جھٹکے سے پلٹ کر وہاں سے چلی گئی۔ وہ انا کے ساتھ مارکیٹ نہیں گئی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ مام اک طوفان اٹھائیں گی مگر اس کے برعکس ان کی خاموشی پر اسے حیرت نے آن لیا تھا۔ یہ حیرت اس وقت اضطراب اور شدید تاسف میں ڈھل گئی جب شام میں مام نے اس کاڈریس لاکر اس کے پاس رکھ دیا تھا۔
’’تمہارے پاس صرف آدھا گھنٹہ ہے عبیر! اور سنو‘ آج سے تمہاری پڑھائی کا سلسلہ بھی ختم۔ تم ہمارے ساتھ کام میں شامل ہورہی ہو۔ سارہ کی بات غلط نہیں ہے‘ میں نے تم سے یہ امتیازی سلوک کرکے تمہیں زیادہ سر چڑھالیا ہے‘ بس بہت ہوچکے یہ لاڈ وغیرہ۔‘‘
’’مگر میں ایسا ہر گز نہیں کروں گی یہ بات آپ بھی سن لیں۔‘‘ اس نے طیش میں آتے ہوئے کپڑے اٹھا کر پھینک دیئے۔ مام نے جواباً اسے سرد نظروں سے کچھ دیر ہونٹ بھینچ کر دیکھا تھا پھر جب وہ بولیں تو ان کا لہجہ سخت تھا۔
’’ایس پی دلبر چٹھہ کو جانتی ہو؟ جو پچھلے ہفتہ عینا کی برتھ ڈے پارٹی پر یہاں آیا تھا۔ تمہیں اک نظر دیکھ کر ہی تم پر مر مٹا مگر میں نے اس کو انکار کردیا تھا تو وجہ یہی تھی کہ میں تمہیں ہرٹ کرنا چاہتی تھی نہ ہی ایک دم سے اس راستے پر ڈال دینا۔ میں نے تمہارے لیے صاف ستھرا راستہ چنا ہے‘ یاد رکھو اگر تم نے اب پھر اکڑ دکھانے کی کوشش کی تو میں آج رات ہی چٹھہ کو یہاں بلوالوں گی‘ ایک رات کے وہ مجھے کم از کم بھی پچاس ہزار ہنس کے دے سکتا ہے مگر میں یہ سودا صرف ایک رات کا نہیں کروں گی۔‘‘ ان کے لہجے کی سنگینی نے عبیر کے حواس سلب کردیئے تھے اور چہرہ بالکل فق کر ڈالا۔ نگاہ کے سامنے ساٹھ پینسٹھ سالہ دلبر چٹھہ گھوم گیا‘ جس کی آنکھوں میں وحشت و خباثت تھی۔ عبیر سے چند منٹ اس کا سامنا محال ہوا تھا‘ بغاوت سرکشی و تنفر کے جذبات خوف کی چادر میں جا چھپے۔ اس کی جگہ لاچاری اور بے بسی نے لے لی‘ وہ لڑکھڑاتے قدموں سے پلٹی تو مام کا لایا ہوا ڈریس اس کے ہاتھ میں تھا اور آنکھوں میں بے تحاشا نمی۔
 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
بہت زبردست ارینج منٹ تھی۔ گھاس و پیڑ پودوں کو زرد سفید روشنی نے بہت دلفریب و خوب صورت تاثر عطا کیا تھا۔ دلکش خوشبوئیں ماحول کا حصہ بنی ہوئی تھیں‘ ایک سائیڈ پر کھانے کی ٹیبلز ترتیب سے لگی ہوئی تھیں‘ وسیع رقبے پر پھیلا لان اور سفید سنگ مرمر کی شان سے سر اٹھائے خوب صورت رہائش گاہ اپنے مکینوں کے اعلیٰ ذوق کی غماز تھی۔ لان کے سبزہ زار پر ہی تقریب کا انعقاد تھا جوبہت اعلیٰ پیمانے پر کیا گیا تھا۔ رنگ و بو کا ایک سیلاب گویا وہاں امڈ آیا تھا۔ وہ ایسی تقریبات کی مشتاق تھی نہ عادی‘ جبھی اس نے اپنے لیے وہ کونا منتخب کیا تھا جو قدرے الگ تھلگ تھا‘لاتعداد برقی قمقموں کی روشنی وہاں تک آتے آتے اتنی ماند پڑ جاتی تھی کہ بہت کچھ واضح دکھائی بھی نہ دیتا تھا۔
اس نے ماحول سے فرار کی خاطر ہی سر اٹھا کر آسمان کو اداس اورمضمحل نظروں سے دیکھا گویا اللہ سے اپنی ماں کے سلوک کی شکایت کررہی ہو۔ آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے جبھی تیرگی محسوس ہوئی تھی۔ اس نے سر پھر سے جھکالیا۔ عینا‘ سارہ اور انا ماحول میں پوری طرح سے رچی بسی ہوئی تھیں۔ یقینا ان کا وہاں پہلے سے تعارف تھا جبھی بے تکلفی سے گھوم پھر رہی تھیں‘ ایسا نہ بھی ہوتا وہ تب بھی خود کو اجاگر کرنے اور اہمیت پانے کی تمام صلاحیتوں سے مالا مال تھیں۔
’’اوہ اچھا! تو آپ مسز باجوہ کی صاحب زادی ہیں۔ ماشاء اللہ… ماشاء اللہ جیسا سنا تھا اس سے بڑھ کر پایا۔‘‘ وہ جو کوئی بھی تھا انا سے ہم کلام تھا۔جواباً وہ تفاخرانہ انداز میں ہنسی تو گویا فضا میں گھنٹیاں سی بج اٹھیں۔ عبیر نے چونک کر دیکھا اور کچھ پل کو منجمد ہوگئی تھی‘ وہ وہی نوجوان تھا جسے اس نے کھڑکی سے باہر سڑک پر گلابوں کے کنج کے پاس جھکے دیکھا تھا اور جس کے متعلق سارہ نے اپنے ارادے بتلا کر اسے حواس باختہ کردیا تھا۔ وہ آج اس روز سے بھی زیادہ شان دار اور وجیہہ لگ رہا تھا۔
’’کیسے ہیں آپ اسامہ ملک صاحب؟‘‘ وہ مسکرا کرگویا ہوئی۔
’’لوگ کہتے ہیں ہینڈسم ہوں‘ڈیشنگ ہوں‘ آپ کیا کہتی ہیں؟‘‘ اور انا جواب میں آہستگی سے ہنسی تھی۔ ایک بار پھر سماعتوں میں گھنٹیوں کی آواز گونجی۔ اس نے اپنی جگہ پر پہلو بدلا تھا۔ آگے پیش آنے والی صورت حال اسے ابھی سے بے چین کررہی تھی اور وہی ہوا تھا۔
’’آج آپ کو ایک خاص ہستی سے ملانا تھا‘ مائی ینگسٹر سسٹر عبیر کمال حسن!‘‘ انا اس کے ہمراہ عبیر کے پاس چلی آئی تھی۔ عبیر کے چہرے پر گھبراہٹ کا بڑا فطری غلبہ چھا یا تھا۔ جس میں بے بسی کے ساتھ کنفیوژن بھی واضح تھی۔ ان سب رنگوں نے مل کر ہی اس کی معصومیت بھری خوب صورتی کو انوکھا اور دلنشین سا نکھار بخش دیا تھا۔ اسامہ ملک نے نیم تاریکی میں مومی شمع کی مانند جگمگاتی اس وحشت زدہ ہرنی کی طرح نظر آتی لڑکی کو بے حد دلچسپی سے دیکھا تھا۔
’’عبیر! یہ اسامہ ملک ہیں‘ ملک صاحب کے چھوٹے صاحب زادے! بزنس ٹائیکون ہیں جناب!‘‘ انا اٹھلا کر تعارف کا مرحلہ نبھارہی تھی۔ عبیر اس خصوصی تعارف کے پیچھے چھپے پروگرام کی آلودگی و پیچیدگی کے ساتھ مکروہ ارادوں کو جانتی تھی جبھی نہ نگاہ اٹھائی تھی نہ سر اور یونہی ہونٹ کچلتی رہی تھی اور اسامہ ملک کی آنکھوں میں اس گریزاں و کنفیوژ لڑکی کے لیے دلچسپی و پسندیدگی کا انداز بڑھتا جارہا تھا۔
’’آپ انا کی رئیل سسٹر ہیں؟‘‘ اسا مہ ملک کی نگاہیں اس کی اٹھتی گرتی لانبی پلکوں پر جم گئی تھیں‘ انا اسے اسامہ کے پاس چھوڑ کر خود کسی بہانے سے وہاں سے سرک گئی تھی اور اب عبیر کی گویا جان پر بن آئی تھی۔ ان نگاہوںکی وارفتگی نے اس کے اوسان خطا کردیئے تھے۔ اس کے لیے دیئے انداز اور جواب کے باوجود اسامہ ملک اس سے گفتگو میں مصروف رہا تھا۔ پھر اس کے بعد بھی وہ جتنا کترائی جتنا بچی اسامہ ملک کی نگاہوں نے اسے ہر جگہ کھوجا تھا‘ کیک کٹنے کے بعد اس کا تعارف بالخصوص اپنے والدین سے کرایا تھا۔ وہ جتنی مضطرب اور جزبز ہوتی رہی تھی عینا وغیرہ اسی قدرمطمئن نظر آرہی تھیں‘ ان کا تیر نشانے پر بیٹھا تھا۔ اسامہ ملک ایک تگڑا شکار تھا اور آرام سے پھنسنے کو ازخود تیار بھی۔
…٭٭٭…
پھر مام کی خواہش اور توقع کے عین مطابق مسز ملک اسامہ کا رشتہ لے کر ان کے ہاںپہنچ گئی تھیں اور مام اپنی ساری خوشی چھپا کر بظاہر حیل و حجت سے کام لے رہی تھیں۔
’’مجھے تو آپ کی ساری بچیاں ہی پیاری لگی ہیں ماشاء اللہ! مگر اسامہ کی خواہش عبیر کے لیے ہے۔‘‘ وہ رکھ رکھائو والی خاندانی عورت تھیں۔ ان کے بات کرنے کے انداز میں بھی بہت سبھائو اور رواداری تھی‘ مام کو کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔ وہ خود ہتھیلی پر سرسوں جمانا چاہتی تھیں مگر یہ معاملہ رسان اور تحمل کا متقاضی تھا۔ اتاولے پن کامظاہرہ کھیل بگاڑ بھی سکتا تھا۔ جبھی انہوں نے کچھ پس و پیش سے کام لیا‘ کچھ مجبوریوں کا رونا رویا‘ بڑیوں کو چھوڑ کر چھوٹیوں کا نہیںکرسکتیں وغیرہ وغیرہ اور بالآخر ان کو کئی چکر لگوانے کے بعد ہاں کردی۔
یہ سب کچھ بالا ہی بالا ہوا۔ بات طے ہونے کے بعد عبیر کو خبر ہوئی تو صحیح معنوں میں اس کے حواسوں پر بجلی سی گر پڑی تھی۔ اتنے شان دار شخص کو دھوکہ دینے کا خیال ہی بے قرار کر دینے کو کافی تھا۔ وہ تلملاتی ہوئی مام کے پاس آکر برس پڑی۔
’’میں نے آپ سے گزارش کی تھی مام! کہ مجھے اس کھیل سے الگ رکھیے۔‘‘
’’اور میں نے تمہاری اس گزارش پر کان نہیں دھرا‘ خبردار جو تم نے کوئی فضول حرکت کی ۔ ورنہ یاد رکھنا دوسرا راستہ ہمیشہ کھلا رہے گا اور محض دھمکی مت سمجھنا۔‘‘ یہ ان کا ایسا ہتھیار تھا جس سے وہ اسے حملہ سے قبل ہی زخمی کردیا کرتی تھیں۔ وہ ایک بار پھر خود کو لاچار محسوس کرنے لگی۔ سوائے چپ سادھ لینے کے اس کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا سو اس نے چپ سادھ لی۔ فی الوقت وہ کوئی فیصلہ کرنے سے قاصر رہی تھی۔
وہ دن بھی آہی گیا جب وہ بیاہ کر اسامہ کے ہمراہ اس کے ویل فرنشڈ گھر میں آگئی تھی۔ مسز ملک نے بیٹے کے لیے دل کھول کر پیسہ خرچ کیا۔ وہ جوڑا جو اسے نکاح کے موقع پر پہنایا گیا تھا کم و بیش ایک لاکھ کی مالیت کا تھا۔ لوگ اس کی قسمت پر رشک کر رہے تھے مگر عبیر کا دل اس ڈرامے پر سسکتا رہا تھا۔ وہ عجیب سی بے کسی اور لاچاری میں مبتلا رہی تھی‘ کئی بار چاہا اسامہ سے ساری حقیقت کہہ دے مگر ایک عجیب سے خوف نے اس کی زبان کو سلب کردیا تھا۔ وہ کچھ بھی نہیں کہہ سکی تھی اور یہ دن آگیا تھا۔
مام کے علاوہ سارہ‘ انا اور عینا نے بھی اسے خوب پٹیاں پڑھائی تھیں۔ کسی کو الو بناکر مطلب نکالنے کے تیر بہدف طریقے سکھائے گئے تھے۔ وہ بے بسی کی تصویر بنی انہیں دیکھتی رہی تھی۔
’’بس کچھ دن ہیں‘ پھر اس کے بعد تو تم سے بھی پارسائی اور معصومیت کا ٹیگ اتر جائے گا پھر تم پر بھی بدکرداری کا ٹھپا لگ جائے گا۔ میرے گریبان پر ہاتھ ڈالنے والا کبھی سکون سے نہیں بیٹھ سکتا۔ عبیر بیگم پھر تمہیں کیسے معاف کردیتی۔ آج کے بعد تم ہمیں حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھ سکو گی نا ہم پر انگلی اٹھا سکو گی تم میں اور ہم میں آج کے بعد کوئی فرق نہیں رہ جائے گا۔‘‘ اس کی رخصتی کے وقت سارہ نے اس سے گلے ملنے کے بہانے نزدیک آکر اتنی حقارت اور تنفر سے کہا تھا کہ وہ بس پھٹی پھٹی آنکھوں سے تکتی رہ گئی۔ اس کی آنکھوں میں اترے آنسو تک ٹھٹھر گئے تھے۔ سارہ اس قدر منتقم مزاج ہوگی یہ اس کے تصور میں بھی نہیں تھا۔
’’حسن افسردہ ہو تو اس کی کشش اور بھی بڑھ جاتی ہے۔آپ مجھے بہت الگ اور خاص لگی تھیں جبھی مما کے سامنے میں نے آپ کا نام رکھا تھا۔‘‘ وہ اپنی سوچوں میں اس قدر دور تک چلی گئی تھی کہ اسامہ کب کمرے میں آیا اسے خبر ہی نہ ہو سکی تھی جبھی وہ بہت بُری طرح سے ہڑبڑاگئی تھی۔ اس کی گھبراہٹ کو محسوس کرکے اسامہ مسکرایا تھا پھر اس کا حنائی ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھ میں لے کر آہستگی سے دبایا۔
’’بہت خاموش بلکہ اداس ہیں۔ کیا آپ کو مجھ سے تعلق استوار ہونے کی خوشی نہیں ہے؟‘‘ اس نے گھبرا کر پلکیں اٹھائی تھیں وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ انداز میں بے تحاشا شرارت بھری ہوئی تھی گویا مقصد اس کی توجہ حاصل کرنا تھا کسی بھی طریقے سے اور وہ اس میں کامیابی حاصل کرکے فاتحانہ انداز میں مسکرا رہا تھا۔ عبیر بُری طرح سے جھینپی تھی۔ پلکیں شرمگیں انداز میں لرز کر جھک گئیں۔ وقتی طور پر سہی مگر وہ اس اضطرابی کیفیت سے نکل آئی تھی۔ جس کا شکار تھی۔
’’بہت خوب صورت لگ رہی ہو۔‘‘ بھاری بھر کم لہجے میں کی گئی تعریف پر عبیر کا دل اپنی دھڑکنیں الٹ پلٹ کرنے لگا۔ رونمائی کا گفٹ جڑائو کنگن پہناتے اسامہ نے بہت ملائمت سے اسے بازوئوں میں بھر لیا تھا۔
’’اس ایک رات کا میں نے بہت شدت سے انتظار کیا تھا عبیر! تم جانتی ہو جب سے تمہیں دیکھا تھا میں نے‘ صحیح معنوں میں میری نیندیں اڑ گئی تھیں۔‘‘ اسامہ کا لہجہ جذبات کی شدتوں سے چور تھا اور دھیما ہوتا بالآخر سرگوشی میں ڈھل گیا تھا۔ عبیر کی آنکھیں جانے کس جذبے کے تحت بھر آئی تھیں۔ بھلا وہ اتنی عزت افزائی اور محبت کے لائق کہاں تھی۔
’’کیوں رو رہی ہو؟‘‘ اسامہ نے اس کے آنسوئوں کی نمی کو محسوس کرکے بے چینی سے سوال کیا تھا۔ عبیر نے نگاہ بھر کے اسے دیکھا۔ سیاہ شیروانی میں وہ ہمیشہ سے کہیں بڑھ کر شان دار اور خوبرو نظر آرہا تھا۔ وہ آنسوئوں کی وجہ پوچھ رہا تھا اور وجہ بتلانے لائق نہیں تھی۔ اس نے ہونٹوں کو باہم بھینچ لیا اور رات دھیرے دھیرے بھیگتی چلی گئی تھی۔
…٭٭٭…
اگلے دن اسامہ نے اس کا تعارف عبد العلی اور زارا سے کرایا تھا جو اس کے بڑے بھائی کی اولاد تھے۔ بڑے بھائی شیراز ملک اور ان کی وائف کی روڈ ایکسیڈنٹ میں دو سال قبل وفات ہوگئی تھی‘ تب اسامہ نے دونوں بچوں کو اپنی سرپرستی میں لے لیا تھا۔
’’میں چاہتا ہوں عبیر تم ان بچوں کی ماں کا کردار ادا کرو۔ ان سے ویسے ہی محبت کرو جیسے کوئی ماں اپنی اولاد سے کرتی ہے‘ کروگی نا؟‘‘ اور عبیر نے پوری آمادگی کے ساتھ سر اثبات میں ہلادیا تھا۔ اس ایک رات میں ہی وہ فیصلہ کرچکی تھی کہ وہ اسامہ کو دھوکا نہیں دے گی‘ چاہے مام اسے کتنا ہی اکسائیں۔ وہ اسامہ کو خود مناسب الفاظ میں اپنی صفائی پیش کرسکتی تھی۔ وہ اس سے درخواست کرسکتی تھی وہ اسے ان غلط لوگوں سے بچالے۔
صبح نماز کے بعد دعا میں بھی اس نے ربّ کریم سے یہی التجا کی تھی اور اسے پورا یقین تھا‘ خدا اس کی فریاد کو رد نہیں کرے گا۔ اپنے راستوں پر چلنے والوں کا ’’وہ‘‘ خود مددگارہوجایا کرتا ہے بلاشبہ رسم کے مطابق اسامہ اسے مام کی طرف ملوانے کو لایا تو اس کے انداز میں واضح بے دلی تھی۔ مام نے اس سے نگاہوں ہی نگاہوں میں کچھ سوال کیے تھے مگر وہ نظریں چرا گئی تھی اور مام اتنی جزبز ہوئیں کہ اپنی جگہ پر پہلو بدل کر رہ گئیں۔ جبھی انہوں نے بہانے سے اسے وہاں سے ہٹادیا تھا۔
’’عبیر بیٹا! دیکھنا ذرا عینا نے ابھی تک چائے کیوں تیار نہیں کرائی۔‘‘ وہ جانتی تھی بات بنتی نہ دیکھ کر انہوں نے اسے سمجھ دار اور عیار بیٹیوں کے نرغے میں دیا ہے جو لازماً اس سے اصل بات اگلوائیں‘ جبھی وہ کسی قدر ڈسٹرب ہوئی تھی۔ اسامہ کے سامنے انکار کی پوزیشن میں بھی نہیں تھی‘ اسی لیے اٹھ کر باہر تو آگئی مگر عینا کے پاس جانے کا اس کا قطعی ارادہ نہیں تھا مگر وہ سب توجیسے اس کی تاک میں تھیں‘ اسے باہر آتے ہی دبوچ کر گویا سوالات کی بوچھاڑ کر دی تھی۔
’’کیا کچھ ہاتھ آگیا؟ تم نے اس کی جائیداد اور بینک بیلنس وغیرہ کی معلومات لی ہیں؟‘‘
’’اسامہ نے رونمائی میں کیا دیا؟وہ ساتھ لے آنا تھا‘ ظاہر ہے قیمتی چیز ہوگی‘ زیور بھی کسی بہانے سے اٹھا لاتیں‘ اسی طرح تو کرنا ہوتا ہے‘ کیا پتا تم کتنی دیر وہاں ہو۔‘‘ وہ لا تعلق بنی ہونٹ بھینچے سلگتی

آنکھیں جھکائے کھڑی رہی۔ گویا تہیہ کرلیا تھا ان کی کسی بات کا جواب نہیں دینا‘ جبھی سارہ کو جیسے آگ لگ گئی تھی۔
’’تم ہمارے ساتھ ہاتھ نہیںکرسکتیں‘ یاد رکھو تم ہر لحاظ سے ہمارے رحم و کرم پر ہو‘ تمہاری حیثیت بہرحال کسی کٹھ پتلی سے زیادہ نہیں ہے۔ جس کی ڈور ہمارے ہاتھ میں ہے‘ پارسائی کا ڈرامہ رچانے کی ضرورت نہیں۔ بس جتنی جلدی ہوسکے اپنا مقصد حاصل کرو‘ ہم زیادہ انتظار نہیں کرسکتے اورسنو‘ کوشش کرنا اس اسامہ سے دور رہنے کی‘ ایسا نہ ہو کہ وہاں سے لوٹو تو اس کے بچے کی زنجیر تمہارے قدموں میں پڑچکی ہو۔ ابارشن وغیرہ کے جدید طریقہ کے باوجود فیگر کا ناس ہوجایا کرتا ہے ۔ تم سمجھ رہی ہو نا میں کیا کہہ رہی ہوں؟‘‘ سارہ نے غصے میں اسے گھورتے ہوئے ٹہوکا دیا تھا۔ وہ پتھر کی مورتی کی طرح بے تاثر نظروں سے اسے تکے گئی۔
’’مام چائے کا کہہ رہی ہیں۔‘‘ کچھ دیر بعد وہ بولی تو اس کا لہجہ اس کے چہرے کی طرح سپاٹ تھا۔ یوں جیسے ان کی کسی بات کو سرے سے سنا ہی نہ ہو‘ اپنی بات مکمل کرکے وہ ان کی تلملاہٹ دیکھنے کو رکی نہیں تھی۔ پلٹ کر کچن سے نکلی تو اسامہ کو دروازے کے باہرموجود پاکر اسے لگا تھا کسی نے یکلخت زمین اس کے قدموں تلے سے کھینچ لی ہو۔
…٭٭٭…​
’’کون ہو تم؟ میں صرف سچ سننا چاہوں گا‘ یاد رکھنا اگر تم نے غلط بیانی کی تو میں تمہیں زندہ زمین میں بھی گاڑھ سکتا ہوں۔‘‘ اس کا چہرہ اسامہ کے سخت ہاتھوں کی بے رحم گرفت میں تھا۔ وہ لہجہ اتنا سفاک و سنگین تھا جب کہ چہرے کے تنے ہوئے عضلات اس کے قہرو غضب کے گواہ تھے۔ عبیر کی تو اسی وقت روح قبض ہوگئی تھی‘ گویا جب اس نے کچن کے باہر اسامہ کوموجود پایا تھا۔ وہ بے قصور ہوتے ہوئے بھی اس کے عتاب کا نشانہ بننے کو رہ گئی تھی۔
’’وہ اسے واپس لے کر آیا تو بیڈ روم میں آنے تک پتا نہیں کیسے خود پر ضبط کے کڑے پہرے بٹھائے رکھے تھے۔ اس کے بعد وہ کوئی وحشی جنونی انسان تھا جو عبیر کے منہ سے آہوں اور کراہوں کی صورت نکلتے سچ پر آپے سے باہر ہوتا اسے تشدد کا نشانہ بناتا رہا تھا۔ عبیر کے دل و دماغ پر مجرمانہ بوجھ دھرا تھا‘ جبھی اس نے کچھ چھپائے بغیر سب کچھ اس کے سامنے کھول کر رکھ دیا تھا مگر جب اس نے اپنی صفائی پیش کرنی چاہی تب ہی وہ بپھر اٹھا تھا ۔
’’تو یہ پلان تھا تمہارا جس کے تحت تم نے مجھ سے شادی کی بدکردار عورت!‘‘ اس کا ہاتھ اٹھا تھا تو پھر رکنے میں نہیں آرہا تھا۔ عبیر پٹتے ہوئے بھی اپنی بے گناہی کا یقین دلانے کی کوشش کرتی رہی تھی جبھی وہ کچھ اور غضب ناک ہوا تھا۔
’’تم نے دھوکا دیا مجھے‘ اسامہ ملک کو ہائو ڈسیریو!‘‘ وہ جیسے توہین سے پاگل ہورہا تھا۔
’’نہیں! میں تو آپ سے شادی بھی نہیں کرنا چاہتی تھی …‘‘
’’بکواس بند کرو فاحشہ عورت!تم اگر ان کے پلان میں شامل نہ ہوتیں تو اس طرح سج دھج کر مجھے الجھانے کیوں آتیں؟ اور میں… میں کتنا احمق تھا‘ کتنی آسانی سے تمہارے جال میں پھنس گیا۔‘‘ وہ دانت بھینچ کر غرایا۔ عبیر اس کی وحشت کے آگے سراسیمہ ہونے لگی۔ وہ کتنی دیر جیسے خود ہی ہونٹ بھینچ کر اور ٹہل کر اپنا غصہ ضبط کرتا رہا تھا پھر پلٹ کر باہرنکل گیا تھا۔ عبیر وہیں بیٹھ کر سسکنے لگی۔ اس کے ہونٹ کے زیریں کنارے سے خون جاری ہوگیا تھا۔ گردن پر گہری خراشیں تھیں جو اسامہ کے تشدد کا نتیجہ تھیں۔ اس کی یہ سراسیمگی ابھی اس طرح اسے گھیرے ہوئے تھی جب وہ پھر اس کے پاس چلا آیا تھا۔
’’اٹھو! تم اسی وقت میرے ساتھ چلو۔‘‘ اس نے عبیر کے پاس رک کر اسے ٹھوکر مارتے ہوئے کہا۔ وہ پہلے ٹھٹکی پھر سخت وحشت زدہ سی ہوگئی۔
’’ک… کہاں؟ آپ کہاں لے کر جائیں گے مجھے؟‘‘ کتنا خوف تھا اس کی نگاہوں میں‘ جواب میں اسامہ کی آنکھوں میں صرف قہر نہیں اترا تھا۔ تضحیک بھی در آئی۔
’’تم ہو اس قابل کہ میں تمہیں اپنے ارادے بتائوں‘ ہاں؟‘‘ وہ آنکھیں نکال کر غرایا اور عبیر شرم سے گڑھنے لگی۔
پھر وہ ایک لفظ نہیں بولی تھی اور اگلے چند گھنٹوں میں وہ اس حویلی میں آگئی تھی جہاں اس کی حیثیت شاید ملازموں سے بھی بدتر تھی یا پھر کسی قیدی کے جیسی‘ وہ اپنے مستقبل اور سزا کے متعلق فی الحال آگاہ نہیں ہوسکی تھی۔ اسے قسمت سے شکوہ نہیں تھا‘ اکثر والدین کی غلطی کا خمیازہ اولاد کو بھگتنا پڑتا ہے۔
…٭٭٭…​
’’یہ تمہارے کرتوتوں کی بہت معمولی سزا ہے‘ میں چاہتا تو تمہیں پولیس کے حوالہ بھی کرسکتا تھا مگر میں بے غیرت نہیں ہوں۔ جیسے بھی سہی مگر تم میری بیوی بن چکی ہو اس بھول میں بھی مت رہنا کہ میں تمہیں طلاق دوں گا تاکہ تم پھر سے گلچھڑے اڑانے لگو۔ یہ ہے وہ جگہ جہاں تمہیں اپنی زندگی کے باقی ماندہ دن گزارنے ہیں۔‘‘ وہ اسے حویلی کے جس کمرے میں لے کر آیا تھا‘ اس میں زندگی کی ہر سہولت تھی مگر باہر کی دنیا سے رابطے کو ایک کھڑکی تک نہیں تھی۔ دوسرے لفظوں میں اسے زنداں میں ڈال دیا گیا تھا۔
’’جو کچھ تم نے کیا اس کے بعد اگر میں تمہیں قتل بھی کردیتا تو یہ تمہاری گناہ آلودہ زندگی پر احسان ہوتا مگر میں تمہارے گندے خون سے اپنے ہاتھ نہیں رنگنا چاہتا تھا۔‘‘ کتنی حقارت تھی ان آنکھوں میں جس میں عبیر نے کبھی اپنی محبت کے سنہرے رنگ اترتے دیکھے تھے۔ اس نے آنسوئوں سے چمکتی آنکھوں کو جھکالیا۔ اس موقع پر کچھ کہہ کر وہ اس کے غصے کو ہوا نہیں دینا چاہتی تھی۔ پھر اسے چھوڑ کر خود واپس چلا گیا تھا۔ عبیر کے لیے زندگی جتنی بھی تنگ ہوئی تھی مگر ضمیر پر کوئی بوجھ نہیں تھا۔ وہ مطمئن تھی خدا کے ہاں اس کی دعائیں مستجاب ٹھہری تھیں اور اسے گناہ سے آلودہ راستوں سے بچالیا گیا تھا۔

 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
’’دلہن کہاں ہے؟‘‘ اسامہ ابھی آفس سے واپس آکر بیٹھا ہی تھا جب مسز ملک نے اس کے پاس آکر حیرانی سے پوچھا۔ اسامہ نے انہیں بھی اس معاملے کی ہوا تک نہیں لگنے دی تھی۔ وہ اتناانا پرست تھا کہ سگی ماں کے آگے بھی بیوی کی بدکرداری کو کھول کر نہیں رکھ سکا تھا۔ سبکی کا احساس اسے ہر وقت کچوکے لگایا کرتا تھا۔ یہ خیال کہ اسے کتنی آسانی سے ٹریپ کرلیا گیا تھا‘ اسے اکثر جنون سے دوچار کرنے لگتا۔ عبیر کو گائوں والی حویلی میں چھوڑنے کے بعد اس نے اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے عبیر کی ماں اور بہنوں کو حوالات میں بند کرادیا تھا۔ اس کا ارادہ ان کے خلاف تمام ثبوت اکٹھے کرکے سخت سزا دلوانے کا تھا مگر بزنس کے سلسلے میں اسے کچھ دنوں ملک سے باہر جانا پڑا تھا۔ اس کی عجلت اور کوشش کے باوجود یہ ٹور طوالت اختیار کرگیا تھا۔ واپس آنے پر سب سے پہلی اطلاع اسے ان عورتوں کی رہائی اور پھر اس علاقے سے بھی روپوش ہونے کی ملی تو سوائے کف افسوس ملنے کے وہ کچھ نہیں کرسکا تھا۔ اس کے بعد اسے فوری طور پر عبیر کا خیال آیا تھا۔
کہیں وہ بھی اپنی شاطرانہ فطرت کی بدولت اس کے ملازموں کو ڈاج دے کر فرار نہ ہوگئی ہو۔ اس خدشے کے پیش نظر اسامہ نے حویلی رابطہ کیا تھا۔ ملازمہ سے بات چیت کرکے عبیر کی طرف سے خیر کی خبر سن کر قدرے اطمینان بھی نصیب ہوا مگر مما کے سوال نے اسے پھر سے جزبز کردیا تھا۔
’’آپ بولتے کیوں نہیں اسامہ! میں تو سمجھی آپ عبیر کو اپنے ساتھ لے کر گئے ہو‘ اگر وہ آپ کے ساتھ نہیں گئی تو پھر کہاں ہے؟‘‘ مسز ملک سوال پر سوال کررہی تھیں۔ اسامہ کے چہرے کے عضلات تنائو کا شکار ہوکر رہ گئے۔
’’مرگئی ہے وہ‘ آپ آئندہ اس کا تذکرہ نہیں کریں گی‘ اوکے؟‘‘ اس نے سرخ آنکھوں سے انہیں دیکھتے ہوئے کہا اور ایک جھٹکے سے اٹھ کر وہاں سے چلا گیا۔ مسز ملک حیران پریشان سی کھڑی رہ گئیں۔ یہاں عبیر کی فیملی کے متعلق بھی عجیب و غریب باتیں سننے کو ملی تھیں کہ پولیس ان عورتوں کو پکڑ کر تھانے لے کر گئی تھی‘ مسز ملک اگلے دن صورت حال جاننے کو وہاں پہنچیں تو وہاں وہ ملازمہ ملی تھی جو صفائی ستھرائی پر مامور تھی۔ اسی سے مسز ملک کو بس اتنا پتا چل سکا تھا کہ وہ تینوں لڑکیاں اور ان کی ماں آج صبح ہمیشہ کے لیے وہاں سے جاچکی تھیں‘ تب مسز ملک کی پریشانی گھبراہٹ میں بدل گئی تھی۔
’’کہاں چلی گئیں؟ مطلب کچھ پتا ہے تمہیں؟‘‘ انہوں نے مضطربانہ سوال کیے تھے جواب میں ملازمہ نے راز داری سے ان کے نزدیک ہوکر جوکچھ کہا تھا وہ انہیں پریشان کر گیا تھا۔ ملازمہ کے مطابق بیٹیوں کے ذریعے مال دار لوگوں کو لوٹنا ان کا پیشہ تھا ملازمہ ان سے ہمدردی بھی کرتی رہی تھی۔
’’آپ کو رشتہ کرنے سے قبل اچھی طرح چھان بین کرنی چاہیے تھی بیگم صاحبہ!‘‘
مگر وہ لوگ اس طرح کے لگتے تو نہیں تھے‘ تمہیں یقینا غلط فہمی ہوئی ہوگی۔‘‘ انہوں نے اپنے تئیں بات ختم کردی تھی مگر بات ختم نہیں ہوئی تھی کہ پھر یہ بات انہوں نے ملازمہ کے علاوہ دیگر لوگوں کے منہ سے بھی سنی تھی‘ معزز بیگمات باقاعدہ ان سے افسوس کرنے آئی تھیں اور ناکردہ گناہوں کی ایک طویل فہرست عبیر کے خاندان سے منسوب ہوتی چلی گئی تھی۔ مسز ملک اپنے طور پر یہ فیصلہ کرچکی تھیں عبیر کو اسامہ سے طلاق دلوا کر فارغ کرنے کا۔
…٭٭٭…
اس نے نماز کے بعد دعا کو ہاتھ بلند کیے تو پلکوں پر آنسو جگنو بن کر چمکنے لگے تھے۔ یہ جو کچھ ہوا تھا وہ اس پر شاکی نہیں تھی مگرکبھی کبھی دل بھرانے سا لگتا تھا۔ یہاں کرنے کو اس کے پاس کچھ نہیں تھا اور فراغت اسے پاگل بنانے کو کافی تھی تب اس نے اپنی وحشت سے گھبرا کر رب سے لو لگالی تھی۔
اللہ جو دلوں کے بھید سے آگاہ ہے وہ تو اس صورت بھی اپنے بندے کا منتظر رہتا ہے اگر وہ گناہ گار ہو‘ وہ تو پھر بے قصور تھی۔ اللہ کی یاد سے دل کو سکون دینا چاہا تو جیسے ہر غم سے آزاد ہوگئی تھی۔ پہلے جو ہر وقت دل کو دھڑکا لگا رہتا تھا اسامہ کے کسی بھی انتہائی فیصلے کا اب اس سے بھی گویا چھٹکارا مل گیا تھا۔
دروازہ کھلنے کی آواز پر اس کے سکون میں فرق نہیں آیا۔ ملازمہ جس کے ذمے اس کا کھانا پہنچانا تھا‘ وہ اس کے دروازے کی چابی کی بھی مالک تھی۔ اس نے سکون سے دعا مانگی تھی پھر منہ پر ہاتھ پھیر کر اٹھتے ہوئے جائے نماز تہہ کرنے لگی۔ سلیقے سے اوڑھے دوپٹہ کے ساتھ اس نے جیسے ہی رخ پھیرا نواڑی پلنگ کی بیک سے ٹیک لگائے اپنی ہی سمت متوجہ اسامہ کو روبرو پاکے وہ اپنی جگہ جیسے ساکن کھڑی رہ گئی تھی۔
اسامہ نظریں اسی پر جمائے اٹھ کر اس کے نزدیک آگیا ۔ عبیر کی صرف نظریں نہیں جھکیں‘ دل بھی دھڑک اٹھا۔
’’بہت اچھا کررہی ہو‘ خدا سے معافی مانگ کر اپنے گناہ بخشوارہی ہو‘ مگر یاد رکھنا میں کبھی تمہیں معاف نہیں کروں گا۔‘‘ سگریٹ ہونٹوں سے نکال کر جوتے تلے مسلتے ہوئے اس نے سرد آواز میں جتلایا عبیر نے جواب میں چپ سادھے رکھی تو اسامہ کو اس کا یہ سکوت زہر آلود کرنے لگا۔
’’کیا ثابت کرنا چاہتی ہو تم کہ میری باتوں سے تمہیں کوئی فرق نہیں پڑتا؟‘‘ اسامہ نے غراتے ہوئے ایک دم اس کی گردن دبوچ لی تھی۔ عبیر اس کی گرفت میں زور سے پھڑپھڑائی۔
’’مجھے معاف کردیں اسامہ میں…‘‘
’’بکواس بند رکھو سمجھیں۔‘‘ اس نے نفرت زدہ انداز میں اسے جھٹک دیا تھا۔ وہ سوفے پر جاکر گری سرسوفے کی ہتھی سے جالگا تھا۔ زمین آسمان جیسے اس کی نظروں میں گھوم گئے تھے۔ مگر آزمائش ختم نہیں ہوئی تھی۔
’’ساجدہ بتارہی تھی تم پریگنٹ ہو‘ بتایا کیوں نہیں تم نے مجھے؟‘‘ وہ کڑے تیوروں سے اسے گھور رہا تھا۔ عبیر کے اوسان خطا ہونے لگے وہ کہہ نہیں سکی اس نے ایسا کوئی اختیار دیا تھا اسے نہ سہولت مگر زبان تو جیسے گنگ تھی خوف سے مجبوریوں سے۔
’’مجھے یہ بچہ نہیں چاہیے‘ سن رہی ہو تم جہنم واصل کرو اس گناہ کی پیداوار کو۔‘‘
’’جی…‘‘ عبیر کی آنکھیں حیرت و خوف سے پھٹ سی گئیں۔ اسامہ کے تاثرات مزید خوفناکی سمیٹ لائے تھے۔
’’ایسے کیا دیکھ رہی ہو مجھے جیسے بہت بڑاکارنامہ انجام دیا ہو۔‘‘ وہ دانت بھینچ کربولا تھا۔ اس کے لہجے میں ایسی تپش تھی جس کی آنچ روح تک سلگا رہی تھی۔
’’یہ ناجائز بچہ نہیں ہے کہ میں اسے ضائع کرادوں اور…‘‘ اس کی بات اسامہ کے اٹھے ہوئے ہاتھ کی بدولت ادھوری رہ گئی تھی۔ اس کا ہاتھ اس انداز میں عبیر کے چہرے پر پڑا تھا کہ اس کے ہونٹ اور ناک سے ایک ساتھ خون چھلک پڑا تھا مگر اسامہ کی آنکھوں سے پھر بھی نفرت کی چنگاریاں سی پھوٹ رہی تھیں۔
’’مجھے سبق پڑھانا چاہتی ہو مجھے‘ بدبخت عورت! کیا سمجھتی ہو خود کو‘ مجھے کیا پتا مجھ تک آنے سے قبل تم کتنے مردوں کے دل بہلانے کا کام کرچکی تھیں۔ یہ کس کا گناہ ہے جسے تم میرے سر تھوپنا چاہتی ہو‘ تم جیسی بدقماش عورتوں کے سب ہتھکنڈوں سے بخوبی آگاہ ہوں میں۔‘‘ اس کا لہجہ اس کی نظروں سے زیادہ شدید اور بے لحاظ تھا۔ عبیر گال پر ہاتھ رکھے کچھ دیر اسے دیکھتی رہی تھی پھر جانے کیا ہوا تھا‘ وہ خوف و بے بسی جیسے کہیںگم ہوگئی اس کی جگہ طیش اور غیظ و غضب نے لے لی۔ کوئی بجلی سی چمکی تھی اور اس نے آگے بڑھ کر اسامہ کا گریبان پکڑ لیا تھا۔
’’کیا سمجھتے ہو تم خو دکو کہ بہت پارسا ہو اور میں بدکردار عورت ہوں‘ ہاں۔ میں نے بتایا تمہیں اپنی صفائی بھی دی‘ یہ تھی میری پارسائی کی نشانی۔ تم نے جو سلوک کیا میرے ساتھ میں نے اسے خاموشی سے سہہ لیا‘ یہ تھی میری نیک طینت کا اظہار۔ جو بدقماش عورت ہوتی میں تو یہ چار دیواری یہ بند دروازے میرا راستہ نہیں روک سکتے تھے‘ سمجھے تم۔ میں نے سب کچھ سہا‘ صرف اس لیے کہ تم حق بجانب تھے اور میرے دامن پر میرے اپنوں کے کردار کے داغ تھے۔ کیچڑ میں کھلنے والا کنول چاہے پاکیزہ ہو مگر مشکوک ضرور رہتا ہے۔ میں بھی اپنی صفائی پیش کرنے کوثبوت نہیں لاسکتی۔‘‘ جو بات گھن گرج سے تلخی سے شروع ہوئی تھی‘اس کا اختتام پھر اس کے آنسوئوں پر ہوا تھا۔ وہ جیسے تھک گئی تھی‘ اور بُری طرح روتے ہوئے اسے چھوڑ کر فاصلے پر ہوگئی تھی۔ اسامہ کچھ دیر اسے روتے دیکھتا رہا تھا پھر کچھ کہے بغیر پلٹ کر باہر چلا گیا۔ عبیر وہیں بیٹھ کر بے آواز آنسوئوں سے روئے گئی تھی۔
…٭٭٭…​
اس کے کمرے میں بے حد اندھیرا تھا۔باہر موسم اپنی شدتوں پر تھا۔ طوفانی ہوائوں کے جکڑ سے درختوںکی ٹہنیاں ٹوٹ کر گر رہی تھیں۔ بارش کی بوچھاڑکھلی کھڑکی سے ہوا کے زور پر اندر آتی اور کمرے کے ایک حصے کو بھگو جاتی‘ بادل کی گرج‘ بجلی کی چمک اس کمرے کے اندھیرے کو نگل کر چند لمحوں کو اس کے خدوخال کو عیاں کرجاتی۔ وہ بیڈ پر بالکل ساکن لیٹا ہوا تھا مگر اس کے وجود کے اندرباہر موسم جیسی بے چینی اضطراب اور وحشت تھی۔ سماعتوں میں بار بار روتی سسکتی آواز کی بازگشت گونجتی تھی۔
’’جو سزا تم نے مجھے سنائی میں نے بلا حیل و حجت قبول کرلی۔ یہ تھی میری پارسائی کی نشانی۔ تم نے جو سلوک میرے ساتھ کیا اسے میں نے خاموشی سے سہہ لیا‘ یہ تھی میری نیک طینت کا اظہار۔ جو بدقماش عورت ہوتی میں تو یہ چاردیواری یہ بند دروازے میرا راستہ نہیں روکے سکتے تھے۔ اسامہ نے اپنی جگہ اضطراب کی کیفیت میں پہلو بدلا اور چہرے کا رخ پھیر کر کھڑکی کے باہر دیکھا۔ اس کا ذہن بہکا تھا اور وہ منظر روشن ہونے لگا۔ جب اس نے پہلی بار اس لڑکی کو دیکھا تھا‘ ہر انداز میں گریز۔ چاہے وہ جھکتی پلکیں ہوں یا پھر اس کے سامنے اور توجہ پرکنفیوژن میں ہونٹوں کو دانتوں سے کچلنا۔ شادی کی رات بھی اس کی حیا آمیز گھبراہٹ زدہ انداز میں اتنا فطری تاثر تھا کہ وہ انداز ازخود اس کی پارسائی و پاک دامنی کے گواہ بن گئے تھے۔
’’کیا وہ سچ کہہ رہی تھی؟ مگرکیسے؟ اتنی بری اور غلط عورتوں کے درمیان وہ خود کیسے ان چھوئی رہ گئی۔‘‘ اس نے خود سے سوال کیے تھے اوربے کل بے چین سا ہوکر ٹہلنے لگا۔ سگریٹ کے کش لیتے دھواں بکھیرتے وہ صرف اسے ہی سوچتا رہا۔ اس میں شک نہیں تھا کہ وہ اس سے محبت کرنے لگا تھا۔ یہی محبت اسے دل میں گنجائش رکھنے اور درگزر سے کام لینے پر اکسا رہی تھی مگر اس کی میل ایگو کو یہ بھی ہر گز گوارا نہیں تھا کہ اس کی بیوی کا کردار داغ دار ہو۔ چاہے محبت سہی مگر وہ اپنی شریک حیات کو اس کی بدکرداری کے ساتھ قبول کرنے کا حوصلہ خود میں نہیں پاتا تھا۔
وہ اتنی مطمئن کیوں تھی؟ اسے تو اس قید خانے میںپاگل ہوجانا چاہیے تھا مگر اس کے برعکس وہ ریلیکس نظر آتی تھی۔ کیا یہ بھی ڈرامہ ہے‘ محض مجھے دھوکا مزید دھوکا دینے کو؟اس نے اک نئی بات سوچی اور دماغ کی رگیں کھینچتی ہوئی محسوس کرنے لگا۔
اگر تم غلط ہو ‘ قصور وار ہو تو میں تمہیں معاف نہیں کروں گا۔ یہ طے ہے چاہے مجھے اپنے دل کو خود اپنے پیروں تلے کیوں نہ کچلنا پڑجائے۔‘‘ اس نے سوچا تھا اورجیسے حتمی فیصلہ کرکے کسی قدر مطمئن ہوا تھا۔
…٭٭٭…​
ایک ہفتہ بعد وہ پھر اس کے سامنے بیٹھا تھا۔ پچھلی بار اس کو رو برو پاکے عبیر کے چہرے پر پہلے حیرت اتری تھی پھر خوف البتہ اسے وہاں نارمل انداز میں چلتے پھرتے سوتے اٹھتے دیکھ کرجو چیز اس نے سب سے زیادہ شدت سے نوٹ کی تھی وہ اس کا اطمینان یعنی وہ اس ماحول سے اس سزا سے پریشان تھی نا ہی وحشت زدہ اس کے برعکس اس کے چہرے پر اک ٹھہرائو اک سکون تھا۔ اسی سکون نے اسامہ کے اندر سب سے زیادہ سوال اٹھائے تھے۔


 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
’’یہ تمہارے لیے ہے۔ میں اپنافیصلہ تمہارے لیے بدل رہا ہوں‘تم اسے لے جائو اور جہاں تمہارا دل چاہتا ہے چلی جائو۔‘‘
اسامہ نے اپنے ہمراہ لایا بریف کیس اس کے سامنے رکھ کر کہا۔ اس کے لہجے میں سنجیدگی تھی‘ بے پناہ سنجیدگی۔ عبیر جس کے چہرے پر ابھی کچھ دیر قبل اسے روبرو پاکے بے ساختہ خوشی اور حجاب آمیز تاثر ابھرا تھا۔ امید کی روشنی سے آنکھیں جگمگائی تھیں۔ یہ امید اس کے حوالے سے کچھ بھی اچھا ہونے کی امید کی تھی‘ کسی گنجائش کی امید تھی اس چہرے پر اس کی بات سن کر پہلے غیر یقینی اور دکھ اترا پھربتدریج خوف وحشت اور سراسیمگی چھاتی چلی گئی تھی۔ آنکھوںمیں عجیب سا ہراس اتر آیا۔ کچھ کہنے کی کوشش میں اس کے ہونٹ محض کپکپا کر رہ گئے۔
’’اس بیگ میں وہی سب کچھ ہے جس کی چاہ میں تم نے مجھ سے شادی کی۔ مجھے دھوکا دینا چاہا۔‘‘ کچھ توقف کے بعد وہ بولا۔ عبیر کے چہرے پر تاریکی چھاگئی۔ وہ کچھ دیر اسے دیکھتی رہی پھر اپنی جگہ سے اٹھی تھی اور ایک دم جھکتے ہوئے اس کے پیروں کو اپنے کانپتے سرد ہاتھوں میں جکڑ کر کہا تھا۔
’’میری اس دن کی باتوں پرمجھے معاف کردیں۔ اسامہ آپ کو خدا کا واسطہ ہے‘ مجھے گھر سے نہ نکالیں۔ مجھے اپنے ہاتھوں سے ماردیں مگر یہ سزا نہ دیں۔‘‘ وہ اس کے پیروں سے لپٹ گئی تھی اور زارو قطار روتے ہوئے بار بار یہی التجا کررہی تھی۔
’’میں تم جیسی عورت کو اب مزید برداشت نہیں کرسکتا۔ میرے لیے یہ فیصلہ ناگریز ہوچکا ہے۔‘‘ وہ اٹھ کھڑا ہوا اور بے اعتنائی سمیت اس کے ہاتھ جھٹک کر فاصلے پر کھڑا ہوگیا۔ عبیر کے آنسوئوں میں شدت آنے لگی۔
’’میری بات کا یقین کریں اسامہ! میں نے آپ کو کوئی دھوکا نہیں دیا۔ میں آپ کے پاس غلط ارادے سے بھی نہیں آئی تھی۔ میں آپ سے شادی سے پہلے تک ان چھوئی تھی۔ یہ بچہ آپ کا ہی ہے لیکن اگر آپ ایسا نہیں چاہتے میں ابارشن کے لیے بھی تیار ہوں لیکن خدا کے واسطے مجھے یہاں سے نہ نکالیں۔ میں نے خدا سے ہمیشہ عزت و آبرو کی حفاظت کی دعا مانگی ہے۔ مجھ سے یہ تحفظ نہ چھینیں۔‘‘ وہ بلک رہی تھی تڑپ رہی تھی۔ اسامہ کی آنکھیں سلگنے لگیں۔
’’تم جھوٹی ہو‘ دغا باز ہو‘ تم اگر ایسی نہ ہوتیں تو اس تقریب میں مجھ پر ڈورے ڈالنے نہ آتیں۔‘‘ وہ زور سے پھنکارا تھا‘ عبیر ساکت رہ گئی۔
’’میں اس رات مجبور کردی گئی تھی‘ مام نے مجھے دھمکی دی تھی اگر میں اس تقریب میں نہ گئی تو مام اپنے پرانے گاہک کو بلوا کر اسی رات میری عزت کا دامن داغ دار کردیں گی۔ اسامہ بلیو می میں نے اپنی عزت بچانے کی خاطر ایک بڑے گناہ سے بچ کر نسبتاً چھوٹا گناہ کیا تھا۔ میں آپ کومائل کرنے نہیں آئی تھی‘ میں اپنی عزت کی حفاظت کرنا چاہ رہی تھی۔‘‘ اس نے گڑگڑاتے ہوئے اپنی ذات پر پڑا پردہ اٹھا کر ایک اور حقیقت آشکار کی تھی۔ اسامہ ہونٹ بھینچے اسے دیکھتا رہا۔ پھر کاندھے اچکا دیئے تھے۔
’’تم کہہ سکتی ہو‘ مجھے تمہاری بات کا یقین نہیں ہے۔‘‘ اور عبیر سن پڑے لگی تھی۔ اس کی ماں نے اس کے وجود میں جو سوئیاں گاڑھی تھیں وہ انہیں اگر کھینچ کر نکالتی بھی تھی تو فائدہ نہیں تھا۔ متاثرہ جگہ سے خون کی پھوار نکلتی تھی اور درد میں اضافے کا باعث بنتی تھی۔
’’میں آپ سے ساری زندگی کچھ نہیں مانگوں گی۔ اسامہ! سوائے اس کے کہ اس چار دیواری اور اپنے نام کا تحفظ مت چھینیں۔ میری صرف یہی ایک بات مان لیں‘ میں قسم کھا کر کہتی ہوں اگر اللہ نے خودکشی کو حرام نہ کیا ہوتا تو اس زندگی سے میں موت کو گلے لگا کر چھٹکارا پالیتی۔‘‘ بے بسی کا شدید احساس ایک بار پھر اسے رلانے لگا تھا۔ اسامہ کچھ دیر ہونٹ بھینچے خاموش بے تاثر نظروں سے اسے تکتا رہا تھا پھر وہ واپس پلٹ گیا۔ وہ اسے پرکھنے اسے آزمانے آیا تھا۔ وہ اس آزمائش میں بھی پوری اتری تھی مگر اس کے اندر ابھی اتنی گنجائش پیدا نہیں ہوسکتی تھی شاید کہ وہ اسے معاف کردیتا۔ اس کی سزا میں تخفیف کردیتا اور عبیر‘ وہ اس میں خوش ہوگئی تھی کہ اس نے اسے حویلی سے نہیں نکالا تھا۔ اس سے اپنے نام کا مان نہیں چھینا تھا۔
…٭٭٭…
مسز ملک کے تاثرات سے خفگی اور غصہ چھلک رہا تھا‘ ڈرائیور کے ہمراہ وہ حویلی جارہی تھیں۔ انہوں نے اسامہ کو فون پر گفتگو کرتے سنا تھا‘ وہ ملازم سے مخاطب تھا اور عبیر کے متعلق بات کررہا تھا‘ تب انہیں اندازہ ہوا تھا وہ بد کردار لڑکی اپنی ماں کے ساتھ فرار نہیں ہوئی تھی بلکہ اسامہ کے قبضے میں تھی۔ اسامہ جو ان کا باوقار وجیہہ اور شان دار بیٹا تھا۔ وہ اس کے لیے ہر گز بھی کسی ہلکے کردار کی لڑکی کو قبول نہیں کرسکتی تھیں۔
اسامہ کی بیوی ان کی نسل کی امین تھی اور وہ ہر گز کسی گھٹیا لڑکی کو قبول نہیں کرسکتی تھیں۔ آج اسامہ کی جو بات چیت سنی تھی اس سے انہیں بخوبی اندازہ ہوگیا تھا کہ اسامہ کے دل میں اس کی گنجائش پیدا ہورہی تھی۔ وہ اسے ایک کمرے کی حدوں سے نکال کر حویلی میں اپنی مرضی کی زندگی کی اجازت دے رہا تھا آج اگر وہ اسے حویلی میں یہ رعایت دے رہا تھا تو کل واپس اپنے گھر میں بھی لاسکتا تھا اور یہی انہیں گوارا نہیں تھا۔
’’کہاں ہے وہ لڑکی! جو یہاں اسامہ نے رکھ چھوڑی ہے؟‘‘ وہ حویلی پہنچی تھیں تو ملازموں کو لائن حاضر کرلیا تھا۔ جو مالکن کو اچانک اور غیر متوقع طور پر سامنے پاکر اور غصے میں دیکھ کر فطری گھبراہٹ کا شکار ہوچکے تھے۔
’’بیگم صاحبہ وہ لڑکی اندر کمرے میں ہے۔‘‘ ملازم نے گھگھیا کر بتایا تو وہ اسے گھورتی تن فن کرتی کمرے میں آن گھسیں۔ وہ سامنے ہی جائے نماز پر بیٹھی تھی۔ ہاتھ دعا کو پھیلے تھے اور آنکھوں سے آنسو زارو قطار بہہ رہے تھے‘ وہ تلملا سی گئیں۔
’’ان ڈراموں سے تم اسامہ کو تو متاثر کرسکتی ہو مگر مجھے نہیں‘ سمجھیں تم…‘‘ انہوں نے وحشیانہ انداز میں اسے جائے نماز سے گھسیٹ لیا تھا۔ عبیر کی آنکھیں خوف ودہشت سے پھٹ سی گئیں۔
’’مجھے معاف کردیں امی! میں مجرم ہوں آپ کی۔‘‘اس کی بات ان کے اٹھے ہوئے ہاتھ کی بدولت ادھوری رہ گئی‘ پھر ہاتھ رکا نہیں تھا۔
’’بکواس بند کرو‘ خبردار جو معافی کا لفظ منہ سے نکالا۔ تمہاری وجہ سے ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔‘‘ وہ زور سے پھنکاریں اور ا سے بالوں سے پکڑ کر زور دار جھٹکا دیا وہ سنبھلے بنا سر کے بل جاکر گری‘ سر کے پچھلے حصے میں شدید چوٹ آئی تھی۔ جبھی خون کا فوارہ سا ابل پڑا۔
’’رحم بیگم صاحبہ!چھوٹی بی بی نہ صرف دوجی سے ہیں بلکہ روزہ دار بھی ہیں۔‘‘ ان کے پیر کی زور دار ضرب سے وہ جس طرح تڑپ کر اذیت سے دوہری ہوتی‘ ملازمہ خاموشی سے یہ تماشا نہیں دیکھ سکی۔ عبیر کی رنگت ہر گزرتے لمحے کے ساتھ سفید پڑنے لگی تھی۔ مسز ملک نے تند نظروں سے عبیر کو دیکھا تھا۔ پھر تنفر بھرے اندا زمیں منہ پھیرلیا۔
’’روزے اور نماز سے کالے کرتوت نہیں چھپائے جاسکتے۔ بہرحال جتنی جلدی ہوسکے دفع ہوجانا یہاں سے۔ اسامہ کے لیے لڑکیوں کی کمی نہیں ہے بہتر ہوگا تم بھی اپنی ماں بہنوں کے ساتھ جاکر ان کاکاروبار چمکائو۔‘‘ ان کے لہجے میں حقارت بھری ہوئی تھی۔ عبیر کو سب سے زیادہ تکلیف اسی بات پر ہوئی تھی۔جبھی کچھ دیر قبل کی ذلت اور سبکی کے ساتھ تکلیف بھی فراموش کرکے ان کے آگے دونوں ہاتھ جوڑ کر گڑگڑا پڑی تھی۔
’’میں بے قصور ہوں‘ خدا کی قسم ! میرا یقین کریں‘ مجھے کچھ نہ دیں‘ اس گھر سے نہ نکالیں‘چاہے ملازم کی حیثیت سے رہنے دیں۔ آپ کو خدا کاواسطہ ہے۔‘‘ زارو قطار رو رہی تھی۔ مسز ملک نے پرسوچ اور جانچتی نظروں سے اسے دیکھا۔ وہ سر تاپا کا نپی تھی اور رحم طلب نظروں سے انہیں دیکھتی رہی تھی۔ انہوں نے ہونٹ بھینچے اور منہ پھیرلیا۔
’’سعدیہ! اسے میں یہاںرہنے کی اجازت دے رہی ہوں مگر یہ یہاں ملازم کی حیثیت سے رہے گی۔‘‘ انہوں نے حکم سنایا تھا اور واپس پلٹ گئیں۔ ان کے خیال میں یہ رحم دلی کی انتہا تھی۔
…٭٭٭…​
بہت پر تپش اور حبس زدہ شام تھی۔ افطار میں ابھی خاصا وقت تھا۔ اس کے علاوہ وہاں اکثر ملازمائوں کے روزے تھے۔ وہ سحر و افطار میں خود سارا کھانا بنانے کا انتظام سنبھالا کرتی تھی۔ یہ اس کا اچھا سلوک اور نرم رویہ ہی تھا کہ وہاں موجود سب ملازم اس کی عزت کرتے تھے اور اسے مالکن کی حکم عدولی کرتے ہوئے اپنے سے برتر یعنی مالکوں کی طرح توقیر کیا کرتے تو وہ شرمندہ ہونے لگتی تھی۔
اس نے شربت بنانے کے بعد فریج میں رکھا اور خود پائپ لگا کر صحن میں چھڑکائو کرنے لگی تبھی حویلی کے اندرونی دروازے سے اسامہ اندر آیا تھا۔ پائپ عبیر کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ ماں کے بعد بیٹے کے تیور پتا نہیں کتنے بُرے ہوتے۔ خوف اس کی رنگت میں زردیاں بھرنے لگا۔
’’السّلام علیکم!‘‘
اسامہ کے نزدیک آنے پر اس کے ہونٹ کپکپائے تھے۔ نظریں مجرموں کے انداز میں جھک کر قدموں سے جاملی تھیں۔
’’وعلیکم السّلام ! کیسی ہو؟‘‘
سوال ہوا تھا اور وہ غیر یقینی سے اسے دیکھنے لگی۔
’’اتنا مشکل سوال پوچھ لیا ہے کہ یوں خوف زدہ نظر آنے لگو‘ شوہر ہوں تمہارا سخت غصیلا ٹیچر نہیں۔‘‘ اس کا سر تھپک کر وہ خفیف سا مسکرایا۔ عبیر کا سکتہ ٹوٹا مگر حیرت ہنوز تھی۔
’’تم قابل بھروسا نہیں ہو عبیر! مگر میں تمہیں موقع ضرور دینا چاہوں گا‘ پتا نہیں کیوں مگر میں تم سے دھوکا کھانے کو بھی تیار ہوں۔‘‘ اس کا ہاتھ پکڑ کر وہ اندر لے آیا تھا اور گہرا سانس بھر کے آہستگی سے کہہ رہا تھا۔ عبیر کی آنکھیں پانیوں سے بھر گئیں۔ اسے یقین نہیں آسکا تھا اسامہ نے ہی کہا جو ابھی اس نے سنا۔
’’ممی بہت خفا ہیں مگر انہوں نے گنجائش نکالی ہے۔ میں چاہتا تو تمہیں یہاں سے نکال سکتا تھا طلاق دے کر۔ مگر میں ایسا نہیں کررہا۔ معاف کرنا خدائی وصف ہے اور خدا معاف کرنے والوں کوپسند کرتا ہے۔ میں نہیں جانتا میں اتنا اعلیٰ ظرف کیونکر بن رہا ہوں اور میں اس اعلیٰ ظرفی پر قائم رہوں گا کہ نہیں‘ تم دعا کرنا میں اس پر قائم رہ سکوں۔‘‘ وہ رسانیت سے کہہ رہا تھا عبیر کی آنکھیں چھلک پڑیں۔ وہ کچھ کہنا چاہتی تھی مگر شدت جذبات سے کچھ بولانہیں گیا۔ آنسو اس کے ہر جذبے کے مظہر بن گئے تھے۔
’’پیچھے پلٹ کر دیکھوں تو مجھے اپنی زندگی میں کوئی نیکی کوئی ایسا کام نظرنہیں آتا جو میں نے خالصتاً خدا کے لیے کیا ہو‘ تم کہہ سکتی ہو یہ درگزر یہ معافی میںنے خدا کی رضا حاصل کرنے کو دی ہے۔ ’’وہ‘‘ دلوں میں گنجائش نکالنے والا ہے۔ مجھے تمہارے معاملے میں اعلیٰ ظرفی پر قائم رکھے‘ تم دعا کرو گی نا؟‘‘ وہ سوال کررہا تھا۔ اسی پل فضا میں مغرب کی اذان کی مقدس آواز گونج اٹھی۔ اس نے پوری آمادگی کے ساتھ سر ہلایا تھا۔ اسامہ اس کا ہاتھ پکڑ کر باہر لے آیا۔ وہاں جہاں سب ملازمین جمع تھے اور روزہ افطار کررہے تھے۔ اسامہ نے پلیٹ سے کھجور اٹھا کر خود اس کے منہ میں ڈالی تھی۔
’’آج میرا روزہ نہیں ہے‘ میں گرمی میں روزہ نہیں رکھتا۔ مگر کل تم مجھے سحری کے لیے ضرور جگانا۔‘‘ وہ اسے تاکید کررہا تھا۔ عبیر کے دل میں جیسے ڈھیروں سکون اتر آیا۔ اس کی ساری دعائیں مستجاب ہوئی تھیں بلکہ خدا نے اسے اس کی اوقات سے بڑھ کر نواز دیا تھا۔ عید میں ابھی کچھ دن تھے مگر اسے ابھی سے عید سعید کی خوش خبری مل چکی تھی۔ گھپ اندھیرا چھٹا تو سنہری دھوپ نے ہر سمت روشنی پھیلا ڈالی تھی۔
 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
بانٹتے چلو پیار… طلعت نظامی
وہ جب سے اس گھر کی بہو بن کر آئی تھی خود کو تمام سسرالی رشتے داروں کے درمیان گھرا پایا۔
ساس (صبوحی خاتون) بہت خوش اخلاق اور خوش گفتار خاتون کے روپ میں ملیں۔ اپنی اسی عادت کی بناء پر وہ اپنی تمام دیورانیوں‘ بیٹیوں اور ان کے شوہروں تک کے دل پر راج کررہی تھیں۔ سب ہی رشتہ دار باری باری ان کے گھر آتے اور وہ سب کی ہی نازبرداریاں یوں کرتیں جیسے پہلی بار وہ ان کے گھر آئے ہوں۔ وہ ان کی اکلوتی بہو بن کر آئی تھی اس لیے شروع دن سے ہی سب اسے بہت توجہ دے رہے تھے‘ خوب محفلیں جمتیں۔ اس کی نند رمشانے جو بھائی کی شادی اٹینڈ کرنے آئی ہوئی تھی‘ کچن کا کام سنبھال رکھا تھا۔
صبوحی خاتون کی دیورانیاں ان کی بچیاں بہت ہنس مکھ طبیعت کی تھیں‘ اس سے بہت محبت سے پیش آتیں کیونکہ ساس ان بہن بھائیوں میں بڑی تھیں‘ اس لیے ان کی دو تین دیورانیاں تو بالکل نئی دلہن کی طرح ہی تھیں۔ دوسرے نمبر والی ثانیہ چچی تو بالکل دوستوں کی طرح تھیں۔ ملنساری اور برجستگی ان کے مزاج میں تھی‘ ہنستے ہنستے کوئی غلط جملہ منہ سے نکل جاتا تو خود ہی زبان دانتوں تلے دبا کر ہنس دیتیں اور ان کا یہ انداز سب ہی کو ہنسنے پر مجبور کردیتا۔ کوئی بڑا پن ان میں نہ تھا ہمیشہ اپنی دونوں تینوں دیورانیوں کو فارغ اوقات میں لیے پہنچ جاتیں چونکہ سب کے گھر قریب قریب تھے اس لیے آنے جانے کا کوئی مسئلہ نہ تھا۔ اب بھی انیتا چچی آئی ہوئی تھیں۔
’’امی… میں نے دو دن سے بھابی سے بات نہیں کی ہے۔‘‘ عروبہ بیڈ میں آن گھسی جو اپنے فائنل ٹیسٹ کی وجہ سے ملنے نہیں آسکی تھی۔ چچی کو ہٹا کر اس کے پاس آبیٹھی۔
’’تو بیٹھو نا…‘‘ چچی کھسک گئیں۔
’’دو دن سے تم نہیں آئیں لیکن ان دو دنوں میں میرے کان تو تم نے کھالیے کہ بھابی کیسی ہیں؟‘‘ ان کے بولنے کا انداز ہی ایسا تھا کہ سب ہنس دیئے۔
’’کیوں نہیں پوچھوں گی‘ اس خاندان کی سب سے بڑی اور پیاری بہو میری بھابی جو بن کر آئی ہیں۔‘‘ وہ گلے میں بانہیں ڈال کر لاڈ دکھاتی۔
لڑکے بھی اتنے ہی دوستانہ مزاج کے تھے اکثر فارغ اوقات اس کے کمرے میں آتے‘ کبھی آئسکریم‘ کبھی پیزا تو کبھی فالودہ حالانکہ فرخ اس کے فریج میں دل بہلانے کو یہ سب چیزیں لاکر ڈھیر لگا تا رہتا لیکن بچوں کی محبت کا کوئی نعم البدل نہ تھا۔ وہ اس کی دلبستگی کے بہانے ڈھونڈتے تو وہ ناقدری کیسے کرتی۔ سب بھابی… بھابی کہہ کر محبت کا بے ساختہ اور برملا اظہار کرتے جو اسے اس نئے ماحول میں بہت اچھا لگتا لیکن… پانچویں نمبر والی عنبر چچی جنہیں شادی کے دنوں میں اس نے دلہن ہونے کی بناء پر کم ہی دیکھا تھا۔ وہ خوش شکل ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ مغرور بھی لگیں۔ یہ اس کا وہم ہوتا اگر صبوحی خاتون اس وہم پر صداقت کی مہر نہیں لگاتیں۔
’’کن کے بارے میں پوچھ رہی ہو تم…؟ اتنی آدم بے زار ہیں وہ کہ اللہ کی پناہ!‘‘ تانیہ چچی نے اپنے خیالات کا برملا اظہار کیا۔
’’ہاں آبھی گئیں تو کون سا اچھی باتیں کریں گی۔ نادر فلسفۂ حیات بیان کریں گی۔ اپنے مزاج کی سنجیدگی سے تمہیں بھی بور کردیں گی۔‘‘ سب کا قہقہہ ابھرا تھا۔ وہ ناسمجھی کی کیفیت سے دیکھے گئی۔
’’وہ ٹیچر ہیں‘ ہم سب سے زیادہ ایجوکیٹڈ‘ سمجھ دار اور ذہین خاتون۔ ان کا مقابلہ ہم نہیں کرسکتے یا وہ ہمیں اپنے لیول کا نہیں سمجھتیں اس لیے ہم سب کے ساتھ بیٹھنا پسند نہیں کرتیں۔‘‘
’’کیا کوئی ناراضی ہے۔‘‘ وہ واقعی ان کا مدعا نہیں سمجھی تھی۔
’’بات یہ ہے کہ…‘‘ صبوحی خاتون اس کی طرف متوجہ ہوئیں۔ ’’اب تم اس گھرانے کی فرد ہو۔ کب تک تم سے معاملات چھپائے جاسکتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہ بہت گھمنڈی عورت ہیں‘ اپنی قابلیت کو بہت اہم سمجھتی ہیں۔ اوّل تو ہم سب میں مل بیٹھنے کی انہیں فرصت نہیں اور مل بھی جاتی ہیں تو اپنی جداگانہ گفتگو سے ہم سب میں خود کو منفرد سمجھنے کی کوشش شروع کردیتی ہیں۔‘‘ یہ پہلی منفی گفتگو تھی جو اس ماحول میں اس نے سنی تھی کسی کے متعلق۔
’’بات بات میں کیڑے نکالیں گی‘ پہننے اوڑھنے پر‘ کھانے کے انداز پر‘ اٹھنے بیٹھنے پر‘ ہر ہر عمل پر ناگواریت کا اظہار کریں گی اور بس نہیں چلے گا تو اقوال زریں سنانے لگیں گی۔ پڑھائی کے متعلق پوچھنے لگیں گی۔ آج کے نصاب اور مستقبل کے نصاب کا موازنہ کرنے لگیں گی۔‘‘ عروبہ نے بھی اپنی تیکھی ناک چڑھائی۔
’’اب ہر وقت کی یہ عالمانہ گفتگو ماحول کو بوجھل ہی بناسکتی ہے۔ شگفتہ نہیں کرسکتی ہم نے ناگواری کا اظہار کیا تو وہ کٹی کٹی رہنے لگیں ہم سب سے ‘ بس تقاریب وغیرہ میں آنا جانا‘ ملنا ملانا ہوجاتا ہے۔ نہ انہوں نے ہم میں مکس ہونے کی کوشش کی نہ ہم نے خواہش کا اظہار کیا۔ بھئی سچی بات تو یہ ہے کہ ملنے کی چاہ بھی ان لوگوں سے ہوتی ہے جن کی نظر میں ہماری بھی کوئی حیثیت ہو۔ اب بات بات پر اپنا مذاق بنوانا کون چاہتا ہے دو چار دن کی زندگی کو ہنس کھیل کر گزار لینا چاہیے نا کہ قدم قدم پر نکتہ چینی کرکے…‘‘
’’بچے نہیں ہیں ان کے…؟‘‘ اس نے سوال کیا۔
’’ہیں… تین بیٹیاں ہیں‘ تینوں اسکول کی طالبہ ہیں لیکن مزاج میں وہ بھی ماں پر ہی گئی ہیں۔ جس طرح عروبہ‘ نائمہ‘ نوشی ہیں سب میں گھل مل جانے والی‘ ان سب خوبیوں سے دور ہیں وہ۔ کبھی آئیں
گی بھی تو ماں کا پلّو تھامے بیٹھی رہیں گی‘ جیسے ہم ان کے دشمن ہوں۔ ملنساری تو ذرا بھی ددھیال والوں سے وراثت میں نہیںملی۔‘‘
’’پتا نہیں کیسے اماں نے ہم لوگوں کی دیورانی بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ کون سی ادا بھائی کہ ہم سب کے سروں پہ مصیبت کی طرح سوار کردیا۔ بھئی سب ہم مزاج ہوں تو تکلف کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔ جو چاہے بولو۔ اچھا ہے بابا! وہ اپنی ذات میں خوش‘ ہم اپنی ذات میں…‘‘ سب اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرکے اٹھ چکے تھے۔
’’صحیح بات ہے زندگی کو تو ہلکے پھلکے انداز میں ہی گزارنا چاہیے ناکہ خود ساختہ الجھنوں میں خود کو گرفتار کرکے مریض بن جانا چاہیے۔‘‘
…٭٭٭…​
’’ارے بھابی…! آپ کن سوچوں میں گم ہوچکی ہیں‘ رکیے نا… شادی کی مووی آچکی ہے‘ چلیں نا دیکھیں۔ ایمان سے اتنی پیاری لگ رہی ہیں نا آپ‘ میں نے اتنی حسین دلہن پہلی مرتبہ دیکھی ہے۔ چاند سورج کی جوڑی لگ رہی ہے۔‘‘ اس کی تعریف پر وہ مسکراتے ہوئے اٹھ بیٹھی تھی۔
آہستہ آہستہ لوگوں کا ہجوم چھٹا‘ لڑکیاں‘ لڑکے بھی اسکول‘ کالج کی چھٹیاںختم ہونے کے بعد مصروف ہوگئے۔ اب بھی سب چچیوں کا ہفتے میں ایک چکر لگ ہی جاتا۔ صبوحی خاتون نے میٹھے میں اس کا ہاتھ لگوادیا۔ جس پر سب ہی لوگ مدعو تھے۔ رات کے کھانے کا انتظار تھا۔ فرخ بہت سنجیدہ مزاج تھا۔ سب کے سامنے بالکل لیے دیئے انداز میں رہتا۔ گیدرنگ میں بھی سب سے الگ سوفے پر جا بیٹھا۔ کوئی ذومعنی جملہ‘ کوئی شوخ فقرہ‘ کوئی چوری چھپے ہونے والی نظروں کی واردات ایسا کچھ بھی نہ ہوتا۔ زیادہ شوخ مزاج تو وہ بھی نہیں تھی لیکن اتنا روکھا پھیکا رویہ کہ سب کے سامنے بات کرنا تو درکنار‘ دیکھنے میں بھی محتاط رویہ اپناتا۔ اس کا یہ انداز اب تک اس کی سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ تنہائی میں البتہ بہت رومینٹک ہوتا۔
’’آج بے حد خوب صورت لگ رہی ہو۔ لگتا ہے بلیو کلر تمہارے لیے ہی بنا ہے۔ کتنی دل کشی ہے تمہاری سنہری رنگت میں۔‘‘ وہ بے حد گہری نگاہوں سے اسے دیکھتا۔
’’اچھا! سب کے سامنے تو مجھے نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے۔ اب تشبیہات سوجھ رہی ہیں محترم کو۔ میں نے کتنی مرتبہ آپ کو نوٹ کیا ہے کہ سب کے سامنے کسی بھی گفتگو میں میرا ذکر تک نہیں کرتے آپ۔ جیسے آپ سے سے میرا کوئی تعلق ہی نہ ہو۔‘‘
’’ارے نہیں تمہارا وہم ہے۔‘‘ وہ ہنسا۔ ’’اب سب کے سامنے کیا وارفتگی دکھائوں میں بات بات پر۔ یہ بھی تو اچھی بات نہیں‘ سب کزنز مجھ سے چھوٹے ہیں۔ بڑوں کو ذرا سنجیدہ بن کر رہنا چاہیے۔‘‘ وہ مسکرایا۔
’’کیا سب کے سامنے دیکھنے پر بھی پابندی ہے یا کام کی باتوں پر بھی روک ٹوک ہے؟‘‘
’’اب ایسا بھی نہیں بس تمہیں احساس نہیں ہوتا۔ تم کوئی نظر انداز کرنے والی چیز ہو بھلا۔‘‘ وہ شرارت پر آمادہ ہوا تو وقتی طور پر اس کا دھیان بھی بھٹک گیا لیکن دل پر جمنے والی میل چھٹ سکتی ہے بھلا۔
کچھ انہونی کا احساس اسے ہورہا تھا۔ سب کی محبتیں ایک طرف لیکن اپنے دل میں بپا ہونے والے اس کھٹکے سے کچھ چوکنا سی ہوچکی تھی۔ یہ احساس خود فرخ کی نظروں نے دلایا تھا اور کچھ صبوحی خاتون کی گرفت لیے نظروں کو بھی پہچان رہی تھی۔
ناشتے سے رات گئے تک جب تک وہ دونوں بیڈ روم میں نہیں آجاتے وہ اس کے گرد چکر لگاتی رہتیں۔ کبھی دودھ کا گلاس‘ کبھی جوس تو کبھی کٹے ہوئے پھل فریج سے نکال کر ثمرن بھابی کا دروازہ کھٹکھٹارہی ہوتی۔
’’آپ کو تو کھانے پینے کی بھی یاددہانی کروانی پڑتی ہے بھائی! آفس میں تو گم رہتے ہی ہیں کہ آنکھیں ترس جاتی ہیں پورا دن آپ کو دیکھنے کے لیے۔ آپ بھی بھائی کا دھیان نہیں رکھتیں بھابی! بھائی کو بھی صحت کا احساس دلائیں اور اپنا بھی دھیان رکھیں۔‘‘ چائو چونچلے سے بولتی وہ بہت کچھ اسے سمجھا رہی تھی۔
’’کمرے میں ہی رہیں مگر یہ پھل کھالیں۔‘‘ فرخ ہنسا جیسے کسی نے چوری پکڑلی ہے۔ ‘‘
’’میں آ ہی رہا تھا اس طرف‘ بس ٹی وی پر یہ ٹاک شو میں مصروف ہوگیا۔‘‘
’’ٹی وی صرف آپ کے کمرے میں نہیں‘ لائونج میں بھی ہے‘ چلیے وہاں سب جمع ہیں آیئے بھابی آپ بھی…‘‘ بہت خوب صورتی سے وہ بات بناتی وہاں سے چلی گئی۔
رات کے بارہ ‘ ایک بجے آپ لائونج میں بیٹھیں گے تو اٹھیں گے کب؟ صبح آپ کو آفس بھی پہنچنا ہوتا ہے۔ صحت کے لیے دودھ‘ پھل ہی نہیں پوری نیند بھی ضروری ہوتی ہے۔‘‘ اسے نہ چاہتے ہوئے بھی غصہ آگیا۔
’’تم اس مسئلے میں مت بولا کرو حریم! میں پہلے بھی ٹی وی لائونج میں ہی بیٹھا کرتا تھا گھر والوں کے ساتھ۔ اب یہاں آجاتا ہوں تو کیا ان لوگوں کو میری کمی محسوس نہیں ہوگی؟‘‘ وہ مشتعل ہوا۔
’’میں نے کبھی منع کیا ہے ان لوگوں کے ساتھ بیٹھنے پر۔‘‘ اس کا گلا رندھ گیا۔ ’’آدھی آدھی رات تک گپیں لگانا کہاں کی عقل مندی ہے۔ ابھی وہیں سے اٹھ کر آئے ہیں آپ‘ بلکہ میں خود وہاں بیٹھی

ہوئی تھی۔ چاہتی تو اپنے کمرے میں آرام کرسکتی تھی صرف وضع داری نبھارہی ہوں۔ ورنہ پورا دن ان لوگوں کے ساتھ ہی میرا گزرتا ہے۔ کیا یہ ٹائم بھی میرا اپنا نہیں ہوگا؟‘‘
’’تم خوامخواہ چھوٹی سی بات کو بڑھا رہی ہو حریم! یہ بھی تو دیکھو انہوں نے اپنی خدمت کے لیے ہمیں آواز نہیں دی ہے بلکہ وہ ہم دونوں کی کمپنی انجوائے کرنا چاہتی ہیں۔ کسی پل کے لیے بھی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دینا چاہتیں۔ یہ ان کی محبت ہے جس کی قدر کرنی چاہیے‘ اس طرح گھر والوں کے لیے دل میں مقام بڑھے گا باقی ہم دونوں تو دل سے ایک دوسرے کے ہی ہیں۔‘‘ وہ بہت ملائمت سے گھر والوں کا مقام سمجھا رہا تھا۔
’’وقتی جذباتیت اور ماحول سے فرار دلوں میں بدگمانی کو جگہ دیتی ہے۔ تو کیا ضرورت ہے ہمیں دلوں میں کدورتیں پیدا کرنے کی۔ دل کو بڑا کرو ان کا یہ فعل ہم دونوں کے درمیان دوری نہیں پیدا کرے گا بلکہ ہم سب کے درمیان محبت اور خلوص کو جنم دے گا۔ ساتھ رہ کر بڑے سے بڑا دکھ کا لمحہ بھی شیئر ہوجاتا ہے۔‘‘ اس کی سب باتیں اچھی تھیں لیکن اگر دل ان لوگوں کی طرف سے آہستہ آہستہ مکدر نہ ہونے لگتا۔
صبوحی خاتون کا مزاج ابھی تک سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ فرخ کی غیر موجودی میں بھی اس طرح سے خیال رکھتیں کہ زیادہ گھریلو کام نہیں کرنے دیتیں خود یا ثمرن کالج سے آنے کے بعد ہی کرتیں۔
’’تھک جائو گی‘ جائو آرام کرو۔ آہستہ آہستہ تو تمہیں ہی سب کچھ سنبھالنا ہے۔‘‘ وہ کہہ کر کچن سے باہر نکال دیتیں اور فرخ کے آجانے کے بعد ان کی نگاہیں بیٹے کے گرد ہی طواف کرتی رہتیں۔ ایسے اس کا خیال رکھتیں جیسے صرف وہی ہوں فرخ کی پروا کرنے والی‘ ان کے بیٹے کی زندگی میں ابھی کوئی اور آیا ہی نہ ہو۔اسے محسوس ہوتا جیسے فرخ سے اس کی سنگت کا ہر لمحہ وہ چھین لینا چاہتی ہوں اور اس کے ہر لمحے کا کڑا حساب وہ رکھنے والی ہوں۔ ان کے اس پراسرار رویئے پر وہ گھبراسی گئی۔ بہت الجھنوں کا شکار ہوگئی۔ ان ہی سوچوں میں مغموم بیٹھی تھی کہ عروبہ آگئی۔ خوب صورت تراش خراش کے کپڑوں میں بالوں کی اسٹیپ کٹنگ کرائے وہ بے حد پُرکشش لگ رہی تھی۔ پور پور سے خوشبو کی لپٹیں اٹھ رہی تھیں۔ وہ جلدی جلدی بیڈ شیٹ درست کرنے لگی۔ صبح سے بے دھیانی میں ایسے ہی پُرشکن تھا۔
’’کیا کررہی تھیں بھابی! ارے ابھی تک آپ نے کمرے کی سیٹنگ نہیں کی‘ خیریت تو ہے… طبیعت تو ٹھیک ہے نا آپ کی۔‘‘ اس نے بغور دیکھا۔
’’نہیں… ٹھیک ہوں۔ اصل میں موسم ایسا سست کردینے والا طاری ہے کہ ناشتے کے بعد ہی دوبارہ نیند آنے لگتی ہے۔ اب میں اٹھ ہی رہی تھی‘ تم سنائو کیسی ہو؟ کالج نہیں گئیں؟‘‘
’’میں آپ کے سامنے ہوں ایک دم فریش!‘‘ وہ چہکی۔ موٹی موٹی آنکھوں میں کاجل اور مسکارا عجیب ہی بہار دے رہا تھا گرچہ کہ یہ بے محل سجنا سنورنا تھا لیکن وہ گھر میں بھی ایسے ہی رہا کرتی تھی۔
’’رہی کالج کی بات تو اب ہم انٹر کے پیپرز تک کالج سے فری ہوچکے ہیں۔ اس لیے سوچا پہلے آپ سے مل لوں۔ تائی اور ثمرن سے مل چکی ہوں۔ اب آپ سے تھوڑی دیر گپ شپ چلے گی۔ چینل چینج کیجیے نا بھابی! سلمان خان کی مووی آرہی ہے۔ میں وہی آپ کے ساتھ دیکھنے آئی ہوں ابھی ثمرن بھی سالن چڑھا کر آرہی ہے۔ نائمہ بھی آتی ہی ہوگی۔‘‘ وہ ہنسی۔
’’تم نے ابھی تک وہ فلم نہیں دیکھی۔‘‘ اسے بڑی عجیب اور بچگانہ بات لگی اس کی اور پھیکی ہنسی کے ساتھ ریموٹ اس کے ہاتھ میں تھمادیا اور خود برش لے کر اپنے بال سلجھانے لگی۔
’’سلمان کی فلم تو جتنی بار دیکھ لوں کم ہے‘ کسی بھی چینل پر اس کی فلم چل رہی ہو تو میں چینل چینج نہیں کرنے دیتی۔‘‘ مزے لیتی وہ پسندیدہ چینل لگا کر بیٹھ گئی وہ بھی فل آواز پر۔
’’تھوڑی سی آواز کم کر دو عروبہ! میں نے ابھی سر درد کی گولی لی ہے۔‘‘
’’اوہ… سوری بھابی!‘‘ اس نے دوبارہ آواز کم کردی۔ ’’اصل میں ہم لو گ شروع سے ہی ایک ماحول میں رہے ہیں‘ سب کزنز ایک ہی مزاج کے تھے ہلچل مچانے والے‘ شورو غل کے عادی۔ اس لیے تیز آواز کا اثر کانوں پر ذرا کم ہی پڑتا ہے۔‘‘ بولنے کا انداز بھی اس کا بے حد تیز تھا۔ اپنے دل کی بات کیا کہتی سب ہنسی خوشی بات تو کرلیتے لیکن راز دار کسی کو نہیں بناسکتی تھی۔
میکے جانے کی اجازت مانگتی تو اس کی ساس بے حد اشتیاق سے اجازت دے دیتیں‘ جیسے اس بات کی وہ کب سے منتظر ہوں۔ واپس آتی تو فرخ کا انداز ہی عجیب ہوتا‘ ماں بہن کے پاس سے اٹھتا ہی نہیں۔ کمرے میں آکر بھی تکلف کا سرا آہستہ آہستہ کھلتا۔ اس لیے میکے کے نام سے کچھ محتاط ہوگئی تھی لیکن اس روز امی کا فون صبح ہی آگیا۔ ان کا دل گھبرا رہا تھا اس سے ملنے کو ان کا دل چاہ رہا تھا‘ اس لیے وہ تیار ہوگئی کہ فرخ آفس جاتے ہوئے گھر چھوڑ دے گا اور نہ جاتی تو زندگی میں چھا جانے والے آسیب کی پُراسرار گتھی کیسے سلجھتی۔
’’آپ آفس سے واپسی پر مجھے لے لیجیے گا میں تیار رہوں گی۔‘‘
’’امی کی طبیعت خراب ہے‘ دوچار دن رہ لو گی تو ان کا دل بھی بہل جائے گا۔‘‘ صبوحی بیگم اسی وقت کمرے میں داخل ہوئیں۔
’’کوئی خاص خراب نہیں ہے امی! بس مائوں کے دلوں کا تو پتا ہے آپ کو‘ بیٹیوں سے ملنے کے بہانے ڈھونڈتا ہے۔‘‘ وہ مسکرائی۔
’’رہ کر بھی کیا کرلوں گی میں‘ بھابی تو کوئی کام کرنے نہیں دیتی۔ امی کی تیمارداری‘ دل جوئی بھی بیٹیوں سے بڑھ کر کرلیتی ہیں۔‘‘
’’یہ تو صحیح بات ہے لیکن یہاں بھی تمہاری کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ یہ نا ہو کہ ارسہ آپا سمجھیں کہ ہم نے کوئی پابندی لگائی ہوئی ہے۔‘‘
’’یہی تو بات ہے کہ ابھی تک آپ نے مجھے ذمہ داریوں کے قابل ہی نہیں سمجھا۔ ‘‘ اس کا دل خاک ہوگیا‘ ان کی لپک جھپک کر ہر کام خود سے کرلینے والی عادت اسے کھٹکتی اور جس کام کو انجام دینے سے
 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
وہ رہ جاتیں ثمرن بیڑا اٹھالیتی۔ بڑی خوش اسلوبی سے اسے ہٹا دیتی۔
’’نہیں! انہیں آپ کی عادتوں کا پتا ہے کہ ابھی تک آپ لوگوں نے اس گھر کی باگ دوڑ سنبھالی ہوئی ہے۔‘‘ دل کا ایک جلتا پھپولا پھوڑ کر اس نے پرس اٹھالیا۔ وہ عجیب نظروں سے دیکھے گئیں۔
’’اپنے بھائی کے ساتھ آجانا‘ فون کرکرکے فرخ کو پریشان نہیں کرنا۔ آفس میں سو طرح کے کام ہوتے ہیں‘ سو طرح کے لوگوں سے ڈیلنگ ہوتی ہے۔ خوامخواہ چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے مرد کو پریشان کرنے سے مرد بھی چڑچڑے ہوجاتے ہیں۔‘‘ اس نے کوئی جواب نہ دے کر مزید انہیں چڑایا۔
فرخ کو شام کو فون کیا کہ آکر اسے لے جائے اس نے بڑی صفائی سے انکار کردیا۔ کہ ابھی تو میٹنگ میں مصروف ہوں تم آذر بھائی کے ساتھ گھر چلی جائو۔
’’وہ بھی مصروف ہیں فرخ! آپ جب بھی فارغ ہوں مجھے لے لیجیے گا‘ میں تیار ہوجائوں گی۔‘‘ وہ جانتی تھی اس کے ساتھ آنے پر صبوحی خاتون کا موڈ بگڑ جائے گا اس لیے وہ انکار کررہا تھا۔
’’کوشش کرتا ہوں حریم! جانے کب فارغ ہوں‘ ویسے بھی تمہارے گھر کا روٹ بالکل مختلف ہے۔ شام کو تھکن کے مارے بس گھر ہی جانے کا دل چاہتا ہے۔‘‘
’’بہانے مت بنائیں فرخ! صاف صاف بات کیا کریں‘ مجھے سب پتا ہے آپ امی سے ڈرتے ہیں کہ وہ میرے ساتھ آپ کو دیکھنا نہیں چاہتیں۔‘‘
’’فضول باتیں مت کرو‘ وہ بھلا ایسا کیوں چاہیں گی۔‘‘ اس نے گڑبڑا کر اسے ڈانٹا۔
’’اسی ’’کیوں‘‘ کا جواب میں ڈھونڈ رہی ہوں‘ جس سے آپ بھی واقف ہیں بس بتانا نہیں چاہتے۔‘‘ اس نے فون پٹخ دیا اور اسی وقت گھر جانے کا فیصلہ کرلیا۔
…٭٭٭…​
کھولتے دل و دماغ سمیت اندر داخل ہوئی تو صبوحی خاتون نیچے نہیں تھیں۔ اوپر سے باتوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ اپنے کمرے میں پرس رکھ کر چادر اتار کر اوپر جانے لگی۔ زینہ عبور کرکے جیسے ہی بڑے کمرے میں جانے لگی کہ صبوحی خاتون کے رونے کی آواز نے جیسے دل دہلا دیا۔ ان کے گھٹ گھٹ کر رونے کی آواز وقفے وقفے سے آرہی تھی۔ وہ دانستہ رک گئی بڑی چچی کی آواز آرہی تھی۔
’’چپ ہوجائیں بھابی! کیوں خود بھی پریشان ہورہی ہیں اور بیٹے کو بھی پریشان کریں گی۔ آپ کی صورت دیکھ کر کیا فرخ پریشان نہیں ہوگا۔ اس کے آنے سے پہلے خدا کے لیے خود کو سیٹ کرلیں‘ پلیز بھابی! اپنے بیٹے کے لیے اس حقیقت کو قبول کرلیں‘ ورنہ ایک بار اس کے دل میں بدگمانی نے جڑ پکڑلی تو بیٹا آپ کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ جس کے ڈر میں آپ اندر ہی اندر پگھل رہی ہیں۔‘‘
’’میں نے عروبہ کا رشتہ مانگنا چاہا میرے بیٹے نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ اس کی اور میری عمر میں بہت فرق ہے‘ یہ میری پہلی خواہش میرے بیٹے نے رد کی۔ اس تابعدار بیٹے سے مجھے یہ امید نہیں تھی۔ بہت سمجھایا‘ بہت آنسو بہائے لیکن وہ تو جیسے گم صم ہوکر رہ گیا تھا۔ تب میں غیر کا دروازہ کھٹکھٹانے نکلی‘ حریم کے رشتے پر بغیر دیکھے ہاں کردیا۔ آج کم از کم یہ بے اطمینانی میرے اندر زہر بن کر دوڑتی تو نہیں کہ کوئی غیر میرے بیٹے کو آکر ہتھیالے گی۔ عروبہ کی طرف سے ایک اطمینان تو ہوتا کہ اسی خاندان کی ہے‘ ماحول میں رچنے بسنے میں ٹائم بھی نہیں لگے گا اور بیٹے کی طرف سے بھی بے فکری رہتی۔‘‘
’’دیکھیں بھابی! آپ کا بیٹا صحیح رہے گا تو حریم آپ کے سکون کا بال بھی بیکا نہ کرسکے گی۔ اس لیے میری یہی صلاح ہے فرخ کو ہاتھ میں رکھیں۔ اس کے آرام و سکون کا اتنا خیال رکھیں کہ آپ سے دوری اس کے لیے سوہانِ روح بن جائے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب آپ اس کی خوشی میں اپنی خوشی ظاہر کریں گی‘ ساتھ ساتھ حریم کو بھی قابو میں رکھیں کبھی وہ آپ کے ڈر کو سمجھ نہ سکے۔ یہ جو منٹوں میں آپ بھڑک اٹھتی ہیں نا اسے ذرا قابو میں کیجیے ورنہ بیٹا تو آپ ہاتھ سے جائے گا ہی‘ ساتھ دنیا والوں کی چار باتوں کے لیے ڈر کو تیار رکھنا پڑے گا کہ اتنی جلدی بہو بیٹے کی محبت کھٹکنے لگی اور حریم میدان مارلے گی۔‘‘ یہ تھیں ثانیہ چچی خوش اخلاق‘ خوش گفتار‘ بات بات پر زبان دانتوں تلے دبا کر معصوم بننے والی خاتون‘ اس وقت الگ ہی روپ میں اس کے سامنے تھیں۔
’’بہت اپنے دل کو سمجھاتی ہوں‘ بہت اپنے من کو مارتی ہوں لیکن عنبر کی طرف سے جو تجربہ ہوا کہ میرا چہیتا دیور… میری ہر بات پر سر جھکانے والا ذیشان میرے ہاتھ سے نکل گیا اب تو شاذو نادر ہی رسم دنیا نبھانے آجاتا ہے لیکن عنبر معرکہ مار گئی۔ وہ جنگ میں حریم کو جیتنے نہیں دینا چاہتی۔‘‘
’’وہ بہت اعلیٰ پائے کی چیز ہے۔ کالج یونیورسٹی کی خاک چھانتے چھانتے کیا مردوں کو گرفت میں کرنے کے گُر سے واقف نہیں ہوئی ہوگی۔ تعلیم صرف لفظوں کی ہیرا پھیری نہیں سکھاتی بلکہ بہت کچھ سکھاتی ہے۔ اماں کو اپنی بھتیجی کچھ زیادہ ہی بھاگئی تھی خود تو اس جہانِ فانی سے گئیں ایک پھوٹ ڈالنے والی عورت کو ہمارے خاندان سے منسلک کر گئیں ورنہ سب دیور آج بھی اماں کے بعد آپ کے پلّو سے بندھے ہوتے۔ اس نے آتے ہی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ کرلی۔‘‘ چچی نے بے زاری سے کہا ۔
’’اور باتیں کیسی کرتی ہیں جیسے ان سے زیادہ عالمہ و فاضلہ کوئی نہیں۔ بس منفرد نظر آنے کا جنون اسے کہیں کا نہیں چھوڑے گا۔ وہ بھی بچوں والی ہے۔ دیکھتے ہیں خاندان سے کٹ کر رہنے والی کو کون اپنا تا ہے۔‘‘ یہ منجھلی چچی تھیں۔
’’یہی ڈر تو مجھے حریم سے ہے کہ میرا بیٹا بھی کسی جادو کے اثر میں گرفتار ہوکر نکل گیا تو میں ہاتھ ملتی رہ جائوں گی۔‘‘ ان کی آواز میں پھر سے نمی آگئی تھی۔ بہت ملی جلی آوازیں تھیں۔
اتنی تنگ نظری‘ تنگ دلی اور اتنی گندی گھریلو سیاست سے تو وہ آج ہی روشناس ہوئی تھی۔صبوحی خاتون‘ ثمرن کی ساری عنایتیں جو وہ بیٹے کی خوشنودی کے لیے نچھاور کرتی تھیں اصل میں فرخ کا سکون نہیں تھیں بلکہ اس کے گرد جال کا ایسا تانا بانا تھا جو گرفت میں کرنے کے لیے بُنا جارہا تھا اور سب کے سب ان کے حق میں بول رہی تھیں جیسے اس سے کوئی واسطہ نہ ہو۔
ساری تعریفیں اور ہنسی منہ دکھاوے کی تھیں‘ ان لوگوں کا باطن کچھ اور تھا۔ وہ خاموشی سے نیچے اتر گئی۔
سارے سوالوں کا جواب آج مل گیا تھا۔ عنبر چچی سسرال سے الگ کیوں ہوئی تھیں؟ انہوں نے کیا کیا تھا؟ اس سے اسے کوئی سروکار نہیں تھا اسے بس اپنی زندگی کو دیکھنا تھا۔ اس ایک ڈر کے لیے صبوحی خاتون میاں بیوی میں دوری بڑھادینا چاہتی تھیں‘ اسے تو گھر والوں نے یہ سکھایا ہی نہیں تھا کہ شوہر کو کیسے قابو میں کرتے ہیں۔ بہت دیر بعد وہ نیچے آئیں تو اسے کمرے میں دیکھ کر ٹھٹک گئیں۔
’’تم… کب آئیں؟‘‘ پیچھے سب لوگ بھی تھے وہ جان بوجھ کر بیڈ پر بکھری اپنی چادر تہہ کرنے لگی۔
’’ابھی آئی ہوں۔ آج گرمی بہت ہے۔‘‘ اس نے خوامخواہ پیشانی سے پسینہ صاف کیا۔
’’جائو ثمرن بھابی کے لیے شربت لے کر آئو‘ فرخ نہیں آیا؟‘‘ انہوں نے ٹٹولتی نگاہوں سے اسے تاڑا۔
’’نہیں! وہ کام میں مصروف تھے‘ میں خود چلی آئی۔‘‘ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کیسے اپنے دل کو قابو میں کرے۔کیسے اپنے اندر کی تلخی کو چھپائے‘ ڈرامہ باز تو تھی نہیں۔ جذباتیت بس کوٹ کوٹ کر بھری تھی کہ صاف صاف سامنے والے کے منہ پر سب کچھ اگل دیتی ۔ آج بھی لگ رہا تھا چیخ چیخ کر سب کو بتادے کہ تم لوگوں کی اصلیت کھل کر میرے سامنے آگئی ہے۔ تم لوگوں کی محبت‘ مکرو فریب کا ایک ایسا پردہ ہے جس کے پیچھے تم لوگوں کے دوسرے چہرے چھپے ہیں۔
رات کو اس بھید کا بھی پتا چل گیا جب فرخ سے ایسے ہی باتوں میں باتوں اس نے پوچھ ڈالا کہ کیا عروبہ کا رشتہ آپ کے لیے مانگا تھا امی نے۔
’’ہاں! تمہیں کیسے پتا چلا؟‘‘ وہ مسکرایا۔
’’یہ کوئی چھپنے کی بات ہے بھلا‘ جہاں لڑکے لڑکیاں ہوتے ہیں وہاں اس قسم کی بات عام ہوتی ہیں۔ حیرت کی بات تو بس یہ ہے کہ آپ نے انکار کیوں کردیا۔ وہ آپ کی خاندانی لڑکی تھی‘ آپ کی فیملی کے تمام اصول و قواعد کو سمجھنے والی اور شادی کے بعد یقینا پاسداری بھی کرتی پھرانکار کی کوئی تُک سمجھ میں نہیں آئی۔‘‘
’’کیوں! میں انکار کا حق نہیں رکھ سکتا کیا‘ یا میری کوئی مرضی نہیں تھی؟‘‘
’’جواز تو ہونا چاہیے۔‘‘
’’میری اس کی عمر میں بہت فرق تھا تمہیں نظر تو آرہا ہوگا۔‘‘ وہ دو ٹوک بولا۔
’’جہاں اتنی خوبیاں ہوں وہاں دس بارہ سال کے فرق کا بہانہ بہت کم ہے۔ مجھے بھی تو آپ نے نہیں دیکھا تھا لیکن ماں کی پسند پر فوراًاقرار کیوں کردیا ۔ مجھ سے چھپانے کا کیا فائدہ فرخ! تمام حقیقت ایک ایک کرکے آشکار ہورہی ہیں۔ ایک روز یہ بھی حقیقت کھل جائے گی خوامخواہ ہم دونوں کے بیچ ایک دوسرے کو نہ سمجھنے کا پردہ حائل ہوجائے گا۔ میں بیوی ہوں آپ کی‘ کون سا میں سب کے سامنے اس حقیقت کو کھولوں گی۔ عروبہ میری نظر میں بہترین لڑکی ہے۔ خوب صورتی اور خوش اخلاقی تو اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے‘ سب سے بڑھ کر امی کی پسند ہے۔‘‘
’’ہم کوئی اور بات نہیں کرسکتے۔ تم زبردستی مجھے نہ کریدا کرو اور یہ جو تم ہر بات کو ہوا بنا کر سر پر سوا کرلیتی ہو نا اس سے ذرا چھٹکارا پائو۔ یہ ٹینشن نہ تمہیں سکون سے رہنے دے گی نہ مجھے۔‘‘ بول کر اس نے منہ پھلا لیا۔
’’لیکن یہ چھوٹی چھوٹی باتیں نہیں‘ میری زندگی میں بچھی ننگی تاریں ہیں جہاں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی غلط قدم اٹھ گیا تو میری موت تیار کھڑی ہے۔‘‘ وہ سوچ کر رہ گئی پھر اختلافات بڑھتے چلے گئے۔ جہاں بدگمانی آجائے وہاں جھگڑے خودرو پودے کی طرح بڑھتے ہیں۔
صبوحی خاتون کو عدم تحفظ کا احساس چاٹ گیا۔ ان کے اکلوتے بیٹے پر حکمرانی کا شوق اس کے نوخیز ارمانوں کو اجاڑ بیٹھا۔ وہ تو کسی کو کسی سے جدا کرنے کا شوق لے کر ہی نہیں آئی تھی سب کے خود ساختہ خوف نے زندگی کی ہری بھری کھیتی میں سیم و تھور پیدا کردیئے تھے۔ اب اسے صبوحی خاتون اچھی لگتیں نا ان کے اہل خانہ۔ سب کے سب ایک لڑی میں پروئے نظر آتے۔ ضرورتاً بات کرلیتی بلکہ کتنے سوالوں کا جواب رکھائی میں دیتی اندر بڑھ جاتی۔
صبوحی خاتون کی پیشانی پر بل پڑ جاتے اس کے اطوار دیکھ کر جس کام کا دل ہوتا کرتی‘ جس کا نہیں ہوتا سر درد کا بہانہ بنا کر کمرہ بند کرلیتی۔ اب تو اس کا مزاج دیکھ کر نائمہ‘ عروبہ‘ ثمرن بھی دور ہی رہتیں۔ باتوں میں سرد مہری بڑھ گئی تھی۔
’’اپنی اصلیت دکھانی شروع کردی بھابی نے‘ کب تک مسکراہٹوں بھری زندگی گزارتیں۔‘‘ اس نے ثمرن کو کہتے سنا۔ دل تو چاہ رہا تھا نکل کر کہے میری مسکراہٹ تو تم لوگوں کے دوغلے رویئے نے ختم کردی‘ ورنہ میں کب ایسی گندی سوچ لے کر آئی تھی کہ اپنے شوہر پر حکمرانی کروں گی۔ میں نے تو سوچا تھا بیٹے کو بیٹا ہی رہنے دوں گی۔ شوہر کو اپنائوں گی‘ بھائی کی قدر بہنوں کی نظر میں بڑھائوں گی لیکن
جب شوہر میرا نہیں ہوسکا تو باقی رشتوں کا کیا کروں۔ اس نے آنسوئوں کو بہنے دیا۔
اس دن تو حد ہی ہوگئی‘ جب رات ایک بجے وہ آکر ٹی وی آن کرکے بیٹھا تھا
’’بیویاں مسکراہٹوں سے شوہر کے سارے دن کی تھکن اتار دیتی ہیں‘ ایک تم ہو مزید میرا موڈ خراب کررہی ہو۔‘‘
’’کیوں! امی کی محبت نے تھکن اتاری نہیں جو میرے آگے اس شکوے کی نوبت آگئی۔‘‘ کرخت لہجے پر اس نے بے ساختہ دیکھا۔
’’تم سدا میری ماں کی آگ میں خود بھی جلنا اور مجھے بھی جلانا۔ مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی کہ تم اتنی حاسد لڑکی ہوگی۔ ایک ماں کی محبت سے جلتی ہو۔ بہن کے ارمان بھرے مان پر حسد کرتی ہو۔‘‘
’’توقعات پوری کب ہوتی ہیںفرخ صاحب! کبھی اپنی بیوی کی تمنائوں کی طرف بھی نظر اٹھا کر دیکھیے کہ اس کی طلب کیا ہے کب تک ماں بہن کی جھوٹی آرزوئوں کے پیچھے بھاگیں گے۔ کیا میرے دل کی ساری طلب پوری ہوتی ہے جو میں آپ کے ہر تقاضے کوپورا کروں گی۔‘‘
’’کیا کمی ہے تمہیں یہاں؟ جو میری ماں بہن کو جھوٹا بنا رہی ہو۔ بن گئیں روایتی بہو جو سسرال والوں کو بُرا بھلا کہنے کے ساتھ شوہر کو بھی بے سکونی کی زندگی عطا کرتی ہے۔‘‘ اس کا چہرہ لال بھبھوکا ہورہا تھا۔
’’کمی کی بات کررہے ہیں آپ‘ یہاں ہے ہی کیا… یہ جو عالیشان گھر ہے نا اور رشتوں ناتوں کی کھوکھلی دیواریں ہیں یہ فریب ہے فریب… جزوی رشتوں کو ساتھ لے کر چلنے والے بنیادی رشتوں کو جو پکڑنے سے ڈرتے ہیں کہ کہیں تخت‘ تختہ نہ بن جائے‘ اپنی پیدائش اور تربیت پر مضبوطی کا احساس نہیں‘ احساس ہے تو بس اس کا کہ تیس سالہ محبت کو ایک لڑکی آکر تیس دن میں برباد نہ کردے۔ اتنے کچے احساس کے دھاگوں سے بندھی ہیں امی!‘‘ وہ چیخ پڑی۔ ایک زناٹے دار تھپڑ نے اس کا منہ سرخ کردیا۔ دونوں ماں بہن بھاگی ہوئی آئیں۔ حریم کی سرخ آنکھوں سے ایک لمحے کو تو دونوں وحشت زدہ ہوگئی تھیں‘ بمشکل خود کو کنٹرول کیا۔
’’کیا مسئلہ ہے… کیا ہوا…؟ روز تم لوگوں کے درمیان کسی نہ کسی بات پر بحث ہوتی ہے۔ ڈیڑھ ماہ ہوئے ہیں تمہاری شادی کو اور مار پیٹ کی نوبت آگئی۔ آگے زندگی کیسے گزرے گی۔‘‘
’’آگے زندگی آپ لوگوں کے ساتھ گزاریں گے تو اچھی ہی گزرے گی نا‘ میرے ساتھ تو ایسا ہی ہوتا رہے گا۔‘‘ وہ نظریں صبوحی خاتون پر ڈال کر پھنکاری۔ ’’کیونکہ میرے اور ان کے درمیان آپ ہیں‘ ہم دونوں کے درمیان لڑائی جھگڑے کا موجب۔ میں ہٹ جائوں گی تو آپ دونوں کے بیچ کوئی نہیں آئے گا۔‘‘
’’اے… لو…‘‘ وہ سٹپٹا گئیں۔ ’’کیا میں نے سکھا کر بھیجا تھا کہ یہ تم سے آکر لڑے۔ ارے قسم لے لو میں نے کبھی اسے کوئی پٹی پڑھائی ہو۔‘‘ آنسوئوں سے آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔
’’بیٹا ماں کی محبت میں آکر بیٹھتا ہے تو کیا یہ میں کہتی ہوں کہ میرے پاس آکر بیٹھے۔ آج بھی سر میں درد کی شکایت لے کر آیا تو میں نے سر میں تیل کی مالش کردی کہ سکون مل جائے گا۔ جب سے شادی ہوئی ہے اس کی ساری فرمائشیں اس کے منہ سے خود ہی نکلتی ہیں۔ کیا میں ہاتھ پکڑ کر اسے بٹھاتی ہوں۔‘‘ بیٹے کی ہمدردیاں بٹورنے کے سارے گُر سے واقف تھیں وہ۔
’’تمہاری شکایت تو دور کی بات‘ میں تو اپنے پاس سے اسے اٹھاتی ہی رہتی ہوں کہ بہو انتظار کررہی ہوگی ‘ جائو لیکن یہ سنتا نہیں ہے۔‘‘
’’میں تو کہتی ہوں آپ کو ان کی شادی کرانے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ ناحق شوہر بنادیا ہے آپ نے۔‘‘ وہ سر پکڑ کر باقاعدہ رونے لگیں۔
’’امی صحیح کہہ رہی ہے یہ‘ شادی کی ضرورت تو تھی لیکن اس حاسد عورت سے نہیں۔ کاش میں آپ کی پسند کو ہی ترجیح دے لیتا‘ آج کم از کم میں سکون سے تو رہتا۔‘‘ کھولتے دماغ پر ایک اور ضرب لگی۔
’’او… و… آگئے نا اپنی حسرت نا تمام کی گرفت میں‘ تبھی میں کہوں میرا شوہر جو میری ہی کسی خوبی سے واقف کیوں نہیں ہوتا۔ میری کوئی بھی خوبی اسے بھاتی کیوں نہیں۔‘‘ وہ زخمی ناگن کی طرح پھنکاری۔
’’تم عہد رفتہ کی محبت کو سینے سے لگائے بیٹھے ہو تو سن لو میری زندگی میں بھی کوئی تھا۔ صرف اور صرف ماں باپ کی عزت کی خاطر ان کی رضا میں ہامی بھری میں نے۔ اپنے تئیں اس نے ساری نا انصافیوں کا بدلہ لے لیا تھا۔‘‘ وہ حیرت سے مڑا تھا۔ صبوحی خاتون آنسو پونچھ کر اٹھ کھڑی ہوئیں۔ ثمرن نے اسے حیرت سے دیکھا کہ جیسے اس کے سامنے گندگی کا ڈھیرا پڑا ہو۔
’’پتا چل گیا نا آپ کو کہ بھائی بھابی کے درمیان تنازعہ کی اصل وجہ کیا ہے۔ جھوٹ موٹ آپ کو بدنام کررہی تھیں امی! پرانی محبت کے سحر میں گھل رہی تھیں۔‘‘ اب کے ثمرن نے زبان کھولی۔
’’توبہ… توبہ یہ کیسی بے حیا لڑکی ہے کہ اپنے شوہر اور سسرالی رشتوں کے آگے حقیقت تو کھول ہی رہی ہے ساتھ پرانی عاشقی کا پٹارہ بھی خالی کررہی ہے۔‘‘ پر کا پرندہ بن چکا تھا۔ وہ مطمئن تھی اب ہر بات کی توقع تھی اسے۔
’’تو… تم نے یہاں شادی کیوں کی‘ کوئی زبردستی تھی کیا تمہارے ساتھ یا میری ماں نے جوتے گھسا دیئے تھے تمہاری دہلیز پر۔ یا وہ کوئی لُچا لفنگا تھا کہ تمہارے ماں باپ نے میرے سر منڈھ دیا اسے ترجیح دینے کے بجائے۔‘‘

 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
نہیں تھیں بلکہ اس کے گرد جال کا ایسا تانا بانا تھا جو گرفت میں کرنے کے لیے بُنا جارہا تھا اور سب کے سب ان کے حق میں بول رہی تھیں جیسے اس سے کوئی واسطہ نہ ہو۔
ساری تعریفیں اور ہنسی منہ دکھاوے کی تھیں‘ ان لوگوں کا باطن کچھ اور تھا۔ وہ خاموشی سے نیچے اتر گئی۔
سارے سوالوں کا جواب آج مل گیا تھا۔ عنبر چچی سسرال سے الگ کیوں ہوئی تھیں؟ انہوں نے کیا کیا تھا؟ اس سے اسے کوئی سروکار نہیں تھا اسے بس اپنی زندگی کو دیکھنا تھا۔ اس ایک ڈر کے لیے صبوحی خاتون میاں بیوی میں دوری بڑھادینا چاہتی تھیں‘ اسے تو گھر والوں نے یہ سکھایا ہی نہیں تھا کہ شوہر کو کیسے قابو میں کرتے ہیں۔ بہت دیر بعد وہ نیچے آئیں تو اسے کمرے میں دیکھ کر ٹھٹک گئیں۔
’’تم… کب آئیں؟‘‘ پیچھے سب لوگ بھی تھے وہ جان بوجھ کر بیڈ پر بکھری اپنی چادر تہہ کرنے لگی۔
’’ابھی آئی ہوں۔ آج گرمی بہت ہے۔‘‘ اس نے خوامخواہ پیشانی سے پسینہ صاف کیا۔
’’جائو ثمرن بھابی کے لیے شربت لے کر آئو‘ فرخ نہیں آیا؟‘‘ انہوں نے ٹٹولتی نگاہوں سے اسے تاڑا۔
’’نہیں! وہ کام میں مصروف تھے‘ میں خود چلی آئی۔‘‘ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کیسے اپنے دل کو قابو میں کرے۔کیسے اپنے اندر کی تلخی کو چھپائے‘ ڈرامہ باز تو تھی نہیں۔ جذباتیت بس کوٹ کوٹ کر بھری تھی کہ صاف صاف سامنے والے کے منہ پر سب کچھ اگل دیتی ۔ آج بھی لگ رہا تھا چیخ چیخ کر سب کو بتادے کہ تم لوگوں کی اصلیت کھل کر میرے سامنے آگئی ہے۔ تم لوگوں کی محبت‘ مکرو فریب کا ایک ایسا پردہ ہے جس کے پیچھے تم لوگوں کے دوسرے چہرے چھپے ہیں۔
رات کو اس بھید کا بھی پتا چل گیا جب فرخ سے ایسے ہی باتوں میں باتوں اس نے پوچھ ڈالا کہ کیا عروبہ کا رشتہ آپ کے لیے مانگا تھا امی نے۔
’’ہاں! تمہیں کیسے پتا چلا؟‘‘ وہ مسکرایا۔
’’یہ کوئی چھپنے کی بات ہے بھلا‘ جہاں لڑکے لڑکیاں ہوتے ہیں وہاں اس قسم کی بات عام ہوتی ہیں۔ حیرت کی بات تو بس یہ ہے کہ آپ نے انکار کیوں کردیا۔ وہ آپ کی خاندانی لڑکی تھی‘ آپ کی فیملی کے تمام اصول و قواعد کو سمجھنے والی اور شادی کے بعد یقینا پاسداری بھی کرتی پھرانکار کی کوئی تُک سمجھ میں نہیں آئی۔‘‘
’’کیوں! میں انکار کا حق نہیں رکھ سکتا کیا‘ یا میری کوئی مرضی نہیں تھی؟‘‘
’’جواز تو ہونا چاہیے۔‘‘
’’میری اس کی عمر میں بہت فرق تھا تمہیں نظر تو آرہا ہوگا۔‘‘ وہ دو ٹوک بولا۔
’’جہاں اتنی خوبیاں ہوں وہاں دس بارہ سال کے فرق کا بہانہ بہت کم ہے۔ مجھے بھی تو آپ نے نہیں دیکھا تھا لیکن ماں کی پسند پر فوراًاقرار کیوں کردیا ۔ مجھ سے چھپانے کا کیا فائدہ فرخ! تمام حقیقت ایک ایک کرکے آشکار ہورہی ہیں۔ ایک روز یہ بھی حقیقت کھل جائے گی خوامخواہ ہم دونوں کے بیچ ایک دوسرے کو نہ سمجھنے کا پردہ حائل ہوجائے گا۔ میں بیوی ہوں آپ کی‘ کون سا میں سب کے سامنے اس حقیقت کو کھولوں گی۔ عروبہ میری نظر میں بہترین لڑکی ہے۔ خوب صورتی اور خوش اخلاقی تو اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے‘ سب سے بڑھ کر امی کی پسند ہے۔‘‘
’’ہم کوئی اور بات نہیں کرسکتے۔ تم زبردستی مجھے نہ کریدا کرو اور یہ جو تم ہر بات کو ہوا بنا کر سر پر سوا کرلیتی ہو نا اس سے ذرا چھٹکارا پائو۔ یہ ٹینشن نہ تمہیں سکون سے رہنے دے گی نہ مجھے۔‘‘ بول کر اس نے منہ پھلا لیا۔
’’لیکن یہ چھوٹی چھوٹی باتیں نہیں‘ میری زندگی میں بچھی ننگی تاریں ہیں جہاں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی غلط قدم اٹھ گیا تو میری موت تیار کھڑی ہے۔‘‘ وہ سوچ کر رہ گئی پھر اختلافات بڑھتے چلے گئے۔ جہاں بدگمانی آجائے وہاں جھگڑے خودرو پودے کی طرح بڑھتے ہیں۔
صبوحی خاتون کو عدم تحفظ کا احساس چاٹ گیا۔ ان کے اکلوتے بیٹے پر حکمرانی کا شوق اس کے نوخیز ارمانوں کو اجاڑ بیٹھا۔ وہ تو کسی کو کسی سے جدا کرنے کا شوق لے کر ہی نہیں آئی تھی سب کے خود ساختہ خوف نے زندگی کی ہری بھری کھیتی میں سیم و تھور پیدا کردیئے تھے۔ اب اسے صبوحی خاتون اچھی لگتیں نا ان کے اہل خانہ۔ سب کے سب ایک لڑی میں پروئے نظر آتے۔ ضرورتاً بات کرلیتی بلکہ کتنے سوالوں کا جواب رکھائی میں دیتی اندر بڑھ جاتی۔
صبوحی خاتون کی پیشانی پر بل پڑ جاتے اس کے اطوار دیکھ کر جس کام کا دل ہوتا کرتی‘ جس کا نہیں ہوتا سر درد کا بہانہ بنا کر کمرہ بند کرلیتی۔ اب تو اس کا مزاج دیکھ کر نائمہ‘ عروبہ‘ ثمرن بھی دور ہی رہتیں۔ باتوں میں سرد مہری بڑھ گئی تھی۔
’’اپنی اصلیت دکھانی شروع کردی بھابی نے‘ کب تک مسکراہٹوں بھری زندگی گزارتیں۔‘‘ اس نے ثمرن کو کہتے سنا۔ دل تو چاہ رہا تھا نکل کر کہے میری مسکراہٹ تو تم لوگوں کے دوغلے رویئے نے ختم کردی‘ ورنہ میں کب ایسی گندی سوچ لے کر آئی تھی کہ اپنے شوہر پر حکمرانی کروں گی۔ میں نے تو سوچا تھا بیٹے کو بیٹا ہی رہنے دوں گی۔ شوہر کو اپنائوں گی‘ بھائی کی قدر بہنوں کی نظر میں بڑھائوں گی لیکن
جب شوہر میرا نہیں ہوسکا تو باقی رشتوں کا کیا کروں۔ اس نے آنسوئوں کو بہنے دیا۔
اس دن تو حد ہی ہوگئی‘ جب رات ایک بجے وہ آکر ٹی وی آن کرکے بیٹھا تھا
’’بیویاں مسکراہٹوں سے شوہر کے سارے دن کی تھکن اتار دیتی ہیں‘ ایک تم ہو مزید میرا موڈ خراب کررہی ہو۔‘‘
’’کیوں! امی کی محبت نے تھکن اتاری نہیں جو میرے آگے اس شکوے کی نوبت آگئی۔‘‘ کرخت لہجے پر اس نے بے ساختہ دیکھا۔
’’تم سدا میری ماں کی آگ میں خود بھی جلنا اور مجھے بھی جلانا۔ مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی کہ تم اتنی حاسد لڑکی ہوگی۔ ایک ماں کی محبت سے جلتی ہو۔ بہن کے ارمان بھرے مان پر حسد کرتی ہو۔‘‘
’’توقعات پوری کب ہوتی ہیںفرخ صاحب! کبھی اپنی بیوی کی تمنائوں کی طرف بھی نظر اٹھا کر دیکھیے کہ اس کی طلب کیا ہے کب تک ماں بہن کی جھوٹی آرزوئوں کے پیچھے بھاگیں گے۔ کیا میرے دل کی ساری طلب پوری ہوتی ہے جو میں آپ کے ہر تقاضے کوپورا کروں گی۔‘‘
’’کیا کمی ہے تمہیں یہاں؟ جو میری ماں بہن کو جھوٹا بنا رہی ہو۔ بن گئیں روایتی بہو جو سسرال والوں کو بُرا بھلا کہنے کے ساتھ شوہر کو بھی بے سکونی کی زندگی عطا کرتی ہے۔‘‘ اس کا چہرہ لال بھبھوکا ہورہا تھا۔
’’کمی کی بات کررہے ہیں آپ‘ یہاں ہے ہی کیا… یہ جو عالیشان گھر ہے نا اور رشتوں ناتوں کی کھوکھلی دیواریں ہیں یہ فریب ہے فریب… جزوی رشتوں کو ساتھ لے کر چلنے والے بنیادی رشتوں کو جو پکڑنے سے ڈرتے ہیں کہ کہیں تخت‘ تختہ نہ بن جائے‘ اپنی پیدائش اور تربیت پر مضبوطی کا احساس نہیں‘ احساس ہے تو بس اس کا کہ تیس سالہ محبت کو ایک لڑکی آکر تیس دن میں برباد نہ کردے۔ اتنے کچے احساس کے دھاگوں سے بندھی ہیں امی!‘‘ وہ چیخ پڑی۔ ایک زناٹے دار تھپڑ نے اس کا منہ سرخ کردیا۔ دونوں ماں بہن بھاگی ہوئی آئیں۔ حریم کی سرخ آنکھوں سے ایک لمحے کو تو دونوں وحشت زدہ ہوگئی تھیں‘ بمشکل خود کو کنٹرول کیا۔
’’کیا مسئلہ ہے… کیا ہوا…؟ روز تم لوگوں کے درمیان کسی نہ کسی بات پر بحث ہوتی ہے۔ ڈیڑھ ماہ ہوئے ہیں تمہاری شادی کو اور مار پیٹ کی نوبت آگئی۔ آگے زندگی کیسے گزرے گی۔‘‘
’’آگے زندگی آپ لوگوں کے ساتھ گزاریں گے تو اچھی ہی گزرے گی نا‘ میرے ساتھ تو ایسا ہی ہوتا رہے گا۔‘‘ وہ نظریں صبوحی خاتون پر ڈال کر پھنکاری۔ ’’کیونکہ میرے اور ان کے درمیان آپ ہیں‘ ہم دونوں کے درمیان لڑائی جھگڑے کا موجب۔ میں ہٹ جائوں گی تو آپ دونوں کے بیچ کوئی نہیں آئے گا۔‘‘
’’اے… لو…‘‘ وہ سٹپٹا گئیں۔ ’’کیا میں نے سکھا کر بھیجا تھا کہ یہ تم سے آکر لڑے۔ ارے قسم لے لو میں نے کبھی اسے کوئی پٹی پڑھائی ہو۔‘‘ آنسوئوں سے آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔
’’بیٹا ماں کی محبت میں آکر بیٹھتا ہے تو کیا یہ میں کہتی ہوں کہ میرے پاس آکر بیٹھے۔ آج بھی سر میں درد کی شکایت لے کر آیا تو میں نے سر میں تیل کی مالش کردی کہ سکون مل جائے گا۔ جب سے شادی ہوئی ہے اس کی ساری فرمائشیں اس کے منہ سے خود ہی نکلتی ہیں۔ کیا میں ہاتھ پکڑ کر اسے بٹھاتی ہوں۔‘‘ بیٹے کی ہمدردیاں بٹورنے کے سارے گُر سے واقف تھیں وہ۔
’’تمہاری شکایت تو دور کی بات‘ میں تو اپنے پاس سے اسے اٹھاتی ہی رہتی ہوں کہ بہو انتظار کررہی ہوگی ‘ جائو لیکن یہ سنتا نہیں ہے۔‘‘
’’میں تو کہتی ہوں آپ کو ان کی شادی کرانے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ ناحق شوہر بنادیا ہے آپ نے۔‘‘ وہ سر پکڑ کر باقاعدہ رونے لگیں۔
’’امی صحیح کہہ رہی ہے یہ‘ شادی کی ضرورت تو تھی لیکن اس حاسد عورت سے نہیں۔ کاش میں آپ کی پسند کو ہی ترجیح دے لیتا‘ آج کم از کم میں سکون سے تو رہتا۔‘‘ کھولتے دماغ پر ایک اور ضرب لگی۔
’’او… و… آگئے نا اپنی حسرت نا تمام کی گرفت میں‘ تبھی میں کہوں میرا شوہر جو میری ہی کسی خوبی سے واقف کیوں نہیں ہوتا۔ میری کوئی بھی خوبی اسے بھاتی کیوں نہیں۔‘‘ وہ زخمی ناگن کی طرح پھنکاری۔
’’تم عہد رفتہ کی محبت کو سینے سے لگائے بیٹھے ہو تو سن لو میری زندگی میں بھی کوئی تھا۔ صرف اور صرف ماں باپ کی عزت کی خاطر ان کی رضا میں ہامی بھری میں نے۔ اپنے تئیں اس نے ساری نا انصافیوں کا بدلہ لے لیا تھا۔‘‘ وہ حیرت سے مڑا تھا۔ صبوحی خاتون آنسو پونچھ کر اٹھ کھڑی ہوئیں۔ ثمرن نے اسے حیرت سے دیکھا کہ جیسے اس کے سامنے گندگی کا ڈھیرا پڑا ہو۔
’’پتا چل گیا نا آپ کو کہ بھائی بھابی کے درمیان تنازعہ کی اصل وجہ کیا ہے۔ جھوٹ موٹ آپ کو بدنام کررہی تھیں امی! پرانی محبت کے سحر میں گھل رہی تھیں۔‘‘ اب کے ثمرن نے زبان کھولی۔
’’توبہ… توبہ یہ کیسی بے حیا لڑکی ہے کہ اپنے شوہر اور سسرالی رشتوں کے آگے حقیقت تو کھول ہی رہی ہے ساتھ پرانی عاشقی کا پٹارہ بھی خالی کررہی ہے۔‘‘ پر کا پرندہ بن چکا تھا۔ وہ مطمئن تھی اب ہر بات کی توقع تھی اسے۔
’’تو… تم نے یہاں شادی کیوں کی‘ کوئی زبردستی تھی کیا تمہارے ساتھ یا میری ماں نے جوتے گھسا دیئے تھے تمہاری دہلیز پر۔ یا وہ کوئی لُچا لفنگا تھا کہ تمہارے ماں باپ نے میرے سر منڈھ دیا اسے ترجیح دینے کے بجائے۔‘‘
ماں باپ کا خیال آتے ہی بہت بڑے خطرے کا احساس ہوگیا تھا کہ اپنے ہاتھوں ہی کسی کنویں میں گر گئی تھی وہ۔ بہت دنوں کی ٹینشن نے زبان سے یہ کیا نکلوادیا تھا۔
’’ارے… دھکے دے کر نکال اسے فرخ! بے غیرتی کی پوٹ کو جانے دے‘ اپنے عاشق کے پاس جس کی یاد میں کھوکر یہ تجھ سے لڑتی ہے اور ہمیں ذلیل کرتی ہے۔‘‘ ڈر کے بے لگام گھوڑے کو مضبوط لگام مل گئی تھی اب تو صبوحی خاتون جس طرح چاہے اسے موڑتیں اور قہقہہ لگاتیں۔
’’استغفار…ہمیں تو خبر ہی نہیں تھی اتنے خوب صورت چہرے کے پیچھے ایک مکروہ حقیقت ہے۔ بُلا اس کے ماں باپ کو پہلے تو انہیں ذلیل کروں گی کہ کیوں دھوکا دیا ہمیں‘ جو اپنی داغدار بیٹی کا پیوند ہمارے صاف شفاف خاندان میں جوڑ دیا۔ بہت شریف بنے پھرتے تھے نا‘ ظاہر ہے عیار ماں باپ کی بیٹی بھی عیار ہی ہوگی نا۔ ایسی خوب صورتی پر لعنت! ارے میری آنکھوں پر بھی اس کی معصوم صورت کی پٹی ایسی بندھی تھی کہ ایک دو ہی پھیرے میں رشتہ پکا کر بیٹھی۔‘‘
’’میرے ماں باپ کو کچھ مت کہیں‘ انہیں کچھ خبر نہیں۔‘‘ اب وہ گڑبڑا کر بیڈ پر بیٹھتی چلی گئی۔
’’کیوں ایسے ماں باپ کو کیوں نہ کچھ کہیں‘ جن کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اولاد جو چاہے کرتی پھرے۔‘‘
’’امی اب کچھ کہنے سننے کا وقت نہیں رہا۔ بلائیں اس کے ماں باپ کو فون کرکے اور اسے ان کے حوالے کردیں۔‘‘ فرخ شکست کھائے جواری کی طرح بیٹھا تھا۔ آنکھیں خالی خالی دیواروں کو دیکھ رہی تھیں‘ لب بھینچ گئے تھے۔ مٹھیاں فوم میں دھنس گئی تھیں۔
’’ماں باپ ہی نہیں‘ اس کا پورا خاندان آئے گا اور میرا بھی خاندان اکٹھا ہوگا تاکہ ہماری جگہ ہنسائی کا اعتراف وہ کریں‘ لڑکی ان کے حوالے کرنا کوئی بڑی بات نہیں۔ بڑی بات تو ہماری رسوائی کی ہے۔‘‘ اس کا رواں رواں کانپ گیا تھا۔ اب کیا ہوگا؟ سائیں سائیں دماغ میں صرف آندھیاں چل رہی تھیں۔ اپنے ہاتھوں بہت بڑی مصیبت کو دعوت دے دی تھی اس نے۔ انسان کی ہرکمی‘ ہر خامی برداشت ہوجاتی ہے لیکن کردار کی ذرا سی بھی چوک بہت بڑے خسارے کو دعوت دیتی ہے۔
صبوحی خاتون نے تمام رشتہ داروں کو بلوالیا۔ امی نے تو آتے ہی تھپڑوں کی بارش کردی۔ ابو کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا۔
’’تم نے اتنی بڑی بات بولنے کی جرأت کیسے کی۔ بڑھاپے میں سر میں خاک ملوانا چاہتی ہو کیا؟ ارے بولتے وقت ہماری عزت کا بھی خیال نہیں آیا۔ خود کو تو چھرا گھونپا ہی ہمیں بھی لہولہو کردیا۔‘‘ بھابی نے بیچ بچائو کرایا۔
’’امی بس کریں‘ دیکھیں اس کی حالت‘ کیا اس پر آپ کو اعتماد نہیں‘ اس نے کہا نہیں اس سے کہلوایا گیا ہے۔ کوئی تو محرک ہے اس کے پیچھے ورنہ حریم ایسی نہیں ہے۔‘‘ سدا کی ہمدرد بھابی نے اسے سینے سے لگا کر مزید تھپڑوں سے بچایا اور شعلہ بار نگاہوں سے سب کو دیکھا۔
واہ… یہاں تو حمایتی بھی کھڑے ہیں بجائے اپنی ندامت کا اظہار کرنے کے ہم لوگوں کو زیر بار کرنا چاہ رہی ہیں محترمہ!‘‘ بڑی ثانیہ چچی کی پھول برساتی زبان اس وقت انگارے اگل رہی تھی۔ لگ ہی نہیں رہا تھا یہ ہر وقت کی ہنستی مسکراتی خاتون ہیں جس کی بات بات پر سب قہقہے لگاتے تھے‘ محفلوں کی جان تھیں۔
بھابی کی زبان کو جیسے بریک لگ گیا اور کسی نے کیا حمایت میں بولنا تھا۔ بات ہی ایسی تھی کہ سب خاموش کھڑے تھے۔ آنسوئوں سے اس کا چہرہ تر ہورہا تھا۔
’’بیٹا! کیوں کیا تم نے ایسا بولو… ہم تو جانتے ہیں کوئی نہیں تھا تمہاری زندگی میں ورنہ ان لوگوں کو دھوکا کیوں دیتے‘ اب تمہارے منہ سے یہ بات نکل ہی گئی ہے تو تم خود ہی تصدیق یا تردید کرو۔ ورنہ میری زبان پر تو کبھی یہ لوگ یقین نہیں کریں گے۔‘‘
ابو کو اس کی حالت پر رحم آگیاتھا جس بیٹی کو سدا مسکراتے ہوئے دیکھا تھا‘ نہ لڑتے نہ جھگڑتے نہ بے جامن مانی کرتے۔اس کی زندگی میں آخر ایسا کیا در آیا تھا کہ اپنے آپ کو حقیر بنانے پر اتر آئی تھی۔
’’زیادہ معصوم بننے کی ضرور ت نہیں قیوم صاحب! جو بولنا تھا یہ بول چکی اب اپنے گھرمیں رکھ کر خود ہی اس کی صفائی سنتے رہیں۔ ہمیں بخشیے۔ اپنے حصے کی ذلالت ہمیں بھگتنے دیں‘ کس کس کو کیا کیا جواب دینا پڑے گا یہ ہم ہی جانتے ہیں۔ کبھی کسی بہو نے ایسا نہیں کیا تھا اس خاندان میں اس نے نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ جانے کون سی منحوس گھڑی تھی جب اسے دیکھ کر میں نے ہامی بھری تھی۔
’’دیکھیں بہن! ہمیں اپنی صفائی کا کچھ موقع تو دیں۔‘‘ ابو لجاجت سے بولے‘ اس روپ میں تو کبھی اس نے انہیں دیکھا ہی نہیں تھا۔
رضا کے لیے اس کا رشتہ آیا ضرور تھا ان سب نے بارہا چاہا کہ یہ رشتہ ہوجائے لیکن اس کے لیے حریم نے خود انکار کیا تھا۔ آپ جو چاہے قسم لے لیں‘ میں خود اس لڑکے کو بلا کر لاسکتا ہوں۔‘‘
’’تو پھر کیا‘ ہم نے اسے مجبور کیا کہ ایسا بولے یہ‘ یا خود سے الزام لگارہے ہیں۔ ہمیں اب نہ کچھ سوچنا ہے نہ سمجھنا آپ اسے لے کر جائیں‘ فیصلہ چند دنوں میں ہوجائے گا۔‘‘
 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
کزن پسند تھی تو کیوں نہیں کی تھی شادی اس سے‘ بیوی کو لاکر بھی اس کے حق اور فرائض سے بے گانہ ہوگیا‘ کسی نے زبردستی تو نہیں کی تھی اس کے ساتھ بہو کو بسانے کے لیے دل و دماغ وسیع کرنے پڑتے ہیں ورنہ گھر یونہی اجڑ جاتے ہیں اور بیٹا عقل والا ہو تو بیوی کے حقوق کی پاسداری بھی کرسکتا ہے ورنہ بہت مشکل ہوجاتی ہے۔‘‘ امی نے ساری بات سن لی تھی آگے بڑھی تھیں‘ اسے ساتھ لگانے کو۔
’’غلطی تو تم نے کرہی لی بیٹا!‘‘ وہ نکتے کی تلاش میں تھے کہ تمہاری خامیوں کا افسانہ بنائیں‘ تم نے تو قلم کاغذ ہی ان کے ہاتھ میں تھمادیا‘ اب کون کرے گا تمہاری بے گناہی کا اعتبار۔
’’بات کچھ بھی نہیں‘ فرخ کو کیا ضرورت تھی عروبہ کا ذکر بیچ میں لانے کی ایک تو بیوی کے مزاج کو سمجھا نہیں۔ اسے وقت نہیں دیا‘ ماں بہن کے پلّو سے بندھا رہا دوسرے پرانی محبت کا ذکر چھیڑ دیا۔ ایسے حالات بہت بے راہ رو کردیتے ہیں انسان کو۔ حریم بھی گھریلو سیاست سے واقف ہی کہاں ہوگئی ہے بس ڈیڑھ مہینے کی شادی شدہ زندگی سے اس کے مزاج کا بچپنا چلا جائے گا کیا…؟‘‘ بھابی آگ بگولہ ہورہی تھیں۔
’’رہنے دو اپنے خاندان کے حصار میں گم اسے۔ ان حالات میں یہ کہاں تک جنگ لڑ سکے گی تنہا‘ ابو! سب کچھ آپ کے سامنے ہے۔ جب تک فرخ کو خدا عقل نہیں دے گا‘ حریم کی زندگی کبھی نہیں سنور سکتی ہے۔ ابھی پوری زندگی ہے‘ کیسے بتائے گی اپنے آپ کو پامال کرکے یہ۔ رونے کے بجائے حقیقت کو فیس کرو۔ فرخ لوٹ آیا تو خدا کا شکر ادا کرنا ورنہ قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کرلینا۔ ایسے بے شرم لوگوں کے آگے جھکنے سے بہتر ہے خدا سے دعا مانگو۔‘‘ بھابی کے فیصلے کے آگے سب چپ ہوگئے۔ ’’اور کر بھی کیا سکتے تھے۔ معافی تلافی کے تمام راستے انہوں نے خود بند کردیئے تھے۔ غلطی کو غلطی ماننے پر تیار ہی نہیں تھے۔ ‘‘
صبوحی خاتون کو کئی مرتبہ ابو نے فون پر سمجھانے کی کوشش کی انہوں نے واضح الفاظ میں کہہ دیا۔
’’فرخ کے سامنے ساری صفائیاں پیش کیجیے اگر اس کے اندر شرم نہیں ہوگی تو ضرور آپ کی بات مان لے گا۔‘‘
اور فرخ تو نمبر دیکھ کر ہی فون آف کردیتا۔
طرح طرح کی چہ مگوئیاں لوگوں کی زبانی سننے کو ملتیں۔ بھابی کی چھوٹی بہن ثمرین کے ہی کالج میں پڑھتی تھی۔ اس نے ایک روز آکر بتایا کہ ثمرین اور عروبہ اپنے گروپ والوں کو بتارہی تھیں کہ ہماری بھابی نے تو کہیں ہمیں منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔
…٭٭٭…
وہ خزاں رسیدہ پتے کی طرح اجڑ کر رہ گئی تھی۔ اتنے دنوں میں احساس ہوا تھا۔ فرخ جتنا اس کی طرف سے بے پروا رہا تھا اسے اس سے اتنی ہی محبت ہوچکی تھی۔ یہ چاہت بھی خودرو پودے کی طرح ہوتی ہے نہ زرخیزی دیکھتی ہے نہ نمی سے اسے کوئی تعلق ہوتا ہے۔ ریگستان کے کسی کونے پر بھی لہلہا کر اپنے آپ کو منوالیتی ہے۔
رمضان کی آمد آمد تھی سب گھر والے اس کی تیاری میں لگے ہوئے تھے اور وہ بس چپکے چپکے ہی اس کے لوٹ آنے کا معجزہ ہوجانے کی دعا مانگتی وہ تو نہیں لوٹا لیکن ایک دن عنبر چچی اچانک چلی آئی تھیں۔ گھر والے تو حیران تھے ہی وہ خود پریشان ہو اٹھی کہ وہ اس کی حالت پر سب کی طرح ہنسنے آئی ہیں یا جھوٹا تاسف کا اظہار کرنے۔ آخر وہ بھی سسرالی ہی تھیں۔ چہرے پر نرم بھیگی سی مسکراہٹ لیے وہ بھابی کے ساتھ ڈرائنگ روم میں آبیٹھی تھیں۔ بے شک وہ تمام چچیوں سے زیادہ حسن کی مالک تھیں۔ اپنی شادی میں بس رسموں کے وقت انہیں سرسری دیکھا تھا اور مووی میں بھی خال خال ہی نظر آئی تھیں۔ کبھی انہیں سسرالی گیدر نگ میں بھی نہیں دیکھا تھا جو اس کے گھر آئے روز جمتی۔
’’میں آپ لوگوں سے کیا بات کروں ؟ حالات ہی کچھ ایسے ہیں کہ کھل کر ملنے کی مسرت کا اظہار بھی نہیں کرسکتی۔ پہلے حریم سے ملوں گی اگر آپ اجازت دیں تو؟‘‘
’’ضرور ملیے! لیکن اس کے زخموں کو ہرا مت کرکے جایئے گا‘ بڑی مشکلوں سے اس کے آنسو تھمے ہیں۔‘‘ امی ان لوگوں سے بہت تلخ ہوچکی تھیں۔
’’ایسا کوئی ارادہ میں لے کر نہیں آئی۔ لوگوں کے دکھوں کو میں محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں۔‘‘ ان کا لہجہ بھی اتنا ہی ٹھنڈا تھا۔ حریم کسی بے جان بُت کی طرح ان کے سامنے بیٹھی تھی۔
’’پتا نہیں آپ میری بے بسی کا تماشا دیکھنے آئی ہیں یا ہمدردی کا اظہار کرکے اپنا کردار ادا کرنا چاہتی ہیں‘ آخر سب سے الگ تو نہیں ہوں گی نا آپ۔‘‘ وہ اس کے لال بھبھوکا چہرے کو دیکھے گئیں۔
’’ایسی کوئی خواہش ہوتی تو سب کے ساتھ ہی تماشا دیکھتی خدا کا خوف کیے بغیر۔ میں تو سب کو ایک طرف چھوڑ کر تمہارے پاس آئی ہوں تمہارا دکھ بانٹنے بتائو حریم تم نے ایسا کیوں کیا؟ کوئی لڑکی اپنی زبان سے ایسا بھی بول سکتی ہے کیا؟‘‘ انہوں نے اس کے آنسو صاف کیے۔’’اگر اپنی خوشی سے ایسا کہتی تو آج یہ حالت تمہاری نہیں ہوتی۔‘‘
ان کا انداز‘ لہجہ کی پھوار سے بڑھ کر حریم پر اعتماد کے اظہار نے انہیں سب کچھ بتادینے پر مصر کیا تھا کہ وہ ایک ایک لفظ بتاتی گئی جیسے سامنے کوئی سسرالی نہیں۔ ماں بہن بیٹھی ہیں وہ ایک ایک لفظ ایسے سن رہی تھیں گویا کوئی مسیحا اپنے مریض کے بول پر ہی نہیں اس کے تکلیف دہ تاثرات پر بھی نظر رکھتا ہے۔
انہوں نے سب سن لینے کے بعد گہری سانس لی تھی‘ بہت سا وقت خاموشی کی نذر ہوگیا تھا۔

’’تو تم نے ہار مان لی اپنے ہی اوپر سارے الزام کو سچ ثابت کرنے کے لیے من گھڑت کہانی گھڑ لی۔ بجائے اس کے کہ حالات کو اپنے فیور میں کرتیں‘ خود حالات کے رحم و کرم میں بہہ گئیں۔‘‘
’’کیا کرتی؟ میرے ساتھ تو میرے شوہر کی بھی سپورٹ نہیں تھی۔ سب سے بڑا دکھ تو اسی بات کا تھا۔ آپ یہ بتائیں ان کی رشتہ دار ہوکر آپ میرے حق میں بولیں گی یا خلاف… یہ سب رام کہانی سن کر فائدہ؟ کیا کرلیں گی آپ؟‘‘
’’دیکھو! کیا کرتی ہوں میں‘ شاید خدا مجھے کچھ کرنے کے قابل بھی بنائے‘ میں خود تین بیٹیوں کی ماں ہوں۔ بُرا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ تم یہ بتائو فرخ سے محبت ہے تمہیں؟‘‘ انہوں نے اس کی آنکھوں میں جھانکا وہ نظریں چرا گئی۔
’’ایسی یک طرفہ محبت نے تو مجھے ڈبویا ہے۔‘‘
’’محبت ڈبویا نہیں کرتی پتوار بن جاتی ہے‘ دکھوں کے سمندر میں یقین رکھو۔ اچھا میں پھر آئوں گی۔ انہوں نے اس کا ہاتھ تھپتھپایا تو ایک سکون کی لہر جیسے وجود میں سرایت کرگئی پھر دو تین دن ایسے ہی گزر گئے گھر والے بھی مخمصے میں پڑے ہوئے تھے کہ صبوحی بیگم اور ان کے گھر والوں جیسے طوفان کا سامنا یہ ہستی کیسے کر پائے گی لیکن اس روز سے حریم کی آنکھ میں آنسو نہیں آئے تھے‘ بس ایک انتظار سا لگا رہتا تھا۔ جیسے کسی پل وہ فرشتہ صورت دوبارہ آن ٹپکے گی اور واقعی وہ آگئیں۔
’’آج مجھے حریم سے بہت ساری باتیں کرنی ہیں پلیز ہمیں تنہائی دیجیے گا۔‘‘ وہ ایسے ہی شگفتگی سے بولتی تھیں کہ سب کی بولتی بند ہوجایا کرتی وہ اس کے کمرے میں بیٹھی تھیں۔ آنکھوں سے چشمہ ہٹا کر ایک طرف رکھا بے شک ان کی آنکھیں بھی بے پناہ خوب صورت تھیں جو خوب صورت فریم والے چشمے کے اندر سے بھی اپنی دلکشی کا ثبوت پیش کرتیں۔ ’’آج میں اپنی کہانی تمہیں سناتی ہوں حریم! تم بور تو نہیں ہوگی لیکن میری کہانی میں تمہیں اپنا پن ضرور نظر آئے گا۔‘‘
’’میں آپ کی کسی بات سے بور نہیں ہوتی ہوں چچی!‘‘ بہت دنوں بعد وہ مسکرائی تھی۔
’’چلو ٹھیک ہے‘ پھر میں سناتی ہوں‘ صبوحی بھابی! جو تمہاری ساس ہیں انہیں حکمرانی کا شوق آج کا نہیں بہت پہلے کا ہے کیونکہ جٹھانیوں میں سب سے بڑی ہیں تو بھی ان کے اس شوق کو خوب ہوا ملی۔ ساس بھی اللہ جنت نصیب کرے‘ ضعیف تھیں۔ اس لیے انہیں سسرال میں لاتے ہی اپنے ساتوں بیٹوں کو ان کے سپرد کرکے خود کنارہ کش ہوگئیں۔ صبوحی بھابی نے سب کو خوشی خوشی سنبھالا دیا۔ ان کی اس خوبی کی تعریف کرنا بے جا نہ ہوگا کہ چھوٹے چھوٹے دیوروں کو کھلانا پلانا منہ دھلوانا بھی وہ اپنے ہاتھوں سے کرتی تھیں ان کی ایک ایک ضرورت کا خیال رکھتیں جو آج کل لڑکیوں میں شاذو نادر ہی دیکھنے میں ملتی ہیں۔ اب ان خوبیوں کے پیچھے ان کا خلوص تھا یا حکمرانی کا جذبہ یہ کوئی نہیں جان سکتا تھا۔ ساس نے بھی ان پر آنکھیں بند کرکے اعتماد کیا۔ ان کی یہ خوبی کھل کر تب سامنے آئی جب انہوں نے دیورانیوں کو گھر میں لانا شروع کیا۔ دیور پوری طرح ان کی مٹھی میں تھے تو دیورانیوں کو کیسے پیچھے چھوڑدیتیں۔ سب کی سب انہی کے رنگ میں رنگتی گئیں۔ کس سے کیسے کام نکلوانا ہے‘ ساس کی نظر میں کسے بہتر اور کسے بہتر ثابت کرنا ہے یہ وہ اچھی طرح جانتی تھیں۔ دیورانیوں نے بھی اپنی عافیت اسی میں جانی کہ ان کی ہاں میں ہاں ملائی جائے بھلے سے پیٹھ پیچھے وہ اپنی جٹھانی کو کوسنے دیں۔‘‘
چہرے کی ملمع کاری سے تو حریم بھی اچھی طرح واقف ہوچکی تھی چپ بیٹھی سنتی رہی۔
’’مجھے ناپسند کرنے کی سب سے پہلی وجہ ان کی یہ تھی کہ میں صبوحی بھابی کی منتخب کردہ دیورانی نہیں بلکہ ساس کی پسند سے آئی بہو تھی۔ میں ان کی بھتیجی تھی اس لیے پھوپو نے مجھے بہت پہلے سے ذیشان کے لیے پسند کیا تھا۔ دوسری وجہ ناپسندیدگی کی یہ تھی کہ میں ان کی ہاں میں ہاں نہیں ملاتی تھی بلکہ صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہتی تھی۔ پتا نہیں بس بچپن سے ہی یہ خوبی مجھے ورثے میں ملی تھی اپنی اس عادت کی بناء پر میں نے نقصان بھی بہت اٹھائے لیکن کیا کروں مجھ سے دوغلی چال چلی ہی نہیں جاتی ہے۔ ذیشان کو میں نے ان کی گرفت سے اس لیے دور رکھا کہ جنہیں میں پسند نہیں وہ میرے شوہر کو بھی میرا نہیں ہونے دیں گی۔ میں نے صاف کہہ دیا بھابی کی گیدرنگ سے رات دو بجے اٹھ کر آنے کی ضرورت نہیں خوامخواہ میری بھی نیند خراب ہوتی ہے وہیں کسی کونے میں سوجایا کریں۔ انہیں فری ہینڈ دے دیا‘ میری اس چال کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہیں میری بے اعتنائی کھلنے لگی۔ میں نے تو اپنے دل کو ایسے ہی مضبوط کرلیا تھا کہ خوامخواہ کی چپقلش کا کوئی فائدہ نہیں‘ جو میرا ہوگا وہ میرا ہی رہے گا لیکن خدا نے میرے دل کی سن لی وہ میری قدر آہستہ آہستہ جاننے لگے اور یہ بھی کہ میں کس مزاج کی ہوں۔ میں رشتوں کی بے انصافی چاہتی ہی نہیں ہوں۔ ہر رشتے کے تقاضے کو مجھے پہچاننے تک کا حوصلہ بہت آہستگی سے ہوا‘ حریم تمہاری طرح جلد بازی میں آتی تو شاید میرا گھر بھی اجڑجاتا۔‘‘
’’پھر میری بیٹیوں نے زندگی میں آکر ہم دونوں کے درمیان رہی سہی دوری ختم کردی۔ یہی بات صبوحی بیگم کو اور میرے خلاف بھڑکاگئی کہ وہ ذیشان کو میرے خلاف نہیں کرسکیں پھر میری ان کی تعلیم کا فرق میں نے کبھی نہیں لاگو کیا وہی لوگ سر پر سوار کیے رکھتیں‘ ماحول اور سب سے بڑھ کر مزاج کے فرق نے انہیں مجھ سے بہت دور کردیا بس میرے صبر نے ذیشان کی محبت کی صورت میں پھل دے دیا۔ بہت طعنے سنے بہت طنز برداشت کیے۔ شاید عنبر جادو جانتی ہے میکے جاتی ہے وہیں سے تعویز گنڈے لے کر آتی ہے ورنہ ذیشان ایسا نہ تھا۔ ساس سے زیادہ وہ آہیں بھرتی‘ انہیں یہ نہیں معلوم کہ نیک نیتی خود سب سے بڑا جادو ہے جو سر چڑھ کر بولتی ہے تو بدنیتی کی بولتی بند کروادیتی ہے۔ پالنے پوسنے سے زیادہ انسان کی نیت کا اس کی زندگی میں عمل دخل ہوتا ہے۔ احسان کرکے کسی فقیر کو بھی بھیک عطا کریں

گے تو وہ نیکی ضائع کردی جاتی ہے۔‘‘
’’تم نے نوٹ کیا ہے ہماری اکلوتی نند ان کے گھر کیوں نہیں آتی ہیں؟‘‘ اس کے ذہن میں جھماکا سا ہوا۔
’’انہیں بھی بس شادی کی مووی میں دیکھا تھا لیکن ان کی غیر موجودگی کو کبھی محسوس نہیں کیا۔‘‘
’’ہاں… وہ تو کبھی نظر نہیں آتیں۔‘‘
’’کیونکہ ان کے میاں بھی صبوحی بھابی کے بہت گرویدہ تھے ایک مرتبہ دونوں میاں بیوی کے درمیان کوئی تنازعہ ہوگیا تو بجائے معاملہ سلجھانے کے وہ نندوئی کی ناجائز باتوں کی حمایت میں بولنے لگیں تاکہ مرد کی نظر میں ان کی اچھائی بڑھ چڑھ کر ثابت ہو‘ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی لڑائی بہت بڑے معرکے کی صورت اختیار کرگئی۔ مجھ سے برداشت نہیں ہوا میں بیچ میں آگئی ان کے گھر جاکر انہیں سمجھایا دونوں کو ایک دوسرے کی قدر کا احساس دلایا تب کہیں جاکر میری نند کا گھر بس پایا۔ سب تمہیں بتانے کا مقصد کسی کی برائی کو اچھالنا نہیں بلکہ تم خود ان کے ہر وصف سے واقف ہوچکی ہو۔ مقصد صرف یہ ہے کہ نامساعد حالات میں بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ میرے ساتھ تو خیر دیورانی جٹھانی کی جنگ ہے لیکن تمہاری وہ ساس ہیں‘ تمہیں قدر کرنا پڑے گی‘ بہت حوصلے اور تحمل سے ہی فرخ کو اپنا بناسکتی ہو‘ ورنہ اس جنگ میں جہاں تم نے ہتھیار ڈال دیئے وہیں ہار تمہارا مقدر بن جائے گی۔ ہر رشتے کو پہچاننا سیکھو‘ دستبردار کسی سے نہ ہو۔‘‘
’’لیکن کیسے چچی! فرخ عروبہ کو پسند کرتے تھے جانے کیسے ان کی مجھ سے شادی ہوگئی۔ ایسے حالات میں میں باقی رشتوں کو کیا قدر دوں گی۔‘‘
’’کس نے کہا فرخ عروبہ کو پسند کرتا ہے؟ وہ بھی جذباتیت میں بول بیٹھا تھا لیکن ہمارے معاشرے کا یہ المیہ ہے مرد کی جذباتیت پر مردانگی کا پردہ ڈال دیا جاتا ہے اور عورت کی جذباتیت اس کے لیے الزام بن جاتی ہے۔‘‘
’’لیکن… یہ سب آپ کو کیسے پتا؟ فرخ کے دل کا حال آپ کیسے جانتی ہیں؟‘‘
’’’اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اس نے عروبہ کو ٹھکرا کر تم سے شادی کی‘ جب کہ پورا گھر عروبہ کا دیوانہ ہے۔ فرخ عروبہ کو سخت ناپسند کرتا ہے‘ اظہار نہیں کرسکتا کہ خاندانی لڑکی ہے ایک ذرا سی بات پورے خاندان میں آگ بھڑکا سکتی ہے اس لیے بس اپنے کام سے کام رکھتا ہے۔‘‘
’’عروبہ کا کردار مشکوک ہے‘ فرخ نے خود کئی لڑکوں کے ساتھ کبھی شاپنگ سینٹر میں کبھی آئسکریم پارلر میں دیکھا ہے۔ اسی لیے اس نے اپنی ماں کی پسند کو ریجیکٹ کرکے تمہیں اپنایا۔ وہ سب باتیں تو بس غصے میں کہی گئیں کچھ شیطانی لمحات کی کارستانی تھی۔ وہ تمہیں چاہتا ہے حریم! بس اظہار کرنے سے قاصر ہے۔‘‘
’’اسی ایک خامی نے اسے تخت سے تختہ کا سزا وار بنادیا۔‘‘
’’کیسے یقین کرلوں چچی کیسے…؟ آپ تو خود ابھی جوان ہیں‘ شادی کو دس ہی سال ہوئے ہیں‘ کیا سمجھتی نہیں ہوں گی کہ مان اور عزتِ نفس کے بغیر ایک عورت کی زندگی کتنی کھوکھلی ہوتی ہے۔ ان سب کے بغیر کیسے سب کی عداوتوں کا بوجھ اٹھا سکتی تھی کچھ تو درکار ہوگا مجھے بھی اپنی مضبوطی کے لیے۔‘‘
’’صبر اور انتظار ہی تمہیں حوصلہ دے سکتے ہیں اور تمہاری محبت آہستہ آہستہ فرخ کو اپنا گرویدہ بناسکتی ہے‘ وعدہ کرو… تم حوصلہ نہیں ہارو گی۔ سب کی باتیں ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دینے کا وصف سیکھو‘ دیکھنا حالات تمہارے حق میں بول اٹھیں گے۔ فرخ کے دل میں پنہاں محبت کو تم ہی اجاگر کرسکتی ہو۔ وہ دل کا بُرا نہیں‘ بس گھر والوں کی محبت اور بیوی کے حق میں توازن برقرار نہیں رکھ پایا ہے۔ وہ میرے پاس آتا ہے‘ مجھے سمجھتا ہے۔ جو اپنی چچی کو پہچاننے کی صفت رکھتا ہے وہ بیوی کو کیوں نہیں پہچانے گا؟‘‘
پے در پے حیرانیوں کا سلسلہ چل رہا تھا جن کے خلاف گھر والے تھے ان کو مان دیتا ہے ان کی مسیحا صفتی کو پہچانتا ہے۔
’’میں نے بہت سمجھایا ہے اسے‘ تم سے میرا کوئی خونی رشتہ نہیں لیکن اجڑے لوگوں کو آباد کرنے میں خدا جہاں میرا وسیلہ بنائے گا وہاں میں کھڑی ہوجائوں گی۔‘‘
’’فرخ تمہیں مان دے گا حریم! بس اپنا حوصلہ قائم رکھنا۔‘‘ انہوں نے اس کی آنکھ میں آئے آخری آنسو بھی پونچھ ڈالے۔
’’تم تیار ہونا اس گھر میں جانے کے لیے؟‘‘
’’خود سے تو گھر والے جانے بھی نہیں دیں گے جتنی تذلیل انہوں نے میرے ساتھ ساتھ میرے گھر والوں کی ہے‘ اس کے بعد کیا یہ ممکن ہے؟‘‘
’’ٹھیک ہے‘ پھر فرخ کا انتظار کرو۔ آہستہ آہستہ یہ مرحلہ بھی میں طے کر لوں گی۔ اب اپنی پیاری سی مسکان کا تحفہ مجھے دو تاکہ میں جائوں۔‘‘ وہ مسکرائیں تو اس کے چہرے پر بھی گلاب کھل اٹھے تھے۔
’’آپ جیسی عورت خضرِ راہ ہیں چچی! میری زندگی کو سنوار دیا آپ نے‘ اب آپ کے کہے ایک ایک لفظ کی پاسداری کروں گی میں۔ اگر آپ جیسی ایک عورت بھی ہر خاندان سے منسلک ہوگی تو وہ خاندان کبھی نہیں بکھرے گا۔ یہ دعویٰ ہے میرا…!‘‘
 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
’’ضروری نہیں ہر عورت ہی ایک رنگ میں ڈھل جائے۔ حاسد‘ غاصب اور چغل خور کے روپ میں‘ کچھ عورتوں کو تو اپنا منفرد مقام بنانا چاہیے‘ خاندانی سیاست سے ہٹ کر‘ بھلے وقتی پریشانی ہو تو ہو۔ اتنی زیادہ تعریفیں ‘ باقی آئندہ وقتوں کے لیے اٹھا رکھو تم سے تو دوستی رہے گی ان شاء اللہ۔ اوکے‘ اللہ حافظ۔‘‘
…٭٭٭…​
گھر والے بھی کاپا پلٹنے پر شکر گزار تھے ان کے کہ کوئی تو ان کی بات سمجھنے کے لیے کھڑا ہوا۔ مصلحت پسندی ہر ایک کو خدا ودیعت نہیں کرتا یہ تو اپنے نیک بندوں کے لیے ایک انعام ہے کہ خود بھی سکون سے رہتے ہیں اور دوسروں کی راہ سے بھی بے سکونی کے کانٹے چن دیتے ہیں۔
اب عید کے دن قریب آتے جارہے تھے اور اس کا اضطراب بڑھتا جارہا تھا کہ اب تک نا تو چچی نے کوئی خبر لی نا فرخ آیا اب عید میں تین چار روز رہ گئے تھے کہ اچانک سے فرخ آگیا اسے لینے جسے دیکھ کر اس کی آنکھیں نمناک ہوگئی تھیں اس نے کھل کر اسے رونے دیا۔
’’میں تو غلطی پر تھا‘ تم نے اس سے بڑی بھول کرلی۔ کیا سمجھوں اسے‘ تمہاری نادانی یا جذباتیت…؟‘‘
’’جو بھی تھا‘ سزا تو میرے پورے خاندان کو ملی۔ اپنے ماں باپ کو میں نے ہی رسوا کردیا۔‘‘
’’میں معافی مانگ چکا ہوں‘ سب سے باقی میرے گھر والوں کو اللہ ہدایت دے اور میں کیا کرسکتا ہوں۔‘‘
’’میں امی کے دل سے یہ ڈر نکال دوں گی فرخ! کہ میں ان کے اکلوتے بیٹے کو ان سے چھیننے آئی ہوں۔ اب اپنی محبت اور خلوص سے اس وسوسے سے باہر لانا ہے انہیں۔‘‘
’’تمہیں بھی میری طرف سے کوئی شکایت اب نہیں ہوگی۔اعتماد اور مان دوں گا تمہیں تاکہ کسی مقام پر تمہیں کسی کمی کا احساس نہیں ہو۔ حریم یہ وعدہ ہے میرا۔ اور اب عید میں بھی تین دن رہ گئے ہیں چلو اب گھر چلو…‘‘
’’امی ابو نے کیا کہا ہے؟‘‘ اس نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
’’سب نے مجھ پر فیصلہ چھوڑ دیا ہے کہ آج لے جانا چاہوں تو کوئی مسئلہ نہیں اور عید تک تمہیں رہنے دوں تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں لیکن میرا موڈ نہیں اب تمہیں چھوڑنے کا۔‘‘ وہ شرارتی ہوا۔
’’ہوں…!‘‘ اس نے جھٹکے سے سر اٹھا کر اس کے بدلے بدلے انداز دیکھے‘ منزل بہت دور نہیں تھی۔
خوش گمانیاں خوش قسمتی میں بدلتی نظر آرہی تھیں لبوں پر دھیمی سی مسکان نے ہمیشہ کے لیے قبضہ کرلیا تھا۔
’’اور وہ کہاں ہیں؟ میری زندگی کے اندھیروں کو اجالا بخشنے والی۔‘‘ اس نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ وہ پری چہرہ‘ فرشتہ صفت ہستی نظر نہیں آئی تھیں جن کی بدولت آج وہ بے پایاں محبتوں کے احساس سے سرشار تھی۔ ایک اعتماد اس کے ساتھ تھا۔
’’ان کی بچیوں کے اسکول میں آج ’’یوم والدین‘‘ ہے۔ وہ وہیں گئی ہیں ۔ اتنی مصروفیت کے ساتھ دوسروں کے دلوں کا اتنا خیال رکھتی ہیں۔ ان کی بچیاں بھی ان ہی کی طرح نیک خصلت‘ معصوم اور پیاری ہیں۔‘‘ وہ مسکرایا۔
’’ظاہر ہے گلاب کے پودے میں گلاب ہی اُگیں گے نا۔ کتنی خوش بُو ہو گی ان کے گھر آنگن میں۔ نیک سیرتی کی مہک اور چمک ہی الگ ہوتی ہے‘ ہے نافرخ!‘‘ اس نے تائید کے لیے اسے دیکھا۔
’’صحیح کہہ رہی ہو۔ نیک سیرتی غریب کے آنگن کو بھی نور عطا کردیتی ہے۔ اسے زیبائش و آرائشں کی ضرورت نہیں پڑتی۔‘‘
’’میری تمام عمر کی دعائیں ان کے ساتھ رہیں گی کہ خدا ان کی بچیوں کے لبوں سے مسکان کو کبھی جدا نہ کرنا۔ جہاں جہاں وہ قدم رکھیں وہیں وہیں پھول کھلیں۔ آمین‘‘
دل میں سرشاری ہی ایسی تھی کہ عنبر چچی کے لیے الفاظ بھی کم پڑر ہے تھے۔ ایسی عورتیں دنیا کے لیے ایک انعام ہوتی ہیں جو سب سے ہٹ کر کردار ادا کرتی ہیں۔ ہنر جانتی ہیں پتھروں میں پھول اگانے کا۔ نم آنکھوں میں مسکراہٹ کے جگنو بھرنے کا۔
قصہ نصف بہتر کا… مسز حرا امجد‘ کینیڈا
نصف بہتر کا مطلب تو ہے ایک آدھا دوسرے آدھے سے بہتر ہے اور ہم یہ زیادہ تر میاں بیوی کے تعلقات کے لحاظ سے استعمال کرتے ہیں اور یہ تقریباً ہر گھر کا قصہ ہے۔
نصف بہتر عموماً اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب کسی کام کی تفصیل میں بحث ہوتی ہے اور خواتین کو ہی نصف بہتر کہا اور سمجھا جاتا ہے۔ کہنے کو تو ہر چیز میں شراکت ہوتی ہے مگر کام کا زیادہ تر بوجھ ہر گھر میں آخر میں عورتوں پر ہی پڑتا ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ عورت گھر کے کام کاج میں ذمہ دار ٹھہرائی جاتی تھی اور مردوں کے ذمہ باہر کے کام ہوتے تھے مگر آج کل عورت گھر کی ذمہ داری بھی اٹھا رہی ہے اور باہر مرد کے ساتھ کام بھی کر رہی ہے۔
لوگ سوچتے ہیں وہ کون سا بہتر زمانہ تھا جب عورت مزے سے گھر کے کام کاج میں مصروف رہتی تھی اور باہر نکلنا کبھی کبھی ہوتا تھا۔ یا یہ زمانہ جب تقریباً روز ہی وہ اپنے شوہر کے ساتھ اس کی ذمہ داریاں نباہ رہی ہوتی ہے۔
آج کے دور میں ہر چیز بھاگ رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی کیسے کیسے جوڑے بنائے ہیں۔ اب ہر ایک تو بہتر اور نصف بہتر ہو نہیں سکتا۔ کوئی پورا بہتر بھی ہوسکتا ہے اور کوئی بہترہی نہیں ہوتا۔
دراصل بات یہ ہے کہ…! ارے ٹھہریے پہلے ہم آپ کو اپنے گھر اور گھر والوں کے متعلق تو کچھ بتا دیں تاکہ اتنی لمبی تمہید کا مطلب بھی واضح ہوجائے۔
ہمارا گھر تین پورشن میں بنا ہوا ہے۔ گیٹ سے داخل ہوتے ہی دائیں ہاتھ پر سیڑھیاں ہیں جو بالائی منزلوں کی طرف جاتی ہیں اور بائیں جانب دو دروازے ہیں جو ہماری جٹھانی صاحبہ کی رہائش گاہ ہے۔ جہاں وہ پورے طمطراق سے رہتی ہیں اور ہر آنے جانے والے پر نظر رکھنا ان کا بہترین مشغلہ ہے۔
درمیان والے پورشن میں ما بدولت کی چھوٹی سی سلطنت ہے۔ جہاں ہم ایک عدد بادشاہ سلامت (میاں) اور دو شہزادیوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ خیر یہ تو تھامختصر سا تعارف اور اب اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔
مطالعہ کا شوق تو ہمیں شروع سے ہی تھا۔ لیکن ابھی کچھ عرصہ سے ہمیں محسوس ہوا کہ ہمارے اندر بھی لکھنے لکھانے کے جراثیم موجود ہیں اور باہر آنے کے لیے کلبلا رہے ہیں۔ لہٰذا ہم نے ان جراثیم کو باہر لانے کے لیے کمر کس لی۔ ہم نے سوچا کوشش کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ مدیر صاحب کی حوصلہ افزائی ہوئی تو ٹھیک ہے اور نہ ہوئی تو کیا ہوا ہمارے اندر کا رائٹر تو زندہ رہے گا۔
بڑے سوچ بچار کے بعد ہم نے اپنے مشن کا آغاز کیا اور تصور میں ہم نے اپنے آپ کو نام ور مصنفین کی صف میں کھڑے دیکھنا شروع کردیا۔
یہ تصور اس وقت ڈھیر ہوگیا ابھی صرف ارادہ ہی کیا تھا کہ چھوٹی بیٹی کی آواز آئی کہ اس کو باتھ روم جانا ہے اور راگ بھیرویں میں ہمیں یاد کر رہی ہیں۔ ہنستے ہوئے ہم نے ان کو فارغ کروایا اور دوبارہ یہ سوچ کر بیٹھ گئے کہ اسی موضوع یعنی نصف بہتر پر ہی کچھ طبع آزمائی کی جائے۔ ابھی قلم سنبھالا ہی تھا کہ شوہر نامدار کی آواز کیا دہائی کان میں پڑی۔ غور کرنے پر معلوم ہوا کہ موصوف بھوک سے بے چین ہیں۔ دل ہی دل میں نصف بہتر (یعنی موضوع کو خود کو ہنس) کر کوستے ہوئے ناچار کچن کی طرف گئے اور میاں صاحب کے معدے کو بھرنے کا انتظام کرنا شروع کردیا تاکہ معدہ تک اور پھر دل تک رسائی کو آسان بنایا جاسکے۔
اب یہ کوئی ضروری تو نہیں کہ صرف بیوی ہی نصف بہتر ہو کیا ایک شوہر نصف بہتر نہیں ہوسکتا۔ ویسے یہ تو ہم جیسے بڑے رائٹرز کی سوچ ہے اور لکھنے پر کوئی پابندی بھی نہیں جو دل چاہا گھسیٹ دیا اب یہ پڑھنے والے (یعنی مدیر) اور چھاپنے والے کی مرضی ہے کہ وہ مناسب سمجھے‘ تو پزیرائی ورنہ جگ ہنسائی۔
تو جناب بات ہو رہی تھی ہمارے نصف بہتر کی۔ ہمارے خیال میں یہ جو نام خواتین کو دیا گیا ہے دراصل مرد حضرات کو دینا چاہیے تھا۔ اب دیکھیے نا آدھا دن ’’وہ‘‘ گھر سے باہر‘ آدھا دن آفس سے باہر‘ آدھا دن کمرے سے باہر اور آدھا دن بے چارے باتھ روم کی نذر۔ تو جب شوہر حضرات ہر کام آدھا کرتے ہیں اور پھر بھی سمجھتے ہیں کہ ہم بہترین ہیں تو یہ نام یعنی Better Half بھی ان ہی کو زیب دیتا ہے۔ وجہ آپ کے سامنے ہے دیکھیں نا کہ کھانا ہم نے پکایا تو انہوں نے کھایا۔ آدھی ذمہ داری بانٹ لی۔ کمرہ صاف ہم نے کیا وہ بستر پر محو استراحت ہوئے (احسان)‘ کپڑے ہم نے دھوئے تو انہوں نے پہن کر آدھی ذمہ داری پوری کردی۔ لہٰذا ہم کو یہ پکا یقین ہوگیا کہ ’’نصف بہتر‘‘ دراصل شوہروں کے لیے ہونا چاہیے۔ کیونکہ ہم لوگ تو صرف نام کے ہی بہتر ہیںاور ’’وہ‘‘ اپنے آپ کو بہترین سمجھتے ہیں۔
ابھی قصہ یہیں تک پہنچا تھا کہ بڑی صاحبزادی کی آواز آئی۔

’’مما پلیز مجھے مچھر کاٹ رہے ہیں آکر کھجا دیں۔‘‘ اف‘ سر پیٹنے کی کسر رہ گئی تھی اب کوئی ان سے کہے کہ۔
’’بیٹا کم از کم کھجا تو خود لیا کرو اس کے لیے بھی مما کی ضرورت ہے۔‘‘ (ابا نے مفت کی ملازمہ رکھی ہوئی ہے) مگر جی کیا کریں ’’بہتر‘‘ ہونے کے چکر میں نا چار اٹھے اور مچھروں کو کوستے ہوئے بٹیا کے کمرے میں جا کر حسب خواہش بہترین کام کر کے واپس آئے مگر واپس آنے سے پہلے کوائل لگانا نہیں بھولے تاکہ اب اس کے بعد کوئی پرابلم نہ ہو اور ہم یکسوئی سے اپنے رائٹر بننے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرسکیں۔
مزے کی ایک بات تو بتانا بھول ہی گئے۔ جب سے رائٹر بننے کا کیڑا سر میں کلبلایا تھا تب سے اب تک اپنے گھر میں کاغذ کی تلاش کر رہے ہیں مگر وہ تو خزانے کی تلاش سے بھی کٹھن کام نکلا کیونکہ ہماری راج دلاری چھوٹی شہزادی شاید بکری سے قرابت رکھتی ہیں جو کاغذ اور کتاب ہاتھ لگے اس کو چبانا عین سعادت سمجھتی ہیں۔ مگر پھر ایک ہفتے کی تلاش کے بعد جو کاغذ دستیاب ہوئے وہ چار خانے والی کاپی کے تھے جن پر یاد ہے کہ بچپن میں ون‘ ٹو‘ تھری‘ فور لکھا کرتے تھے۔ توسوچا کہ چلو کوئی بات نہیں ابتدا ہی تو ہے۔ (ہمارے رائٹر بننے کی) لہٰذا صبر و شکر کر کے انہی کاغذات کو استعمال کیا۔ بالآخر دو تین صفحات لکھ ہی ڈالے اور دوسرے دن پر ڈال کر سو گئے۔ دوسرے دن وہ کاغذ ہماری میز پر سے ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ تین دن کے بعد یہ عقدہ کھلا کہ ہماری جیٹھانی صاحبہ (جو کہ خاصی خوش خوراک واقع ہوئی ہیں) نے ان کاغذات کو سموسوں کا تیل نچوڑنے کے لیے استعمال کرلیا۔ اپنے ٹیلنٹ کی یہ نا قدری دیکھ کر دل چاہا کہ سب چھوڑ چھاڑ کر بھاگ جائیں مگر کیا کریں وہ ہے نا کہ ’’شوق دا مل کوئی نا‘‘ تو جناب ایک نئے جذبے کے ساتھ دوبارہ نئے کاغذات ڈھونڈے اور پھر سے کمر بستہ ہو کر قلم اٹھالیا۔
ابھی دو یا تین سطریں ہی لکھی تھیں کہ پھربٹیا رانی کی پکار سنائی دی۔ ’’ممی دُدُّو دے دیں۔‘‘ ابھی ان کو دودھ دے کر فارغ کیا ہی تھا کہ دوسری صاحبزادی منہ بسورتی ہاتھ میں کاپی اور پنسل پکڑے چلی آ رہی ہیں۔
’’مما مجھے ڈرائننگ بنا دیں۔‘‘ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن کے مصداق بڑے پیار سے پوچھا کہ
’’بیٹا کیا بنادیں؟‘‘ جھٹ بولیں۔
’’مماچھپکلی‘ کاکروچ اور ڈائنوسار بنا دیں۔‘‘
اب کوئی ان سے پوچھے کہ بیٹا بچے تو تتلی‘ پھول‘ ستارے بنواتے ہیں یہ کاکروچ اور ڈائنوسار کیوں اب کیا کہہ سکتے ہیں۔ اکیسویں صدی کی اولاد ہے۔ جو ابھی سے اپنے آپ کو طرم خان کہتی ہے بلکہ کہتی کیا سمجھتی ہے۔
ناچار الٹے سیدھے خاکے بنا کے ان کو مطمئن کیا ہی تھا کہ ’’وہ‘‘ ایک بار پھرچلے آئے۔
’’ارے طمانیہ کی ماں (جب ہمیں چڑانا ہو تو وہ اسی نام سے پکارتے ہیں) ذرا اچھی سے چائے تو بنادو‘ ساتھ تمہارے ہاتھ کے بنے مزیدار اسنیکس بھی ہوں تو کیا بات ہے۔ دراصل باجی آئی ہوئی ہیں نیچے والے پورشن میں تو میں ان سے کہہ کر آیا ہوں کہ چائے ہمارے ساتھ پئیں تو ذرا جلدی سے سب کچھ بنا لو فٹافٹ۔‘‘ (اونہہ حاتم طائی کہیں کے)۔
ناچار صبر کے گھونٹ بھرتے اپنے نصف بہتر کو گھورتے‘ اپنے کاغذات‘ قلم کو حسرت سے دیکھتے مجبوراً اٹھے اور کچن کی طرف چلے کیونکہ آخر کو ہم بھی تو نصف بہتر ہی ہیں۔


 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
’’ضروری نہیں ہر عورت ہی ایک رنگ میں ڈھل جائے۔ حاسد‘ غاصب اور چغل خور کے روپ میں‘ کچھ عورتوں کو تو اپنا منفرد مقام بنانا چاہیے‘ خاندانی سیاست سے ہٹ کر‘ بھلے وقتی پریشانی ہو تو ہو۔ اتنی زیادہ تعریفیں ‘ باقی آئندہ وقتوں کے لیے اٹھا رکھو تم سے تو دوستی رہے گی ان شاء اللہ۔ اوکے‘ اللہ حافظ۔‘‘
…٭٭٭…​
گھر والے بھی کاپا پلٹنے پر شکر گزار تھے ان کے کہ کوئی تو ان کی بات سمجھنے کے لیے کھڑا ہوا۔ مصلحت پسندی ہر ایک کو خدا ودیعت نہیں کرتا یہ تو اپنے نیک بندوں کے لیے ایک انعام ہے کہ خود بھی سکون سے رہتے ہیں اور دوسروں کی راہ سے بھی بے سکونی کے کانٹے چن دیتے ہیں۔
اب عید کے دن قریب آتے جارہے تھے اور اس کا اضطراب بڑھتا جارہا تھا کہ اب تک نا تو چچی نے کوئی خبر لی نا فرخ آیا اب عید میں تین چار روز رہ گئے تھے کہ اچانک سے فرخ آگیا اسے لینے جسے دیکھ کر اس کی آنکھیں نمناک ہوگئی تھیں اس نے کھل کر اسے رونے دیا۔
’’میں تو غلطی پر تھا‘ تم نے اس سے بڑی بھول کرلی۔ کیا سمجھوں اسے‘ تمہاری نادانی یا جذباتیت…؟‘‘
’’جو بھی تھا‘ سزا تو میرے پورے خاندان کو ملی۔ اپنے ماں باپ کو میں نے ہی رسوا کردیا۔‘‘
’’میں معافی مانگ چکا ہوں‘ سب سے باقی میرے گھر والوں کو اللہ ہدایت دے اور میں کیا کرسکتا ہوں۔‘‘
’’میں امی کے دل سے یہ ڈر نکال دوں گی فرخ! کہ میں ان کے اکلوتے بیٹے کو ان سے چھیننے آئی ہوں۔ اب اپنی محبت اور خلوص سے اس وسوسے سے باہر لانا ہے انہیں۔‘‘
’’تمہیں بھی میری طرف سے کوئی شکایت اب نہیں ہوگی۔اعتماد اور مان دوں گا تمہیں تاکہ کسی مقام پر تمہیں کسی کمی کا احساس نہیں ہو۔ حریم یہ وعدہ ہے میرا۔ اور اب عید میں بھی تین دن رہ گئے ہیں چلو اب گھر چلو…‘‘
’’امی ابو نے کیا کہا ہے؟‘‘ اس نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
’’سب نے مجھ پر فیصلہ چھوڑ دیا ہے کہ آج لے جانا چاہوں تو کوئی مسئلہ نہیں اور عید تک تمہیں رہنے دوں تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں لیکن میرا موڈ نہیں اب تمہیں چھوڑنے کا۔‘‘ وہ شرارتی ہوا۔
’’ہوں…!‘‘ اس نے جھٹکے سے سر اٹھا کر اس کے بدلے بدلے انداز دیکھے‘ منزل بہت دور نہیں تھی۔
خوش گمانیاں خوش قسمتی میں بدلتی نظر آرہی تھیں لبوں پر دھیمی سی مسکان نے ہمیشہ کے لیے قبضہ کرلیا تھا۔
’’اور وہ کہاں ہیں؟ میری زندگی کے اندھیروں کو اجالا بخشنے والی۔‘‘ اس نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ وہ پری چہرہ‘ فرشتہ صفت ہستی نظر نہیں آئی تھیں جن کی بدولت آج وہ بے پایاں محبتوں کے احساس سے سرشار تھی۔ ایک اعتماد اس کے ساتھ تھا۔
’’ان کی بچیوں کے اسکول میں آج ’’یوم والدین‘‘ ہے۔ وہ وہیں گئی ہیں ۔ اتنی مصروفیت کے ساتھ دوسروں کے دلوں کا اتنا خیال رکھتی ہیں۔ ان کی بچیاں بھی ان ہی کی طرح نیک خصلت‘ معصوم اور پیاری ہیں۔‘‘ وہ مسکرایا۔
’’ظاہر ہے گلاب کے پودے میں گلاب ہی اُگیں گے نا۔ کتنی خوش بُو ہو گی ان کے گھر آنگن میں۔ نیک سیرتی کی مہک اور چمک ہی الگ ہوتی ہے‘ ہے نافرخ!‘‘ اس نے تائید کے لیے اسے دیکھا۔
’’صحیح کہہ رہی ہو۔ نیک سیرتی غریب کے آنگن کو بھی نور عطا کردیتی ہے۔ اسے زیبائش و آرائشں کی ضرورت نہیں پڑتی۔‘‘
’’میری تمام عمر کی دعائیں ان کے ساتھ رہیں گی کہ خدا ان کی بچیوں کے لبوں سے مسکان کو کبھی جدا نہ کرنا۔ جہاں جہاں وہ قدم رکھیں وہیں وہیں پھول کھلیں۔ آمین‘‘
دل میں سرشاری ہی ایسی تھی کہ عنبر چچی کے لیے الفاظ بھی کم پڑر ہے تھے۔ ایسی عورتیں دنیا کے لیے ایک انعام ہوتی ہیں جو سب سے ہٹ کر کردار ادا کرتی ہیں۔ ہنر جانتی ہیں پتھروں میں پھول اگانے کا۔ نم آنکھوں میں مسکراہٹ کے جگنو بھرنے کا۔
قصہ نصف بہتر کا… مسز حرا امجد‘ کینیڈا
نصف بہتر کا مطلب تو ہے ایک آدھا دوسرے آدھے سے بہتر ہے اور ہم یہ زیادہ تر میاں بیوی کے تعلقات کے لحاظ سے استعمال کرتے ہیں اور یہ تقریباً ہر گھر کا قصہ ہے۔
نصف بہتر عموماً اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب کسی کام کی تفصیل میں بحث ہوتی ہے اور خواتین کو ہی نصف بہتر کہا اور سمجھا جاتا ہے۔ کہنے کو تو ہر چیز میں شراکت ہوتی ہے مگر کام کا زیادہ تر بوجھ ہر گھر میں آخر میں عورتوں پر ہی پڑتا ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ عورت گھر کے کام کاج میں ذمہ دار ٹھہرائی جاتی تھی اور مردوں کے ذمہ باہر کے کام ہوتے تھے مگر آج کل عورت گھر کی ذمہ داری بھی اٹھا رہی ہے اور باہر مرد کے ساتھ کام بھی کر رہی ہے۔
لوگ سوچتے ہیں وہ کون سا بہتر زمانہ تھا جب عورت مزے سے گھر کے کام کاج میں مصروف رہتی تھی اور باہر نکلنا کبھی کبھی ہوتا تھا۔ یا یہ زمانہ جب تقریباً روز ہی وہ اپنے شوہر کے ساتھ اس کی ذمہ داریاں نباہ رہی ہوتی ہے۔
آج کے دور میں ہر چیز بھاگ رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی کیسے کیسے جوڑے بنائے ہیں۔ اب ہر ایک تو بہتر اور نصف بہتر ہو نہیں سکتا۔ کوئی پورا بہتر بھی ہوسکتا ہے اور کوئی بہترہی نہیں ہوتا۔
دراصل بات یہ ہے کہ…! ارے ٹھہریے پہلے ہم آپ کو اپنے گھر اور گھر والوں کے متعلق تو کچھ بتا دیں تاکہ اتنی لمبی تمہید کا مطلب بھی واضح ہوجائے۔
ہمارا گھر تین پورشن میں بنا ہوا ہے۔ گیٹ سے داخل ہوتے ہی دائیں ہاتھ پر سیڑھیاں ہیں جو بالائی منزلوں کی طرف جاتی ہیں اور بائیں جانب دو دروازے ہیں جو ہماری جٹھانی صاحبہ کی رہائش گاہ ہے۔ جہاں وہ پورے طمطراق سے رہتی ہیں اور ہر آنے جانے والے پر نظر رکھنا ان کا بہترین مشغلہ ہے۔
درمیان والے پورشن میں ما بدولت کی چھوٹی سی سلطنت ہے۔ جہاں ہم ایک عدد بادشاہ سلامت (میاں) اور دو شہزادیوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ خیر یہ تو تھامختصر سا تعارف اور اب اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔
مطالعہ کا شوق تو ہمیں شروع سے ہی تھا۔ لیکن ابھی کچھ عرصہ سے ہمیں محسوس ہوا کہ ہمارے اندر بھی لکھنے لکھانے کے جراثیم موجود ہیں اور باہر آنے کے لیے کلبلا رہے ہیں۔ لہٰذا ہم نے ان جراثیم کو باہر لانے کے لیے کمر کس لی۔ ہم نے سوچا کوشش کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ مدیر صاحب کی حوصلہ افزائی ہوئی تو ٹھیک ہے اور نہ ہوئی تو کیا ہوا ہمارے اندر کا رائٹر تو زندہ رہے گا۔
بڑے سوچ بچار کے بعد ہم نے اپنے مشن کا آغاز کیا اور تصور میں ہم نے اپنے آپ کو نام ور مصنفین کی صف میں کھڑے دیکھنا شروع کردیا۔
یہ تصور اس وقت ڈھیر ہوگیا ابھی صرف ارادہ ہی کیا تھا کہ چھوٹی بیٹی کی آواز آئی کہ اس کو باتھ روم جانا ہے اور راگ بھیرویں میں ہمیں یاد کر رہی ہیں۔ ہنستے ہوئے ہم نے ان کو فارغ کروایا اور دوبارہ یہ سوچ کر بیٹھ گئے کہ اسی موضوع یعنی نصف بہتر پر ہی کچھ طبع آزمائی کی جائے۔ ابھی قلم سنبھالا ہی تھا کہ شوہر نامدار کی آواز کیا دہائی کان میں پڑی۔ غور کرنے پر معلوم ہوا کہ موصوف بھوک سے بے چین ہیں۔ دل ہی دل میں نصف بہتر (یعنی موضوع کو خود کو ہنس) کر کوستے ہوئے ناچار کچن کی طرف گئے اور میاں صاحب کے معدے کو بھرنے کا انتظام کرنا شروع کردیا تاکہ معدہ تک اور پھر دل تک رسائی کو آسان بنایا جاسکے۔
اب یہ کوئی ضروری تو نہیں کہ صرف بیوی ہی نصف بہتر ہو کیا ایک شوہر نصف بہتر نہیں ہوسکتا۔ ویسے یہ تو ہم جیسے بڑے رائٹرز کی سوچ ہے اور لکھنے پر کوئی پابندی بھی نہیں جو دل چاہا گھسیٹ دیا اب یہ پڑھنے والے (یعنی مدیر) اور چھاپنے والے کی مرضی ہے کہ وہ مناسب سمجھے‘ تو پزیرائی ورنہ جگ ہنسائی۔
تو جناب بات ہو رہی تھی ہمارے نصف بہتر کی۔ ہمارے خیال میں یہ جو نام خواتین کو دیا گیا ہے دراصل مرد حضرات کو دینا چاہیے تھا۔ اب دیکھیے نا آدھا دن ’’وہ‘‘ گھر سے باہر‘ آدھا دن آفس سے باہر‘ آدھا دن کمرے سے باہر اور آدھا دن بے چارے باتھ روم کی نذر۔ تو جب شوہر حضرات ہر کام آدھا کرتے ہیں اور پھر بھی سمجھتے ہیں کہ ہم بہترین ہیں تو یہ نام یعنی Better Half بھی ان ہی کو زیب دیتا ہے۔ وجہ آپ کے سامنے ہے دیکھیں نا کہ کھانا ہم نے پکایا تو انہوں نے کھایا۔ آدھی ذمہ داری بانٹ لی۔ کمرہ صاف ہم نے کیا وہ بستر پر محو استراحت ہوئے (احسان)‘ کپڑے ہم نے دھوئے تو انہوں نے پہن کر آدھی ذمہ داری پوری کردی۔ لہٰذا ہم کو یہ پکا یقین ہوگیا کہ ’’نصف بہتر‘‘ دراصل شوہروں کے لیے ہونا چاہیے۔ کیونکہ ہم لوگ تو صرف نام کے ہی بہتر ہیںاور ’’وہ‘‘ اپنے آپ کو بہترین سمجھتے ہیں۔
ابھی قصہ یہیں تک پہنچا تھا کہ بڑی صاحبزادی کی آواز آئی۔

’’مما پلیز مجھے مچھر کاٹ رہے ہیں آکر کھجا دیں۔‘‘ اف‘ سر پیٹنے کی کسر رہ گئی تھی اب کوئی ان سے کہے کہ۔
’’بیٹا کم از کم کھجا تو خود لیا کرو اس کے لیے بھی مما کی ضرورت ہے۔‘‘ (ابا نے مفت کی ملازمہ رکھی ہوئی ہے) مگر جی کیا کریں ’’بہتر‘‘ ہونے کے چکر میں نا چار اٹھے اور مچھروں کو کوستے ہوئے بٹیا کے کمرے میں جا کر حسب خواہش بہترین کام کر کے واپس آئے مگر واپس آنے سے پہلے کوائل لگانا نہیں بھولے تاکہ اب اس کے بعد کوئی پرابلم نہ ہو اور ہم یکسوئی سے اپنے رائٹر بننے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرسکیں۔
مزے کی ایک بات تو بتانا بھول ہی گئے۔ جب سے رائٹر بننے کا کیڑا سر میں کلبلایا تھا تب سے اب تک اپنے گھر میں کاغذ کی تلاش کر رہے ہیں مگر وہ تو خزانے کی تلاش سے بھی کٹھن کام نکلا کیونکہ ہماری راج دلاری چھوٹی شہزادی شاید بکری سے قرابت رکھتی ہیں جو کاغذ اور کتاب ہاتھ لگے اس کو چبانا عین سعادت سمجھتی ہیں۔ مگر پھر ایک ہفتے کی تلاش کے بعد جو کاغذ دستیاب ہوئے وہ چار خانے والی کاپی کے تھے جن پر یاد ہے کہ بچپن میں ون‘ ٹو‘ تھری‘ فور لکھا کرتے تھے۔ توسوچا کہ چلو کوئی بات نہیں ابتدا ہی تو ہے۔ (ہمارے رائٹر بننے کی) لہٰذا صبر و شکر کر کے انہی کاغذات کو استعمال کیا۔ بالآخر دو تین صفحات لکھ ہی ڈالے اور دوسرے دن پر ڈال کر سو گئے۔ دوسرے دن وہ کاغذ ہماری میز پر سے ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ تین دن کے بعد یہ عقدہ کھلا کہ ہماری جیٹھانی صاحبہ (جو کہ خاصی خوش خوراک واقع ہوئی ہیں) نے ان کاغذات کو سموسوں کا تیل نچوڑنے کے لیے استعمال کرلیا۔ اپنے ٹیلنٹ کی یہ نا قدری دیکھ کر دل چاہا کہ سب چھوڑ چھاڑ کر بھاگ جائیں مگر کیا کریں وہ ہے نا کہ ’’شوق دا مل کوئی نا‘‘ تو جناب ایک نئے جذبے کے ساتھ دوبارہ نئے کاغذات ڈھونڈے اور پھر سے کمر بستہ ہو کر قلم اٹھالیا۔
ابھی دو یا تین سطریں ہی لکھی تھیں کہ پھربٹیا رانی کی پکار سنائی دی۔ ’’ممی دُدُّو دے دیں۔‘‘ ابھی ان کو دودھ دے کر فارغ کیا ہی تھا کہ دوسری صاحبزادی منہ بسورتی ہاتھ میں کاپی اور پنسل پکڑے چلی آ رہی ہیں۔
’’مما مجھے ڈرائننگ بنا دیں۔‘‘ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن کے مصداق بڑے پیار سے پوچھا کہ
’’بیٹا کیا بنادیں؟‘‘ جھٹ بولیں۔
’’مماچھپکلی‘ کاکروچ اور ڈائنوسار بنا دیں۔‘‘
اب کوئی ان سے پوچھے کہ بیٹا بچے تو تتلی‘ پھول‘ ستارے بنواتے ہیں یہ کاکروچ اور ڈائنوسار کیوں اب کیا کہہ سکتے ہیں۔ اکیسویں صدی کی اولاد ہے۔ جو ابھی سے اپنے آپ کو طرم خان کہتی ہے بلکہ کہتی کیا سمجھتی ہے۔
ناچار الٹے سیدھے خاکے بنا کے ان کو مطمئن کیا ہی تھا کہ ’’وہ‘‘ ایک بار پھرچلے آئے۔
’’ارے طمانیہ کی ماں (جب ہمیں چڑانا ہو تو وہ اسی نام سے پکارتے ہیں) ذرا اچھی سے چائے تو بنادو‘ ساتھ تمہارے ہاتھ کے بنے مزیدار اسنیکس بھی ہوں تو کیا بات ہے۔ دراصل باجی آئی ہوئی ہیں نیچے والے پورشن میں تو میں ان سے کہہ کر آیا ہوں کہ چائے ہمارے ساتھ پئیں تو ذرا جلدی سے سب کچھ بنا لو فٹافٹ۔‘‘ (اونہہ حاتم طائی کہیں کے)۔
ناچار صبر کے گھونٹ بھرتے اپنے نصف بہتر کو گھورتے‘ اپنے کاغذات‘ قلم کو حسرت سے دیکھتے مجبوراً اٹھے اور کچن کی طرف چلے کیونکہ آخر کو ہم بھی تو نصف بہتر ہی ہیں۔

وقت روزانہ دیں۔
رابعہ شاہ کوٹ سے لکھتی ہیں کہ میرا خط شائع کیے بغیر جواب دیں۔
محترمہ آپ NATRUM SULF 6X کی چار گولی تین وقت روزانہ کھائیں۔ ان شا اللہ شفاء حاصل ہوگی۔
ثومیانہ جٹ‘ خانیوال سے لکھتی ہیں کہ میرا قد چھوٹا ہے جسم موٹا ہے کوئی علاج بتائیں۔
محترمہ آپ CALCIUM PHOS 6X کی چار گولی تین وقت روزانہ کھائیں اور BARIUM CARB 200 کے پانچ قطرے ہر آٹھویں دن پیا کریں۔ تین ماہ مکمل کرلیں۔
عمر فاروق‘ مظفر گڑھ سے لکھتے ہیں کہ ہر بیماری کا علاج موجود ہے تو مجھے بھی میری بیماری کا علاج بتائیں۔
محترم آپ AGNUSCAST 30 کے پانچ قطرے آدھا کپ پانی میں ڈال کر تین وقت روزانہ لیا کریں۔
مہر ارم ارشد‘ حافظ آباد سے لکھتی ہیں کہ میرا ماہانہ نظام خراب ہے اور موٹاپا ہوگیا ہے۔
محترمہ آپ SENICIO-30 کے پانچ قطرے آدھا کپ پانی میں ڈال کر تین وقت روزانہ لیں۔ ماہانہ نظام درست ہوگا تو مٹاپا بھی ختم ہوجائے گا۔
شانزے ملک‘ لودھراں سے لکھتی ہیں کہ خط شائع کیے بغیر جواب دیں۔
محترمہ آپ MAG PHOS 6X کی چار چار گولی تین وقت روزانہ کھائیں اور امی کو CINAMOM 30 کے پانچ قطرے آدھا کپ پانی میں ڈال کر تین وقت روزانہ دیں۔ ان شاء اللہ دونوں کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔
خورشید‘ چکوال سے لکھتی ہیں کہ میرا ماہانہ نظام خراب ہے۔ دوسرے میرا سینہ بہت بڑھ گیا ہے۔ ہاتھ اور پائوں کے ناخن بھی بیٹھ گئے ہیں۔
محترمہ آپ CINAMOM 30 کے 5 قطرے آدھا کپ پانی میں ڈال کر تین وقت روزانہ پیا کریں۔ سینہ کم کرنے کے لیے CHIMAPHILLA 30 کے پانچ قطرے آدھا کپ پانی میں ڈال کر تین وقت روزانہ لیں۔
عانیہ تانیہ‘ فیصل آباد سے لکھتی ہیں کہ خط شائع کیے بغیر نسخہ تجویز کردیں۔
محترمہ سانس کے لیے NATRUMSULF 6X کی چار چار گولی تین وقت کھائیں۔ قد بڑھانے کے لیے CALCIUM PHOS 6X کی چار چار گولی تین وقت روزانہ کھائیں اور BARIUM CARB 200 کے پانچ قطرے آدھا کپ پانی میں ڈال کر ہر آٹھویں دن لیں تین ماہ مکمل کرلیں۔
شاہدہ عمران‘ کھپرو سے لکھتی ہیں کہ مجھے بی پی ہائی رہتا ہے اور میرا رنگ بہت زیادہ سیاہ ہوگیا ہے۔
محترمہ آپ BRYTAMOR 3X کی ایک گولی روزانہ کھا لیا کریں اور JODUM-1000 کے پانچ قطرے ہر پندرہ دن بعد لیا کریں۔
صبا‘ ٹنڈو الٰہیار سے لکھتی ہیں کہ کوئی کھانا ہضم نہیں ہوتا جلن بد ہضمی گیس تیزابیت بہت ہے۔
محترمہ آپ CARBOVEG-6 کے پانچ قطرے آدھا کپ پانی میں ڈال کر تین وقت کھانے سے پہلے لیا کریں۔
اصفیٰ‘ فیصل آباد سے لکھتی ہیں کہ میری امی کو مٹاپا ہے اور ہم بہنوں کو سیلان کا مرض ہے۔
محترمہ آپ اپنی امی کو PHYTOLACCA-Q کے دس قطرے تین وقت روزانہ دیں اور آپ BORAX 30 کے تین قطرے تین وقت روزانہ لیں۔
لاریب چوہدری‘ کنجاہ سے لکھتی ہیں کہ میری عمر 18 سال ہے قد چھوٹا ہے وزن 80 کلو ہے۔
محترمہ آپ CALCIUM PHOS 6X کی چار چار گولی تین وقت روزانہ کھائیں اور BARIUM CARB 200 کے پانچ قطرے ہر آٹھویں دن ایک مرتبہ دیں۔
آنسہ انور‘ رحیم یار خان سے لکھتی ہیں کہ APHRODITE کے لیے منی آرڈر کر رہی ہوں اور میری رنگت کالی ہے اور لیکیوریا ہے دوسرے مٹاپے کی دوا بھی بتادیں۔

محترمہ آپ BORAX 30 کے پانچ قطرے آدھا کپ پانی میں ڈال کر تین وقت روزانہ لیں اور JODUM- 1000 کے پانچ قطرے پندرہ دن میں ایک بار لیں۔
سحر فاطمہ‘ ڈگری سے لکھتی ہیں کہ ہم چار بہن بھائی ہیں ہمارے جسم تو صحیح ہیں مگر چہرے خراب ہیں۔ گال پچکے ہوئے ہیں اور چہرے پر دانے نکلتے ہیں جو سیاہ داغ چھوڑ جاتے ہیں۔
محترمہ آپ GRAPHITES 30 کے پانچ قطرے آدھا کپ پانی میں ڈال کر تین وقت روزانہ لیں۔
ارم علی‘ سرگودھا سے لکھتی ہیں کہ پڑھائی کرتی ہوں سبق یاد نہیں رہتا بھائی کا مسئلہ ہے وہ کمزور ہے اور رنگت سانولی ہے۔
محترمہ آپ KALPHOS 6X کی چار چار گولی تین وقت روزانہ لیں اور بھائی کو FIVE PHOS 6X کی چار چار گولی تین وقت روزانہ دیں اور JODUM 1000 کے پانچ قطرے آدھا کپ پانی میں ڈال کر پندرہ دن میں ایک بار لیں۔
گلزار فاطمہ‘ ٹنڈو جان محمد سے لکھتی ہیں کہ میرے بال بہت خراب ہو رہے ہیں دو منہ روکھے اور بے رونق ہیں۔ گرتے بہت ہیں ایسا لگتا ہے کہ گنجی ہوجائوں گی۔
محترمہ آپ میرے کلینک کے نام پتے پر 650 روپے منی آرڈر کردیں۔ منی آرڈر فارم کے آخری کوپن پر اپنا نام پتا صاف ستھرا لکھیں اور مطلوبہ دوا کا نام HAIR GROWER ضرور لکھیں۔ آپ کو دوا گھر پہنچ جائے گی۔
ڈاکٹر یوسف کاظمی‘ کراچی سے لکھتے ہیں کہ مجھے کبھی اگر کسی مریض کے لیے مشورہ کرنا ہو تو آپ سے رہنمائی حاصل کرسکتا ہوں۔
محترم آپ کلینک کے اوقات صبح 10 تا 1 بجے اور شام 6 تا 9 بجے فون 021-36997079 پر رابطہ کرسکتے ہیں۔
نیک محمد‘ کراچی سے لکھتے ہیں کہ نوجوانوں کی بیماریوں کے علاج کے لیے کراچی میں ہزاروں شفا خانے کھلے ہیں مگر یہ لوگ ہزاروں روپے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ایسے حالات میں آپ کی مخلصانہ خدمات واقعی بہت بڑی بات ہے۔ میں اپنا مسئلہ لکھ رہا ہوں شائع کیے بغیر علاج بتائیں۔
محترم آپ ACID PHOS 3X کے پانچ قطرے آدھا کپ پانی میں ڈال کر تین وقت روزانہ لیں۔
متین بیگم‘ سیالکوٹ سے لکھتی ہیں کہ میرے چہرے پر بال ہیں بہت پریشان ہوں۔ آپ کے APHRODITE کی بڑی تعریف سنی ہے۔ مجھے اس کے بارے میں ایک بیوٹی پارلر والی نے بتایا تھا کیا میں اسے استعمال کرسکتی ہوں۔
محترم آپ مبلغ 900 روپے کا منی آرڈر کردیں۔ دوا آپ کے گھر پہنچ جائے گی۔ منی آرڈر کلینک کے نام پتے پر کرنا منی آرڈر فارم کے آخری کوپن پر اپنا مکمل نام پتا ضرور لکھیں۔
مسلم خان‘ راولپنڈی سے لکھتے ہیں کہ مجھے ورم جگر کی شکایت ہے جگر کا فعل درست نہیں ہے۔
محترم آپ CHELIDONIUM 30 کے پانچ قطرے آدھا کپ پانی میں ڈال کر تین وقت روزانہ لیں۔
قطب الدین‘ سرگودھا سے لکھتے ہیں کہ بادی بواسیر ہے مسوں میں چبھن بہت زیادہ ہوتی ہے۔
محترم آپ AESCULUS 3X کے پانچ قطرے آدھا کپ پانی میں ڈال کر تین وقت روزانہ لیں۔
نسرین جہاں‘ سکھر سے لکھتی ہیں کہ آپ کا فون بہت زیادہ مصروف رہتا ہے کبھی بات ہی نہیں ہوتی کوئی اٹھاتا ہی نہیں۔ مجھے ڈاکٹر حسن بانو سے بات کرنا ہے۔
محترمہ آپ کلینک کے اوقات میں فون کریں ڈاکٹر حسن بانو صرف صبح 10 تا 1 بجے موجود ہوتی ہیں۔
نسیم بیگم‘ وہاڑی سے لکھتی ہیں کہ ماہانہ اخراج بہت زیادتی سے ہوتا ہے درد بھی رہتا ہے۔
محترمہ آپ SABINA-30 کے پانچ قطرے آدھا کپ پانی میں ڈال کر تین وقت روزانہ لیا کریں۔
مشتاق احمد‘ ملتان سے لکھتے ہیں کہ مشتاق نام کے لوگوں میں انسانیت کی خدمت کا بے حد جذبہ ہوتا ہے۔ اسی لیے مشتاق قریشی صاحب نے آپ کی خدمات حاصل کی ہیں اور آپ کی صحت کا سلسلہ سے دکھی انسانیت کی خدمت جاری ہے۔ اللہ آپ لوگوں کو اس کا اجر عظیم عطا فرمائے اور آپ کی مغفرت کا سبب بنائے آمین۔ میرا بھی ایک مسئلہ ہے شائع کیے بغیر اسے حل

فرمائیں۔​
محترم آپ STAPHISGARIA 30 کے پانچ قطرے آدھا کپ پانی میں ڈال کر تین وقت روزانہ پیا کریں۔​
گل بانو‘ پشاور سے لکھتی ہیں کہ میرے 6 بچے ہیں سب کو اپنا دودھ پلایا ہے مگر اب بالکل لٹکے ہوئے بے جان ہوگئے ہیں خوب صورتی ختم ہوگئی ہے۔​
محترمہ آپ JODUM 30 کے پانچ قطرے آدھا کپ پانی میں ڈال کر تین وقت روزانہ پیا کریں اور مبلغ 550 روپے کا منی آرڈر میرے کلینک کے نام پتے پر ارسال کردیں۔ منی آرڈر فارم کے آخری کوپن پر مطلوبہ دوا کا نام BREAST BEAUTY ضرور لکھیں۔ دوا آپ کے گھر پہنچ جائے گی۔ ان شاء اللہ قدرتی خوب صورتی بحال ہوگی۔ JODUM 30 جرمنی کی بنی ہوئی کسی بھی ہومیو پیتھک اسٹور سے حاصل کرسکتی ہیں۔​
ذکیہ سلطانہ‘ چیچہ وطنی سے لکھتی ہیں کہ مجھے بہت پرانا سر درد ہے کسی علاج سے نہیں جاتا۔​
محترمہ آپ USENIA BARB-3X کے پانچ قطرے آدھا کپ پانی میں ڈال کر تین وقت روزانہ لیا کریں۔​
نذیر احمد‘ ملتان سے لکھتے ہیں کہ مہروں کی خرابی سے کمر درد رہتا ہے کبھی بازوئوں تک میں آتا ہے۔​
محترم آپ THRIDION 30 کے پانچ قطرے آدھا کپ پانی میں ڈال کر تین وقت روزانہ پیا کریں۔​
محترمہ صائمہ‘ جمال کراچی سے لکھتی ہیں کہ بریسٹ بیوٹی کے علاوہ نسوانی حسن کی کمی دور کرنے کے لیے آپ کے کلینک پر آلات کے ذریعے بھی علاج ہوتا ہے۔​
محترمہ بریسٹ بیوٹی اور ادویات کے علاوہ آلات کے ذریعہ بھی علاج کیا جاتا ہے وہ بھی کافی مفید ہے۔​
بوٹا خان‘ سیالکوٹ سے لکھتے ہیں کہ میرا مسئلہ شائع کیے بغیر دوا تجویز کردیں۔​
محترم آپ KALMIA 30 کے پانچ قطرے آدھا کپ پانی میں ڈال کر تین وقت روزانہ پیا کریں۔​
معین الدین‘ اٹک سے لکھتے ہیں کہ میرا مسئلہ شائع کیے بغیر علاج بتائیں۔​
محترم آپ AGNUSCAST 30 کے پانچ قطرے آدھا کپ پانی میں ڈال کر تین وقت روزانہ پیا کریں۔​
معائنہ اور باقاعدہ علاج کے لیے تشریف لائیں۔ صبح 10 تا 1 بجے۔ شام 6 تا 9 بجے۔ فون: 021-36997059‘ ہومیو ڈاکٹر محمد ہاشم مرزا کلینک دکان C-5‘ K.D.A فلیٹس فیز 4 شادمان ٹائون 2‘ سیکٹر 14-B نارتھ کراچی 75850۔​
خط لکھنے کا پتا: آپ کی صحت ماہنامہ آنچل پوسٹ بکس 75، کراچی۔​
 
Top