Assalam-o-Alaikum
Bhook Tehzeeb K Aadaab Bhula Daiti Hey
Based on a true story
بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے
میں اور ولید بچپن سے ایک دوسرے کے ساتھھ ساتھھ ہیں اس لیئے گہرے دوست ہیں لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ ہماری سوچ بھی ملتی ہے بہت ساری معاملات میں ہمارے درمیان اختلاف رہتا تھا لیکن ایک ان پڑھ نے نا صرف میری سوچ بدل دی بلکہ میرا دنیا کو دیکھنے کا زاویہ بدل دیا میں نے ہمیشہ علم کو دنیا میں ایک مقام حاصل کرنے کا زریعہ سمجھا لیکن ولید کی سوچ مجھھ سے مختلف تھی وہ کہتا تھا علم ہمیں ہمارے صحیح اور غلط کی پہچان کراتا ہے ہمیں ہمارے رب کے نزدیک کرتا ہے بلکہ ہمیں خود اپنے آپ سے بھی ملواتا ہے وہ کہتا ہے"علم ڈگری کا محتاج نہیں ہوتا ہمارے اطراف میں بےشمار پڑھے لکھے جاہل بستے ہیں جو بڑی بڑی ڈگریوں کے مالک ہیں اور ان ڈگریوں کے حصول کے لیئے انھوں نے بہت محنت کی ہے لیکن کس کام کا وہ علم جو ہمیں بزنس کے اسرار و رموز تو سکھاتا ہے لیکن غربت کا خاتمہ کس طرح ہوگا یہ نہیں سکھاتا جو میرے بزنس میں گھاٹے کی تکلیف کا احساس تو مجھے دلاتا ہے لیکن کسی دوسرے کے درد کو محسوس کرنے کے فن سے نا آشنا رکھتا ہے جو ہمیں کپڑے پہننے کا سلیقہ تو سکھاتا ہے لیکن سردی میں ٹھٹرتے کسی ضرورت مند کی ضرورت کو پورا کرنے کے خیالات سے دور رکھتا ہے جو مجھے یہ بتاتا ہے کہ مشکل میں صدقہ خیرات کرو لیکن اللہ کا شکر ادا کرنے کی سوچ سے دور رکھتا ہے جو کبھی میرے دل میں یہ خیال پیدا نہیں ہونے دیتا کہ مجھے مرنا بھی ہے جسے صرف اپنا پیٹ بھرنے سے مطلب ہے جسے اپنے اطراف میں بھوک سے بلکتے لوگ اور بچے نظر نہیں آتے جو انھیں جھڑک دیتا ہے اور یہ بھول جاتا ہے کہ "بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے" تو کچھھ اس قسم کے خیالات تھے اُسکے اور پھر ہوا یوں کہ وہ اپنی سوچ کے تحت آگے بڑھتا چلا گیا اور میں سیاست میں آگیا لیکن ہم آج بھی بہت گہرے دوست ہیں خیر یہ سب چھوڑیئے ہم اپنی اسٹوری کی طرف آتے ہیں جہاں سے میری اس سوچ کی تبدیلی کا آغاز ہوا، یہ آج سے کوئی 5 سال پہلے کی بات ہے آیئے آپ کو آنکھوں*دیکھا حال سناتے ہیں، "آج کا دن میری زندگی میں بہت اہمیت کا حامل ہے آج میں نے اپنے سیاسی کیریر کی پہلی کامیابی حاصل کی ہے اور میں اپنے شہر کے ایک بہترین حلقے کا کونسلر بنا ہوں اور اپنے ہی حلقے میں آج میں نے وہ گھر خریدا ہے جسے خریدنے کا میں ایک عرصے سے خواہشمند تھا وہ گھر ہر لحاظ سے بہترین ہے بس اُس میں ایک ہی بات مجھے ُالجھن میں مبتلا کرتی ہے اور وہ ہے میرا پڑوسی بظاہر یہ ایک عام سا انسان ہے جو میری زباں میں نرا جاہل ہے سبزی منڈی میں کام کرتا ہے کیا کام کرتا ہے یہ میں نے جاننے کی کوشش نہیں کی بس اتنا معلوم ہے کہ وہ اتنا ضرور کماتا ہے کہ اپنی فیملی کو اچھی طرح پال رہا ہے" وقت گذرتا چلا گیا اور میں اپنے علاقے میں اپنے کام کی بدولت مقبول ہوتا گیا لیکن میری سوچ وہیں کی وہیں رہی اور میں نے اپنی بیگم اور بچوں کو اپنے پڑوس سے دور ہی رکھا، آیئے آگے چلتے ہیں " آج کا دن کچھھ عجیب سا ہے ایک اداسی اور نا معلوم سی اُلجھن اور پریشانی سی طاری ہے کیوں یہ تو میں خود بھی نہیں جانتا شاید اسکی وجہہ یہ رہی ہو کہ میں نے پچھلے تین دنوں سے اپنے پڑوسی یا اُسکے بچوں میں سے کسی کو نہیں دیکھا میں ابھی ابھی گھر پہنچا ہوں اور کھانا کھانے بیٹھا ہی ہوں کہ ہمارے پڑوسی کی سب سے چھوٹی بیٹی جو غالباً 6 یا 7 برس کی رہی ہوگی ہمارے گھر آگئی شاید وہ آج پہلی بار ہمارے یہاں آئی ہوگی میں نے اُسکی جانب دیکھا وہ عجیب سی نظروں سے کھا نے کی جانب دیکھھ رہی ہے میں نے سوچا کہ یہ تعلیم کے نا ہونے کی وجہہ ہے کہ بچوں کو یہ تہذیب سکھاتے کہ کسی کے گھر جاکر کھانے کو ایسی ندیدی نظروں سے نہیں گھورتے میری بیگم نے اُسے کھانے کے لیئے بلایا ہے لیکن اُس نے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھایا ہے صرف اُسکی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں میں نے اپنی بیگم سے کہا کہ وہ اُس پوچھے کیا بات ہے اور میری بیگم نے اُس سے پوچھھ کر جو مجھے بتایا ہے اُسے سن کر میرے ہاتھوں سے نوالہ گر گیا ہے اور مجھے اپنی سوچ پر شرم آنے لگی اور میرے اندر سے یہ آواز آئی کہ کیا تم نہیں جانتے کہ"بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے"، اُس نے کہا ہے کہہ " ہمارے گھر میں 3 دنوں سے کسی نے کچھھ نہیں کھایا اور جب اُس سے کہا کہ بتایا کیوں نہیں تو اُس کا جواب ہے کہ ابو نے منع کیا تھا کسی کو بتانے سے بھی اور گھر سے باہر جانے کو بھی میں اپنے گھر سے سارا کھانا لے کر اپنے پڑوسی کے گھر آگیا ہوں کہ میری سوچ کیسی بھی رہی ہو شاید ابھی اتنی بھی نھیں بگڑی کہ اللہ کا یہ فرمان بھول جاؤں کہ،
اور اللہ تعالٰی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ سلوک و احسان کرو اور رشتہ داروں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے اور قرابت دار ہمسایہ سے اور اجنبی ہمسائے سے (١) اور پہلو کے ساتھی سے (٢) اور راہ کے مسافر سے اور ان سے جن کے مالک تمہارے ہاتھ ہیں (غلام، کنیز) (٣) یقیناً اللہ تعالٰی تکبر کرنے والے اور شیخی خوروں کو پسند نہیں فرماتا۔(٤)٘(سورة النساء . آیت36)
وہ میرے سامنے خاموشی سے کھڑا ہے میں نے پوچھا یہ تم نے کیا کیا تم نے نا صرف خود اس بات کو دوسروں سے چھپایا بلکہ بچوں کو بھی بتانے اور گھر سے باہر نکلنے سے منع کردیا اور میں اپنے گھر میں پیٹ بھر کر کھاتا رہا تم نے کیوں مجہے گناہ گار کیا؟ تو میری نظر میں اُس جاہل اور گنوار شخص نے مجھے جو جواب دیا اُس نے نا صرف مجھے ہلا کر رکھھ دیا بلکہ علم کے حوالے سے میری سوچ کو بدل ڈالا وہ کیا کہہ رہا ہے آپ بھی سنیئے وہ کہہ رہا ہے "اللہ نے ساری زندگی کھلایا ہے اور بہت اچھا کھلایا ہے تو اگر 3 دن کھانے کو نہیں ملا تو کیا میں دنیا کے سامنے رونا شروع کردوں " میں ایک لمحے کے لیئے سناٹے میں آگیا کہ مجھے اُس ین پڑھ شخص سے ایسے کسی بھی جواب کی توقع نہیں تھی اور دوسرے ھی لمحے ولید کا یہ جملہ میری یاداشت پر ہتھوڑے کی طرح برس رہا تھا "علم ڈگری کا محتاج نہیں ہوتا" اور میرا اپنا آپ مجھھ سے چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہہ واقعئ ایسے ھی ہوتے ہیں علم والے جو اپنے رب کے حضور ہر حال میں شکر گذار رہتے ہیں مجھے سمجھھ آگئ تھی کہہ اُس نے مجھے نہیں بتایا تو اس میں اُس کا قصور نہیں تھا میں* اُس کا پڑوسی ہوتے ہؤئے بھی بے خبر رہا تو یہ تو میرا کام تھا اور آج اس بات کو گو کہ کافی عرصہ گذر چکا ہے لیکن مجھے آج بھی یاد ہے میں کوشش کرتا ہوں کہ جہاں تک میری استطاعت ہے اپنے اطراف میں بھوک کے عفریت کے شکار لوگوں اور خاص کر بچوں کی مدد کر سکوں لیکن میں اکیلا کچھھ بھی نہیں کرسکتا کیا آپ اس میں میری کچھھ مدد کریں گے اور اگر آپ کا جواب ہاں میں*ہے تو آپ بھی تلاشیئے ایسے لوگوں کو اور اُن کی مدد کیجیئے اور ہمیشہ یاد رکھیئے کہ،
ساری اچھائی مشرق اور مغرب کی طرف منہ کرنے میں ہی نہیں (١) بلکہ حقیقتًا اچھا وہ شخص ہے جو اللہ تعالٰی پر، قیامت کے دن پر، فرشتوں پر، کتاب اللہ اور نبیوں پر ایمان رکھنے والا ہو، جو مال سے محبت کرنے کے باوجود قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والوں کو دے، غلاموں کو آزاد کرے، نماز کی پابندی اور زکوۃ کی ادائیگی کرے، جب وعدہ کرے تب اسے پورا کرے، تنگدستی، دکھ درد اور لڑائی کے وقت صبر کرے، یہی سچے لوگ ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں(سورة البقرة . آیت177)
اللہ ہم سب کو علم اور ہدایت کی روشنی سے نوازے
آمین