Bihcarrey lamhe by Razia Butt

  • Work-from-home

goodfrndz

"A faithful friend is the medicine of life."
VIP
Aug 16, 2008
12,849
4,072
1,113
محبت والا
بچھڑے لمحے
ان لمحوں
کے
نام جو آتے ہيں
اور بيت جاتے ہيں
مگر
لوٹ کر کبھي نہيں آتے۔




وقت کا دھارا ازال سے بہتا چلا آرہا ہے اور اس ابد تک بہتا رہے گا، اس کے سنگ سنگ ہي زندگي بہتي چلي جارہي ہے، زندگي اپنے بہائو ميں انسانوں کو ايک زاروں کي طرح بہاتي چلي جاتي ہے، ريگ زار کبھي اپني جگہ سے ہل کر وہيں جم کر ٹک جاتے ہيں، کچھ نئے شامل ہوجاتے ہيں، وہ بھي رکتے ہيں آگے بڑھتے ہيں، پھر ٹہر جاتے ہيں، غرضيکہ زندگي سے چمٹے ريگ زاروں کا سلسلہ ازل سے چل رہا ہے، اور اب تک چلتا رہے گا، انسان ايسا ہي ريت کا ذرہ ہے جو وقت کے دھارے ميں زندگي سے لپٹا ہوا ہے، کبھي زندگي نزديک ہي تہہ ميں بيٹھ جاتي ہے، کبھي دور تک چلا جاتا ہے، يہ نزديکي اور دوري ماہ و سال میں ماپي جاتي ہے، يہي عمر کہلاتي ہے، عمر چند لمحے بھي ہوسکتي ہے، چند ماہ، چند سال اور سالہا سال بھي ہوسکتي ہے، عمرکےہ بھي کئي رخ، کئي زاوئيے اور کئي جہتيںہوتي ہيں،۔۔۔عمر انسان کا وہ عرصہ ہے جو وہ زندگي کے سنگ گزارتا ہے، ہر انسان کا يہ عرصہ ايک جيسا نہيں گزرتا ہے۔۔اس کے رخ زاويے اور جہتيں ہر انسان کيلئے مختلف ہوتي ہيں، اس عرصے کا خاتمہ بھي ہر بندے کيلئے ايک جيسا نہيں ہوتا، کہيں زندگي ايک دم ہي ناطہ توڑ ليتي ہے، کہيں رينگ رينگ کر گزرتے ہوئے جينے والے کو اذيت اور عذاب ميں مبتلا کرديتي ہے، زندگي اپنا وہ سرمايہ جو جيتے جاگتے لوگ انسان کي صورت ميں اٹھائے اٹھائے چلي جاتي ہے، بالآخر موت کے حوالے کرديتي ہے، زندگي جيتي ہي مرنے کيلئے ہے۔
ہر انسان کي زندگي تھوڑي ہو يا زيادہ وقت اپان کردار ادا کرتا ہے، کبھي سہانا بن کر، کبھي ڈرائونا بن کر، نشيب و فراز ميں سے گزرتا ہے، دکھ، خوشي، غم، فکر، انتشار، کا ميابي،ناکا مي سبھي کو لپيٹ ميں لے کر چلتا ہے۔ميں جو کہ وقت کے ساتھ زندگي کے بہائو ميں بہتے ہوئے تقريبا پون صدي گزارچکي ہوں، اب جي چاہتا ہے، کہ پلٹ کر ديکھوں کہ ان بيتے سالوں ميں نے زندگي کے ساتھ يا زندگي نے ميرے ساتھ کيسا نبھا کيا ہے، ياداشت کے جن لمحوں کو ميں چھو سکوں گي انہيں اکھٹا کرنے کي کوشش کروں گي، ميں نے آدھي صدي سے زيادہ قلم کا قلم کا استعمال کيا ہے، اپنے قارئين کيلئے معاشرے کے ہر پہلو پر کچھ نہ کچھ لکھنے کي کوشش کي ہے، اللہ تعالي کا احسان عظيم ہے، کہ لوگوں نے مجھے بڑی محبت دي، بہت کچھ جانے کي کريد اورجستجو بھي فطري بات ہے۔۔۔۔ان کے ماضي کو حال ميں لا کر جاننے کا شوق ہوتا ہے، کم از کم ميري خواہش تو ضرورہوتي ہے، کہ جو انسان مجھے ملا ہے، يا جس سے ميرا غائبانا تعارف ہوا، ميں ان کے بچپن، لڑکپن، جواني اور بڑھاپے کے ہر دور کو اسکرين پر چلنے والي فلم کي طرح ديکھو۔۔۔۔۔ ضروري نہيں کہ صرف مشہور شخصيات کے حوالے سے ہي مري يہ خواہش ابھرتي ہے، بعض اوقات تو ميں سڑکے کے کنارے کھڑے کا سہ گدائي پکڑنے انسان کے متعلق بھي جاننے کي متني ہوتي ہوں۔۔۔۔ذہن ميں کئي سوال ابھرتے ہيں۔
کيا يہ شروع ہي سے ايسا ہے؟
اس کا بچپن کيسا ہوگا؟
اس نے زندگي کو کيسا پايا ہوگا؟
يا کبھي خوشياں بھي اس پر مہربان ہوئي ہوں گي؟
خير
يہ تو ميري اپني سوچ اور اپنا تجسس ہے، ہو سکتا ہے کوئي اس انداز سے نہ سوچتا ہو ليکن مجھے يقين ہے ميرے قارئين جو پچاس سال سے زيادہ عرصے سے مجھے پڑھ رہے ہيں ان کے سامنے اگر ميں اپنے چوہتر پچھےت سالوں کے احوال اکھٹے کرکے رکھ دوں تو وہ ضرور بخوشي جو کچھ لکھ رہي ہوں اسے پڑھيں گے۔
پيشتر اس کے کہ ميں اپنے اس دنيا سے متعارف ہونے کے متعلق اور اس کے بعد سالوں پر پھيلے واقعات کا احاطہ کروں، ميں کچھ اپنے خانداني پس منظر کے بارے ميں بھي لکھوں گي۔ميرا تعلق ايک ممتاز کشمير گھرانے سے ہے، ہمارے آباو اجداد کشمير کے ايک خوبصورت اور جنت نظير گائوں گلبرگ کے رہنے والے تھے، گلبرگ سري نگر کا ايک گائوں تھا، پھولوں اور پھلوں سے لدا ہوا، قلتل کرتے ہوئے صاف و شفاف پہاڑي چشموں سے ترنم پيدا ہوتا تھا، ہريالي کا لبادہ اورڑھے يہ علاقہ اراضي جنت تھا، يہاں خوشبودار سيب اتني بہتات ميں تھے کہ کہا جاتا ہے، ہو سيب پيڑ سے زمين پر از خود گر جاتا اسے کھايا نہيں جاتا تھا، بلکہ گايوں بھينسوں کو ڈال ديا جاتا تھا، سننے ميں يہ بھي آيا ہے کہ گائيں اور بھينسيں اتنے سيب کھاتي تھيں کہ ان کے دودہ سے بھي سيبوں کي خوشبو آتي تھي، واللہ اعلم يہ بات ٹھيک ہے يا نہیں، ليکن يہ سب حقيقت ہے، کہ کشميري سيبوں کي خوشبو ميں کلام نہيں، بچپن ميں مجھے ياد ہے اباجي کشمير گئے تھے اور وہاں سے سيبوں کي پيٹي لائے تھے، ان سيبوں کي خوشبو اور مہک سارے گھر ميں پھيل گئي، وہ خوشبو سے ميرے اندر اب بھي مقيد ہے، سو اگر سيب ہي سيب کھانےوالے گائے دودھ سے سيبوں کي خوشبو آتي تھي، تو يہ بات مغالطہ بھي نہيں ہوسکتي، خير۔۔۔۔۔گل برگ ميں زعفران بھي پيدا ہوتا ہے، جس کا سونے رنگت مخصوص خوشبو والا قہوہ کشميري لوگ اب بھي بے حد پسند کرتے ہيں، بشرطيہ زعفران کشميري ہو۔
ہماري دادي اماں اور بھي بيشمار خوبياں اس خطہ زمين کي بيان کرتي تھي، اس حيسن خطے ميں بسنے والے بھي حيسن تھے، درا قد بھرے بھرے جسموں اور سرخ و سپيد رنگت والے مرد اور نازک اندام حسين و جميل عورتيں۔۔۔۔ ۔جن کي سنہري سرخي مائل رنگت ملاحت لئے ہوتي تھي، کچھ خواتين کي رنگت گلابي چائے ايسي ہوتي تھي پاک صاف فضا، پاکيزہ ماحول، قدرت کا لازاوال حسن ميں جب بھي ان سب چيزوں کا تصور کرتي ہوں تو حيراني ہوتي ہوں، کہ ہمارے آباو اجداد نے يہ خطہ بےنظير کتنے دکھ سے چھوڑا ہوگا، اپني سرزمين سے جدا ہونا تو ويسے ہي اذيت کا باعث ہوتا ہے، اس پھولوں ميٹھے چشموں اور زعفراني مہک کے علاقوں سے وہ کيسے جدا ہوئے۔
ہمارے اباو اجدا مدتوں سے کشمير ميں آباد تھے، ہمار سلسلہ نسب جرنيل گلاب سنگھ تينترا سے ملتا ہے، يہ بہت بہادر فوجي تھے اور مہراراجہ کشمير کے دست راست تھے، انہي کي اولاد مشرف ب اسلام ہوئي اور انہيں ميں سے ہمارا خاندان ہے، يہ تينترے بہت جنگجو اور سپہ گيري ماہر تھے، کشميري قوم کے متعلق يونہي مشہور کرديا گيا تھا، کہ يہ بزدل قوم ہے، ليکن جسے قبيلے سے ہمارے بزرگوں کا تعلق تھا۔وہ بہت بہادر نڈر اور س چشم تھي، چنانچہ يہ خوبياں اب بھي نسل در نسل چلتي ہمارے کرداروں کا حصہ بني ہوئي ہيں۔
لگ بھگ اٹھاوريں صدي کے شروع میں ہمارے آباو اجدا نے نقل مکاني کي، جس وجہ کشمير ميں قحط بتائي جاتي ہے، قحط ميں غالبا فصليں پھل پھول سوکھ گئے ہوں گے او ويراني نے ڈيرہ جماليا ہوگيا،روزگ ار کي صورت نہ رہي ہوگي، اسي لئے گھر بار ،زمينيں، باغات اور زعفران کے کھيت چھوڑنے پڑے يہ لوگ قافلہ در قافلہ ايک جگہ سے دوسري جگہ ہجرت کي ہوگي، بہادري کے ساتھ جمالياتي حس رکھنے والے يہ خوبصورت لوگ پنجاب کے مختلف علاقوں ميں جاپہنچے تھے۔
ميں جہاں تک خانداني ہسٹري ٹريس کرسکي ہوں،ہمارے جدا امجد جو کشمير سے آئے دو بھائي تھے، ايک کا نام جم جو غالبا پورا نام جمشيد تھا، دوسرے کا ہل تھا، ان کے ساتھ ان کے بال بچے اور چچا زاد ماموں اور ديگر رشتے دار بھي آئے تھے، سب نے سيالکوٹ کا نواحي علاقہ محلہ رنگپور رہنے کيلے پسند کيا، يہ تب بالکل غير آبادي ہوتا تھا، اور ان لوگوں نے سر چھپانے کيلئے چھوٹے چھوٹے کچے گھر بنالئے، تلاش معاش کيلئے تنگ ودو شروع کردي ہوگي، ہاتھ پيرے مارے ہوں گے، اور زندگي سے کشمير سے بالکل مختلف ماحول ميں نبھاہ کرنے کي عادت ڈالي ہوگي، سنا ہے کچھ لوگ پنجاب کي گرمي نہ برداشت کرسکتے تھے اس لئے آہستہ آہستہ واپس جانے لگے، انکا کيا حال ہوا معلوم نہيں۔
ہمارا خاندان حجم کي اولاد سے چلا، جم کا بيٹا الا دتہ اور انکا بيٹا نورلدين تھا،يہ غالبا ہمارے اباجي کے پر داد تھے، ہمارے دادا کا نام کريم بخش تھا اور يہ چار بھائي اور دو بہنيں تھے بھائي رنگپور ہي میں رہے، نہيں ايک تو قصبہ جا مکئے چٹھ ميں بياہي گئي، دوسري بھي کسي قريبي قصبے ميں، انکي اولادوں سے ہمارا ميل جول نہيں ہے، کبھي کبھار کسي کا نام سننے ميں آجاتا ہے، ہمارے دادا کے بھائيوں کي اولاديں سيالکوٹ ہي ميں رہيں، اس لئے وہ سب لوگ آپس ميں لتے جلتے رہتے ہيں، رنگپور میں زيادہ گھر ايسے ہي رشتے داروں کے تھے، جو اب بھي ہيں۔
جم اور گل تينترا کے ساتھ ان کے اور رشتہ داروں نے بھي کشمير چھوڑا تھا، ان ميں سے ايک خاندان ہجرت کرکے چين کي طرف نکل گيا تھا، دوسرا پشاور کي سمت اس نسل میں سے ايک نوجوان نے قندھار ميں بادشاہت بھي قائم کرلي تھي، جو صرف اس کي زندگي تک ہي محدود رہي، پھر بغاوت ہوئي اور انہيں وہاں سےبھاگنا پڑا۔انکي اولاد پہنچيں کہاں آباد ہوئيں، ان بکھرے لوگوں کا ہمارے بزرگوں کو بھي پتانہ چل سکا۔
گل اور جم نے سيالکوٹ آکر کاغذ کا کام شروع کرديا تھا، کپڑے کے چھيتڑوں سے وہ کاغذ بناتے تھے، جو موٹا اور قدرے کھرے دا ہوتا تھا، يہ کام انہوں نے کافي کاميابي سے چلايا، يہ کاغذ بہت مضبوط ہوتا تھا، ٹوٹتا بھي نہیں تھا، اور يہ سرمايہ کاري دستاويزات اور عدالتي کاموں ميں لکھنے ميں استعمال ہوتا تھا، اسي صنعت کو ہمارے دادا جان نے بھي اپنايا اور کاغذ کو قدرے ملائم اور پتلا کرنےکي کوشش کي، اس کام ميں انہوں ے اپنے تينوں بھائيوں کو بھي لگايا، سب بھائي ملکر کام کرتے رہے، ليکن اس کي آمدني اتني نہ تھي کہ چار خاندان اس پر پل سکتے ہمارےداد کي شادي سيالکوٹ کے بہت بڑے کشميري خاندان ميں ہوتي تھي ہماري دادي کے والد فوجي تھے، بڑے بھائي مولوي پيراں دتہ بہت مشہور حکيم تھے، جن کک شہرت نہ صرف پنجاب ہي ميں نہيں يوپي اور دہلي ميں پھيلي ہوئي تھي، ايک بھائي شہاب تھے، جو باپ کي زمين سنبھالتے تھے، انکا گھر بہت بڑا اور عاليشان تھا، ان کے گھر ميں خدمت پر مامورتھے اور ان کے خاندان يہاں پلتے تھے، ان کي بڑي بڑی بيٹھکيں تھيں، قالنيوں سے سجي ہوتي تھيں، ريشمي گائو تکے اور پردے تھے، تب بجلي نہيں ہوتي تھي، گرمي ميں کمروں ميں لکڑي پر کپڑے کي جھالروں والے پنکھے لگے ہوتے تھے، جن کي رسي ہاتو سے کھينچي جاتي تھي، يہ بڑے اثر و رسوخ والا گھرانا تھا، روپے پيسے کي بھي ريل پيل تھي، دادي کے چچا جن کانام غالبا الہ بخش تھا 1857 کي جنگ آزادي ميں اگريزوں کے خلاف بے جگري سے لڑتے تھے، انگريزوں نے انہيں گرفتار کرکے پھانسي کي سزا سنا دي تھي،م يہ بڑے جواں، جيالے، اور خوبصورت تھے، جب انہيں پھانسي کي سزاہوئي تو جيسے دھرتي کانپ گئي ، لوگ دم بخو ہوگئے، دادي سنايا کرتي تھي کہ انہيں پھانسي پر چڑھايا جارہا تھا تو دو دفعہ رسہ ٹوٹ گيا، پھر انگريزوں نے بطور جاص ريشم بٹوا کر رسہ تيار کروايا اور انہيں پھانسي دے دي گئي۔۔۔۔۔پو را سيالکوٹ اور گردنواح کے علاقے اس کڑیل جوان کي موت پر نوحہ کنہ تھے، ليکن غير ملکي حکمرانوں کے سامنے آواز بلند نہ سکتے تھے، جنہوں نے آواز بلند کي وہ بھي دھر لئيے گئے، يوں دادي کا خاندان اور دور تک مشہور ہوگيا۔۔۔۔ا س خاندان کي ہامرےداد سے کوئي نسبت نہ تھي داد ابھي اپني فيملي کو اپنے پائوں پر کھڑا کرانے میں لگےتھے، گھر ميں بھي ايک ہي خاندان تھا، جو کچي پکي اينٹوں سے بنا ہوا تھا، چاروں بھائي يہاں ہي رہتے تھے، بہنيں بياہ کر اپنے اپنے گھروں کو جاچکي تھيں، اس لئے گھر میں کوئي عورت نہيں تھي، اس لئے گر کا کوئي خاص طور طريقہ نہ تھا، سارے لڑکے تھے اور گھر کے کام بھي خود ہي کيا کرتے تھے، اس لئے ضروري تھا کہ داد شادي کرکے بيوي گھر لے آئيں، چچائوں نے بھي اس بات پر زور ديا، داد محنت اور لگن سے کام کرکے پہلے اپني مالي حالت سنوارنا چاہتے تھے، ليکن ضرورت مجبوري کا دوسرا نام ہے۔
اگلے وقتوں ميں شادي کيلئے لڑکے کي شکل و صورت اور شرافت ہي ديکھيں جاتي تھي، تبھي تو ہماري دادي کا رشتہ ہمارے دادا سے ہو تھا، دونوں خاندانوں کي مالي حالتوں ميں زمين و آسمان کا فرق تھا، دادي کے باپ اور بھائي سواريوں کيلئے گھوڑوں کا استعمال کرتے تھے، مولوي پيراں دتہ جو حکيم تھے ان کي سفيد گھوڑي تو پورے سيالوکٹ میں مشہور تھي، وہ اردگرد کے گائوں اور قصبوں ميں مريضوں کو ديکھنے اسي گھوڑي پر جايا کرتے تھے، ان کا بڑا رعب و دبدا تھا۔
دادي اماں سنايا کرتي تھيں، کہ يکسر مختلف ماحول میں آکر انہيں زندگي سے نبھا کرنے ميں خاصي تکاليف کا سامنا کرنا پڑا گھر کے سارے کام خود کرنا پڑتے تھے، ان دنوں ديور بھي ساتھ تھے ان کا کام بھي انہيں ہي کرنا پڑتا تھا، تو اوران دنوں چکي پر گندم پيس کر روز تازہ آٹا بناتي تھيں، دادي منہ اندھيرے اٹھيتيں اور کام ميں جت جاتي اور کام تو اتنے مشکل نہ تھے ليکن چکي پيسنا آسان کام نہ تھا۔۔۔۔۔ہا تھوں میں چھالے پڑجاتے عمر بھر بھي چھوٹي تھي اکثر چکي پيستے رونے لگتيں۔دادي بتايا کرتي تھيں، اکثر جب وہ آتے تو ميں آٹا پيس رہي ہوتي، وہ شايد بہن کے چہرے پر اذيت کے آثار پڑھ ليتے، اس لئے بڑے پيار سے ان کي ہمت بندھاتے، پيسے دے جاتے، ہاں جاتے جاتے اپنے ہاتھ ميں پکڑي چھتري سے اپني سفيد کلف شدہ پگڑي کو چھو کر کہتے ديکھ فتح بي بي ميري پگ سفيد ہے۔۔۔۔۔
دادي کہتي ہيں ميں سمجھ نہ پاتي کہ بھاجي يہ کيا کرتے اور کيا کہتے ہيں، وہ کہتي ہيں آخر ايک دن جب ميں ميکے گئي تو ميں نے اپنے ماں سے يہ بات کہي اور پوچھا ماں بھاجي اکثر يہ بات مجھے کيوں کہتے ہيں؟
ماں جي مسکراديں۔
دادي نے پھر پوچھا۔
تو۔
بوليں، فتح بي بي تيرا بھائي تجھے يہ کہنا چاہتا ہے کہ تو کہیں گھر ميں تنگي اور محنت مشقت سے تنگ آکر بھاگ نہ آئے اس کي بے داغ سفيد پگڑي پر بدنامي کا کوئي دھبہ نہ لگ جائے۔۔۔۔
ماں جي کي بات سن کر دادي بہت روئيں۔
ليکن
پھر دل میں عہد کرليا، کہ وہ اپنے حالات سے ہنسي خوشي نبھاہ کريں گي اور بھاجي کو ايسا کہنے کا کبھي موقع نہ دیں گي۔
دادينے کم باندھ لي ۔۔۔۔۔۔۔۔ہر کام خوشي خوشي کرنے لگيں، بھاجي اب بھي آتے دادي ميں واضح تبديلي ديکھ کر خوش ہوتے۔۔۔۔ہم يشہ کي طرح کچھ رقم دينے لگتے تو دادي مسکرا کر رقم لوٹا ديتيں اس کي ضرورت نہیں بھاجي، ميرے شوہر کا کام اچھا چل رہا ہے، ميرے پاس پيسے ہيں۔
بھاجي خوش ہوکر بہن کا ماتھا چوم ليتے، اب انہيں اپني سفيد پگڑی کے داغدار ہونے کا خدشہ نہيں تھا۔
دادي ماں نے اپني ماں جي کو بھي منع کرديا تھا کہ وہ جوہر دوسرے تيسرے دن گھي ميں تلے ہوئے پراٹھے اور گوشت، شب ديگ وغيرہ کي ہنڈياں ہاتوئوں کے ہاتھ بھجواتي ہيں نہ بھيجا کريں، شايد ان کي خوداري يہ گوارہ نہ کرتي تھي۔
دادي نے اپنے حالات ميں ہنسي خوشي رہنے تہيہ کرليا تھا۔پھر
اولاد کي نعمت
اور دادي کي قسمت اللہ نے ان پر بڑي مہربانياں کيں، پيسہ افراط سے آنے لگا، جندر ايک جگہ تين چار لگا لئيے، کاغذ بھي بنتا تھا، اور اس کي کوالٹی بہتر ہوگئي تھي، يہ کاغذ بھي ويسا تھا جيسے ان کے دادا پر دادا بنايا کرتے تھے، ليکن اب اس کي کوالٹی بہت بہتر ہوگئي تھي، چاول اور کاغذ کي ڈيمانڈ بڑھ گئي تھي، تينوں بھائي الگ ہوگئے تھے، اس طرح خرچہ بھي کم ہوگيا تھا۔
دادي ماں کے پاس ايک منقش کٹورا تھا، جس میں وہ اپني بچت جمع کيا کرتي تھيں وہ کہتي تھي يہ کٹورہ پورے ايک ہزار روپے سے بھرجاتا تھا، ہزار روپيہ اس زمانے ميں بہت بڑي رقم ہوتي تھي، دادي ماں اپني اس بچت سے اپني ماں کو بھي آگاہ کيا کرتي تھيں تاکہ وہ خوش ہوں کہ اب انکي بيٹی غريب نہيں پيسے والي ہے۔
يوں جب يہ کٹورہ کئي بار بھرا گيا تو دادي دادا نے اپنے کچے مکان کو ڈھا کر پختا مکان بنوانے کا عزم کرليا، انہوں نے اپنے لئيے تين منزلہ پکي اينٹوں والا گھر بنوايا جس کي کھڑکياں دروازے لکڑي ديار کے تھے، کھڑکياں جو گلي ميں کھلتي تھيں، ان ميں موٹے پھولدار رنگين شيشے لگے تھے، دروازوں پر جو مہرابيں سي بنيں تھيں، ان ميں بھي يہي رنگدار شيشے ٹکڑوں کي صورت ميں لگے ہوئے تھے۔
فرشوں پر سمينٹ کے پلستر تھے، ان دنوں پاني کنوئوں سے لاجاتا تھا، ليکن تھوڑي ہي مدت بعد لوہے کے بھاري بھاري ہنڈ پمپ متعارف ہوئے، رنگپور کا يہ پہلا گھر تھا جس ميں ہينڈ پمپ لگا تھا، چونکہ يہ گھر محلے ميں سب سے اونچا اور پکي اينٹوں کا بنا تھا اس لئے يہ چوبارہ کہلانے لگا اور اس کے مکين چوبارے والے مشہور ہوگئے، لوگ يہ چوبارہ ديکھنے آتے تھے، يہ چوبارہ اب بھي موجود ہے، ليکن سوا سو سال ميں اس کي ہالت کچھ خستہ ہوچکي ہے، داد کے بعد بڑے تاياجي احمدالدين اس گھر ميں رہے پھر ان کا بيٹا جن کي شادي ميري بڑي آپا رشيدہ سے ہوئي تھي، يہاں رہے، ليکن آپا کے فوت ہونے کے بعد چوبارہ بالکل ہي ويران ہوگيا۔
ہمارے دادا نے گلي کي نکڑ پر ايک اور گھر بھي بنوايا تھا اور دو ايک جگہ زمين بھي خريدي تھي، ہمارے دادا کے گيارہ بيٹۓ تھے، پانچ کا تو صغير سني ميں انتقال ہوگيا چھ سلامت رہے، سب سے بڑے بيٹے کا نام گل محمد تھا، ان کے آدرش بہت اونچے تھے، باپ کے ساتھ کاروبار ميں شريک ہو کر انہوں نے کام کو بڑي وسعت دي، وہ بڑے نفيس ذوق کے مالک تھے، بڑے خوبصورت اور جيہہ و شکيل جوان تھے، بہت تيز فہم اور اچھے ذہن کے مالک تھے، نئي نئي چيزوں کا شوق رکھتے تھے، خود تو کاروبار ميں شرکت کي وجہ سے زيادہ تعليم حاصل نہ کرسکے ليکن ان کي بڑي خواہش تھي کہ چھوٹے بھائيوں کو اعلي تعليم دلوائيں، انہوں نے گھر کا طور طريقہ بھي بدل ديا تھا۔گھر ميں نچھلا حصے بيروني کمرہ بيٹھک کيلئے مخصص کرديا تھا، شايد اپنے امير کبير اور جيد طيبيب ماموں ان کے آئيڈيل تھے، اس لئے گھر کو انکے گھر کي طرح سجانے کي کوشش کرتے، بيٹھک ميں قالين ڈالا، کھڑکيوں پر پردے لگائے اور لکڑي کي اونچي پشت والي کرسياں، جن پر روئي کي ريشمي غلافوں والي گدياں ہوتي تھيں، بيٹھک ميں رکھيں، ان دنوں بجلي نہيں تھي، مٹي کے تيل سے لالٹين اور ليمپ جلائے جاتے تھے، تايا جي گل محمد نے موتيا کي جھالروں والا فانوس نما چھت سے لٹکنے والا ليمپ بھي لگواديا تھا، وہ فانوس خستہ حالت ميں اب بھي اس چوبارے کے کسي کونے کھدرے ميں پڑا ہے۔
گل محمد بڑے شوقين مزاج اور صفائي پسند تھے، اس زمانے ميں دھوبي کے دھلے ہوئے سفيد کلف شدہ کپڑے پہنتے تھے، دھوبي ان دنوں چھيمے کھلاتے تھے، انکا ذاتي چھيما تھا، جو ان کے سفيد کپڑوں کو کلف لگاتا اور لوہے کي بڑي سي استري سے پريس کرتا تھا، تاياجي يہ جوڑا صرف ايک دن استعمال کرتے، انہوں نے کبھي دو يا تين دن ايک جوڑا استعمال نہيں کيا تھا، لوگ ان کي صفاي اور سج دھج سے مرعوب تھے، وہ دل کے بڑے مومن تھے، غريبوں کے مالي اعانت بڑھ چڑھ کر ليکن کسي کو بتائے بغير کرتے تھے۔
ان سے چھوٹے بھائي احمد الدين تھے جو حکمت سيکھ رہے تھے، پنجابي ميں بہت عمدہ شعر کہتے تھے، بچپن ميں کالي سياہي سے خوش خط لکھي ان کي شاعري کي کتابيں ديکھيں تھيں، ليکن اب پتہ نہيں انکا کيا حشر ہوا، اتنا قيمتي ورثہ ضائع ہوگيا، احمددين سے چھوٹۓ بھائي حاکم دين، پھر جلال الدين، پھر ہمارے اباجي نياز الدين اور سب سے چھوٹے رحت اللہ تھے، يہ سارے بھائي بڑے ٹينلنڈ تھے، اباجي تو ہر کلاس ميں اول آتے تھے، ان کے ہم جماعت سر ظفر اللہ تھے ليکن قمست انہيں کہا لئے گئي اوريہ لائق فائق طالب علم تعلي جاري نہ رکھ سکے۔ اس کي وجہ تايا جي گل محمد کے بے وقت موت تھي، وہ صرف بتيس سال کي عمر ميں ہي فوت ہوگے انکي وفات 1910 ميں اس وقت ہوئي جس دن انگريزحکمر ان بادشاہ ايڈورڈ ہفتم مرا تھا، انگريزوں کا راج تھا، ملک بھر ميں ہٹرتال ہوگئي، تايا جي کے کفن اور دوسري تعزيتي چيزوں کي خريداري کيلئے بڑي مشکل پيش آئي، مرحوم نے ايک بيٹا فيض احمد اور بيٹي نور فاطمہ پيچھے چھوڑيں، فيض بھي چھبيس سال کي عمر ميں عين غفنوان شباب میں انتقال کر گئے، فاطمہ نے البتہ اسي سال کي عمر پائي، ان کي خوبصورت جواں سال بيوہ رحيمہ تھيں، جو ہماري امي کي سگي بہن تھيں، گل محمد کے کچھ ہي مہنيوں بعد ہماے داد بھي ان کے غم ميں گھل گھل کر راہي ملک عم ہوئے۔
سارا کچھ ہي الٹ پلٹ ہوگيا۔
اب سارا کاروبار اور گھر بار احمدالدين تايا جي کو سنبھالا وہ حکيم بن گئے تھے، کاروبار اور گھر کے کرتا دہرتا تھے، سب سے پہلا کام انہں نے يہ کيا کہ چھوٹے چاروں بھائيوں کو اسکول سے اٹھاکر کام سيکھنے مختلف جگہوں پر بٹھاديا، ان کے خيال ميں تعليم سے زيادہ اچھا کاروبار تھا۔
ہمارے اباجي کو ہر کلاس ميں اول آتے تھے، پڑھنے کے بے حد شوقين تھے پڑھ لکھ کر بہت بڑا آدمي نا چاہتے تھے، تعليم چھوڑ کر کام ميں لگ گئے، دوسرے بھائي بھي مختلف جگہوں پر فٹ ہو گئے، تايا جي کا اتنا رعب تھا کہ چھوٹے بھائي دم نہ مار سکے، ليکن اباجي نے جنہوں نے پانچيوں جماعت ميں اسکول چھوڑ تھا، پڑھائي چوري چھپے جاري رکھي، مطالعے کا شوق تھا، ادھر ادھر سے جو کتاب ملتي بھائي سے چھپ کر پڑھتے اس وقت ان کي عمر گيارہ، بارہ سال تھي، تعليم کے معاملے ميں ان سے يہ چوک ہوئي کہ بھائي سے ڈرنے کے باوجود اپني ہر بات منواليا کرتے تھے، پڑھنے پر بھي اڑجاتے تو شايد بڑے بھائي مان جاتے اس بات کا انہيں ساري عمر افسوس رہا۔
گھر ميں اب بھي لہر لہر تھي، چاولوں اور کاغذ سازي کے ساتہ تايا جي حکمت بھي کرتے تھے، گويہ تايا جي گل محمد کے سے ذوقي اور بہت اونچي سوچ کے مالک نہ تھے۔پھر بھي گھر بار ماں اور بھائيوں کو سنبھالا، وضع داري کے ضرورت سے زيادہ قائل تھے، چونکہ رنگپور ميں چوبارے والے تھے، اس لئے ان کي پگڑي کا شملہ اونچاہي رہا، کسي کو خاطر ميں نہ لاتے تھے، کون انکے سامنے سر اٹھا کر بات نہيں کرتا تھا، اپني بات منوانے کے عادي تھے، يوں انکا صرف گھر اور رشتہ داروں پر ہي نہيں محلہ جو کشميريوں کے علاوہ دوسري زاتوں کے بھي آکر آباد ہوگئے تھے، ان پر بھي رعب چلتا تھا، ان کے غصے کے سامنے کوئي ٹہر نہ سکا، سب بھائيوں ميں صرف انہي کا مزاج ايسا سخت تھا ورنہ ہماري داداي اور چاروں بھائي بڑے حليم الطيع اور منکسر المزاج تھے، ہاں ہمارے اباجي قدرے مختلف تھے، اچھا کھانے اور اچھا پہننے کے شروع سے شوقين تھے، دوسرے بھائيوں کو تو بڑے بھائي صاحب جو کچھ لے ديتے بخوشي سے ليتے، ليکن اباجي کواگر کوئي چيز پسند آگئي ہے تو بھائي سے بھلے ڈانٹ کھاتے تھے، برا بھلا سنتے رہے مار تک کھاتے، ليکن کرتے اپني مرضي تھے، پسندکي چيز لے کر ہي رہتے ، ايک واقعہ ہميں اکثر سنايا کرتے تھے، اباجي سناتے ہميں عيد پر بھائي جي نئے کپڑے اور نئے جوتے دلايا کرتے، ايک عيد سے قبل وہ ہميں سيالکوٹ شہر لے گئے، کپڑے خريدے پھر جوتے دلائے، دکان ميں بيٹھتے ہي اباجي کي نظر ريگ مي رکھے ايک کافي ليدر کے جوتے پر پڑي، دوسرے بھائي عام قسمکے جوتے لے کر ايک طرف ہوگئے تھے۔
بھاجي ابا جي نے کہا۔
کيا ہے؟ بھاجي بولے۔
ميں نے جوتے نہيں لوں گا، جو حاکم دين، جلال الدين اور رحمت اللہ نے ليے ہيں۔
کيوں تم کيا لوگے؟ بھاجي نے سختي سے پوچھا۔
وہ جوتا ابا جي نے اونچے ريگ پر رکھے جوتے کي طرف اشارہ کيا۔
دکاندار اباجي کي بات سن کر مسکرايا اور بولا بيٹا وہ جوتا بہت مہنگا ہے۔
کيوں اباجي جھٹ سے بولے مہنگا ہے تو کيا ہوا؟
پانچ روپے کا ہے، پرے پانچ کا۔۔۔وہ بول۔۔۔۔تو بڑۓ بھائي صاحب تپ کر بولے
اس کي ہر بات انوکھي ہوتي ہے، پانچ روپے کا بوٹ لے گا۔۔۔۔
اباجي بس اڑ گئے،،، بولے وہ ہي لوں گا۔۔۔۔
پھر بھائي کي برہمي و نظر انداز کرتے ہوئے بولے۔۔۔آپ اتار کر دکھائيں تو سہي۔۔۔۔دکا ندار اٹھا اور جوتا اتار کر اباجي کے سامنے رکھتے ہوئے بولا۔۔
يہ جوتا مہاراجہ صاحب کشمير کيلئے بنوايا تھا، ليکن انہيں ذرا تنگ تھا اس لئے واپس آگيا۔
اباجي نے جوتو ميں پائوں ڈالا تو ان کے پيروں ميں جوتا اس طرح سے فٹ آيا جيسے انہيں کيلئے بنايا گيا تھا، اب تو سوال ہي پيدا نہيں ہوتا کہ اباجي يہ جوتا نہ خريدتے، پانچ روپے اس زمانے ميں بہت بڑي رقم تھي، بھائي نےتو تينوں بھائيوں کو اڑھائي روپے کے جوتے دلائے تھے ان ايک اکيلئے کو پورے پانچ روپے کے جوتے دلانا ان کيلئے ممکن نہ تھا، ليکن اباجي ضد پر اڑے تھے۔۔۔۔باآ خر اباجي وہ جوتے لے کر ہي ٹلے۔
اباجي کي عادتيں بھي باقي بھائيوں سے فرق تھيں، دادي سب کيلئے صبح روٹي بانتي تھيں، گھر ميں بھينس تھي اس لئے خالص مکھن اور دودھ ہوتا تھا، روٹي پر تھوڑا تھوڑا مکھن لگا کر دودھ کے پيالے بھر کر بچوں کے سامنے رکھ ديتيں، ليکن اباجي کبھي مکھن لگي روٹی نہ کھاتے، وہ پراٹھے کے شوقين تھے، بہت چھوٹے تھے تب سے ہئ ضد کرکے اپنے لئے پراٹھا بنواتے۔
پھر۔
صرف ناشتے ميں نہيں، دوپہر اور رات کے کھانے ميں بھي پراٹھا ہي کھاتے۔۔۔۔
پراٹھا بھي سوکھا گيلا نہيں پرتوں وال گھي ميں تلا ہوا۔۔۔۔۔۔د ادي بھي کبھي جنجھلاجاتي ں۔۔۔۔۔کہيت يں۔۔۔۔۔تو انوکھا تو نہيں۔۔۔۔ تيرے اور بھي بھائي ہيں۔۔۔آدھا گھي تو تو کھا جاتا ہے۔۔۔
تب
اباجي بڑے خوشامدي لہجے ميں اماں سے کہتے بے بے جي مجھے تيل ہي کا پراٹھا بناديا کر۔۔۔۔۔۔مي ں کھائوں گا پراٹھا ہي۔۔۔۔۔
دادي کو بيٹے پر پيار آجاتا۔۔۔۔ پراٹھا بناہي ديتيں۔۔۔۔
اباجي کي پراٹھا کھانے کي عادت مرتے دم تک رہي۔۔ صبح ناشتے ميں ايک دوپہر کو کھانے دو اور رات کے کھانے ميں ايک پراٹھا کھاتے تھے۔۔۔۔۔پر اٹھا بھي ويسا ہي جيسا وہ بچپن سے کھاتے چلے آرہے تھے، ليکن وہ کبھي بيمار نہيں ہوئے، پيٹ خراب نہيں ہوا، صحتمند رہے۔
سفيد چاولوں وہ نہيں کھاتے تھے، پلاکبھي کبھار کھاتے تھے، ليکن ابلے ہوئے سفيد چاول جو کشميرخاندا نوں کي مرغوب غذا ہے اور ہمارے گھر ميں بھي روزانہ رات کو چاول ہي پکتے تھے۔۔۔۔نہي ں کھاتے تھے، اباجي کيلے امي پراٹھا ہي بناتي تھي، پراٹھے کے ساتھ بھنا ہوا گوشت ہي اکثر کھاتے، سبزيوں ميں صرف کريلے پسند تھے، کبھي کبھي قيمہ بھرے ٹينڈے کھاتے، بڑا گوشت کبھي نزديک نہيں آنے ديا، چھوٹا گوشت اور ديسي مرغ وہ بھي جو ابھي اذان دينے کے قابل نہ ہوا ہو، مرغوب تھا، اباجي کي اوڑھنے پہننے ميں بھي مخصوص عادتيں تھيں، بوسکي کي بين والي قميض جس کي آدھي سلائي درزي سے ہاتھ سے کرواتے تھے، کہ مشین کا بخيہ باہر کي طرف نظر نہ آئے، لٹھے کي مشہور شلوار، جس کے پائنچوں ميں بے معلوم پنک رنگ کے ڈورے ہوتے، سر پر قيمتي قراقلي ٹوپي، کاف ليدر کے بوٹ يا پمپي، سرديوں ميں سوئيٹر کے شرٹ ہوتي، گھر ميں گرميوں ميں آدھي بانہوں والي گول گلے کي بنيان اور پاجامہ اور کبھي کبھي دوہري دھوتي بھي استعمال کرتے، اپنے بستر کے معاملے ميں بھي بڑے کاش تھے، ہميشہ ہميشہ لٹھے کي جھالر لگي چادر ان کے پلنگ پر ڈالي جاتي، چادر ذرا سي بھي ٹيڑھي بچھي ہوتي يا اس پر سلوٹيں پڑ جاتين تو جب تک ٹھيک نہ کر ليتے انہيں نيند نہ آتي، سونے سے پہلے مطالعے کي ان کي عادت تھي، حقہ پيتے تھے، تمباکو کو ان کيلئے پتنہ نہيں کس شہر سے منگوايا جاتا تھا، عام تمباکو کو نہ پي سکتے تھے، سگريٹ بھي زير استعمال رہتا ہے، ليکن اونچے برينڈ کا مجھے 555 کي سنہري ڈبيہ ابھي تک ياد ہے، ہاں اباجي قميض پر سونے کے چھوٹے چھوٹے نفيس بٹن اور کف لنکس ہميشہ استعمال کرتے تھے، بٹنوں کا خاص ڈيزائن تھا، ايک دفعہ ايک بٹن گم ہوگيا، اباجي نے دوبارہ بنوانے اپنے بٹنوں کا ڈيزائن ويسا ہي کاغذ پر ڈرا کر کے سنار سے ہو بہو يسےہي بٹن تيار کراوائے۔
اباجي کے بڑے تين بھائيوں کي شادياں بھي چھوٹي عمروں ميں ہوئي تھيں، اباجي تو صرف سترہ برس کے تھے، اور ہماري امي گيارہ برس کي، ہماري خالہ جودہ برس کي تھيں، چونکہ دونوں بہنوں کي شادي اکھٹے کرنا تھي، اس لئے گيارہ برس کي بچج کا بياہ رچاديا، اميکا گورا چٹا اونچا لمبا اور عام طور پر خوبصورت تھا، ہماري فيملي کو پنجاب ميں رہتے عرصہ ہوگيا تھا، اس لئے آب و ہوا رنگتوں پر اثر انداز ہوتي ہيں، عام طور پر مردوں کے رنگ گندمي ہوگئے تھے، عورتيں البتہ اب بھي گوري چٹي اور سنہري رنگتوں والي تھيں، کچھ ہي کے رنگ موسموں کي نذر ہوئے تھے۔ہماري امي ابو کي شادي 1914 ميں ہوئي تھي اور بہت ہي دھوم دھام سے ہوئي تھي، آتش بازي کا جو استعمال ہوا ہو لوگوں ميں عرصہ تک مقبول ہوا، اس دھوم دھام کي ايک وجہ يہ تھي کہ ہمارے بڑے تايا جي جو خاندان کے سرپست تھے، اپنے کو کسي سے کم سمجھنے کيلئے تيار نہيں تھے، چونکہ ہماي خالہ کي شادي ايک بڑے اور تعليم يافتہ گھرانے ميں ہورہي تھي، اس وقت بھي ان کے خاندان مين اعلي تعليميادہت ہ لوگ تھے، ان کي جيٹھاني ڈاکٹر تھيں، اائير وائس مارشل رحمان ان کے ديور کے بيٹے تھے، سيالکٹ کے مشہور تعليم دان ماستر اللہ دتہ بھي اسي خاندان کے تھے، سو اس خاندان پر اپني امارات کي دھاک بٹھانے کيلئے تايا جي نے اس شادي پر دل کھول کر خرچ کيا، بڑے شہانہ انداز مينبارات لے کر گئے، اور دونوں ميں جو چاندي کے روپے ہوتے تھے، بارات کو روک روک کر دولہا پر سے نچھا ور کرتے رہے، کہتے ہيں ابا جي تايا جي نے روپوں ميں چاندي کي گھو نگھرياں بھي ڈال کر خيرات کي، دلہن کے کپڑے اور زيورات بھي اتنے اچھے اور زيادہ تھے کہ وہ خالہ کے سسرال والوں سے بازي لے گئے۔
امي گيارہ سال کي بچي ہي تو تھيں، خوب گوري چٹي تھيں، ان کا خانداني نک نقشہ تريبا ايک جيسا تھا لمبے قد بھرے بھرے جسم اور اونچي پتلي ناکيں، درميانے ہونٹ اور درمياني آنکھيں بڑي بڑي پيشانياں بالوں اور آنکھوں کي رنگت سياہ کوئي کوئي فرد شربتي آنکھوں اور سنہري بالوں والا ہوتا تھا۔
امي بچي تھيں، سرخ گوٹے والا جوڑا پہن کر خوشي خوشي دلہن بنيں، ہاتھ پائوں ميں مہندي سے سجے تھے، پائوں ميں پازيب چھن چھن کر رہي تھي، دلہن بنکر خوشي سے پھولي نہ سما رہي تھيں، بڑي بہن زينب چودہ پندرہ سال کي تھيں، خاصي سمجھدار تھيں، وہ دلہنوں کو عام وريہ اپنائے سمٹي بيٹھي تھيں، امي کو خاموشي سے بيٹھنے کيلئے کہا گيا، ليکن امي کب سمجھيتں تھيں، جونہي گلي ميں دونوں باراتوں کے ساتھ آئے بينڈ باجے بجنے لگے، وہ کھڑکي سے آدھي باہر کولٹک گئي يہ دھوم دھڑکا ديکھنے کا شوق تھا، ہمارے مرحوم تاياجي کي بيوہ ہماري تائي جان کا دوبارہ نکاح تايا احمد الدين سے کرديا گيا، امي کي سگي پھوپھي تھيں، وہي ديور کيلئے اپني بھيتيجي کا رشتہ لے کر گئي تھيں، ايک دفعہ اچانک کمرے ميں دلہوں کو ديکھنے آئيں، تو امي کھڑکي سے آدھي باہر کو لڑکي گلي ميں اپنہ ہجوليوں اور رشتے کے کزنوں کو تالياں بجا بجا کر اپني طرف متوجہ کررہي تھي، بينڈ باجے کے شور ميں امي کے آوازيں شايد ان ساتھيوں تک نہ پہنچ رہئ تھيں۔ہائے ہائے تائي جي نئے امي کو ديکھا ےو سينے پر دو ہتر مارا۔۔۔۔۔۔ ۔پھر آگے بڑھ کر امي کو دونوں بازئوں سے پکڑ کر کھڑکي سے اندر کھينچتے ہوئے بوليں۔ اے عاشاں عائشہ کي امي کا نام تھا بلايا عاشاں ہي جاتا تھا۔۔۔۔۔
کيا ہے پھوپھ جي امي نے اپنے کندھے چھڑائے۔۔۔
تيري مت ماري گئي ہے، آج تيري شادي ہے آرام سے بيٹھ جا بہن کے پاس۔
کيوں بيٹھوں۔۔۔۔ گلي ميں باجے ج رہے ہيں سارے لوگ وہاں ہيں۔۔
تائي جان غصے ميں بوليں اب کہيں نيچے گلي ہي ميں نہ پہنچ جانا۔
امي کو نئي بات سوجي تائي جي کے گلے ميں بازوں ڈال کر بوليں پھوپھي جي۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ميں تھوڑي دير کيلئے گلي ميں جائوں ميري سہيلياں وہاں کھڑي ہيں۔
لو ديکھو تائي جي نے گال پر ہاتھ مارا، پھر امي کو زينب کے قريب بٹھاتے ہوئے سختي سے بوليں خبردار جو تو يہاں سے ہلي۔
امي پلنگ پر پائوں لٹا کر بيٹھ گئي، ضد ميں ہاتھ پائوں اٹھا اٹھا کر آپس ميں ٹکرانے لگيں، بانہوں ميں پڑي چوڑيا اور پائوں کي پازيبيں چھٹک چھٹک کرنے لگيں، تو امي کو ان کامترنم شور بہت پسند آيا، تائي جان نے پريشان ہو کر منع کيا تو وہ ہنس ہنس کر چوڑياں اور پازيبيں چھٹکانے لگيں۔
اسي اثنا ميں کچھ رشتہ دار عورتيں اور لڑکياں کمرے ميں آگئيں۔
ہائے کتنا روپ آيا ہے، تجھ پر عاشاں۔۔۔۔۔ کتي سوہني لگ رہي ہے کسي نہ کہا۔
اچھا امي نے پھر چھن چھن شروع کردي، ديکھو نہ ميرے زيور بھي کتنے مزے کے ہيں۔
عاشاں بيٹي يہ امي کے استاني تھي۔۔۔۔۔جب شادي ہوئي امي تيسري يا چوتھي جماعت ميں تھيں، استاني جي نے امي کو پير اوپر اٹھا کر سمٹ کر بيٹھنے کو کہا، امي استاني کا حکم مانتي تھيں، اس لئے جس طرح انہوں نے کہا بيٹھ گئيں۔
تائي جي نے امي کو استاني جي کے حوالے کيا، استاني جي۔۔۔۔رخصت ي تک اسے ايسے ہي بٹھائے رکھنا، اٹھ اٹھ کر دوڑ رہي ہے۔
بچي ہے۔ استاني جي مسکرائيں، آپ جائيں، ميں اس کے پاس ہوں۔تائي نے شکر کيا ان کا تعلق چونکہ دونوں طرف سے تھا اس لئے انکا باہر مہمانوں کے پاس آنا ضروري تھا۔
استاني جي امي کو سنبھالنے لگيں، زينب سے بھي باتيں کيں، دونو کو نئي زندگي کے متعلق سمجھايا، بہت کچھ بتايا، جو خالہ زينب کے پلے تو پڑا ہوگا ليکن امي کے سر کے اوپر سے گزر گيا۔
ايا ايک باہر شور مچا ہنسياں قہقہے بلند ہوئے، کيونکہ دونوں دولہائوں کو ايک ساتھ لايا جارہا تھا، ايک کا پير آگے بڑھ جاتا تو ساتھ کھڑا ہجوم شور مچاديتا، دونوں اکھٹے پير اندر لائو۔
يہ سلاميوں کا مرحلہ تھا، دونوں دولہوں کو اکھٹے بٹھايا گيا اور ہر کوئي دونوں کو ايک جتني سلامي دينے لگا، پھر رشتے کي ساليوں نے دودھ پلائي کي رسم کرنا تھي، تب تک امي اور زينب دوہي بہنيں تھيں، اس لئے ماموں خالہ پھوپھي اور چچا زاد بہنيں دودھ لے کر دونوں دولہوں سے گلاسوں سے گھونٹ گھونٹ دوپدھ پينے کے بعد پيسوں کي ڈيمانڈ کرنے لگيں، يہاں بھي دونوں طرف سے مقابلہ تھا، ساليوں کي چاندي ہوگئي، کيونکہ ايک دولہا کا سرپرست دوسرے دولہا کے سرپرست سے زيادہ پيسے نکلا رہا تھا،شايد نيلامي کي بولي کي طرح يہ رقم بڑھتي ہي جاتي کہ خاندان کي ايک بزرگ خاتون نے دونوں فريقوں کا معاملہ طے کرايا۔
اس طرح رخصتي کا مرحلہ آيا، دو ڈولياں دروازے پر کھڑي کردئي گئيں، ماں باپ رشتے دار عزيز ننماک آنکھوں سے دونوں دولہنوں کو باہر لائے خالہ زينب رو رو کر ہلکان ہورہي تھيں، ليکن امي کو ذرا بھي رونا نہيں آرہا تھا، وہ زينب کو ديکھ ديکھ کر حيران ہو رہي تھيں، ڈولي ميں بيٹھنے کا مزہ تو آئے گا، يہ کيوں رو رہي ہے۔
ہمارے ناني نانا بڑے نيک پرہيزگار اور پنج وقتہ نمازي آدمي تھے، چھوٹا سا گھر نانا چھوٹا موٹا کنسٹرکشن کا کام کرتے تھے، نانا کا نام رحمت علي اور ناني کا نام فاطمہ تھا، درميانے متوسط طبتے سے تعلق تھا، دونوں بيٹياں اورنچے گھروں ميں جارہي تھيں، اس لئے خوش بھي تھے، ليکن جگر گوشوں کو جدا کرتے ہوئے رو بھي رہے تھے، امي نے ماں کو روتے ديکھا تو پتا نہيں کيوں انہيں بھي رونا آگيا، ليکن جب ڈولي ميں بيٹھيں تو پھر خوش ہوگئيں، ڈولي گھر سے اپنے بھائي بند ہي اٹھا کر لے جارہے تھے، کہاروں کے حوالے گلي پار کرکے کيا کرتے تھے۔دونوں ڈولياں مخالف سمتوں سے گلي سے ايک ہي وقت ميں نکليں اور اپني اپني راہ پر چل ديں،تب بھي خوب پٹاخے چھوڑے گئے اور چاندي کے روپے ڈوليوں پر سے نچھاور کئيے گئے، جو بچوں بڑوں سب نے ہي لوٹے، يہ اس وقت کي ريت تھي، اب تو دلہنيں سجائي گاڑيوں ميں رخصت ہوتي ہيں، رونا دہونا نہيں ہوتا، پر سے پيسے بھي نہيں لٹائےجاتے، خيرات خاموشي سے کسي مستحق کو پکڑا دي جاتي ہے۔
ہمارا ننھيال سيالکوٹ شہر کے موري دروازہ ميں رہتا تھا، رنگپور اور موري دروازہ ميں خاصا فاصلہ تھا، امي کو ڈولي کي سواري ميں بڑا مزہ آيا۔
سسرال ميں بنھي کنبہ قليل تھا، دلہنوں کو ہاتھوں ہاتھ ليا گيا، چوبارے والوں کي دلہن کو اردگرد کے لوگ بھي ديکھنے کيلئے آگئے تھے، امي کے چائو چوچلے ہو رہے تھے، سلامي مل رہي تھي، کوئي ايک روپيہ دے رہا تھا، کوئي آٹھ آنے ، پانچ دس دس روپے بھي جيٹھوں سے ملے، امي کي جھولي خاصي وزني ہوگئي تو ساري پھوپھي کي جھولي ميں الٹ دي، ان دنوں کاغذي نوٹوں کي جگہ سکے جو سلاميں دئيے جاتے تھے۔
شام اترنے تک تو امي خوب خوش رہيں، ليکن جونہي اندھيرا اترا، چراغ جلنے لگے، تو امي کو نئي اور اجنبي جگہ پر خوف محسوس ہونے لگا، اور جب کھانا کھانے کے بعد خاندان کي سہاگنيں انہيں ايک الگ کمرے ميں پھولوں بھري سيج پر بٹھا کر کمرے سے نکلنے لگيں، تو وہ بھي رنگين اور شيشوں لگے پايوں والے پلنگ سے کود کر اتر آئيں، ان کي اس حرکت پر سب عورتيں ہنس پڑيں۔ پھر بڑي مشکلوں سے لاڈ پيار کرکے انہيں سيج پر بيٹھايا۔
ہاں دوسري جيٹھائي نے اباجي کو بلانے کي رائے دي، نياز الدين ہمارے اباجي کا نام تھا۔
بڑي جيٹھياني نے کسي دوسري عورت کے کان ميں کھسر پھسر کي کہ دولہا کو چپکے سے جا کر لے آئے۔
امي کو چين نہيں آرہا تھا، بار بار پلنگ سے ارنے کي کوشش کر رہي تھيں، خوفزدہ بھي ہورہي تھيں، جب خوف زيادہ ہي بڑھ جاتا ہے، تو سب سے ملتجيانہ لہجے ميں بوليں، ميں نے ماں کے پاس جانا ہے، اپنے گھر جانا ہے۔۔۔۔۔۔
جيٹھانيوں نے ہنس کر کہا عاشاں اب يہ تيرا گھر ہے، تيرا بياہ ہوگيا ہے۔۔۔۔۔تو اس گھر کي بہو بن گئي ہے۔۔۔۔۔گيا رہ سالہ بچي کو يہ فلسفا کہاں سمجھ ميں آتا، انہوں نے پھولوں بھري سيج پر ہي پائوں رگٹرنا شروع کرکے رٹ لگادي کہ ميں نے ماں کے پاس جانا ہے، يہ ميرا گھر نہيں ہے، مجھے ميرے گھر چھوڑ آئو۔
امي کي ضد اور جيٹھانيوں کے سمجھانے کے مرحلے کے دوران ہي رشتے دار کي جواں سال بھابھي شوخي سے مسکراتي اباجي کو کمرے ميں لے آئيں۔۔۔۔۔۔ ۔ اور انہيں بستر پر ايک طرف بٹھاتے ہوئے کہا لے نياز سنبھال اپني ووہني کو۔۔۔۔۔۔ ساتھ ہي سب نے ايک دوسريکو آنکھوں ہي آنکھوں ميں کمرے سے نکلنے کے اشارے کئے۔ امي نے جب سب کو جاتے ديکھا اور اباجي کو پلنگ پر اکيلے بيٹھے ديکھا تو وہ بے اختيارانہ چيخيں مارنے لگيں، پلنگ سے چھلانگ لگا کر اتريں۔۔۔۔۔ اور دروازے سے نکلنے والي عورتوں کو دھکے ديتي باہر آگئيں۔۔۔۔۔ بس پھر کيا تھا۔۔۔۔۔۔ا تنا چيخیں۔۔۔۔۔ ۔۔ اتنا روئيں۔۔۔۔۔ ۔ کہ گھر والے گھبراگئے۔۔ ۔۔ بار بار سيڑھيوں کي طرف لپکتيں۔۔۔۔ ۔اپنے گھر جانے کي رٹ لگا کر رکھي۔۔۔۔۔
بڑي مشکلوں سے دادي نے انہيں سنبھالا پيار کيا، گلے سے لگايا۔۔۔۔۔ اور صبح صبح انہيں امي کے گھر پہنچانے دينے کا دلاسہ ديا، ۔۔۔۔يہ بھي کہہ ک صبح تمہاري امي اور دوسرے بہت سے رشتہ دار تمہيں لينے آگے۔۔۔۔۔ول يمہ جو تھا۔۔۔۔۔
امي کو کچھ تسلي ہوئي۔۔۔۔دا دي نے انہيں اپنے ساتھ اپنے بستر پر لٹا ديا، اور محبت بھري باتوں سے امي کا دل لبھانے لگيں۔۔۔
امي تھکي ہوئي تھيں، رونے چلانے سے بھي بے حال تھيں، اس لئے تھوڑي دير بعد سوگئيں، نہ کپڑے بدلے نہ زيور اتارے اور پھر انہي گہري نيند سوئيں کہ انہيں پتا ہي نہيں چلا کہ کب ان کي ساس اٹھ کر وہاں سے چلي گئي اور کب نياز صاحب ان کي جگہ پر آگئے۔دوسري شام امي اپني ماں اور رشتہ داروں کے ہمراہ گھر واپس اپنے گھر آئيں اور ايسا آئيں کہ سسرال کبھي نہ جانے کا اعلان کرديا۔ امي پورے دو اڑھائي سال ميکے ہي ميں رہيں، سسرال سے جب کوئي لينے آتا تو چھپ جاتيں، چچائوں اور دوسرے رشتہ داروں کے گھر ساتھ ساتھ ہي تھے، کبھي کسي کے گھر کبھي کسي کے ہاں بھاگ جاتي۔
امي ايک مزے کي بات بتايا کرتي تھي، کہ ميں اپنے گھر کي اوپر والي چھت پر جو کچي تھي مٹي اکھٹی کرکے چھوٹي چھوٹي قبريں بنايا کرتي تھي، دو تين قبريں بناتيں۔۔۔۔ ۔۔۔ ايک پر انگلي رکھتيں يہ ميري ساس کي قبر ہے۔۔۔
دوسري کو چھو کر کہا کرتيں يہ ميري پھوپھي بڑي جيٹھاني کي قبر ہے۔
اور تيسري کو چھوئے بغير کہتيں يہ نيازو کي قبر ہے۔ غصے ميں اباجي کا نام بھي بگاڑديا کرتي تھيں، سسرال والے خاص کر دادي اور اباجي بہت پريشان تھے، اب امي کچھ بڑي بھي ہوگئي تھيں، ليکن خوف جو دل ميں بيٹھا ہوا تھا وہ نکل نہ پاتا تھا۔
اڑتالہ سيالکوٹ کے قريب ايک جگہ ہے وہاں دو دھيال کے خانداني پير رہتے تھے، بہت پہنچے ہوئے تھے، کہتے ہيں انہوں نے چودہ سال پاني ميں کھڑے رہ کر عبادت کي اور قرب الہي پايا تھا، دادي اور خداندان کے دوسرے لوگ گا ہے گاہے انکے پاس دعا اور خير و برکت کيلئے جايا کرتے تھے، دادي کو خيال آيا امي کو انکے پاس لے جايا جائے۔
چنانچہ انہوں نے اپني بڑي بہو سے کہا رحميہ عاشاں کو اڑتالہ شريف نہ لے چليں، شايد وہ ہي اس کو کچھ سمجھائيں، دعاديں اور يہ اپنے گھر آجائے۔
بالکل بے بےجي، تائي نے جواب ديا، ليکن اک بات ہے۔
کيا۔
عاشاں ہماے ساتھ جائے گي؟ ہم سے تو وہ کوسوں دور بھاگتي ہے۔
دادي نے کچھ اور سوچا اور بوليں، اسکي ماں کوبھي ساتھ لے چليں گے، ماں کے ساتھ تو چلي جائے گي۔
ہاں يہ بات ٹھيک ہے۔
چنانچہ دادي نے ہماري ناني کو اعتماد ميں لےکر پروگرام بناليا، امي ماں کے ساتھ جانے پر تيار ہوگئيں، دو چار رشتہ دار بھي ساتھ لے گئے، پير صاحب کےہاں حاضري دي۔
دادي نے جب امي کي روئيداد سنائي تو پير صاحب نے زير لب مسکرائے اور بولے فتح بي بي۔فکر نہ کرنا يہ بڑي قسمت والي ہے، اس کا گھر ايسے بسے گا، کہ دنيا ديکھے گي، ابھي چھوٹی ہے، کچھ دير اور صبر کرلو، يہ اپنے گھر خوشي سے جائے گي، اور بہت خوش رہے گي۔
دادي ناني کو انکي باتوں سے تسلي ہوئي۔
اس کے کچھ ہي دنوں بعد ابا جان نے ماں اور بھابھي سے ماي کو گھر لانے کا اصرار کيا۔داداي تو اتني جلدي جانے پر رضا مند نہ تھيں، پر ابا جي بضد تھے، چنانچہ تينوں پھر موري دروازے گئے، اب امي ان لوگوں سے کچھ کچھ مانوس سي ہوگئي تھيں، بارھويں سال میں تھيں ان کو ديکھ کر بھاگتي نہيں تھيں۔
دادي اور ہماري تائي جو امي کي پھوپھي کي تھيں انھيں انہوں نے امي کو جانے کيسے ساتھ چلنے پر تيار کرليا، سسرال جانے کا نہں کہا ويسے ہي گھمانے پھرانے لے جانے کي بات کي، امينے نيا جوڑا اور زيور پہنا، پائوں میں طلے اور ستاروں والي جوتي جيسے چانني جوتي کہا جاتا تھا، پہني۔۔۔۔
ان دنوں لوگ سيالکوٹ شہر سے رنگپور پيدل ہي آتے جاتے تھے، ليکن ابا جي نے اپني دلہن کو لانے کيلئے تانگہ منگوايا تھا۔
امي خوشي خوشي انکے ساتھ تانگے ميں جا بيٹھي تانگہ نيا اور گھوڑا خوبصورت تھا امي بہت خوش تھيں، اباجي کي خوشي کا ٹھکانہ نہيں تھا۔
ليکن تانگہ موري دروازے کي سڑک مڑ کر جوں ہي رنگپورےوال ي سڑک پر چڑھا، امي نے تانگے سے چھلانگ لگادي، اور سر پٹ دوڑتي ہوئي پچھلي گلي ميں گھس گھس گئيں،ايک جوتي بھي نالے ميں گر گئي، ليکن وہ دوڑے گئيں، اور گھر جا پہنچيں ايک پائوں سے ننگي قيمتي چانني جواتي کا ايک پير نالے ميں بہہ گيا تھا، ظاہر ہے سب نے پريشان ہونا تھا۔
اس طرح کے تماشے چند دفعہ اور بھي ہوئے، ليکن جب امي چودہ سال کي ہو گئيں تب خاصي سمجھدار ہوچکي تھي، اس لئے سسرال جانے پر آمادہ ہوگئيں،چود ہ سال سے کچھ ماہ اوپر ان کي عمر تھي، جب وہ باقاعدہ بہو بن کر سسرالي گھر ميں آئيں اور پوري طرح سے گھر میں دل لگاليا، اباجي تو ان کے عاشق زار تھے، امي کوبھي ابا جي کے جذبات کا احساس تھا، بڑي فرمابنرادا ر اور پيار کرنے والي بيوي بن گئيں، گھر والے اب خوش تھے، اور يہ نيا جوڑا بھي، جيٹھانيوں سے بھي سہيليوں کي طرح گھل مل گئيں، ساس کو ماں سمجھا۔
ہماري دادي بھي بے حد خوش تھيں، ساري گھر داري انہوں نے بڑي بہو کے سپرد کر دي۔ خود خدا کي خوشنودي کيلئے محلے ميں رفاعي کام کرنے لگيں، غريب عورتيں سب ان کے پاس آتيں، انہيں جو کچھ ہاتھ ميں ہوتا دے دتيں، کسي کا دوپٹہ پٹھا ہوا ديکھتيں تو اپنا دوپٹہ اس کو دے کر اس کا دوپٹہ اوڑھ کر گھر آجاتيں، ايک دفعہ چندہ جمع کرنے کے لوگ آئے غالبا ترکي پر کوئي آفتا پڑي تھي، دادي نے وہيں کھڑے کھڑے اپنے سونے کے وزني بالے اتار کر دئيے۔وہ ايک کھلے دل والي صاف نيت اور پيار کرنے والي عورت تھيں، چھوٹے بيٹے کي شادي کےبعد وہ پانچ بہوئوں کي ساس تھيں، ليکن سب سے بيٹيوں کي طرح پيار کرتيں تھيں، دادا کے بنائے ہوئے دونوں گھر اب آباد تھے، مہرياں غريب طبقے کي عورتيں کام کرنے آتيں، شام کو پانچوں دلہنيں نہا دھو کر کپڑے بدلتي، نائن ان کي چوٹياں گونڈھنے آتي ، مان پھولوں کے ہار بنا کر ان کے بالوں میں لگانے کيلئے لاتي، قنوج سے تايا احمد الدين ان کيلئے عطر بہاريں منگواتے تھے۔
غريضکہ چوبارے والے رنگپور ميں سب سے امير تھے، اس لئے ان کے گھروں کے طور طريقے بھي دوسروں سے مختلف تھے، سب ٹھاٹھ بھاٹھ سے رہتے تھے، ہاں اپنے سے بڑے بھائيوں کا رعب داب چلتا تھا، تاياجي احمد الدين کرتا دھرتا ہے، وہي سب کو ماہانہ خرچہ ديتا تھا، سب کيلئے کپڑا لاتا، جو درزنيں سيتيں۔
ہمارے اباجي چونکہ بچپن ہي سے شوقين مزاج تھے، اس لئے انکا جي چاہتا تھا، کہ امي کيلئے خوبصورت اور قيمتي کپڑے درزي سے سلوا کر لايا کريں۔
ايک دفعہ انہوں نے بڑے شوق سے کشميري پشمينے کا خوبصورت جوڑا خريد کر درزي سے سلوايا، اس کا گلا کوٹ کالر تھا، دوپٹے کے کناروں پر بھي باريک پليٹيں ڈلوا کر فيتہ لگوايا، خوشي خوشي کپڑے لے کر گھر آئے، تو اپنے بڑے بھائي جلال نے پوچھ ليا يہ کيا ہے۔
بھاجي اباجي بولے عائشہ کيلئےکپڑے لايا ہوں۔۔۔۔۔ اباجي امي کو ہميشہ عائشہ کہہ کر پکارتے تھے۔ادھر دکھا۔۔۔۔تا ياجي نے کپڑے چھين لئے، اور کہا عاشاں نے فرمائش کي تھي؟
اباجي بيچارے ششد رہ گئے، گھگھيکا کر بولے نہيں بھاجي ميں خود ہي اس کيلئے سلوا کر لايا ہوں، درزي کے پاس کس کا سلاہوا جوڑا ديکھا تھا مجھے بھي شوق آگيا۔۔۔۔۔
تايا جي نے قميض پھيلا کر ديکھي کوٹ کالر ديکھتے ہي آگ بگولا ہوگئے يہ شريف عورتوں کے پہننے کا ہے۔۔۔۔۔ايس ے گلے پہننے کے ہيں؟ اونچے گھر کو بدنام کرے گا تو۔۔۔۔۔
اباجي بيچارے کچھ ہنے ہي کو تھے کہ تايا جي نے دونوں ہاتھون سے قميض کا گريبان پکڑا اور گھيرے تک پھاڑ کر پھينک ديا، ابا جي کو بعيد نہيں تھا وہ تھپڑ بھي لگاديتے۔۔
ان کے جانے کےبعد اباجي کپڑے سميٹ کر کمرے ميں لے آئے، امي کو بھي دکھ ہوا ليکن بڑوں کے سامنے بولنے کي مجال نہ تھي۔وقت بےخير و خوبي گزر رہا تھا، ان پانچوں بھائيوں کا سلوک اور اتفاق ضرب المثل تھا، ليکن اب بھائي بال بچے دار ہوگئے تھے، کسي کے چار اور کسي کے چھ بچے ہوگئے تھے، اخراجات بڑھ گئے تايا جي نے چاولوں کا کاروبار تقريبا بند کرديا تھا، کاغذ سازي پہلے ہي ختم ہوچکي تھي، تايا جي جو حکمت سے لگائوں تھا، اس لئے انہوں نے اپني تما تر توجہ حکمت کي طرف رکھي، شعر و شاعري سے بھي شغف تھا، ان کے مريضوں ميں بھي اضافہ ہورہا تھا، دو تين بڑے ناياب اور کامياب نقصے انہيں مل گئے، اس لئے ماموں کي طرح ان معالج خاص کا شہرہ بھي دور دور تک پھيل گيا، بڑے بڑے امرا ان کو عزت ديتے تھے، تايا جي انکے معالج خاص تھے، علاج معالجے کے سلسلے ميں وہ اکثر گھر سے باہر رہتے تھے، تاياجي ان کے معالج خاص تھے، علاج معالجے کے سلسلے ميں وہ اکثر گھر سے باہر رہتے تھے،کبھي لاہور، بہاولپور، کبھي ملتان۔۔۔۔۔ ۔۔۔ آمدني بہت تھي، ليکن پانچ خاندانوں کيلئے ناکافي نہيں تھي۔۔۔۔
ہمارے اباجي نے سيالکوٹ چھوڑ کرکسي دوسرے شہر ميں قمست آزمائي کرنےکا سوچا، وہ بزنس ہي ميں اب دلچسپي رکھتے تھے، سيالکوٹ کھيلوں کے سامان اور ٹرنک سازي کي صنعت کيلئے مشہور تھا، ابا جي کام سيکھ چکے تھے، اس لئے انہوں نے روالپنڈي کي طرف رجوع کيا، پہلے وہاں سے آڈر لے کر آتے اور سپلائي سيالکوٹ سے ہوتي، پنڈي انکے کام کيلے بڑا وسيلہ ثابت ہوا، اب آرڈر سيالکوٹ ميں ٹرنک پيٹاں وغيرہ تيار کروا کر سپلائي کرنے کے بجائے انہوں نے پنڈي ہي میں دکان بنالي، کچھ عرصہ مال سيالکوٹ ہي سے منگواتے رہے، پھر پنڈي میں فيکٹري بنالي، کاريگر سيالکوٹ سے لے آئے اور يوں يہ کام چلنے لگا اور بہت ہي کاميابي سے چلنے لگا، ابا جي نے گھر ميں يہیں لے ليا اور امي کو دو بيٹيوں سميت پنڈي لے آئے، پہلا گھر انہوں نے شاہاں ديا ٹالياں کے مخالف سمت جانےوالي گلي ميں ليا، اب تک اباجي چار بيٹيوں کو جنم دے چکے تھے، دو تو بہت چھوٹي فوت ہوگئيں، دو ساتھ پنڈي آگئيں، بڑي کا نام رشيدہ اور دوسري کا نذير بيگم تھا۔
اباجي کي ديکھا ديکھا وقفوں کے بعد دوسرے بھائيوں نے بھي رخت سفر باندھا، تايا جي حاکم دين فيروز پورجا بسے، قيام پاکستان کے بعد مردان چلے آئے۔۔۔۔۔او ر وہيں وفات پائي۔۔۔
تايا جي جلال الدين پنڈي آگئے اور اپنا کاروبار الگ سے شروع کرديا، انہوں نے نيا محلہ ميں گھر ليا، چھوٹے چچا رحمت اللہ نوشہرہ آگئے، يوں سارے بھائي الگ ہوگئے، اچھے مستقبل اور بچوں کي خوشحالي کيلے يہ اقدام کئے گئے تھے۔ليکن ہماي دادي بچوں کے دور ہوجانے سے بہت افسردہ ہنے لگيں، بيٹوں کے پاس آتي جاتي رہتي، بيٹے بہوئيں اور پوتے پوتياں بھي عيدوں پر سيالکوٹ اکھٹے ہوتے، برادري ميں خوشي ہوتي تب بھي آتے جاتے رہتے، ليکن دادي کا دوسرا گھر خالي ہوگيا تھا، صرف چوبارے ميں بڑے تاياجي احمد الدين کا خاندان آباد تھا، دادي وہيں رہتي تھيں، ماں کي خدمت رپيے پيسے سے سب ہي بيٹے کرتے، ليکن انہيں پيسے سے غرض نہ تھي، سب کچھ غريبوں ميں بانٹ ديتيں۔
اباجي کا کاروبار سب بھائيوں سے زيادہ پھيلا، انہيں آرمي کا کام بھي ملا، خوب پيسہ کمايا، اباجي اب خود مختار آزاد تھے، اس لئے بيوي بچوں کو من ماني چيزيں لر کر دينا مشکل نہ تھا، اچھا کھلاتے اچھا پہناتے، امي کو تو انہوں نے سونے ميں پيلا کرديا تھا، چھوٹي چھوٹي بيٹيوں کيلئے بھي زيور بنا ڈالا، امي اب بڑي بردبار خاتون تھيں، بچپن والي شوخ اور ضدي عاشاں بڑي متحمل مزاج اور شوہر کي مزاج آشان تھيں، اپنے آپ کو مکمل طور پر اباجي کي پسند اور مرضي کے مطابق ڈھال چکيں تھيں، ان کي جوڑي رشتہ داروں اور دوستوں ميں قابل رشک تھي۔
اباجي 1921 ميں راولپنڈي آئے تھے، امي اور بچياں اوائل 1922 ميں آگئي تھيں، چار بيٹيں اورپر تلے ہوئي تھيں، بيٹے کي خواہش ضرور تھي، اس لئے جب امي اميد سے ہوئيں تو دونوں کو پھر سے اميد لگ لگ گئي، کہ اس دفعہ ضرور بيٹا پيدا ہو گا۔۔۔۔۔ دادي نے تو جگہ جگہ منتيں مانيں، دعائيں کيں، اور کروائيں، ناني نانا نے بھي بيٹے کيلئے اللہ کے آگے دامن پھيلايا امي خود مزاجي کي اتني اچھي تھيں کہ ہر ملنے والي نے ان کيلئے دعا کي۔
اباجي تو کچھ زيادہ ہي پر اميد تھے اس لئے امي سے جب بھي اس سلسلے ميں بات کرتے کہتے عائشہ ديکھنا مير ابٹا ہوگا تو ميں سيالکوٹ جاکر برادري ميں کس طرح جشن مناتا ہوں، ميري شادي پر بھاجي نے بہت آتش بازي چھوڑي تھي ميں بيٹے کي خوشي ميں اس سے بڑھ کر آتش بازي چھوڑوں گا، شاندار عقيقہ کروں گا۔
سيالکوٹ بے بے جي کے پاس جتني غريب عورتيں آتي ہيں ہا، سب کو جوڑے بنوا کر دوں گا۔
مٹھائي تو منوں کے حساب سے بانٹوں گا۔
بھائي گل محمد مرحوم کي بيٹی فاطمہ تو ہماري بہن ہے، اسے بھي سونے کا زيور پہنائوں گا۔اباجي اتنے جوش اور ولولے سے پروگرام بناتے کہ امي بظاہر تو خوش ہوتي انکے ہاں ميں ہاں ملاتيں، برملارائے سےاختلاف کرنا تو انہيں آتا ہي نہيں تھا۔
ہاں
دل میں ڈرتي رہتيں کہ کہيں پھر لڑکي ہوگئي تو ان کي اميدوں کے محل دھڑم سے گرجائیں گے، کتنا صدمہ پہنچےگا، کہيں يہ صدمہ بيوي سے ناراضگي ہي کا موجب نہ بن جائے، بچاري امي کچھ بھي نہ کر پاتي، کيا کريں، ابا جي کو اتني روشن اميدوں کا سہارا لينے سے کيسے روکيں۔
19 مئي 1924 کا دن طلوع ہوا موسم گرما شروع تھا، ليکن پنڈي کا موسم ان دنوں ميں زيادہ گرم نہيں ہوتا تھا، اس دن خلاف توقع موسم بہت ہي خوشگوار تھا، بادل چھائے ہوئے تھے اور ہوا بھي چل رہي تھي، امي درد دزہ ميں مبتلا تھيں، دايہ جو مينہ بھر پہلے امي کو دہانے کيلئے آيا کرتي تھي، انکے پاس تھي، اسے بھي اميد تھي کہ بيٹا ہوا تو جھولي بھر جائے گي، انعام سے نوازي جائوں گي، اس لئے دعائيں بھي کر رہي تھي۔
امي کي تکليف کچھ زيادہ بڑھي تو اباجي ايک ہندو ڈاکٹر چٹھا کي بيوي کو لے آئے وہ بھي ڈاکٹر تھي ليکن چند ہي گھروں ميں آئي تھي۔
اس کے آنے کے گھنٹہ بھر ميں ابا جي جو صحن میں بےتانہ ٹہل رہے تھے، بچے کے رونے کي آواز آئي دل اچھل کر حلق ميں آگيا، بے تابي اور بڑھ گئي دايہ کے باہر آنے کا انتظار تھا۔
کچھ ہي دير بعد دايہ باہرآئي۔
اباجي نے اس کي طرف ديکھا۔
اس کے بجھے منہ سے اندازہ ہوگيا پھر بيٹی آئي ہے، چند لمحے تو انہيں چھٹکا لگا۔
ليکن
جلد ہي سنبھل گئے اور دايہ سے پوچھا لڑکي ہوئي ہے۔
جي وہ مردار سے لہجے ميں بولي تو اباجي خوشدلي سے مسکراکر بولے بيٹي ميري ہوئي ہے، غم تجھے کس بات کاہے، فکر نہ کر میں تمہيں اس طرح خوش کروں گا جس طرح بيٹۓ کي صورت کرتا۔
وہ حيران ہو کر اباجي کي طرف ديکھنے لگي۔
اباجي نے پھر پوچھا عائشہ تو ٹھيک ہے نا؟
جي زچہ بچہ دونوں ٹھيک ہيں۔
اباجي نے دانو ہاتھ جوڑ کر اٹھائے اور آسمان کي طرف ديکھا، وہ زچہ و بچہ کي سلامتي اور صحت يابي پر اللہ کا شکر اسي انداز ميں کيا کرتے تھے۔
بچي بڑي صحت مند اور گول گول سي تھي۔۔۔۔۔۔ا س کا نام اباجي نے اس وقت رضيہ بيگم رکھ ديا۔
يہ ميں تھي۔
بيٹے کي آس ميں بيٹھے امي ابا کو يقينا ميري پيدائش پر مايوسي ہوئي ہوگي، ليکن وہ ہميشہ يہ ہي کہتے تھے ايسا قطعا نہيں ہوا تھا، چند لمحے دھچکا ضرور لگا ليکن نوازائيدہ بچي ان کيلے عچيہ خداوندي ہے، دونوں خوش تھے، کہ بچي موٹي تازي سہنري رنگت اور سياہ بالوں والي بہت پيارئ ہے، اس وقت ميري بڑي بہن سات سال کي تھيں، اور چھوٹي چار سال کي، گھر ميں چھوٹا بچہ ان کيلئے کھلونا تھا۔
امي کہا کرتي تھيں، میں انے انہيں عام بچوں کي طرح تنگ نہيں کيا، صرف بھوک لگتي تھي تو تھوڑا سا روتي تھي، چار پانچ ماہ کي تھي تو ہنسنا شروع کرديا تھا، بہنيں گد گدي کرتيں تو قہقہے بھي لگايا کرتي۔۔۔۔۔۔ گيارہ ماہ کي عمر ميں چلنا شروع کرديا تھا۔
ليکن ميں ہنسنے رونے اور چلنے تو لگي تھي،۔۔۔۔۔پ ر باتيں نہيں کررتي تھي۔۔۔۔۔ما ما بابا وغيرہ بھي نہيں کہتي تھي۔
سب سمجھنے لگے کہ بچي گونگي ہے، تب تو ماں باپ کو بہت فکر ہوئي، اباجي مجھے ڈاکٹر کے پاس لے گئے،اس نے تسلي دي کہ زبان وغيرہ ٹھيک ٹھاک ہے خود ہي بولنا شروع کردے گي۔
جب ميں ايک سال کي ہوکر بھي کوئي لفظ بولنے سے معذور ہي تو والدين بجاطور پر فکر مند ہوئے، ان دنوں روالپنڈي ميں حکيم عبدالخالق بڑۓ مانے ہوئے طبيب تھے، ابا جي کي ان سے دوستي تھي، وہ مجھے حکيم صاحب کے پاس لے گئے۔۔۔۔۔اب اجي نے ان سے کيا حکيم صاحب بچي ايک سال کي ہوگئي ہے، ابھي تک کچھ نہيں بولتي ہے۔حکيم صاحب پہلےتو مسکرائے اور بولے کوئي بات نہيں ہے نياز صاحب، صرف ايک ہي کي تو ہوئي ہے، بولنے لگے گي، اس کے ساتھ سب خوب باتيں کيا کريں، سيکھ جائے گي۔
وہ تو کرتے ہيں۔۔۔۔بڑي بچياں تو ہر وقت اسي سے سر کھپاتي رہتي ہيں، ہم دونوں بھي اس سے باتيں کرتے ہيں۔۔۔۔۔۔۔ پر پتا نہيں کيوں ماما يا بابا بھي نہيں کہتي، مجھے تو ڈر ہے کہيں گونگي تو نہيں۔
سن سکتي ہے؟ حکيم صاحب نے پوچھا۔
ہاں جي۔۔۔۔۔۔آو ازيں تو قريب آجاتي ہيں، کسي بات سے منع کريں تو وہ بھي سمجھ ليتي ہے، اپنا نام پہچانتي ہے۔
ميرا نام رکھا تو رضيہ گيا تھا، ليکن پکارا اجيہ جاتا تھا، چنانچہ اباجي نے جب حکيم صاحب نے مجھے اٹھايا ہوا تھا کہا آئي جيہ ميرے پاس۔
تو ميں اباجي کے آواز پان کي طرف ديکھا اور ہاتھ پھيلادئيے۔
حکيم صاحب بولے اس کي وقت سماعت بالکل ٹھيک ہے۔
پھر انہوں نے ميري زبان ديکھي، زبان کے نيچے کوئي تندا نہيں تھا، وہ مطمعئن ہو کر بولے سب ٹھيک ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔اسے بادام کھلايا کرو زبان چل پڑے گي۔ ويسے فکر کي کوئي بات نہيں ابھي سال بھر کي تو ہوئي ہے، کئي بچے دير سے بولتے ہيں۔۔۔۔۔آپ پريشان نہ ہوں۔
پھر حکيم صاحب نے بادام کھلانے کي ترکيب بتائي۔
اباجي مجھے گھر واپس لے کر گئے تو ساتھ باداموں کے لفافے بھي تھے، جو ميں نے کم اور ميري بہنوں نے زيادہ کھائے، بہر حال حکيم صاحب کي ہدايت کے مطابق روز بادام کوٹ کر ان ميں چيني ملا کر مجھے کھلانے لگيں۔
پتا نہیں باداموں کا اثر تھا يا ويسے ہي سوا سال کي ہوگئي تھي، اب ميں نے چھوٹے چھوٹے لفظ بولنا شروع کردئيے۔۔۔۔ ۔سب سے ماماماما کہنا شروع کيا، پھر باباتاتا وغيرہ ۔۔۔۔۔۔دو برس کي تھي جب ميں نےصاف اور پورے جملے بولنا شروع کردئيے، ابا جي اور امي کو تسلي ہوگئي کہ بيٹي گونگي نہيں ہے۔پھ جو جيہ صاحبہ بولنا شروع کاي تو بولتي ہي چلي گئيں، اتني باتيں کرتيں کہ سننے والے تنگ آجاتے، امي تو ہاتھ جوڑ کر کہا کرتيں اب چپ ہو جائو۔۔۔۔۔۔ ۔ ميں نے تمہيں بچپن ميں ناحق اتنے بادام کھلائے۔
امي کي يہ باتيں مجھے اب بھي ياد ہيں۔
ايک بات اور جو امي بتايا کرتي تھيں وہ يہ تھي کہ ميں ہر وقت کاکاکاکا کرتي رہتي تھي کاکا کا کاپنجابي ميں لڑکے کو کہا جاتا ہے، کا کا کہنے کي عادت اتني بڑھ گئي کہ جو چيز سامنے ہوتي اسے کہتي کاکاکاکا۔۔ ۔۔۔۔
امي شايد ان دنوں اميد سے ہوگي، اس لئے ميرے کاکاک کہنے سے يہ توقع کي جانے لگي کہ اس ضرور بيٹا ہوگا، ميري دادي ان دنوں پنڈي آئي ہوئيں تھيں، جب ميں يہ کاکاکاکا کرتي ہوں تو وہ مجھے گود ميں اٹھاليتيں اور بڑے لاڈ سے کہيتيں اللہ تيري زبان مبارک کرے۔
پھر کہتيں، موٹو، کاکا نہ ہوا نا تو ديکھنا ميں تمہارا کيا حشر کرتي ہوں۔
خوش قسمتي کہے کہ دفعہ نياز فيملي ميں بيٹے ہي کا اضافہ ہوا، ميں دو سال کي تھي جب ميرا يہ بھائي پيدا ہوا۔۔۔۔۔۔ب چے کي پيدائش پر تو خوشياں منائي گئيں، منائي جانا ہي تھيں، ہاں ميرا مقام بہت اونچا ہوگيا، گھر والے کيا اور خاندان والے کيا سب ہي کے پيارے ميں بہت اضافہ ہوگيا۔
ناني بھي سيالکوٹ سے اس موقع پر آئي تھيں، وہ تو مجھے کرماں والي ہي پکارتي تھيں، ان کي ديکھا ديکھي دوسرے بھئي مجھے قسمت والي کہتے تھے، نومولود کے ساتھ ساتھ ميرے بھي لاڈ اٹھائے جانے لگے۔
بچے کا نام عبدالواحد رکھا گيا۔
مجھے اس کي پيدائش اور بچپن کے متعلق تو کچھ ياد نہيں ، ہاں اک ڈرائوني سي را کے چند لمحات ميري يادوں ميں نقش ضرور ہيں۔
ميں ان دنوں شايد امي ابو کے کمرے ميں سوتي تھي، رات کا جانے کون سا پہر تھا، ميري آنکھ کھل گئي، کمرے کے ايک کونے ميں ليمپ روشن تھا، جس کي روشني دھيمي تھي، اباجي کے چوبي منقش تيکيوں والے پلنگ پر ايک طرف امي بيٹھيں تھيں، قريب ہي اباجي ۔۔۔۔۔۔۔ان کے ہاتھوں پر واحد تھا، جسے کبھي اباجي چومت اور سينے سے لگاليتے اور کبھي امي کي گود ميں ڈال ديتے پھر پيار کرتے، وہ دونوں رو رہے تھے۔۔۔۔۔۔ا ن کي ہچکيوں اور سسکيوں سے شايد ميري آنکھ کھل تھي، واحد مرگيا تھا۔۔
پانچ بيٹيوں کے بعد گود میں آنے والا پيارا بيٹا سوا سال کي عمر ميں ہي ان سے جدا ہوگيا تھا، اب سوچتي ہو کہ ان پر کيا بيتي ہوگي۔۔۔۔۔۔ مجھے اس سانخے کے صرف وہي چند لمحات ياد ہيں، اور کچھ پتا نہيں، سنا ہے سيالکوٹ سے ننھيال کے پورے خاندان آئے تے۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے دفنانے کيلئے لے جاتے وقت اتنا رونا دھونا تھا کہ در و ديوار لرز اٹھے تھے۔۔۔۔۔بہ ر حال مجھے يہ سب ياد نہيں۔۔۔
چھوٹے چھوٹے کئي واقعات ذہن کي سطح پر روشن ہو جاتے ہيں، دل تو چاہتا ہے، کہ ہر واقع کو قلمبند کرلو۔۔۔۔۔ل يکن اسيا ممکن نہيں، ہاں کوئي باتين مجھے بھي دلچسپ لگتي ہيں، وہ بيان کرکے اچھا لگتا ہے۔
ايک واقعہ جو مجھے اب بھي ياد آتا ہے، وہ غالبا ميري يادوں کے سلسلے کي پہلي کڑي ہے، تب ميں بہت ہي چھوٹي تھي۔
گھر کي ڈيوڑھي سے صحن ميں آنے کيلئے ديوار کے ساتھ ساتھ چلتي ايک چھوٹي سي نالي جو بمشکل تين يا چار انچ کي ہوگي پار کرنا ہوتي تھي، اس سے غسلخانے کا پاني باہر جاتا تھا، ميں ڈيوڑھي کي دہليز پر کھڑي تھي، صحن ميں آنا چاہتي تھي، ليکن نالي پار نہ کر سکتي تھي، ڈر کے مارے رو رہي تھي، دونوں ہاتھ پھيلائے رکھے تھے، اور بے ہڈي بے ہڈي پکار رہي تھي غالبا صحن ميں دادي ماں ہوگي، ہم لوگ دادي ماں کو بے وڈي يعني بڑي ماں کہا کرتے تھے، ميں بے وڈي نہ کہہ سکتي ہونگي اس لئے بے ہڈي کہہ جارہي تھي۔
نالي میں گرنے کے خوف کا احساس ميرے شعور ميں ا بھي زندہ ہے، لگتا تھا، يہ چا انچ کي نالي نہيں جو گہري بھي نہ تھي۔۔۔۔۔۔د ريا ہے جسے پار کرنا ناممکن ہے۔
پتا نہيں مجھے وہاں سے کس نے اٹھايا، دادي نے يا امي نے۔۔۔۔۔۔ اپان ڈرنا رونا اور بازو پھيلا کر بے بڈي پکارنا ياد ہے۔
ايک اور واقعہ بھي غالبا اسي عمر کا ہے يا شايد چند ماہ اور بڑي ہونگي۔۔۔۔۔ ميرے ہاتھوں ميں گندھا ہوا آٹا تھا۔
اس کي روٹي بنارہي تھي۔۔۔۔۔مي ں برآمدے کے ستون کے ساتھ کھڑي تھي اور ميرے تايا جي کے بيٹے جو ان دنوں پنڈي آئے ہوئے تھے۔کرسي پر قريب ہي بيٹھے تھے، مجھے بار بار منع کر رہے تھے، ليکن ميں آٹے کي روٹ نما چيز بنا کر اس کے ايک طرف تھوک لگاتي اور ستون سے چپکانے کي کوشش کرتي،ميں ان کے منع کرنے سے باز نہ آئي تو انہوں نے ہلکے سے مجھے تھپٹر مارا اور آٹا چھين ليا۔۔۔۔۔يہ يقينا زندگي کا پہلا تھپٹر تھا۔
بچپن میں ايک دفعہ ميں مر بھي گئي تھي۔۔۔۔
جي ہاں
باکل مرگئي تھي
تب شايد ميں ڈيڑھ سال کي تھي۔۔۔۔۔۔ک چھ بيماري رہي ہونگي۔۔۔۔۔ ۔۔۔اباجي مجھے حکيم عبدالخالق کے پاس لے گئے، انہوں نے مجھے ديکھتے ہي کہا نياز صاحب اسے جلدي گھر لے جائيں يہ ختم ہوگئي ہے۔
اباجي گھبرائے۔۔۔ ۔۔۔۔تانگے ميں بيٹھے مجھے گود ميں لٹا ديا اور گھر ميں لے آئے، ميري بہنوں اور امي نے رونا دھونا شروع کرديا، صحن ميں چارپائي پر سفيد چادر ڈال کر مجھے لٹا ديا گھا، رونے دھونے کي آوازيں سن ک گلي محلے کے لوگ بھاگے آئے۔۔۔۔۔۔۔ لوگوں سے صحن بھر گيا، سيالکوٹ بذريعہ طار ميرے مرنے کي اطلاعيں دي گئيں۔۔۔۔۔ مردباہر بيٹھک ميں جمع ہونے لگے۔
اچانک ہي کسي عورت نے ديکھا کہ ميں پائو ہلارہي ہوں۔
بہن جي وہ عورت گھبرا کر چيخي بچي پائوں ہلارہي ہے۔
کئي عورتيں مجھ پر جھک گئيں، مير اپائوں واقعي ہل رہا تھا۔
يہ زندہ ہے۔ دودھ لائو اسکے منہ ميں ڈاليں۔۔۔۔۔ کسي عورت نے عجلت ميں پکار کر کہا۔۔۔۔
کوئي دودھ کي پيالي اور چمچ لے آئے، ايک عورت نے چمچ سے ميرے منہ ميں دودھ ڈالا، جو ميرے حلق سے اتر گيا، پھر دوسرا اور تيسرا چمچ بھي ميرے اندر اتر گيا۔۔۔۔ شور مچ گيا، تھوڑي ہي دير ميں نے آنکھيں کھوليں اور کروٹ بل ہو کر اٹھنے کي کوشش کرنے لگي سب کي حيرت اور خوشي ديدني تھي۔
ميں زندہ تھي،۔۔۔۔۔ل وگ اس واقعہ سے بڑے متاثر تھے، غالبا ميں ڈيپ کومے ميں چلي گئي تھي۔
دوسرے دن سيالکوٹ سے دادي ناني اور کچھ رشتہ دار آئے تو ميں صحن کھيل رہي تھي، کوئي ميرے مرنے اور جي اٹھنے پر اعتبار نہ کر رہا تھا۔دادي ناني تو يہي سمجھ رہي تھي کہ انہيں بلانے کيلئے بہانا تراشا گيا ہے۔ ليکن جب محلے والوں کي زباني بھي انہوں نے روئيداد سني تو قدرت کے کاموں پر حيران اور شکر گزار ہوئيں۔
يہ واقعہ مجھے تو ياد نہيں مگر امي ابو اکثر سنايا کرتے تھے۔
اس کے بعد ميرے لاڈ اور لار ميں اور اضافہ ہو گيا اور پھر جب واحد کے مرنے کے سات ماہ بعد اللہ نے امي ابو کو پھر بيٹے سے نوازا تو ظاہر ہے سب کو بے اندازہ خوشي ہوئي ہاں ميرے لاڈ کچھ زيادہ ہي تھے کہ ميرے بعد دو بيٹے اوپر تلے پيدا ہوئے۔
اس بيٹے کا نام بھي عبدالواحد ہي رکھا گيا، پتا نہيں يہ نام ان کو پسند کيوں تھا يا مرحوم بيٹے کي ياد تازہ رکھنا چاہتے تھے، بہر حال نام عبدالواحد ہي قرار پايا، اب واحد کے معاملے ميں امي بڑي محتات ہوگئيں، اس کا صدقہ ہر ماہ باقاعدگي سے ديتي، اس کے نام پر خيرات بھي بانٹي جاتي، يہ سلسلہ اس کے بڑے ہونے تک جاري رہا، ميرے يہ بھائي ماشا اللہ حيات ہيں، ان کے لاڈ اور چونچلے بہت ہوئے، جب پائوں چلنا سيکھا تو محلے ميں مٹھائي بٹي، سيڑھيا چڑھنا سيکھا تب مٹھائي بانٹي گئي، بڑی بڑي پراتوں ميں بھري مٹھائي پڑي مجھے ياد ہے، بولنا شروع کيا تو پھر محلے ميں ڈھيروں مٹھائي بٹي، صدقہ تو امي ہر مہينے باقاعدگي سے کرتي تھيں، واحد مجھ سے چار سال چھوٹے تھے۔
ابا جي کو بچوں کو تعليم دلانے کا بہت شوق تھا، اپني محرومي وہ بچوں کو پڑھا لکھا کر دور کرنا چاہتے تھے، لڑکي لڑکے کي تشخيص کا انہوں نے کبھي سوچا بھي نہ تھا، ان دنوں لڑکيوں کي تعليم پر بہت کم لوگ توجہ ديتے تھے، ليکن اباجي نے ميري دونوں بڑي بہنوں کو مشن اسکول ميں داخل کرايا، جب تک ہمارے خاندان کي کوئي لڑکي زيور تعليم سے آراستہ نہ ہواتھا، تين چار جماعتوں سے آگے کوئي پڑھ نہ پائي تھي۔
ابا جي نے بڑے شوق سے بچيوں کو اچھے اسکول ميں داخل کراديا، تب مشن اسکول ہي اچھے ہوتے تھے، يہاں اسٹاف کرسيچن ہوتا تھا، مغربي تہذيب کا اثر اب ہندوستاني لوگوں خاص طور پر عيسائيوں نے بھر پور طور پر لينا شروع کرديا تھا، اس اسکو کي پرنسپل مس کلي تھيں، مجھے ان کا تھوڑا حليہ ياد ہے، وہ گہرے سانولے رنگ کي دبلي پتلي خاتون تھيں۔بال کٹے ہوئے تھے اور فراک پہنتي تھيں، ايک ٹيچر مس کرسٹو فر تھيں، يہ گوري چٹي موٹي تازي عورت تھيں، بالوں کا جوڑا بناتي اور ساڑھي پہنتي تھي، اسي اسکول ميں ميں نے بھي تيسري جماعت تک پڑھا تھا، اس لئے ان کے متعلق ذہن ميں کئي ياديں محفوظ ہيں۔
جب بہنيں اسکو جاتيں اور امي گھر داري کے کاموں لگ جاتيں، ميرا کام محلے کے ہم عمر بچوں سے کھيلنا کودنا ہوتا تھا، ہمارے گھر مے سامنے ايک ڈپٹي صاحب رہتے تھے، ان کا نام ياد نہيں، ان کے دو بيٹے ميرے اچھے دوست تھے، مجھ سے کچھ ہي چھوٹے بڑے ہوں گے، ہم تينوں بہت کھيلا کرتے تھے، وہ ہمارے گھر آجاتے ميں ان کا کے گھر چلي جاتي، محلے کے اور گھروں ميں بھي ہمارا آناجانا تھا، ليکن اور کسي کا مجھے کچھ ياد نہيں، يہ دونوں بچے سفيد کرتے اور سيدھے سفيد پاجامے اکثر پہنتے تھے، ہم تينوں مل کر شرارتيں بھي بہت کرتے تھے، ايک مخصوص اور پسنديدہ شرارت يہ تھي کہ جہاں بھي کوئي اکيلا بچہ ملتا ہم اسے مار کر دوڑ جاتے تھے، پتا نہيں کيوں اس طرح بچوں کو مارنے اور چٹکياں کاٹنےميں اتنا مزہ ملتا تھا، يہ تخريب پسندہ طبعيت ميں زيادہ دير تو نہ رہي، ليکن سال دو سال تو ضرور اس طرح گزرے ہوں گے، کئي بار بچوں کي مائيں شکايتيں لے کر بھي ہمارے ہاں آئيں۔
ميں اسکول کب داخل ہوئي يہ ياد نہيں، ہاں مشن اسکول کي عمارت کا پورا نقشہ اب بھي ذہن ميں موجود ہے۔۔۔۔۔ کافي بڑا صاف ستھرا اور اچھے فرنيچر والا اسکول تھا، تب پلے گروپ اور نرسري وغيرہ نہيں ہوتے تھے، کچي پکي اور پہلي جماعت شروع ہوتي تھي۔
ان جماعتوں کے بارے ميں کچھ واضح طور پر ياد نہيں، ہاں زندگي کي پہلي نقل مارنے کا واقع مجھے اچھي طرح ياد ہے، ميں غالبا کچي يا پکي جماعت ميں ہونگي، ہمارا امتحان تھا، کمرے ميں بچے قطار در قطار بيٹھےتھے، پتا نہيں، دري پر بيٹھے تھے، يا چھوٹے چھوٹے اسٹولوں پر، امتحان حساب کا تھا مس نے کيا کيا ہندسے لکھوائے وہ بھي ياد نہيں، غالبا ايک ہندسہ دس ضرور لکھايا تھا، ميں نے اپني سليٹ پر 10 لکھا، پھر اپنے آگے والي قطار ميں بيٹھے ايک لڑکے کي سليٹ پر نظر پڑي، اس نے دس الٹا يعني 01 اس طرح لکھا تھا، ميں نے فٹا فٹ نقل ماري اپنا دس کا زيرو مٹا کر اور اس لڑکے کي طرح الٹا ڈال ديا، يعني ٹھيک کو غلط کرديا۔۔۔۔۔ ۔يقينا نمبر کٹے ہوں گے، مجھے اس نقل کا بڑے عرصے تک افسوس رہا، ليکن بات ضرور ہوئي کہ آئندہ نقل مارنے کا کبھي خيال بھي ذہن ميں نہيں آيا۔ہم تينوں بہنيں اب باقاعدگي سے اسکول جاتي تھيں، اسي اثنا ميں ہم نے گھر تبديل کرليا، يہ گھر نيا محلہ ميں ليا، شياد اس محلے کا نام اب کچھ اور ہو، ہم نے گھر 1930 ميں يہاں ليا تھا، يہ گھر آريا سماج جو ہندئوں کي بہت بڑي عبادت گاہ بھي تھي اور شادي بياہ بھي يہاں ہوتا تھا، اس کي ملحقہ ديوار کے ساتھ ہمارا بہت بہت گھر تھا، يہاں سے فيکٹري ارور دکان دونوں نزديک پڑتے تھے۔
اس گھر کے تين پورشن بنالئے گئے، ايک حصے ميں فيکڑي والا مال بھرا رہتا، سٹي کي شيٹیں تہہ دار پڑي ہوتي، ان پر چڑھ کر کھيلنا بچوں کا محبوب مشغلہ تھا۔
ددوسرے حصے ميں سيالکوٹ سے آنے والے کاريگر رہے تھے، بعض کاريگر اپنے بال بچے بھي ساتھ لے آئے تھے، ايک ايک کمرہ ان کيلئے مخصوص تھا۔
اوپر کے حصے ميں ہم لوگ رہائش پذير تھے، جسے امي اباجي نے وقت اور ضرورت کے مطابق سجا بنا رکھا تھا، کاريگروں کي بيوياں امي کے کام بھي کرتي تھيں، ان کے بچے ہماے ساتھ کھيلتے تھے، ہميں والدين کا آرڈر تھا، کہ کاريگروں کو چاچا جي کہا کريں اور ان کي بيويوں کو ماسي جي، حالانکہ يہ لوگ اباجي کے ملازم تھے، ليکن ان کے ساتھ ملازموں کا سا سلوک کرنے کي کسي کو اجازت نہيں تھي۔
جب اہم اس محلے ميں آباد ہوئےتو سيالکوٹ سے تاياجي جلال الدين بھي مع اہل و عيال پنڈي آگئے، گھر قريبي گلي میں لے ليا، اور اپنا کام شروع کرديا، تايا جي کو يہاں آتے ہي اباجي کي جس بات پر اعتراض ہوا وہ بيٹيوں کي پڑھائي تھي۔۔۔۔۔
ہر وقت يہي کہتے ہم نے لڑکيوں سے کونسي نوکري کرواني ہے، پڑھانے کا کيا فائدہ؟
بھاجي۔۔۔۔۔ ۔اباجي انہيں سمجھانے کي کوشش کرتے، تعليم سب کيلے ضروري ہے، لڑکي ہو يا لڑکا۔
تو بے وقوف ہے، لڑکے پڑکھ لکھ کر اچھي نوکريوں پر لگ جاتے ہيں۔
تاياجي کے تب چار بيٹے ہي تھے، انہيں تايا جي نے پنڈي آتے ہي اسکولوں ميں داخل کرواديا، ليکن لڑکيوں کي تعليم کے سخت مخالف تھے۔اباجي ان کي سني ان سني کرديتے، وہ تو چاہتے تھے کہ ہم تينوں بہنوں کو اسکول سے اٹھا کر گھر بھٹا کر صرف ديني تعليم دي جائے۔
بر دوسرے تيسرے دن جب وہ ہمارے گھر آتے يا ہم ان کے گھر جاتے يہ بحث ضرور ہوتي، انہي دنوں بڑي آپا چھٹي جماعت ميں ہوگئيں، چھوٹي آپا پانچويں جماعت ميں۔۔۔۔ ميں پہلي جماعت ميں۔
بڑي آپا نے نئي کلاس کي کتابيں کاپياں لي تھيں، وہ بڑے شوق سے اپني کتابوں کاپيوں پر خاکي کاغذ کے کور چڑھ رہي تھي۔۔۔۔۔۔ص حن ميں ايک طرف لکڑي کا تخت پڑا رہتا تھا، آپا اس پر بيٹھي تھي۔
کہيں سے تايا جي ادھر آنکلے۔۔۔۔۔ آپا سے پوچھا يہ کيا کررہي ہو؟
تاياجي ميں چھٹي جماعت گئي ہوں، نئي کتابيں خريدي ہيں، آپا نے خوشي سے کہا۔
تايا جي غصے سے بولے ميں نے منع نہيں کيا تھا۔۔۔۔۔۔پ انچويں تک تعليم کافي ہے، چھٹي ميں جانے کي کوئي ضرورت نہيں۔
تاياجي۔۔۔۔ ۔ميں نے آگے بھي پڑھنا ہے، آپا بيچاري ان کے غصے سے ڈر کر سہمي ہوئي آواز ميں بوليں۔
آگے؟ آگے پڑھنا ہے؟ تايا جي کو ان کے جواب سے تائو آگيا، آگے بڑھے اور آپا کے ہاتھ سے کتابيں پکڑ کر چير پھاڑ ڈالي۔
تاياجي آپا رونے لگيں۔
تايا جي نے غصے ميں آکر ساري کتابيں کاپياں پھاڑ کر صحن ميں بکھير ديں۔
کسي وقت گھر آتا ہے نياز؟ وہ کرسي پر بيٹھتے ہوئے پھنکارے۔
امي جو کمرے کے دروازے ميں خاموش کھڑي يہ تماشا ديکھ رہي تھيں، آہستگي سے بوليں، کھانا گھر آکر کھاتے ہيں۔
آلے آج وہ غرائے۔
جب اباجي گھر کھانا کھانے آئے تو صحن ميں کاغذ ہي بکھرے ديکھ کر آپا کھ طرف ديکھا جو منہ چھپائے رو رہي تھيں۔
يہ يہ کيا ہے؟ اباجي نے پوچھا۔تو تايا جي بولے يہ بکھري پڑي ہے۔
بھاجي اباجي حيران ہو کر انہيں ديکھنے لگے، تايا جي غصے ميں سڑھيوں سے پائوں پٹہختے ہوئے نيچے اتر گئے۔
ابا جي تخت پر آپا کے پاس بيٹھ گئے، محبت سے انہيں ساتھ لگا کر پوچھا کيا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔
پھر
آپا ہچکيوں سے روتے ہوئے بوليں تايا جي کہتے ہيں۔۔۔۔۔۔پ انچويں تک پڑھ ليا، بس ۔۔۔۔۔اس سے آگے نہيں پڑھنا۔۔
پھر امي نے بھي اباجي کو ساري بات سنائي۔۔۔۔۔ تو وہ پريشان ہوگئے۔
ليکن پھر اک عزم کے ساتھ سر جھٹک کر بولے۔۔۔۔۔ ميري بيٹي ضرور پڑھے گي۔۔۔۔۔ميں تمہيں کتابيں اور کاپياں لادوں گا اور بھاجي کو بھي سمجھا لوں گا۔۔۔
بھاجي سمجھے يا نہيں۔۔۔۔۔۔ ۔ اباجي نے آپا کو کتابيں اور کاپيں دوبارہ لاديں، تسلي دي کہ جب تک ميں ہوں تمہيں پڑھنے سے کوئي نہيں روک سکتا۔
اباجي نے بھائي کي خفگي مول لے لي، ليکن اپني بچيوں کا سلسلہ، تعليم منقطع نہيں کيا تايا جي ہم سےکافي عرصے خفا رہے، گو گھروں ميں آنا جانا تھا۔ بچے آپس ميں ملتے جلتے تھے، تائي جي بھي خفا نہ تھيں اور معاملوں ميں تايا جي بھي ٹھيک ٹھاک تھے صرف ناراضگي آپا کے داخلے سے تھي۔
وقت سب کچھ اپني لپيٹ ميں لے کر چلتا ہے۔
ان دنوں ہندو مسلم سکھ عيسائي آپس ميں رشتے داروں کي طرح رہا کرتے تھے، ايک ہي محلے ميں ساتھ ساتھ گھروں ميں بستے تھے، ان کا ايک دوسرے کے گھروں ميں آنا جانا تھا، سب ايک دوسرے کي خوشي ميں غمي ميں شريک ہوتے تھے، دو بستياں مظبوط تھيں، ہاں ہندئوں کي پچھلي نسل يعني بڑے بوڑھے مسلمانوں کے ساتھ اٹھنے بيٹھنے اور کھانے پينے کے قائل نہ تھے۔مجھے ياد ہے کہ ہمارے گھر کےساتھ جو ہندئوں کا بہت بڑا گھر تھا وہاں ہم ان کے بچوں سے کھيلنے جايا کرتے تھے، وہ بچے کبھي ہمارے ہاں آتے ہم پہروں اکھٹے کھيلتے تھے۔
ليکن
ان کے گھر ميں جو بوڑھي عورتيں تھيں وہ اسے پسند نہ کرتيں، ہم ميں سے کوئي بچہ اگر ان کے برتنوں کو ہاتھ لگا ديتا تو وہ سخت برہم ہوتيں، کہ برتن بھٹ گيا يعني ناپاک ہوگيا، وہ اپنا آپ بھي سميٹے رہتيں، کسي مسلمان سے چھوجاتيں تو فورا اشنان کرتيں کہ بھٹ گئيں۔
يہ لوگ سبزي اور داليں کھاتے تھے، ماس گوشت کا نام بھي نہيں سن سکتے تھے، پھر بھي سب لوگوں کي بن آتي تھي، اختلافات تھے ليکن انہيں ہوا نہ دي جاتي تھي ہاں بقر عيد کے موقعپر کسي کسي شہر ميں تب بھي فسادات ہوجاتے تھے، مسلمان گائے بھينس ذبح کرتے تھے يہ ہندئوں کي ماتا تھيں اس لئے عيد پر ہندوستان کے کسي نہ کسي شہر ميں ضرور ہنگامہ ہوا کرتا تھا، ليکن يہ ہنگامہ جہانہوتا وہاں سرد پڑ جاتا، سارے ملک ميں اس کي لہر نہ آتي تھي۔
ہماري امي کي کئي ہندو دوستي تھيں،اباجي کا بھي ہندئوں سے ملنا جلنا تھا، ہاں ميري بہنوں کي بھي ہندو سکھ سہيلياں تھيں، پاکستان کے معرض وجود مين آنے تک يہ دوستيان قائم رہي تھيں، مسلمانوں اور ہندئوں کے اسکول الگ الگ نہيں تھے، سوائے ديني مدرسوں اور آريا سماج جيسے اداروں کے۔
ہم اس وقت بچے تھے، مذہبي اختلافات کيا ہوتے ہيں، اس کا پتہ نہ تھا، ہاں ميري مرغوب شرارت يہ تھي، کہ کسي بوڑھي ہندو عورت کے برتنوں کو جان بوجھ کر چھو ديتي تھي، کبھي اس بڑي ماتا جي کي مللمل کي دھوتيوں کو ہاتھ لگاديتي، تا دير سوکھنےکيلئ ے ڈالے ہوئے کپڑوں ميں چھپ کر انہيں اپنے گرد لپيٹ ليتي، تب بڑھيا مائي جتني ہائے وائے کرتي، کوسنےديتي مارنے کو ہاتھ اٹھاتي تو مجھے اور ميري ساتھي مسلمان بچيوں کو بہت مزہ آتا تھا، ہماري ان شرارتوں کي بھي ہمارے ماں باپ کے پاس شکايات کي جاتي، اکثر بڑھيا کے بيٹے بيٹاں اور بہئيں ہنس ديتيں اور ماتا جي کو پر امن کرنےکي کوشش کيجاتي، ليکن بڑھيا چين سے نہ بيٹھتي، ہر بھر شت ہوئي چيز کو دھوتيں اور ہميں کوسنے دئے جاتيں۔
ايک دفعہ ميں نے اس کے گلاس ميں پاني پي ليا، توبہ توبہ اک ہنگامہ کھپرا ہوگيا، جس سے بمشکل جان چھڑائي۔عام ہندئوں بڑي بوڑھياں اور بوڑھوں کا يہ ہي روياں تھا، ليکن اس وقت کي نئي نسل آزاد خيال تھي، وہ چھوت چھات يا بھرشت ہوجانے کي قائل نہ تھي۔ اور اس نسل کے ہماري عمر کے بچے تو بالکل ہي ہم جيسے تھے، اکھٹۓ کھيلتے پڑھتے اور کھا پي بھي ليتے تھے، اگر کوئي غلط کام کرتے تو ايک دوسرے کو تحفظ دينے ميں برابر کے شريک ہوتے تھے۔
ايک دفعہ ميں اور ميري ہندو سہيلي مينا بازار سے بڑي آپا کيلئے دھاگے کا گولہ لينے کيلئے گئے اس وقت ہماري عمر لگ بھگ سات آٹھ سال کي ہوگي، آپا ن دنوں دو سوتي پر کڑھائي بنا رہي تھيں، ڈي ايم سي کا رنگدار دھاگے کا گولہ پانچ پيسے کا ملتا تھا، آپا نے ہميں دوني دي۔۔۔۔۔ ساتھ آدھا استعمال شدہ گولہ رنگ ملانے کيلئے ديا تھا، ان دنوں چوکورسي دوني ہوتي تھي، اس لئے ميں آٹھ پيسے ہوتے تھے، پنڈي میں آج کل جو مينا بازار تب اسے لورياں کي گلي کہا جاتا تھا، منياري کپڑے جوتوں وغيرہ کي دکانيں تھيں، ہر چيز وہاں ہوتي تھي، گلي کے سرے پر ايک نکڑ ميں ايک سکھ کي پکوڑوں، گول گپوں اور دل کے گلگلوں کي دکان تھي۔
ہم دونوں نے گلي کے اندر جا کر مطلوبہ گولہ ليا، دکاندار نے تانبے کے تين پيسے واپس دئيے، جسے ميں بڑي احتياط سے مٹھي ميں دبا کر سہيلي کے ساتھ گلي سے باہر آئي، لوگ سکھ دکاندار سے گلگلے پکوڑے وغرہ لے رہے تھے، ساتھ مولي کي کھٹي چٹني تھي ہم نے دنوں کا جي للچايا۔
بھلا ميں کہا۔
کيا وہ بولي۔
کتنے مزہ کے ہيں۔
ہاں مجھے تو يہ گلگلے بہت ہي اچھے لگتے ہيں، پيسے کے پانچ ملتے ہيں، ساتھ چٹني بھي، اس نے زبان سے چٹخارہ ليا، پھر منہ بناتے ہوئے کہا، ميرے پاس ايک پيسہ بھي نہيں ہے۔
ميري مٹھي ميں تين پيسے تھے، جي للچا رہا تھا۔ منہ ميں پاني آرہا تھا، ميں بولي ميرے پاس تين پيسے ہيں، ايک پيسے کے گلگے کھاليتے ہيں۔
ليکن يہ پيسے تو بہن کے ہيں۔
ہاں تو
پھر؟ميں نے کچھ اور سوچا اور بولي يوں کرتے ہيں، ايک پيسے کے گلگلے کھاليتے ہيں، آپا سے کہ ديں گے کہ گولہ چھ پيسے کا تھا۔
ہاں يہ ٹھيک ہے۔
سو
ہم نے ايک نے ايک پيسے کے پانچ گلگلے کيلئے جو دکاندار کے پتے پر رکھ دئيے، دوسرے پتے پر چٹني ڈال دي، ہم نے ضد کرکے ايک گلگلہ چھونگے ميں اس سے لے ليا، اب ہم دونوں کے حصے ميں تين تين گلگلے آگئے، جنہيں ہم مزے لے لے کر کھاتي گھر کي طرف چل ديں چونکہ آپا سے جھوٹ بولنا تھا اس لئے راستے ہي ميں گلگلے کھا کر منہ ہاتھ صاف کر لئے۔
گھر آکر آپا کو گولے کے ساتھ دو پيسے واپس کئے تو جلدي سے بوليں کتنے کا گولہ لائي ہو؟
چھ پيسے کا بہن جي، مير جگہ فٹ سے بملا بولي۔
کيوں؟۔۔۔۔۔ آپ نے گولے کا نمبر ديکھا پھر اس سے گولہ ملايا جو ہميں نمونے کے طور پر ديا تھا، دونوں ايک ہي جيسے تھے۔
ہم دونوں چوروں کي طرح ان کے سامنے کھڑے تھے، غحصے سے بوليں " يہ تو پانچ پيسے کا آتا ہے، ليکن ميں نے ڈرتے ڈرتے کہا اس نے اتنے کا ہي ديا ہے۔"
آپا کو غصہ آگيا۔۔۔۔جا ئو جا کر واپس کرکے آئو، ماسي جي ابھي کل ہي پانچ پيسے کے گولے ميرے لئيے لائي تھيں۔
اب ہم واپس کيسے جاتے، آپا برابر مصر تھيں، کہ گولہ واپس دے کر آئو يا پيسہ اور واپس لے کر آئو، ہم دونوں سہمي سہمي ايک دوسري کو ديکھ رہے تھيں۔
جائو اسي وقت جائو تو گولہ واپس کرنا يا تو پيسہ لے کر آئو، آپا نے مزيد غصے سے کہا، آپا گھر ميں ہم چھوٹے بہن بھائيوں پر بہت رعب تھا، ڈانٹ ڈپٹ تو کرتي ہي تھيں۔۔۔۔۔۔ کبھي کبھي تھپڑ بھي جڑ ديا کرتي تھيں، امي نے خود تو ہميں کبھي کچھ نہ کہا تھا، ليکن آپا کو چھوٹ دے رکھي تھي۔
پہلے تو ميں نے سوچا کہ آپا کو سچي بات بتا دوں۔ ليکن ان سے اتنا ڈر لگتا تھا، کہ زبان ہي نہ کھل سکي۔
جاتي کيوں نہيں ہو؟ آپا نے مجھے کمرے سے باہر دکھيلا، بملا سے کچھ کہا تو نہيں بس اتنا ہي اشارہ کيا جائو تم يہاں سے۔ہم دونوں دروازے سے لگ کر کھڑي ہوگئيں، آپا سمجھ گئيں کہ ہم نےکوئي گر بڑ کي ہے، اس لئے انہيں اور بھي غصہ آيا، دھپ سے تھپڑ ميري کمر پر مارا اور بوليں کہاں ہے پيسہ؟ گولہ پانچ پيسے کا ہي ہے۔
ہاں ميں نے ڈر کر سر ہلايا، تو بھلا تيزي سے ايک طرف ہوتے ہوئے بولي بہن جي پيسہ گم گيا تھا۔
کيسے؟ آپا سختي سے بوليں۔
تو ميں نے اعتراف جرم کرنے ہي ميں عافيت سمجھي۔۔۔۔۔ ۔آپا کو سچ سچ بتايا، بملا ميري طرف دار ميں پتہ نہيں کيا کچھ کہہ رہي تھي۔
ليکن
آپا
نے جو ميرا کان مروڑا تو ناني ياد آگئي، کان چھوڑا تو اک زور دار تھپڑ لگانے کو ہاتھ اٹھايا، بملا آپا کے بازو کے ساتھ لٹ گئي، بہن جي ہم دونوں نے گلگلے کھائےہيں۔
آپ نے جيہ کو مارنا ہے تو مجھے بھي ماريں۔
يوں مجھے دو زور دار تھپڑ پڑا، بملا کي مداخلت پر نہيں، اسي اثنا ميں امي جي اند آگئيں، آپا نے سارا قصہ سنايا، امي ايک تو جيہ نے چوري کي دوسري جھوٹ بولا۔
بري بات امي نے مجھے اپنے قريب کرليا، پھر چوري اور جھوٹ پر انتے ديھمے اور پيار بھرے لہجے ميں ليکچر ديا ميں اور بملا دونوں نے آئندہ ايسا نہ کرنے سے توبہ کرلي، بملا کا تو پتا نہيں ميں نے پھر بھي کبھي ايس غلطي کرنے کي جرائت نہيں کي۔
وقت لمحہ بہ لمحہ سرک رہا تھا، ليکن اس وقت تو يہي لگ رہا تھا، کہ وقت رکاہوا ہے، ہم جتنے ہي اتنے ہي رہے، اسي طرح کھيل کود شرارتين شوخياں اور آپا کي سرزشيں اور دھمر کے جاري رہيں گے، ليکن بچپنا تھا دور کي کہاں سوچ سکتے تھے۔ہمارے گھر کے سامنے پختہ دو منزلہ مکان مرزا لعل خان کا تھا، وہ آرمي کنٹريکڑ تھے، ان کے ہاں بھي پيسے کي فرواني تھي، اباجي کے جگري دوست تھے، ان کي بيگم امي کي سہيلي تھيں اور ان کي چھ يا سات بيٹيون ميں سے سکينہ ميري ہم عمر اورپکي پکي سہيلي تھي، سکينہ بملا اور ميں اکثر اکھٹے ہي کھيلتے تھے۔
پنڈي ان دنوں چھوٹا سا شہر تھا، چند گلياں محلے اور کچھ بازار جن ميں راجہ بازار تب بھي برا بازار گنا جاتا تھا، جي ٹي روڈ شہر اور صدر کے درميان سے گزرتي تھي، صدر بھي زيادہ برا نہيں تھا، تب آباي بھي آج سے بہت کم تھي، جہاں فوجي بيرکيں تھيں اور انگريز حکمرانوں کے بہت بڑے بڑے بنگلے تھے، يہاں فوجي گاڑياں اور پرانے وقت کي جيپيں بھي چلتي تھي، کوئي ہندو يا مسلم ان اونچے عہدوں تک بمشکل ہي پہنچ پاتا تھا، جن پر حکمران فائز تھے، انگريز حاکم تھے، ہندو مسلم سکھ عيسائي محکوم، حکمران قوم جيسا چاہے محکوموں سے سلوک کرتي، انگريزوں نے ہندوستان پر گائبانہ قبضہ کيا تھا، ليکن اب طاقت ان کے ہاتھ میں تھي، رعايا، کو غداري کي سزا بگھتنا ہي تھي۔
ليکن
انگريزوں نے جہاں رعايا کو دبايا ہوا تھا، وہاں ہندوستان میں انہوں نے عوامکي فلاح و بہود کيلئے کام بھي کئے، سڑکيں بنائيں، چھوٹے شہروں کو بڑے شہروں سے سڑکوں کے ذريعے ملايا، پورے ہندوستان میں ريلوے لائنوں کا جال بچھايا، ريلوے اسٹيشن بنوائے، سڑکوں اور ريلوے لائنوں کے ساتھ ساتھ دريائوں پر پل بنوائے، اسکول، کالج، بنائے تعليم کے فروغ کيلئے کوشش کي، ہسپتال اور ڈسپنسرياں بنوائيں، صحت افزا مقامات کو شہروں سے ملايا، دار جلنگ ڈلہوزي نيي تال شملہ مري سوات اور کاغان ناران وغيرہ تک راستے بنوائے، جگہ جگہ ريسٹ ہائوس ڈاک بنگلے تعمير کراوائے، نہروں کے نظام کو نئي شکل دي، بجلي گھر بنوائے، ميڈيکل کالج بھي بنوائے، وہ بيروني غاصب حکمران تھے، يہ سب کچھ نہ بھي کرتے تو ان سے باز پرس کون کرتا، ليکن يہ ان لوگوں کي ذاتي خوبياں تھيں، جنہيں ان کي تمام تر برائيوں کے باوجود نظر انداز نہيں کيا جا سکتا تھا۔
تعليم کے معاملے ميں ہندو مسلم کي تفريق نہيں برتي گئي تھي، ليکن مسلمانوں کي بد قسمتي کہ جب تعليم کا خصوصا انگريزي تعليم کا پرچار ہوا تو ہندئوں نے تو اس سے استفادہ کيا ليکن مسلمانوں کيلئے مولويوں نے فتوي دے ديا کہ جو انگريزي تعليم حاصل کرے گا۔وہ کافر ہو جائے گا، اس لئے ہندو تو اعلي تعليم حاصل کر کے انگريزي حکمرانوں کے ساتھ لگ گئے بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوگئے، مسلمان پيچھے رہ گئے، خوش قسمتي سے اس نقطے کو سيد احمد خان نے پاليا، انہوں نے ديني نام نہاد رہنمائوں کي پروا نہ کي، مسلمانوں کو تعليم حاصل کرنے کي طرف مرغوب کيا، انگريزي حکمرانوں کي زبان تھي، اسے سيکھ کر ہي حکمرانوں کے قريب پہنچا جا سکتا ہے، ان کي دن رات کي تگ ودو سے علي گڑھ کالج اور يونيورسٹي قائم ہوئي اور سمجھدار مسلمان اس سے استفادہ حاصل کرنے لگے، مسلم مرد اور خواتين تعليم حاصل کرنے لگيں، عورتوں کو اس وقت تعليم کا حق نہ ديا جاتا تھا، ليکن دور رس نظريں رکھنے والے والدين نے اپني بيٹيون کو تب ہي زيور تعليم سے آراستہ کرنا شروع کرديا تھا، گو ہند عورتوں کے مقابلے ميں مسلم عورتوں کي تعداد کم تھي، پھر بھي تعليمي سلسلے جاري رکھے، بڑے بڑے شہروں ميں لڑکيان بي اے ايم اے ہوئيں، ڈاکٹر بنيں، درس و تدريس ميں آئيں، ہندو اور عيسائي خواتين کے مقابلہ ميں تعداد ميں کم تھي، ليکن سلسلہ شروع ہوگيا تھا۔
 
Top