*اظہار*
کہاں دستور ایسا ہے؟
کہ اک اظہار کرنے سے
کوئی دل جیت سکتے ہیں
اگر ایسا ہی ہوتا تو
فقط اک بار ہی کیا
ان گنت
مدہوش
اور بیدار لمحوں میں
تمھیں میں نے کہا تھا نا۔۔۔۔
مجھے تم سے محبت ہے
مجھے تم سے محبت ہے
محبت ہے
کہ تم جھگڑو لڑو اور روٹھ بھی جاو
ستا کر مسکرا کر پھر منا لینا بھی آتا ہو
کسی کے عارض و رخسار جب شرم و حیا سے سرخ ہوجائیں
تو اپنے لب جبین ناز پہ تم رکھ کے یہ کہہ دو
میں وہ سب نہیں کرسکتا کہ ممکن نہیں جو کچھ
مگر میں وعدہ کرتا ہوں کہ جب تک سانس باقی ہے
تمہاری زندگی میں الفتوں کا سایہ کردوں گا
تمہارے لاڈ ناز و نخرے سب کچھ میں اٹھاوں گا
زمانے بھر کی نفرت سے تمہیں ہر پل چھپاؤں گا
مجھے تم سے محبت ہے کہوں یا نہ کہوں لیکن
مجھے کتنی محبت ہے میں وہ کر کے دکھاوں گا
مِرے ہم سَفر مِرے جسم و جاں کے ہر ایک رشتے سے معتبر‘ مرے ہم سَفر تجھے یاد ہیں! تجھے یاد ہیں! وہ جو قربتوں کے سُرور میں تری آرزو کے حصار میں مِری خواہشوں کے وفور میں کئی ذائقے تھے گُھلے ہُوئے درِ گلستاں سے بہار تک وہ جو راستے تھے‘ کُھلے ہُوئے سرِ لوحِ جاں‘ کسی اجنبی سی زبان کے وہ جو خُوشنما سے حروف تھے وہ جو سرخوشی کا غبار سا تھا چہار سُو جہاں ایک دُوجے کے رُوبرو ہمیں اپنی رُوحوں میں پھیلتی کسی نغمگی کی خبر ملی کِسی روشنی کی نظر ملی‘ ہمیں روشنی کی نظر ملی تو جو ریزہ ریزہ سے عکس تھے وہ بہم ہُوئے وہ بہم ہُوئے تو پتہ چلا کہ جو آگ سی ہے شرر فشاں مِری خاک میں اُسی آگ کا کوئی اَن بُجھا سا نشان ہے‘ تری خاک میں اسی خاکداں میں وہ خواب ہے جسے شکل دینے کے واسطے یہ جو شش جہات کا کھیل ہے یہ رواں ہُوا اسی روشنی سے ’’مکاں‘‘ بنا‘ اسی روشنی سے ’’زماں‘‘ ہُوا یہ جو ہر گُماں کا یقین ہے وہ جو ہر یقیں کا گمان تھا اسی داستاں کا بیان تھا
This site uses cookies to help personalise content, tailor your experience and to keep you logged in if you register.
By continuing to use this site, you are consenting to our use of cookies.