Eid-e-Milad Un Nabi (sallalahu alaihe wassalam) Quran-o-Hadith ki Roshni main Jaiz!

  • Work-from-home

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913


جشن عید میلاد النبی جیسی بدعات کو اچھا سمجھنے والے کا رد

الرد على من استحسن شيئا من البدع كالاحتفال بالمولد النبوي

محمد صالح المنجد
بسم الله الرحمن الرحيم

جشن عید میلاد النبی جیسی بدعات کو اچھا سمجھنے والے کا رد
سوال: برائے مہربانی درج ذیل موضوع کے متعلق معلومات مہیا کریں: عید میلاد النبی صلى اللہ علیہ وسلم کے بارے میں لوگ دو گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں, ان میں سے ایک گروہ تو کہتا ہے کہ یہ بدعت ہے کیونکہ نہ تو یہ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کے دور میں منائی گئی اور نہ ہی صحابہ کے دور میں اور نہ تابعین کے دور میں. اور دوسراگروہ اسکا رد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ :تمہیں جو بھی کہے کہ ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کے دور میں یا پھر صحابہ کے دور میں یا تابعین کے دورمیں پایا گیا ہے ,مثلا ہمارے پاس علم رجال اور جرح وتعدیل نامی اشیاء ایسی ہیں اور انکا انکار بھی کوئی شخص نہیں کرتا حالانکہ انکار میں اصل یہ ہے کہ وہ بدعت نئی ایجاد کردہ ہو اور اصل کی مخالف ہو-اورجشن عید میلاد النبی صلى اللہ علیہ وسلم کی اصل کہاں ہے جسکی مخالفت ہوئی ہےٍ, اوربہت سارے اختلافات اس موضوع کے اردگرد گھومتے ہیں؟ اسی طرح وہ اسکودلیل بناتے ہیں کہ ابن کثیررحمہ اللہ نے جشن میلاد النبی منانے کو صحیح کہا ہے ,اسلئے آپ اس سلسلے میں شرعی دلائل کے ساتھ حکم واضح کریں؟
الحمد للہ
اول
سب سے پہلى بات تو يہ ہے كہ علماء كرام كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى تاريخ پيدائش ميں اختلاف پايا جاتا ہے اس ميں كئى ايك اقوال ہيں جنہيں ہم ذيل ميں پيش كرتے ہيں
چنانچہ ابن عبد البر رحمہ اللہ كى رائے ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سوموار كے دن دو ربيع الاول كو پيدا ہوئے تھے.
اور ابن حزم رحمہ اللہ نے آٹھ ربيع الاول كو راجح قرار ديا ہے.
اور ايك قول ہے كہ: دس ربيع الاول كو پيدا ہوئے، جيسا كہ ابو جعفر الباقر كا قول ہے.
اور ايك قول ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيدائش بارہ ربيع الاول كو ہوئى، جيسا كہ ابن اسحاق كا قول ہے.
اور ايك قول ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيدائش رمضان المبارك ميں ہوئى، جيسا كہ ابن عبد البر نے زبير بكّار سے نقل كيا ہے. ديكھيں: (السيرۃ النبويۃ لابن كثير
( 199 - 200 ).
ہمارے علم كے ليے علماء كا يہى اختلاف ہى كافى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے محبت كرنے والے اس امت كے سلف علماء كرام تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيدائش كے دن كا قطعى فيصلہ نہ كر سكے، چہ جائيكہ وہ جشن ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم مناتے، اور پھر كئى صدياں بيت گئى ليكن مسلمان يہ جشن نہيں مناتے تھے، حتى كہ فاطميوں نے اس جشن كى ايجاد كى
شيخ على محفوظ رحمہ اللہ كہتے ہيں
" سب سے پہلے يہ جشن فاطمى خلفاء نے چوتھى صدى ہجرى ميں قاہرہ ميں منايا، اور انہوں نے ميلاد كى بدعت ايجاد كى جس ميں ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم، اور على رضى اللہ تعالى عنہ كى ميلاد، اور فاطمۃ الزہراء رضى اللہ تعالى عنہا كى ميلاد، اور حسن و حسين رضى اللہ تعالى عنہما، اور خليفہ حاضر كى ميلاد، منانے كى بدعت ايجاد كى، اور يہ ميلاديں اسى طرح منائى جاتى رہيں حتى كہ امير لشكر افضل نے انہيں باطل كيا. اور پھر بعد ميں خليفہ آمر باحكام اللہ كے دور میں پانچ سو چوبيس ہجرى ميں دوبارہ شروع كيا گيا حالانكہ لوگ تقريبا اسے بھول ہى چكے تھے
اور سب سے پہلا شخص جس نے اربل شہر ميں ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم كى ايجاد كى وہ ابو سعيد ملك مظفر تھا جس نے ساتويں صدى ہجرى ميں اربل كے اندر جشن میلاد النبی منائى، اور پھر يہ بدعت آج تك چل رہى ہے، بلكہ لوگوں نے تو اس ميں اور بھى وسعت دے دى ہے، اور ہر وہ چيز اس ميں ايجاد كر لى ہے جو ان كى خواہش تھى، اور جن و انس كے شياطين نے انہيں جس طرف لگايا اور جو كہا انہوں نے وہى اس ميلاد ميں ايجاد كر ليا " انتہى ديكھيں" الإبداع في مضار الابتداع "
( ص 251 )
دوم
سوال ميں ميلاد النبى كے قائلين كا يہ قول بيان ہوا ہے كہ
جو تمہيں كہے كہ ہم جو بھى كرتے ہيں اس كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم يا عہد صحابہ يا تابعين ميں پايا جانا ضرورى ہے "
اس شخص كى يہ بات اس پر دلالت كرتى ہے كہ ايسى بات كرنے والے شخص كو تو بدعت كے معنى كا ہى علم نہيں جس بدعت سے ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بچنے كا بہت سارى احاديث ميں حكم دے ركھا ہے؛ اس قائل نے جو قاعدہ اور ضابطہ ذكر كيا ہے وہ تو ان اشياء كے ليے ہے جو اللہ كا قرب حاصل كرنے كے ليے كى جاتى ہيں يعنى اطاعت و عبادت ميں يہى ضابطہ ہو گا
اس ليے كسى بھى ايسى عبادت كے ساتھ اللہ كا قرب حاصل كرنا جائز نہيں جو ہمارے ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مشروع نہيں كى، اور يہ چيز نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جو ہميں بدعات سے منع كيا ہے اسى سے مستنبط اور مستمد ہے، اور بدعت اسے كہتے ہيں كہ: كسى ايسى چيز كے ساتھ اللہ كا قرب حاصل كرنے كى كوشش كى جائے جو اس نے ہمارے ليے مشروع نہيں كى، اسى ليے حذيفہ رضى اللہ تعالى عنہ كہا كرتے تھے
" ہر وہ عبادت جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ نے نہيں كى تم بھى اسے مت كرو "
اور اسی کے مثل امام مالک نے فرمایا: "جو چیز اسوقت دین نہ تھی ,آج بھی دین نہ ہوگی"
يعنى: جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں دين نہيں تھا، اور نہ ہى اس كے ساتھ اللہ كا قرب حاصل كيا جاتا تھا تو اس كے بعد بھى وہ دين نہيں بن سكتا "
پھر سائل نے جو مثال بيان كى ہے وہ جرح و تعديل كے علم كى ہے، اس نے كہا ہے كہ يہ بدعت غير مذموم ہے، جو لوگ بدعت كى اقسام كرتے ہوئے بدعت حسنہ اور بدعت سئيہ كہتے ہيں ان كا يہى قول ہے كہ يہ بدعت حسنہ ہے، بلكہ تقسيم كرنے والے تو اس سے بھى زيادہ آگے بڑھ كر اسے پانچ قسموں ميں تقسيم كرتے ہوئے احكام تكليفيہ كى پانچ قسميں كرتے ہيں
وجوب، مستحب، مباح، حرام اور مكروہ عزبن عبد السلام رحمہ اللہ نے يہ تقسيم ذكر كيا ہے اور ان كے شاگرد القرافى نے بھى ان كى متابعت كى ہے
اور شاطبى رحمہ اللہ قرافى كا اس تقسيم پر راضى ہونے كا رد كرتے ہوئے كہتے ہيں
" يہ تقسيم اپنى جانب سے اختراع اور ايجاد ہے جس كى كوئى شرعى دليل نہيں، بلكہ يہ اس كا نفس متدافع ہے؛ كيونكہ بدعت كى حقيقت يہى ہے كہ اس كى كوئى شرعى دليل نہ ہو نہ تو نصوص ميں اور نہ ہى قواعد ميں، كيونكہ اگر كوئى ايسى شرعى دليل ہوتى جو وجوب يا مندوب يا مباح وغيرہ پر دلالت كرتى تو پھرى كوئى بدعت ہوتى ہى نہ، اور عمل سارے ان عمومى اعمال ميں شامل ہوتے جن كا حكم ديا گيا ہے يا پھر جن كا اختيار ديا گيا ہے، چنانچہ ان اشياء كو بدعت شمار كرنے اور يہ كہ ان اشياء كے وجوب يا مندوب يا مباح ہونے پر دلائل دلالت كرنے كو جمع كرنا دو منافى اشياء ميں جمع كرنا ہے اور يہ نہيں ہو سكتا.
رہا مكروہ اور حرام كا مسئلہ تو ان كا ايك وجہ سے بدعت ہونا مسلم ہے، اور دوسرى وجہ سے نہيں، كيونكہ جب كسى چيز كے منع يا كراہت پر كوئى دليل دلالت كرتى ہو تو پھر اس كا بدعت ہونا ثابت نہيں ہوتا، كيونكہ ممكن ہے وہ چيز معصيت و نافرمانى ہو مثلا قتل اور چورى اور شراب نوشى وغيرہ، چنانچہ اس تقسيم ميں كبھى بھى بدعت كا تصور نہيں كيا جا سكتا، الا يہ كہ كراہت اور تحريم جس طرح اس كے باب ميں بيان ہوا ہے.
اور قرافى نے بدعت كے انكار پر اصحاب سے جو اتفاق ذكر كيا ہے وہ صحيح ہے، اور اس نے جو تقسيم كى ہے وہ صحيح نہيں، اور اس كا اختلاف سے متصادم ہونے اور اجماع كو ختم كرنے والى چيز كى معرفت كے باوجود اتفاق ذكر كرنا بہت تعجب والى چيز ہے، لگتا ہے كہ اس نے اس تقسيم ميں بغير غور و فكر كيے اپنے استاد ابن عبد السلام كى تقليد و اتباع كى ہے.
پھر انہوں نے اس تقسيم ميں ابن عبد السلام رحمہ اللہ كا عذر بيان كيا ہے اور اسے " مصالح مرسلہ " كا نام ديا ہے كہ يہ بدعت ہے، پھر كہتے ہيں
" ليكن اس تقسيم كو نقل كرنے ميں قرافى كا كوئى عذر نہيں كيونكہ انہوں نے اپنے استاد كى مراد كے علاوہ اس تقسيم كو ذكر كيا ہے، اور نہ ہى لوگوں كى مراد پر بيان كيا ہے، كيونكہ انہوں نے اس تقسيم ميں سب كى مخالفت كى ہے، تو اس طرح يہ اجماع كے مخالف ہوا " انتہى
ديكھيں: الاعتصام
( 152 - 153 )
.
ہم نصيحت كرتے ہيں كہ آپ كتاب سے اس موضوع كا مطالعہ ضرور كريں كيونكہ رد كے اعتبار سے يہ بہت ہى بہتر اور اچھا ہے اس ميں انہوں نے فائدہ مند بحث كى ہے.
عز بن عبد السلام رحمہ اللہ نے بدعت واجبہ كى تقسيم كى مثال بيان كرتے ہوئے كہا ہے
" بدعت واجبہ كى كئى ايك مثاليں ہيں
پہلى مثال
علم نحو جس سے كلام اللہ اور رسول اللہ كى كلام كا فہم آئے ميں مشغول ہونا اور سيكھنا يہ واجب ہے؛ كيونكہ شريعت كى حفاظت واجب ہے، اور اس كى حفاظت اس علم كو جانے بغير نہيں ہو سكتى، اور جو واجب جس كے بغير پورا نہ ہو وہ چيز بھى واجب ہوتى ہے.
دوسرى مثال
كتاب اللہ اور سنت رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں سے غريب الفاظ اور لغت كى حفاظت كرنا.
تيسرى مثال
اصول فقہ كى تدوين.
چوتھى مثال
جرح و تعديل ميں كلام كرنا تا كہ صحيح اور غلط ميں تميز ہو سكے، اور شرعى قواعد اس پر دلالت كرتے ہيں كہ شريعت كى حفاظت قدر متعين سے زيادہ كى حفاظت فرض كفايہ ہے، اور شريعت كى حفاظت اسى كے ساتھ ہو سكتى ہے جس كا ہم نے ذكر كيا ہے " انتہى.
ديكھيں: قواعد الاحكام فى مصالح الانام
( 2 / 173 ).
واللہ اعلم
 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
اور شاطبى رحمہ اللہ بھى اس كا رد كرتے ہوئے كہتے ہيں
" اور عزبن عبد السلام نے جو كچھ كہا ہے: اس پر كلام وہى ہے جو اوپر بيان ہو چكى ہے، اس ميں سے واجب كى مثاليں اسى كے حساب سے ہيں كہ جو واجب جس كے بغير واجب پورا نہ ہوتا
ہو تو وہ چيز
بھى واجب ہے ـ
جيسا اس نے كہا ہے ـ
چنانچہ اس ميں يہ شرط نہيں لگائى جائيگى كہ وہ سلف ميں پائى گئى ہو، اور نہ ہى يہ كہ خاص كر اس كا اصل شريعت ميں موجود ہو؛ كيونكہ يہ تو مصالح مرسلہ كے باب ميں شامل ہے نہ كہ بدعت ميں " انتہى. ديكھيں: الاعتصام
( 157 - 158 ).
اور اس رد كا حاصل يہ ہوا كہ
ان علوم كو بدعت شرعيہ مذمومہ كے وصف سے موصوف كرنا صحيح نہيں، كيونكہ دين اور سنت نبويہ كى حفاظت والى عمومى شرعى نصوص اور شرعى قواعد سے ان كى گواہى ملتى ہے اور جن ميں شرعى نصوص اور شرعى علوم ( كتاب و سنت ) كو لوگوں تك صحيح شكل ميں پہچانے كا بيان ہوا ہے اس سے بھى دليل ملتى ہے. اور يہ بھى كہنا ممكن ہے كہ: ان علوم كو لغوى طور پر بدعت شمار كيا جا سكتا ہے، نا كہ شرعى طور پر بدعت، اور شرعى بدعت سارى مذموم ہى ہيں، ليكن لغوى بدعت ميں سے كچھ تو محمود ہيں اور كچھ مذموم.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں
" شرعى عرف ميں بدعت مذ موم ہى ہے، بخلاف لغوى بدعت كے، كيونكہ ہر وہ چيز جو نئى ايجاد كى گئى اور اس كى مثال نہ ہو اسے بدعت كا نام ديا جاتا ہے چاہے وہ محمود ہو يا مذموم " انتہى - ديكھيں: فتح البارى
( 13 / 253 ).
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے
" البدع يہ بدعۃ كى جمع ہے، اور بدعت ہر اس چيز كو كہتے ہيں جس كى پہلے مثال نہ ملتى ہو، لہذا لغوى طور پر يہ ہر محمود اور مذموم كو شامل ہو گى، اور اہل شرع كے عرف ميں يہ مذموم كے ساتھ مختص ہو گى، اگرچہ يہ محمود ميں وارد ہے، ليكن يہ لغوى معنى ميں ہو گى " انتہى ديكھيں: فتح البارى
( 13 / 340 ).
اور صحيح بخارى كتاب الاعتصام بالكتاب و السنۃ باب نمر 2حديث نمبر ( 7277 ) میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كى تعليق پر شيخ عبد الرحمن البراك حفظہ اللہ كہتے ہيں
" يہ تقسيم لغوى بدعت كے اعتبار سے صحيح ہے، ليكن شرع ميں ہر بدعت گمراہى ہے، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے
" اور سب سے برے امور دين ميں نئے ايجاد كردہ ہيں، اور ہر بدعت گمراہى ہے "
اور اس عموم كے باوجود يہ كہنا جائز نہيں كہ كچھ بدعات واجب ہوتى ہيں يا مستحب يا مباح، بلكہ دين ميں يا تو بدعت حرام ہے يا پھر مكروہ، اور مكروہ ميں يہ بھى شامل ہے جس كے متعلق انہوں نے اسے بدعت مباح كہا ہے: يعنى عصر اور صبح كے بعد مصافحہ كرنے كے ليے مخصوص كرنا " انتہى
اور يہ معلوم ہونا ضرورى ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ كرام كے دور ميں كسى بھى چيز كے كيے جانے كے اسباب كے پائے جانے اور موانع كے نہ ہونے كو مدنظر ركھنا چاہيے چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا ميلاد اور صحابہ كرام كى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے محبت يہ دو ايسے سبب ہيں جو صحابہ كرام كے دور ميں پائے جاتے تھے جس كى بنا پر صحابہ كرام آپ كا جشن ميلاد منا سكتے تھے، اور پھر اس ميں كوئى ايسا مانع بھى نہيں جو انہيں ايسا كرنے سے روكتا.
لہذا جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كے صحابہ كرام نے جشن ميلاد نہيں منايا تو يہ علم ہوا كہ يہ چيز مشروع نہيں، كيونكہ اگر يہ مشروع ہوتى تو صحابہ كرام اس كى طرف سب لوگوں سے آگے ہوتے اور سبقت لے جاتے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں
" اور اسى طرح بعض لوگوں نے جو بدعات ايجاد كر ركھى ہيں وہ يا تو عيسى عليہ السلام كى ميلاد كى طرح عيسائيوں كے مقابلہ ميں ہيں، يا پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم
كى محبت
ا ور
تعظيم ميں ـ
اللہ سبحانہ و تعالى اس محبت اور كوشش كا تو انہيں اجروثواب دے گا
نہ كہ اس
بدعت پر ـ
كہ انہوں نے ميلاد النبى كا جشن منانا
شروع
كر ديا ـ
حالانكہ آپ كى تاريخ پيدائش ميں
تو اختلاف پايا جاتا ہے ـ
اور پھر كسى بھى سلف نے يہ ميلاد نہيں منايا،
حالانكہ اس كا مقتضى موجود تھا، اور پھر اس ميں مانع بھى كوئى نہ تھا. اور اگر يہ يقينى خير و بھلائى ہوتى يا راجح ہوتى تو سلف رحمہ اللہ ہم سے زيادہ اس كے حقدار تھے؛ كيونكہ وہ ہم سے بھى زيادہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ محبت كرتےتھے، اور آپ كى تعظيم ہم سے بہت زيادہ كرتے تھے، اور پھر وہ خير و بھلائى پر بھى بہت زيادہ حريص تھے. بلكہ كمال محبت اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى تعظيم تو اسى ميں ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم كى اتباع و پيروى كى جائے، اور آپ كا حكم تسليم كيا جائے، اور ظاہرى اور باطنى طور پر بھى آپ كى سنت كا احياء كيا جائے، اور جس كے ليے آپ صلى اللہ عليہ وسلم مبعوث ہوئے اس كو نشر اور عام كيا جائے، اور اس پر قلبى لسانى اور ہاتھ كے ساتھ جھاد ہو. كيونكہ مہاجر و انصار جو سابقين و اولين ميں سے ہيں انكا بھى يہى طريقہ رہا ہے اور ان كے بعد ان كى پيروى كرنے والے تابعين عظام كا بھى " انتہى - ديكھيں: اقتضاء الصراط
( 294 - 295 ).
اور يہى كلام صحيح ہے جو يہ بيان كرتى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت تو آپ كى سنت پر عمل كرنے سے ہوتى ہے، اور سنت كو سيكھنے اور اسے نشر كرنے اور اس كا دفاع كرنے ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت ہے اور صحابہ كرام كا طريقہ بھى يہى رہا ہے.
ليكن ان بعد ميں آنے والوں نے تو اپنے آپ كو دھوكہ ديا ہوا ہے، اور اس طرح كے جشن منانے كے ساتھ شيطان انہيں دھوكہ دے رہا ہے، ان كا خيال ہے كہ وہ اس طرح نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ اپنى محبت كا اظہار كر رہے ہيں، ليكن اس كے مقابلہ ميں وہ سنت كے احياء اور اس پر عمل پيرا ہونے اور سنت نبويہ كو نشر كرنے اور پھيلانے اور سنت كا دفاع كرنے سے بہت ہى دور ہيں.
سوم
اور اس بحث كرنے والے نے جو كلام ابن كثير رحمہ اللہ كى طرف منسوب كى ہے كہ انہوں نے جشن ميلاد منانا جائز قرار ديا ہے، اس ميں صرف ہم اتنا ہى كہيں گے كہ يہ شخص ہميں يہ بتائے كہ ابن كثير رحمہ اللہ نے يہ بات كہاں كہى ہے، كيونكہ ہميں تو ابن كثير رحمہ اللہ كى يہ كلام كہيں نہيں ملى، اور ہم ابن كثير رحمہ اللہ كو اس كلام سے برى سمجھتے ہيں كہ وہ اس طرح كى بدعت كى معاونت كريں اور اس كى ترويج كا باعث بنيں ہوں.
[DOUBLEPOST=1358408875][/DOUBLEPOST]
بدعت کے نقصانات
(۱)
بدعت گمراہی کا سبب ہے
جب ایک انسان بدعت میں ملوث ہوتا ہے تو اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بدعت اس کو گمراہی کی طرف لے جاتی ہے اور اعمال صالحہ سے اس کو دور کردیتی ہے۔(إِنَّ أَحْسَنَ الحَدِیثِ کِتَابُ اللَّہِ، وَأَحْسَنَ الہَدْیِ ہَدْیُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَشَرَّ الأُمُورِ مُحْدَثَاتُہَا)بیشک سب سے بہترین بات اللہ کے کتاب کی ہے ۔اور سب سے بہترین ہدایت نبی ؐ کی ہدایت ہے اور سب سے برا امر دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کرنا ہے۔
(صحیح البخاری:۷۲۷۷)
(۲)
بدعتی کا ٹھکانہ جہنم ہے
جب ایک انسان بدعتوں کا مرتکب ہوتا ہے تو وہ جہنم کا مستحق ہو جاتا ہے (وَکُلُّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ وَکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ، وَکُلُّ ضلالۃفی النَّارِ)ہر نئی چیز بدعت ہے ہربدعت گمراہی ہے ۔اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے
(سنن النسائی:۱۵۷۸)
(۳)
بدعت انسان کے سارے اعمال کو بربا د کردیتی ۔ے۔ اور اس کا کوئی عمل اللہ کے یہاں قابل قبول نہیں ہے۔(مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَیْسَ عَلَیْہِ أَمْرُنَا فَہُوَ رَدّ ٌ)جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس کا ہم نے حکم نہیں دیا ہے تو وہ مردود ہے۔
(صحیح مسلم:۱۷۱۸)
(۴)
بدعتی کی توبہ قبول نہیں ہوتی یہاں تک کہ وہ اس سے خالص توبہ کرلے اور اس سے رک جائے ۔(إِنَّ اللَّہَ احْتَجَرَ التَّوْبَۃَ عَلَی کُلِّ َاحب بِدعۃ )اللہ رب العالمین نے ہر بدعتی کے توبہ کو روک رکھا ہے۔
(لاحادیث المختارۃ: المستخرج من الاحادیث المختارہ:۵۴۲۰)
(۵)
بدعت کرنے کا ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ بدعتی کے چہرے کالے ہونگے جس سے ان کو پہچان لیا جائے گا کہ یہ دنیا کے اندر بدعتیں کیا کرتے تھے۔ اللہ رب العالمین فرماتا ہے۔(یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوہٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوہٌ فَأَمَّا الَّذِینَ اسْوَدَّتْ وُجُوہُہُمْ أَکَفَرْتُمْ بَعْدَ إِیمَانِکُمْ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُونَ) ''جس دن بعض چہرے سفید ہونگے اور بعض سیاہ ۔سیاہ چہرے وا لوں سے کہا جائے گا کہ کیا تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا ؟اب اپنے کفر کا عذاب چکھو'' (آل عمران: ۱۰۶)مفسرین اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہیں کہ جن کے چہرے روشن ہونگے وہ اہل ایمان ہونگے ۔اور جن کے چہرے کالے ہونگے وہ کافر مشرک اور بدعتی لوگ ہونگے۔
اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ ہم سب کو بدعت سے محفوظ رکھے اور عمل صالح کر نے والا بنائے، آمین۔
[DOUBLEPOST=1358409098][/DOUBLEPOST]thanks muslim bhai aur tooba khan sister[DOUBLEPOST=1358409185][/DOUBLEPOST]
۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موت کو تکلیف پہنچی تو فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ہائے مصیبت تکلیف! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے

فرمایا: ’’آج کے بعد تیرے باپ پر کوئی تکلیف نہ ہو گی۔ تیرے باپ کے پاس وہ ذات (فرشتہ) حاضر ہوا ہے جو (وقتِ اجل پر) کسی کو نہیں چھوڑتا۔ اب قیامت کے دن ہی

ملاقات ہو گی۔

(رواہ البخاری)
 

onlyessa

Newbie
Jan 17, 2013
9
5
3
ye thread del kiun ny hua
dark knight bhai agar ab bi apka ana idar hota hy ya phir apke followers koi hy to un se ek chota sa sawal hy us ka jawab do phir jashn manane ki bat hogi

ap ya apke chahne wale jo b idar hy 12 rabi awal ko Allah ke rasul alayhisalam ki paidaish maa sahi sanad sabit karke batao

shukria
Aplogon ko hamara Milad Manana Acha nae lagta to na sahi koi Ap pe Zabardasti to nae
Ek Bat kahun Ga. Milad ka lafz Molod Se nikla hai jiska matlab hai Paida hone wala Aur jo paida hota hai uska Birth Ap mana Sakte hain Zarori nae k is k bare me koi dalail hon,Apka dil karta hai manao nae karta na manao ..
 
  • Like
Reactions: Abidi

*Muslim*

TM Star
Apr 15, 2012
3,863
4,567
513
saudia
Aplogon ko hamara Milad Manana Acha nae lagta to na sahi koi Ap pe Zabardasti to nae
Ek Bat kahun Ga. Milad ka lafz Molod Se nikla hai jiska matlab hai Paida hone wala Aur jo paida hota hai uska Birth Ap mana Sakte hain Zarori nae k is k bare me koi dalail hon,Apka dil karta hai manao nae karta na manao ..
bhai sab muj pe ya kisi pe koi zabardasti karbi ny sakta laa ikraha fiddeeen deen me zabardasti nahi
aur ek baat muje acha lage ya na lage ya kisi aur ko acha lage ya na lage is se kch lena dena nahi balke Allah ko kia acha lagta hy Nabi alayhisalam ne kia hukm dia ye aham hy

to mere bhai pehle ap 12 rabi awal ko Allah ke rasul alayhisalam ka birthday sabit to karo phir us din jashn manana sahi ya galat par baat hogi pehle wiladat ki tareekh to sabit ho jae

shukria
 

kingnomi

Doctor
Super Star
Jan 7, 2009
12,873
10,849
1,313
Owsum , Superb , Very Nice :P
salam. nomi bhai kia hazoor (saw) ki wafat ka din 12 rabi ul awal hee hai ya kuch aur hai
Walaikum salam .. hazrat Ayesha R.A Ki Hadees Se Toh 12 Rabiawal Sabit hoti hai na ??? , Aur mene ahmed raza khan bralvi kaa bataya hai Jis kay Milaad mananay walay perokar hain :) ... agar in ka peer 12 wafat bolta hai toh Wafat per Kaisa Jashan
 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
agar maian kahoon keh hazoor (saw) ki wafat ka din 12 rabi ul awal nahin hai to aap kia jawab daian gay. sabit bhi sahih ahadees say kerna hai aap ko aur mujhay bhi.



aap ka bhai lovelyalltime
 
  • Like
Reactions: kool~nomi

kingnomi

Doctor
Super Star
Jan 7, 2009
12,873
10,849
1,313
Owsum , Superb , Very Nice :P

Zabardast sharing bro is ka matlab hai kay Sahi bukhari mein tareekh wafat nhn likhi huwi bas din likha huwa hai ....
Means Wisaal Ki Tareekh kounsi huwi phr ?? 13 , 14 , 15 , ya 16 ???
hmm achi calculation and sharing hai bro ..[DOUBLEPOST=1358431773][/DOUBLEPOST]>>> @S_ChiragH uper wali post dekho lovely bhai ki
 

onlyessa

Newbie
Jan 17, 2013
9
5
3
ye thread del kiun ny hua
dark knight bhai agar ab bi apka ana idar hota hy ya phir apke followers koi hy to un se ek chota sa sawal hy us ka jawab do phir jashn manane ki bat hogi

ap ya apke chahne wale jo b idar hy 12 rabi awal ko Allah ke rasul alayhisalam ki paidaish maa sahi sanad sabit karke batao

shukria
Insha Allah Ap ko Ek Ek Prove Milega g[DOUBLEPOST=1358567734][/DOUBLEPOST]
Zabardast sharing bro is ka matlab hai kay Sahi bukhari mein tareekh wafat nhn likhi huwi bas din likha huwa hai ....
Means Wisaal Ki Tareekh kounsi huwi phr ?? 13 , 14 , 15 , ya 16 ???
hmm achi calculation and sharing hai bro ..[DOUBLEPOST=1358431773][/DOUBLEPOST]>>> @S_ChiragH uper wali post dekho lovely bhai ki
Apka Question ye tha k "12 Rabi Ul Awal Hi wisal ka din hai is bat ka prov apko mil gya mazeed fitne barpa mat karo plz us hasti ka milad manana aplogon ko theek nae lagta jis k nam se Ap k dada Hazrat Adam (AS)ki toba Qabool hue to Na Manao bt aise tafarqe me na paro k kal qayamat Wale din Aplogon ko Sharmindagi ka samna karna pare.......Dalail mere pas bht hai Eid Milad Aur Wiladat E Rasool k bare me but Jo na samajh hon jin ki Ankhon k age parde pare hon unko samjhana Fazool hai.Na Sochte hain Na Aqal rakhte hain aise hi Question phenk dete hain jese kisi AAm Shaks ki bat ho.Mere bhai ye Hamare Pak Nabi (PBUH)ki bat ho rahi hai plz soch samajh kr Question karain
 
  • Like
Reactions: Abidi

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
milad manana aplogon ko theek nae lagta jis k nam se Ap k dada Hazrat Adam (AS)ki toba Qabool hue
سلام . میرے بھائی اپنی ایس بات کی دلیل پیش کرو کہ
حضرت آدم
(as)
کی توبہ حضور صلی اللہ وسلم کی وجہ سے قبول ہوئی
[DOUBLEPOST=1358581328][/DOUBLEPOST]




ميلاديوں کے چند شبھات اور اس کا ازالہ



میلادی حضرات عید میلاد النبی کے تعلق سے اپنے زعم کے مطابق چند دلائل پیش کرتے ہیں اور کچھ شبہات کا اظہار کرتے ہیں ذیل کے سطورمیں انہیں شبہات کا ازالہ کیا گیا ہے

(١)

اگر عید میلاد النبی ۖ منانا غلط اور بدعت ہے تو پھر ہندوستان ،پاکستان،بنغلادیش اور دیگر ممالک میں لاکھوں مسلمان کیوں مناتے ہیں ؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ اکثریت کا اسلام میں اعتبار نہیں بلکہ حق وباطل کا معیار اور کسوٹی کتاب وسنت ہے پس اگرہزاروں آدمی کتاب وسنت کے خلاف کر رہے ہوں اور صرف ایک آدمی اللہ کی کتاب اور نبی ۖ کی سنت کے مطابق عمل کررہا ہو تو وہ ایک آدمی صحیح اور حق پر ہے .دیکھئے اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام سے متعلق فرمایا(ان ابراہیم کان أمة قانتا للہ حنیفا ولم یک من المشرکین)
٫٫ بیشک ابراہیم علیہ السلام ایک امت اور اللہ تعالی کے فرمانبردار اور ایک طرفہ مخلص تھے ، وہ مشرکوں میں سے نہ تھے،،

(سورئہ نحل :١٢٠)

اسی طرح یہود ونصاری کا اپنی اکثریت کی دلیل پیش کرنے کی تردید کرتے ہوئے اللہ تعالی نے اپنے نبی ۖ کو خطا ب کرکے فرمایا
( وان تطع أکثر من فی الأرض یضلوک عن سبیل اللہ )
٫٫اور دنیا میں زیادہ لوگ ایسے ہیں کہ اگر آپ ان کا ماننے لگیں تو وہ آپ کو اللہ کی راہ سے بے راہ کردیں،،

(سورئہ انعام :١١٦)

ایک دوسر ے مقام پر اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے(وما أکثر الناس ولو حرصت بمؤمنین)٫٫آپ کی خواہش کے باوجود اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں ہیں،،

(سورئہ یوسف:١٠٣)

(وما یؤمن أکثرہم باللہ الا وہم مشرکون )

٫٫ان میں سے اکثر لوگ باوجود اللہ پر ایمان رکھنے کے بھی مشرک ہی ہیں،،

(سورئہ یوسف:١٠٦)

معلوم یہ ہوا کہ حق وباطل کا معیار ،دلائل وبراہین ہیں،لوگوں کی اکثریت واقلیت نہیں،اسلئے یہ کہنا کہ٫٫ اتنے سارے لوگ عید میلاد النبیۖ مناتے ہیں یہ کیسے غلط ہوسکتا ہے؟ ،،
درست نہیں

(٢)

حق وباطل کا معیار جب کتاب وسنت ہے تو ہمارے ملکوں میں اتنے بڑے بڑے علماء ہیں کیا وہ قرآن اور حدیث نہیں پڑھتے ہیں؟کیا ان کے پاس کتاب وسنت کا علم نہیں ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ
یقینا ہمارے ملکوں میں بڑے بڑے علماء ہیں جو قرآن وحدیث پڑھتے اورپڑھاتے ہیں مگر وہ انبیاء کی طرح معصوم عن الخطاء نہیں ہیں

ان سے بھی قرآن وحدیث کے سمجھنے میں غلطی ہو سکتی ہے اسی لئے تو امام مالک نے مسجد نبوی میں حدیث کا درس دیتے وقت نبی اکرم ۖکی قبر کی طرف اشارہ کرکے فرمایا:
٫٫کہ دنیا میں بڑے سے بڑے عالم کی بات قبول بھی کی جا سکتی ہے اور رد بھی سوائے اس قبر والے کے ،،.


(٣)

ہمارے ملکوں میں علماء کرام کہتے ہیں کہ عید میلاد النبی ۖمنانا بدعت نہیں بلکہ مستحب ہے اور اس عمل کے لئے قرآن وحدیث سے بے شماردلائل پیش کرتے ہیں، اور جب حق وباطل کا معیار دلائل اور براہین ہی ہیں تو پھر وہی لوگ حق پر ہیں کیونکہ ان کے پاس دلائل ہیں !؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے (کل حزب بما لدیہم فرحون )٫٫ہر گروہ جو کچھ اس کے پاس ہے اسی پر خوش ہے ،،

(سورئہ مؤمنون:٥٣).

آئیے پہلے ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ دلیل کس کو کہا جاتا ہے ؟ دلیل یہ عربی کا لفظ ہے اور ٫٫دَلَّ،، سے ماخوذ ہے جسکا معنی ہے مرشد یعنی رہنمائی کرنے والا،اب میں یہاں ان تمام قرآنی آیات کا ترجمہ جناب احمد رضا صاحب کے ترجمہ وتفسیر سے قارئین کرام کی خدمت میں پیش کرتا ہوں جنہیں میلادی لوگ بطور دلیل پیش کرتے ہیں


(١)

عیسی بن مریم نے عرض کی اے اللہ اے رب ہمارے ہم پرآسمان سے ایک خوان اتار کہ وہ ہمارے لئے عید ہو ہمارے اگلے پچھلوں کی،،

(سورئہ مائدہ:١١٤)

(٢)
٫٫اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو ،،

(سورئہ آ ل عمران :١٠٣)

(٣)

اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو ،،

(سورئہ ضحی:١١)

(٤)

٫بے شک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا ،،

(سورئہ آل عمران :١٦٤)

(٥)

تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسکی رحمت اور اسی پر چاہئے کہ خوشی کریں ،،

(سورئہ یونس:٥٨)

یہ ہیں میلادیوں کی قرآنی دلیلیں جنہیں وہ چینخ چینخ کر اور گلا پھاڑ پھاڑ کر اپنے بھولے بھالے عوام کو سنا تے ہیں اور اپنا الو سیدھا کرتے ہیں ،قارئین کرام !دل پر ہاتھ رکھ کر کہئے کہ کیا اللہ نے ہم مسلمانوں کو ان آیتوں میں ٫٫عید میلاد النبیۖ،، منانے کا حکم دیا ہے ؟اور کیا اس نے ہمیں وہ سب چیزیں کرنے کا حکم دیا جو آج ہمارے معاشرے میں عید میلاد النبی کے نام پر ہوتا ہے ؟ یقینا آپ کا جواب نفی میں ہوگا ،تو پھرکہیں کمانے کھانے کیلئے ان آیتوں کا سہارا تو نہیں لیا جارہا ہے ؟؟؟؟


لاکھوں احادیث رسول میں میلادیوں کو اپنی بات ثابت کرنے کے لئے کوئی دلیل نہ ملی تو اس روایت کو بطور ثبوت انہوں نے پیش کیا


اور عروہ نے کہا ثویبہ ابو لہب کی لونڈی تھی ،ابو لہب نے اس کو آزاد کردیا تھا اور اس نے آنحضرتۖ کو دودھ پلایا تھا،جب ابولہب مرگیا تواس کے کسی عزیز نے مرنے کے بعد اس کو خواب میں برے حال میں دیکھا تو پوچھا کیا حال ہے، کیا گزری ؟وہ کہنے لگا جب سے میں تم سے جدا ہوا ہوں کبھی آرام نہیں ملامگر ایک ذرا سا پانی ،ابو لہب نے اس گڑھے کی طرف اشارہ کیا جو انگوٹھے اور کلمہ کی انگلی کے بیچ میں ہوتا ہے ،یہ بھی اس وجہ سے کہ میں نے ثویبہ کو آزاد کردیا تھا
،،

(صحیح بخاری کتاب النکاح باب:٢٠ حدیث :٥١٠١)

اس روایت سے عید میلاد النبی کے لئے استدلال کرنا کئی اعتبار سے غلط ہے


(١)

اس روایت میں محض ایک خواب کا ذکر ہے اور اہل اسلام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ انبیاء ورسل (علیہم السلام) کے خواب کے علاوہ کسی کابھی خواب قابل حجت نہیں اور اس سے کوئی شرعی حکم ثابت نہیں ہوتا .

(٢)

امام بخاری نے ضمنی طو رپر اس واقعہ کو ذکر صرف اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کیاہے کہ ثویبہ یہ آپۖ کی رضاعی ماں تھی،اسی لئے انہوں نے یہ باب باندھاہے باب ٫٫ وأمہاتکم اللاتی أرضعنکم،، اور تمہاری رضاعی ماؤں کا باب.

(٣)

اس واقعہ میں اس بات کی صراحت نہیں ہے کہ ابولہب نے نبی کی پیدائش کی خوشی میں ثویبہ کو آزاد کیا تھا بلکہ تاریخ کی دیگر کتابوں میں یہ وضاحت موجود ہے کہ ابولہب نے ثویبہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ سے ہجرت کرجانے کے بعد آزاد کیا تھا

(دیکھئے الطبقات ج/١٠٨۔١٠٩،الاستیعاب ج١/١٢)


(٤)

امام بخاری نے اس واقعہ کو عید میلاد النبی کے ثبوت کے لئے ذکر کیا ہے اورنہ ہی شارحین صحیح بخاری میں سے کسی نے اس واقعہ سے میلاد کیلئے استدلال کیا ہے .

(٥)

یہ خبر ظاہر قرآن کے خلاف ہے ، ارشاد باری تعالی ہے (وقدمنا الی ما عملوا من عمل فجعلناہ ہباء منثورا)
٫٫اور انہوں نے جو جو اعمال کئے تھے ہم نے ان کی طرف بڑھ کرانہیں پراگندہ ذروں کی طرح کردیا،،یعنی کافروں کے عمل قیامت کے دن ذروں کی طرح بے حیثیت ہوں گے.

(سورئہ فرقان:٢٣)

(٦)

بعض روایت کے مطابق یہ خواب عباس نے دیکھا ہے ،اور ابولہب غزوئہ بدر کے سا ت دن بعد مرگیا،اور عباس غزوہ بدر میں مشرکین قیدیوں میں سے تھے،فدیہ کے بعد وہ مکہ واپس ہوئے اور وہاں انہوںنے اسلام قبول کیا ،قرینہ یہ بتلارہا ہے یہ خواب عباس کے حالت کفر کا ہے اور ایک کافر ومشرک کا خواب قابل اعتبار نہیں .

(فتح الباری ج١/١٤٥۔الاصابہ فی تمییز الصحابہ ج٣/٥١١)


(٧)

اگر ما ن بھی لیاجائے کہ ابو لہب نے نبی کی ولادت کے دن اسے آزاد کیا تھا توسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ابولہب نے اپنے بھتیجے محمد بن عبد اللہ کی پیدائش کی خوشی میں لونڈی آزاد کی تھی یا محمد رسول اللہ کی پیدائش پر ؟ظاہر ہے اس نے رسول اللہ کی پیدائش کی خوشی میں اپنی لونڈی ثویبہ کو آزاد نہیں کیا تھا ،ورنہ وہ اسلام دشمنی میں سب کوپیچھے نہ چھوڑتا ،اورآج ہمارے مسلم بھائی قربت الہی کیلئے اس کے اس عمل کو دلیل بناکر خوشی مناتے ہیں ،کیا دونوں میں فرق نہیں ہے ؟


(٨)

اگر مان بھی لیا جائے کہ ابو لہب نے یہ عمل اجروثواب اور قربت الہی کیلئے کیا تھا (اور یہ محال ہے )تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ٫٫عید میلاد النبی ،،مناناملعون ابو لہب کی سنت ہے نہ کہ پیارے نبیۖ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی.اور ہم مسلمانوں پر ایک ملعون کافر ومشرک کی اتباع حرام ہے .

اللہ تعالی ھم سب مسلمانوں کتاب وسنت کی صحیح سمجھ عطا فرمائے آمین

 
  • Like
Reactions: shizz

Abid Mahmood

~I AM ANTI ESTABLISHMENT~
Super Star
Sep 22, 2012
6,908
4,390
1,313
.. @lovelyalltime bhai ma aapke above ke gai sari post par comment nahi karna chahta kiounkay mera kisi behas main parrnay ka mood nahi ha,ma aapke siraf aik bat k hawala sawala karna chahta hoon,plz siraf sawal tak mehdud rahyay ga,
aap ne kaha k baray baray ulma karam anbiya ke tarha masoom an alkhata nahi hain.un se Quran aur ahadees ko samajhnay main ghalti ho sakti ha..
To mera sawal ye ha k aapka apnay baray main kia khiyal ha?
Kia aap masoom an alkhata hain?
Kia aap se Quran aur ahadees ko samajhnay main ghalti nahi ho sakti?
(plz past wala kam na kejiyay ga,jab ma bar bar apna sawal duhrata tha magar aap sawal ke taraf aanay ko tayar he nahi hotay thay)
 
  • Like
Reactions: onlyessa
Top