Hamare lodhi sahib aur amrika ki dou dosairiyaan

  • Work-from-home

dr maqsood hasni

Senior Member
Aug 11, 2008
943
286
1,163
72
kasur, pakistan
ہمارے لودھی صاحب اور امریکہ کی دو دوسیریاں

ہمارے لودھی صاحب کسی اور کو رشوت دینے کے معاملہ میں بڑے ہی سخت واقع ہوءے ہیں۔ کل ہی کی بات ہے ہمارے ایک دوست اکاؤنٹ آفس میں ایک معمولی سے کام کے لیے پانچ سو روپیے چٹی دے کر آءے۔ مجبور تھے کیا کرتے' پچھلے دو ماہ سے ذلیل ہو رہے تھے۔ بار بار اعتراض لگ رہا تھا۔ ہر بار اعتراض دور کرتے لیکن اگلی بار اعتراض میں سے کوئ اور اعتراض جنم لے لیتا۔ کسی سیانے نے اصل اعتراض یعنی پانچ سو روپیے کی نشاندہی کر دی۔ اصل اعتراض دور ہونے پر ان کام فورا سے پہلے ہو گیا۔ ہمارے لودھی صاحب کو سخت غصہ آیا وہ وہ سنیما سکوپ گالیاں سناءیں کہ تمام پنجابی گالیاں آن واحد میں شرمندہ تعبیر ہو گءیں۔ میں حیران تھا کہ انھیں کیا بنیاں کیونکہ اسی کیس کی ذیل میں وہ دو بار نیلا نوٹ وصول چکے تھے۔ کیا یہ رشوت نہ تھی?! غالبا ان کے سوا کسی اور کو کام کے حولہ سے نقدی یا بصورت جنس اداءگی رشوت کے زمرے میں آتا ہے۔ ہرے نیلے اور کبھی کبھار سرخ رنگ پر صرف اور صرف ان ہی کا حق فاءق رہتا ہے۔
درست طریقہ یہی ہے کہ بانٹ دؤ رکھو۔ بہت پہلے کی بات ہے کہ الله بخشے' ہمارے بھائ کے سسر امام مسجد ہونے کے ساتھ ساتھ دؤکاندار بھی تھے۔ دوکان میں ڈاکخانہ بھی تھا۔ اگلے دور میں لوگوں کے پاس پیسے نہیں ہوا کرتے تھے۔ لوگ اجناس کے بدلے اشیاء حاصل کیا کرتے تھے۔ ان کے پاس بیٹھے ہوءے تھے کہ ایک مائ جنس لے کر آئ انھوں نے اندر آواز دی:
"بیٹا دوسیری دینا"
اندر سے آواز آئ: "کون سی ابا?"
بولے"سبحان الله' بیٹا دو سیریاں بھی کوئ دو ہو تی ہیں"
دوسیری آ گئ لیکن ہماری سمجھ میں یہ علامتی مکالمہ نہ آ سکا۔ یہ کہانی الگ سے ہے ک ہم نے ان کی
بیٹی تک کیسے رسائ حاصل کی تاہم بھید یہ کھلا کہ جنس کی حصولی کے لیے سبحان الله دوسیری ہے جو وزن میں زیادہ ہےجبکہ چیز دینے کی دوسیری الحمداللله ہے جو وزن میں کم ہے۔ گویا لینے کی دوسیری
اور دینے کی دوسیری' بہت پہلے سےالگ رہی ہے۔
امریکی رکن کانگرس کےمطابق بلوچستان کا مسلہ سنگین ہے۔ اس کے مطابق انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند ہونی چاءیں۔ مغرب والے بڑے دیالو اور کرپالو ہیں۔ انھیں تو مچھلیوں تک کے "انسانی حقوق" عزیز ہیں۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند ہونے والی بات غلط نہیں لیکن امریکہ دوسیریاں دو کیوں رکھ رہا ہے۔ اس کے اس چلن نے ہمارے لودھی صاحب پر گہرے اثرات مرتب کءے ءیں۔ امریکہ کی ایک عمارت گری اس نے پورے افغانستان کی عمارتیں گرا دیں۔ اس عمارت میں موجود چند لوگ مرے لیکن اس نے افغانستان میں ہزاروں لوگ موت کی نیند سلا دءے اور لاکھوں بےگھر کر دءیے۔

وہ ذرا ونگا ہوتا ہے تو ملکوں پر' جہاں غربا کی تعداد زیادہ ہوتی ہے پر پابندیاں لگا دیتا ہے لیکن نیٹو کی رسد بند کرنے کو انسانی حقوق کی عینک سے دیکھتا ہے۔ ابیٹ آباد جس عمارت میں اسامہ رہتا تھا' کو مسمار کر دیا گیا مبادہ کسی کونے کھدرے سے اسامہ نکل آءے گا حالانکہ اس عمارت کو مسمار کرنے کی کیا شرورت تھی۔ خود اسلحہ کے ڈھیر لگا رہا ہے ۔ لیکن کسی اور کا اسلحہ بنانا اس کے وارہ میں نہیں آتا امریکہ خود کے حوالہ سے دنیا کا باڑہ ہے۔ ایران کوریا یا دنیا کا کوئ ملک اسلحہ بناءے تو اس کے پیٹ میں مرو ڑاٹھنے لگتا ہے۔
سگریٹ پہ سیمینار ہو رہا تھا۔ اتفاق سے میں بھی وہاں کسی کام سے گیا ہوا تھا۔ انتظمیہ نے پکڑ کر مجھے بھی اسٹیج پر بیٹھا دیا۔ سگریٹ پر مقریرین نےدھؤاں دھار تقریریں کیں۔ سگریٹ کے خلاف وہ وہ بکواس کی کہ خدا کی پناہ۔ سچ پوچھءے میں گھبرا ہی گیا۔ مجھے لگا یہ میرے خلاف سا زش ہوئ ہے۔ ستم اس پر یہ کہ اظہار خیال کے لیے مجھے بھی طلب کر لیا گیا۔ منافقت کی بھی کوئ حد ہوتی ہے۔ ان سے میں ایسے بھی تھے جو سگریٹ پہ سگریٹ پیتے تھے۔اسٹیج پر آ کر سب حاجی ثناءالله بن گءے تھے۔ اب چونکہ بلا لیا گیا تھا اس لیے کچھ کہے بغیر بن نہیں سکتی تھی۔ جی میں آئ ان سب کی اصلیت کھول دوں مگر مروات آڑے آگئ۔ میں نے سگریٹ کے حق میں تقریر کی۔ ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ حیران تھا یہ انہونی کیسے ہو گئ۔ بعد میں معلوم ءوا حق میں کہتے کہتے خلاف کہہ گیا ہوں یا حق کو خلاف کے معنونوں میں لے لیا گیا۔
بلوچستان کے حوالے سے بات کرنے والے امریکہ کا باطن ایران کے بارے میں کھل گیا ہے۔ امریکہ اگر اتنا انسان دوست ہے تو سب سے پہلے اپنا اسلحہ تباہ کرے اور پھر اوروں کو گڑ نہ کھانے کی ترغیب دے۔ خود تو اس دوڑ میں سب سے آگے ہے لیکن اوروں کو اس سے منع کر رہا ہے بلکہ پابندیاں لگاتا ہے دھمکیاں جڑتا ہے۔
ہمارے لودھی صاحب نے امریکی طور اپنایا ہے تو میرے سمیت سب انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔ عملی طورپر امریکی فتاوی راءج ہے' زبانی اس کی نفی کھلی منافقت نہیں ہے? گڑ کھانے والے گڑ کی مذمت کرتے ہیں. خودمختاری کی بات کرکے مردوں کے گیٹ سے نکل رہے ہیں۔ پڑتال کرنے پر معلوم پڑتا ہے کہ امریکہ کے کہے پر اس گیٹ سے گزرے ہیں ادرلیاقت علی کے رستے کو حق کا رستہ سمجھتے ہیں اور اسے قوم کا عظیم لیڈر قرار دیتے ہیں۔ قوم اگر اپنے ان لیڈوں کے کہے کو سچ مانتی رہی ہے تو پٹرول گیس ڈیڑل بچلی وغیرہ کی قیمتوں میں اضفہ ہوتا چلا جاءے گا۔ پھر وہ وقت بھی آءے گا' چیزیں نہیں رہیں گی صرف اور صرف ان کی قیمتیں رہ جاءیں گی۔ جن کی ادرءگی کے بغیر بن نہ پاءے گی
[/td]
[/tr]


 
Top