Aaj Ka Intikhaab............!!

  • Work-from-home

Kavi

Super Star
Oct 30, 2015
13,189
3,477
1,313
Dubai
خود کو ہر بزمِ مسرت میں سَمو کر دیکھا
رُوح کا دُکھ نہ گیا، قَلب کی وِحشت نہ گئی
 

Kavi

Super Star
Oct 30, 2015
13,189
3,477
1,313
Dubai

دل پریشان تھا مگر جان تمھاری خاطر
چہرہ شاداب رکھا، بال بنائے رکھے


 

Kavi

Super Star
Oct 30, 2015
13,189
3,477
1,313
Dubai

تُو مِری گفتگو پہ مرتی تھی
میں تِری خامشِی سے ڈرتا تھا
 

alif_ain

Regular Member
Feb 4, 2023
135
122
93
چشمِ یار
حمدِ باری تعالیٰ

حدِ قیاس کے ہر انتخاب میں تو ہے
حدیٹِ ماضی و فردا کے باب میں تو ہے

سمات و ارض و سماوات میں ترا پرتو
کتابِ دہر کی کے ایک ایک باب میں تو ہے

رواں دواں تری رحمت ہر ایک ساعت میں
نوشتِ عصر کے عنوان و باب میں تو ہے

سحر سحر کے اجالوں میں، ظلمتِ شب میں
کرن کرن میں ترا عکس، تاب میں تو ہے

کمالِ حسنِ صناعت میں، نقشِ فطرت میں
جمالِ قوسِ قزح میں، شہاب میں تو ہے

دھنک دھنک میں ہے تیرے ہی وصف کی رنگت
شرار و برق کے ہر التہاب میں تو ہے

ہے ذرے ذرے میں اس کائنات میں رخشاں
ہزار رنگ میں، ہر آفتاب میں تو ہے

فروغِ نجم و مہ و کہکشاں میں رخشندہ
سوادِ لیل و شبِ ماہتاب میں تو ہے

کڑکتی دھوپ کی بے چھاؤں زندگی میں بھی تو
شتابِ سایۂ گشتِ سحاب میں تو ہے

نظامِ چرخ کے پیہم نصابِ گردش میں
حدوثِ دہر کے ہر پیچ و تاب میں تو ہے

تجھی سے سرمئی شاموں کا حسن ہے قائم
افق سے پھوٹنے والے شہاب میں تو ہے

نجوم و مہر و مہ و کہکشاں سبھی روشن
ابد ابد سے ہر اک آب و تاب میں تو ہے

حصارِ بحر میں، ہر انسجامِ دریا میں
تحیرات کے ہر استجاب میں تو ہے

جبال و دشت میں، درّوں میں، سنگ ریزوں میں
بخار و برق میں، رعد و سحاب میں تو ہے

ہواے سرد میں اور فصلِ برف باری میں
تپش کی لہر میں، موجِ سراب میں تو ہے

ہے لہر لہر میں، ہر موجہ و تلاطم میں
فسونِ شیشۂ آبِ حباب میں تو ہے

ہے برگ و بار میں، شبنم کے آبگینوں میں
صمیمِ سنبل و سرو و گلاب میں تو ہے

شمیمِ گل میں بھی، شبنم کے سرد قطروں میں
صبا کی نرم خرامی و طاب میں تو ہے

خود آشکار ہر اک نغمگیِ فطرت میں
نوا و ساز میں، چنگ و رباب میں تو ہے

خزاں بھی تیرا ہی مقصد، بہار بھی تیرا
خزاں بہار کے گرداں نصاب میں تو ہے

بسیطِ خیمۂ افلاک کا ستوں تو ہی
زمامِ بازوے زورِ طناب میں تو ہے

مجاز تو ہے زمانے کے ہر تبدّل کا
تغیرات کے ہر انقلاب میں تو ہے

اک ایک ذرے کو جوہر عطا کیا تو نے
شجر شجر میں ہے، برگِ خوش آب میں تو ہے

نم ونمود میں، روئیدگی کے موسم میں
خریف و فصل میں، بیخ و تراب میں تو ہے

بقا کی راہ میں تیری رضا مآل اندیش
رہِ فنا کے نصاب النصاب میں تو ہے

قلوبِ سنگ میں کِرموں کو رزق پہنچانا
دہش یہ تیری اور اس دستیاب میں تو ہے

تلاشِ رزق میں عالم کے گرد پروازیں
توانِ شانہ و بالِ عقاب میں تو ہے

گدا و شاہ پہ یکساں عطاے رزاقی
بشر کے ہر عملِ اکتساب میں تو ہے

تو ہی ہے عرصۂ بسط و کشاد پر قادر
مجال و دبدبۂ رعب داب میں تو ہے

ہر اک شبیہ و شباہت میں، نقش و صورت میں
ہر ایک چیرگیِ شکل یاب میں تو ہے

نظامِ عمرِ رواں تیری شانِ قدرت سے
نفَس نفَس نفَسِ فیض یاب میں تو ہے

خرامِ موج میں، چشموں میں، آبشاروں میں
فرات و نیل میں، گنگ و چناب میں تو ہے

مقال و نطق میں، حرفِ زبانِ گویا میں
حقیقتوں میں ترا عکس، خواب میں تو ہے

نوا و بانگ میں، صوت و اذانِ عالم میں
رفاقتوں میں، رقیب و رقاب میں تو ہے

ثنا و حمد میں یکساں وحوش ہوں کہ طیور
جرس کی گونج میں، لحنِ دواب میں تو ہے

مکانِ قدس بھی، دنیاے آب و گِل بھی تری
دلِ بشر میں، حضور و غیاب میں تو ہے

تمام کشف و کرامات میں ترے جلوے
سجودِ پیرِ فضیلت مآب میں تو ہے

ادب، ادیب و مصور میں اور شاعر میں
سوال و شرح کے ہر مستجاب میں تو ہے

چراغِ علم بھی تیرے ہی علم سے روشن
ضیاے لفظ، معانی، خطاب میں تو ہے

شعاعِ مہر میں،شاخِ شجر کے سائے میں
سمٹتی چھاؤں کے پیہم شتاب میں تو ہے

قیام و ترکِ وطن میں بھی تیرا ہی منشا
مسافروں کے رم و "پا تراب" میں تو ہے

تھکن تھکن میں مرادِ بعیدِ منزل میں
سفر سفر میں صراط و شعاب میں تو ہے

سفر کے کرب سے کیفِ بہارِ منزل تک
ہر ایک رہ گذرِ باریاب میں تو ہے

ہے ابر و ابرِ بہاراں میں، خشک سالی میں
تپان و تشنہ لبی میں "دم آب" میں تو ہے

جبالِ سرد میں، آتش فشاں پہاڑوں میں
رواں دواں دلِ سیال و ذاب میں تو ہے

کنار و کشتی و ساحل، بحور و دریا میں
ہر آبنائے میں آب و دواب میں تو ہے

ہر اک ارادہ ہے محتاجِ رہبری تیرا
گرفتِ رابطہ و انتساب میں تو ہے

شعورِ قطرۂ خونِ جگر ںھی تیرا شعور
دمِ سکوں میں، دمِ اضطراب میں تو ہے

شبیہ کوئی نمایاں نہ پیکر و خاکہ
خبر ہے تجھ کو جو اپنے حساب میں تو ہے

اسی کی زد میں فروزاں ہیں زندگی کے چراغ
ہواے دہر کے حسب الحساب میں تو ہے

ہر اک سوال ہے حرفِ سوال کی صورت
مگر ہر ایک جواب الجواب میں تو ہے

تو خسروی میں، زمامِ سکندری میں بھی تو
گداگروں کے دلِ آب آب میں تو ہے

جھلک ہے تیری ہر اک چہرگیِ ندرت میں
نوشت و مصحفِ نایاب و ناب میں تو ہے

ہر اختراع میں، خوش کاریِ تجدّد میں
ہر انتباہ کے لبِ لباب میں تو ہے

ملی تمیز بشر کو بدی و نیکی کی
حقیقت آشنا ہر احتساب میں تو ہے

نگاہِ قلب کو عرفاں عطا کیا تو نے
خصال و جذبۂ کارِ صواب میں تو ہے

ہے تو ہی عادلِ بے مثل، داورِ محشر
نزولِ حکمِ عذاب و ثواب میں تو ہے

ملال و غم میں، مسرت میں، مسکراہٹ میں
ہر اک خوشی میں ہے، چشمِ پر آب میں تو ہے

جلو میں تیری سبھی کائناتِ نا معلوم
سوار تو سنِ گردوں، رکاب میں تو ہے

ہوئے خراب جو منکر ہوئے ہدایت سے
کہ ہر مجاہدۂ نا خراب میں تو ہے

تری عطا سے ہے منسوب صبرِ ایوبی
نزولِ حکمتِ شیب و شباب میں تو ہے

کتابِ وصف، وہ تورات اور وہ موسیٰ
شروح و شگرفِ ابواب و باب میں تو ہے

وہ معجزہ یدِ بیضا کا اور وہ اژدر
کلامِ طور، تجلی و تاب میں تو ہے

زبور اور وہ داوٗد و لحنِ داوٗدی
صفاتِ لحن میں اور اس کتاب میں تو ہے

وہ سیلِ آبِ قیامت، وہ نوح کی کشتی
امامِ کشتی و رب الغراب میں تو ہے

وہ اک عطا تری انجیل اور وہ عیسیٰ
کلام و مژدہ و طرزِ خطاب میں تو ہے

مسیح اور وہ کراماتِ قم باذن اللّٰه
خدا صفت عمل و ارتکاب میں تو ہے

زوالِ سطوتِ فرعون، نسلِ عاد و ثمود
مآلِ ہود میں، افراسیاب میں تو ہے

تمام حور و ملائک، زمیں، فلک تابع
فضاے دہر، بہارِ غیاب میں تو ہے

وہ علم و طاقتِ طالوت، الیسع، شمویل
ہر اک کی عظمتِ رفعت مآب میں تو ہے

رموزِ عہدِ سلیمان و یونس و الیاس
صفاتِ وعدۂ بے اجتناب میں تو ہے

نبی ترے زکریا چھدے جو تیروں سے
اس آزمایشِ رمزِ غیاب میں تو ہے

نبی تھے تیرے ہی یحییٰ چرے جو آرے سے
رموزِ حکمِ غم و اضطراب میں تو ہے

پناہِ نوح و براہیم اور یوسف میں
ہر اک ولایتِ تیرہ میں، شاب میں تو ہے

کبھی تجلی و غش، رو بہ رو کبھی معراج
پیمبروں کے سوال و جواب میں تو ہے

بنایا تو نے محمد کو صاحبِ قرآں
بہ وصفِ کل اسی ام الکتاب میں تو ہے

اسی سے قلبِ بشر سر بسر منور ہے
ضیاے شمعِ رسالتِ مآب میں تو ہے

ہے وحیِ غیب میں، الہام میں، بشارت میں
ہر استجاب میں، ہر مستجاب میں تو ہے

ہر ایک قوم میں بھیجے ہیں تو نے پیغمبر
صفاتِ عدل و عتاب و مثاب میں تو ہے

بنا کے خاک سے آدم کو سروری بخشی
بشر کی حرمتِ شوکت مآب میں تو ہے

رءوف تو ہی عفو الرحیم بھی تو ہی
صفاتِ اسمِ فضیلت مآب میں تو ہے

وہ شیث و آدم و حوا، وہ نوح و ابراہیم
تمام عزت و نام و خطاب میں تو ہے

کریم و ناصر و توّاب، خالق و مالک
صفات و وصف کے اسماے باب میں تو ہے

ہے تو ہی ہادی و غفار، المعز و لطیف
ہر ایک ہم سفر و ہم رکاب میں تو ہے

صمد بھی تو ہی، غفور الودود بھی تو ہی
مجال و قوتِ ضرب و ضراب میں تو ہے

عظیم تو کہ ہے العدل، البصیر و کبیر
شہب میں تو ہے، شِہاب و شَہاب میں تو ہے

احد میں، بدر میں، خندق میں اور خیبر میں
ہر ایک رزم گہِ فتح یاب میں تو ہے

ہے لازوال بھی لاریب، تو ہی لافانی
منارِ عرش پہ، روزِ حساب میں تو ہے

جمالِ پیکرِ محسوس میں ترے جلوے
نگاہِ ذہن کے بیدار خواب میں تو ہے

ترا ظہور توانائیِ زمانہ میں
عیاں عیاں ہے مگر احتجاب میں تو ہے

ازل سے قبل بھی، بعدِ ابد بھی ہے تو ہی
یہ راز کھل نہ سکا کیوں حجاب میں تو ہے

ہے تیرے لحن سے مربوط نغمگی دل کی
کہ جیسے قلب کے تارِ رباب میں تو ہے

بشر بشر میں رگِ جاں سے بھی قریب قریب
دلوں کے شیشۂ آئینہ تاب میں تو ہے

خداے مطلق و واحد، خداے لافانی
زمین و عرش کے ہر بام و باب میں تو ہے

شمار کیا کرمِ بے حساب ہوں تیرے
کہ وصفِ کلمۂ رب الرباب میں تو ہے

ہر اک شکست میں مرضی کو دخل ہے تیری
ہر ایک معرکۂ کامیاب میں تو ہے

متاعِ حکمت و عقل و خرد عطا ہے تری
وقوفِ ذہن کے ہر انجذاب میں تو ہے

فسونِ ظاہر و باطن، طلسمِ غیب میں بھی
پسِ حجاب حجاب الحجاب میں تو ہے

نہیں ہے تیرے لیے کوئی اول و آخر
حسابِ عمر کے اس بے حساب میں تو ہے

ورق ورق ہے ترے نام، روزِ فردا بھی
بہ حرفِ عہدِ گذشتہ کتاب میں تو ہے

نہیں ہے چشم کو یارا تری تجلی کا
جمالِ نور، کمالِ حجاب میں تو ہے

فضا فضا میں ترا نور، عکس فطرت میں
ہمیشگی کے اگرچہ نقاب میں تو ہے

زوال تجھ کو نہیں ربِ قائم و دائم
مگر حلاوتِ ہر نقشِ آب میں تو ہے

مرے الٰہ خطاؤں کو بخش دے میری
عطا گہِ کرمِ بے حساب میں تو ہے

عطش کو خوفِ اجل ہے نہ دہشتِ پیری

حباب آسا ہے لیکن حباب میں تو ہے

خواجہ ریاض الدین عطش
 

Kavi

Super Star
Oct 30, 2015
13,189
3,477
1,313
Dubai

وحشت آمادہ رسوائی ہے بے خوف جہاں
ضبط کا ہے یہ تقاضہ کہ تماشہ نہ بنے
 

Kavi

Super Star
Oct 30, 2015
13,189
3,477
1,313
Dubai

اِتنی شِدّت سے اُسے پُکارا کہ وہ شخص
خواب کی حد سے نکل کر مجھے ملنے آیا
 

Kavi

Super Star
Oct 30, 2015
13,189
3,477
1,313
Dubai
کسی صدقے نے ٹالی ہے وگرنہ
مجھے پھر سے محبت ہو رہی تھی
 

alif_ain

Regular Member
Feb 4, 2023
135
122
93
چشمِ یار
دی شیخ با چراغ همی‌گشت گردِ شهر
کز دیو و دد ملولم و انسانم آرزوست
زین همرهانِ سست‌عناصر دلم گرفت
شیرِ خدا و رستمِ دستانم آرزوست
جانم ملول گشت ز فرعون و ظلمِ او
آن نورِ روی موسیِ عمرانم آرزوست
زین خلقِ پرشکایتِ گریان شدم ملول
آن های هوی و نعرهٔ مستانم آرزوست
گفتند یافت می‌نشود، جسته‌ایم ما
گفت آن که یافت می‌نشود، آنم آرزوست


کل ایک شیخ چراغ لے کر پورے شہر میں گشت کر رہا تھا (اور کہتا تھا) کہ میں شیطانوں اور درندوں سے ملول ہوں اور کسی انسان کی آرزو میں ہوں۔ ان سست الوجود ساتھیوں سے میں دل گرفتہ ہو چکا، مجھے شیرِ خدا مولا علی علیہ السلام اور رستمِ دستاں (جیسے بہادر لوگوں) کی آرزو ہے۔ فرعون اور اس کے ظلم سے میری جان غمزدہ ہے، مجھے موسی عمران علیہ السلام کے چہرے کے اُس نور کی آرزو ہے۔ ان پُر شکایت اور گریاں لوگوں سے میں ملول ہو گیا، مجھے اُس ہاے ہو اور نعرۂ مستانہ کی آرزو ہے۔ لوگوں نے کہا کہ ایسا ہمیں کوئی نہیں مل پا رہا، ہم نے جستجو کی ہے، تو شیخ بولا کہ وہ جو نہیں ملتا اسی کی مجھے آرزو ہے۔

مولانا جلال الدین بلخی رومی
 

Kavi

Super Star
Oct 30, 2015
13,189
3,477
1,313
Dubai

جس تسلسل سے جل رہا ہے دل
عین ممکن ہے راکھ ہو جائے
 

Fantasy

~ The Rebel
Hot Shot
Sep 13, 2011
48,910
11,270
1,313
ہربات کو بے وجہ اداسی پہ نہ ڈالو
ہم پھول کسی وجہ سے کملائے ہوئے ہیں
 

Fantasy

~ The Rebel
Hot Shot
Sep 13, 2011
48,910
11,270
1,313
بوجھ بے معنی سوالوں کے اُٹھا رکھے ہیں
ہم نے سو فکر دل و جاں کو لگا رکھے ہیں
 

Fantasy

~ The Rebel
Hot Shot
Sep 13, 2011
48,910
11,270
1,313
عجیب شہرِ پراَسرار میں قیام رہا
اڑائے پھرتے رہے وحشتوں کے سائے ہمیں
 

Fantasy

~ The Rebel
Hot Shot
Sep 13, 2011
48,910
11,270
1,313
بہت دلوں کو بہت سے نظارے راس رہے
ہمارا اصل اُداسی تھی ہم اداس رہے
 

Kavi

Super Star
Oct 30, 2015
13,189
3,477
1,313
Dubai

اے میرے لمحۂ ناراض کہیں مل تو سہی
اِس زمانے سے الگ ہو کے گزاروں تجھ کو
 

Kavi

Super Star
Oct 30, 2015
13,189
3,477
1,313
Dubai

ہم ہیں وہ دستِ سیاہ پوش کہ جن کو
شوخ رنگوں کی تمنا میں فقط راکھ ملی
 

Kavi

Super Star
Oct 30, 2015
13,189
3,477
1,313
Dubai

کون آنکھوں میں چُھپے کرب کو پڑھتا ہو گا
لوگ اتنے بھی سمجھدار کہاں ہوتے ہیں
 

Kavi

Super Star
Oct 30, 2015
13,189
3,477
1,313
Dubai
دل کے زخموں پہ نا جاؤ کہ بڑی مدت سے
یہ دیئے یوں ہی سر شام جلا کرتے ہیں
 

Kavi

Super Star
Oct 30, 2015
13,189
3,477
1,313
Dubai

تیرے بدلے ہوئے لہجے سے کہیں بہتر ہے
ہم جدائی کی اذیت ہی گوارا کر لیں


 

Kavi

Super Star
Oct 30, 2015
13,189
3,477
1,313
Dubai

اتنی کاوش بھی نہ کر تو میری اسیری کےلئے
تو کہیں میرا گرفتار نہ سمجھا جائے
 

Kavi

Super Star
Oct 30, 2015
13,189
3,477
1,313
Dubai

روز یہ سوچ کے سوتا ھوں کہ اِس رات کے بعد
اب اگر آنکھ کُھلے گِی تو سویرا ہوگا
 
Top