Khazany Ki Talash

  • Work-from-home

Aks_

~ ʍɑno BɨLii ~
Hot Shot
Aug 2, 2012
44,916
17,651
1,113
خزانے کی تلاش
معراج
علامہ دانش نے قہوے کی چسکی لے کر سوال کیا، "آپ میں سے کوئی صاحب خزانے کی تلاش میں دلچسپی رکھتا ہے؟"
کپتان مرشد نے کہا، "میں ایسی مہموں میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔"
علامہ دانش نے کہا، "میں پوچھ سکتا ہوں کہ کس
لئے؟"
مرشد نے کہا، "وہ اس لئے کہ اول تو خزانے کی تلاش بہت جان جوکھوں کا کام ہے۔ عموما خزانہ ایسی جگہ دفن ہوتا ہے جہاں کسی کی رسائی نہ ہو۔ اگر کوئی خزانے تک پہنچ بھی جائے تو واپسی ناممکن ہوتی ہے۔ کچھ نہ کچھ ایسی بات ہوجاتی ہے کہ تمام کوشش اور محنت و مشقت پر پانی پھر جاتا ہے۔"
میں نے کہا، "علامہ صاحب، آپ سائنس کے تجربات اور نت نئی چیزوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ آپ کو خزانے کا خیال کیسے آگیا؟"
علامہ ہنس کر بولے، "میں بھی ایسے خزانے کا ذکر کر رہا ہوں جو بہت ہی قیمتی اور نایاب ہے۔ میرا مطلب ہے کہ پرانے قلمی نسخے، مٹی اور کانسی کے برتن، ہاتھی دانت سے بنے ہوئے بت، یہ سب چیزیں سینکڑوں سال پرانی ہیں۔ آپ ان چیزوں کی قیمت سونے چاندی سے نہیں لگا سکتے۔ کیونکہ سونا چاندی زمین سے نکلتا ہے لیکن اگر یہ چیزیں ضائع ہوجائیں تو پھر دوبارہ نہیں بن سکتیں۔"
مرشد نے پوچھا، "یہ تاریخی خزانہ کہاں موجود ہے؟"
علامہ نے کہا، "جنوبی برما میں ہے۔ آج کل وہاں باغی فوج کا قبضہ ہے۔"
مرشد قہقہہ لگا کر بولا، "میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ لوگوں کو خزانہ گاڑنے کے لئے ایسی ہی جگہ موزوں نظر آتی ہے جہاں کوئی نہ پہنچ سکے۔"
علامہ گھڑی دیکھ کر بولے، "ابھی ذرا دیر میں ہمارے ایک دوست آنے والے ہیں۔"
عین اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی اور آزونا ایک شخص کو ساتھ لے کر اندر آیا۔ آنے والا ایک برمی شخص تھا۔ یہ مغربی طرز کا لباس یعنی کوٹ پتلون پہنے ہوئے تھا۔
علامہ دانش نے تعارف کرواتے ہوئے کہا، "آپ ہیں مسٹر وان لنگ، اس تاریخی خزانے کے مالک۔"
سب لوگ مسٹر وان لنگ کی طرف متوجہ ہو گئے۔ اس نے باری باری سب سے ہاتھ ملایا۔ پھر وہ میرے قریب ہی کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔ علامہ دانش بولے، "اب مسٹر وان لنگ سے خزانے کے متعلق تفصیل سنئے۔"
وان لنگ نے سگریٹ سلگایا اور کہا، "میں شولنگ خاندان کا فرد ہوں۔ میرا خاندان اپنے علم و فضل کی وجہ سے مشہور تھا۔ میں شہر پارومی میں رہتا ہوں۔ عرصہ گزرا ہم لوگ بے حد امیر تھے لیکن رفتہ رفتہ ہماری سب جائداد بکتی چلی گئی۔ آخر ہمارے پاس صرف ایک مندر کچھ زمین اور وہ قدیم خزانہ رہ گیا۔ یہ خزانہ یعنی کتابیں، تصویریں، مجسمے، برتن اور اسی طرح کی پرانی چیزیں کئی سو سال پرانی ہیں۔ یہ چیزیں ہمارے ملک کی پرانی تہذیب اور کاریگری کا نمونہ ہیں۔ جب ہمارے علاقے پر باغیوں نے حملہ کردیا تو میرے والد نے ہر چیز کو ریشمی کپڑے میں لپیٹ کر ایک صندوق میں بند کردیا۔ ہم دونوں نے مل کر باغیچے میں ایک گڑھا کھودا اور صندوق دفن کردیا۔ ہمارے علاقے پر باغیوں نے قبضہ کرلیا اور ہمیں وہاں سے فرار ہونا پڑا۔ ان لوگوں نے ہمارے مکان کو ڈھا دیا۔ اس واقعے کے کچھ عرصے بعد میرے والد صاحب کا انتقال ہوگیا۔ مجھے یقین ہے کہ خزانہ ابھی تک اسی جگہ دفن ہے۔ میری خواہش ہے کہ میں اس خزانے کو وہاں سے نکال کر کسی عجائب گھر کو تحفے میں دے دوں تاکہ دنیا بھر کے لوگ اسے دیکھیں اور میرے ملک کی تہذیب و تمدن کو دیکھ سکیں۔"
مرشد نے کہا، "آج کل وہاں جانا بےحد مشکل بلکہ ناممکن ہے۔"
وان لنگ نے کہا، "جی بے شک، لیکن ہوائی پرواز کے ذریعے سے خزانہ حاصل کرلینے کی کچھ امید ہے۔"
مرشد بولا، "میں آپ کا مطلب سمجھ گیا۔ کیا آپ کے گھر کے آس پاس کوئی جگہ ایسی ہے جہاں طیارہ اتارا جاسکے؟"
وان لنگ بولا، "جی ہاں، میرے گھر کے پاس دور دور تک زمین ہموار ہے۔ بہت دن گزرے وہاں کے درخت کاٹ دئیے گئے تھے۔"
میں نے پوچھا، "وہاں کے لوگ آپ سے دوستانہ طریقے سے پیش آئیں گے یا دشمنوں کی طرح؟"
وان لنگ نے کہا، "وہاں کے پرانے لوگ تو ہمارے دوست اور خیر خواہ تھے۔ جو لوگ اب نئے نئے آئے ہیں ان کے متعلق میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ احتیاطا فرض کر لیجئے کہ وہاں کا ہر شخص ہمارا دشمن ہے۔"
علامہ بولے، "اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں مقابلے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔"
کپتان مرشد نے کہا، "ہمیں اصل خطرہ زمین پر اترنے کے بعد ہے۔ ہم اوپر سے جائزہ لیں گے، اگر علاقہ ویران اور غیر آباد نظر آیا تو ہم نیچے اتر کر خزانہ تلاش کریں گے۔ اگر وہاں لوگ نظر آئے تو واپس لوٹ آئیں گے۔"
علامہ نے ایک نقشہ میز پر پھیلا دیا اور بولے، "کیا آپ اپنے علاقے کی نشان دہی کرسکتے ہیں؟"
وان لنگ نے فورا ایک جگہ انگلی رکھ دی اور بولا۔"یہ برما روڈ ہے۔ یہ دریائے اراوتی اور یہ رہا ہمارا گاؤں پرومی۔"
اگلے جمعہ کی بات ہے۔ ہم برما روڈ کے ساتھ اڑے چلے جارہے تھے۔ ہم سات گھنٹے کے لمبے سفر کے بعد اپنی منزل کے نزدیک پہنچ گئے۔ اس وقت سورج طلوع ہورہا تھا۔ اس کی سنہری کرنوں سے ہر چیز جگمگا رہی تھی۔ وان لنگ اپنے کیبن (کمرے) سے باہر نکلا۔ وہ اب برمی لباس پہنے ہوئے تھا۔ ہم اسے دیکھ کر حیران ہوئے۔ وہ بولا، "میں نے برمی لباس اس لئے پہنا ہے کہ میں وہاں کے لوگوں کو بتا سکوں کہ میں بھی ان کا بھائی بندہ ہوں۔"
جہاز کی بلندی آہستہ آہستہ کم ہونے لگی۔ ہم زمین کو اچھی طرح دیکھ سکتے تھے۔ زیادہ تر زمین ہموار تھی۔ کہیں کہیں مکانات نظر آرہے تھے۔ جہاز نے ایک چکر کاٹا اور ایک وسیع میدان میں اتر گیا۔ علاقے کی ویرانی عجیب افسوس ناک منظر پیش کررہی تھی۔ وان لنگ علاقے کو غور سے دیکھتا رہا پھر بولا، "بالکل صحیح، اب میں سمجھ گیا ہوں کہ ہم کہاں اترے ہیں۔ دریا نے شاید اپنا راستہ تبدیل کرلیا ہے۔ وہ اپنے ساتھ ہمارے باغ کے درختوں کو بھی بہا کر لے گیا ہے۔"
وہ پتھروں کے ایک ڈھیر کی طرف اشارہ کرکے بولا، "وہ رہا میرا مکان۔"
غم کی شدت سے اس کی آواز بھرا گئی۔ وہ بولا، "آہ ظالموں نے سب کچھ تباہ کردیا۔ نہ گھر کا نشان چھوڑا، نہ مندر کا۔"
پھر وہ ہماری طرف مڑکر بولا، "وقت ضائع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ آپ لوگ کدالیں اور بیلچے ساتھ لے آئیے۔"
مرشد بولا، "دوستو! میں طیارے کو نہیں چھوڑ سکتا۔ اللہ جانے کب کیا حادثہ پیش آجائے۔"
ہم خزانے کی تلاش میں چلے۔ ہمارے پاس بندوقیں تھیں، آزونا نے بیلچہ اور کدال اٹھا رکھی تھی۔ آگے آگے وان لنگ چل رہا تھا۔ ایک جگہ پہنچ کر وہ ٹھہر گیا۔ اس نے اشارے سے بتایا، "یہی وہ جگہ ہے۔"
ہم سب زور شور سے کھدائی کرنے لگے۔ اچانک ہمیں گھوڑے کے ٹاپوں کی آواز سنائی دی۔ کچھ دیر بعد ہمارے سامنے ایک برمی نمودار ہوا۔ اس نے پہلے تو ہمیں غور سے دیکھا۔ پھر شاید اسے کچھ شبہ ہوا۔ اس نے ہوا میں فائر کیا اور تیز لہجے میں کچھ چلاتا ہوا ایک طرف کو بھاگ نکلا۔
میں نے پوچھا، "وہ کیا کہتا تھا؟"
وان لنگ بولا، "اس کا مطلب تھا کہ مقابلے کے لئے تیار رہو۔"
شاید مرشد نے بھی خطرے کی بو سونگھ لی تھی۔ اس نے جہاز اسٹارٹ کردیا تھا۔ سب لوگ تیزی سے کھدائی کررہے تھے۔ آخر کچھ دیر کے بعد ایک صندوقچہ برآمد ہوا۔
وان لنگ خوشی سے چینخا، "یہی ہے، یہی ہے۔"
ہم نے صندوقچے کے چاروں طرف سے مٹی ہٹائی اور اسے باہر نکالا۔ ہم نے اطمینان کا سانس لیا۔ اچانک شور سنائی دیا اور بہت سے برمی ایک ٹیلے کے پیچھے سے نمودار ہوئے۔ ان میں سے کسی نے فائر بھی جھونک دیا۔ گولی ایک پتھر سے ٹکرائی۔
دشمنوں نے تین طرف سے ہم پر حملہ کیا۔ ہم جلدی سے زمین پر لیٹ گئے اور گولیاں سنسناتی ہوئی ہمارے سروں سے گزرنے لگیں۔ ایسے وقت میں اللہ بہت یاد آتا ہے۔ ہم سب دعائیں مانگنے میں مصروف تھے۔ ہمارا دوست وان لنگ بھی کوئی منتر پڑھ رہا تھا۔ عین اس وقت جب ہم سمجھ رہے تھے کہ دشمن غالب آجائے گا، جہاز سے دشمن پر گولیوں کی بوچھاڑ ہونے لگی۔ مرشد مشین گن گھما گھما کر چاروں طرف فائر کر رہا تھا۔ دشمن تتر بتر ہوگئے اور آہستہ آہستہ ان کا زور ٹوٹنے لگا۔
اب ایک اور مصیبت نازل ہوئی۔ شمال مشرق کی طرف سے ایک کالی گھٹا اٹھی اور تیزی سے آسمان پر چھانے لگی۔ ہم بہت خوف ذدہ ہوئے، کیونکہ اندھیرا ہونے سے آس پاس کا علاقہ نظر نہیں آسکے گا اور دشمن کو موقع مل جائے گا کہ وہ ہم پر بھرپور حملہ کرکے جہاز پر قبضہ کر لے۔
ادھر سب لوگ ایک طرف اکٹھے ہوگئے۔ ہر کوئی آسمان کو دیکھ دیکھ کر زور زور سے چلا رہا تھا۔
علامہ دانش بولے، "میرا خیال ہے کہ یہ گھٹا انہیں بھاری نقصان پہنچاتی ہوگی۔"
ہم نے مل کر صندوق کو اٹھایا اور جہاز کی طرف بھاگے۔ مرشد نے ہمیں دیکھ کر فائرنگ بند کردی تھی۔ صندوق بہت بھاری تھا۔ جوں ہی ہم نے صندوق جہاز پر لادا ہر طرف اندھیرا چھا گیا۔ ہم بھی بڑی مشکل سے جہاز میں سوار ہو پائے۔ مرشد نے جہاز کا دروازہ بند کردیا۔ اس کے ساتھ ہی طوفان آگیا۔ ہر طرف گھٹا ٹوپ اندھیرا چھا گیا اور جہاز پر گولیوں کی بوچھاڑ سی ہونے لگی۔ ہمارے تو دل دہل گئے۔ ایسی خطرناک صورتحال سے پہلے کبھی واسطہ نہ پڑا تھا۔
مرشد نے بہت غور سے دیکھا، تب اس کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ یہ گولیوں کی بوچھاڑ نہیں تھی اور نہ ہی یہ اولے گررہے تھے، یہ تو ٹڈی دل کی یلغار تھی۔ سامنے کے شیشے پر ٹڈیوں کے گچھے کے گچھے جمع ہوگئے اور باہر کا منظر نظر آنا بند ہوگیا۔ مرشد کا رنگ ذرد پڑ گیا۔ اس نے زور سے کہا، "دوستو آپ سب میری کامیابی کے لئے دعا فرمائیں۔ میں اندھا دھند پرواز کرنے والا ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ ٹڈیوں کے دل میں پھنس کر جہاز کے پنکھے حرکت نہ کرسکیں اور یہ بھی ممکن ہے ہم اس مصیبت سے نکل جائیں۔"
اچانک کپتان مرشد نے ایک پہیا گھمایا۔ جہاز کے پنکھے تیزی سے حرکت کرنے لگے۔ اتنا زبردست شور ہوا کہ ہمارے کانوں کے پردے پھٹنے لگے۔ آہستہ آہستہ جہاز اوپر اٹھنے لگا۔ اس کے ساتھ ہی شور بھی بڑھتا چلا گیا۔ ہم نے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونسی ہوئی تھیں۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے ابھی ذرا دیر میں ہر چیز تہس نہس ہو کر رہ جائے گی۔ اچانک شور ختم ہوگیا۔ جہاز کے اندر تیز روشنی پھیل گئی۔ ہم ٹڈی کے دل سے اوپر نکل چکے تھے۔
ہمارے نیچے دور دور تک زمین بالکل سیاہ نظر آرہی تھی۔ مرشد نے مسکرا کر کہا، "میں نے سنا ہے کہ ٹڈیاں ہر چیز کا صفایا کردیتی ہیں۔" پھر ہنس کر بولا، "ذرا ان نالائقوں کا تصور کیجئے جنہیں ٹڈیاں چٹ کرچکی ہوں گی۔"
علامہ ناراض ہوکر بولے، "تم اپنی خیر مناؤ کہ سلامتی سے باہر نکل آئے۔ تم نے سنا نہیں کہ دشمن کے مرنے پر خوشی نہ کرو، کیونکہ کسی دن تمہارا دوست بھر مرجائے گا۔ لیکن ٹھہرو میں تمہیں ترکی کا شعر سناتا ہوں۔"
اس کے بعد علامہ شعر سنا سنا کر مرشد کو بور کرتے رہے۔ میں چادر اوڑھ کر سو گیا۔ یہاں تک کہ ہم استنبول پہنچ گئے۔
علامہ نے وان لنگ سے کہا، "دیکھو برخوردار تمہارا خزانہ یہاں رکھا جائے گا۔ جب تمہارے ملک میں امن برقرار ہوجائے اس وقت تم اس امانت کو اپنے وطن لے جانا۔"
وہ تاریخی چیزیں کچھ عرصے پہلے تک "توپ کاپی" عجائب گھر میں محفوظ تھیں۔
٭٭٭
ماہنامہ ہمدرد نونہال، مارچ ١٩٨٨ ء سے لیا گیا۔
 
Top