Namaz Mukammal Namaz Ahadees Ki Roshni Me

  • Work-from-home

saviou

Moderator
Aug 23, 2009
41,203
24,155
1,313
مکمل نماز احادیث کی روشنی میں




قبلے کی طرف منہ کرنے کی فرضیت:

قبلہ رخ ہونا نماز کی شرط ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم فرض اور نفل دونوں قسم کی نمازوں میں اپنا رخ کعبے کی جانب فرمایا کرتے تھے۔ ٹھیک طرح سے نماز ادا نہ کرنے والے ایک صحابی کو نماز کا طریقہ سکھاتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اس کا حکم بھی ارشاد فرمایا:


إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلَاةِ فَأَسْبِغْ الْوُضُوءَ ثُمَّ اسْتَقْبِلْ الْقِبْلَةَ فَكَبِّر 1
“جب تو نماز کے لیے کھڑا ہو تو( اچھے انداز سے) مکمل وضو کر، پھر قبلے کی طرف منہ کر اور تکبیر (تحریمہ) کہہ”


سواری پر نفل نماز میں استقبال قبلہ ضروری نہیں:

البتہ سفر میں قبلہ رخ ہوئے بغیر بھی سواری پر بیٹھے بیٹھے نفل یا وتر کی نماز ادا کرلینا جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم دورانِ سفرسواری پر بیٹھ کرنفل اور وتر پڑھ لیا کرتے تھے خواہ اس کا رخ مشرق و مغرب یا کسی بھی طرف ہوتا۔2
قرآن کی یہ آیت اسی بارے میں اتری ہے۔3
فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ (سورۃ البقرۃ آیت 115)
“تو تم جدھر بھی رخ کرو، ادھر اللہ کا چہرہ ہے”۔
لیکن اگر سواری کو قبلہ رخ کرنا ممکن ہو تو نماز شروع کرنے سے پہلے کعبے کی طرف منہ کر لینا افضل ہے۔( اس لیے کہ) کبھی کبھار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نماز کے آٖغاز میں “اللہ اکبر” کہتے وقت اونٹنی سمیت قبلہ رخ ہو جاتے، اس کے بعداپنی نماز جاری رکھتے خواہ سواری کا رخ کسی بھی طرف پھر جاتا4 پھر سر کے اشارے سے رکوع و سجود ادا فرماتے اور سجدے کے لیے سر کو رکوع کی نسبت زیادہ جھکا لیتے تھے5۔ جمہور علماء کے نزدیک ہر قسم کے سفر میں سواری پر نفلی نماز پڑھنا جائز ہے خواہ وہ سفر اتنا تھوڑا ہی ہو کہ اس میں فرض نماز قصر نہ کی جا سکے۔


فرض نماز سواری پر جائز نہیں:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم فرض نماز سواری سے نیچے اتر کر اور قبلہ رخ ہو کر ادا فرماتے تھے اس لیے فرض نماز سواری پر بیٹھ کر پڑھنا جائز نہیں الا یہ کہ کوئی شرعی عذر ہو، مثلا ٹرین یا ہوائی جہاز میں سفر کے دوران اترنا ممکن نہ ہو اور نماز کا وقت نکل جانے کا ڈر ہو تو وہیں نماز ادا کر لینی چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔


شدیدخوف کی حالت میں نماز کیسے ادا کی جائے:

دشمن کی کثرت یا شدید خوف وغیرہ کی وجہ سے جماعت کے ساتھ نماز نہ پڑھی جا سکے تو جیسے بھی ممکن ہو نماز ادا کر لینی چاہیے، ایسے حالات میں سواری سے اترنے اور قبلہ رخ ہونے وغیرہ کی کچھ پابندی نہیں، فرض نماز خواہ سواریوں پر بیٹھے ادا کی جائے یا پیدل چلتے ہوئےپڑھی جائے اور رخ قبلہ کی جانب رہے یا نہ رہے بہرحال نماز ادا ہو جائے گی۔بلکہ سخت لڑائی میں تو سر کے اشارے سے بھی نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے6فرمایا:
إذا اختلطوا فانما هو التكبير والاشارة بالرأس7
جب (فوجیں) گتھم گتھا ہو جائیں تو پھر بس تکبیر اور سرسے اشارہ (ہی نماز ادا کرنے کے لیے کافی) ہے”


قبلہ کی حدود

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اہل مدینہ کے لیے مشرق اور مغرب کے درمیان تمام سمت کو قبلہ قرار دیتے ہوئے فرمایا:
مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَةٌ 8
“مشرق اور مغرب کے درمیان تمام سمت قبلہ ہے”
اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص خانہ کعبہ کو دیکھ رہا ہو اسے اپنا رخ ٹھیک ٹھیک اس کی جانب ہی کرنا چاہیے لیکن دور کے رہنے والوں کے لیے فقط درست سمت کا التزام ہی کافی ہے۔


قبلہ کی سمت معلوم کرنے میں غلطی ہونا

جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی رفاقت میں تھے۔آسمان پر بادل چھا گیا تو قبلہ کے بارے میں ہمارا اختلاف ہو گیا۔ ہم نے درست سمت معلوم کرنے کی پوری کوشش کے بعدالگ الگ سمت میں نماز ادا کر لی اور اپنی اپنی سمت کو نشان زدہ کر دیا تا کہ صبح ہمیں معلوم ہو کہ کیا ہم نے قبلہ رخ نماز پڑھی ہے یا نہیں۔ صبح ہونے پر معلوم ہوا کہ ہم نے قبلہ کی سمت نماز ادا نہیں کی۔ ہم نے تمام واقعہ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔انہوں نے ہمیں نمازلوٹانے کا حُکم نہیں دیا اور فرمایا:
قد أجزأت صلاتكم
“ تمہاری نماز ہو گئی”9


قبلے کی مختصر تاریخ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شروع میں بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز ادا فرمایا کرتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ یہ آیت نازل فرمائی:
قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَام(سورۃ البقرۃ آیت 144)
“(اے محمد) ہم آپ کا آسمان کی طرف منہ پھیر پھیر کر دیکھنا دیکھ رہے ہیں۔ سو ہم آپ کو اسی قبلہ کی طرف جس کو آپ پسند کرتے ہیں منہ کرنے کا حکم دیں گے۔ تو اپنا منہ مسجد حرام (بیت اللہ) کی طرف پھیر لو”
اس آیت کے نزول کے بعد اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نماز میں اپنا چہرہ مبارک خانہ کعبہ کی جانب کیا کرتے تھے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو کچھ لوگ قباء کے مقام میں صبح کی نماز ادا کر رہے تھے۔ اچانک ان کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی جانب سے ایک پیغام لانے والا آیا جس نے اعلان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پر آج رات قرآن پاک کی آیت نازل ہوئی ہے جس میں کعبے کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ خبردار، تم بھی اپنا رخ اسی طرف کر لو۔ چنانچہ پہلے ان کا رخ شام کی جانب تھا، اس کے کہنے پر تمام نمازی گھوم کر قبلہ رخ ہو گئے اور امام بھی گھوم کر سامنے کی طرف آ گیا اور کعبے کی طرف رخ کر لیا۔10
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غلط سمت میں نماز پڑھتے ہوئے شخص کو نماز کے دوران ہی صحیح سمت کی خبر دی جا سکتی ہے اور اگر کسی کو دوران نماز پتہ چل جائے کہ وہ غلط سمت میں نماز پڑھ رہا ہے تو اسے چاہیے کہ اسی وقت اپنا رخ صحیح سمت میں کر لے۔


حوالہ جات:
1۔صحیح بخاری کتاب الاستئذان باب من رد فقال علیک السلام، صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب وجوب قراء ۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ و انہ اذا لم یحسن الفاتحۃ
2۔صحیح البخاری کتاب الجمعۃ باب الوتر فی السفر، صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا باب جواز صلاۃ النافلۃ علی الدابۃ فی السفر حیث توجھت
3صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا باب جواز صلاۃ النافلۃ علی الدابۃ فی السفر حیث توجھت
4سنن ابی داؤدکتاب الصلاۃ باب التطوع علی الراحلۃ و الوتر، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 1225
5سنن ترمذی کتاب الصلاۃ باب ما جاء فی الصلاۃ علی الدابۃ فی الطین و المطر، تفصیل کے لیے دیکھیے صفۃ صلاۃ النبی الکتاب الام ص 58
6صحیح البخاری کتاب تفسیر القرآن باب قولہ عز و جل فان خفتم فرجالا ا و رکبانا فاذا امنتم فاذکروا اللہ
7سنن البیہقی جلد 3 ص 255
8سنن ترمذی کتاب الصلاۃ باب ما جاء ان ما بین المشرق و المغرب قبلۃ ، صحیح سنن ترمذی حدیث نمبر 342
9سنن دار قطنی کتاب الصلاۃ باب الاجتھاد فی القبلۃ و جواز التحری فی ذلک، ارواء الغلیل فی تخریج احادیث منار السبیل للالبانی حدیث نمبر 291
10صحیح البخاری کتاب الصلاۃ
 

saviou

Moderator
Aug 23, 2009
41,203
24,155
1,313

نماز کی نیت کا بیان
ALLAHU AKBAR



Standing Facing Qiblah and Making Takbeer with raised voice.
نماز ادا کرنے سے پہلے اس کی نیت کرنی ضروری ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا فرمان ہے:
إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى (صحیح البخاری کتاب البدء الوحی، حدیث نمبر1)
"اعمال نیتوں کے ساتھ ہیں اور ہر آدمی کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی"
نیت کب کی جائے:
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے “روضۃ الطالبین” میں لکھا ہے کہ" نیت کا مطلب ارادہ کرنا ہے۔ نماز کی نیت تکبیر تحریمہ کہتے وقت کی جانی چاہیے یعنی نمازی اس وقت اپنے ذہن میں خیال کرے کہ وہ کون سی نماز ادا کرنے جا رہا ہے ، مثلا یہ کہ نماز کی رکعات کتنی ہیں اور وہ ظہر کی نماز ہے یانفل نماز ہے وغیرہ"۔1

زبان سے نیت کے الفاظ کہنا بدعت ہے:
زبان سے نیت کے الفاظ کہنا سنت مطہرہ سے ثابت نہیں ہے۔ لوگوں میں زبانی نیت کے جو کلمات مشہور ہیں مثلًا “نیت کی میں نے اس نماز کی، خاص واسطے اللہ تعالیٰ کے، منہ طرف کعبہ شریف” وغیرہ ان کے بدعت ہونے پر علماء کا اتفاق ہے۔ البتہ انہوں نےاس کے اچھا یا برا ہونے میں اختلا ف کیا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ عبادات میں کیا گیاہر اضافہ گمراہی کے سوا کچھ نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے دین میں نئی چیزیں نکالنے سےمنع کرتے ہوئے ہر بدعت سے بچنے کا حکم دیا ہے:
وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ (سنن النسائی الصغریٰ کتاب صلاۃ العیدین باب کیف الخطبہ، صحیح سنن نسائی حدیث نمبر 157
"اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ( یعنی جہنم) میں ہے"

تکبیر تحریمہ اورقیام کے مسائل
نماز شروع کرنے کے لیے نمازی اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک یا کانوں کی لو تک بلند کر کے “اللہ اکبر” کہے۔ اسے تکبیر تحریمہ کہتے ہیں۔ یہ نماز کے ارکان میں سے ہے یعنی اسے کہے بغیر نماز درست نہیں ہوتی۔

تکبیر تحریمہ کہنا ضروری ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اپنی نماز کا آغاز "اللہ اکبر"2 کہہ کر فرمایا کرتے تھے۔ ٹھیک طرح سے نماز ادا نہ کرنے والےایک صحابی کو نماز کا طریقہ سکھاتے ہوئے فرمایا تھا:
إِنَّهُ لا تَتِمُّ صَلاةٌ لأَحَدٍ مِنَ النَّاسِ حَتَّى يَتَوَضَّأَ فَيَضَعَ الْوُضُوءَ مَوَاضِعَهُ ، ثُمَّ يَقُولُ : اللَّهُ أَكْبَرُ (المعجم الکبیر للطبرانی حدیث نمبر4399)
"لوگوں میں سے کسی کی نماز اس وقت تک پوری نہیں ہوتی جب تک وہ اچھی طرح وضو کرنے کے بعد "اللہ اکبر" نہ کہہ لے"
جمہور علماء کے نزدیک اس حدیث کی روشنی میں نمازکا آغاز “اللہ اکبر” کے سوا دوسرے الفاظ (جیسے “الرحمٰن اکبر وغیرہ )سے نہیں کیا جا سکتا۔
دوسری حدیث میں ہے:
مِفْتَاحُ الصَّلَاةِ الطُّهُورُ وَتَحْرِيمُهَا التَّكْبِيرُ وَتَحْلِيلُهَا التَّسْلِيمُ (سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب فرض الوضوء، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 139)
"طہارت (یعنی وضو) نماز کی کنجی ہے، اور تکبیر تحریمہ کہنا نماز کی حُرمت ہے (یعنی اس سے نماز کی حرمت کا آغاز ہو جاتا ہے اوروہ تمام کام حرام ہو جاتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے نماز میں منع فرمایا ہے) اور ( پھر نماز کے آخر پر)سلام کہنے سے حلال ہوتے ہیں"۔
یعنی جس طرح کسی عمارت میں داخلے کے لیے راستے میں حائل دورازہ کھولنا پڑتا ہے اسی طرح ناپاکی انسان اور نماز کے درمیان حائل ہوتی ہے جسے ختم کیے بغیر نماز کا آغاز نہیں کیا جا سکتا اوروضو اور طہارت وہ کنجی ہے جن کے ذریعے نمازی ناپاکی کے اس دروازے کو کھول کر نماز کا آغاز کر سکتا ہے۔اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں منع کیے گئے کاموں اس وقت تک ممنوع ہی رہتے ہیں جب تک نمازی سلام نہ پھیر دے، جمہور کا مذہب یہی ہے۔

امام اور مقتدی دونوں تکبیر تحریمہ کہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم جب جماعت کرواتے توتکبیر تحریمہ کو بلند آواز سے کہا کرتے تھے تا کہ پیچھے موجود تمام نمازیوں تک آواز پہنچ جائے3۔جب کبھی آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم بیمار ہوتے تو ابو بکر رضی اللہ عنہ اونچی آواز سے تکبیر کہتے تا کہ لوگوں کو ان صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی تکبیر کی خبر ہو جائے4۔ امام اور مقتدی دونوں کو تکبیر تحریمہ کہنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
إذا قال الإمام : الله أكبر فقولوا : الله أكبر (احمد و البیہقی بسند صحیح، مسند احمد باقی مسند المکثرین مسند ابی سعید الخدری)

"جب امام "اللہ اکبر"کہے تو تم بھی "اللہ اکبر"کہاکرو"۔
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ امام کی بیماری، نمازیوں کی کثرت یا کسی دوسرے عذر کی موجودگی میں موذن یا کسی دوسرے مقتدی کے لیے امام کے پیچھے پیچھے بلند آواز میں تکبیرات کہنا جائز ہے تا کہ تمام لوگوں تک آواز پہنچ سکے اوراس کا طریقہ یہ ہے کہ تکبیر بلند کرنے والا شخص امام کی تکبیر ختم ہونے کے فورًا بعد اپنی تکبیر شروع کرے ۔ البتہ اکیلے نماز پڑھنے والا شخص اپنی تکبیرات آہستہ ہی کہے گا۔

تکبیر تحریمہ کہتے وقت ہاتھ کیسے اٹھائے جائیں:
تکبیر تحریمہ کہتے وقت دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک5 اور بعض دفعہ کانوں (کی لو) تک بلندکرنا سنت ہے6۔ البتہ ایسا کرتے وقت کانوں کو چھونا سنت سے ثابت نہیں ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کبھی تو تکبیرتحریمہ کہنےکے ساتھ ہی ہاتھوں کو بلند فرما لیا کرتے تھے7 اور کبھی کبھار پہلے ہاتھ اٹھا لیتے اور پھر تکبیر کہتے اور کبھی تکبیر کہنے کے فورًا بعد ہاتھ اٹھاتے تھے8 لہذاکسی ایک سنت پر عامل ہونے کی بجائے ان تینوں طریقوں کو اپنی نمازوں میں ادل بدل کر اختیار کرنا چاہیے کیونکہ یہ سب حدیث سے ثابت ہیں۔
ہاتھ اٹھاتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ہاتھوں کی انگلیوں کو فطری انداز میں کھلا رکھتے تھے یعنی ان کے درمیان جان بوجھ کر فاصلہ پیدا کرنے کی کوشش نہیں فرماتے تھے اور نہ ہی ان کو ملاتے تھے بلکہ اپنی اصل حالت میں چھوڑدیتے تھے 9۔

دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے اوپر رکھنے کا حکم:
تکبیر تحریمہ کہنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھتے تھے10 یہ انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نےاپنے فرمان مبارک میں بتایا ہے:
إنا معشر الأنبياء أُمِرنَا أن نعجِّل إفطارنا و نؤخر سحورنا و نضع أيماننا على شمائلنا في الصلاة (صحیح الجامع الصغیر حدیث نمبر، 4050، صحیح ا بن حبان کتاب الصلاۃ باب صفۃ الصلاۃ
"ہم انبیاء کی جماعت کوافطار میں جلدی اور سحری میں تاخیرکرنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ (حکم بھی دیا گیا ہے کہ) کہ ہم نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پررکھیں"۔
ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گذرے جو باہنے ہاتھ کو داہنے ہاتھ کے اوپر رکھ کر نماز ادا کر رہا تھا تو انہوں نے اس کے ہاتھ کو کھینچا اور دائیں کو بائیں کے اوپر کر کے رکھ دیا۔11

ہاتھ کیسے باندھے جائیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ہمیشہ سینے پر ہاتھ باندھا کرتے تھے12 اور اس کی کیفیت یہ ہوتی کہ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پراس طرح رکھتے کہ وہ ہتھیلی کی پشت، جوڑ اور کلائی پر آ جائے13 اسی کا حکم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی دیا14۔ کبھی کبھار دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کوتھام لیا کرتے تھے15۔ یہ دونوں اپنی جگہ الگ الگ سنت ہیں۔ افضل یہ ہے کہ کبھی بائیں ہتھیلی کی پشت، جوڑ اور کلائی پر دایاں ہاتھ رکھا جائے اور کبھی دائیں ہاتھ سے بائیں کو تھاما جائے تا کہ دونوں سنتوں پر عمل ہوتا رہے۔
نماز میں پہلوؤں پر ہاتھ رکھنے سے منع فرمایا 16 گیا ہے (کیونکہ) یہ صلیب پرستوں کا انداز ہے اور یہود و نصارٰی کی مشابہت اختیار کرنا مسلمانوں کے لیے ممنوع ہے۔17

حوالہ جات:
1 ۔ روضۃ الطالبین 1/224
2 ۔ صحیح مسلم بَاب مَا يَجْمَعُ صِفَةَ الصَّلَاةِ وَمَا يُفْتَتَحُ بِهِ وَيُخْتَمُ بِهِ وَصِفَةَ الرُّكُوعِ
3 ۔مسند احمد باقی مسند المکثرین مسند ابی سعید الخدری، المستدرک کتاب الامامۃ و و صلاۃ الجماعۃ باب حدیث عبدالوہاب، امام حاکم نے اسے صحیح کہا اور امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔
4 ۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب من أسمع الناس تکبیر الامام، صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب ائتمام الماموم بالامام۔
5 ۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب الیٰ این یرفع یدیہ
6 ۔ صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب استحباب رفع الیدین حذو المنکبین مع تکبیرۃ الاحرام ،
7 ۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب الیٰ این یرفع یدیہ
8 ۔ صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب استحباب رفع الیدین حذو المنکبین مع تکبیرۃ الاحرام حدیث مالک بن الحویرث رضی اللہ عنہ
9 ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 753
10 ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب رفع الیدین فی الصلاۃ حدیث وائل بن حجر رضی اللہ عنہ۔ صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 727
11 ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب وضع الیمنیٰ علی الیسریٰ فی الصلاۃ حدیث عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، صحیح سنن ابن داؤد حدیث نمبر 755
12 ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب وضع الیمنٰی علی الیسریٰ ۔ صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 759۔صحیح ابن خزیمہ حدیث نمبر 479۔ مسند احمد بن حنبل مسند الانصار حدیث ھلب الطائی رضی اللہ۔
13 ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب رفع الیدین فی الصلاۃ حدیث وائل بن حجر رضی اللہ عنہ۔ صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 727
14 ۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب وضع الیمنٰی علی الیسریٰ فی الصلاۃ حدیث سھل بن سعد رضی اللہ عنہ، الموطا امام مالک کتاب النداء للصلاۃ باب وضع الیدین احداھما علی الاخریٰ فی الصلاۃ
15 ۔ سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ حدیث نمبر 2247 جلد 5 ص 246۔ صحیح سنن نسائی حدیث نمبر 1031۔
16 ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب الرجل یصلی مختصرا۔صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 947
17 ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب فی التخصر و الاقعاء، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 903

 

saviou

Moderator
Aug 23, 2009
41,203
24,155
1,313

سترے کی اہمیت اور وجوب

نمازی کے لیے واجب ہے کہ وہ نماز پڑھتے وقت اپنےآگے کوئی چیز رکھے اور اس کی آڑ لے کر نماز پڑھے تا کہ اگرکوئی شخص سامنے سے گزرنا چاہے تو اس کے دوسری جانب سے گزرجائے اور نمازی کے آگے سے گزرنے کی وجہ سے گناہگار نہ ہو۔ایسی چیز یا آڑ کو سترہ کہا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سترہ رکھ کر نماز ادا فرمایا کرتے تھے اوراس کے بالکل قریب اس طرح کھڑے ہوتے تھے کہ ان کے (سجدہ کرنے کی جگہ)اور (سترہ بنائی گئی) دیوار کےدرمیان تین ہاتھ کا فاصلہ ہوتا تھا1۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ سجدے کی جگہ اور دیوار کے درمیان صرف بکری کے گزرنے کی گنجائش ہوتی2۔

سترہ رکھنے کا حکم ہر نمازی کے لیے ہے خواہ وہ مسجد میں ہو یا مسجد سے باہر کسی جگہ پر نماز ادا کر رہا ہو۔ مسجد الحرام میں نماز پڑھنےوالوں کو بھی سترے کا التزام کرنا چاہیے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اپنے فرمان مبارک میں کسی بھی جگہ کو اس حکم سے مستثنٰی نہیں فرمایاہےجیساکہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔

لاَ تُصَلِّ إِلاَّ إِلَى سُتْرَةٍ ، وَلاَ تَدَعْ أَحَدًا يَمُرُّ بَيْنَ يَدَيْكَ ، فَإِنْ أَبَى فَلْتُقَاتِلْهُ ؛ فَإِنَّ مَعَهُ الْقَرِينَ

(صحیح ابن خزیمہ جل دوم ص9 مطبوعۃ المکتب الاسلامی بیروت باب النھی عن الصلاۃ الی غیر سترۃ۔ (صحیح ابن خزیمہ1/93/1، بسند جید)

“تو کبھی بھی سترہ رکھے بغیر نماز نہ پڑھ اور (پھر) کسی کو اپنے آگے سے نہ گزرنے دے، اگر وہ (گزرنے والا) باز نہ آئے تو اس سے لڑ، کیونکہ اس کے ساتھ شیطان ہے”

سترے کے قریب کھڑے ہوکر نماز اد اکرنا شیطان کی وسوسہ اندازی سے بچنے کا سبب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:

إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ إِلَى سُتْرَةٍ فَلْيَدْنُ مِنْهَا لَا يَقْطَعْ الشَّيْطَانُ عَلَيْهِ صَلَاتَهُ (صحیح سنن ابی داؤد حدیث695، والبزار(ص54۔زوائدہ)، و الحاکم و صححہ، و وافقہ الذھبی و النووی)

“جب تم میں سے کوئی (شخص) سترے کی طرف نماز پڑھے، تو اس کے قریب ہوجائے (تاکہ) شیطان (وسوسہ اندازی کر کے) اس کی نماز ( میں توجہ اور خشوع و خضوع ) نہ توڑ دے”

کس چیز کو سترہ بنایا جا سکتا ہے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم مسجد میں نماز پڑھتے وقت کبھی کبھار ستون کے قریب کھڑے ہو کر اسے سترہ بنا لیتے اور نماز ادا فرماتے تھے3 اور جب کبھی ایسے کھلے میدان میں نماز ادا فرماتے جہاں کوئی چیز سترہ بنانے کے لیے موجود نہ ہوتی تو اپنے سامنے نیزہ گاڑ لیتے پھر اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے اور صحابہ کرام ان (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) کے پیچھے نماز ادا کرتے4۔ کبھی کبھار اپنی سواری کو سامنے بٹھا کر اس کے پہلو کی طرف کھڑے ہو کر نماز ادا فرماتے5۔ البتہ اونٹوں کے باڑے میں نماز ادا کرنے سے منع فرمایا6۔ اونٹ کی کاٹھی کی پچھلی لکڑی کو سترہ بنا کر بھی نماز ادا فرمائی7۔ ایک مرتبہ ایک درخت کو سترہ بنایا8 اور کبھی اس بستر کی طرف منہ کر کے نماز ادا فرماتے جس پر ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا چادر اوڑھے لیٹی ہوتی تھیں9۔ سترے کی مقدار کا تعین کرتے ہوئے فرمایا:

إِذَا وَضَعَ أَحَدُكُمْ بَيْنَ يَدَيْهِ مِثْلَ مُؤْخِرَةِ الرَّحْلِ فَلْيُصَلِّ وَلَا يُبَالِ مَنْ مَرَّ وَرَاءَ ذَلِكَ (صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب سترۃ المصلی )

“جب تم میں سے کوئی (شخص) نماز ادا کرتے وقت اپنے سامنے اونٹ کی کاٹھی کی پچھلی لکڑی کے بقدر( اونچائی) میں کوئی چیز رکھ لے تو نماز پڑھ لیا کرے اور کچھ پرواہ نہ کرے کہ اس (کے سترے کے) دوسری جانب کون گزر رہا ہے”

اس حدیث سے جہاں سترے کی کم از کم اونچائی معلوم ہوتی ہے وہیں اس سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ زمین پر خط کھینچ کر اسے سترہ قرار دینا درست نہیں ہے۔سنن ابی داؤد میں جو حدیث اس بارے میں آئی ہے وہ ضعیف ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ کسی بھی آڑ بننے والی چیز کو سترہ بنایا جا سکتا ہےبشرطیکہ ہ وہ زمین کے ساتھ لگی ہو اور اس کی کم سے کم اونچائی اونٹ کی کاٹھی کی پچھلی لکڑی کے برابر (تقریبًا ڈیڑھ بالشت) ہو۔ زمین میں لاٹھی گاڑ کر اسے سترہ بنایا جا سکتا ہے، درخت، ستون،اور پہلو کی طرف سے سواری کے جانور کو بھی سترے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔بیٹھے یا لیٹے ہوئے شخص کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز ادا کی جا سکتی ہے خواہ وہ سامنے لیٹی ہوئی اپنی بیوی ہی ہو، لیکن کچھ علماء نےتوجہ منتشر ہونے کے ڈر سے بیوی کوسترہ بنانے کو ناپسند کیا ہے۔

نمازی اور سترے کے درمیان سے گزرنے والے کو روکنا:

نمازی اورسترے کے درمیان سے گزرنے والے کو سختی کےساتھ روکنا چاہیے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اپنے اور سترے کے درمیان کسی چیز کو نہیں گزرنے دیتے تھے۔ نا سمجھ بچے یا جانور وغیرہ کو روکنے کے لیے نماز میں چند قدم آگے بڑھنے کی بھی اجازت ہے۔ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نماز ادا فرما رہے تھے کہ ایک بکری دوڑتی ہوئی آئی اور سامنے سے گزرنے کی کوشش کی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے جلدی فرمائی اور (سترے والی) دیوار کے قریب ہو گئے (تاکہ بکری کے گزرنے کا راستہ نہ رہے) یہاں تک کہ اپنا بطن مبارک دیوار سے لگا دیا10۔ اس پر بکری کو ان (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) کے پیچھے سے گزرنا پڑا۔

ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرض نماز پڑھائی تو نماز میں اپنا ہاتھ آگے کر کے پھر پیچھے کر لیا۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد صحابہ نے عرض کیا “اے اللہ کے رسول! کیا نماز میں کوئی نیا حکم آ گیا ہے”؟ فرمایا:

لاَ إِلاَّ أَنَّ الشَّيْطَانَ أَرَادَ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَىَّ فَخَنَقْتُهُ حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَ لِسَانِهِ عَلَى يَدِى وَايْمُ اللَّهِ لَوْلاَ مَا سَبَقَنِى إِلَيْهِ أَخِى سُلَيْمَانُ لاَرْتُبِطَ إِلَى سَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِى الْمَسْجِدِ حَتَّى يُطِيفَ بِهِ وِلْدَانُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ(فَمَنْ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ لَا يَحُولَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ أَحَدٌ فَلْيَفْعَلْ)

(سنن الدار قطنی کتاب الصلاۃ باب ما جاء فی اعتراض الشیطان للمصلی لیفسد علیہ الصلاۃ، اسے امام احمد، اور طبرانی نے بھی صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے)

“نہیں، بلکہ (بات یہ ہے کہ) شیطان میرےسامنے سے گزرنا چاہتا تھا تو میں اس کا گلا گھونٹ دیا، یہاں تک کہ میں نے اس کی زبان کی ٹھنڈک اپنے ہاتھ پر محسوس کی۔اللہ کی قسم! اگر میرے بھائی سلیمان (علیہ السلام) نے (جنات کو ماتحت رکھنے میں) سبقت نہ کی ہوتی تو اسے مسجد کے ستونوں میں سے کسی ستون کے ساتھ باندھ دیا جاتا اور اہل مدینہ کے بچے اسے بازاروں میں پھراتے۔ پس تم میں سے جو کوئی استطاعت رکھتا ہو کہ اس کے اور قبلے (کی سمت میں اس کے آگے) سے کوئی چیز نہ گزرے تو اسے ضرور ایسا کرنا چاہیے11”

دوسری حدیث میں یہی حکم اس طرح ہے کہ:

إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ إِلَى شَيْءٍ يَسْتُرُهُ مِنْ النَّاسِ فَأَرَادَ أَحَدٌ أَنْ يَجْتَازَ بَيْنَ يَدَيْهِ فَلْيَدْفَعْ فِي نَحْرِهِ ( وليدرأ ما استطاع) ( وفي رواية : فليمنعه مرتين ) فَإِنْ أَبَى فَلْيُقَاتِلْهُ فَإِنَّمَا هُوَ شَيْطَانٌ ( صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب منع المار بین یدی المصلی )

“جب تم میں سے کوئی (شخص) لوگوں (کے گزرنے) سے (بچنے) کے لیے سترہ رکھ کر نماز پڑھے پھر اس کے (اور سترے کے درمیان) سامنے سے کوئی گزرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ اس کی گردن سے پکڑ کر اسے پیچھے دھکیل دےاور پوری قوت سے اسے ہٹائے۔( ایک رویت میں ہے کہ دوبار اس کو ہاتھ سے روکے) اگر وہ نہ رکے تو اس سے جھگڑا کرے کیونکہ وہ شیطان ہے”

نمازی کے آگے سے گزرنے کا گناہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:

لَوْ يَعْلَمُ الْمَارُّ بَيْنَ يَدَيْ الْمُصَلِّي مَاذَا عَلَيْهِ لَكَانَ أَنْ يَقِفَ أَرْبَعِينَ خَيْرًا لَهُ مِنْ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ (صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب اثم المار بین یدی المصلی )

“اگر نمازی کے آگے سے گزرنے والا جان لے کہ اس پر (کتنا گناہ) ہے و وہ چالیس (سال) کھڑا رہنے کو آگے سے گزرنے سے بہتر سمجھے”

سترے کی غیرموجودگی میں نماز توڑنے والی چیزیں:

اگر کوئی شخص سترہ رکھے بغیر نماز پڑھ رہا ہو اور اس کے سامنے سے بالغ عورت، گدھا یا سیاہ کتا گزر جائے تو اس کی نماز ٹوٹ جائے گی۔ البتہ بیوی سامنے لیٹی ہو تو اسے سترہ بنا کر نماز پڑھنے سے نماز نہیں ٹوٹتی۔ گویا نماز ٹوٹنے کا تعلق گزرنے سے ہے لیٹنے سے نہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:

يَقْطَعُ الصَّلَاةَ إِذَا لَمْ يَكُنْ بَيْنَ يَدَيْ الرَّجُلِ مِثْلُ مُؤَخِّرَةِ الرَّحْلِ الْمَرْأَةُ وَالْحِمَارُ وَالْكَلْبُ الْأَسْوَدُ قَالَ قُلْتُ مَا بَالُ الْأَسْوَدِ مِنْ الْأَحْمَرِ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا سَأَلْتَنِي فَقَالَ الْكلْبُ الْأَسْوَدُ شَيْطَانٌ (مسلم و ابو داؤد)

“اگر نمازی کے سامنے اونٹ کی کاٹھی کی پچھلی لکڑی کے بقدر اونچا سترہ نہ ہو تو (بالغ) عورت، گدھے اور سیاہ کتے کے سامنے سے گزر جانے پر اس کی نماز ٹوٹ جائے گی۔ ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے سیاہ کتے کو خاص کرنے کی وجہ پوچھی تو فرمایا “سیاہ کتا شیطان ہوتا ہے”

اس حدیث میں نماز ٹوٹنے سے مراد نماز باطل ہونا ہے یعنی اس کو دوبارہ پڑھنا ضروری ہے۔
امام نے اپنے آگے سترہ رکھا ہو تو وہ مقتدیوں کو الگ سے سترہ رکھنے کی ضرورت نہیں بلکہ ان کے لیے امام کا سترہ ہی کافی ہے، یعنی ایسی صورت میں مقتدیوں کے سامنے سےگزرنے پر ان کی نماز فاسد نہیں ہوتی۔(اصل صفۃ صلاۃ ص 135)

قبر کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کی ممانعت:

قبر کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے خواہ وہ انبیاء علیہم السلام میں سے کسی کی قبر ہی کیوں نہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا فرمان ذی شان ہے:

لَا تُصَلُّوا إِلَى الْقُبُورِ وَلَا تَجْلِسُوا عَلَيْهَا (مسلم و ابوداؤد، و ابن خزیمہ (1/95/ 2)

“قبروں کی طرف منہ کر کے نمازمت ادا کرو اور نہ ان پر بیٹھو”






حوالہ جات:
1۔صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب الصلاۃ بین السواری فی غیر جماعۃ۔ صحیح سنن نسائی حدیث 749، ابن سعد (1/253)، و ھو مخرج فی “الارواء” (543)
2۔ صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب قدر کم ینبغی ان یکون بین المصلی و السترۃ، و رواہ مسلم ایضًا
3۔ صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب الصلاۃ الی الاسطوانۃ، مسلم، بیہقی، احمد۔
4۔ صحیح البخاری کتاب الجمعۃ باب الصلاۃ الی الحربۃ یوم العید، مسلم، ابن ماجہ
5۔ صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب سترۃ المصلی، احمد
6۔ صحیح سنن ترمذی حدیث نمبر 348۔ سنن ترمذی کتاب الصلاۃ باب ما جاء فی الصلاۃ فی مرانض الغنم و اعطان الابل
7۔ صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب الصلاۃ الی الراحلۃ و البعیر و الشجر و الرحل، مسلم و ابن خزیمہ (92/2) و احمد
8۔ مسند احمد مسند العشرۃ المبشرین بالجنۃ و من مسند علی ابن ابی طالب
9۔ صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب الصلاۃ الی السریر
10 ۔ صحیح ابن خزیمہ جلد دوم ص 20 مطبوعۃ المکتب الاسلامی بیروت (باب بَابُ النَّهْيِ عَنِ الصَّلاَةِ إِلَى غَيْرِ سُتْرَةٍ.)
11 ۔ مسند احمد کی روایت میں اس آخری جملے کا اضافہ ہے۔ دیکھیے مسند احمد باقی مسند المکثرین مسند ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ

 

saviou

Moderator
Aug 23, 2009
41,203
24,155
1,313

دعائے استفتاح کا بیان
تکبیر تحریمہ کہنے کے بعد جب نمازی ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو جائے تو دعائے استفتاح پڑھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اس موقع پر مختلف دعائیں پڑھتے اور اللہ سبحانہ و تعالٰی کی حمد، پاکیزگی اور تعریف بیان فرماتے۔ دعائے استفتاح پڑھناضروری ہے کیونکہ نماز ٹھیک طرح سے ادا نہ کرنے والے ایک صحابی کو نماز کا درست طریقہ سکھاتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اس کا حکم دیا تھا اور فرمایا تھا:
لَا تَتِمُّ صَلَاةٌ لِأَحَدٍ مِنْ النَّاسِ حَتَّى يَتَوَضَّأَ فَيَضَعَ الْوُضُوءَ يَعْنِي مَوَاضِعَهُ ثُمَّ يُكَبِّرُ وَيَحْمَدُ اللَّهَ جَلَّ وَعَزَّ وَيُثْنِي عَلَيْهِ وَيَقْرَأُ بِمَا تَيَسَّرَ مِنْ الْقُرْآنِ
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب صلاۃ من لا یقیم صلبہ فی الرکوع و السجود، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 857)
"لوگوں میں سے کسی کی نماز اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک وہ اچھی طرح وضو کر کے تکبیر تحریمہ نہ کہے اور جب تک اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء اوربڑائی بیان نہ کرے اور جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکتا ہے وہ نہ پڑھ لے"


درج ذیل دعاؤں میں سے کوئی بھی دعااس موقع پر پڑھی جا سکتی ہے۔ ان میں سے بعض دعاؤں کو نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نفل نمازوں میں پڑھا کرتے تھے۔انہیں فرض نماز میں پڑھنا بھی اگرچہ جائز ہے لیکن امام کو جماعت کرواتے وقت لمبی دعائیں پڑھنے سے اجتناب کرنا چاہیے تا کہ مقتدیوں پر مشقت نہ ہو۔


پہلی دعا:
أَللّٰهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَّ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ أَللّٰهُمَّ نَقِّنِيْ مِنْ خَطَايَايَ كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الْأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ أَللّٰهُمَّ اغْسِلْنِي مِنْ خَطَايَايَ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ
(صحیح البخاری کتاب الاذان باب ما یقول بعد التکبیر، صحیح مسلم کتاب المساجد باب ما یقال بین تکبیرۃ الاحرام و القراءۃ، صحیح سنن نسائی حدیث نمبر1039، ارواء الغلیل حدیث8۔ متن میں مذکور الفاظ سنن نسائی کے ہیں)
"اے اللہ! میرے اور میری خطاؤں کے درمیان دوری ڈال دے جیسے تو نے مشرق اور مغرب کے درمیان دوری رکھی ہے۔ اے اللہ! مجھے خطاؤں سے اس طرح پاک کر دے جیسے سفید کپڑا میل سے پاک کیا جاتا ہے ۔ اے اللہ! میری خطائیں (اپنی مغفرت کے )پانی، برف اور اولوں سے دھو ڈال"۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اس دعا کو فرض نمازوں میں پڑھا کرتے تھے۔


دوسری دعا:
وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا مُسْلِمًا وََّمَا أَنَا مِنْ الْمُشْرِكِينَ ۔ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ۔ لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ ۔ اللَّهُمَّ أَنْتَ الْمَلِكُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْت ۔ سُبْحَانَكَ وَبِحَمْدِكَ ۔ أَنْتَ رَبِّي وَأَنَا عَبْدُكَ ۔ ظَلَمْتُ نَفْسِي وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِي جَمِيعًا إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ ۔ وَاهْدِنِي لِأَحْسَنِ الْأَخْلَاقِ لَا يَهْدِي لِأَحْسَنِهَا إِلَّا أَنْتَ ۔ وَاصْرِفْ عَنِّي سَيِّئَهَا لَا يَصْرِفُ عَنِّي سَيِّئَهَا إِلَّا أَنْتَ ۔ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ كُلُّهُ فِي يَدَيْكَ وَالشَّرُّ لَيْسَ إِلَيْكَ ۔ ۔وَالْمَهْدِيُّ مَنْ هَدَيْتَ ۔ أَنَا بِكَ وَإِلَيْكَ ۔ لَا مَنْجَا وَلَا مَلْجَأ مَنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ ۔ تَبَارَكْتَ وَتَعَالَيْتَ ۔ أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ
(صحیح مسلم صلاۃ المسافرین و قصرھا باب الدعاء فی صلاۃ اللیل و قیامہ، مسند احمد، صحیح ابن حبان، مستخرج ابی عوانۃ، السنن الکبرٰی للنسائی۔ یہاں تمام روایات کے الفاظ جمع کرکے بیان کیے گئے ہیں)
"میں نے یکسو اور فرمانبردار ہو کر اپنا چہرہ اس ذات کی طرف کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ بلاشبہ میری نماز، میری قربانی، میرا جینا، میرا مرنا اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔اس کا کوئی شریک نہیں۔ مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والوں میں سے ہوں۔ اللہ! تو بادشاہ ہے تیرے سوا کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں۔ تو پاک اور حمد کے لائق ہے۔ تو میرا رب ہے اور میں تیرا بندہ ہوں (یعنی تیرے سوا میں کسی کی عبادت نہیں کرتا)۔ میں نے اپنی جان پر ظلم کیا، اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں، تو میرے سارے گناہ معاف فرما دے۔تیرے سوا کوئی نہیں جو گناہوں کو معاف کر سکے۔ مجھے اچھے اخلاق کی توفیق عطا فرما، تیرے سوا کوئی بھی اس کی توفیق نہیں دے سکتا۔اور مجھ سے برے اخلاق کو دور رکھ، تیرے سوا ان کو دور رکھنے والا بھی کوئی نہیں۔اللہ! میں (تیرے دربار میں) حاضر ہوں تمام بھلائیاں تیرے ہاتھ میں ہیں ۔ اور شرکی نسبت تیری طرف نہیں کی جا سکتی ۔ جسے تو ہدایت عطا فرما دے حقیقت میں وہی ہدایت یافتہ ہے۔ میں تیرے ساتھ ہوں اور تیری طرف ہی میرا لوٹنا ہے۔ تجھ سے بھاگ کر نجات پانے اور پناہ ڈھونڈنے کی کوئی جگہ سوائے تیرے ہی پاس ہونے کے کہیں اور کوئی نہیں ہے۔ تیری ذات بابرکت اور بلند و بالا ہے۔ میں تجھ سے مغفرت کا طلب گار ہوں اور تیری طرف رجوع کرتا ہوں"


تیسری دعا:
سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلَا إِلَهَ غَيْرَكَ
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب من رأی الاستفتاح بسبحانک اللھم و بحمدک حدیث عائشۃ رضی اللہ عنہا، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 776)
"اے اللہ! تو پاک ہے،( ہم )تیری حمد کے ساتھ (تیری پاکیزگی بیان کرتے ہیں)۔ تیرا نام بڑی برکت والا ہے اور تیری بزرگی بلند ہے۔ اور تیرے سوا کوئی سچا معبود نہیں ہے"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
إن أحب الكلام إلى الله أن يقول العبد سبحانك اللهم وبحمدك وتبارك اسمك وتعالى جدك ولا إله غيرك (سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ 2598۔ سنن النسائی)
"اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ ترین کلام یہ ہے کہ بندہ کہے سبحانك اللهم وبحمدك وتبارك اسمك وتعالى جدك ولا إله غيرك


چوتھی دعا:
سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلَا إِلَهَ غَيْرَكَ ۔ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ۔ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ۔ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ۔ اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا ۔ اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا ۔ اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب من رأی الاستفتاح بسبحانک اللھم و بحمدک، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 775)
"اے اللہ! تو پاک ہے،( ہم )تیری حمد کے ساتھ (تیری پاکیزگی بیان کرتے ہیں)۔ تیرا نام بڑی برکت والا ہے اور تیری بزرگی بلند ہے۔ اور تیرے سوا کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں ہے، اللہ کےسوا کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں ہے، اللہ کےسوا کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں ہے، اللہ کےسوا کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں ہے۔اللہ بہت بڑا ہے سب سے بڑا، اللہ بہت بڑا ہے سب سے بڑا، اللہ بہت بڑا ہے سب سے بڑا"۔
نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم یہ دعا رات کی نفلی نماز میں پڑھتے تھے۔


پانچویں دعا:
اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ كَثِيرًا وَسُبْحَانَ اللَّهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا
(صحیح مسلم المساجد و مواضع الصلاۃ باب ما یقال بین التکبیرۃ الاحرام و القراءۃ)
"اللہ سب سے بڑا ہے۔ بہت بڑا۔ اس کے لیے حمد و شکر ہے بہت زیادہ۔ وہ (ہر عیب سے) پاک ہے۔ صبح و شام ہم اس کی پاکیزگی بیان کرتے ہیں"
ایک صحابی نے ان کلمات سے نماز کا آغاز کیا تو نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
عَجِبْتُ لَهَا فُتِحَتْ لَهَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ
(صحیح مسلم المساجد و مواضع الصلاۃ باب ما یقال بین التکبیرۃ الاحرام و القراءۃ)
"اِن الفاظ کو (اللہ کی طرف سے اتنا )پسند کیا گیا کہ ان کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے گئے"


چھٹی دعا:
الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ
(صحیح مسلم المساجد و مواضع الصلاۃ باب ما یقال بین التکبیرۃ الاحرام و القراءۃ)
"تمام تعریف اور حمد اللہ کے لیے ہے، بکثرت ، پاکیزہ اور برکت دی گئی (حمد اور تعریف)۔
ایک صحابی نے ان کلمات کے ساتھ اپنی نماز کا آغاز کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
لَقَدْ رَأَيْتُ اثْنَيْ عَشَرَ مَلَكًا يَبْتَدِرُونَهَا أَيُّهُمْ يَرْفَعُهَا
(صحیح مسلم المساجد و مواضع الصلاۃ باب ما یقال بین التکبیرۃ الاحرام و القراءۃ)
"میں نے بارہ فرشتوں کو دیکھا جو اس کوشش میں تھے کہ کون پہلے ان الفاظ کواوپر (اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بارگاہ میں لے جانے کے لیے) اُٹھاتا ہے"۔




ساتویں دعا:
أَللّٰهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ قَيِّمُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ مَلِكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيْهِنَّ وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ الْحَقُّ وَوَعْدُكَ حَقٌّ وَقَوْلُكَ حَقٌّ وَلِقَاؤُكَ حَقٌّ وَالْجَنَّةُ حَقٌّ وَالنَّارُ حَقٌّ وَالسَّاعَةُ حَقٌّ وَالنَّبِيُّونَ حَقٌّ وَمُحَمَّدٌ حَقٌّ اللَّهُمَّ لَكَ أَسْلَمْتُ وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَإِلَيْكَ أَنَبْتُ وَبِكَ خَاصَمْتُ وَإِلَيْكَ حَاكَمْتُ أَنْتَ رَبُّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيْرُ فَاغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهٖ مِنِّيْ أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ أَنْتَ إِلٰهِیْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِكَ
(صحیح البخاری کتاب التوحید باب قول اللہ تعالیٰ و ھو الذی خلق السماوات والارض، صحیح مسلم صلاۃ المسافرین و قصرھا باب الدعاء فی صلاۃ الیل و قیامہ، ابو عوانہ، ابو داؤد، وابن نضر، وا لدارمی۔ یہاں امام البانی نے ان تمام روایات میں مذکور الفاظ کو جمع کر دیا ہے)
"اے اللہ! حمد وشکر تیرے ہی لیے ہے۔ تو نور ہے آسمانوں اور زمین کا اور ان کے درمیان جو کچھ ہے ان کا بھی۔حمد و شکرتیرے لیے ہے تو قائم رکھنے والا ہے آسمانوں اور زمین کو اور ان کے درمیان جو کچھ ہے اس کو بھی۔ اور حمد و شکر تیرے ہی لیے ہے، تو رب ہے آسمانوں اور زمین کا اور ان کے درمیان جو کچھ ہے ان کا بھی۔اور تیرے لیے حمد و شکر ہے، تیری ذات برحق ہے، تیرا وعدہ سچا ہے، تیری باتیں حق ہیں، (قیامت کے دن) تیری ملاقات حق ہے، جنت اور جہنم برحق ہیں، انبیاء برحق تھے اور محمد (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) برحق (سچے نبی)ہیں، قیامت (کا آنا) برحق ہے۔ اے اللہ! میں نے خود کو تیرا مطیع کر دیا، میں تجھ پر ایمان لایا، تجھ پر توکل کیا، تیری ہی طرف میں رجوع کرتا ہوں، تیری ہی مدد سے میں جھگڑا کرتا ہوں اورتیرے ہی فیصلے کا طلبگار رہتا ہوں۔ پس تو میرے اگلے ،پچھلے، پوشیدہ اور ظاہر تمام گناہوں کو معاف فرما دے۔ تو ہی اول ہے تو ہی آخر ہے، تو ہی میرا معبود ہے، تیرے سوا کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں اور نیکی کرنے اور برائی سے بچنے کی طاقت (عطا کرنا بھی) تیرے سوا کسی کے بس میں نہیں"۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم یہ دعا رات کے نوافل میں پڑھا کرتے تھے۔

آٹھویں دعا:
اللَّهُمَّ رَبَّ جَبْرَائِيلَ وَمِيكَائِيلَ وَإِسْرَافِيلَ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ اهْدِنِي لِمَا اخْتُلِفَ فِيهِ مِنْ الْحَقِّ بِإِذْنِكَ إِنَّكَ تَهْدِي مَنْ تَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ
(صحیح مسلم صلاۃ المسافرین و قصرھا باب الدعاء فی صلاۃ الیل و قیامہ)
"اے اللہ! جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل کے رب! آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والے! پوشیدہ اور ظاہر کو جاننے والے! تو ہی اپنے بندوں کے درمیان اس چیز کا فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں۔ حق کے بارے میں جو اختلاف کیا گیا ہے اس میں مجھے اپنے حُکم سے (درست بات کی) ہدایت عطا فرما، بے شک تو جس کو چاہتا ہے سیدھے راستے کی طرف ہدایت دے دیتا ہے"۔

نویں دعا:
بعض دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم رات کی نفل نماز میں تکبیر تحریمہ کہنے کے بعد دس دفعہ اللہ اکبر، دس دفعہ الحمدللہ، دس دفعہ سبحان اللہ، دس دفعہ لا الٰہ الا اللہ اور دس دفعہ استغفراللہ کہتے پھر دس دفعہ ہی یہ دعا فرماتے:
أَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِيْ وَاهْدِنِيْ وَارْزُقْنِيْ وَعَافِنِيْ
"اللہ! میری مغفرت فرمادے، مجھے ہدایت دے اور مجھے رزق اور عافیت عطا فرما"
پھر دس مرتبہ یہ دعا فرماتے تھے:
أَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَعُوذُ بِكَ مِنَ الضِّيْقِ يَوْمَ الْحِسَابِ
(صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 1356، مسند احمد، مصنف ابن ابی شیبۃ)
"اللہ! میں تجھ سے تیری پناہ مانگتا ہوں قیامت کے دن کی تنگی سے "

دسویں دعا:
رات کی نفلی نمازشروع کرنے کا ایک اور طریقہ جو سنت مطہرہ سے ملتا ہے یہ ہے کہ تین دفعہ اَللہُ أَ کْبَر کہ کر درج ذیل دعا پڑھی جائی:
ذُو الْمَلَكُوتِ وَالْجَبَرُوتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظَمَةِ
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب ما یقول الرجل فی رکوعہ و سجودہ، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 874، و رواہ الطیالسی ایضا)
"(اللہ) بادشاہت، غلبہ، کبریائی اور عظمت کا مالک (ہے)"۔
 

saviou

Moderator
Aug 23, 2009
41,203
24,155
1,313
قارئین کرام! اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے:
وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ (44)
“(اے نبی) ہم نے آپ کی طرف (یہ) ذکر (یعنی قرآن) نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کے لیے اس چیز کو واضح کر دیں جو ان کی طرف نازل کی گئی ہے اور تاکہ وہ غور کریں”
اس آیت سے ان لوگوں کے قول کی تردید ہوتی ہے جو احادیث رسول کو “بولی کارپوریشن آف اسلام” کہہ کر ٹھٹھا اڑاتے ہیں۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ذمے محض پیغام رسانی ہی نہ تھی بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے کلام کا شارح بنا کر بھیجا تھا۔ اس بات کو نماز کے ایک اہم رکن “قیام” کی مثال سے سمجھتے ہیں جس سےمعلوم ہو گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے احکامات کی کس طرح تشریح اور عملی تفسیر بیان فرمائی۔قرآن مجید میں قیام کرنے کا حکم اس آیت میں دیا گیا ہے:
وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ (البقرۃ238 )
“اور اللہ کے سامنے ادب سے کھڑے رہا کرو”۔
پورے قرآن مجید میں اس اجمال کی کوئی تفصیل بیان نہیں ہوئی کہ قیام کس طرح کرنا ہے، رکوع و سجدے سے پہلے کرنا ہے یابعد میں، اور کیا اس کی فرضیت تمام نمازوں کے لیے ہے وغیرہ۔ان جیسے مسائل کے لیے بہرحال حدیث رسول کی طرف ہی رجوع کرنا پڑتا ہے ذیل میں اہم مسائل کا تذکرہ صحیح احادیث کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔



فرض نماز میں قیام کی فرضیت:
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا أَوْ رُكْبَانًا فَإِذَا أَمِنْتُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَمَا عَلَّمَكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ (البقرۃ 238،239)
“سب نمازوں کی حفاظت کرو اور (خاص طور پر) بیچ والی نماز کی1۔ اور اللہ کے سامنے ادب سے کھڑے رہا کرو۔پھر اگر تم خوف کی حالت میں ہو تو پیادے یا سوار جس حال میں ہو (نماز پڑھ لو)۔ پھر جب امن ہو جائے تو اللہ کو اسی طریقے سے یاد کرو جس طریقے سے اس نے تمہیں سکھایا ہے جو تم پہلے نہیں جانتے تھے”
علماء نے اس آیت کی روشنی میں فرض نماز میں قیام کے لازمی ہونے پر امت کا اجماع نقل کیا ہے۔ فرض نماز پڑھنے والا امام ہو یا مقتدی یا منفرد (یعنی اکیلے نماز پڑھنے والا) کسی کے لیے بھی عذر کےبغیر فرض نماز بیٹھ کر ادا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ البتہ اگر امام کسی وجہ سے کھڑے ہو کر نماز پڑھانے پر قادر نہ ہو تو مقتدی بھی اس کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھیں گے۔ فرمان رسول ہے :
وَإِذَا صَلَّى قَائِمًا فَصَلُّوا قِيَامًا وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا أَجْمَعُونَ (صحیح البخاری کتاب الاذان باب انما جعل الامام لیوتم بہ)
"جب (امام) کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر پڑھو اور جب وہ (کسی عذر کی بنا پر) بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم سب بھی (اس کےپیچھے) بیٹھ کر نماز ادا کرو”
اس آیت مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سخت لڑائی یا شدید خوف وغیرہ کے موقع پر قیام کرنا ممکن نہ ہو تو کھڑے کھڑے یا سواری پر بیٹھ کر یا جیسے بھی ممکن ہو نماز ادا کر لینی چاہیے۔ اس کا ذکر پیچھے استقبال قبلہ کے ذیل میں گزر چکا ہے ۔



نفل نمازبیٹھ کر پڑھی جا سکتی ہے:


فرائض کے برعکس نوافل بیٹھ کر بھی پڑھے جا سکتے ہیں چاہے کوئی عذر موجود نہ ہو لیکن بیٹھ کر نفل پڑھنے سے آدھا اجر ملتا ہے۔ ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں:
مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى فِي سُبْحَتِهِ قَاعِدًا حَتَّى كَانَ قَبْلَ وَفَاتِهِ بِعَامٍ
(صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا باب جواز النافلۃ قائما و قاعدا۔ ۔۔ )
“میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو وفات سے ایک سال پہلے تک رات کے نوافل بیٹھ کر ادا کرتے ہوئے نہیں دیکھا”
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے عمر مبارک کے آخری سال بیٹھ کر نوافل ادا فرمائے ہیں اس لیے نفل نماز طاقت رکھنے کے باوجود بیٹھ کر بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ امام نووی رحمۃ علیہ نے صحیح مسلم کی شرح میں اس کے جواز پر علماء کا اجماع نقل کیا ہے۔ نوافل میں قیام کے ضروری نہ ہونے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم دورانِ سفرقیام کیے بغیرسواری پر تشریف فرما ہوتے ہوئے نوافل پڑھ لیا کرتے تھے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسَبِّحُ عَلَى الرَّاحِلَةِ قِبَلَ أَيِّ وَجْهٍ تَوَجَّهَ وَيُوتِرُ عَلَيْهَا غَيْرَ أَنَّهُ لَا يُصَلِّي عَلَيْهَا الْمَكْتُوبَةَ (صحیح البخاری کتاب الجمعۃ باب ینزل للمکتوبۃ، صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا باب جواز صلاۃ النافلۃ علی الدابۃ فی السفر۔ ۔)
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم رات کے نوافل اور وتر سواری پر بیٹھ کر ادا کر لیتے تھے چاہے اس کا رخ کسی بھی طرف ہوتا، البتہ فرض نماز اس پر بیٹھ کر نہیں پڑھتے تھے”

 

saviou

Moderator
Aug 23, 2009
41,203
24,155
1,313

مریض کے لیے بیٹھ کر نماز ادا کرنے کی اجازت:
مریض کھڑا ہونے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو وہ بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے مرض الموت میں بیٹھ کر نماز ادا فرمائی تھی۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ:
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى خَلْفَ أَبِي بَكْرٍ قَاعِدًا (سنن ترمذی کتاب الصلاۃ باب ما جاء اذا صلی الامام قاعدا فصلوا قعودا، صحیح سنن ترمذی حدیث نمبر 362)
“نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے (مرض الموت میں) ابو بکر (رضی اللہ عنہ) کے پیچھے بیٹھ کر نماز ادا فرمائی تھی”

ایسا ہی ایک واقعہ اس سے پہلے بھی پیش آیا تھا جب مرض کی تکلیف کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے بیٹھ کر نماز پڑھائی تو صحابہ رضی اللہ عنہم پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے، اس پرنبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے انہیں بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ بیٹھ گئے۔ نماز ختم ہونے کے بعد فرمایا :
إِنْ كِدْتُمْ آنِفًا لَتَفْعَلُونَ فِعْلَ فَارِسَ وَالرُّومِ يَقُومُونَ عَلَى مُلُوكِهِمْ وَهُمْ قُعُودٌ فَلَا تَفْعَلُوا ائْتَمُّوا بِأَئِمَّتِكُمْ إِنْ صَلَّى قَائِمًا فَصَلُّوا قِيَامًا وَإِنْ صَلَّى قَاعِدًا فَصَلُّوا قُعُودًا(صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب ائتمام الماموم بالامام)
“تم فارسیوں اور رومیوں جیسا کام کرنے کے قریب تھے، وہ اپنے بادشاہوں کے سامنے کھڑے رہتے ہیں جبکہ بادشاہ بیٹھے ہوتے ہیں۔ تم اس طرح مت کرو۔ اپنے امام کی اقتدا کرو ، اگر وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو اور اگر وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز ادا کرو”

اسی بارے میں ایک اور حدیث عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے بواسیر کی تکلیف تھی۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے دریافت کیا (کیا مجھے بیٹھ کر نماز ادا کرنے کی اجازت ہے؟) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا :
صَلِّ قَائِمًا فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَعَلَى جَنْبٍ (صحیح البخاری کتاب الجمعۃ باب اذا لم یطق قاعدا صلی علی جنب)
“کھڑے ہو کر نماز ادا کرو، اس کی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر پڑھ لو، اور یہ بھی نہ ہو سکے تو لیٹ کر نماز ادا کر سکتے ہو”

دوسری روایت میں ہے کہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں “میں نے نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا جو بیٹھ کر نماز ادا کرتا ہے” تو فرمایا
مَنْ صَلَّى قَائِمًا فَهُوَ أَفْضَلُ وَمَنْ صَلَّى قَاعِدًا فَلَهُ نِصْفُ أَجْرِ الْقَائِمِ وَمَنْ صَلَّى نَائِمًا فَلَهُ نِصْفُ أَجْرِ الْقَاعِدِ(سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب صلاۃ القاعد علی النصف من صلاۃ القائم، صحیح سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 1231)
“ جس نے کھڑے ہو کر نماز ادا کی تو وہ افضل ہے، اور جس نے بیٹھ کر ادا کی اسے قیام کرنے والے کی نسبت آدھا اجر ملے گا، اور جس نے لیٹے ہوئے نماز پڑھی اس کے لیے بیٹھ کر نماز پڑھنے والے سے نصف اجر ہے”۔

انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ “رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم گھر سے نکلے تو دیکھا کہ کچھ لوگ مرض کی وجہ سے بیٹھ کر نماز ادا کررہے ہیں۔ تو فرمایا :
صَلَاةُ الْقَاعِدِ عَلَى النِّصْفِ مِنْ صَلَاةِ الْقَائِمِ(سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب صلاۃ القاعد علی النصف من صلاۃ القائم، صحیح سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 1230)
“بیٹھ کر نماز ادا کرنے والے کو قیام کرنے والے کی نسبت آدھا اجر ملے گا”
بیٹھ کر نماز پڑھنے کے سلسلے میں یاد رکھنا چاہیے کہ اگر مریض زمین پر سجدہ کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو کوئی اونچی چیز سامنے رکھ کر اس پر سجدہ کرنا ٹھیک نہیں بلکہ ایسی صورت میں سر کے اشارے سے رکوع و سجود کرنےچاہئیں۔
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کسی مریض کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے تو دیکھا کہ وہ تکیے پر نماز ادا کر رہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اسے اٹھا کر پرے کر دیا۔ پھر اس نے لکڑی کے تختے پر نماز ادا کرنی چاہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اسے بھی پرے کر دیا۔ اور فرمایا :
صل على الارض ان استطعت والا فاوم ايماء واجعل سجودك اخفض من ركوعك
(سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ حدیث نمبر 323، السنن الکبریٰ للبیہقی جلد2 ص 306)
“اگر طاقت ہو تو زمین پر نماز ادا کرو، ورنہ اشارے سے ادا کرو اور سجدہ کرتے وقت (سر کو) رکوع کی نسبت زیادہ جھکا لو”

کشتی اور ہوائی جہاز وغیرہ میں نماز کیسے پڑھی جائے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے کشتی میں نماز ادا کرنے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو فرمایا:
صَلِّ فيها قائماً إلا أن تخاف الغرق
(سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ حدیث نمبر 3777، صحیح الجامع الصغیر للالبانی حدیث نمبر 7225، سنن الدار القطنی کتاب الصلاۃ باب صفۃ الصلاۃ فی السفر و الجمع بین الصلاتین)
“اس میں کھڑے ہو کر نماز پڑھ، سوائے اس کے کہ تجھے غرق ہونے کا ڈر ہو”
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص قیام کر سکتا ہو اس کے لیے کشتی یا ہوائی جہاز وغیرہ میں بیٹھ کر نماز ادا کرنا درست نہیں ہے۔

دورانِ قیام ٹیک لگانا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی عمر مبارک جب زیادہ ہو گئی تو انہوں نے نماز پڑھنے کی جگہ میں ایک ستون رکھ لیا تھاجس پر نماز پڑھتے وقت ٹیک لگا لیا کرتے تھے۔ (سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب الرجل یعتمد فی الصلاۃ علی عصا، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 948 )
اسوہ حسنہ کی اس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے بوڑھے، کمزور یا مریض آدمی کے لیے عصا یا دیوار وغیرہ کا سہارا لے کر نوافل پڑھنا جائز ہے۔

رات کے نوافل میں کیسے قیام کیا جائے۔
اوپر ذکر گزر چکا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم حیات مبارکہ کے آخری سال میں رات کے نوافل بیٹھ کر اور کھڑے ہو کر دونوں طرح سے پڑھتے تھے۔ایسے میں اگر کھڑے ہو کر قراءت فرماتے تو قیام سے رکوع کی حالت میں جاتے۔ اور جب بیٹھ کر قراءت کرتے تو رکوع بھی بیٹھے ہوئے ہی کیا کرتے تھے ۔ (صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا باب جواز النافلۃ قائما و قاعدا و فعل بعض الرکعۃ قائما و بعضھا۔۔)
لیکن یہ مستقل معمول نہ تھا بلکہ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ بیٹھ کر نماز ادا فرماتے، پھر جب قراءت سے تیس یا چالیس کے قریب آیات باقی ہوتیں تو کھڑے ہو کر ان کی تلاوت فرماتے پھر رکوع اور سجدے میں چلے جاتے اور دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کرتے۔ (صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا باب جواز النافلۃ قائما و قاعدا و فعل بعض الرکعۃ قائما و بعضھا۔۔۔)۔ لہٰذا نمازی کو اختیار ہے کہ اپنی سہولت کے مطابق دونوں میں سے جس طریقے کو چاہے اختیار کر لے۔
بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کے لیے چوکڑی مار کر بیٹھنا مستحب ہے۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ:
رأيت النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يصلي متربعاً
(سنن النسائی الصغریٰ کتاب قیام اللیل و تطوع النھار باب کیف صلاۃ القاعد، صحیح سنن نسائی حدیث نمبر 1661)
“میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو چوکڑی کی حالت میں نماز پڑھتے دیکھا”۔

قراءت کا بیان

دعائے استفتاح کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم شیطان مردود سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب فرماتے تھے۔ اسے تعوذ کہتے ہیں اور اس کی دعا یہ ہے:
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ الشَّيْطَانِ مِنْ نَفْخِهِ وَنَفْثِهِ وَهَمْزِهِ
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب ما یستفتح بہ الصلاۃ من الدعاء۔ ارواء الغلیل جلد 2 ص 53۔ اصل صفۃ صلاۃ جلد 1 ص 273)
اسے اس طرح پڑھا بھی ثابت ہے:
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنْ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ
(صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 775، سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب من رای الاستفتاح بسبحانک اللھم و بحمدک)

اس کے بعد آہستہ آواز کے ساتھ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ پڑھنی چاہیے۔
(صحیح البخاری کتاب الاذان باب ما یقول بعد التکبیر)

قراءت کا مسنون طریقہ
تعوذ اور بسملہ (بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ) کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سورۃ الفاتحۃ کی تلاوت فرماتے تھے۔ تلاوت کا سنت طریقہ یہ ہے کہ قراءت کرتے وقت ہر آیت پر وقف کیا جائے ۔مثال کے طور پر سورۃ الفاتحۃ پڑھتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ پڑھ کر وقف کرتے، پھر الحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العَالَمِينَ پڑھ کر ٹھہر جاتے۔ پھر الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ پڑھتے اور ٹھہر جاتے۔ پھرمَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ پڑھتے اور اس پر وقف فرماتے تھے اور اسی طرح ایک ایک آیت پر رک کر سورت پوری کرتے تھے۔یہ معمول صرف سورۃ الفاتحہ پڑھنے کے لیے ہی نہ تھا بلکہ دوسری سورتوں کی تلاوت کرتے وقت بھی یہی طریقہ ہوتا تھا کہ آیت کے اختتام پر وقف کرتے اور اسے اگلی آیت سے نہیں ملاتے تھے۔
(سنن الترمذی کتاب القراءات باب فی فاتحۃ الکتاب۔ صحیح سنن ترمذی حدیث نمبر 2927)

آج کل اکثر قاری اور امام مسجد اس سنت سے ناواقف یا لاپرواہ ہیں بلکہ سامعین بھی اسی قاری کو پسند کرتے ہیں*جو گلا پھلا کر ایک ہی سانس میں متعدد آیات پڑھ سکتا ہو۔
 

saviou

Moderator
Aug 23, 2009
41,203
24,155
1,313



سورۃ الفاتحہ کی فضیلت اور بطور رکن نماز میں اس کی اہمیت

سورۃ الفاتحہ قرآن مجید کی عظیم الشان سورتوں میں سے ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نےاس کی بڑی اہمیت اور فضیلت بیان فرمائی ہے۔
عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ
(صحیح البخاری کتاب الاذان باب وجوب القراءۃ للامام و الماموم فی الصلوات کلھا فی الحضر، صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب وجوب قراءۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ و انہ اذا لم یحسن الفاتحۃ)
“اس شخص کی کوئی نماز نہیں جس نے (اس میں) فاتحۃ الکتاب نہیں پڑھی”
ایک اور حدیث میں اس سورت کی اہمیت یوں بیان ہوئی ہے:
لاَ تُجْزِئُ صَلاَةٌ لاَ يَقْرَأُ الرَّجُلُ فِيهَا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ
(سنن دار قطنی کتاب الصلاۃ باب وجوب قراءۃ أم الکتاب فی الصلاۃ و خلف الأمام، ارواء الغلیل جلد 2 ص 10)
"وہ نماز درست نہیں ہوتی جس میں آدمی فاتحۃ الکتاب نہ پڑھے"
ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ ثَلَاثًا غَيْرُ تَمَامٍ
(صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب وجوب القراءۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ)
“جس نے أم القرآن ( یعنی سورۃ الفاتحہ) پڑھے بغیرنماز ادا کی تو وہ (نماز) ناقص ہے، ناقص ہے، ناقص ہے، نا مکمل ہے”
اس حدیث میں سورۃ فاتحہ کے بغیر پڑھی جانے والی نماز کو "خداج" کہا گیا ہے جس کا مطلب ناقص اور خراب ہے۔ یہ لفظ اونٹنی کے اس بچے کے لیے مستعمل ہے جو قبل از وقت ناتمام اور خراب حالت میں پیدا ہو جائے۔ اس سے بعض علماء کو غلط فہمی ہوئی ہے کہ سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز ہو تو جاتی ہے لیکن نامکمل رہتی ہے۔ لیکن اوپر صحیح البخاری اور سنن دار قطنی کی جو حدیثیں بیان کی گئی ہیں ان کی روشنی یہ موقف درست معلوم نہیں ہوتا اس لیے کہ ان میں صراحت سے کہا گیا ہے کہ سورۃ الفاتحہ نہ پڑھنے والے کی کوئی نماز نہیں۔خود اسی حدیث کے آخر میں ایسی نماز کو نامکمل کہا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ جب نماز مکمل ہی نہ ہو گی تو درست کیسے ہو سکتی ہے۔ ائمہ اربعہ میں سے امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کا موقف بھی سورۃ فاتحہ پڑھنے کی فرضیت کا ہے۔
نماز میں اس کی اہمیت کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اپنے ایک فرمان میں اسے "الصلاۃ" یعنی نماز کے نام سے ذکر فرمایا ہے۔
قَالَ اللَّهُ تَعَالَى قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ فَنِصْفُهَا لِي وَنِصْفُهَا لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اقْرَءُوا يَقُولُ الْعَبْدُ { الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ } يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ حَمِدَنِي عَبْدِي يَقُولُ { الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ } يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَثْنَى عَلَيَّ عَبْدِي يَقُولُ الْعَبْدُ { مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ } يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَجَّدَنِي عَبْدِي يَقُولُ الْعَبْدُ { إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ } يَقُولُ اللَّهُ هَذِهِ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ يَقُولُ الْعَبْدُ { اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ }يَقُولُ اللَّهُ فَهَؤُلَاءِ لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب من ترک القراءۃ فی صلاتہ بفاتحۃ الکتاب، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 779۔ صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب وجوب القراءۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
"اللہ تعالیٰ فرماتاہے "میں نے نماز (یعنی سورۃ الفاتحہ) کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کر دیا ہے۔پس اس کا نصف حصہ میرا ہے اور نصف میرے بندے کا ہے۔ اور میرے بندے نے جو سوال کیا وہ اسے ملے گا۔"
(پھربات جاری رکھتے ہوئے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
"(سورۃ فاتحہ) پڑھو، جب بندہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَکہتا ہے تو اللہ عز و جل فرماتا ہے " میرے بندے نے میری حمد بیان کی"
(بندہ) کہتا ہے الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِتو اللہ عز و جل فرماتا ہے "میرے بندے نے میری ثنا بیان کی"۔
بندہ کہتا ہے مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِتو اللہ عز و جل فرماتا ہے "میرے بندے نے میری عظمت بیان کی"
بندہ کہتا ہے إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُتو اللہ فرماتا ہے "یہ (حصہ) میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرے بندے نے جو سوال کیا وہ اسے ملے گا"
بندہ کہتا ہے اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَتو اللہ فرماتا ہے "یہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کو وہ ملے گا جس کا اس نے سوال کیا"۔
قرآن مجید میں سورۃ الفاتحہ کی فضیلت اس آیت میں بیان ہوئی ہے۔
وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ (سورۃ الحجر آیت 87)
(اے نبی!) ہم نے آپ کو السبع المثانی اور قرآنِ عظیم عطا کیا"
اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا:
مَا أَنْزَلَ اللَّهُ فِي التَّوْرَاةِ وَلَا فِي الْإِنْجِيلِ مِثْلَ أُمِّ الْقُرْآنِ وَهِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي
(سنن ترمذی کتاب التفسیر باب تفسیر سورۃ الحجر صحیح سنن ترمذی حدیث نمبر 3125)
"اللہ تعالیٰ نے أم القرآن (یعنی سورۃ فاتحہ) جیسی ( عظیم الشان سورت) نہ تورات میں اتاری اورنہ انجیل میں۔ یہی السبع المثانی (بار بار دہرائے جانے والی آیات ) ہیں۔
دوسری روایت میں ہے کہ:
هِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ الَّذِي أُوتِيتُهُ
(صحیح البخاری کتاب التفسیر باب قولہ و لقد آتیناک سبعا من المثانی والقرآن العظیم)
"یہی السبع المثانی (بار بار دہرائی جانے والی آیات) اور قرآنِ عظیم ہے جو مجھے دیا گیا"
(سورۃ الفاتحہ کو "السبع المثانی" کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی سات آیات ہیں جنہیں نماز کی ہر رکعت میں دہرایا جاتا ہے جبکہ قرآنِ عظیم کا نام بھی اس کی اہمیت اور فضیلت کے بیان کے لیے دیا گیا ہے ورنہ قرآن مجید کی ہر شئے ہی عظیم ہے۔ جیسے کعبہ کو تعظیمًا بیت اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ تمام مساجد اللہ کا گھر یعنی بیوت اللہ ہیں)
ٹھیک طرح سے نماز ادا نہ کرنے والے ایک صحابی کو درست طریقہ سکھاتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا قُمْتَ فَتَوَجَّهْتَ إِلَى الْقِبْلَةِ فَكَبِّرْ ثُمَّ اقْرَأْ بِأُمِّ الْقُرْآنِ
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب صلاۃ من لا یقیم صلبہ فی الرکوع والسجود، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر حدیث نمبر804 ، 805)
"جب تو (نماز کے لیے ) کھڑا ہو تو قبلے کی طرف منہ کر کے تکبیر (تحریمہ) کہہ، پھر(دعائے استفتاح کے بعد) أم القرآن (یعنی سورۃ الفاتحہ) پڑھ"
لیکن اگر کسی کو سورۃ فاتحہ اور دوسری کوئی سورت یاد نہ ہو تو اسے جلد از جلد انہیں سیکھنا اور یاد کرنا چاہیے، تب تک ان کی بجائے وہ اللہ تعالیٰ کی تحمید، کبریائی اور تہلیل پر مشتمل یہ کلمات نماز میں پڑھ سکتا ہے۔
سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ
(صحیح ابن حبان کتاب الصلاۃ باب صفۃ الصلاۃ ، صحیح و ضعیف سنن نسائی حدیث نمبر 1068، ارواء الغلیل 303)
انہیں پڑھنے کی اجازت اس حدیث میں بھی دی گئی ہے :
فَإِنْ كَانَ مَعَكَ قُرْآنٌ فَاقْرَأْ بِهِ وَإِلَّا فَاحْمَدْ اللَّهَ وَكَبِّرْهُ وَهَلِّلْهُ
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب صلاۃ من لا یقیم صلبہ فی الرکوع و السجود، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 807)
"اگر تجھے قرآن میں سے کچھ یاد ہو تو اسے پڑھ، ورنہ اللہ کی تحمید، کبریائی اور تہلیل بیان کر"
اہلِ سنت و الجماعت کے تمام مکاتب فکر نماز میں سورۃ فاتحہ کی اہمیت کے قائل ہیں۔ فقہاء کا اصل اختلاف امام کے پیچھے اسے پڑھنے کے مسئلے پر ہے جس کا ذکر آئندہ آئے گا ان شاء اللہ۔
 

saviou

Moderator
Aug 23, 2009
41,203
24,155
1,313
امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کا مسئلہ ائمہ اور فقہاء میں مختلف فیہ چلا آتا ہے ۔ اس بارے میں فقہاء کے تین گروہ ہیں:

1۔امام مکحول، امام اوزاعی، امام شافعی اور امام ابو ثور رحمہم اللہ کہتے ہیں کہ امام کے پیچھے سری اور جہری تمام نمازوں میں سورۃ فاتحہ پڑھی جائے گی۔دور حاضر میں الشیخ بن باز سمیت کچھ عرب علماء نے اسی کو اختیار کیا ہے۔
2۔ سفیان ثوری رحمہ اللہ ، امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے اصحاب الرائے سری یا جہری کسی بھی نماز میں امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کے قائل نہیں ہیں۔
3۔ امام زہری، امام مالک، عبداللہ بن مبارک، امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق رحمہم اللہ کا کہنا ہے کہ اگر امام بلند آواز سے تلاوت کر رہا ہو تو مقتدی کو سورۃ فاتحہ نہیں پڑھنی چاہیے اور سری نمازوں (یعنی جن میں امام آہستہ آواز میں پڑھتا ہے جیسے ظہر اور عصر وغیرہ) میں پڑھنی چاہیے۔دور حاضر کے مشہور محدث الشیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "اصل صفۃ صلاۃ النبی" میں اس کے حق میں بہترین دلائل دیے ہیں جبکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا فتویٰ بھی اس کی موافقت میں ہے


رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے لیے قراءت کرنا مشکل ہو گیا۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم سے دریافت فرمایا:
لَعَلَّكُمْ تَقْرَءُونَ خَلْفَ إِمَامِكُمْ
"شاید تم لوگ اپنے امام کے پیچھے پڑھتے ہو؟"
انہوں نے عرض کیا:
"جی ہاں، اے اللہ کے رسول! ہم جلدی جلدی ایسا کر لیتے ہیں"
فرمایا:
لَا تَفْعَلُوا إِلَّا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَإِنَّهُ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِهَا
"تم ایسا مت کرو، سوائے اس کے کہ تم میں سے کوئی فاتحہ الکتاب پڑھ لیا کرے، کیوں کہ جس نے اسے نہ پڑھا اس کی نماز نہیں ہوئی"
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب من ترک القراءۃ فی صلاتہ بفاتحۃ الکتاب، امام البانی نے کثرت طرق کی بناء پر اسے حسن کہا، دیکھیے اصل صفۃ صلاۃ جلد1 ص 331، اور مشکاۃ المصابیح تلخیص الالبانی حدیث نمبر854)

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
كُنَّا نَقْرَأُ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ خَلْفَ الْإِمَامِ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَسُورَةٍ وَفِي الْأُخْرَيَيْنِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ
(سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب القراءۃ خلف الامام، صحیح و ضعیف سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 915، ارواء الغلیل جلد 2 ص 28
"ہم ظہر اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ اور کوئی دوسری سورت اور آخری دورکعت میں (صرف) سورۃ الفاتحہ پڑھا کرتے تھے"
ایک واقعے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا تھا:
إِنَّ الْمُصَلِّيَ يُنَاجِي رَبَّهُ فَلْيَنْظُرْ بِمَا يُنَاجِيهِ بِهِ وَلَا يَجْهَرْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ بِالْقُرْآنِ
(موطا امام مالک کتاب استقبال القبلۃ باب وجوب القراءۃ فی السریۃ، السلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ حدیث نمبر 1603)
"نمازی اپنے رب کے ساتھ سرگوشی کرتا ہے تو اسے خیال کرنا چاہیے کہ اس سےکیا سرگوشی کر رہا ہے اور تم آپس میں ایک دوسرے پر بلند آواز سے قرآن مت پڑھو(تاکہ ساتھ کے نمازیوں کو تکلیف نہ ہو)۔
قرآن مجید کی قراءت بڑے اجرو ثواب والاکام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ فَلَهُ بِهِ حَسَنَةٌ وَالْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا لَا أَقُولُ الم حَرْفٌ وَلَكِنْ أَلِفٌ حَرْفٌ وَلَامٌ حَرْفٌ وَمِيمٌ حَرْفٌ
(سنن ترمذی کتاب فضائل القرآن باب ما جاء فیمن قرأ حرفا من القرآن ما لہ من الأجر، صحیح سنن ترمذی حدیث نمبر 2910)
"جس نے کتاب اللہ میں سے ایک حرف پڑھا اس کے لیے ایک نیکی ہے اور نیکی کا اجر دس گنا ہوتا ہے۔ میں نہیں کہتا کہ "الم" حرف ہے بلکہ الف حرف ہے اور لام حرف ہے اور میم حرف ہے
"
ائمہ اور فقہاء میں سے امام زہری، امام مالک بن انس، عبداللہ بن مبارک، امام احمد بن حنبل ، امام ابن تیمیہ رحمہم اللہ اجمعین اور محدثین کی ایک جماعت سری نماز میں امام کے پیچھے قراءت کرنے کی قائل ہے جبکہ احناف میں امام محمد رحمۃ اللہ علیہ اور ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ سمیت کچھ دوسرےحنفی علماء بھی اسے درست کہا ہے۔
 

saviou

Moderator
Aug 23, 2009
41,203
24,155
1,313


سورۃ الفاتحہ ختم کرنے کے بعد آمین کہنا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم جب سورۃ الفاتحہ کی قراءت سے فارغ ہوتے تو بلند آواز سے آمین کہتے تھے اور مقتدیوں کو بھی ایسا ہی کرنے کا حکم دیا۔ فرمایا:
إِذَا قَالَ الإِمَامُ (غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ) فَقُولُوا آمِينَ ، فَإِنَّ الْمَلاَئِكَةَ تَقُولُ آمِينَ وَإِنَّ الإِمَامَ يَقُولُ آمِينَ ، فَمَنْ وَافَقَ تَأْمِينُهُ تَأْمِينَ الْمَلاَئِكَةِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ
(سنن الدارمی کتاب الصلاۃ باب فی فضل التامین، صحیح و ضعیف سنن النسائی حدیث نمبر 1071۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب جھر الماموم بالتامین)
"جب امام غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ کہے تو تم آمین کہو، کیونکہ (اس وقت) فرشتے آمین کہتے ہیں اور امام بھی آمین کہتا ہے، تو جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل گئی اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں"
اس یعنی مقتدی امام سے پہلے یا بعد میں آمین نہ کہے بلکہ اس کے ساتھ ہی کہے۔ اکثر نمازی اس میں تقدیم یا تاخیر کرتے ہیں جو درست نہیں ہے۔
اسی مضمون کی دوسری حدیث ہے :
إِذَا قَالَ أَحَدُكُمْ فِي الصَّلَاةِ آمِينَ وَالْمَلَائِكَةُ فِي السَّمَاءِ آمِينَ فَوَافَقَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَى غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ
(صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب التسمیع والتحمد و التامین، صحیح البخاری کتاب الاذان باب فضل التامین)
"جب تم میں سے کوئی نماز میں آمین کہتا ہے اور (اس وقت) فرشتے آسمان میں آمین کہتے ہیں۔ پھر (اگر) ان دونوں کی آمین میں موافقت ہو جائے تو اس (آمین کہنے والے) کے پہلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں"
صحیح مسلم کی حدیث میں ہے:
فَقُولُوا آمِينَ يُجِبْكُمْ اللَّهُ
(صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب التشھد فی الصلاۃ)
"(جب امام سورۃ فاتحہ ختم کرے تو) تم آمین کہو اللہ تمہاری دعا قبول فرمائے گا"
اللہ تعالیٰ نے اس امت کو آمین کے جو فضائل اور برکتیں عطا فرمائی ہیں یہود اس کی وجہ سے جلتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
مَا حَسَدَتْكُمْ الْيَهُودُ عَلَى شَيْءٍ مَا حَسَدَتْكُمْ عَلَى السَّلَامِ وَالتَّأْمِينِ
(سنن ابن ماجہ اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب الجھر بآمین، سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ 691)
"یہودی جس قدر سلام اور آمین کی وجہ سے تم پر حسد کرتے ہیں اتنا کسی دوسری چیز پر نہیں کرتے"

سورۃ فاتحہ کے بعد قراءت کا بیان


(نماز میں قرأت کی ترتیب یوں ہے کہ)سورۃ فاتحہ پڑھنے کے بعد کوئی دوسری سورت پڑھنی چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم عام طورپر لمبی قراءت فرماتے تھے لیکن کسی عذر جیسے سفر، کھانسی یا بیماری کے سبب سے مختصر تلاوت بھی فرمائی ہے، علاوہ ازیں دورانِ نماز کسی بچے کے رونے کی آواز آ جاتی تو قراءت مختصر کر کے رکوع میں چلے جاتے تا کہ اس کی ماں کو تکلیف نہ ہو کیونکہ اس وقت عورتیں بھی مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے آیا کرتی تھیں۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ایک دن فجر کی نماز دو چھوٹی سورتیں پڑھ کر نہایت اختصار کے ساتھ پڑھائی۔ صحابہ نے عرض کیا:
"اے اللہ کے رسول! آپ نے (آج)ہلکی نماز کیوں پڑھائی؟"
فرمایا:
سَمِعْتُ بُكَاءَ صَبِيٍّ فَظَنَنْتُ أَنَّ أُمَّهُ مَعَنَا تُصَلِّي فَأَرَدْتُ أَنْ أُفْرِغَ لَهُ أُمَّهُ
"میں نے ایک بچے کے رونے کی آواز سنی تو خیال کیا کہ اس کی ماں ہمارے ساتھ نماز پڑھ رہی ہو گی تو میں چاہا کہ اس کے لیے اس کی ماں کو جلد فارغ کر دوں"
(مسند احمدمسند انس بن مالک، )
دوسری حدیث میں ہے:
إِنِّي لَأَدْخُلُ فِي الصَّلَاةِ وَأَنَا أُرِيدُ إِطَالَتَهَا فَأَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ فَأَتَجَوَّزُ فِي صَلَاتِي مِمَّا أَعْلَمُ مِنْ شِدَّةِ وَجْدِ أُمِّهِ مِنْ بُكَائِهِ
میں نماز شروع کرتا ہوں اور اسے طول دینا چاہتا ہوں، پھر کسی بچے کا رونا سن کر اپنی نماز کو مختصر کر دیتا ہوں کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ اس کے رونے سے اس کی ماں کتنی سخت غمگین ہوجاتی ہے"
(صحیح البخاری کتاب الاذن باب من اخف الصلاۃ عند بکاء الصبی)
ضمنًا اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بچوں کو مسجد میں لانا جائز ہے ۔
چھوٹے بچوں کو مسجد میں لانے کے بارے میں جو حدیث عام طور پرمشہور ہے کہ "بچوں کو مسجدسے دور رکھو" وہ بالاتفاق ضعیف ہے۔ اسے ضعیف قرار دینے والوں میں امام ابن جوزی، امام منذری، امام ہیثمی، حافظ ابن حجر عسقلانی ، اور بوصیری شامل ہیں اور عبدالحق اشبیلی نے اسے بے اصل قرار دیا ہے۔
، لیکن افضل یہی ہے کہ انہیں مسجد میں نہ لایا جائے کیونکہ نہ تو انہیں حوائج ضروریہ پر قابو ہوتا ہے اور نہ ہی انہیں مسجد ، نمازیوں اور عبادت کرنے والوں کے آداب کا کچھ پتہ ہوتا ہے ، اور وہ اپنی فطری حرکات کی بنا پر بسا أٔوقات مسجد میں ناپاکی کا سبب بھی بن سکتے ہیں اور نمازیوں اور عبادت کرنے والوں کے لیے پریشانی کا سبب بھی ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا عام معمول یہ تھا کہ جب کوئی سورت شروع کرتے تو اسی رکعت میں اسے مکمل فرماتے تھے۔ ایک رکعت میں مکمل سورت پڑھنا اور ہر رکعت کو ایک سورت تک محدود رکھنا افضل ہے اگرچہ اس کا کچھ حصہ پڑھ لینے سے بھی نماز ہو جاتی ہے۔ حدیث میں ہے:
أَعْطُوا كُلَّ سُورَةٍ حَظَّهَا مِنْ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ
"ہر سورۃ کو رکوع و سجود (یعنی نماز) میں سے اس کا حصہ دو"
(مسند احمد مسند البصریین حدیث من سمع النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم، صحیح و ضعیف الجامع الصغیر حدیث نمبر 1934)
(
دوسری حدیث میں ہے:
لِكُلِّ سُورَةٍ رَكْعَةٌ
"ہر ایک سورت ایک رکعت کے لیے ہے"
(شرح معانی الآثار للطحاری کتاب الصلاۃ باب جمع السور فی الرکعۃ)
یعنی ہر رکعت میں ایک مکمل سورت پڑھو تا کہ اس کے ذریعے اس رکعت کا حصہ پورا ہو جائے۔
لیکن یہ حکم صرف استحباب کے لیے ہے کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے ثابت ہے کہ انہوں نے ایک ہی سورت دو رکعتوں میں مکمل کی اور کبھی ایسا بھی ہوا کہ جو سورت پہلی رکعت میں پڑھی دوسری رکعت میں بھی اسی کی تلاوت فرمائی جبکہ ایک رکعت میں ایک سے زائد سورتیں پڑھنابھی ثابت ہے۔
اس سلسلے میں ایک انصاری صحابی کا واقعہ ملتا ہے جو مسجد قباء میں جماعت کروایا کرتے تھے ۔ ان کا معمول تھا کہ ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد کوئی بھی دوسری سورت پڑھنے سے قبل "قل ھو اللہ احد" یعنی سورۃ الاخلاص پڑھا کرتے تھے۔ ان کے ساتھیوں نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا "کیا آپ کے خیال میں صرف اس (سورۃ الاخلاص) کی تلاوت کافی نہیں کہ آپ اسے پڑھنے کے بعد کوئی دوسری سورت ملانا ضروری سمجھتے ہیں؟ اسی کو پڑھا کریں یا پھر اسے چھوڑ کر کوئی دوسری سورت پڑھ لیا کریں۔" انہوں نے کہا "میں تو اس کو نہیں چھوڑ سکتا، تمہیں اسی حالت میں میری امامت اگرپسند ہے تو ٹھیک ورنہ میں امامت چھوڑ دیتا ہوں"۔ مقتدی انہیں اپنے میں سب سے افضل سمجھتے تھے اور کسی دوسرے کی امامت انہیں ناپسند تھی۔ لہٰذا معاملہ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے پاس لے جایا گیا تو انہوں نے اس صحابی سے دریافت فرمایا:
يَا فُلَانُ مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تَفْعَلَ مَا يَأْمُرُكَ بِهِ أَصْحَابُكَ وَمَا يَحْمِلُكَ عَلَى لُزُومِ هَذِهِ السُّورَةِ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ
"اے فلاں! تم اپنے ساتھیوں کی بات کیوں نہیں تسلیم کرتے اور کیوں ہر رکعت میں اس سورت کو لازمی پڑھتے ہو"؟
انہوں نے عرض کیا:
"مجھے اس (سورت) سے محبت ہے"
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
حُبُّكَ إِيَّاهَا أَدْخَلَكَ الْجَنَّةَ
" اس (سورت) سے تیری محبت تجھے جنت میں داخل کر دے گی"
(صحیح البخاری کتاب الاذان باب الجمع بین السورتین فی الرکعۃ۔ ۔ ۔۔)

قراءت سے متعلق کچھ مزید سنتوں کا بیان
ہم معنی سورتوں کو اکٹھا پڑھنا
سنت مطہرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کبھی کبھارنماز میں ان سورتوں کو ایک ہی رکعت میں پڑھا کرتے تھے جو معانی اور ٕمضمون میں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے "مفصل" سورتوں میں سے درج ذیل دو دو سورتیں ایک ہی رکعت میں پڑھیں۔ سورۃ ق یا اس سے اگلی سورۃ الحجرات سے لے کر سورۃ الناس تک کی سورتیں "مفصل" کہلاتی ہیں۔
{ الرَّحْمَن } (55 : 78 ) اور { النَّجْم } (53 : 62)
{ اقْتَرَبَتِ } (54 : 55) اور { الحَاقَّة } (69 : 52)
{ الطُّور } (52 : 49) اور { الذَّارِيَات } (51: 60)
{ إِذَا وَقَعَتِ } (56 : 96) اور { ن } (68 : 52)
{ سَأَلَ سَائِلٌ } (70 : 44) اور { النَّازِعَات } (79 : 46)
{ وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ } (83 : 36) اور { عَبَسَ } (80 : 42)
{ المُدَّثِّر } (74 : 56) اور { المُزَّمِّل } (73 : 20)
{ هَلْ أَتَى } (76 : 31) اور { لَا أُقْسِمُ بِيَوْمِ القِيَامَةِ } (75 : 40)
{ عَمَّ يَتَسَاءَلُونَ } (78 : 40) اور { المُرْسَلَات } (77 : 50)
{ الدُّخَان } (44 : 59) اور { إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ } (81 : 29)
(صحیح مسلم صلاۃ المسافرین و قصرھا باب ترتیل القراءۃ و اجتناب الھذ ، سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب تخریب القرآن، صحیح سنن ابی داؤدحدیث نمبر 1262)
ترتیب مصحف کا خیال رکھنا افضل ہے، ضروری نہیں:
اس فہرست میں سورت کے نام کے بعد دائیں جانب سورت نمبر اور بائیں جانب اس سورت میں آیات کی تعداد لکھی گئی ہے جس پر غور کرنے سے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نےانہیں مصحف میں موجود ترتیب کے مطابق نہیں پڑھا جس سے ترتیب کے خلاف پڑھنے کا جواز معلوم ہوتا ہے، لیکن ترتیب کا خیال رکھنا افضل اور بہتر ہے۔ اس کی دلیل وہ حدیث بھی ہے جس میں ذکر ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے تہجد پڑھتے ہوئے سورۃ البقرۃ، سورۃ النساء اور سورۃ آل عمران کو اسی ترتیب سے ایک ہی رکعت میں پڑھا تھا، یعنی سورۃ آل عمران کو سورۃ النساء کے بعد پڑھا جبکہ مصحف میں وہ سورۃ النساء سےپہلے آتی ہے ۔
لمبے قیام کی فضیلت
نماز میں لمبا قیام کرنا اور قرآن مجید کی زیادہ سے زیادہ قراءت کرنا افضل ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نےفرمایا:
أَفْضَلُ الصَّلَاةِ طُولُ الْقِيَامِ
(شرح معانی الآثار کتاب الصلاۃ باب القراءۃ فی رکعتی الفجر، صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا باب افضل الصلاۃ طول القنوت)
"افضل نماز وہ ہے جس میں لمبا قیام کیا جائے"
آیات کا جواب دینا
نماز میں کچھ آیات کا جواب دینا بھی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ مثلا:
جب سورۃ القیامۃ کی آخری آیت پڑھی جائے کہ أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِيَ المَوْتَى (تو کیا وہ (اللہ) اس پر قادر نہیں کہ مردوں کو زندہ کرے؟" تو اس کے جواب میں کہا جائے "سبحانك فَبَلى
(السنن الکبرٰی للبیہقی، صحیح سنن ابن داؤد حدیث نمبر 827)
سورۃ الاعلی میں سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى کے جواب میں سبحان ربي الأعلى پڑھنا چاہیے۔
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب الدعاء فی الصلاۃ، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر826)
اس حدیث کے الفاظ مطلق ہیں جب بھی یہ آیات پڑھی جائیں تو ان کا جواب دینا چاہیے چاہے انہیں نماز میں پڑھا جائے یا نماز سے باہر، اور نماز خواہ نفلی ہو یا فرض۔ابن ابی شیبہ نے ابو موسٰی اشعری اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہےکہ وہ دونوں جب فرض نماز میں ان کی تلاوت کرتے تو جواب میں یہ کلمات کہتےتھے اور عمر رضی اللہ عنہ اور علی رضی اللہ عنہ سے مطلقًا منقول ہے۔

 

saviou

Moderator
Aug 23, 2009
41,203
24,155
1,313


کیا صرف سورۃ فاتحہ پر اقتصار کرنا جائز ہے؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سورۃ الفاتحہ کے بعد قرآن مجید کی کوئی سورت پڑھا کرتے تھے۔ ایک صحابی کو نماز کا طریقہ سکھاتے ہوئے بھی سورۃ الفاتحہ کے بعد قرآن میں سے جو آسان لگے اسے پڑھنے کا حکم ارشاد فرمایا لیکن اگر کوئی شخص صرف فاتحہ الکتاب پڑھ لے تو بھی اس کی نماز درست ہے اگرچہ اسے معمول بنا لینا صحیح نہیں ہے۔ اس کی دلیل معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے واقعے میں ملتی ہے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ساتھ عشاء کی نماز ادا کرتے، پھر واپس (اپنے محلہ میں آ کر) اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھاتے۔ ایک دن انہوں نے واپس آ کر نماز پڑھانی شروع کی تو ان کے قبیلے بنی سلمہ کا سلیم نامی نوجوان بھی نماز میں شریک تھا۔ (معاذ رضی اللہ عنہ نے لمبی قراءت شروع کر دی) تو اس نے اکتا کر (جماعت چھوڑ دی اور) مسجد کے ایک کونے میں نماز ادا کی، پھر مسجد سے نکل کر اپنے اونٹ کی نکیل پکڑی اور چل دیا۔جماعت ختم ہونے کے بعد معاذ رضی اللہ عنہ سے اس واقعے کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے کہا "اس شخص میں ضرور نفاق ہے، میں اس کی حرکت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو آگاہ کروں گا"۔(ادھر اس) نوجوان نے کہا "میں بھی ضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو معاذ کی حرکت سے مطلع کروں گا"۔ صبح دونوں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے ۔ معاذ رضی اللہ عنہ نے نوجوان کی شکایت کی تو اس نے (اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے) کہا:
"اے اللہ کے رسول، یہ رات دیر گئے تک آپ کے پاس ٹھہرے رہتے ہیں، پھر وہاں سے واپس آ کر طویل قراءت شروع کر دیتے ہیں"
اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے (معاذ رضی اللہ عنہ پر ناراضگی کا اظہار فرماتے ہوئے) کہا:
يَا مُعَاذُ أَفَتَّانٌ أَنْتَ
"اے معاذ کیا تو(لوگوں کو) فتنے میں مبتلا کرنے والاہے؟"
پھر نوجوان سے فرمایا:
كَيْفَ تَصْنَعُ يَا ابْنَ أَخِي إِذَا صَلَّيْتَ
"بھتیجے! جب تو نماز ادا کرتا ہے تو کیا (قراءت) کرتا ہے؟"
اس نے کہا:
"میں فاتحۃ الکتاب پڑھتا ہوں اور (پھر نماز کے آخر میں تشھداور نبی صلی اللہ و علی آلہ وسلم پر صلاۃ پڑھنے کے بعد) اللہ سے جنت کا سوال کرتا ہوں اور جہنم سے پناہ مانگتا ہوں۔مجھے نہیں معلوم کہ آپ اور معاذ (اس وقت ) آہستہ آواز میں کیا پڑھتے ہیں۔"
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
إِنِّي وَمُعَاذًا حَوْلَ هَاتَيْنِ أَوْ نَحْوَ هَذَا
“میں اور معاذ انہی دو کے ارد گرد (بات کرتے ہیں) یا اسی طرح کی بات کرتے ہیں”
(اس سے سورۃ فاتحہ پر اقتصار کا جواز معلوم ہوتا ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اس صحابی کے صرف سورۃ فاتحہ پڑھنے پر خاموشی کا اظہار فرمایا اور انہیں سورت ملانے کا حکم نہیں دیا)
(ان دنوں دشمن کے حملے کی خبر گرم تھی اور صحابہ جنگ احد کی تیاری کر رہے تھے) تو اس نوجوان نے کہا:
“ جب دشمن آ پہنچے گا اور لوگوں کواس کے آنے کی خبر ہو جائے گی تو معاذ کو بھی معلوم ہو جائے گا (کہ میں منافق نہیں ہوں)۔
پھر (میدانِ اُحد میں)دشمن سے سامنا ہوا اور یہ نوجوان صحابی اللہ کی راہ میں لڑتے ہوئے شہید ہو گیا۔ بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا:
مَا فَعَلَ خَصْمِي وَخَصْمُكَ ؟
“مجھ سے اور تجھ سے جھگڑا کرنے والے نے کیا کیا”؟
تو معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:
“اے اللہ کے رسول، اس نے اللہ کی تصدیق کی اور میں نے جھٹلایا، وہ تو شہید ہو گیا ہے”
حوالہ جات:
سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب فی تخفیف الصلاۃ، صحیح سنن ابی داؤد ، 757، 758
صحیح ابن خزیمہ جلد سوم ص 65 المکتب الاسلامی بیروت،
سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب ما یقال بعد التشھد و الصلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم
 

saviou

Moderator
Aug 23, 2009
41,203
24,155
1,313


سری اور جہری قراءت کن نمازوں میں کرنی چاہیے

سنت مطہرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم (جماعت کرواتے ہوئے)نماز فجر کی دونوں رکعتوں اور مغرب اور عشاء کی پہلی دو رکعتوں میں بلند آواز سے قراءت فرماتے تھے جبکہ ظہر و عصر کی تمام رکعتوں، مغرب کی تیسری اور عشاء کی آخری دو رکعتوں میں سری قراءت کرنا سنت ہے۔ اس پر امت مسلمہ کا اجماع ہے جیسا کہ امام نوویؒ نے بیان کیا ہے اور اس بارے میں کثرت سے احادیث بھی موجود ہیں جن کا بیان آگے مسنون(یعنی سنت کے مطابق) قراءت کے ذیل میں آئے گا ان شاء اللہ۔ نیز نمازِ جمعہ[1]، نماز عیدین[2]، نماز استسقاء[3] اور نماز کسوف[4]میں بلند آواز سے قراءت کرنا سنت ہے۔

صحابہ کوسری قراءت کا علم کیسے ہوتا تھا
سری قراءت کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی داڑھی مبارک ہلا کرتی تھی جس سے صحابہ کرام کو معلوم ہو جاتا کہ وہ قراءت فرما رہے ہیں[5]، جبکہ کبھی کبھار ایسا ہوتا کہ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم درمیان میں کوئی آیت بلند آواز سے پڑھ دیا کرتے جس سے سننے والے جان لیتے کہ وہ کون سی سورت پڑھ رہے ہیں[6]۔

رات کے نوافل (تہجد) میں قراءت کیسے کی جائے
رات کے نوافل (تہجد) میں نمازی کو اختیار ہے چاہے بلند آواز سے پڑھے یا آہستہ آواز میں، دونوں طریقے سنت سے ثابت ہیں [7]، لیکن آواز اتنی بلندنہیں ہونی چاہیے جس سے دوسروں کو تکلیف ہو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم رات کو اپنے گھر میں درمیانی آواز میں قراءت فرماتے تھے جسے حجرے میں موجود شخص ہی سن سکتا تھا[8]۔(یہاں حجرہ سے مراد وہ دیوار یا آڑ ہے جو گھر کے دروازے کے سامنے بنائی جاتی ہے ، جیسا کہ گھر کی بیرونی چار دیواری)، لیکن کبھی کبھارمعمول سے ہٹ کر اتنی بلند آواز میں بھی پڑھا ہے کہ حجرے سے باہر موجود افراد کو سنائی دے سکے[9]۔

تہجد وغیرہ میں سری اور جہری میں کونسا طریقہ افضل ہے
یہاںسوال پیدا ہوتا ہے کہ سری اور جہری میں افضل طریقہ کون سا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ جس آدمی کو ریاکاری اور دکھاوے کا اندیشہ ہواس کے لیے آہستہ آواز میں پڑھنا افضل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ہے:
الْجَاهِرُ بِالْقُرْآنِ كَالْجَاهِرِ بِالصَّدَقَةِ وَالْمُسِرُّ بِالْقُرْآنِ كَالْمُسِرِّ بِالصَّدَقَةِ
"قرآن کی جہری قراءت کرنے والا اس شخص کی طرح ہے جو اعلانیہ صدقہ کرتا ہے اور پست آواز سے قرآن پڑھنے والا چھپا کر صدقہ کرنے والے کی مانند ہے"
اور جب ریاکاری کا ڈر نہ ہوتو درمیانی آواز سے پڑھنا افضل ہے کیونکہ ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کو ایسا کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے تو دیکھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ آہستہ آواز سے نماز پڑھ رہے ہیں، پھر عمر رضی اللہ عنہ پر سے گزر ہوا تو انہیں بآواز بلند قراءت کرتے پایا۔ بعد میں جب وہ دونوں حاضر ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ابو بکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
يَا أَبَا بَكْرٍ مَرَرْتُ بِكَ وَأَنْتَ تُصَلِّي تَخْفِضُ صَوْتَكَ
"اے ابو بکر! میں (رات کو) آپ کے (گھر کے) پاس سے گزرا تو (دیکھا کہ) آپ آہستہ آواز میں نماز پڑھ رہے ہیں"
ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:
"اے اللہ کے رسول!(اس کی وجہ یہ ہے کہ )میں جس (رب) سے سرگوشی کر رہا تھا وہ تو (ہلکی آواز بھی) سنتا ہے"۔
پھر عمر رضی اللہ عنہ سے کہا:
مَرَرْتُ بِكَ وَأَنْتَ تُصَلِّي رَافِعًا صَوْتَكَ
"میرا گزر جب آپ پر ہوا تو آپ نماز میں بلند آوا زسے قراءت کر رہے تھے"
انہوں نے جواب دیا:
"یا رسول اللہ! میرا ارادہ سوئے ہوئے کو جگانے اور شیطان کو بھگانے کا تھا"
اس پر نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
يَا أَبَا بَكْرٍ ارْفَعْ مِنْ صَوْتِكَ شَيْئًا
"اے ابوبکر، آپ اپنی آواز کچھ بلند کر لیا کریں"
اور عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
اخْفِضْ مِنْ صَوْتِكَ شَيْئًا
"آپ اپنی آواز کچھ پست کیا کریں"
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب فی رفع الصوت بالقراءۃ فی صلاۃ اللیل، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 1329)

دن کے نوافل میں قراءت کیسے ہو:
دن میں پڑھے جانےو الے نوافل کے بارے میں صحیح سند کے ساتھ کچھ بھی مروی نہیں ہے لیکن بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سری قراءت کرنی چاہیے۔ البتہ ایک ضعیف حدیث میں ہےکہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے تو دیکھا کہ وہ نفل پڑھتے ہوئے اونچی آواز میں قراءت کر رہے ہیں تو ان سے فرمایا :
يا عبد الله ! سمِّع الله ولا تُسْمِعنا
"اے عبداللہ! اللہ کو سنا ہمیں نہ سنا"

حوالہ جات:

[1] ۔ صحیح مسلم کتاب الجمعۃ باب ما یقرأ فی صلاۃ الجمعۃ

[2] ۔ سنن ابن ماجہ اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب ما جاء فی القراءۃ فی صلاۃ العیدین

[3] ۔ صحیح البخاری کتاب الجمعۃ باب کیف حول النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ظھرہ الی الناس

[4] ۔ سنن ابن داؤد کتاب الصلاۃ باب القراءۃ فی صلاۃ الکسوف۔ صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 118

[5] ۔ صحیح البخاری کتاب الأذان باب رفع البصر الی الأمام فی الصلاۃ

[6] ۔ صحیح البخاری کتاب الأذان باب یقرأ فی الأخریین بفاتحۃ الکتاب

[7] ۔ سنن ترمذی کتاب الصلاۃ باب ما جاء فی قراءۃ اللیل۔ صحیح سنن ترمذی حدیث نمبر 449)

[8] ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب فی رفع الصوت بالقراءۃ فی صلاۃ اللیل، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 1327)

[9] ۔ سنن ابن ماجہ کتاب الصلاۃ باب ما جاء فی القراءۃ فی صلاۃ اللیل، صحیح و ضعیف سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 1349)

 

saviou

Moderator
Aug 23, 2009
41,203
24,155
1,313


احادیث صحیحہ میں کچھ ایسی سورتوں کا بیان ہے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے مختلف اوقات میں مختلف نمازوں میں پڑھا۔ ذیل میں ان کی تفصیل دی جا رہی ہے تا کہ جن لوگوں کو یہ سورتیں یاد ہیں وہ انہیں متعلقہ نمازوں میں پڑھیں اور جنہیں یاد نہیں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے طریقےپر عمل پیرا ہونے کی نیت سے انہیں سیکھنے کی کوشش کریں۔ واضح رہے کہ اس تحقیق کے پیچھے اتباع رسول کا جذبہ ہے ورنہ قرآن مجید کی کوئی بھی سورت نماز میں پڑھی جا سکتی ہے۔

نماز فجر میں مسنون قراءت
نماز فجر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے درج ذیل سورتیں پڑھنا منقول ہے۔( مصحف میں تلاش کی آسانی کی خاطر نام کے بعد قوسین کے اندر سورت کا نمبر لکھ دیا گیاہے)

1۔ طوال مفصل کی سورتیں[1]( چھبیسویں پارے میں سورۃ ق (50) سے آخر قرآن تک کی سورتیں طوال مفصل کہلاتی ہیں)۔ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ان میں سے سورۃ الطور(52) کی تلاوت فرمائی تھی[2]۔ سورۃ الواقعہ (56) کو فجر کی دورکعتوں میں[3] اور سورۃ ق (50) کو پہلی رکعت میں پڑھنا بھی ثابت ہے[4]۔

2۔ سورۃ التکویر (81) (اذا الشمس کورت)[5]

3۔ سورۃ الزلزال (99) (اذا زلزلت الأرض زلزالھا)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نےایک دفعہ دونوں رکعتوں میں یہی سورت پڑھی تھی۔ اس حدیث کے راوی صحابی کہتے ہیں "مجھے نہیں معلوم کہ (دونوں رکعتوں میں ایک ہی سورت) پڑھنا بھولنے کی وجہ سے تھا یا نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے عمدًا ایسا کیا تھا"[6]۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مقصود دونوں رکعتوں میں ایک ہی سورت پڑھنے کی مشروعیت اور جواز بتانا تھا۔

4۔ ایک سفر میں نماز فجرپڑھاتے وقت "قل اعوذ برب الفلق" اور "قل اعوذ برب الناس" یعنی سورۃ الفلق (113) اور سورۃ الناس (114) کی تلاوت فرمائی۔ ان دونوں سورتوں کونماز میں پڑھنے کا حکم ایک دوسری حدیث میں بھی ملتا ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے عقبہ بن معاذ رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہو کر فرمایا تھا؛
" اقرأ في صلاتك المعوذتين
"اپنی نماز میں معوذتین پڑھا کرو[7]
فما تَعَوَّذَ مُتَعَوِّذٌ بمثلهما
" ان جیسی کوئی (شئے ایسی) نہیں ہے جس کے ساتھ کسی پناہ لینے والے نے پناہ لی ہو"[8]

5۔ کبھی کبھار ان متوسط اور چھوٹی سورتوں کی بجائے ساٹھ آیات یا اس سے کچھ زیادہ کی قراءت بھی فرمائی ہے[9]۔ ( اس حدیث کے ایک راوی کا کہنا ہے کہ "میں نہیں جانتا اتنی قراءت دونوں رکعتوں میں ہوتی تھی یا ایک رکعت میں۔)

6۔ سورۃ الروم (30)[10]، سورۃ یس (36) [11] ، سورۃ الصافات (37)[12] اور سورۃ المومنون (23)۔ سورۃ المومنون کی قراءت مکہ مکرمہ میں صبح کی نماز پڑھاتے ہوئے فرمائی تھی، پھر اس سورت میں موسیٰ و ہارون علیہما السلام یا پھر عیسیٰ علیہ السلام (راوی کو شک ہے) کے ذکر پر پہنچے تو کھانسی آ جانے کی وجہ سے رکوع میں چلے گئے[13]۔

8۔ جمعے کے دن نماز فجر کی پہلی رکعت میں "الم ، تنزیل" یعنی سورۃ السجدۃ (32) اور دوسری رکعت میں "ھل اتی علی الانسان" یعنی سورۃ الدھر (76) کا پڑھنا مسنون ہے[14]۔(لیکن ائمہ مساجد کو چاہیے کہ کبھی کبھار ان کی بجائے کوئی دوسری سورت پڑھا کریں تا کہ کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ اس دن انہی سورتوں کو پڑھنا لازم ہے)
سنت مطہرہ کےعمومی قاعدہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ نماز پڑھتے ہوئے دوسری رکعت کوپہلی رکعت کی نسبت مختصر رکھنا چاہیے[15]۔

حوالہ جات:

[1] ۔ سنن نسائی الکبرٰی جلد 1 ص 338، صحیح و ضعیف سنن نسائی حدیث نمبر 982 ۔ حدیث حسن

[2] ۔ سنن ابی داؤد کتاب المناسک باب الطواف واجب، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 1882)

[3] ۔ صحیح ابن خزیمہ جلد 1 ص 265 ناشر المکتب الاسلامی بیروت، مسند احمد مسند البصریین حدیث جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ

[4] ۔ صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب القراءۃ فی الصبح

[5] ۔ صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب القراءۃ فی الصبح

[6] ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب الرجل یعید سورۃ واحدۃ فی الرکعتین، صحیح و ضعیف سنن ابی داؤد حدیث نمبر 816

[7] ۔ ۔ مسند احمد مسند البصریین حدیث رجل رضی اللہ عنہ

[8] ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب فی المعوذتین۔ صحیح و ضعیف سنن ابی داؤد حدیث نمبر 1462

[9] ۔ سنن ترمذی کتاب الصلاۃ باب ما جاء فی القراءۃ فی صلاۃ الصبح۔ صحیح و ضعیف سنن ترمذی حدیث نمبر 306

[10] ۔ رواہ البزار

[11] ۔ المعجم الکبیر للطبرانی جلد 2 ص 361 حدیث 2019

[12] ۔ مسند احمد مسند المکثرین من الصحابہ مسند عبداللہ بن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ

[13] ۔ صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب القراءۃ فی الصبح

[14] ۔ صحیح البخاری کتاب الجمعۃ باب ما یقرأ فی صلاۃ الفجر یوم الجمعۃ

[15] ۔ صحیح البخاری کتاب الأذان باب یقرأ فی الأخریین بفاتحۃ الکتاب

 

Toobi

dhondo gy molko molko milnay k nae,nayab hum..
Hot Shot
Aug 4, 2009
17,252
11,897
1,313
39
peshawar
mashaAllah saviou bhai,apnay itnay achay tareqay say sab bataya hay,pora to nae par saki,but i think jub kabe hamay koe masla hoga nimaz k masayel may to hum is tread say help lay saktay hay,jazakAllah khair bhai.
 

saviou

Moderator
Aug 23, 2009
41,203
24,155
1,313
mashaAllah saviou bhai,apnay itnay achay tareqay say sab bataya hay,pora to nae par saki,but i think jub kabe hamay koe masla hoga nimaz k masayel may to hum is tread say help lay saktay hay,jazakAllah khair bhai.
Allahi barik feek :)
bilkul aur hosake to aap isko copy karen aur sare doston tak isko pahunchayen
kyun koi bhi agar koi cheez bata ta hai to uske paas daleel nahi hoti
yahan apko sab referrence k sath hai

Allah hame amal ki taufeeq de Aameen
 

Hoorain

*In search of Oyster Pearls*
VIP
Dec 31, 2009
108,467
40,710
1,313
A n3st!
JAZAKALLAH saviou bhaya
MASHAALLAH aap ne bohat ache tareeqe se har baat samjhai hay

par me ko aik do batain poochni hain :(
 

Amreen

VIP
May 16, 2010
10,028
4,265
1,313
India
Jazak Allah Khair...bohat hi umda sharing savio bro...bohat hi informative post ki hai aapne Allah aapko iski jaza zaroor dega...
 

*lucky*

Newbie
Aug 9, 2010
4,386
1,581
0
sweet home
Jazakallah

great work saviou :)

main ny 2nd page nahi praa wo main baad main par loon gi actually main thak ga e thi :p

aap mujhy baad main yaad krwa dain gay taa k main 2nd page b pr sakoon ? :p

superrrrbbb sharing :)
 
Top