ازمنہ قدیم سے اس کرہ ارضی پر انسان کے دو گروہ رہے ہیں. ایک گروہ یہ سمجھتا آیا ہے کہ وہ خدا تک اپنے مراقبہ اور تپسیا کے ذریعے سے پہنچ سکتے ہیں. اس ذریعہ یا طریقہ کار میں انسانی روح کو دنیاوی قید و بندھن سے آزاد کرنا ہوتا ہے. الله تک رسائی کایہ ازمنہ قدیم سے استعمال میں ہے اور ہم انکے کرنے والوں کو سادھو یا راہب کے نام سے جانتے ہیں
اس سوچ کے خلاف ایک دوسرا گروہ بھی ہے جو یہ مانتا ہے کہ الله تک رسائی اس طرح نہیں ہو سکتی. الله ہمارا خالق اور پالنہار ہے لہذا ہدایت بھی اسی کی طرف سے آنی چاہیے. الله نے انبیاء و رسل کو انسانوں میں سے منتخب کیا اور ان پر وحی بھیجی ہے. اسلام، نصرانیت اور یہودیت اصلاً اس گروہ سے تعلّق رکھتے ہیں
اسلام اصلاً ایک خالص توحیدی دین سے شروع ہوا لیکن یہودی، نصرانی، ہرمسی اور غناسطی سرّیت و تصوف سے متاثر ہوا. اس کتابچہ میں انہی لہروں کے امتزاج کا نقشہ پیش کیا گیا ہے. لہذا کتابچہ کا نام مجمع البحرین رکھا ہے یعنی وہ مقام جہاں دو سمندرآپس میں ٹکرائیں یا مل کر اپنی انفرادیت کھو بیٹھیں. جو بات قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ اس امتزاج کی اصل وجہ شاید نقل اور سرقہ نہیں بلکہ اس مشابہت کا راز راہب اور تپسوی کے اس طریقہ کار میں پوشیدہ ہے جو انسان کی اجتماعی سوچ اور اس کی محدودیت کا عکاس ہے
مکّہ میں رات کا وقت ہے. محمّد صلی الله علیہ وسلم ، ایک ایسے رب کی عبادت میں مشغول ہیں جو نظر نہیں آتا. محمّد آج اس مقام پر اپنے خوابوں کی وجہ سے ہیں . انہوں نے نہ ہی کوئی مکاشفہ دیکھا ہے اور نا ہی مراقبہ کیا ہے. انہوں نے صرف سچے خواب دیکھے ہیں جو صبح کی روشی کی طرح حقیقت آشکار ہو رہے ہیں. محمّد جاننا چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے. لہذا وہ اس کی حقیقت کی تلاش میں کوہ حرا پر غار میں آئے ہیں اور یہاں التحنث (الله کے قرب کی عبادت ) میں مشغول ہیں. انہوں نے ابھی یہ چند ایام ہی کیا تھا کہ ایک فرشتہ صورت انسانی میں نمودار ہوا اور کہا
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (1) خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ (2) اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ (3) الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ (4) عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ (5)
پڑھ ! اپنے رب کے نام سے، جس نے تجھ کو خلق کیا. انسان کو خلق کیا، خوں کے لوتھڑے سے. پڑھ! کہ تیرا رب بہت کرم والاہے. جس نے انسان کو قلم سے سکھایا ہے. انسان کو وہ کچھ سکھایا ہے جس کو انسان نہیں جانتا تھا
اگلے ٢٣ سال میں وحی الہی کا نزول ہوتا ہے جس کو آج ہم قرآن کہتے ہیں. محمّد صلی الله علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ اب یہ آخری رابطہ ہے جو الله نے اپنی انسانی مخلوق سے کیا ہے. اور یہ پیغام سادہ ہے کہ
وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْ السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
(153)
اور بے شک یہ رستہ میرا سیدھا رستہ ہے، پس اس پر چلو اور دوسری راہوں پر نہ چلو کیونکہ یہ تم کو سیدھی راہ سے بھٹکا دیں گی. اور یہ تم کو وصیت کی جاتی ہے تاکہ تم متقی بنو
الله نے سوره البقرہ، آیت ٢٥٦ میں کہا
لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنْ بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انْفِصَامَ لَهَا وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
الدین (اسلام ) میں کوئی زبردستی نہیں بے شک ہدایت گمراہی سے الگ ھو چکی ہے پس جس نے طاغوت کا کفر کیا اور الله پر ایمان لایا اس نے مظبوط حلقہ تھام لیا جو ٹوٹنے والا نہیں اور الله سننے والا جاننے والا ہے
الله نے بتایا کہ ساری انسانیت کا ایک ہی دین تھا
وإِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّقُونِ
(52)
اور بے شک یہ تمہاری امّت (دین) ایک ہی امت ہے اور میں ہی تمہارا رب ہوں، لہذا مجھی سے ڈرو
انبیاء کی دعوت اصل میں میں ایک ہی دعوت ہے. الله سوره الشوریٰ میں کہتا ہے
شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ اللَّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ يُنِيبُ (13) وَمَا تَفَرَّقُوا إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَبِّكَ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ وَإِنَّ الَّذِينَ أُورِثُوا الْكِتَابَ مِنْ بَعْدِهِمْ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مُرِيبٍ (14) فَلِذَلِكَ فَادْعُ وَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَقُلْ آَمَنْتُ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنْ كِتَابٍ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ اللَّهُ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ لَا حُجَّةَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ اللَّهُ يَجْمَعُ بَيْنَنَا وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ
(15)
الله نے تمہارے لئے اسی دین کا حکم دیا ہے جس کا حکم اس نے تم سے پہلے نوح کو دیا، جس کو تم پر اے محمّد نازل کیا اورجس کا حکم ابراہیم کو، موسیٰ کو اورعیسیٰ کو کیا کہ دین کو قایم کرو اور اس میں فرقے نہ بنو. مشرکوں پر تمہاری دعوت بہت گراں گزرتی ہے . الله جس کو چاہتا ہے چنتا ہے اور اپنی طرف ہدایت دیتا ہے رجوع کرنے والے کو. اور انہوں نے اختلاف نہ کیا ، لیکن علم آ جانے کے بعد آپس میں عداوت کی وجہ سے. اور اگر یہ پہلے سے تمہارے رب نے (مہلت کا ) نہ کہا ہوتا تو ان کا فیصلہ کر دیا جاتا. اور بلاشبہ جن کو ان کے بعد کتاب کا وارث (یہود و نصاریٰ) بنایا گیا تھا وہ اس بارے میں سخت خلجان میں مبتلا ہیں. پس ان کو تبلیغ و تلقین کرو اور استقامت اختیار کرو جیسا حکم دیا گیا ہے اور ان کی خواہشات کی اتباع نہ کرو بلکہ کہو: میں اس کتاب پر ایمان لایا ہوں جو الله نے نازل کی ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے درمیان عدل کروں ، الله ہی میرا اور تمہارا رب ہے. ہمارے لئے ہمارا عمل اور تمہارے لئے تمہارا عمل. ہمارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں . بے شک الله ہم سب کو جمع کرے گا اور ہمیں اسی کیطرف پلٹنا ہے
اس کا مطلب یہ ہوا کہ سارے انبیاء ایک ہی دین پر تھے جس کا اصل توحید، انکار طاغوت، آخرت کا خوف اور الله کی مغفرت کی امید تھا. نبی صلی الله علیہ وسلم نے (صحیح مسلم) فرمایا
الأنبياء إخوة من علات وأمهاتهم شتى ودينهم واحد
انبیاء آپس میں بھائی بھائی کی طرح ہیں جن کی مائیں جدا ہوں اور ان سب کا دین ایک ہے
ان آیات کی روشنی میں یہ واضح ہے کہ اب الله کو جاننے کے لیے کسی اور ذریعہ کی ضرورت نہیں. الله کی طرف سے وحی آ چکی ہے. اس کے باوجود انسانیت نے ایک دوسرے طرق کو استعمال کیا جس کو سرّیت و تصوف کہتے ہیں
الله تعالی سوره الحدید میں کہتا ہے
ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلَى آثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا وَقَفَّيْنَا بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَآتَيْنَاهُ الإنْجِيلَ وَجَعَلْنَا فِي قُلُوبِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ رَأْفَةً وَرَحْمَةً وَرَهْبَانِيَّةً ابْ تَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا فَآتَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا مِنْهُمْ أَجْرَهُمْ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ فَاسِقُونَ
(27)
پھر اس کے بعد ہم نے اپنے انبیاء اور عیسیٰ ابن مریم کو بھیجا اور اس کو انجیل دی اور ان ماننے والوں کے دلوں میں رحم اور رقت ڈال دی اور رہبانیت کو انہوں نے شروع کیا تاکہ الله کی رضا حاصل کریں ، ہم نے اس کا حکم نہ دیا تھا، لیکن وہ اس کو کما حقہ ادا نہ کر سکے پس ہم نے ایمان والوں کو اجر دیا اور اکثر ان میں سے فاسق ہیں
ان وجوہات کی بنا پر اسلام کے ابتدائی دور میں تصوف کی کوئی نظیر نہیں ملتی. اور سرّیت و تصوف کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے بھی دیکھا گیا. لیکن ایک غیر محسوس انداز میں یہ آج اسلام میں سب سے زیادہ چلتا دھرم ہے اور اس کو شریعت کے مقابل طریقت کا نام دیا گیا ہے. قارئین اس کتابچہ کو پڑھتے ہوۓ متحیر ہوں گے کہ کس طرح یہودی، نصرانی اور غناسطی سرّیت و تصوف کو مشرف با اسلام کیا گیا ہے