کشمیر اور فلسطین کو حل طلب ایشو سمجھتے تو ثالثی ضرور کرتے
مضحکہ خیز بات ہے کہ فریقین کو مشورہ دیا جا رہا ہے
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
يہ غلط تاثر کہ امريکی حکومت يا تو کشمير ميں جاری تشدد کی لہر سے بالکل بے خبر ہے يا اس کو اہميت دينے کو تيار نہيں ہے، بعض راۓ دہندگان اور تجزيہ نگاروں کی اس سوچ کی بنياد پر ہے کہ امريکہ کو پاکستان اور بھارت کے کشمير پر موجودہ موقف کے ضمن ميں کسی ايک کا انتخاب کر کے اس کا ساتھ دينا چاہيے۔
امريکی حکومت نا صرف يہ کہ خطے ميں موجود بے چينی سے پوری طرح آگاہ ہے بلکہ ہم اپنے دونوں اتحاديوں کو مسلسل يہ باور کرواتے رہتے ہيں کہ تشدد کی لہر کے خاتمے کے ليے باہمی بات چيت کے عمل کو تيز اور فعال کرنے کی ضرورت ہے کيونکہ موجودہ صورت حال کسی بھی فريق کے ليے سود مند نہيں ہے۔
امريکی حکومت نا صرف يہ کہ کشمير کے تنازعے کو اہم اور حل طلب ايشو کے حوالے سے تسليم کرتی ہے بلکہ اس بات کا بھی ادراک رکھتی ہے کہ تشدد اور انسانی جانوں کا زياں کئ دہائيوں پر محيط اسی مسلۓ کی مرہون منت ہے۔ تاہم ان مسائل کواس طريقے حل کيا جانا چاہیے جو تمام فريقین کے ليے قابل قبول ہو۔
امريکی حکومت کے ليے يہ ممکن نہيں ہے کہ تن تنہا خودمختار ممالک کو ان کی مرضی کے برخلاف ان مسائل کے حل اور اس ضمن میں شرائط پر مجبورکرے۔ ايسا اقدام نقصان دہ ثابت ہو گا۔
اس ضمن ميں کوششوں کا آغاز براہراست فريقين کی جانب سے ہی کيا جانا چائيے
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ