وسعتِ دہر میں امکاں ہے کہیں کھو جائیں
یا تو ہم خاک کے بستر میں کہیں سو جائیں
اپنی ہی زلف سنواریں تو ہمیں کیا حاصل
زندگی کا جو ہے مقصد اسی کے ہو جائیں
مرقدِ زیست پر آئیں تو مبادا یاد آئے
اپنے ہاتھوں پہ لگے خون کو ہی دھو جائیں
اپنی فطرت میں نہ شوخی و نہ طراری ہے
کس طرح ہم بھی نمائش کی نذر ہو جائیں
کیوں سن و سال گزارے نہ قرینے سے گل
آب ِگریہ سے گلستان کو ہی دھوجائیں
زنیرہ گل
یا تو ہم خاک کے بستر میں کہیں سو جائیں
اپنی ہی زلف سنواریں تو ہمیں کیا حاصل
زندگی کا جو ہے مقصد اسی کے ہو جائیں
مرقدِ زیست پر آئیں تو مبادا یاد آئے
اپنے ہاتھوں پہ لگے خون کو ہی دھو جائیں
اپنی فطرت میں نہ شوخی و نہ طراری ہے
کس طرح ہم بھی نمائش کی نذر ہو جائیں
کیوں سن و سال گزارے نہ قرینے سے گل
آب ِگریہ سے گلستان کو ہی دھوجائیں
زنیرہ گل