آ کسی روز کسی دکھ پہ اکٹھے روئیں
جس طرح مرگِ جواں سال پە دیہاتوں میں
بوڑھیاں روتے ہوئے بین کیا کرتی ہیں
جس طرح ایک سیاە پوش پرند کے کہیں گرنے سے
ڈار کے ڈار زمینوں پہ اتر آتے ہیں
چہکتے شور مچاتے ہوئے کرلاتے ہیں
اپنے محروم رویوں کی المناکی پر
اپنی تنہائی کے ویرانوں میں چھپ کر رونا
اک نئے دکھ کے اضافے کے سوا کچھ نہیں
اپنی ہی ذات کے گنجال میں الجھ کر تنہا
اپنے گمراە مقاصد سے وفا ٹھیک نہیں
قافلہ چھوڑ کے صحرا میں صدا ٹھیک نہیں
ہم پرندے ہیں نہ مقتول نہ ہوائیں پھر بھی
آ کسی روز کسی دکھ پہ اکٹھے روئیں...