· ایمان کی کمزوری پر قابو پانے کے لئے کیا کرنا چاہئے؟
· آج کےمعاشروں پر ایمان کی کمزوری کے کيا تباہ کن اثرات پڑ رہے ہيں؟
· عقیدے کی کمزوری اوراِس مسئلے پر قابو پانے کی تجاویز کے بارے میں جناب عدنان آکٹر کے خیالات کيا ہیں؟
اللہ تعالی نے قرآن پاک میں دو اہم نکات کی طرف توجہ مبزول کرایٔ ہے. ان میں سے ایک لوگوں میں ایمان کی کمزوری ہے. اللہ نے قرآن پاک میں وضاحت کی ہے کہ لوگوں کی اکثریت کی حقیقی روحانی بیماری اللہ پر ايمان لانے یا اس کی کافی تعریف نہ کرنے کی وجہ نہيں ہے بلکہ:
"صرف اس صورت میں اگر ہميں ایک دوسرا موقع مل جاۓ تو ہم مومنوں میں سے ہونگے!" اس بات ميں یقینی طور سے ایک نشانی ہے، لیکن ان میں سے اکثر ايمان نہیں رکھتےہیں. "(سورت الشعرا، 102-103)
لوگوں کی اکثریت ایمان کی کمزوری میں مبتلا ہے، اور ہمارے رب نے قرآن میں ایمان کی اہمیت پر بہت توجہ دلایٔ ہے:
"وہ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ايمان رکھتے ہیں، اور حق کا حکم ديتے ہيں اور غلط باتوں سے منع کرتے ہيں، اور اچھے کام کرنے میں مقابلہ بازی کرتے ہين. وہ صالحین میں سے ہیں "(سورہ ال عمران، 114).
دوسری بات جسکی طرف اللہ تعالی قرآن پاک میں توجہ دلاتا ہے وہ اسلام کی یونین ہے. ایک آیت میں، ہمارے رب تعالی نے اسلام کی یونین کی اہمیت کے بارے ميں يوں فرمايا ہے:
"اللہ تعالی نے ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہيں اور صحیح اعمال کرتے ہیں وعدہ کيا ہے کہ ان کو زمین میں جانشین مقرر کرديگا جيسا کہ اس نے پہلے لوگوں کو جانشین بنايا، اور ان کے لیے بھر پور طریقے سے ان کے مذہب کا جس سے وہ خوش ہے قائم کريگا اور انہيں خوف کی جگہ امن عطا کريگا۔ 'وہ میری ہی عبادت کریں، میرے ساتھ کسی کو منسلک نہ کريں.' کوئی بھی جو اس کے بعد کفر کریں، ایسے لوگ گمراہ کن ہیں ... "(نور، 55)
تاہم، کچھ لوگ ان دو اہم نکات سے لا علمی کا اظہار کرتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہيں کہ اصل نقطہ جس پر توجہ مرکوز کرنا چاہئے اسلام کے احکام کا ہے. لیکن، سب کچھ اسلام کے احکام کے بارے میں جاننے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ شخص ایک بہت مضبوط ایمان رکھتا ہے. اسلام کے احکام نماز، وضو اور دیگر مذہبی رسومات کے بارے ميں تفصیلی وضاحت شامل کرتے ہیں. تاہم، یہ معلومات ایک شخص کو واقعی وفادار بنانے کے لئے کافی نہیں ہيں.
مذہبی مشاہدات کو خوشی اور حوصلہ افزائی کے ساتھ اور صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لئے اور اس کيساتھ ایمان کی خوبصورتی سےبھی لطف اندوز ہونے کيلٔے ایک بہت مضبوط ایمان کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس طرح کا مضبوط ایمان رکھنے والا شخص خوشی سے اپنی ذمہ داریوں کو نبھاۓ گا اور جتنا ممکن ہو سکے اسلامی یونین اور مواصلات کی نشانیوں جو ايمان کی پختگی کيطرف ليجاتی ہيں کو مقصد بنائگا۔
عدنان آکٹر: جب ہم قرآن پاک میں دیکھتے ہیں، ہم دیکھتے ہیں، کہ دو اہم نکات ہیں. ایک ایمان کی کمزوری ہے، ایمان کی اہمیت ہے، اور دوسرا اسلام کی یونین ہے. یہ قرآن کے ہر صفحے میں ہے. لیکن بہت سے لوگ اس حقیقت سے لا علمی کا اظہار کرتے دیں. وہ مجھ سے 'اسلام کے احکام' کے بارے میں بات کرنے کے لئے پوچھتے رہتے ہيں ۔ چلو ٹھیک ہے میں اسلام کے احکام کے بارے میں بات کرتا ہوں. . مجھے نماز، وضو کی تفصیلات دينی ہيں. توجب میں اس کی وضاحت کرتا ہوں،تو کيا آپ نماز ادا کرنی شروع کر دينگے؟ مساجد میں بہت سے امام، نماز نہیں کروائنگے اگر اُنکو اس کے لئے پيسے ادا نہیں کیۓ جائنگے ؛ کيونکہ ان کو مسجد کے امام کے طور پر کام کی ادائیگی کی جاتی ہے. اگر وہ مسجد میں نماز کی ادائگی نہیں کر رہے، تو زیادہ تر اپنے وقت پربھی ایسا نہیں کر رہے. ايسے بہت سے لوگ جن کے بارے میں آپ سوچتے ہیں کہ مز ہبی ہيں اصل میں نماز کی ادائگی نہیں کر رہے ہوتے. میں نے یہ خود اپنی آنکھوں سے دیکھا، میں اسے جانتا ہوں. مثال کے طور پر، ایک مسجد کے امام، کے بارے ہم کہتے ہيں کہ وہ چھٹی پر چلے گئےہيں- یہ صرف ان میں سے کچھ کے لئے سچ ہے، بيشک سب کے بارے نہیں- وہ صبح کی نماز کے لئے بيدار نہ ہوۓ، صرف اندر سوتےرہے۔ وہ دوپہر میں نماز کراتے ہيں، انہوں نے کہا کہ نماز ملتوی کر دی '. وہ بہت لا تعلق لوگ ہیں. وہ لوگ جو مجھے اِسوقت سن رہے ہیں سرہلا رہے ہيں اور فی الوقت میری باتیں قبول کر رہے ہيں. بہت سے لوگ جوآپ کے خیال میں مذہبی ہيں ، حتیٰ کہ کافی مشہور مذہبی لوگ بھی، بمشکل ہی نماز ادا کر رہے ہوتے ہيں. لیکن ایک شخص جو ایمان کی خوشی سے لطف اندوز ہوتا ہے، جس کا ايمان اتنا گہرا ہوتا ہے کہ جيسے آنکھوں دیکھا، جوش و جذبے سے نماز ادا کريگا اور اس کی زندگی کا واحد مقصد اسلامی یونین اورايمانی علامات کی تشہيرہوگا جس سے اللہ کی رضا ہو. اس شخص کا بنیادی مقصد یہ ہو جائے گا. اس کے عقیدے کی مضبوطی کے لئے، اُسے قرآن اور محمد رسول اللہؐ کے معجزات سے آگاہ رکھنا چاہئے۔ (4 فروری 2012، A9 ٹی وی)
احادیث میں يہ پیشن گوئی کی گئی تھی کہ اختتام اوقات میں کفرغالب ہو گا
اوقات کے اختتام کے بارے میں احادیث میں محمد رسول اللہؐ، وقت کے سب سے بڑے خطرات میں سے ایک، يعنی کفر اور ايمان کی کمزوری کے بارے میں فرماتے ہيں:
"ایک وقت آئے گا جب ایک شخص جو اپنے ايمان پرڈھٹا ہوگا اُس شخص کی مانند ہوگا جس نے کہ ہاتھ میں شعلہ تھاما ہؤاہو۔(" سنن ترمذی حدیث نمر۷۳ فتان، ابوداؤد ، ملاحم،۷۱
احادیث میں یہ واضح طور پر وضاحت کی گئ ہے کہ مسيحؑ کے مخالف ایمان کو براہ راست نشانہ بنائں گے جس سے مسلمانوں کے عقیدے کمزور ہوتے چلے جائيں گے. ہمارے رسول نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ آخری اوقات میں لوگوں کے عقیدے بڑی حد تک کھو جاينٔنگے اور اس طرح کی بیماری بارِ آخر میں سب سے بڑی مصیبت بن جائے گی:
حضرتِ انس (رضی اللہ عنہ) سے متعلق ہے: "محمد رسول اللہؐ وضاحت کرتے ہيں:" اس سے پہلے کہ فیصلے کا دن ٹوٹ پڑے، رات کے کچھ حصوں کی طرح بحران ہو جائے گا. (جب وہ ہوتا ہے)کؤی شخص ایک مومن کے طور پربيدار ہوگا اور ایک کافر کے طور پر سوجائگا اور ايک مومن کے طور پر سوجائگا اور ایک کافر کے طورپر بيدار ہو جايئگا. بہت سے لوگ بہت ہی تھوڑا سا دنیاوی فائدہ حاصل کرنے کے بدلے اپنے مذہب کو بیچ ڈاليں گے "(ترمذی، 30 فتن، 2196)
لوگ ایسے وقت میں رہيںگے کہ جب، کسی کا ايمان پر قأيم رھنا اتنا ہی دشوار لگے گا جتنا کہ ہاتھوں میں شعلہ پکڑنا. کیونکہ ان دنوں مومنين (جو بہت زيادہ توہین کا نشانہ بنأے جائينگے)، کی قدروقیمت جانوروں سے بھی کم ہو جائگی. بہت سے لوگ يہ دباؤ اور توہین برداشت نہيں کر پاينگے. کمزور مغلوب ہو جائنگے اور بہت تھوڑے دنياوی فائدے کے بدلے اپنے مذہب کی تجارت کريں گے. رات اور دن ایسے وقت لے آئيںگے،جب کؤی اٹھے گا اور زور زور سے کہے گاا: 'کون دنیاوی خوشی کی ایک بہت چھوٹی رقم کے عوض ہمیں اپنے مذہب (ایمان) کی فروخت کر یگا؟ ' بے شک اُسے بہت سے جواب موصول ہونگے: "بہت سے لوگ دنیاوی خوشی کی ایک بہت چھوٹی رقم کے عوض اپنے مذہب فروخت کردينگے. "