ایک خیال کو کاغذ پہ دفنایا تو
ایک نظم نے آنکھیں کھول کے دیکھا
ڈھیروں لفظوں کے نیچے
وہ دبی ہوئی تھی
سہمی سی
اک مدھم سی
آواز کی بھاپ
اڑی کانوں تک
کیوں اتنے لفظوں میں
مجھ کو چنتے ہو؟
بانہیں کس دی ہیں مصرعوں کی
تشبیہوں کے پردے میں
ہر جنبش تہہ کر دیتے ہو
اتنی اینٹیں لگتی ہیں کیا
ایک خیال کے مدفن میں؟
ایک نظم نے آنکھیں کھول کے دیکھا
ڈھیروں لفظوں کے نیچے
وہ دبی ہوئی تھی
سہمی سی
اک مدھم سی
آواز کی بھاپ
اڑی کانوں تک
کیوں اتنے لفظوں میں
مجھ کو چنتے ہو؟
بانہیں کس دی ہیں مصرعوں کی
تشبیہوں کے پردے میں
ہر جنبش تہہ کر دیتے ہو
اتنی اینٹیں لگتی ہیں کیا
ایک خیال کے مدفن میں؟