تیرگی ہی کہ اُمنڈتی ہی چلی آتی ہے
تیرگی ہی کہ اُمنڈتی ہی چلی آتی ہے
شب کی رگ رگ سے لہو پھوٹ رہا ہو جیسے
چل رہی ہے کچھ اس انداز سے نبضِ ہستی
دونوں عالم کا نشہ ٹوٹ رہا ہو جیسے
رات کا گرم لہو اور بھی بہہ جانے دو
یہ تاریکی تو ہے غازہ رخسارِ سحر
صبح ہونے ہی کو ہے اے دلِ بیتاب ٹھر
ابھی زنجیر چھنکی ہے پسِ پردہ ساز
لغزشِ پا میں ہے پابندی آداب ابھی
اپنے دیوانوں کو دیوانہ تو بن لینے دو
جلد یہ سطوتِ اسباب بھی اٹھ جا ئے گی
یہ گر انباری ِآداب بھی اٹھ جائے گی
خواہ زنجیر چھنکتی ہی ،چھنکتی ہی رہے!
__________________
تیرگی ہی کہ اُمنڈتی ہی چلی آتی ہے
شب کی رگ رگ سے لہو پھوٹ رہا ہو جیسے
چل رہی ہے کچھ اس انداز سے نبضِ ہستی
دونوں عالم کا نشہ ٹوٹ رہا ہو جیسے
رات کا گرم لہو اور بھی بہہ جانے دو
یہ تاریکی تو ہے غازہ رخسارِ سحر
صبح ہونے ہی کو ہے اے دلِ بیتاب ٹھر
ابھی زنجیر چھنکی ہے پسِ پردہ ساز
لغزشِ پا میں ہے پابندی آداب ابھی
اپنے دیوانوں کو دیوانہ تو بن لینے دو
جلد یہ سطوتِ اسباب بھی اٹھ جا ئے گی
یہ گر انباری ِآداب بھی اٹھ جائے گی
خواہ زنجیر چھنکتی ہی ،چھنکتی ہی رہے!
__________________