حصار۔۔سید عبداللہ شاہد
کبیر احمد گزشتہ پانچ برس سے شہر کی ایک طبی لیبارٹری میں اسسٹنٹ کی حیثیت سے ملازمت کرتاتھا۔ اسے اسپیشلسٹ کی سرکردگی میں کام کرنے کی وجہ سے ہر نوع اور مختلف عناصر کی حامل چیزوں کو پرکھنے‘ جانچنے اور ان سے حتمی نتائج اخذ کرنے کا کماحقہ تجربہ حاصل ہوچکاتھا۔ لیبارٹری سے متعلقہ ڈاکٹرز اور کنسلٹینٹس کی نگاہوں میں وہ ایک بہترین ایگزامنر تھا۔ اسٹاف میں شامل سبھی لوگ اس کی صلاحیتوں کے معترف تھے اور اس کے کسی بھی معاملے میں اخذ کیے گئے نتائج کو بلاتردد تسلیم کرتے تھے۔
دوسال پہلے کبیر احمد کی شادی اپنی چچازاد تسکین سے ہوئی تھی۔ یہ ارینج میرج تھی۔ خاندانی پس منظر کے لحاظ سے وہ دوبہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔ ایک اس سے بڑی سلیمہ باجی جبکہ دوسری اس سے تین سال چھوٹی زینت تھی۔ اس کی والدہ کا اس وقت انتقال ہواتھا جب وہ ایف اے میں تھا۔ سلیمہ باجی کی شادی ہوچکی تھی اور وہ اپنے شوہر کے ہمراہ جہلم رخصت ہوگئی تھیں۔ پھر تعلیمی مدارج مکمل کرنے کے بعد کبیر احمدمیڈیکل فیلڈ سے وابستہ ہوگیا۔ ادھر اس کے والد ظہیر احمد جو ساٹھ کے پیٹے میں تھے اس کی چھوٹی بہن زینت کے لیے رشتہ دیکھ رہے تھے۔ جلد ہی انہیں اپنی برادری میں ایک مناسب لڑکانظر آگیا اورزینت میٹرک کرتے ہی‘ شادی کے بعد اپنے پیا دیس سدھار گئی۔ زینت کی سسرال ٹنڈو آدم میں تھی۔ اب کبیر احمد محسوس کررہاتھا کہ اس کے والد بڑھاپے کی ناتوانی کے باعث بیمار رہنے لگے تھے۔ انہیں بلڈشوگر کی بیماری عرصہ دراز سے لاحق تھی جو اب ضعیف العمری کے سبب کافی بڑھ گئی تھی۔ کبیر احمد میڈیکل ٹیکنیشن کا ڈپلومہ کرنے کے ساتھ ایک نجی لیبارٹری میں عملی تجربہ بھی حاصل کررہاتھا۔ اس کی وجہ سے اسے اپنے والد کی دیکھ بھال میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اس صورت حال میں اس کے چچااور چچی دیکھ بھال کی غرض سے ان کے گھر پہنچ گئے۔ اس کی منگیتر تسکین بھی ان کے ہمراہ تھی۔ باپ کی تیمارداری کے بارے میں اب کبیر احمد کو قدرے اطمینان کا احساس ہوا‘ لیکن رضائے الٰہی کے سامنے ہر لحاظ وتدبیر اکارت ہوجاتی ہے ۔ لہٰذا ظہیر احمد چند روز علالت کے بعد دار فانی سے کوچ کرگئے اور کبیر احمد چچا‘ چچی اور تسکین کے درمیان آنسو بہاتا رہ گیا۔ والد کے انتقال کے بعد کبیر احمد کے لیے روشن مستقبل کا حصول ایک کھلا چیلنج تھا۔ معمول کے اخراجات کے لیے مرحوم باپ کی پینشن کا سہاراتھا‘ دوم وہ جس لیبارٹری میں پریکٹس کررہاتھا وہاں سے بھی گزارے کے مطابق معقول خرچہ مل جاتاتھا۔ اس لیے وہ پوری توجہ اور محنت سے کام کرتے ہوئے آگے بڑھتا رہا اور ٹھیک دو برس بعد جب کہ وہ ڈپلومہ مکمل کرچکا تھا اور قابل قدر تجربہ بھی حاصل کرچکاتھا۔ لیبارٹری کے چیف ایگزیکٹو نے اس کی قابلیت کو دیکھتے ہوئے اسے مستقل طو رپر اسسٹنٹ پروفیسر کی نوکری کے لیے کنفرم کردیا اور یوں وہ پرکشش تنخواہ کے ساتھ ایگزامنر کی حیثیت سے ایسوسی ایٹ آف لیب کاباقاعدہ رکن بن گیا۔
پھر تقریباً چھ سات برس زندگی کی خوشیوں سے بھرپور یوں گزرے کہ کبیر احمد کو وقت گزرنے کا پتا ہی نہ چلا۔ اس عرصے میں بعض قابل رشک تبدیلیاں بھی وقوع پزیر ہوئیں۔ وہ پیشہ ورانہ لحاظ سے کنسلٹنٹ پروفیسرز اور ڈاکٹرز کی نگاہوں میں ایک ماہر ومشاق اور ذہین وفطین ایگزامنر تھا۔ اس کی رپورٹس پر آنکھ بند کرکے ڈاکٹرز اپنے ریمارکس دیتے تھے اور کلائنٹ کی جانب سے شاذو نادر ہی کسی سقم یا غلطی کی شکایت موصول ہوتی تھی۔اس لحاظ سے وہ ممبرز آف ایسوسی ایٹ میں ایک معتبر اور نمایاں حیثیت اختیار کر گیاتھا۔ ان گزشتہ برسوں میں کبیر احمد نے اپنے والد ظہیر احمد کی دلی خواہش کو بھی پوراکیاتھااور ان کی طے کی گئی منگنی پر چچا اور چچی کے سامنے بخوشی سر تسلیم خم کردیاتھا۔ تسکین جسے وہ دل سے پسند بھی کرتا تھا‘ دلہن کے زرق برق لباس میں اس کے ہمراہ اس کے گھر کو آباد کرنے چلی آئی تھی۔ باپ کی موت کے بعد سال بھی پورا نہ ہوپایاتھا کہ اللہ نے اسے اولاد کی نعمت سے سرفراز کردیا۔ تسکین نے ایک صحت مند گول مٹول بچے کو جنم دیا ۔ تسکین نے اپنی پسند سے بیٹے کا نام فرحان رکھا۔ اولاد نرینہ کی پیدائش سے وہ پہلے سے قدرے مغرور نظر آنے لگی تھی اور حیل وحجت سے کبیر احمد سے اپنی ہر بات منوانے کی کوشش کرتی تھی۔ پھر اگلے سال ان کے یہاں رحمت خداوندی کا نزول ہوا تو دونوں نے باہمی مشورے سے اس کا نام مہرین رکھا ۔دو بچوں کی پیدائش کے بعد سے دونوں میاں بیوی اس بات پر متفق ہوگئے تھے کہ اب ان کا خاندان مکمل ہوچکاتھا۔ لہٰذا اب بچوں کی مزید خواہش تک وہ ننھے فرحان اورمعصوم مہرین کی بہترین تعلیم وتربیت کی جانب توجہ دیں گے۔ یوں دونوں بچوں کی آمد سے زندگی ایک نئی اور مختلف ڈگر پر سفر کرنے لگی تھی۔
بچوں کی پیدائش کے باوجود کبیر احمد کا تسکین سے جذباتی لگائو کم ہونے کے بجائے اور بڑھ گیا۔ ادھر تسکین خود بھی اس کی پرخلوص محبت کی دل سے احسان مند تھی۔ وہ اس کی پسند ناپسند کا بے حد خیال رکھتی تھی۔ اور اسے ناراض ہونے کا موقع نہیں دیتی تھی۔ اس دوران کبھی جہلم سے سلیمہ باجی اپنے بچوں کے ہمراہ بھائی کے گھر آتی تو تسکین کے اصرار پر اس کی چھوٹی نند زینت بھی اپنے بچوں سمیت ٹنڈوآدم سے کراچی کے لیے روانہ ہوجاتی۔ پھر تسکین دونوں نندوں اور ان کے بچوں کی ناز برداری میں مصروف ہوجاتی۔ محض اس خیال سے کہ کبیر احمد ان کااکلوتا بھائی تھااوراس کے مان سمان کی روایتوں کو بھابی ہونے کے ناتے اسے ہی نبھانا تھا۔ محض اسی سے کبیر احمد کی خوشی اور عزت ووقار ہے‘ یہ تسکین کا مطمح نظر تھا۔
یوں ایک اچھی بیوی کی رفاقت میں کبیر احمد اپنے چھوٹے سے کنبے کے ساتھ پرسکون زندگی گزار رہاتھا‘ لیکن مہرین ابھی سال بھر کی بھی نہ ہوئی تھی کہ خلافِ معمول تسکین کی بے جا ضد اور خود سری کی وجہ سے اس کا سکون غارت ہوگیا۔ کبیر احمد کا محنت وجدوجہد سے بنایا وہ چھوٹا سا گھر تسکین کے اختلافی رویہ سے کچے گھروندوں کی مانند لرزنے لگا اور لاکھ صبر وضبط کے وہ بیوی کی عاقبت نااندیشی سے ذہنی طور پر اذیت میں مبتلا ہوگیا۔ کوئی دو ہفتے قبل گھر سے ڈیوٹی کے لیے روانہ ہونے سے پہلے وہ تسکین اور ننھے فرحان کے ساتھ ناشتے کی میز پر موجود تھا۔ مہرین
اس وقت کمرے میں سو رہی تھی۔
’’سنیے‘ ایک بات بتانی ہے آپ کو۔‘‘ تسکین نے ملائمت بھرے لہجے میں کبیر احمد سے کہا۔
’’ہاں کہو‘ کیا بات ہے؟‘‘ کبیر احمد نے اخبار ایک جانب رکھتے ہوئے جواباً استفسار کیا۔ پھراس نے مگ میںچائے ڈالی۔
’’آج ڈیوٹی سے واپسی پر آپ فاسٹ فوڈ میں کچھ لے آئیے گا۔میں گھر میں نہیں ہوں گی۔ مجھے دوپہر میں اپنی سہیلی کے گھر دعوت پر جانا ہے۔‘‘ تسکین نے پُرکار لہجے میں اسے جتاتے ہوئے کہا۔ ڈھائی تین برس کا فرحان قریب موجود معصومیت سے دونوں کی جانب دیکھ رہا تھا۔ بیوی کی بات سے زچ ہو کر کبیر احمد قدرے ناراضی سے بولا۔
’’بیوقوفی کی باتیں نہ کرو۔ دعوت کے شوق میں چھوٹے بچوں کو بھی بیمار کروگی۔‘‘
’’آپ پریشان کیوں ہوتے ہیں! یہ مسئلہ میرا ہے۔ میں بچوں کو سنبھال لوں گی۔‘‘ جواباً تسکین نے مدافعانہ لہجے میں محبت سے کہا۔
’’فضول ضد نہ کیا کرو۔ میں نے کہا ہے ناکہ ابھی بچے چھوٹے ہیں اس لیے سہلیوںکی پارٹیوں کے بارے میں سوچنے کے بجائے ان پر توجہ دو۔ میرے جانے کے بعد تم بچوں کا خیال نہیں رکھوگی تو کون رکھے گا؟‘‘ کبیر احمد نے قدرے تیز لہجے میں تسکین کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔ اس کے تیورو دیکھ کر تسکین تلملاتے ہوئے جھنجھلاہٹ بھرے لہجے میں بولی۔
’’کبیر‘ آپ یوں دل مت جلایا کریں۔ آپ نے گورنس تو نہیں رکھ چھوڑی ہے بچوں کے لیے‘ صبح سے رات گئے تک میں ہی بچوں کی دیکھ بھال میں وخوار ہوتی ہوں۔ اس کے باوجود آپ کے طعنے تشنے ختم نہیں ہوتے۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے تسکین نے غصیلے انداز میں تام چینی کی خوب صورت اور قیمتی کیتلی کومیز پر یوں دھڑ سے رکھا کہ باقی دوسرے چمکتے دمکتے برتن بھی لرز گئے۔ اس برہمی سے تین برس کا فرحان جو تسکین کے قدرے پہلو میں کرسی پر بیٹھا تھا بے اختیار رونے لگا۔ کبیر احمد کے انکار سے تسکین پہلے ہی تپ رہی تھی ۔ ننھے فرحان کو روتا دیکھ کر وہ متوحش لہجے میں چیخ کر بچے سے بولی۔
’’تمہیں کیا بیٹھے بیٹھے ہوگیا‘ کیوں چلا رہے ہو نالائق۔‘‘ قدرے بپھرتی اور اونچی آواز میں چلاتی تسکین یکسر شوہر کی موجودگی سے بے پروا ہوگئی تھی۔ لیکن کبیر احمد جو بہ ظاہر پرسکون انداز میں ناشتا کررہاتھا‘ بیوی کو نامرادی سے دل کے پھپھولے پھوڑتے دیکھ رہا تھا۔ پھرتسکین ننھے فرحان کو ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہوئے ناشتہ کروانے لگی۔ اس کا جذباتی اور غیر سنجیدہ ردعمل دیکھ کر کبیر احمد کو خاصی تکلیف ہوئی تھی۔ پھروہ زیادہ دیر تک ضبط نہ کرسکااور ناشتا ادھورا چھوڑ کر اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے بریف کیس اٹھاتے ہوئے خاصی ناراضی سے تسکین سے کہا۔ ’’تم انتہائی بے وقوف عورت ہو تسکین‘ معصوم بچے پر اپنی جھنجلاہٹ اتار کر تم مجھ سے اپنی ضد ہرگز نہیں منواسکتیں۔ یہ بات کان کھول کراچھی طرح سن لو۔ ‘‘ اتنا کہہ کر وہ لیبارٹری جانے کی غرض سے باہر نکل گیاتھا۔
اس ناخوشگوار واقعے کو دو ہفتے گزر گئے تھے تاہم کبیر احمد اور تسکین کے درمیان پیدا ہونے والی چپقلش روز بروز بڑھتی چلی گئی اور وہ تسکین کے باغیانہ طرز عمل سے ایک ایسی گنجلک اور پرپیچ صورت حال میں مبتلا ہوگیاتھا‘ جس سے نکلنا اسے خاصا دشوار نظر آرہا تھا۔ حسین وجمیل تسکین کے شاکی ونالاں تیوروں کو دیکھ کر وہ شدید بے زاری سے بغلیں جھانکنے لگتاتھا‘ محض دو ہفتے میں اس کے تندوتیز جملوں اور لن ترانیوں نے اس کے دماغ کی چولیں ہلا ڈالی تھیں۔ بیوی کی اصلاح کا کوئی راستہ نہ پاتے دیکھ کر آخر ایک شام وہ یوں دل برداشتہ ہوا کہ اپنی حمایت میں ترکی بہ ترکی جواب دیتی اور بچوں کی آڑ لے کر اس کے جذباتی تلاطم کو بڑھاوا دیتی تسکین پر اس کا ہاتھ اٹھ گیا۔ شادی کے بعد سے اب تک دونوں میاں بیوی میں کبھی دست درازی کی نوبت نہ آئی تھی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کبیر احمد نے شدت جذبات سے بے اختیار ہو کر تسکین کے چہرے پر ایک زور کاتھپڑ رسید کیا تھا۔ اگلے لمحے تسکین اپنے تمتماتے چہرے کو ہتھیلیوں میں رکھ کر بلک بلک کر رونے لگی تھی اور کبیر احمد پائوں پٹختے ہوئے گھر سے باہر نکل گیاتھا۔
اگلے روز کبیر احمد لیبارٹری میں اپنی کرسی پر کافی دیر تک تسکین کی بڑھتی ہوئی خود سری اور باغیانہ روش کے بارے میں سوچتا رہا۔ بیوی سے بڑھتے ہوئے اختلافات نے اس کی امن پسند طبیعت میں یو ں ہلچل اور بے سکونی مچائی تھی کہ وہ کوئی بھی کام توجہ اور دلچسپی سے نہیں کرپارہاتھا۔ لیب کے ایئرکنڈیشنڈ گلاس روم میں وہ تین چار گھنٹوں سے منتشر سوچوں میں گھرا ہوا تھا۔ میز پر کچھ ٹیسٹ کی گئیں شیشے کی سلائیڈیں موجود تھیں جنہیں حتمی نتائج مرتب کرنے کی غرض سے ترتیب وار مکمل کرکے رپورٹس تیار کرنا تھیں۔ روم میں اس سے کچھ فاصلے پر سامنے کی جانب لیب کے کنسلٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر متین الرحمن بیٹھے مختلف فائلوں کاجائزہ لے رہے تھے۔ اس وقت شیشے کی دیوار پر وال کلاک میں سوئیاں دن کے گیارہ بجارہی تھیں۔ ادھرکبیراحمد کام کے دوران اپنی توجہ کومجتمع کرنے کی تگ ودو میں باربار منتشر خیالوں میں ڈوب جاتاتھا۔ تسکین کے زہر خند جملے اس کی سماعتوں میں یکبارگی گونجتے تو اس کے دل ودماغ میں نفرت کے تندوتیز بگولے اڑنے لگتے۔ پھر وہ جذباتی تلاطم سے بے قرار ہوجاتاتو میز چھوڑ کر خود کونارمل کرنے کی کوشش میں آہستہ آہستہ سانس کے ہلکورے لینے لگتا۔ ذہنی دبائو سے اس کے بردبار چہرے کی تازگی اور حلاوت پھیکی پڑجاتی اور پیشانی پرپسینہ چمکنے لگتا‘ پھر اپنے پروفیسر سے پردہ پوشی کی وجہ سے وہ رومال سے وقفے وقفے سے چہرہ پونچھنے لگتا۔ کبیر احمد گزشتہ شام کے واقعے کے بعد سے مزید بے سکون ہوگیاتھا۔ اورتسکین کے معاملے میںخود کو خاصا بے بس محسوس کررہاتھا۔ اس دوران کبیر احمد کی قدرے خوشامد کے باوجود بھی تسکین نے دوبارہ اس سے بات چیت نہیں کی
’’سنیے‘ ایک بات بتانی ہے آپ کو۔‘‘ تسکین نے ملائمت بھرے لہجے میں کبیر احمد سے کہا۔
’’ہاں کہو‘ کیا بات ہے؟‘‘ کبیر احمد نے اخبار ایک جانب رکھتے ہوئے جواباً استفسار کیا۔ پھراس نے مگ میںچائے ڈالی۔
’’آج ڈیوٹی سے واپسی پر آپ فاسٹ فوڈ میں کچھ لے آئیے گا۔میں گھر میں نہیں ہوں گی۔ مجھے دوپہر میں اپنی سہیلی کے گھر دعوت پر جانا ہے۔‘‘ تسکین نے پُرکار لہجے میں اسے جتاتے ہوئے کہا۔ ڈھائی تین برس کا فرحان قریب موجود معصومیت سے دونوں کی جانب دیکھ رہا تھا۔ بیوی کی بات سے زچ ہو کر کبیر احمد قدرے ناراضی سے بولا۔
’’بیوقوفی کی باتیں نہ کرو۔ دعوت کے شوق میں چھوٹے بچوں کو بھی بیمار کروگی۔‘‘
’’آپ پریشان کیوں ہوتے ہیں! یہ مسئلہ میرا ہے۔ میں بچوں کو سنبھال لوں گی۔‘‘ جواباً تسکین نے مدافعانہ لہجے میں محبت سے کہا۔
’’فضول ضد نہ کیا کرو۔ میں نے کہا ہے ناکہ ابھی بچے چھوٹے ہیں اس لیے سہلیوںکی پارٹیوں کے بارے میں سوچنے کے بجائے ان پر توجہ دو۔ میرے جانے کے بعد تم بچوں کا خیال نہیں رکھوگی تو کون رکھے گا؟‘‘ کبیر احمد نے قدرے تیز لہجے میں تسکین کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔ اس کے تیورو دیکھ کر تسکین تلملاتے ہوئے جھنجھلاہٹ بھرے لہجے میں بولی۔
’’کبیر‘ آپ یوں دل مت جلایا کریں۔ آپ نے گورنس تو نہیں رکھ چھوڑی ہے بچوں کے لیے‘ صبح سے رات گئے تک میں ہی بچوں کی دیکھ بھال میں وخوار ہوتی ہوں۔ اس کے باوجود آپ کے طعنے تشنے ختم نہیں ہوتے۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے تسکین نے غصیلے انداز میں تام چینی کی خوب صورت اور قیمتی کیتلی کومیز پر یوں دھڑ سے رکھا کہ باقی دوسرے چمکتے دمکتے برتن بھی لرز گئے۔ اس برہمی سے تین برس کا فرحان جو تسکین کے قدرے پہلو میں کرسی پر بیٹھا تھا بے اختیار رونے لگا۔ کبیر احمد کے انکار سے تسکین پہلے ہی تپ رہی تھی ۔ ننھے فرحان کو روتا دیکھ کر وہ متوحش لہجے میں چیخ کر بچے سے بولی۔
’’تمہیں کیا بیٹھے بیٹھے ہوگیا‘ کیوں چلا رہے ہو نالائق۔‘‘ قدرے بپھرتی اور اونچی آواز میں چلاتی تسکین یکسر شوہر کی موجودگی سے بے پروا ہوگئی تھی۔ لیکن کبیر احمد جو بہ ظاہر پرسکون انداز میں ناشتا کررہاتھا‘ بیوی کو نامرادی سے دل کے پھپھولے پھوڑتے دیکھ رہا تھا۔ پھرتسکین ننھے فرحان کو ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہوئے ناشتہ کروانے لگی۔ اس کا جذباتی اور غیر سنجیدہ ردعمل دیکھ کر کبیر احمد کو خاصی تکلیف ہوئی تھی۔ پھروہ زیادہ دیر تک ضبط نہ کرسکااور ناشتا ادھورا چھوڑ کر اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے بریف کیس اٹھاتے ہوئے خاصی ناراضی سے تسکین سے کہا۔ ’’تم انتہائی بے وقوف عورت ہو تسکین‘ معصوم بچے پر اپنی جھنجلاہٹ اتار کر تم مجھ سے اپنی ضد ہرگز نہیں منواسکتیں۔ یہ بات کان کھول کراچھی طرح سن لو۔ ‘‘ اتنا کہہ کر وہ لیبارٹری جانے کی غرض سے باہر نکل گیاتھا۔
اس ناخوشگوار واقعے کو دو ہفتے گزر گئے تھے تاہم کبیر احمد اور تسکین کے درمیان پیدا ہونے والی چپقلش روز بروز بڑھتی چلی گئی اور وہ تسکین کے باغیانہ طرز عمل سے ایک ایسی گنجلک اور پرپیچ صورت حال میں مبتلا ہوگیاتھا‘ جس سے نکلنا اسے خاصا دشوار نظر آرہا تھا۔ حسین وجمیل تسکین کے شاکی ونالاں تیوروں کو دیکھ کر وہ شدید بے زاری سے بغلیں جھانکنے لگتاتھا‘ محض دو ہفتے میں اس کے تندوتیز جملوں اور لن ترانیوں نے اس کے دماغ کی چولیں ہلا ڈالی تھیں۔ بیوی کی اصلاح کا کوئی راستہ نہ پاتے دیکھ کر آخر ایک شام وہ یوں دل برداشتہ ہوا کہ اپنی حمایت میں ترکی بہ ترکی جواب دیتی اور بچوں کی آڑ لے کر اس کے جذباتی تلاطم کو بڑھاوا دیتی تسکین پر اس کا ہاتھ اٹھ گیا۔ شادی کے بعد سے اب تک دونوں میاں بیوی میں کبھی دست درازی کی نوبت نہ آئی تھی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کبیر احمد نے شدت جذبات سے بے اختیار ہو کر تسکین کے چہرے پر ایک زور کاتھپڑ رسید کیا تھا۔ اگلے لمحے تسکین اپنے تمتماتے چہرے کو ہتھیلیوں میں رکھ کر بلک بلک کر رونے لگی تھی اور کبیر احمد پائوں پٹختے ہوئے گھر سے باہر نکل گیاتھا۔
اگلے روز کبیر احمد لیبارٹری میں اپنی کرسی پر کافی دیر تک تسکین کی بڑھتی ہوئی خود سری اور باغیانہ روش کے بارے میں سوچتا رہا۔ بیوی سے بڑھتے ہوئے اختلافات نے اس کی امن پسند طبیعت میں یو ں ہلچل اور بے سکونی مچائی تھی کہ وہ کوئی بھی کام توجہ اور دلچسپی سے نہیں کرپارہاتھا۔ لیب کے ایئرکنڈیشنڈ گلاس روم میں وہ تین چار گھنٹوں سے منتشر سوچوں میں گھرا ہوا تھا۔ میز پر کچھ ٹیسٹ کی گئیں شیشے کی سلائیڈیں موجود تھیں جنہیں حتمی نتائج مرتب کرنے کی غرض سے ترتیب وار مکمل کرکے رپورٹس تیار کرنا تھیں۔ روم میں اس سے کچھ فاصلے پر سامنے کی جانب لیب کے کنسلٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر متین الرحمن بیٹھے مختلف فائلوں کاجائزہ لے رہے تھے۔ اس وقت شیشے کی دیوار پر وال کلاک میں سوئیاں دن کے گیارہ بجارہی تھیں۔ ادھرکبیراحمد کام کے دوران اپنی توجہ کومجتمع کرنے کی تگ ودو میں باربار منتشر خیالوں میں ڈوب جاتاتھا۔ تسکین کے زہر خند جملے اس کی سماعتوں میں یکبارگی گونجتے تو اس کے دل ودماغ میں نفرت کے تندوتیز بگولے اڑنے لگتے۔ پھر وہ جذباتی تلاطم سے بے قرار ہوجاتاتو میز چھوڑ کر خود کونارمل کرنے کی کوشش میں آہستہ آہستہ سانس کے ہلکورے لینے لگتا۔ ذہنی دبائو سے اس کے بردبار چہرے کی تازگی اور حلاوت پھیکی پڑجاتی اور پیشانی پرپسینہ چمکنے لگتا‘ پھر اپنے پروفیسر سے پردہ پوشی کی وجہ سے وہ رومال سے وقفے وقفے سے چہرہ پونچھنے لگتا۔ کبیر احمد گزشتہ شام کے واقعے کے بعد سے مزید بے سکون ہوگیاتھا۔ اورتسکین کے معاملے میںخود کو خاصا بے بس محسوس کررہاتھا۔ اس دوران کبیر احمد کی قدرے خوشامد کے باوجود بھی تسکین نے دوبارہ اس سے بات چیت نہیں کی
ھی۔کبیر احمد کے تمانچے سے اس کی انا مجروح ہوئی تھی۔ پھر دونوں جانب کے تناؤ اور کشیدہ ماحول میں رات گزر گئی۔ صبح میں تسکین غصے کی وجہ سے ناشتے کے لیے نہیں اٹھی۔ فرحان اور مہرین بھوک سے رونے اور منہ بسورنے لگے تو کبیر احمد کوبادل نخواستہ اپنے اور بچوں کے لیے ناشتا بنانا پڑا۔ وہ بیڈ میں دبکی‘ نخرے سے منہ پھلائے تسکین کے لیے شدید بدظنی محسوس کررہاتھا۔ اسے سمجھ دار بیوی ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے رات کے ناخوش گوار واقعے سے درگزر کرنا چاہیے تھا مگر تسکین نے اسے اپنی اناکامسئلہ بنالیاتھا۔ اس کی خودغرضی سے چھوٹے بچے بھی تکلیف میں آگئے تھے لیکن اسے قطعی پروا نہ تھی۔ کبیر احمد نے بمشکل بچوں کو بہلاتے ہوئے ناشتا کرایاتھا۔ اندرون خانہ وہ تسکین کو سخت برابھلا کہہ رہاتھا۔ اوراس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اس بے وقوف عورت کو اپنی زندگی سے بے دخل کرتے ہوئے اس کے گھر بھجوادے۔ بہرغرض وہ تسکین کی ہٹ دھرمی کوصبروضبط سے برداشت کرتے ہوئے کچھ دیر تک اس کے سد باب کے بارے میں سوچتا رہا ۔ اس کے بعد وہ لیبارٹری روانہ ہوگیا۔
’’خیریت تو ہے کبیر احمد بہت خاموش دکھائی دے رہے ہو۔‘‘ ڈاکٹر متین الرحمن کے مخاطب کرنے پرکبیر احمد بے اختیار اپنے پریشان کن خیالوں سے چونکا۔ ڈاکٹر صاحب اپنی کرسی سے اٹھ کر کب اس کے قریب آئے تھے‘ اسے پتا ہی نہ چلا۔
’’لگتا ہے پچھلی رات کوئی رنگین وسنگین خواب دیکھا ہے جس کے سحر میں مبتلا نظر آرہے ہو۔‘‘ پروفیسر صاحب نے اپنے اسسٹنٹ پر ازراہِ تعفن دوبارہ چوٹ کی ۔ جواباً کبیر احمد خجالت آمیزی سے مسکرایااور خوش گفتاری سے بولا۔
’’جی متین صاحب‘ آپ نے خوب کہا‘ خوب صورت بیویاں ہم مردوں کے لیے سنگین خواب ہی تو ہوتی ہیں۔ جو بھانت بھانت کی فرمائشوں سے ساری عمر درد سر بنی رہتی ہیں۔‘‘ اس کے جواب پر ڈاکٹر متین الرحمن بے اختیار مسکرادیئے۔
’’یار محض دو بچوں کے باپ ہو ابھی تم اور درد سرمیں مبتلا ہوگئے ہو۔ کیا اقبال نے نہیں کہا ہے کہ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں…!‘‘
’’سوری ڈاکٹر صاحب‘ ایسے عشق ناہنجار سے میں تو کان پکڑتا ہوں اور آپ کی جواں مردی اور حوصلے کی داد دیتا ہوں کہ چھ بچوں کے دشت زیست کو آپ نے کامیابی سے طے کیا۔ آپ واقعی قابل رشک انسان ہیں متین صاحب۔ ‘‘کبیر احمد کی بذلہ سنجی پرڈاکٹر متین پر لطف انداز میں ہنسنے لگے۔ پھر چند لمحے توقف سے بولے۔
’’یہ اچھا کرتے ہو کہ خوش مزاجی سے دل وذہن کو ہلکا رکھتے ہو۔ پریشان کن سوچوں کا اس سے بہتر علاج کوئی نہیں ہے۔‘‘ اپنے پروفیسر کی دم سازی پر کبیر احمد پروقار انداز میں مسکرایا۔ پھرڈاکٹر متین الرحمن میز پر موجود اخذ شدہ سلائیڈوں کو ایک نظر دیکھتے ہوئے مربیانہ لہجے میں بولے۔
’’میں کچھ دیر کے لیے باہر جارہا ہوں۔ کوئی نصف گھنٹے بعد آئوں گا تب تک تم ان کی رپورٹس تیار کرلوگے کبیر۔‘‘
’’اوکے پروفیسر صاحب‘ میں یہ کام جلد از جلد نمٹانے کی کوشش کروں گا۔‘‘ کبیر احمد نے تابعداری سے سرہلاتے ہوئے جواب دیا۔ اس کے بعد متین الرحمن گلاس روم سے باہر چلے گئے اور کبیر احمد پوری توجہ اور یکسوئی سے اپنے کام میں منہمک ہوگیا۔
شام کے چار بجنے میں ابھی کچھ وقت باقی تھا ‘کبیر احمد کاشفٹ ٹائم پورا ہو رہاتھا۔ پروفیسر متین الرحمن بھی آف کرکے جاچکے تھے۔ کبیر احمد نے اپنے کام کو وائنڈاپ کرتے ہوئے ضروری فائلوں اور کاغذات کو درازمیں رکھنے کے بعد لاک میں چابی گھمائی۔قریبی سوئچ پر لگا چارجنگ ہوتا موبائل فون بٹن آف کرتے ہوئے دیکھا۔ پھر وہ اپنی کرسی سے اٹھ کر گلاس روم سے باہر نکل آیا۔ موبائل فون کے بٹنوں سے کھیلتے ہوئے وہ تسکین کے بارے میں سوچ رہاتھا۔ پہلے جب زندگی دونوں کے باہمی سمجھوتوں سے پرسکون گزر رہی تھی۔ دونوں کے درمیان لحاظ ومروت کااحساس توانا تھا۔ محبت وخلوص سے ایک دوسرے کی فکر رہتی تھی توڈیوٹی کے دوران تسکین کی مس کالیں اسے تواتر کے ساتھ اپنائیت کااحساس دلاتی رہتی تھیں۔ وہ دو تین مرتبہ اس سے بات چیت کرتااور اس سے روز مرہ کے کاموں اور بچوں کی شرارتوں پرمبنی رپورٹیں سنتااور اس کی خوشگوار پوچھ پاچھ کا جواب دیتاتھا۔ بیوی کے دلچسپ خاطر طبع اور پرلطف جملوں سے خود کبیر احمد کی طبیعت بھی ہلکی پھلکی ہوجاتی تھی اور کام کی زیادتی کا بھی پتا نہیں چلتاتھا لیکن گزشتہ چھ ہفتوں سے یہ چاہت واپنائیت کی باتیں غیر مانوس ہوگئی تھیں‘ تسکین نے اختلافی رویوں سے محبت کے ہرجذبے اور ازدواجی زندگی کے سکون سے متعلق ہر سمجھوتے کو یوں بالائے طاق رکھا تھا کہ دونوں ایک دوسرے سے شاکی ونالاں رہنے لگے تھے۔ کبیر احمد نے مایوس نگاہوں سے موبائل فون کی اسکرین کو دیکھا جہاں تسکین کی کوئی مس کال نہیں تھی۔ پھر وہ یوں لیبارٹری کے خود کار مین ڈور سے باہر نکل گیا۔جیسے اسے بھی خودسر اور ضدی بیوی کی پروا نہ ہو۔ کوئی پانچ منٹ بعد وہ موٹر سائیکل پر اپنی منزل کی جانب برق رفتاری سے رواں دواں تھا۔ آج اس کامقصود نظر ہرگز اپنا گھر نہ تھا۔ تسکین کی خودغرضی کاسوچ کر وہ متنفر اور بے زاری محسوس کررہاتھا۔ اس لیے اس نے موٹر سائیکل کا رخ اپنے ایک دوست سرمدنیازی کے آفس کی جانب موڑ دیاتھا۔ سرمد ایک کاروباری شخص تھا۔ وہ ایک گڈز ٹرانسپورٹ کمپنی کا مالک تھا۔ اور کبیراحمد کا پرخلوص دوست اور کلاس فیلو رہ چکاتھا۔
کبیر احمد نے موٹر سائیکل چلاتے ہوئے تسکین کے خیال کو سرسے جھٹکا اور اسپیڈ بڑھاتے ہوئے سرمد کے بارے میں سوچنے لگا۔ ابھی وہ اس کے آفس سے کچھ فاصلے پر تھا کہ اچانک
’’خیریت تو ہے کبیر احمد بہت خاموش دکھائی دے رہے ہو۔‘‘ ڈاکٹر متین الرحمن کے مخاطب کرنے پرکبیر احمد بے اختیار اپنے پریشان کن خیالوں سے چونکا۔ ڈاکٹر صاحب اپنی کرسی سے اٹھ کر کب اس کے قریب آئے تھے‘ اسے پتا ہی نہ چلا۔
’’لگتا ہے پچھلی رات کوئی رنگین وسنگین خواب دیکھا ہے جس کے سحر میں مبتلا نظر آرہے ہو۔‘‘ پروفیسر صاحب نے اپنے اسسٹنٹ پر ازراہِ تعفن دوبارہ چوٹ کی ۔ جواباً کبیر احمد خجالت آمیزی سے مسکرایااور خوش گفتاری سے بولا۔
’’جی متین صاحب‘ آپ نے خوب کہا‘ خوب صورت بیویاں ہم مردوں کے لیے سنگین خواب ہی تو ہوتی ہیں۔ جو بھانت بھانت کی فرمائشوں سے ساری عمر درد سر بنی رہتی ہیں۔‘‘ اس کے جواب پر ڈاکٹر متین الرحمن بے اختیار مسکرادیئے۔
’’یار محض دو بچوں کے باپ ہو ابھی تم اور درد سرمیں مبتلا ہوگئے ہو۔ کیا اقبال نے نہیں کہا ہے کہ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں…!‘‘
’’سوری ڈاکٹر صاحب‘ ایسے عشق ناہنجار سے میں تو کان پکڑتا ہوں اور آپ کی جواں مردی اور حوصلے کی داد دیتا ہوں کہ چھ بچوں کے دشت زیست کو آپ نے کامیابی سے طے کیا۔ آپ واقعی قابل رشک انسان ہیں متین صاحب۔ ‘‘کبیر احمد کی بذلہ سنجی پرڈاکٹر متین پر لطف انداز میں ہنسنے لگے۔ پھر چند لمحے توقف سے بولے۔
’’یہ اچھا کرتے ہو کہ خوش مزاجی سے دل وذہن کو ہلکا رکھتے ہو۔ پریشان کن سوچوں کا اس سے بہتر علاج کوئی نہیں ہے۔‘‘ اپنے پروفیسر کی دم سازی پر کبیر احمد پروقار انداز میں مسکرایا۔ پھرڈاکٹر متین الرحمن میز پر موجود اخذ شدہ سلائیڈوں کو ایک نظر دیکھتے ہوئے مربیانہ لہجے میں بولے۔
’’میں کچھ دیر کے لیے باہر جارہا ہوں۔ کوئی نصف گھنٹے بعد آئوں گا تب تک تم ان کی رپورٹس تیار کرلوگے کبیر۔‘‘
’’اوکے پروفیسر صاحب‘ میں یہ کام جلد از جلد نمٹانے کی کوشش کروں گا۔‘‘ کبیر احمد نے تابعداری سے سرہلاتے ہوئے جواب دیا۔ اس کے بعد متین الرحمن گلاس روم سے باہر چلے گئے اور کبیر احمد پوری توجہ اور یکسوئی سے اپنے کام میں منہمک ہوگیا۔
شام کے چار بجنے میں ابھی کچھ وقت باقی تھا ‘کبیر احمد کاشفٹ ٹائم پورا ہو رہاتھا۔ پروفیسر متین الرحمن بھی آف کرکے جاچکے تھے۔ کبیر احمد نے اپنے کام کو وائنڈاپ کرتے ہوئے ضروری فائلوں اور کاغذات کو درازمیں رکھنے کے بعد لاک میں چابی گھمائی۔قریبی سوئچ پر لگا چارجنگ ہوتا موبائل فون بٹن آف کرتے ہوئے دیکھا۔ پھر وہ اپنی کرسی سے اٹھ کر گلاس روم سے باہر نکل آیا۔ موبائل فون کے بٹنوں سے کھیلتے ہوئے وہ تسکین کے بارے میں سوچ رہاتھا۔ پہلے جب زندگی دونوں کے باہمی سمجھوتوں سے پرسکون گزر رہی تھی۔ دونوں کے درمیان لحاظ ومروت کااحساس توانا تھا۔ محبت وخلوص سے ایک دوسرے کی فکر رہتی تھی توڈیوٹی کے دوران تسکین کی مس کالیں اسے تواتر کے ساتھ اپنائیت کااحساس دلاتی رہتی تھیں۔ وہ دو تین مرتبہ اس سے بات چیت کرتااور اس سے روز مرہ کے کاموں اور بچوں کی شرارتوں پرمبنی رپورٹیں سنتااور اس کی خوشگوار پوچھ پاچھ کا جواب دیتاتھا۔ بیوی کے دلچسپ خاطر طبع اور پرلطف جملوں سے خود کبیر احمد کی طبیعت بھی ہلکی پھلکی ہوجاتی تھی اور کام کی زیادتی کا بھی پتا نہیں چلتاتھا لیکن گزشتہ چھ ہفتوں سے یہ چاہت واپنائیت کی باتیں غیر مانوس ہوگئی تھیں‘ تسکین نے اختلافی رویوں سے محبت کے ہرجذبے اور ازدواجی زندگی کے سکون سے متعلق ہر سمجھوتے کو یوں بالائے طاق رکھا تھا کہ دونوں ایک دوسرے سے شاکی ونالاں رہنے لگے تھے۔ کبیر احمد نے مایوس نگاہوں سے موبائل فون کی اسکرین کو دیکھا جہاں تسکین کی کوئی مس کال نہیں تھی۔ پھر وہ یوں لیبارٹری کے خود کار مین ڈور سے باہر نکل گیا۔جیسے اسے بھی خودسر اور ضدی بیوی کی پروا نہ ہو۔ کوئی پانچ منٹ بعد وہ موٹر سائیکل پر اپنی منزل کی جانب برق رفتاری سے رواں دواں تھا۔ آج اس کامقصود نظر ہرگز اپنا گھر نہ تھا۔ تسکین کی خودغرضی کاسوچ کر وہ متنفر اور بے زاری محسوس کررہاتھا۔ اس لیے اس نے موٹر سائیکل کا رخ اپنے ایک دوست سرمدنیازی کے آفس کی جانب موڑ دیاتھا۔ سرمد ایک کاروباری شخص تھا۔ وہ ایک گڈز ٹرانسپورٹ کمپنی کا مالک تھا۔ اور کبیراحمد کا پرخلوص دوست اور کلاس فیلو رہ چکاتھا۔
کبیر احمد نے موٹر سائیکل چلاتے ہوئے تسکین کے خیال کو سرسے جھٹکا اور اسپیڈ بڑھاتے ہوئے سرمد کے بارے میں سوچنے لگا۔ ابھی وہ اس کے آفس سے کچھ فاصلے پر تھا کہ اچانک