دشمن تو میرے تن سے لہو چوستا رہا
میں دم بخود کھڑا ہی اسے دیکھتا رہا
میں دم بخود کھڑا ہی اسے دیکھتا رہا
جو پھول جھڑ گۓ تھے جو آنسو بکھر گۓ
خاک چمن سے ان کا پتا پوچھتا رہا
میں پار کر چکا تھا ہزیمت کی منزلیں
ہر چند دشمنوں کے برابر کھڑا رہا
پلکوں پہ جھولتی ہوئی شفاف چلمنیں
کل رات میرا ان سے عجب سلسلہ رہا
اس سنگ دل کے پاس کہاں تھے وفا کے پھول
انورؔ سدید جس کو سدا پوجتا رہا
انور سدید