سر میں سودا بھی نہیں ، دل میں تمنّا بھی نہیں
لیکن اِس ترکِ محبّت کا بھروسہ بھی نہیں
بُھول جاتے ہیں کسی کو مگر ایسا بھی نہیں
یاد کرتے ہیں کسی کو، مگر اِتنا بھی نہیں
ایک مُدّت سے تِری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے، ایسا بھی نہیں
مہربانی کو محبّت نہیں کہتے، اے دوست
ہائے اب مجھ سے تجھے رنجشِ بیجا بھی نہیں
آج غفلت بھی اِن آنکھوں میں ہے پہلے سے سوا
اور دلِ ہجر نصیب آج شکیبا بھی نہیں
فراق گورک
لیکن اِس ترکِ محبّت کا بھروسہ بھی نہیں
بُھول جاتے ہیں کسی کو مگر ایسا بھی نہیں
یاد کرتے ہیں کسی کو، مگر اِتنا بھی نہیں
ایک مُدّت سے تِری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے، ایسا بھی نہیں
مہربانی کو محبّت نہیں کہتے، اے دوست
ہائے اب مجھ سے تجھے رنجشِ بیجا بھی نہیں
آج غفلت بھی اِن آنکھوں میں ہے پہلے سے سوا
اور دلِ ہجر نصیب آج شکیبا بھی نہیں
فراق گورک