عشق مجھکو نہیں، وحشت ہی سہی
میری وحشت، تیری شہرت ہی سہی
قطع کیجۓ نہ تعلق ہم سے
کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی
میرے ہونے میں ہے کیا رسوائی؟
اے، وہ مجلس نہیں، خلوت ہی سہی
ہم بھی دشمن تو نہیں ہیں اپنے
غیر کو تجھ سے محبت ہی سہی
اپنی ہستی ہی سے ہو، جو کچھ ہو
آگہی گر نہیں، غفلت ہی سہی
عمر ہر چند کہ ہے براقِ خرام
دل کے خوں کرنے کی فرصت ہی سہی
ہم کوئی ترکِ وفا کرتے ہیں
نہ سہی عشق، مصیبت ہی سہی
کچھ تو دے اے فلک نا انصاف
آہ و فریاد کی رخصت ہی سہی
ہم بھی تسلیم کی خُو ڈالیں گے
بے نیازی تیری عادت ہی سہی
یار سے چھیڑ چلی جاۓ اسدؔ
گر نہیں وصل ، تو حسرت ہی سہی
میری وحشت، تیری شہرت ہی سہی
قطع کیجۓ نہ تعلق ہم سے
کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی
میرے ہونے میں ہے کیا رسوائی؟
اے، وہ مجلس نہیں، خلوت ہی سہی
ہم بھی دشمن تو نہیں ہیں اپنے
غیر کو تجھ سے محبت ہی سہی
اپنی ہستی ہی سے ہو، جو کچھ ہو
آگہی گر نہیں، غفلت ہی سہی
عمر ہر چند کہ ہے براقِ خرام
دل کے خوں کرنے کی فرصت ہی سہی
ہم کوئی ترکِ وفا کرتے ہیں
نہ سہی عشق، مصیبت ہی سہی
کچھ تو دے اے فلک نا انصاف
آہ و فریاد کی رخصت ہی سہی
ہم بھی تسلیم کی خُو ڈالیں گے
بے نیازی تیری عادت ہی سہی
یار سے چھیڑ چلی جاۓ اسدؔ
گر نہیں وصل ، تو حسرت ہی سہی