بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
قرات خلف امام اور نظریاتی اختلاف کی ایک جھلک
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
قرات خلف امام اور نظریاتی اختلاف کی ایک جھلک
سب سے پہلے میں فورم کے ایڈمن صاحب اور پوری ٹیم کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ مسلہ قرات خلف امام پر مجھے میری درخواست پر بحث کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔
انشاء اللہ بہت جلد ایک الگ ٹھریڈ میں مسلۂ قرات خلف امام پر تحقیقی بحث کا آغاز ہوگا ،
فی الوقت اس ٹھریڈ میں ہمارے محترم موڈریٹر ناصر بھائی کی دو فاش غلطیوں کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں، جو انہوں نے دو الگ الگ پوسٹ میں کی ہیں۔
ان غلطیوں کی نشاندہی کا بنیادی مقصد اس بات پر متوجہ کرنا ہے کہ جب بھی ہم کوئی بات کریں یا کوئی مضمون اٹھا کر کاپی پیسٹ کریں تو اسے اپنے علم کی حد تک تحقیق کرلیا کریں ، باقی اللہ تعالی معاف کرنے والا ہے ،
دوسرا بنیادی مقصد قارئین کو یہ سمجھانا ہے کہ یہی وہ غلطیاں ہیں جو مثال ہے ایسے مسائل میں نظریاتی اختلاف کی،
اور نظریاتی اختلاف یقیناًایک شر اور فساد ہے جو امت مسلمہ میں انتشار وافتراق اور بے چینی کو پیدا کرتی ہے بلکہ ایسا اختلاف مسلمانوں کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچاتا ہے، لہذا یہ اختلاف کسی صورت جائز نہیں،
اللہ تعالی ہمیں سمجھ اور علم نافع عطا فرمائے۔
غلطی نمبر ایک:
طارق سعید بھائی کے ایک سوالیہ پوسٹ پر سیویو ناصر بھائی نے ایک پوسٹ جاری کی تھی جس میں انہوں ایک فریق کا موقف یوں بیان کیا۔ ( وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ جس نے رکوع پا لیا اس نے رکعت پالی اس کو پھر سے لوٹانے کی ضرورت نہیں اس پر وہ یہ حدیث پیش کرتے ہیں جس میں ابو بکر رضی اللہ عنہ دوڑتے ہوئے آتے ہیں اور رکوع میں مل جاتے ہیں جب نماز ختم ہوتی ہے تو اللہ کے رسول ﷺ کہتے ہیں اللہ تیرے شوق کو اور بڑھائے لیکن آئندہ ایسا نہ کرنا۔
ناصر بھائی اس حدیث کو بیان کرنے کے بعددوسرے فریق یعنی اپنے موقف کو بیان کرتے ہیں اور سورۃ الفاتحہ والی حدیث بخاری و مسلم کا ذکر کرکے اسے پڑھنا لازمی بتاتے ہیں ۔
لہذا اس طرح دو طرفہ دو احادیث بیان کرتے ہیں اور پھر اپنے موقف کو حق ثابت کرنے کے لئے ابو بکرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث پر ایک غلط اور باطل مفہوم تراشتے ہیں، ملاحظہ فرمائیں۔
اور ابو بکر والی حدیث میں وہ کہتے ہیں کے اللہ کے رسول ﷺ نے کہا کہ اللہ تیرے شوق کو بڑھائے لیکن آئندہ ایسا نہ کرنا یعنی ابھی ہوگیا لیکن آئندہ کرو گے تو پھرسے لوٹانی پڑے گی اس کا یہی معنی ہوا اس لئے جب ابو بکر کو تنبیہہ ملی کے آئندہ ایسا نہ کرنا تو ہم کیا ہیں،
میرے بھائی ناصر: اس حدیث رسول ﷺ میں کتنا صاف اور واضح مفہوم موجود ہے کہ ایک عام بندہ بھی بڑی آسانی سے سمجھ جاتا ہے۔
آپ اﷺ نے دو باتیں فرمائیں اور حدیث میں بھی دو باتیں ہیں، یہ بات ہر مسلمان جانتا ہے کہ صحابہ کرام عبادات اور نیکی کرنے مین کتنے حریص تھے اور ان کا کیا جذبہ تھا قرآن اور احدیث میں ان کی صفات موجود ہیں لہذا ایک فرض نماز ہورہی ہو جماعت کی اور امامت سید الانبیاے ﷺ جیسی ہستی فرمارہے ہو تو کیا کوئی صحابی رسول یہ پسند کرے گا کہ ایک رکعت نماز کی چھوٹ جائے اور جو اجر و ثواب اس پر ہو وہ اس سے محروم ہوجائے ، صاف ظاہر ہے کہ ابو بکرہ رضی اللہ عنہ اسی جذبہ اور حرص کی وجہ سے جلدی جلدی آتے ہیں اور رکوع میں شامل ہوجاتے ہیں اور بعض روایات میں آتا ہے کہ وہ پیچھلی صف میں رکعت باندھ لیتے ہیں تاکہ جماعت کے ساتھ رکعت ضائع نہ ہو۔ اور پھر نماز میں آہستہ چل کر صف میں آجاتے ہیں،
اب نبی رحمت ﷺ نے ان کے جذبہ اور حرص کو دیکھ کر تعریف فرمائی اور داد تحسین پیش کیا ۔
اور جلدی جلدی آنا یہ مسجد کے آداب کے خلاف عمل ہوا اس پر آپ ﷺ نے تنبیہہ فرمائی کہ آئندہ ایسا نہ کرنا۔
اب میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ اس میں ایسی کونسی بات ہے جو سمجھ میں نہ آنے والی ہے جس پر آپ نے اس کا مفہوم ہی بدل دیا، کیوں؟ یہ آپ نے کیوں کیا؟ اس لئے کہ یہ حدیث آپ کے موقف کے واضح خلاف تھی اور آپ نے اپنے موقف کو کسی صورت ثابت کرنا تھا لہذا آپ نے اس کا مفہوم ہی بدل دیا، آپ کو ذرا اس کا احساس ہوا کہ یہ برتاؤ آپ نے حدیث رسول ﷺ کے ساتھ کیا کسی مولوی یا مفتی کے قول کے ساتھ نہیں۔
اس پر آپ سے میرے چند سوالات ہیں۔
حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ نے جب رکوع پالیا تو آپ کے موقف کی بنیاد پر وہ رکعت مکمل نہیں ہوئی لہذا حضور نبی کریم ﷺ کو نماز لوٹانے کا حکم دینا تھا کیونکہ آپ ایک نبی اور رسول ہیں اور آپ کا ہر عمل گویا امت کو تعلیم دینا ہے ، مسلۂ بتانا ہے ، سمجھانا ہے ، تاکہ اگر آئندہ ایسا مسلۂ پیش آئے تو رہنمائی موجود ہو، لہذا یہاں رسول اللہ ﷺ کو لازما نماز لوٹانے کا حکم دینا تھا لیکن آپ نے نہیں دیا ، یہ ثابت ہوا کہ رکوع میں ملنے والے کی رکعت مکمل ہوجاتی ہے ، لوٹانے کی قطعا ضرورت نہیں،
اگر آپ کے موقف کو تسلیم کیا جائے تو میرے چند سوالات ہیں جس کا جواب چاہئے، قرآن و سنت سے،
سوال نمبر ۱۔ آپ کا موقف ہے کہ رکعت نہیں ہوئی اور رسول اللہ ﷺ نے تنبیہہ فرمائی کہ آئندہ ایسا نہ کرنا ، رسول اللہ ﷺ کو نماز معاف کرنے کا یہ اختیار کب ملا ، اور کس نے دیا،
سوال نمبر۲: رسول اللہ ﷺ کی حدیث کے مفہوم کو الٹ دینا ، کیا یہ حدیث کے انکار کے زمرے میں نہیں آئے گا؟
سوال نمبر ۳: رسول اللہ ﷺ اپنی امت کی تعلیم کے لئے کوئی بات فرماتے ہیں لیکن کوئی شخص اپنی بات یا موقف منوانے کے لئے رسول اللہ ﷺ کی بات کو غلط انداز میں پہنچاتا ہے تو اس شخص کے متعلق کیا حکم ہوگا؟
سوال نمبر۴: آپ کے موقف کی بنیاد پر رکعت نہیں ہوئی اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آئندہ ایسا نہ کرنا، کیا یہ نماز کی اہمیت کو کمزور کرنے والی بات نہیں؟
غلطی نمبر ۲:
سیویو ناصر بھائی نے قرات خلف امام پر ایک ٹھریڈ بنایا ہے اس پوسٹ کے آغاز میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت نقل کی ہے۔
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری امت جنت میں داخل ہوگی سوائے اس کے جس نے انکار کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا جس نے میرا حکم مانا وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے انکار کردیا،
اس کے بعد مصنف نے قارئین کو سورۃ الفاتحہ کے مسئلہ پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی تاکید فرمائی۔
گویا کہ مسئلہ بیان کرنے سے پہلے ہی مصنف نے قارئین کے ذہن میں یہ بات بٹھا کر انتشار پیدا کردیا کہ جو مخالف فریق امام کے پیچھے مقتدی کے لئے قرات ضروری نہیں سمجھتا وہ ان احادیث مبارکہ کا انکار کرتا ہے اور جو انکار کرے وہ جنت میں نہیں جائے گا بلکہ اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ اس مسلۂ میں یہ حدیث پیش کرکے نہ صرف قارئین کو دین اسلام کے نام پر دھوکہ ، اور فریب دیا ہے بلکہ نظریاتی اختلاف کا انتشار پیدا کرکے صحابہ کرام سے لے کر آج تک کی امت مسلمہ کی شدید توہین کی ہے، اور مصنف نے خود اپنے خلاف اپنی جہالت کا فتوی دے دیا ۔ اس پر میرے سوالات آرہے ہیں۔
میں حنفیہ کا موقف بیان کرچکا ہوں کہ اس مسئلہ میں اختلاف تحقیق پر ہوا ہے قرآن و سنت پر نہیں۔ کیونکہ دونوں فریقین اپنے دلائل میں احادیث مبارکہ پیش کرتے ہیں، کس کا موقف مضبوط ہے اور کس کا موقف کمزور یہ الگ قرات خلف امام کی بحث میں واضح ہوگا لیکن یہاں دونوں فریق احادیث کا دعوی کرتے ہیں لہذا یہاں رسول اللہ ﷺ کی بات ماننے یا نہ ماننے یا انکار کی کوئی بحث ہی نہیں اور نہ اس سے پہلے کسی نے فتوی دیا کہ فلاں جہنمی ہے یا کافر ہے یا رسول اللہ ﷺ کی احادیث کا منکر ہے ، جب سرے سے یہ بات یہاں موجود ہی نہیں اور بحث بھی نہیں تو مصنف نے جنت اور جہنم والی حدیث بیان کرکے کیا بتانے کی کوشش کی ہے۔
سوال نمبر۱: کیا اس مسلہ میں فریقین کے درمیان بحث رسول اللہ ﷺ کی بات ماننے ، نہ ماننے پر ہے یا تحقیق پر؟
سوال نمبر ۲: اگر آپ کا نظریہ ہے کہ یہاں بحث رسول اللہ ﷺ کی حدیث ماننے یا نہ ماننے پر اختلاف ہوا ہے تو آپ کا مخالف فریق قرآن کی آیت اور احادیث اپنے موقف میں پیش کرتا ہے،ذرا بتائے کہ اس کا انکار کون کرتا ہے، ذرا اپنے متعلق فتوی دیں کہ آپ اپنے بنائے اصول کے مطابق کہاں جائیں گے جنت میں یا جہنم میں؟
سوال نمبر ۳: اگر آپ کا موقف ہے کہ اس مسئلہ میں اختلاف اجتہاد اور تحقیق پر ہوا ہے تو آپ نے جو پوسٹ بنائی ہے اس کے آغاز میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث قرات خلف امام کے مسئلہ سے کیا تعلق ہے؟
ہمارا موقف بڑا صاف اور واضح ہے کہ دونوں فریق اپنی اپنی تحقیق میں درست ہے لہذا کسی فریق کے متعلق لب کشائی نہیں کرنی ہے اور نہ ہم نے کی ہے، ہم نے اپنے مخالف فریق کی نمازکو باطل ، فاسد نہیں کہا لہذا ہم دونوں فریقین کے اجتہاد کا احترام کرتے ہیں،
لیکن آپ حضرات صرف اپنے کو حق پر سمجھتے ہیں اور فریق مخالف کی نماز کو باطل اور فاسد کہتے ہیں کہ ان کی نماز ہوتی ہی نہیں، میرا سوال ہے
سوال نمبر ۴: اس مسئلہ میں اختلاف فروعی تھا لیکن اس میں نظریاتی اختلاف کس نے پیدا کیا ،
سوال نمبر ۵: کیا آپ لوگوں نے اپنے مخالف فریق کی نماز کو باطل اور فاسد کہہ کر ان کے موقف پر قرآن و احادیث مبارکہ کے جو دلائل ہیں اس کا انکار نہیں کیا؟
فی لوقت اتنا کافی ہے ، بات اگر آگے بڑھی تو مزید سوالات کروں گا۔
(نوٹ: قارئین کرام نوٹ فرمالیں میں سیویو بھائی کا بڑا احترام کرتا ہوں ، ان کی قدر کرتا ہوں، پہلی غلطی میں جو مفہوم بیان ہوا تھا وہ ناصر بھائی کا اپنا نہیں تھا، انہوں نے ایک کتاب سے شاید اٹھایا تھا،
اور دوسری جو پوسٹ جاری ہوئی ہے وہ بھی ناصر بھائی نے کسی کتاب یا مضمون سے اٹھایا ہے، لہذا میں انہیں قصور وار نہیں ٹھہراتا بلکہ میرے سوالات ان مصنفین حضرات سے ہیں جو لوگوں کو دھوکہ دینے اور اپنی بات منوانے کے لئے اس قسم کے مفہوم تراشتے ہیں۔ ) لیکن ہمیں احتیاط کرنی چاہئے کہ ایسے اختلافی مسائل میں بغیر پڑھے اور سمجھے کوئی بات شئیر نہیں کرنی چاہئے پھر بھی ہم انسان ہیں اور غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے اگر ایسا معاملہ ہوجائے اور بات سمجھ آجائے تو ہمیں اس بات سے رجوع کرلینا چاہئے یہی اسلام کی بنیادی تعلیم ہے اور اسی میں اللہ تعالی اور رسول اللہ ﷺ کی رضا ہے،
اللہ تعالی ہمیں علم نافع عطا فرمائے اور اکابرین امت کا احترام اور قدر نصیب فرمائے ۔ آمین
انشاء اللہ بہت جلد ایک الگ ٹھریڈ میں مسلۂ قرات خلف امام پر تحقیقی بحث کا آغاز ہوگا ،
فی الوقت اس ٹھریڈ میں ہمارے محترم موڈریٹر ناصر بھائی کی دو فاش غلطیوں کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں، جو انہوں نے دو الگ الگ پوسٹ میں کی ہیں۔
ان غلطیوں کی نشاندہی کا بنیادی مقصد اس بات پر متوجہ کرنا ہے کہ جب بھی ہم کوئی بات کریں یا کوئی مضمون اٹھا کر کاپی پیسٹ کریں تو اسے اپنے علم کی حد تک تحقیق کرلیا کریں ، باقی اللہ تعالی معاف کرنے والا ہے ،
دوسرا بنیادی مقصد قارئین کو یہ سمجھانا ہے کہ یہی وہ غلطیاں ہیں جو مثال ہے ایسے مسائل میں نظریاتی اختلاف کی،
اور نظریاتی اختلاف یقیناًایک شر اور فساد ہے جو امت مسلمہ میں انتشار وافتراق اور بے چینی کو پیدا کرتی ہے بلکہ ایسا اختلاف مسلمانوں کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچاتا ہے، لہذا یہ اختلاف کسی صورت جائز نہیں،
اللہ تعالی ہمیں سمجھ اور علم نافع عطا فرمائے۔
غلطی نمبر ایک:
طارق سعید بھائی کے ایک سوالیہ پوسٹ پر سیویو ناصر بھائی نے ایک پوسٹ جاری کی تھی جس میں انہوں ایک فریق کا موقف یوں بیان کیا۔ ( وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ جس نے رکوع پا لیا اس نے رکعت پالی اس کو پھر سے لوٹانے کی ضرورت نہیں اس پر وہ یہ حدیث پیش کرتے ہیں جس میں ابو بکر رضی اللہ عنہ دوڑتے ہوئے آتے ہیں اور رکوع میں مل جاتے ہیں جب نماز ختم ہوتی ہے تو اللہ کے رسول ﷺ کہتے ہیں اللہ تیرے شوق کو اور بڑھائے لیکن آئندہ ایسا نہ کرنا۔
ناصر بھائی اس حدیث کو بیان کرنے کے بعددوسرے فریق یعنی اپنے موقف کو بیان کرتے ہیں اور سورۃ الفاتحہ والی حدیث بخاری و مسلم کا ذکر کرکے اسے پڑھنا لازمی بتاتے ہیں ۔
لہذا اس طرح دو طرفہ دو احادیث بیان کرتے ہیں اور پھر اپنے موقف کو حق ثابت کرنے کے لئے ابو بکرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث پر ایک غلط اور باطل مفہوم تراشتے ہیں، ملاحظہ فرمائیں۔
اور ابو بکر والی حدیث میں وہ کہتے ہیں کے اللہ کے رسول ﷺ نے کہا کہ اللہ تیرے شوق کو بڑھائے لیکن آئندہ ایسا نہ کرنا یعنی ابھی ہوگیا لیکن آئندہ کرو گے تو پھرسے لوٹانی پڑے گی اس کا یہی معنی ہوا اس لئے جب ابو بکر کو تنبیہہ ملی کے آئندہ ایسا نہ کرنا تو ہم کیا ہیں،
میرے بھائی ناصر: اس حدیث رسول ﷺ میں کتنا صاف اور واضح مفہوم موجود ہے کہ ایک عام بندہ بھی بڑی آسانی سے سمجھ جاتا ہے۔
آپ اﷺ نے دو باتیں فرمائیں اور حدیث میں بھی دو باتیں ہیں، یہ بات ہر مسلمان جانتا ہے کہ صحابہ کرام عبادات اور نیکی کرنے مین کتنے حریص تھے اور ان کا کیا جذبہ تھا قرآن اور احدیث میں ان کی صفات موجود ہیں لہذا ایک فرض نماز ہورہی ہو جماعت کی اور امامت سید الانبیاے ﷺ جیسی ہستی فرمارہے ہو تو کیا کوئی صحابی رسول یہ پسند کرے گا کہ ایک رکعت نماز کی چھوٹ جائے اور جو اجر و ثواب اس پر ہو وہ اس سے محروم ہوجائے ، صاف ظاہر ہے کہ ابو بکرہ رضی اللہ عنہ اسی جذبہ اور حرص کی وجہ سے جلدی جلدی آتے ہیں اور رکوع میں شامل ہوجاتے ہیں اور بعض روایات میں آتا ہے کہ وہ پیچھلی صف میں رکعت باندھ لیتے ہیں تاکہ جماعت کے ساتھ رکعت ضائع نہ ہو۔ اور پھر نماز میں آہستہ چل کر صف میں آجاتے ہیں،
اب نبی رحمت ﷺ نے ان کے جذبہ اور حرص کو دیکھ کر تعریف فرمائی اور داد تحسین پیش کیا ۔
اور جلدی جلدی آنا یہ مسجد کے آداب کے خلاف عمل ہوا اس پر آپ ﷺ نے تنبیہہ فرمائی کہ آئندہ ایسا نہ کرنا۔
اب میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ اس میں ایسی کونسی بات ہے جو سمجھ میں نہ آنے والی ہے جس پر آپ نے اس کا مفہوم ہی بدل دیا، کیوں؟ یہ آپ نے کیوں کیا؟ اس لئے کہ یہ حدیث آپ کے موقف کے واضح خلاف تھی اور آپ نے اپنے موقف کو کسی صورت ثابت کرنا تھا لہذا آپ نے اس کا مفہوم ہی بدل دیا، آپ کو ذرا اس کا احساس ہوا کہ یہ برتاؤ آپ نے حدیث رسول ﷺ کے ساتھ کیا کسی مولوی یا مفتی کے قول کے ساتھ نہیں۔
اس پر آپ سے میرے چند سوالات ہیں۔
حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ نے جب رکوع پالیا تو آپ کے موقف کی بنیاد پر وہ رکعت مکمل نہیں ہوئی لہذا حضور نبی کریم ﷺ کو نماز لوٹانے کا حکم دینا تھا کیونکہ آپ ایک نبی اور رسول ہیں اور آپ کا ہر عمل گویا امت کو تعلیم دینا ہے ، مسلۂ بتانا ہے ، سمجھانا ہے ، تاکہ اگر آئندہ ایسا مسلۂ پیش آئے تو رہنمائی موجود ہو، لہذا یہاں رسول اللہ ﷺ کو لازما نماز لوٹانے کا حکم دینا تھا لیکن آپ نے نہیں دیا ، یہ ثابت ہوا کہ رکوع میں ملنے والے کی رکعت مکمل ہوجاتی ہے ، لوٹانے کی قطعا ضرورت نہیں،
اگر آپ کے موقف کو تسلیم کیا جائے تو میرے چند سوالات ہیں جس کا جواب چاہئے، قرآن و سنت سے،
سوال نمبر ۱۔ آپ کا موقف ہے کہ رکعت نہیں ہوئی اور رسول اللہ ﷺ نے تنبیہہ فرمائی کہ آئندہ ایسا نہ کرنا ، رسول اللہ ﷺ کو نماز معاف کرنے کا یہ اختیار کب ملا ، اور کس نے دیا،
سوال نمبر۲: رسول اللہ ﷺ کی حدیث کے مفہوم کو الٹ دینا ، کیا یہ حدیث کے انکار کے زمرے میں نہیں آئے گا؟
سوال نمبر ۳: رسول اللہ ﷺ اپنی امت کی تعلیم کے لئے کوئی بات فرماتے ہیں لیکن کوئی شخص اپنی بات یا موقف منوانے کے لئے رسول اللہ ﷺ کی بات کو غلط انداز میں پہنچاتا ہے تو اس شخص کے متعلق کیا حکم ہوگا؟
سوال نمبر۴: آپ کے موقف کی بنیاد پر رکعت نہیں ہوئی اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آئندہ ایسا نہ کرنا، کیا یہ نماز کی اہمیت کو کمزور کرنے والی بات نہیں؟
غلطی نمبر ۲:
سیویو ناصر بھائی نے قرات خلف امام پر ایک ٹھریڈ بنایا ہے اس پوسٹ کے آغاز میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت نقل کی ہے۔
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری امت جنت میں داخل ہوگی سوائے اس کے جس نے انکار کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا جس نے میرا حکم مانا وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے انکار کردیا،
اس کے بعد مصنف نے قارئین کو سورۃ الفاتحہ کے مسئلہ پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی تاکید فرمائی۔
گویا کہ مسئلہ بیان کرنے سے پہلے ہی مصنف نے قارئین کے ذہن میں یہ بات بٹھا کر انتشار پیدا کردیا کہ جو مخالف فریق امام کے پیچھے مقتدی کے لئے قرات ضروری نہیں سمجھتا وہ ان احادیث مبارکہ کا انکار کرتا ہے اور جو انکار کرے وہ جنت میں نہیں جائے گا بلکہ اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ اس مسلۂ میں یہ حدیث پیش کرکے نہ صرف قارئین کو دین اسلام کے نام پر دھوکہ ، اور فریب دیا ہے بلکہ نظریاتی اختلاف کا انتشار پیدا کرکے صحابہ کرام سے لے کر آج تک کی امت مسلمہ کی شدید توہین کی ہے، اور مصنف نے خود اپنے خلاف اپنی جہالت کا فتوی دے دیا ۔ اس پر میرے سوالات آرہے ہیں۔
میں حنفیہ کا موقف بیان کرچکا ہوں کہ اس مسئلہ میں اختلاف تحقیق پر ہوا ہے قرآن و سنت پر نہیں۔ کیونکہ دونوں فریقین اپنے دلائل میں احادیث مبارکہ پیش کرتے ہیں، کس کا موقف مضبوط ہے اور کس کا موقف کمزور یہ الگ قرات خلف امام کی بحث میں واضح ہوگا لیکن یہاں دونوں فریق احادیث کا دعوی کرتے ہیں لہذا یہاں رسول اللہ ﷺ کی بات ماننے یا نہ ماننے یا انکار کی کوئی بحث ہی نہیں اور نہ اس سے پہلے کسی نے فتوی دیا کہ فلاں جہنمی ہے یا کافر ہے یا رسول اللہ ﷺ کی احادیث کا منکر ہے ، جب سرے سے یہ بات یہاں موجود ہی نہیں اور بحث بھی نہیں تو مصنف نے جنت اور جہنم والی حدیث بیان کرکے کیا بتانے کی کوشش کی ہے۔
سوال نمبر۱: کیا اس مسلہ میں فریقین کے درمیان بحث رسول اللہ ﷺ کی بات ماننے ، نہ ماننے پر ہے یا تحقیق پر؟
سوال نمبر ۲: اگر آپ کا نظریہ ہے کہ یہاں بحث رسول اللہ ﷺ کی حدیث ماننے یا نہ ماننے پر اختلاف ہوا ہے تو آپ کا مخالف فریق قرآن کی آیت اور احادیث اپنے موقف میں پیش کرتا ہے،ذرا بتائے کہ اس کا انکار کون کرتا ہے، ذرا اپنے متعلق فتوی دیں کہ آپ اپنے بنائے اصول کے مطابق کہاں جائیں گے جنت میں یا جہنم میں؟
سوال نمبر ۳: اگر آپ کا موقف ہے کہ اس مسئلہ میں اختلاف اجتہاد اور تحقیق پر ہوا ہے تو آپ نے جو پوسٹ بنائی ہے اس کے آغاز میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث قرات خلف امام کے مسئلہ سے کیا تعلق ہے؟
ہمارا موقف بڑا صاف اور واضح ہے کہ دونوں فریق اپنی اپنی تحقیق میں درست ہے لہذا کسی فریق کے متعلق لب کشائی نہیں کرنی ہے اور نہ ہم نے کی ہے، ہم نے اپنے مخالف فریق کی نمازکو باطل ، فاسد نہیں کہا لہذا ہم دونوں فریقین کے اجتہاد کا احترام کرتے ہیں،
لیکن آپ حضرات صرف اپنے کو حق پر سمجھتے ہیں اور فریق مخالف کی نماز کو باطل اور فاسد کہتے ہیں کہ ان کی نماز ہوتی ہی نہیں، میرا سوال ہے
سوال نمبر ۴: اس مسئلہ میں اختلاف فروعی تھا لیکن اس میں نظریاتی اختلاف کس نے پیدا کیا ،
سوال نمبر ۵: کیا آپ لوگوں نے اپنے مخالف فریق کی نماز کو باطل اور فاسد کہہ کر ان کے موقف پر قرآن و احادیث مبارکہ کے جو دلائل ہیں اس کا انکار نہیں کیا؟
فی لوقت اتنا کافی ہے ، بات اگر آگے بڑھی تو مزید سوالات کروں گا۔
(نوٹ: قارئین کرام نوٹ فرمالیں میں سیویو بھائی کا بڑا احترام کرتا ہوں ، ان کی قدر کرتا ہوں، پہلی غلطی میں جو مفہوم بیان ہوا تھا وہ ناصر بھائی کا اپنا نہیں تھا، انہوں نے ایک کتاب سے شاید اٹھایا تھا،
اور دوسری جو پوسٹ جاری ہوئی ہے وہ بھی ناصر بھائی نے کسی کتاب یا مضمون سے اٹھایا ہے، لہذا میں انہیں قصور وار نہیں ٹھہراتا بلکہ میرے سوالات ان مصنفین حضرات سے ہیں جو لوگوں کو دھوکہ دینے اور اپنی بات منوانے کے لئے اس قسم کے مفہوم تراشتے ہیں۔ ) لیکن ہمیں احتیاط کرنی چاہئے کہ ایسے اختلافی مسائل میں بغیر پڑھے اور سمجھے کوئی بات شئیر نہیں کرنی چاہئے پھر بھی ہم انسان ہیں اور غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے اگر ایسا معاملہ ہوجائے اور بات سمجھ آجائے تو ہمیں اس بات سے رجوع کرلینا چاہئے یہی اسلام کی بنیادی تعلیم ہے اور اسی میں اللہ تعالی اور رسول اللہ ﷺ کی رضا ہے،
اللہ تعالی ہمیں علم نافع عطا فرمائے اور اکابرین امت کا احترام اور قدر نصیب فرمائے ۔ آمین
دعاگو آپ کا بھائی ریحان تقدیس