قرضِ نگاہِ یار ادا کر چکے ہیں ہم

  • Work-from-home

Dark

Darknes will Fall
VIP
Jun 21, 2007
28,885
12,579
1,313
قرضِ نگاہِ یار ادا کر چکے ہیں ہم



قرضِ نگاہِ یار ادا کر چکے ہیں ہم
سب کچھ نثار راہِ وفا کر چکے ہیں ہم

کچھ امتحانِ دستِ جفا کر چکے ہیں ہم
کچھ ان کی دسترس کا پتا کر چکے ہیں ہم

اب احتیاط کی کوئی صورت نہیں رہی
قاتل سے رسم و راہ سوا کر چکے ہیں ہم

دیکھیں ہیں کون کون ضرورت نہیں رہی
کوئے ستم میں سب کو خفا کر چکے ہیں ہم

آپ اپنا اختیار ہیں چاہیں جہاں چلیں
رہبر سے اپنی راہ جُدا کر چکے ہیں ہم

ان کی نظر میں، کیا کریں، پھیکا ہے اب بھی رنگ
جتنا لہو ہے صرفِ قبا کر چکے ہیں ہم

کچھ اپنے دل کی خُو کا بھی شکرانہ چاہئے
سو بار ان کی خُو کا گلا کر چکے ہیں ہم

فیض احمد فیض
 
Top