نماز کے مسائل
مسائل نماز شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کی زبانی
وضو میں سر کا مسح
سوال: قرآن کریم نے نماز کے لیے وضو کا حکم دیا ہے اور وضو کے ارکان کا ذکر فرماتے ہوئے سر کا مسح کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔ یہ مسح کیا ہے اور کیونکر کیا جاتا ہے؟
جواب: مسح چھونے یا ہاتھ پھیرنے کو کہتے ہیں اور اس کا طریقہ یہ ہے: (( ان یغمس یدیہ فی الماءثم یرفعھما فارغتین فیضعھما علی مقدم راسہ .... الی قفاہ ویعیدھا الی الموضع الذی بدءمنہ )) ( غنیة الطالبین باب اول فصل ارکان و واجبات نماز صفحہ 7 ) کہ وضو کرنے والا اپنے دونوں ہاتھ پانی میں ڈبو کر خالی باہر نکالے ( یا ویسے ہاتھوں میں پانی لے کر پانی کو گرا دے ) پھر اپنے سر پر سامنی جانب ( ماتھے کے اوپر بالائی کنارے ) سے ہاتھوں کو پھیرتا ہوا پچھلی طرف گدی تک لے جائے پھر وہاں سے اسی طرح واپس لوٹاتا ہوا وہیں آ کر چھوڑ دے جہاں سے اس نے مسح شروع کیا تھا۔
سوال: آپ نے ذرا آگے چل کر وضو کے مسنونات کے ذکر میں گردن کا مسح بھی شمار کیا ہے۔ مگر یہاں جب آپ نے مسح کا طریقہ بتایا ہے تو گردن کے مسح کا ذکر نہیں کیا۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب: ( بات دراصل یہ ہے کہ ) مسح کے لیے قرآن پاک میں صرف یہی وارد ہوا ہے کہ وامسحوا برو¿سکم اپنے سروں پر مسح کرو۔ پس فرض امر صرف سر کا مسح ہی ہے۔ گردن کا مسح وضو کے فرائض میں داخل نہیں ہے۔
اذان
سوال: ہماری بعض مساجد میں تو اذان سے پہلے اور بعد درود شریف اور سلام کے نام سے یہ کلمات گا کر پڑھے جاتے ہیں: (( صل علی نبینا صل علی محمد اور الصلٰوة والسلام علیک یا رسول اللہ، الصلٰوة والسلام علیک یا حبیب اللہ )) اور بعض مساجد میں اذان اپنی اصلی شکل میں اللہ اکبر اللہ اکبر سے شروع ہو کر لا الہ الا اللہ پر ختم کر دی جاتی ہے۔ مسئلہ کی صحیح صورت کیا ہے؟
جواب: حدیث پاک میں ہے:
(( اما دخول الوقت فبعلمہ یقینا.... ثم یوذن فیقول اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر )) کہ جب اذان کا صحیح وقت دریافت ہو جائے تو موذن یوں اذان شروع کرے۔ اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر ( آخر تک ) اور آخری کلمہ اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ کہہ کر اذان ختم کر دے۔ ( غنیة الطالبین صفحہ 9 )
( یعنی حدیث پاک کے مطابق اذان کے ان مقررہ کلمات کے سوا اور کوئی زائد کلمہ اذان کے ساتھ پہلے یا بعد شامل نہیں ہے۔ یہ سب کچھ بعد کی پیداوار ہے )
صف بندی
سوال: نماز کی جماعت کھڑی ہو تو صف میں کس طرح کھڑا ہونا چاہیے۔ آیا الگ الگ ایک دوسرے سے فاصلے پر یا خوب مل، کر اور کندھے سے کندھا ملا کر؟
جواب: (( ینبغی للامام.... یلتفت یمینا وشمالا فیسوی الصفوف فیقول استووا.... ویامرھم بسد الفرج وتسویة المناکب ودنو بعضھم من بعض حتی یتماس مناکبھم لان اختلاف المناکب واعوجاج الصفوف نقص فی الصلٰوة وحضور الشیاطین وقیامھم مع الناس فی الصفوف )) ( غنیة الطالبین صفحہ764 ) یعنی امام کے لیے لازم ہے کہ ( نماز کی نیت باندھنے سے پہلے ) اپنے دائیں بائیں دیکھ کر صفوں کا جائزہ لے، صفوں کو سیدھا کرے اور نمازیوں کو ہدایت کرے کہ اپنے درمیانی فاصلے دور کر کے ایک دوسرے سے اتنے زیادہ قریب ہو جائیں کہ آپس میں کندھے سے کندھا خوب مل جائے۔ کیونکہ یہ درمیانی فاصلے اور صفوں کا ٹیڑھا ہونا نماز کا نقص ہے اور ان فاصلوں میں شیاطین گھس جاتے ہیں اور لوگوں کے ساتھ صفوں میں کھڑے ہو جاتے ( تا کہ قریب ہو کر وسوسے ڈالیں اور دل کو نماز سے اچاٹ کر دیں )
نماز کی نیت
سوال: نماز کی نیت باندھتے وقت بہت سے لوگ نیت الفاظ پکارتے ہیں۔ مثلا فجر کی نماز ہے تو یوں کہیں گے: دو رکعت نماز فرض، فرض اللہ تعالیٰ کے، پیچھے اس امام کے، منہ طرف کعبہ شریف، اللہ اکبر۔ نیت کے لیے ایسے الفاظ کہنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب: دخل فی الصلوٰة بقول اللہ اکبر لا یجزئہ غیرہ من الفاظ التعظیم ( غنیة الطالبین صفحہ 10 ) یعنی نماز میں داخل ہونے کے لیے صرف اللہ اکبر ہی کہنا چاہیے۔ اس کلمہ کے سوا نیت کے لیے کوئی بھی دوسرا کلمہ زبان سے کہنا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ النیة فمحلھا القلب ( ص 9 ) یعنی نیت دل کا فعل ہے، زبان کا فعل نہیں ہے ( اس لیے دل کا ارادہ ہی نیت ہے زبان سے کچھ کہنا درست نہیں ہے )
اقامت
سوال: بعض لوگ اقامت بھی اذان کی طرح دوہرے کلموں کے ساتھ ہی پکارتے ہیں اور بعض اکہری کہتے ہیں۔ صحیح مسئلہ کیا ہے؟
جواب: جب اذان کے بعد جماعت کھڑی ہو تو موذن اس طرح اقامت پکارے۔ اللہ اکبر اللہ اکبر اشھد ان لا الہ الا اللہ اشھد ان محمد الرسول اللہ حی علی الصلوٰة حی علی الفلاح قدقامت الصلوة قد قامت الصلوة اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ۔ ( غنیة الطالبین صفحہ 9 )
( یعنی اذان کے دو دو کلمے اور اقامت کا ایک ایک کلمہ ہی سنت ہے۔ حدیث پاک میں ایسا ہی وارد ہوا ہے )
ہاتھ کہاں باندھے جائیں
سوال: نماز کی نیت کرتا ہوا نمازی اپنے ہاتھ کہاں باندھے۔ ناف پر یا زیر ناف یا کہیں اور؟
جواب: وضع الیمین علی الشمال فوق السرة ( غنیة الطالبین، صفحہ 11 ) کہ نماز میں ہاتھ نہ ناف پر باندھے جائیں نہ زیر ناف بلکہ ناف سے اوپر لے جا کر اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر باندھا جائے۔
فاتحہ خلف الامام
سوال: نماز باجماعت میں امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھی جائے گی یا نہیں؟
جواب: سورہ فاتحہ امام کے پیچھے بھی پڑھی جائے گی۔ کیونکہ فان قرائتھا فریضة وھی رکن تبطل الصلوة بترکھا۔ ( غنیة الطالبین ص853 ) یعنی نماز میں سورہ فاتحہ کا پڑھنا فرض ہے۔ کیونکہ یہ نماز کا رکن ہے اور اس کو ترک کرنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے۔
سوال: ایک جگہ آپ نے فرمایا ہے کہ واذ قرءفانصتوا۔ ( غنیة الطالبین ص871 ) کہ جب امام قراة کرے تم خاموش رہو۔ ایسی صورت میں تو نماز کا یہ رکن مقتدی سے رہ جائے گا اور اس کی نماز باطل ہو گی، اس مشکل کا کیا حل ہے؟
جواب: واضح رہے کہ نماز کے پندرہ ارکان ہیں۔
( 1 ) قیام ( 2 ) تکبیر تحریمہ ( 3 ) سورہ فاتحہ ( 4 ) رکوع ( 5 ) رکوع میں اطمینان ( 6 ) قومہ ( 7 ) قومہ میں اطمینان سے کھڑا ہونا ( 8, 9 ) دو سجدے (10 ) سجدوں میں اطمینان ( 11 ) جلسہ ( دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنا ) ( 12 ) جلسہ میں اطمینان ( 13 ) آخری تشہد ( 14 ) درود اور (15 ) آخر میں سلام۔ ( غنیة الطالبین صفحہ 10 )
رکن کے بارے میں یہ بات یاد رہے کہ ان ترک عامدا او ساھیا بطلت ( غنیة الطالبین صفحہ 12 ) کہ کوئی رکن خواہ دانستہ ترک کر دیا جائے یا وہ بھول کر چھوٹ جائے۔ دونوں صورتوں میں نماز باطل ہو جاتی ہے۔
حضرت کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح رکوع اور سجدہ وغیرہ نماز کے رکن ہونے کی وجہ سے ہر شخص کے لیے خواہ وہ امام ہو یا مقتدی اپنے اپنے الگ ہی درکار ہیں اور اگر کوئی شخص رکوع یا سجدہ نہیں کرے گا تو اس کی نماز باطل ہو گی، ٹھیک ایسے ہی ایک رکن نماز کی حیثیت سے سورہ فاتحہ بھی ہر شخص کے لیے خواہ وہ امام ہو یا مقتدی اپنی اپنی الگ ہی درکار ہے اور اگر سورہ فاتحہ ترک ہو جائے گی تو نمازی خواہ امام ہو یا مقتدی، اس کی نماز ٹھیک ایسے ہی باطل ہو گی جس طرح سجدہ یا رکوع وغیرہ نہ کرنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے۔
ایک وضاحت
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ نے جو امام کے پیچھے خاموش رہنے کی بات کی ہے تو اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ اس سے مقصود مقتدی کو امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے سے روکنا ہے۔
ایسا نہیں ہے بلکہ شیخ کا مقصد وہی ہے جو حدیث پاک میں وارد ہو چکا ہے کہ خاموشی سے مطلوب بلند آواز سے نہ پڑھنا ہے جس سے امام کے لیے غلطی کا احتمال ہوتا ہے، ورنہ فاتحہ کا ترک مقصود نہیں ہے۔ چنانچہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ایک بار ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا رہے تھے کہ اٹکنے بھولنے لگے۔ نماز ختم ہوئی تو اصحاب سے مخاطب ہو کر فرمایا۔ کیا تم اپنے امام کے پیچھے پڑھتے ہو؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا، تو فرمایا میں بھی کہتا تھا کہ مجھ سے نماز چھینی کیوں جا رہی ہے۔ پھر ہدایت کی کہ آئندہ کے لیے یاد رکھو جب میں قراة کر رہا ہوں تو میرے پیچھے سوائے ( پست آواز میں ) سورہ فاتحہ کے کچھ نہ پڑھا کرو۔ کیونکہ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ ( ابوداود، ترمذی، نسائی )
حضرت ابوہریرہؓ نے ایک روز اپنی مجلس میں مسئلہ بیان کیا کہ نماز میں سورہ فاتحہ کی قراة سے کبھی کوتاہی نہ کرنا۔ کیونکہ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ حاضرین میں سے ایک بزرگ نے بات اٹھائی کہ ابوہریرہؓ! ہم کبھی امام کے پیچھے ہوتے ہیں، وہ قراة کر رہا ہوتا ہے تو ایسی صورت میں سورہ فاتحہ کا پڑھنا کیونکر ممکن ہے؟ اس پر حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا: اقرابھا فی نفسک کہ ( سورہ فاتحہ کا پڑھنا لازم امر ہے ) ایسی صورت میں تم اس کو اپنے جی میں پڑھ لیا کرو۔ ( ابن ماجہ )
حضرت عبادہؓ حضرت مکحولؓ سے نقل کرتے ہیں کہ وہ فرماتے تھے۔ امام کی اقتداءکی حالت میں سورہ فاتحہ کو امام کے سکتوں میں پڑھ لیا کرو یعنی امام جب ایک آیت ختم کر کے اگلی شروع کرنے لگے تو اس وقفہ میں تم وہ آیت پڑھ لو۔ ( ابوداود )
ایسے ہی ہمارے احناف اہل علم بزرگوں میں کچھ بزرگ اسی مسلک کو صحیح سمجھتے ہیں چنانچہ مولانا عبدالحئی لکھنوی تحریر فرماتے ہیں کہ امام کے سکتوں میں سورہ فاتحہ کا پڑھنا واذا قری القران فاستمعوا لہ وانصتوا کے خلاف نہیں پڑتا اور ہم میں سے جو لوگ اس کے خلاف رائے رکھتے ہیں، ان کے پاس کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ ( امام الکلام حضرت لکھنوی )
ٹھیک یہی مسلک حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کا بھی ہے اور وہ وقفوں اور سکتوں یا پست آواز میں امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے کے خلاف نہیں ہیں ورنہ وہ اس کو نماز کا رکن کیوں قرار دیتے۔ جو ہر حالت میں ہر شخص کے لیے ہی بلا امتیاز مقتدی اور منفرد لازم ہے۔
سوال: کہا گیا ہے کہ سورہ فاتحہ کے نہ پڑھنے سے نماز کا باطل ہونا منفرد یعنی اکیلے نمازی کے لیے ہے مقتدی کے لیے نہیں۔
جواب: یہ بات غلط ہے بلکہ لکل مصل ان یقدم النیة لصلاتہ ( غنیة الطالبین صفحہ 852 )
یعنی یہ حکم ہر اس شخص کے لیے ہے جو نماز کی نیت سے کھڑا ہو اور خوب یاد رکھو۔ ھذا الذی ذکرنا یشترک فیہ الامام والماموم والمنفرد۔ ( غنیة الطالبین صفحہ 858 )
کہ ہم نے یہ جو کچھ بیان کیا ہے اس میں امام مقتدی اور اکیلا نمازی سارے شامل ہیں۔
آمین پکارنا
سوال: نماز کے اندر سورہ فاتحہ کے خاتمہ پر آمین آہستہ کہنی چاہیے یا بلند آواز سے پکار کر؟
جواب: والجھر بالقراة وامین والا سراربھما۔ ( غنیة الطالبین ص11 )
یعنی جب امام سورہ فاتحہ بلند آواز سے پڑھ رہا ہو تو آمین بھی بلند آواز سے ہی پکاری جائے گی اور جب وہ آہستہ پڑھ رہا ہو ( جیسے ظہر اور عصر کی نمازوں میں ہوتا ہے ) تو آمین بھی ( ولا الضالین پر پہنچ کر ہر شخص اپنی اپنی جگہ ) آہستہ ہی کہے گا۔
رفع الیدین
سوال: رفع الیدین کیا ہے؟ کیونکر کی جاتی ہے اور کہاں کہاں کی جاتی ہے۔ اس کے کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب: رفع الیدین عند الافتتاح والرکوع والرفع منہ وھو ان یکون کفاہ مع منکبیہ ( غنیة الطالبین صفحہ11 )
رفع الیدین دونوں ہاتھوں کے بلند کرنے کو کہتے ہیں۔ نماز میں اس سے مراد دونوں ہاتھوں کا کندھوں کے برابر تک بلند کرنا ہے۔
پس اس غرض سے پہلی بات نماز کے لیے کھڑے ہو کر تکبیر تحریمہ کے ساتھ ہی کندھوں تک دونوں ہاتھ بلند کےے جائیں۔ پھر رکوع کے لیے جھکنے سے پہلے اور پھر رکوع سے اٹھتے ہوئے یہی عمل دہرایا جائے۔
جلسہ بین السجدتین
( دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنا )