پیار، انتظار، صبر اور جبر، پھر مجبوریاں اور معذوریاں بھی اِنسان کو کتنا بڑا پارکھ بنا دیتی ہیں۔اس کی نظر میں کتنی گہرائی اور تجربے میں کیسی گیرائی پیدا کر دیتی ہیں کہ اس میں اپنی ذات کے سمیٹنے، سُکڑنے، پھیلنے، بِکھرنے کے قرینے آ جاتے ہیں۔چَرکے لے کر اپنی چیخوں کو چُپ چاپ چبانے کا حوصلہ اور ولولہ پیدا ہو جاتا ہے۔اپنے اندر کے داغوں کو چراغوں کی مانند اُجالنے کے ڈھنگ آ جاتے ہیں۔دو دھاری کٹاری کی کاٹ کی طرح آتے جاتے سانسوں میں سرگم کی سی آروہی امروہی اَلاپنے کا گُن گنگنا اُٹھتا ہے۔