کبھی عشق ہو تو پتہ چلے
بساط جاں پہ عذاب اترتے ہیں کس طرح
شب و روز دل پہ عتاب گزرتے ہیں کس طرح
کبھی عشق ہو تو پتہ چلے
یہ جو لوگ سے ہیں چھپے ہوئے ، پس دوستاں
تو یہ کون ہیں ؟
یہ جو روگ سے ہیں چھپے ہوئے ،پس جسم و جاں
تو یہ کس لیے ...؟
یہ جو کان ہیں میرے آہٹوں پہ لگے ہوئے
تو یہ کیوں بھلا ...؟
یہ جو لوگ پیچھے پڑے ہوئے ہیں فضول میں
انہیں کیا پتہ،انہیں کیا خبر
کسی راہ کے کسی موڑ پر جو انہیں ذرا
کبھی عشق ہو تو پتہ چلے