لباس تن پہ سلامت ہیں ہاتھ خالی ہیں
ہم ایک ملکِ خداد کے سوالی ہیں
منافقت نے لہو تن میں اتنا گرمایا
کہ گفتگو میں ریاکاریاں سجا لی ہیں
ہمارے دل میں ہیں اب آماجگاہِ حرص و ہوس
کہ ہم نے سینوں میں تاریکیاں اگا لی ہیں
نشیمنوں کو اجاڑا کچھ اس طرح جیسے
کہ فاختائیں درختوں سے اڑنے والی ہیں
ہمارے اہلِ سیاست نے کرسیوں کے لئے
بنامِ خلقِ خدا پگڑیاں اچھالی ہیں
کسی اپاہج غریب کی محسن
کسی امیر نے بیساکھیاں چرالی ہیں
ہم ایک ملکِ خداد کے سوالی ہیں
منافقت نے لہو تن میں اتنا گرمایا
کہ گفتگو میں ریاکاریاں سجا لی ہیں
ہمارے دل میں ہیں اب آماجگاہِ حرص و ہوس
کہ ہم نے سینوں میں تاریکیاں اگا لی ہیں
نشیمنوں کو اجاڑا کچھ اس طرح جیسے
کہ فاختائیں درختوں سے اڑنے والی ہیں
ہمارے اہلِ سیاست نے کرسیوں کے لئے
بنامِ خلقِ خدا پگڑیاں اچھالی ہیں
کسی اپاہج غریب کی محسن
کسی امیر نے بیساکھیاں چرالی ہیں